کشور ناہید کی شاعری میں تانیثیت

ڈاکٹر گلشن طارق۔ ڈین آف لینگویجز، لاہور گیریژن یونیورسٹی لاہور

Feminism has evolved into a worldwide movement. Urdu literature has also been influenced by this movement. In Urdu literature Kishwar Naheed is the most prominent name among the female writers who are flagbearer of feminism. She has expressed her feminist views in her poetry.It is considered an important document on feminism.This treatise deals with Kishwar Naheed's feminist consciousness in her poetry .

اردولفظ تانیثیت دراصل لفظ(Feminism )فیمنزم کامتبادل ہے۔فیمنزم لاطینی لفظ(Femina ) "فیمینا" سے مستعار ہے۔یہ اصطلاح اب انگریزی میں ایک مخصوص معنی میں رائج ہے۔جس کے معنی لاطینی میں "عورت" ۔فرانسیسی میں "عورتوں کے حقوق "اور انگریزی میں "جنسی برابری "کی تحریک کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

   یورپ میں تانیثیت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھا۔ اس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی۔ یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی اس کی دوسری لہر 1960میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں دیکھے گئے۔ ان تمام حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑ گیا اس کا لب لباب یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تو یہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کو جس عزت،تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ کون تھی ؟اس میں اختلاف ہے۔بعض محققین کے نزدیک لطف النساءامتیاز کا مجموعہ  ۱۷۹۶ءمیں مرتب ہوچکا تھا اور مہ لقا چندا بائی کا دیوان۱۷۹۸ءمیں مرتب ہوا۔

اردو میں نسائی ادب کا باقاعدہ آغاز تذکرہ نگاری سے ہوا۔نسائی تذکروں میں فصیح الدین رنج کا تذکرہ "بہارستان ناز "۱۸۶۴ء۔عبدالحی صفا کا تذکرہ" شمیم سخن"۱۸۸۲ء اور درگا پرشاد نادرکا تذکرہ"چمن انداز"۱۸۷۸ء میں شائع ہوا۔ ان اولین تذکروں میں ہمیں شاعرات کا تذکرہ ملتا ہے۔ان شاعرات میں زیادہ تر شاہی خاندان یا معزز خاندانوں کی شاعرات تھیں یا طوائفیں ،عام عورت ان تذکروں میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔گویا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی شاعرات کے لیے شاعری کرنا اس دور میں باعث ننگ تھا۔

انگریزوں کی آمد کے بعد جہاں مردوں کے لیے رسائل جاری ہوئے وہاں خواتین کے رسائل بھی الگ سے شائع ہونے لگے۔سر سید کے "تہذیب الاخلاق " کے مقابلے میں امتیاز علی تاج کے والدین ممتاز علی اور ان کی بیگم محمدی بیگم نے "تہذیب نسواں " کی بنیادڈالی ،جس کے ایک ہزار کے قریب شمارے نکالے گئے اور تہذیبی بہنوں کی باقاعدہ ایک انجمن بنائی گئی۔راشد الخیری نے جہاں خود عورتوں کے لیے لکھا وہاں کئی رسائل بھی اپنی سرپرستی میں نکالے جن میں"عصمت"اور"بنات"قابل ذکر ہیں۔ان رسائل میں بھی عورتیں زیادہ تر فرضی ناموں یا اپنے ناموں کے مخفف ہجوں میں اپنا نام لکھتی تھیں ،جیسے ز۔خ۔ش (زاہدہ خاتون شروانیہ)۔اس دور میں کئی خواتین فرضی اور حقیقی ناموں سے سامنے آئیں اور یوں متوسط طبقے کی خواتین کی ادب میں شمولیت کا دور شروع ہوا۔ناول نگاروں میں الف۔ض حسین بیگم نے "روشنک بیگم"،عباسی بیگم نے "زبیدہ بیگم " ،طیبہ بیگم نے "انوری بیگم "اور ب سدید نے "بیاض سحر" کے نام سے ناول لکھے۔

اس دور میں جن رسائل و جرائد نے تعلیم نسواںکی تحریک کو فروغ دیا۔ان میں محب حسن نے دکن سے "معلم"(۱۸۸۴)۔شیخ عبداللہ نے علی گڑھ سے "خاتون"۔اسی طرح لاہور سے "شریف بی بی"(۱۹۰۹)۔بھوپال سے "الحجاب "۔صغراہمایوں مرزاحیا کا"زیب النسا"شامل ہیں۔

