ناول "رات"  مسابقت اور طبقاتی کشمکش کی داستان

عارف صدیق۔ پی ایچ۔ڈی اسکالر (اردو) یونی ورسٹی آف سرگودھا

 ڈاکٹر فیاض احمد فیضی۔ ایسوسی ایٹ پروفیسر ، گورنمنٹ انبالہ کالج سرگودھا            

 

ABSTARCT:

Novella Raat [Night] by Abdullah Hussain [1931-2015] reflects sociometry in post-colonial era. This short article is an attempt to analyze the novella against the backdrop of postcolonial realities in Pakistan. To this end, article analyzed theme, plot, characters and treatment. It is concluded that besides minor issues in craft, the novella represents and analyze the socio-political realities in a very creative, balanced and interesting style.

Key Words:     Post Independence Pakistan; Postcolonialism in Urdu; Pakistan; Urdu Fiction

 

مسابقت کی دوڑ ازل سے انسان کی زندگی کا ایک اہم وصف بن کر سامنے آئی ہے ۔ انسان اپنے جبلی تقاضے کے پیش نظر خود کو دیگر افرادِ معاشرہ کے تقابل کی عینک سے دیکھتا ہے۔سماج میں موجود مختلف انسان جن مختلف طبقات میں بٹے ہوتے ہیں وہ طبقات نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف سماجی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اپنی موجودہ سماجی حیثیت کو مزید بہتر بنانے کی تگ و دو میں بھی لگے رہتے ہیں۔ ہر طبقہ دوسرے سے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حوالے سے سبقت لے جانے کے لیے کوشاں رہتاہے۔ مسابقت کی یہ دوڑ افقی اور عمودی دونوں انداز میں سامنے آتی ہے۔ افقی حوالے سے دیکھا جائے تو ایک طبقہ کے افراد اپنے سے برتر طبقے میں جانے کے لیے کوشاں ہیں مثال کے طورپر ایک مزدور کی ہروقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سرمایہ دار طبقہ میں شمار ہوجائے اور اس طبقے میں شمولیت کے بعد مسابقت کی دوڑ کا عمودی سفر شروع ہوتاہے۔ سرمایہ دار طبقے میں شمولیت کے بعد اپنے ارد گرد موجود سرمایہ داروں میں خود کو منفرد مقام ومر تبے پر فائز کرنے کی کوشش عمودی سفر کی مثال ہے۔ یوں مسابقت کی یہ دوڑ معاشرے میں جاری رہتی ہے    اس مسابقت کی دوڑ میں معاشرے کے مختلف طبقات میں کشمکش بھی سامنے آتی رہتی ہے۔

اردو ادب میں دیگر بہت سے موضوعات کی طرح اس مسابقت کی دوڑ اور طبقاتی کشمکش کے بارے میں بھی بہت سے تخلیق کاروں نے قلم سے جوہر دکھائے ہیں۔ عبداللہ حسین کا شمار بھی ایسے ہی تخلیق کاروں میں ہوتاہے جنہوں نے اپنی تخلیقات میں مختلف سماجی رویوں اور سماج کے مختلف طبقات میں پائی جانے والی کشمکش کو اجاگر کیا ہے۔" اداس نسلیں  ،  باگھ  اور نادار لوگ"  جیسے بلند پایہ ناولوں کے ساتھ ساتھ  " رات  اور  قید"  جیسے ناولٹ ان کے تاریخی ، سیاسی اور سماجی شعور کے بہترین عکاس ثابت ہوئے ہیں۔

 ناولٹ "رات" ایک ایسے نوجوان کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جو بچپن سے حقیقتوں کے تصادم کی پیدا کردہ کشمکش کی کیفیت لئے ہوئے ہے۔ شوکی ایک ایسا کردار ہے جسے بچپن سے ہی مایوسیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دھن لگی تھی اور اس دھن کی بڑی وجہ وہ حالات تھے جن میں وہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ اس کے گھر کا ماحول اس کے اندر چھپے ایک بڑے آدمی کو باہر نکالنے کے لئے محرک کا کام دے رہا تھا۔ گھر کی صورت حال ملاحظہ ہو:

"ان کا مکان دھوئیں کے رنگ سے بدرنگ ہو رہا تھا اور اس پر بارش کے پانی کی لکیریں بنی ہوئی تھیں اور چوبارے کی ایک دیوار ٹوٹی ہوئی تھی اور اینٹیں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔ اس وقت اس نے دل میں ارادہ کرلیا کہ بڑا ہوکر وہ ایک امیر آدمی بنے گا"۔ (۱)

ناول کی کہانی بنیادی طور پر دو دوستوں کی ایسی کتھا ہے جس میں نوجوانی کے دو دوست وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے مسابقت میں اس حد تک بڑھتے چلے جاتے ہیں کہ وہ نہ صرف رشتوں کی قدر بھول جاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے انتقام لینے اور ایک دوسرے کی بے بسی کا تماشا دیکھنے تک کے آرزو مند ہوتے ہیں، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسابقت کی اس دوڑمیں دونوں ہی آخر کار ناکام ہوتے ہیں، دونوں کی بے بسی اور لاچارگی اس ناولٹ میں کئی جگہ پر دیکھی جاسکتی ہے۔

اس ناولٹ میں عبداللہ حسین نے عام ڈگر سے ہٹ کر چند سماجی رویوں کو بھی سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ یہ روے ہمارے سماج کے عام رویے تو ضرور ہیں مگر انہیں ادب میں خوبصورتی سے بیان کرنے کا فن عبداللہ حسین نے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔

سماج میں پروان چڑھنے والا طبقاتی تضاد ناولٹ کے ہیرو شوکی کو بہت متاثر کرتا ہے۔ ایک طرف خود اس کی حالت یہ تھی کہ گھر بھی پرانی وضع کا اور خستہ حال تھا جبکہ دوسری طرف اس کی دوستی ریاض سے تھی جو بقول ناول نگار:

"اول نمبر کا اتھلیٹ، ہاکی ٹیم کا نائب کپتان اور چار سو چالیس گز کی دوڑ کا ریکارڈ ہولڈر تھا، اس کی بڑی خوش دل، ہنس مکھ اور لاپرواہ شخصیت تھی.... ریاض کا باپ ایک انگریزی روزنامے کا مالک تھا"۔ (۲)

یہ وہ طبقاتی تضاد تھا جس نے شوکی کو نہ صرف شروع ہی سے کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا بلکہ اس کے اندر ریاض سے آگے بڑھنے کے جذبے نے بھی تحریک پکڑلی تھی اور اس تحریک کو مزید مہمیز اس وقت ملتی ہے جب کالج کی زندگی کے دوران شوکی اور ریاض کا سامنا جمال نامی ایک لڑکی سے ہوتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل بہتر ہوگا کہ جمال کے سراپا پر ایک نظر ڈال لی جائے:

"وہ ایک بھرپور جوان عورت تھی اور اس کی سنہرے زرد رنگ کی جلد تھی اور بڑا چوڑا اور اونچا ماتھا تھا اور جہاں سے اس کے ہلکے رنگ کے، جڑوں سے ابھر کر نکلے ہوئے بال شروع ہوتے تھے، بڑی سیدھی اور ہموار لائن تھی اور وہ اپنے گھنے بالوں کو لاپرواہی سے ایک دم پیچھے کی طرف کنگھی کرکے ڈھیلا ڈھالا جوڑا بناتی تھی اور اسی طرح آنکھیں سکیڑ کر بڑی سنجیدگی سے بات کرتی تھی اور کسی کو لفٹ نہ دیتی تھی"۔ (۳)

جمال کا کالج میں آنا ،شوکی اور ریاض کی ایک ساتھ چلی آنے والی رفاقت کو رقابت میں تبدیل کرنے کا باعث بنا اور وہ دونوں جمال کی شخصیت کے سحر میں اس طرح کھو گئے کہ دوستی اور رفاقت کے تمام رشتے پس پشت ڈال دئیے گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ جو ہر لمحہ ایک دوسرے کی خاطر مر مٹنے اور سارے جہاں سے لڑائی مول لینے کو تیار ہو جاتے تھے اس ایک عورت نے نہ صرف وہ سب کچھ ختم کر دیا تھا بلکہ وہ ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے تھے۔ عبداللہ حسین لکھتے ہیں:

"اس کی شخصیت کی دل کشی کو ان دونوں نے اپنی اپنی جگہ پر، الگ الگ دیکھا اور محسوس کیا اور بڑھنے لگے........ دور ہونے لگے، پہلے اس کا ذکر آپس میں بند ہوا، پھر طنزیہ جملوں پر نوبت آئی، پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا اور وہ اپنے اپنے راستوں پر بڑھتے گئے"  (۴)

جمال کا ان دونوں کی زندگی میں آنا ایک طرح سے ان دونوں کو مقصد حیات عطا کرگیا۔ ان دونوں کی تمام تر توجہ اور تمام تر مصروفیات کی محور جمال تھی، دونوں نے اسے پانے کے لئے طرح طرح کے جتن کئے لیکن دونوں میں سے ایک کو ہارنا تھا اور وہ ہار ریاض کا مقدر بنی، جس کا دکھ تمام تر مادی آسائشیں حاصل کر لینے کے باوجود بھی اس کے دل سے نہ نکل سکا۔

ناولٹ  "رات "  بنیادی طور پر مسابقت اورطبقاتی کشمکش کی صورت حال کا عکاس ہے مگر اسی کشمکش کی عکاسی میں عبداللہ حسین سماج میں پروان چڑھنے والے چند دیگر ایسے رحجانات کو بھی سامنے لے آئے ہیں جن سے اس عہد کی سماجی صورت حال بھی واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ادیب کو ادب اور کتابوں سے جو فطری لگن اور دل چسپی ہوتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور غیر شعوری طور پر بھی وہ کتابوں کی دنیا میں کھویا رہتا ہے اور سماج میں بھی کتب بینی اور کتب شناسی کی صورت حال اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ ناولٹ "رات" میں یہی کچھ عبداللہ حسین کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ وہ سماج کا مطالعہ کرتے ہوئے ادھیڑ عمر عورتوں، خوش شکل، خوش پوش اور صحت مند کنبوں، نو عمر لڑکیوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ بازار میں موجود دکانوں کا ذکر اس انداز سے کرتے ہیں کہ مادی اشیاءکے مقابلے میں عوام الناس میں علم کی قدرو قیمت اور کتاب شناسی کم تر نظر آنے لگتی ہے۔

"سامنے بڑی بڑی دکانیں تھیں جن میں لوگ ہجوم در ہجوم داخل ہو رہے تھے، نکل رہے تھے۔ ایک کتابوں کی دکان تھی جس میں کبھی کبھار کوئی جانکلتا اور جیبوں میں ہاتھ ڈال کر لاتعلق انداز میں چلنے پھرنے لگتا، جیسے عجائب گھر میں گھوم رہا ہو"۔ (۵)