تعلیم نسواں کی تحریک کے سلسلے میں سید محموداورجسٹس امیر علی نے عملی کام کیے وہاں سرسید کے اپنے رفقا نے ادب کا سہارا لے کر عورتوں کے مسائل پر توجہ مبذول کروائی اور بیداری کا پیغام دیا۔نذیر احمد اور حالی اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔

نذیر احمد دہلوی اردو کے پہلے ناول نگار ہیں عورتوں کی تعلیم کے لیے کام کرنے والے پہلے ادیب بھی ہیں۔ان کے اولین ناول"مراة العروس "اور بنات النعش"عورتوں کی تعلیم کی غرض سے ہی لکھے گئے۔اسی عرصے میں سرشار اور شرر بھی ناول نگاری کے میدان میں آئے اور عورتوں کی تعلیم کو موضوع بنایا۔سرشارکے ناول "فسانہ آزاد"میں عورتوں کی تعلیم کے بارے میں مثبت خیال نظر آتے ہیں ۔شرر کے اگرچہ تاریخی ناول لکھے لیکن ان کا ناول"بدرالنسا کی مصیبت " عورتوں کی اصلاح اور پردے کی بے جا سختی پر لکھا گیا۔حالی نے تعلیم نسواں کے موضوع پر کتاب"مجالس النسا"تحریر کی ۔۱۸۷۰ءکی ایجوکیشنل کانفرنس میں حالی نے نظم "چپ کی داد"کے عنوان سے پڑھی اور اس میں عورتوں کی تعلیمی اور تہذیبی حالتِ زارکا نقشہ بڑی درد مندی سے کھینچا۔

سرسید احمدخان کے بعض دوسرے ساتھیوں ذکااللہ ،مولوی چراغ علی ،محسن لملک اور شبلی نے بھی تعلیم نسواں کی حمایت میں مضامین لکھے اور تقاریر کیں۔اسی دوارن علی گڑھ کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے تعلیم نسواں کے مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔شیخ عبداللہ اور سجاد حیدر یلدرم نے اس سلسلے میں عملی کوشش کی۔

مقتدر خواتین نے بھی ایسے میں خواتین کی تعلیم و ترقی کے لیے خاصہ کام کیا ،جن میں بھوپال کی سلطان جہاں بیگم کا نام اہم ہے۔سلطان جہاں بیگم نے تین مدرسے قائم کیے ۔(۱)مدرسہ وکٹوریہ(۲)مدرسہ بلقیسیہ(۳)مدرسہ سلطانیہ۔(۱)

تعلیم نسواں کی تحریک کے نتیجے میں عورتوں کا ایک ایسا گروہ سامنے آیا جو تعلیم یافتہ تھا۔ان تعلیم یافتہ خواتین نے معاشرے کی دیگر خواتین کی بیداری اور اصلاح کا بیڑا اٹھایااور عورتوں کے شعور کی آبیاری کی جوبعد میں بیداری کی صورت میں نظرآئی۔اس دور میں خواتین تخلیق کار شاید مروجہ اصطلاحی مفہوم (Feminist )نہ کہلائی جا سکیں کیونکہ نہ ہی ان کے خیالات کا انداز باغیانہ تھا اور نہ ہی یہ پدرسری معاشرے یا عورتوں کی محکومی کے خلاف آواز بلندکر رہی تھیں۔ان کامقصد تو صرف اس عہد میں اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہتے ہوئے نسوانی معاشرے کی اصلاح تھا۔یہ عورتیں ،معاشرے کی دوسری عورتوں کے ساتھ ایک نوعیت کا بہناپا رکھتی تھیں۔وہ چاہتی تھیں کہ جس طرح ان کی زندگی تعلیم کے ذریعے تبدیل ہوگئی اسی طرح دوسری عورتوں کی زندگی بھی تبدیل ہوجائے ۔یوں لاشعوری طور پر سہی ،وہ ایک بڑی تبدیلی کی خواہاں تھیں۔وہ جانے انجانے میں مستقبل کی فیمنسٹ آوازوں کے لیے راہ ہموار کر رہی تھیں۔اس دور میں شاعری سے زیادہ خواتین نے نثر کا میدان چنا ،کیونکہ شاعری کا تعلق عموماً عشقیہ جذبات سے رہاہے اس لیے خواتین کی شاعری ایک معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔یہ نظریہ متوسط درجے کی خواتین کے لیے تھا۔

نثر کے حوالے سے اس دور میں رشیدة النسا،محمدی بیگم،نذر سجاد،حمیدہ بانو، مسز عبداللہ سلطان بیگم،عطیہ فیضی ،صغریٰ ہمایوں ،کنیز فاطمہ ،خجستہ اختر، ا۔ض۔حسن بیگم،بیگم شاہنواز ،طیبہ بیگم، ضیا بیگم، صالحہ عابد حسین وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔ان میں سے اکثر خواتین کا تعلق افسانوی نثر سے ہے۔

اس دورمیں خواتین نے شاعری بھی کی۔جن میں ز۔خ۔ش(زاہدہ خاتون شروانی، مسز ڈی برکت رائے جو راجہ کشن پرشاد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔خدیجہ بیگم کا تعلق معزز سرحدی خاندان سے تھا۔منجھو بیگم،رابعہ پنہاں وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔اس وقت معاشرے میں دقیانوسیت رائج تھی ،شاعری کے میدان میں قدم رکھ کر گویا ان خواتین نے بغاوت کا پہلا قدم اٹھا دیاتھا۔یہ بغاوت بعد میں ترقی پسند تحریک کی شکل میں نمودار ہوئی۔اس رجعت پسندی کی مثال قمر زمانی بیگم کامشہور واقعہ ہے کہ نیاز فتح پوری اس فرضی نام سے لکھتے رہے۔(۲)

ترقی پسند تحریک میں سب سےاہم نام رشید ہ جہاں کا ہے ۔تخلیقی حوالے سے افسانہ نگاری ،ڈراما نویسی ،صحافت اور مضمون نویسی سے وابستہ رہیں لیکن ان کی شناخت عموماً افسانے اور ڈرامے خصوصاً "انگارے" میں شامل ان کی تخلیقات دلی کی سیر(افسانہ)اور پردے کے پیچھے(ڈراما)کے حوالے سے ہوتی ہے۔۱۹۳۷ءمیں ان کی پہلی کتاب "عورت اور دوسرے افسانے"شائع ہوئی۔ ان کا دوسرا مجموعہ "شعلہ جوالہ"نعیم خان نے مرتب کیا۔رشیدجہاں کے دستیاب ڈراموں کی کل تعداد نو ہے۔رشید جہاں کو فیمنسٹ کی پہلی چنگاری سمجھا جاسکتا ہے۔رشید جہاں کو گمنام اور دھمکی آمیز خطوط بھی ملتے تھے۔رشید جہاں گو اشتراکی اور باقاعدہ کیمونسٹ تحریک کے ساتھ وابستہ تھیں ،لیکن ان کی کہانیوں میں سماج میں عورتوں اور مردوں کے لیے مروجہ دوالگ الگ معیاروں اور اخلاقی اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔(۳)

خواتین اردو ادب میں تانیثیت کی سب سے پہلی واضح آواز عصمت چغتائی کی ہے ۔عصمت کا لب و لہجہ ،ان کا آہنگ ،ان کا انداز تحریر خالص تانیثی ہے ۔خواتین اردو ادب میں ان کی تحریریں تانیثی حسیت اور تانیثی شعور کے اظہارکا پہلا تجربہ ہیں۔یہ تانیثی تجربہ بعد میں ہمیں ذکیہ مشہدی ،خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور،ممتاز شیریں،جیلانی بانو،بانو قدسیہ ،فرخندہ لودھی ،رضیہ فصیح احمد، بشریٰ رحمن ،زاہدہ حنا اور صغرا مہدی میں بھی ملتاہے۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد خواتین اردو ادب میں تانیثی رجحان بالکل واضح طور پر ابھر کر سامنے آگئے ہیں ۔اس ادب میں نسائی شناخت کے نقوش دکھائی دیتے ہیں ۔ان ادیبوں کے تجربات ،ردعمل اور نفسیات ایک نئے لب و لہجے اور اسلوب میں ہمارے سامنے آرہے ہیں ۔اب کوئی موضوع شجر ممنوعہ نہیں رہا۔

اردو میں مختلف ادبی تحریکات ،رجحانات اور نظریات کی طرح تانیثیت نے بھی نظم و نثر میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کر لی ہے جسے اب نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔اپنے انداز فکر اور لب و لہجہ کی بدولت اردو ادب میں تانیثیت اب اس مرحلے میں داخل ہو چکی ہے کہ نسائی ادب کے بغیر کوئی بھی ادبی تاریخ قرار نہیں پا سکتی ہے۔روز افزوں یہ رجحان استحکام پا رہاہے ۔نظم و نثر دونوں ہی سطحوں پر خواتین قلم کاروں نے مختلف تخلیقات کے ذریعے اپنی شناخت قائم کرتے ہوئے معاشرے کو مزید بیدار کردیاہے۔