سماج میں پروان چڑھنے والے طبقاتی تضاد کی مثالیں بھی ناولٹ "رات " میں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ ناولٹ نگار نے سماج کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر طبقاتی تضاد کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف تو معاشرے کا طبقہ ہے جسے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے طرح طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں، جو صبح سے شام تک رکشوں کی گدیوں سے اٹھ اٹھ کر ہینڈلوں پر جھکے خون پسینہ ایک کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کے لئے یہ نظارے حظ کا باعث بنتے ہیں اور بڑھاپے کی عمرکو پہنچتی عورتیں بھی ان رکشوں والوں کو دیکھ دیکھ کر محظوظ ہوتی رہتی ہیں، ایک طرف گداگر بچے بھیک مانگ رہے ہیں تو دوسری طرف ٹیلی فون پر سینما کی سیٹیں بک کروائی جا رہی ہیں۔ منڈیوں میں بھاﺅ کے اتار چڑھاﺅ کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ کی زندگیوں کے اتار چڑھاﺅ نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ طبقاتی تضاد ہے جو اس سماج میں آئے دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس تضاد نے غریب اور محنت کش طبقہ کی نہ صرف زندگی اجیرن کر دی ہے بلکہ ان کی عزت نفس تک بھی مجروح کرکے رکھ دی ہے۔

ناولٹ "رات" کا کرداری حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو اس ناولٹ کے کردار بھی عبداللہ حسین کے دیگر کرداروں کی طرح متضاد کیفیات کے حامل ہیں۔شوکت عرف شوکی اس ناولٹ کے بنیادی کرداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جو ہر لمحہ اک کشمکش کی سی صورت سے دوچار رہتا ہے۔ بچپن میں سامنے آنے والی چند محرومیاں بعض اوقات اس کے لئے تحریک کا باعث بنتی ہیں۔ کالج میں جمال کے داخلہ لینے کے بعد شوکی اور ریاض کے درمیان رفاقت سے ہٹ کر جو تصادم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے اس میں یہ کردار ایک جاندار کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ بنیادی طور پر وہ ایک لکھاری ہے جس کی تحریروں کا ڈنکا چاروں طرف بجتا ہے اور ہر اچھا اخبار اس کی تحریر سے مزین ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک لکھاری ہی نہیں بلکہ حسن و عشق کی جنگ میں کودنے سے قبل وہ ایک بہترین دوست، غم گسار اور ہمدرد کے روپ میں بھی سامنے آتا ہے۔ لیکن جمال کے آنے کے بعد عشق کی جو جنگ اس کے اور ریاض کے درمیان شروع ہوتی ہے اس نے اس کی زندگی کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ وہ ایک کامیاب مقرر بھی تھا لیکن اس کی تمام تر توانائیاں جمال کی توجہ حاصل کرنے میں صرف ہونے لگتی ہیں۔ شوکی کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے عبداللہ حسین لکھتے ہیں۔

"وہ جب ڈائس پر چڑھ کر "مسٹر پریذیڈنٹ، آنریبل ججز، لیڈیز اینڈ جینٹلمین" کہہ چکتا تو سیدھا اگلی قطار میں بیٹھی ہوئی.... اس کو ایک لحظے کے لئے بڑی شدت سے دیکھتا اور نظر اٹھا لیتا اور پھر الفاظ اس کی زبان سے ایسی روانی اور قوت سے نکلتے کہ اس کا بدن اڑنے لگتا۔ پھر جب سہ ماہی میگزین چھپ کر آتا تو وہ دن بھر کنکھیوں سے اسے اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے دیکھتا اور اس انتظار میں رہتا کہ کب وہ اس سے اس کا ذکر کرتی ہے"۔ (۶)

شوکی کو شروع سے ہی متضاد طبقات سے واسطہ پڑتا ہے جو آگے چل کر اس کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک طرف تو اس کی اپنی حالت یہ تھی کہ ان کا گھر بھی کسی خاص ڈھنگ کا نہ تھا، بلکہ دھوئیں سے بدرنگ اور خستہ حالی کا شکار تھا اور دوسری طرف اس کی دوستی ریاض سے تھی جس کا باپ ایک انگریزی روزنامے کا مالک تھا۔ ان کے گھر میں ہر طرح کی آسائش کے سامان میسر تھے۔ اس طبقاتی تضاد نے شوکی کو لاشعوری طور پر زندگی سے بے پرواہ کر دیا تھا۔ وہ سکول جاتے وقت بھی انتہائی کاہلی کا مظاہرہ کرتا اور کھیل کود میں لگا رہتا۔ نوکر کی اس تنبیہ کے باوجود کہ سکول سے دیر ہونے کی وجہ سے ابا جان ناراض ہوں گے۔ اسے کوئی اثر نہ ہوتا تھا، جیسا کہ گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عبداللہ حسین کے اکثر کردار متضاد کیفیات کے حامل ہیں، یہی صورت حال شوکی کے کردار میں بھی نظر آتی ہے، ایک طرف تو وہ انتہائی کاہل اور سست شخص کے طور پر سامنے آتا ہے اور پڑھائی میں دلچسپی لینے سے بھی کتراتا ہے تو دوسری طرف وہ امیر بننے کے لئے اپنی تگ و دو بھی جاری رکھتا ہے اور آخرکار"اس نے بڑی محنت کی، ڈبیٹر بنا، کالج میگزین کا ایڈیٹر ہوا اور آخر میں ایک نہایت کامیاب صحافی بن گیا"۔ (۷)

صحافت کے شعبہ میں شوکی کو عروج و زوال کے اس سفر سے گزرنا پڑتا ہے جس پر اس ناولٹ کی کہانی کی بنیاد کھڑی ہے۔ ایک وقت میں وہ ایسا کامیاب صحافی تھا کہ اس کی ریڈر شپ لاکھوں میں ہوتی تھی اور ہر بڑا اخبار اس سے لکھوانا اپنے لئے فخر سمجھتا تھا۔ مگر اک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ گھر کا سامان تک بنیادی ضروریات کے لئے بکنا شروع ہو جاتا ہے اس کی بڑی وجہ اخباری صحافت کے وہ تقاضے ہیں جن کو وقت کے ساتھ ساتھ وہ پورا نہ کرسکا اور نیچے ہی گرتا چلا گیا۔ اخباری صحافت میں آئے روز جو نئے تقاضے اور پروپیگنڈہ کی جو صورت حال پیدا ہوتی جا رہی ہے شوکی جیسا صحافی اس کا ساتھ نہ دے سکا۔ یہاں پر شوکی کے کردار کی ایک اور پرت سامنے آتی ہے۔ یہاں وہ ایک غم گسار اور سچ بیان کرنے والے صحافی کے طور پر ابھرتا نظر آتا ہے جس کے خیالات اتنے پاکیزہ اور عمدہ ہوتے ہیں قاری داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا، شوکی کے خیالات ملاحظہ ہوں:

"میں اس بزنس کو آرٹ بنانا چاہتا ہوں۔ میں جرنلزم کو اوپر اٹھانا چاہتا ہوں۔ اس سطح پر لانا چاہتا ہوں، جہاں لکھنے والے میں اور پڑھنے والے میں براہ راست تعلق قائم ہو جاتا ہے، جہاں دونوں فریق عمومیت کی زہریلی فضا سے نکل کر آزادی اور ذہانت سے ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کرسکیں، جہاں وہ ایک تہذیب یافتہ قوم بنیں"۔ (۸)

شوکی صحافت میں عوام کو سچ فراہم کرنے کا قائل ہے وہ جھوٹ اور مکاری کو صحافت میں داخل کرنے کے خلاف ہے، وہ عوام کے خیالات کی ترجمانی کرنا چاہتا ہے نہ کہ عوام کے لئے صحافت کو محض تفریح کا باعث بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ "جدید صحافت" میں وہ بری طرح ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ ریاض کے بقول پبلک جو کچھ مانگتی ہے ہم اسے وہی مہیا کرنے کے پابند ہیں، جرنلزم اسے ہی کہتے ہیں دنیا بھر میں، اسی وجہ سے وہ حالات اور جرنلزم کے تقاضوں کے ساتھ سمجھوتا نہ کرسکنے کی وجہ سے ناکام ہو جاتا ہے۔ (۹) طبقاتی تضاد، منفرد خیالات، عروج و زوال کی داستان اور جمال کو حاصل کرکے ایک طرح کی کامیابی حاصل کرنے کے بعد مالی ناآسودگی اور کشمکش کی جس اذیت کا وہ شکار ہوتا ہے، وہ اسے اندر سے جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس کے دل کی سوزش اور الجھن اسے کچھ بھی نہیں کرنے دیتے وہ ان لوگوں میں سے تھا جو فوری ارادے تو باندھ لیتے ہیں اور جذباتی انداز میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر انجام کار وہیں کے وہیں ٹھہرے رہ جاتے ہیں۔ جب ذہنی کشمکش اور الجھن حد سے بڑھتی ہے تو دو طرح کی صورت حال جنم لیتی ہیں یا تو انسان اس کشمکش سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاﺅں مارنا شروع کر دیتا ہے اور خود کو اس ذہنی ناآسودگی سے چھٹکارا دلانے کی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے یا پھر سب کچھ تقدیر کا لکھا سمجھ کر وہ مزید کاہل اور سست ہو جاتا ہے اور تقدیر کے آگے سب کچھ بے بس کے مفروضے کی عملی تصویر بن کر رہ جاتا ہے۔ شوکی کا سامنا بھی دوسری قسم کی صورت حال سے ہوتا ہے، ذہنی الجھن، ناکامی کا غم اور اپنے خیالات کی تردید اسے انتہائی درجے کی کاہلی اور لاپرواہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں یہاں تک اسے اپنی اس رفیقہ حیات کی خوشیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں رہتی، جسے حاصل کرنے کے لئے اس نے بچپن کے دوست سے بھی دشمنی مول لی تھی۔ ذیل کا اقتباس دیکھئے کہ وہ کس حد تک لاپرواہ اور بے حس ہو جاتا ہے، جمال اسے کہتی ہے:

"شوکت، میں نوکری کرنا چاہتی ہوں

"کہاں

"جہاں بھی مل جائے

مبارک ہو"(۱۰)

اس مختصر سے مکالمے میں بے حسی اور لاپرواہی کی جو صورت حال سامنے آتی ہے وہ دوبارہ اس شوکی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیتی ہے جسے بچپن میں سکول سے دیر ہونے کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شوکی کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں پہ ختم ہو رہا ہے، جو بے حسی اور لاپرواہی بچپن میں اس کے مزاج میں شامل تھی، وہ ہی اس وقت بھی موجود ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ذہنی سوزش اور الجھن سے جنم لیتا ہے اور بہت سے قابل لوگوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ بے حسی اور لاپرواہی کی اس تصویر کے ساتھ ساتھ عبداللہ حسین بڑی خوبصورتی سے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ تمام تر ترقی اور عروج کھو جانے اور بے بسی و بے حسی کے اندھے کنویں میں گر جانے کے بعد بھی شوکی اپنی شریک حیات سے انتہا درجے کی محبت ہے اور یہ محبت آخر کار تمام لاپرواہی پر غالب آجاتی ہے جب وہ اپنی انا کو اپنی محبوبہ کی محبت کی خاطر توڑ کر ریاض کے پاس جاپہنچتا ہے۔ وہ نہ صرف ریاض کے پاس کام کے لئے جاتا ہے بلکہ اپنی قابلیت، لگن کے ثبوت دینے اور ریاض کے قائل نہ ہونے کے بعد آخر کار منت سماجت سے بھی جمال کی خاطر کام حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں شوکی کا وہ روپ سامنے آتا ہے جو ایک حقیقی محبوب کا ہوتا ہے، جس کی تمام تر کوششوں کا محور محبوب کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے، اسے اس بات کا شدید دکھ ہے کہ جو سچائی اس کے اندر ہے جو وہ عوام تک پہنچانا چاہتا ہے موجودہ دور کی نام نہاد صحافت اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اس کے خیال میں موجودہ صحافت پر اجارہ داری قائم کرنے والوں نے صرف تھرڈ ریٹ سنسی خیزی کو ہی پروان چڑھایاہے اصل صحافت اور سچائی دب کر رہ گئی ہے۔ بلکہ صحافت سے بندھے لوگ اس کے خیالات کو "احمقانہ خیالات"قرار دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو عبداللہ حسین نے شوکی کے کردار کے ذریعے موجودہ صحافتی زندگی کے کھوکھلے پن کو نمایاں کرنے میں خاصی مہارت سے کام لیا ہے۔ بظاہر تو یہ پورا ناولٹ شوکی کے چند روز عروج کے بعد ناکامی کی لمبی داستان بن کر رہ گیا ہے لیکن اس داستان نے صحافتی شعبہ سے منسلک لوگوں کی سوچ اور ان کے طرز عمل کو بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔

ناولٹ "رات"  کا دوسرا اہم کردار جمال نامی لڑکی کا ہے جو بعد میں شوکی کی شریک حیات بن جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کا کردار ہے جو ہر دم سراپا مہرو محبت ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی عاقل اور سمجھ دار عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اس کے پاس حسن ہے، علم ہے اور سب سے بڑھ کر بولنے کا فن ہے مگر ان تمام تر خوبیوں کے باوجود غرور اور تکبر جو عام اس درجہ کی عورتوں میں ہوتا ہے اس سے دور ہی نظر آتے ہے۔ کالج کی زندگی کے دوران اس کا واسطہ شوکی اور ریاض سے پڑتا ہے دونوں ہی اپنے اپنے میدان کے شہ سوار ہیں اور دونوں ہی ہر دم اس پر مرمٹنے کو تیار مگر ریاض کے مقابلے میں جب وہ شوکی کا انتخاب کرتی ہے تو قاری نہ صرف ایک لمحہ کے لئے چونک پڑتا ہے بلکہ جمال کے ذوق انتخاب کو داد دئیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنی چھٹی حس کو بروقت کام میں لانے کا ہنر خوب جانتی ہے۔ اسی لئے عبداللہ حسین کے الفاظ میں:

"وہ ان دو مردوں کے درمیان جیسے ہوا میں معلق کھڑی رہی تھی حتیٰ کہ عورت کی مخصوص چھٹی حس نے اسے بتایا کہ وہ مکمل ہم آہنگی جو ایک عورت اور مرد کے درمیان ہو سکتی ہے، صرف شوکت کے ساتھ ممکن ہے"۔ (۱۱)

ریاض کے مقابلے میں شوکت کا انتخاب جمال نے کیوں کیا؟ اس سوال کے جواب میں خود جمال کی شخصیت کے بہت سے راز مضمر ہیں۔ جمال کا تعلق کالج میں ڈیبیٹر قسم کے لوگوں سے تھا وہ اپنی کالج کی زندگی کے دوران خود بھی بہت اچھی ڈیبیٹر تھی بلکہ کئی بار لڑکوں کے ساتھ بھی بحث و مباحثہ کے مواقع اسے ملے تھے، وہ بحث کرنا اور بحث سمجھنا بھی خوب جانتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض اور شوکی کی صورت میں جن دو مردوں سے اس کا واسطہ پڑا تھا ان میں ریاض ظاہری طور پر ایک شاندار مرد تھا، جس کے جسم کو دیکھتے ہی مردانہ وجاہت اور رعب کا ایک نقشہ آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں شوکی جسمانی طور پر تو ریاض جیسا شاندار مرد نہ تھا لیکن ذہنی ہم آہنگی کے حوالے سے وہ جمال کے بہت قریب تھا، یہاں ایک ایسی ابدی حقیقت کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جو مرد اور عورت کی محبت کے معاملات کو نمایاں کرتی ہے، مرد حسن کا قدر دان ہوتا ہے، بہت کم مواقع ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جب مرد نے حسن کی بجائے صرف ذہنی ہم آہنگی اور خیالات کی بنا پر محبت کی ہو لیکن عورت کی محبت ازل سے ذہنی ہم آہنگی اور خیالات کے عمدہ پن کی محبت ہے۔ عورت جس کو چاہتی ہے صرف اور صرف اسی کی ہوکر رہ جاتی ہے اور اس بات کی خواہش بھی کرتی ہے کہ اس کا محبوب بھی صرف اسی کا ہوکر رہے، یہ صورت حال اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب دونوں میں اعلیٰ درجے کی ذہنی ہم آہنگی ہو اور یہی ہم آہنگی جمال کے نزدیک مسابقت کی دوڑ میں کامیابی کا پہلا زینہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جمال نے ریاض جیسے شاندار ڈیل ڈول والے مرد کے مقابلے میں شوکت کو ترجیح دی۔

جمال کے کردار کے ذریعے عورت کی محبت کی حقیقت کی تصویر اس ناولٹ میں بڑے نمایاں انداز میں پیش کی گئی ہے، جمال کا جن دو مردوں سے واسطہ تھا ان دونوں نے ہی اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔اپنی کامیابیوں کا رخ جمال کی طرف موڑنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے روایتی انداز میں تحفے تحائف دینے میں بھی کوتاہی نہ برتی، لیکن ذرا دیکھئے کہ جب شوکی اور جمال پر مالی عسرت کے دن آتے ہیں اور سب کچھ بکنے لگتا ہے حتیٰ کہ تحفے بھی بکتے چلے جاتے ہیں تو پھر ایک ساڑھی باوجود مالی تنگی کے نہیں بک پاتی کیونکہ جمال کی نظر میں وہ اس کے محبوب کا ایسا تحفہ ہے جس میں خلوص اور مہر وفا شامل ہیں، ریاض کی دی ہوئی ساڑھیوں کو تو وہ بڑی آسانی سے بیچتی چلی جاتی ہے لیکن جب شوکی اپنی ہی دی ہوئی ساڑھی کو حریص نظروں سے دیکھتا ہے تو جمال کا جواب دیکھئے۔