تانیثی زبان ،اسلوب اور جملوں کی شناخت کا آغاز تو رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے دور سے شروع ہوا تھا۔قرة العین حیدر نے سماجیاتی ،ثقافتی اور سیاسی و فلسفیانہ پس منظر میں اپنی تخلیقات رقم کیں۔ساجدہ زیدی اور زاہدہ زیدی اور شفیق فاطمہ شعریٰ نے فلسفیانہ موضوعات کو اپنایا ہے ۔خواتین کی تخلیقات سے اندازہ ہوتاہے کہ ان میں خودبینی اور جہاں بینی کا ایک نیا انداز موجود ہے ۔انھوں نے شجر ممنوعہ کو ہاتھ لگایا اور لکشمن ریکھائیں بھی پار کیں۔

پروفیسر صغریٰ مہدی اپنے مضمون "قرة العین حیدر کے افسانوں میں نسائی حسیت " مشمولہ "اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ " میں کہتی ہیں:

ہندوستان میں ۱۹۴۷ءکے بعد انقلاب اور کیمونزم کے زور و شور سے ہندوستان کے نچلے متوسط اور متوسط طبقے کی قدامت پرست خاندانوں کی لڑکیوں نے روایتی برقعہ اتار کر یمونزم کا برقعہ اوڑھ کر ہر قسم کی آزادی حاصل کر لی ۔معاشرے کے سب بندھنوں کو توڑ ڈالااور وہ کامریڈ بن کر مرد کے ساتھ بظاہر ان کے برابر شانہ سے شانہ ملا کر چلنے لگیں ،مگر اس میں بھی بالواسطہ مردوں نے عورتوں کو پیٹر نائز کیا ایسے کہ انھیں احساس بھی نہ ہوا۔(۴)

اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ "خالص نظم" کی ابتدا نظیر اکبرآبادی نے کی اور "جدید نظم" کاآغاز حالی اور آزاد نے کیا۔ساتویں دہائی کے بعد آٹھویں دہائی کی نظم میں مابعد جدیدیت کے آثار واضح طور پر نظرآتے ہیں۔اس دور کی نظم میں محض ہیئتی تجربوں کانام نہیں بلکہ ان احساسات سے عبارت ہے،جن میں آج کے دور کاانسان الجھا اور پھنسا ہواہے۔دنیا جہاں ترقی کے بامِ عروج پر ہے۔وہاں انسان کے مسائل اور زندگی کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہواہے۔ان حالات و مسائل نے شعراکے ان افکار کو جنم دیا جنھیں مابعدجدیدیت کانام دیاگیا۔اس دور کاشاعر فطری طورپر آزاد ہے اور کھلی آنکھوں سے باہر کی دنیاکانظارہ کررہاہے۔اپنی بات کو ہر انداز میں کہنے کاحوصلہ رکھتاہے،یہی وجہ ہے کہ آج کاشاعر اپنے تجربات واحساسات کا اظہار "پابند نظم،نظم معریٰ"اور "آزادنظم" کے ساتھ ساتھ "نثری نظم" میں کررہاہے۔

۱۹۸۰ءکے بعد شعرانے دنیا کو در پیش مسائل سے دوچار ہوکر نظمیں لکھیں،جن میں بے روزگاری،دنگے فسادات،انتہاپسندی،بے وطنی وہجرت کاکرب جیسے موضوع عام ہیں۔پچھلی تین چار دہائیوں سے اردوشاعری کے میدان میں خواتین شاعرات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، جنھوں نے تانیثی شاعری کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت بنائیاور اردو نظم کے باب میں موضوعات کے اعتبارسے کچھ اضافے کیے ہیں،جوہمیں عام طور پر مردشعرا کے یہاں کم نظر آتے ہیں۔ موضوعات کے ساتھ ساتھ لب ولہجے میں بھی ان خواتین شاعرات کے یہاں تبدیلی کا احساس پایا جاتا ہے

شاعری میں اداجعفری،پروین شاکر، فہمیدہ ریاض ،کشور ناہیدسارہ شگفتہ ،تنویر انجم ،عذرا عباس، ،گلنار آفریں ،رفعیہ شبنم عابدی ،فرخ زہرا گیلانی ،رضیہ کاظمی،فرزانہ اعجاز ،نوشی گیلانی ،زہرا نگاہ ، اور شبنم شکیل جیسے کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