"شوکت...." وہ دہل کر بولی.... "میں اسے کبھی نہیں بیچوں گی شوکی"

"اب بھی یہ بالکل نئی ہے"

"میں اسے کبھی نہیں بیچوں گی" وہ بولی: "شوکی یہ تمہارا سب سے پہلا...." (۱۲)

عبداللہ حسین کے اکثر نسوانی کردار بہت خود اعتماد اور متحرک نظر آتے ہیں، اداس نسلیں کی عذرا، باگھ کی یاسمین، قید کی رضیہ کی طرح ناولٹ "رات" میں جمال کا کردار بھی خاصا متحرک کردار ہے، وہ ایک ایسی عورت ہے جس کے دل میں ایک طرف تو اپنے محبوب خاوند کو ہر حال میں خوش رکھنے کا جذبہ شامل ہے تو دوسری طرف وہ معاشرے میں باعزت طور پر زندگی گزارنے کی خواہش مند بھی ہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ ان دنوں میں بھی اعتماد اور کچھ کر گزرنے کے جذبے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جن دنوں میں گھر کی چیزیں تک بکنا شروع ہو جاتی ہیں، جمال ایک ایسی عورت کے طور پر سامنے آتی ہے جو لوگوں کی پہچان میں مہارت رکھتی ہے، لوگوں کے چہرے پڑھنے کا فن اسے خوب آتا ہے۔ وہ جہاں ایک طرف ریاض کو رد کرکے شوکی کا انتخاب کرلیتی ہے وہیں دوسری طرف شوکی کے مفلسی کے دنوں میں اسے دوبارہ ریاض کے پاس جانے پر آمادہ بھی کرلیتی ہے، یوں وہ ایک ایسی عورت کے روپ میں سامنے آتی ہے جو ہمارے معاشرے کی روایتی عورت ہے جس کی تمنا گھر بسانے اور پُرآسائش زندگی گزرنے کی ہوتی ہے مگر ان کاموں کے لئے پیسہ درکار ہوتا ہے جو شوکی کے پاس رہا نہیں، پھر بھی وہ نہ صرف خود ہاتھ پاﺅں مارتی ہے بلکہ کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اپنے خاوند کو بھی تحریک دیتی رہتی ہے۔

ناولٹ "رات"کا تیسرا اہم کردار ریاض ہے۔ ریاض شوکی کا بچپن کا دوست ہے بلکہ شوکی اور ریاض میں اس قدر گاڑھی چھنتی ہے کہ شوکی کو ریاض کے گھر کے ایک فرد کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ریاض کے کردار کی کئی پرتیں ناولٹ رات میں سامنے آتی ہیں اور ہر پرت نہ صرف ریاض بلکہ ہمارے مابعد نوآبادیاتی عہد کے سماجی رویوں کی بھی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ تقسیم کے بعد بعض لوگ تو اپنا تمام تر مال و اسباب لٹا چکے تھے ایسے لوگ جو تقسیم سے قبل اچھی خاصی پُرآسائش زندگی گزار رہتے تھے تقسیم کے عمل نے انہیں بھی کوڑی کوڑی کا محتاج کرکے رکھ دیا تھا، لیکن اس طبقہ کے ساتھ ساتھ ایک طبقہ وہ بھی تھا جس نے خوب دولت سمیٹی اور اعلیٰ عہدوں تک بھی پہنچے، جنہوں نے مال بھی کمایا اور نام بھی، ریاض کا تعلق بھی ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا، اس کے ہاں ناصرف دولت کی فراوانی تھی بلکہ اس کا باپ ایک اخبار کا مالک بھی تھا، یہی دولت اور نام وہ عناصر تھے جن کے بل بوتے پر ریاض خود کو شوکی سے برتر سمجھتے ہوئے جمال کے معاملے میں اس کے مقابلے پر اتر آیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ وہ بھی جمال کو چاہنے لگا تھا بلکہ اس نے شوکی کے مقابلے میں یونین کا الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے کھلم کھلا رفاقت کو رقابت میں بدل دیا تھا، خاندانی جاہ و جلال اور ناموری کے ساتھ ساتھ ریاض کی اپنی خصوصیات بھی کچھ کم نہ تھیں، عبداللہ حسین لکھتے ہیں:

"ریاض اول نمبرکا اتھلیٹ، ہاکی ٹیم کا نائب کپتان اور چار سو چالیس گز کی دوڑ کا ریکارڈ ہولڈر تھا، اس کی بڑی خوش دل، ہنس مکھ اور لاپرواہ شخصیت تھی" (۱۳)

لیکن آگے چل کر جب جمال ان دونوں کے سامنے آتی ہے اور وہ رفیق سے رقیب بنتے چلے جاتے ہیں تو شوکی کی طرح ریاض کی تمام سرگرمیوں کا محور بھی جمال ہی ٹھہرتی ہے وہ جس کام کی طرف بھی بڑھنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا نصب العین جمال کی خوشنودی اور توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

"....اور ریاض تھا، جو ہاکی کے میدان میں ایک "پاس" بھی کام کا دیتا تو مڑ کر ایک نظر ہزاروں کے مجمعے میں اس سبز لباس پر ڈال لیتا، مقابلے کی کوئی دوڑ جیتتا تو ہانپتا ہوا ضرور اسکے سامنے سے گزرتا اور دن بھر کسی نہ کسی طرح اس کی نظر کے سامنے رہتا"۔ (۱۴)

ان تمام تر ذاتی خوبیوں اور خاندانی جاہ و جلال کے باوجود ریاض دونوں دفعہ شوکی سے شکست کھا جاتا ہے، یونین کے الیکشن میں بھی اور جمال کو حاصل کرنے میں بھی، اور یہ شکست ایسے وقت میں اس کا مقدر بنتی ہے جبکہ اس کے شباب کے دن اور ہر چیز کو حاصل کرلینے کے لئے سازگار عرصہ تھا، اس عرصہ میں ملنے والی شکست کا کانٹا ساری عمر ریاض کے دل سے نہیں نکل پاتا، زندگی کے حسین لمحات میں فتح کے قریب پہنچ کر جو شکست ریاض کا مقدر بنی اس نے اس کی انا کو بھی بری طرح مجروح کرکے رکھ دیا، وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ:

"نوجوانی کے دلیر دنوں میں گرا ہوا آدمی پھر کبھی جم کر کھڑا نہیں ہو پاتا"(۱۵)

اور یہی حقیقت ہے کہ وہ دوبارہ جم کر کھڑا نہیں ہو پایا، اس کے ساتھ ساتھ ایک اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ دونوں بار ایک ہی شخص سے شکست کھانے کے بعد بھی ریاض اس کو خود سے کم تر ہی سمجھتا رہا، اس کے دل سے دولت کا فخر اور غرور نہ نکل سکا۔ اسی لئے جب جمال ایک بار اس کے گھر جاتی ہے تو وہ ہر ہر چیز کو نہ صرف تفصیل سے بیان کرتا چلا جاتتا ہے بلکہ گھر کی ہر چیز کی قیمت تک بھی بتا دیتا ہے جس کا واحد مقصد جمال کو مرعوب کرنا ہے، یہاں ریاض ایک ایسی نفسیاتی کشمکش کا شکار نظر آتا ہے جو جمال کو اپنی خوشیوں کی قاتل سمجھتا ہے۔ گھر کی اشیاءکے بارے میں وہ اس انداز سے بات کرتا ہے گویا جمال کو احساس دلا رہا ہو کہ شوکی کو اپنانے کا فیصلہ سراسر غلط تھا۔ اور جب جمال کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں تو ریاض فتح مندی کے جذبے سے سرشار ہو جاتا ہے، دولت مندی کا فخر آخر دم تک اس کے دل سے نہیں نکلتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے سماج کے اک عام فرد کی طرح ریاض کو بھی دولت کے مقابلے میں عورت برتر نظر آنے لگتی ہے۔ وہ ریاض جو اپنے گھر کے بارے میں بتاتے ہوئے غرور اور تکبر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، تھوڑی ہی دیر بعد اس کی حالت ملاحظہ ہو:

"تم نے آج تک مجھے ہاتھ تک لگا کر نہیں دیکھا، جیسے میں کوئی اچھوت ہوں"۔ (۱۶)

اس کے ایک جملے نے اس کے تمام غرور اور تکبر کوخاک میں ملاکر رکھ دیا اور اسے اپنے جذبات کو چھپانے کے لئے واپس دیوار کی طرف پلٹنا پڑا۔

"رات" کے کرداروں کے حوالے سے مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں بھی عبداللہ حسین کے دیگر کرداروں کی طرح متضاد کیفیات کے حامل کردار ملتے ہیں۔ عبداللہ حسین ایسے کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو بعض اوقات اس حد تک متضاد صورت حال میں مبتلا نظر آتے ہیں، قاری کی دلچسپی ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے، شوکی کے کردار کو دیکھیں تو وہ اپنی تمام تر کامیابیوں اور عروج کو اپنی آنکھوں کے سامنے زوال پذیر ہوتے دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے ذرا بھی پرواہ نہیں ہے، وہ بڑے مزے سے بیوی کے ساتھ ہوٹلوں میں جاتا ہے، سیرو تفریح سے اس کا دل اب بھی سیر نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ بیوی کے لباس بکنے اور نوکری کرنے سے بھی اس کی بے حسی زائل نہیں ہوتی، اسی طرح ریاض کو دیکھیں تو یہاں بھی تضاد ہی نظر آتا ہے کہ ایسا شخص جس نے جوانی کے بھرپور دنوں میں شکست کھائی ہو اور شکست بھی ایسی جو جذبہ عشق کے حوالے سے ملے اور اس کی روح تک کو سلگا کر رکھ دے، ایک لمحے کے لئے تو قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ ریاض جیسا کامیاب انسان اس شکست کی تاب نہ لاسکے گا لیکن ریاض کی بعد کی کامیابیوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نہ صرف مزید دولت سمیٹی بلکہ نام بھی کمایا، دوسرے لفظوں میں اس شکست نے اس کی کامیابی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی۔

عبداللہ حسین نے رات میں بھی کرداروں کو آخر کار المناک صورت حال سے دوچار ہوتے دکھایا ہے۔ پہلے ناولوں کے کرداروں کی طرح اس ناولٹ کے کردار بھی آخر پر کسی نہ کسی المیے کا شکار نظر آتے ہیں، شوکی عروج کے بعد زوال کی ایسی گہری دلدل میں جاگرتا ہے کہ نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا، یہ ایک ایسا المیہ ہے جو اس کی روحانی اور ذہنی صلاحیتوں کو بھی کچل کر رکھ دیتا ہے۔ دوسری طرف ریاض ہے جس کے دل سے شکست کا کانٹا ساری عمر نہیں نکل پاتا، جمال کے کردار کے حوالے سے دیکھیں تو وہ جوانی میں تمام تر رعنائیوں اور کامیابیوں کے باوجود آخر کار المیہ کا شکار ہوجاتی ہے، عبداللہ حسین کے الفاظ میں جمال کا المیہ ملاحظہ ہو:

"ایک سے اس نے محبت کی تھی اور دوسرے کو عزیز دوست کی طرح چاہا تھا، اور بالآخر دونوں کو وقت نے ضائع کر دیا، اب بہار کا موسم اور ہنستے نوجوان پھولوں کا زمانہ صرف اس چھوٹے سے برومائیڈ پیپر پر منجمند ہو کر رہ گیا تھا اور یاد دلاتا تھا کہ زندگی میں اس نے بہت کچھ پایا تھا مگر بہت زیادہ پانے کی خواہش کی تھی" (۱۷)

یہ بہت زیادہ پانے کی خواہش ہی وہ بنیادی عنصر ہے جو سماج میں مسابقت کی دوڑپیدا کرتاہے۔ جہاں تک المیہ صورتحال کا تعلق ہے تو ناولٹ کی کہانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبداللہ حسین نے جان بوجھ کر واقعات کو اس ڈھنگ سے ترتیب دیا ہے کہ انجام المیہ کی صورت میں ظاہر ہو، شاید اس طرح کرداروں کے لئے قاری کی ہمدردی سمیٹی جاسکے۔ عبداللہ حسین کرداروں کے ذریعے پہلے سہانے خواب سامنے لاتے ہیں، ان کے کردار جذباتی انداز میں بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان خوابوں کی تعبیر کے حوالے سے جو کوششیں کی جاتی ہیں ان میں وہ تسلسل اور ہم آہنگی برقرار نہیں رکھ پاتے، بلکہ بعض دفعہ کہانی اس حد تک گنجلک ہو جاتی ہے کہ قاری الجھ کر رہ جاتا ہے اور اصل مقصد کو پانے میں ناکام رہتا ہے، ناولٹ رات میں وہ بار بار ماضی کے دھندلکوں میں جھانکتے نظر آتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کو آگے بڑھنے کا رستہ نہیں مل رہا اور بار بار وہ ماضی کے واقعات کو تحریر میں لاکر شعوری طور پر کہانی کا تانا بانا تشکیل دینے میں لگا ہے، کبھی تو وہ حسین خوابوں کی سرزمین میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ہر طرف اک رومانوی فضا ہی چھائی نظر آتی ہے۔ جنسی تلذذ میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اصل کہانی پس پردہ چلی جاتی ہے۔

 ناولٹ رات میں شوکی اور جمال کے درمیان جنسی لمحات کی جس طرح تصویر کشی کی گئی ہے اس سے کسی طرح بھی یہ تاثر نہیں ابھرتا کہ شوکی کو اپنے زوال کا دکھ ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک لاپرواہ اور آوارگی پسند ایسا شخص ہے جو کبھی کسی اچھے عہدے یا اچھی پوزیشن پر منتخب ہوا ہی نہیں جب کہ شوکی ایک وقت میں ایک کامیاب کارسپانڈس تھا جس کی ریڈر شپ لاکھوں میں ہوتی تھی ایسے شخص کو زوال کے دنوں میں بالکل ہی ناکارہ اور لاپرواہ کردار کے طور پر سامنے لانا حقیقت سے دوری کا تاثر دیتا ہے۔ دوسری طرف ریاض کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سامنے آتی ہے کہ تمام تر رعنائیوں، دولت اور نام وری کے باوجود وہ جمال کے سامنے یوں ریجھ جاتا ہے جیسے اس کا مقصد ہی جمال کا حصول ہے جبکہ جمال اس واقعہ سے بہت عرصہ پہلے کسی اور کی ہو چکی ہوتی ہے اور پھر دوسری سمت دیکھیں تو ریاض خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس کا واسطہ زندگی میں مختلف ممالک کی بہت سی عورتوں سے بھی پڑا ہے، ایسے واقعات جو قاری کو ایک کشمکش کی صورت حال سے دوچار کرتے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ قاری کو تحریر کے ذریعے سوچ اور غورو فکر کی طرف راغب کرنا الگ بات ہے جبکہ اس کو تحریر میں دانستہ الجھا دینا بالکل دوسری بات ہے۔ عبداللہ حسین قاری کو سوچنے اور غور کرنے کی طرف لانے کی بجائے زیادہ تر الجھاتے ہی نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی تحریر میں کئی جگہ جھول دکھائی دیتے ہیں۔

مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو چند خامیوں کے باوجود ناولٹ رات تقسیم کے بعد کے عہد میں مسابقت کی دوڑ میں لگے استحصالی طبقے کی زندگی کو سامنے لانے کی اک بہترین کاوش ہے۔ تقسیم کے بعد سماج میں جو رویے پروان چڑھے جن کی وجہ سے ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر مادی فوائد سمیٹنے اور اس کوشش میں تمام رشتوں اور رفاقتوں کو بھی جس طرح پس پشت ڈال دیا گیا اس کی عکاسی "رات"میں ملتی ہے، تقسیم کے بعد لکھے گئے ادب میں اس ناولٹ کو نمایاں جگہ دی جاسکتی ہے۔

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

۱       عبداللہ حسین، رات، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۰۲، ص ۲۱
۲       ایضاً، ص ۲۷
۳      ایضاً، ص ۳۵
۴      ایضاً، ص ۳۰
۵       ایضاً، ص ۵۹
۶       ایضاً، ص ۳۰
۷      رضی عابدی، تین ناول نگار، سانجھ پبلشرز، لاہور، اشاعت دوم، جنوری ۲۰۱۰ئ، ص ۱۳۹
۸      عبداللہ حسین، رات، ص ۴۶
۹       ایضاً، ص ۴۷
۱۰      ایضاً، ص ۱۳
۱۱      ایضاً، ص ۷۱
۱۲      ایضاً، ص ۱۲
۱۳     ایضاً، ص ۲۷
۱۴     ایضاً، ص ۳۱
۱۵      ایضاً، ص ۲۵
۱۶      ایضاً، ص ۷۷
۱۷     ایضاً، ص ۷۸
٭٭٭٭٭٭٭٭
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com