کشور ناہید کی شاعری اس حوالے سے اہم ہے کہ ان کی شاعری صرف عورت کی شاعری بلکہ اس عورت کی شاعری ہے جسے عورت کے حقوق کا علم ہے اور وہ ان حقوق کی حق تلفی پہ آواز اٹھاتی ہے ۔

"سوختہ سامانی دل" کی کئی نثری نظموں میں کشور ناہید اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں،وہ عورت کی روایتی کوکھ کو تقدیر یا قسمت کے حوالے نہیں کرتیں بلکہ عورت پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں، وہ اپنی نظم "میں اسے منع نہیں کر سکتی ہوں" میں یوں رقمطراز ہیں:

"مجھے اپنی کوکھ سے کبھی محبت نہیں رہی

محبت تو تب ہوتی

جب اس کوکھ سے جنم لینے والوں

یا اس کوکھ کو بھر دینے والوں نے

کبھی بھروسے اور محبت کا یقین دلایا ہوتا

جیسے لاتیں،گھونسے کھا کر بھی

سال بہ سال عورتیں ،بچے جنے جاتی ہیں

میں بھی ویسی ہی تھی

میری کھال سنگترے کے چھلکے کی طرح

اُدھیڑ دی جاتی

پھر بھی میں سال بہ سال ،بچے جنے جاتی

میں شاید ابوالہول کے زمانے کی

ریت میں دھنسی عورت کی(۵)

          وہ معاصر عورت کو شعور دینے کی کوشش کرتی ہیں ،وہ انھیں سمجھاتی ہیں کہ تم بھی معاشرے کا ایک جیتا جاگتا عضو ہو، لکڑی یا پتھر کا ٹکڑا نہیں ہو۔دیوی جیسے چند الفاظ سے بہل جاتی ہو۔تمھیں اپنے حقوق کا احسا س بھی نہیں۔سہارے کی تلاش نے تمھیں معذور بنا دیاہے۔تمھاری ساری عمر مردوں کو خوش رکھنے ، ان کے لیے مفید ثابت ہونے ، ان کا دل جیتنے ان سے عزت حاصل کرنے ، وہ بچے ہوں تو ان کی پرورش کرنے ،بالغ ہوجائیں تو ان کی خدمت کرنے میں گزر جاتی ہے۔"زباں پہ رکھی مرچ" میں کہتی ہیں:

"تم عورتیں بھی ایک اور شخص کے بغیر خود کو نامکمل سمجھتی ہو

وہ شخص لکڑی کا ہو یا کہ پتھر کا

تم اسے قریب رکھنے کے لیے ساری عمر گنوا دیتی ہو

تم اس کے لیے سنورتی ہو ،کھانے پکاتی ہو

اس کے لیے اپنا نام تک قربان کردیتی ہو،"(۶)

نظم " جلے ہوئے گھر سے دریافت شدہ نظم " میں کشور ناہیدمرد کی مکاریوں کا پردہ چاک کرتی ہیں ، وہ کہتی ہیں:

"تم نے بہت سی عورتوں کے ساتھ وعدے کیے

اور بہت سی عورتوں کو اپنی ذہانت سے متاثر کیا

مگر جیسے جیسے زندگی آگے بڑھتی گئی

تمھاری محبت کے دستانے نابود ہوتے چلے گئے"(۷)

          کشور ناہید کی نظموں میں ہی نہیں ،ان کی غزلیں بھی تانیثی شعور سے مملو ہیں ، وہ جانتی ہیں کہ جبر کا شکار ہو کر بھی صرف عورت ہی معاشرتی ناہمواریوں پہ نوحہ کناں ہے:

"میں ایک ہاتھ سے دیوار کیسے تھاموں گی

لہو میں غرق ہے دست دعا نیام تلک(۸)

"لبِ گویا "کی غزلوں میں بھی روایتی عشق میں عورت کی وہ تصویر نظر آتی ہے جسے بازار کی زینت بنادیا گیا:

بیٹھی ہوں راہ میں کسی تصویر کی طرح

وہ بھی کبھی تو آئے گا رھگیر کی طرح(۹)

          انیسویں صدی کے اختتام تک عورتوں کے حقوق کی آواز بڑی تیزی سے تحریک میں بدلی اور خواتین کی کئی ہلکی پھلکی عسکری تنظیمیں بھی نظر آئیں ،جنھوں نے خواتین کے مسائل کا کھل کر پرچار کیا ۔ان تمام کاوشوں کے نتیجے میں بیسویں صدی تک آتے آتے عورتوں پر ملازمتوں کے دروازے بھی کھل گئے اور گھٹن زدہ ماحول میں زندہ رہنے والی عورت نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی اہمیت اور ضرورت کو تسلیم کروا لیا۔کشور ناہید اس ساری صورت حال کو اپنی نظم" اکیسویں صدی کا زمزمہ" میں یوں بیان کرتی ہیں:

"میں سوال کرتی ہوں

اپنے جیسے انساں سے

کب یہ مرتبت دو گے

کب برا نہ مانو گے

میرے ساتھ چلنے پہ

میرے شخص ہونے پہ

میرے خواب بننے پہ

سوچنے پہ ہنسنے پہ

۔۔۔۔۔۔

یہ صدی جو بیتی ہے

وہ صدی تمھاری تھی

یہ صدی جو آئے گی

وہ صدی ہماری ہے"(۱۰)

          نسائی لب لہجے کو اپناتے ہوئے نسل نو کو تعلیم و تربیت کے ذریعے تہذیبی و ثقافتی میراث کی منتقلی تانیثیت کا معجز نما اثر ہے۔ اس سلسلے میں خواتین نے بہت جگر کاوی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ تہذیبی و ثقافتی اقدار وا روایات کی نمو وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اس میں کسی کوتاہی کا ارتکاب ایک مہلک غلطی ہے جو انسان کو وحشت و بربریت کا شکار بنا سکتی ہے۔

 محترمہ زاہدہ حنا نے نہایت دردمندی سے اس جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

" ہمارے ہاں احتجاج کی جمہوری جدوجہد کی چھوٹی اور بڑی لہریں اٹھ رہی ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے یہاں وکٹر ہیوگو کی طرح ایسے ادیب موجود نہیں۔ ہمیں ایسے ادیبوں کی ضرورت ہے جو وکٹر ہیوگو کی طرح یہ کہہ سکیں کہ جبر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والی آنکھ بن جاؤں جو عظیم کل پر جمی ہوئی ہے۔

ادیب اپنی تحریروں سے سینے میں جمہوریت اور آزادی کی قندیل ہی روشن نہ کریں بلکہ اپنے ادب سے جمہوریت پسند لوگ بھی پیدا کریں کہ یہی لوگ انقلاب کا ہراول دستہ بنتے ہیں۔"(۱۱)

اس حوالے سے دیکھا جائے تواردو میں تانیثت کے حوالے سے کشور ناہیدبھی اس ہراول دستہ کا حصہ ہیں جو بڑے پیمانے پہ نہ سہی لیکن اس نظام میں جدوجہد کی چھوٹی بڑی لہریں اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

 

 

حوالہ جات

۱)      سیمیں ثمرفضل،ڈاکٹر،ہندوستانی مسلم خواتین کی جدید تعلیمی ترقی میں ابتدائی اردو ناول کا حصہ ،کلکتہ:آبادی پبلی کیشن،۱۹۹۱،ص۸۱۱

۲)      قمر زمانی بیگم،فرمان فتح پوری،ڈاکٹر،لاہور: ادارہ مصنفین، ۱۹۷۱

۳)      شاہدہ بانو،ڈاکٹر،ڈاکٹر رشید جہاں :حیات اور کارنامے ،لکھنوؤ:مطبع ندارد،۱۹۹۰،ص۳۵۲

۴)      قیصر جہاں ،(مرتب)اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ ، علی گڑھ : شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،جولائی ۲۰۰۴،ص۳۷۱

۵)      کشور ناہید ، سوختہ سامانی دل ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲،ص۲۱

۶)      کشور ناہید ، سوختہ سامانی دل ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲،ص۴۱۔۵۱

۷)     کشور ناہید ، سوختہ سامانی دل ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲،ص۵۲۔۶۲

۸)      کشور ناہید ، سوختہ سامانی دل ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲،ص۷۷

۹)      کشور ناہید،فتنہ سامانی دل،لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۵،ص۳۶

۱۰)     کشور ناہید ، سوختہ سامانی دل ،لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۲۰۰۲،ص۳۸۔۴۸

۱۱)     زاہد ہ حنا: انصاف کا نڈر محافظ، مضمون مشمولہ روز نامہ ایکسپریس، فیصل آباد 18 جون، 2008، صفحہ 12

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com