ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری کی مرثیہ شناسی

فرزانہ ناز۔ پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ، اسلام آباد ۔

ڈاکٹر فوزیہ اسلم۔ استاد شعبہ اردو، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد۔

 

ABSTRACT

Mersia (elegy) holds a religious prestige in Urdu and Persian literature, for its connection with relentless brave struggle and painful martyrdom of Imam Hussain, the grandson of Muhammad (SAW). This review article is an attempt to assess the contribution of Dr Akbar Haider Kashmiri as critic and researcher of Mersia. It is illustrated that besides his literary achievements in the evolution of Merseya, he developed logical standards for editing Rasai Adab[elegy literature]. This article depicts his comprehensive research work on Marseya as a researcher, critic and editor.

Key Words:     Mersia; Elegy in Urdu; Meer Anis; Meerza Dabeer

 

مرثیہ اردو شاعری کا ایک خاص موضوع ہے جو اب اپنی الگ صنفی شناخت قائم کر چکا ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ اقلیم ادب سے باہر کم مائیگی سے ملول اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ انجمن پنجاب کے زیراثر جدید شاعری کے تاروپور بنے گئے تو مرثیے نے بھی ایک نئی کروٹ لی اور اپنے موضوع کی اہمیت اور وسعت کی بنا پر اردو شاعری میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا۔ رفتہ رفتہ محققین و ناقدین ادب بھی مرثیے کی طرف متوجہ ہوئے اور ا س کا تحقیقی و تنقیدی زاویوں سے مطالعہ کیا۔ اگرچہ یہ سرمایہ معیار و مقدار کے لحاظ سے تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا لیکن بہر حال دیگر اصناف ادب کی طرح مرثیے کی تحقیقی روایت بھی موجود ہے۔

ادب میں یہ رجحان عام ہو رہا ہے کہ مختلف محققین تحقیق کے لیے ایک خاص گوشہ ادب کا انتخاب کر لیتے ہیں مثلاً اقبا ل پر تحقیق کرنے والے ماہرین اقبال اور غالب کا مطالعہ کرنے والے غالب شناس کہلاتے ہیں۔ اس تناظر  میں دیکھا جائے تو معروف مرثیہ شناسوں میں ڈاکٹر مسعود حسن رضوی ادیب، نیر مسعود، ڈاکٹر صفدر حسین، مرتضی حسین فاضل، ضمیر نقوی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور سحر انصاری کے ساتھ ایک معتبر نام ڈاکٹر اکبر حیدری کا شمیری کا بھی ہے۔        ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری وہ نامور محقق ہیں جن کی جہات تحقیق اقبالیات، غالبیات، کلاسیکی ادب ، رثائی ادب اور تدوینی خدمات پر محیط ہیں لیکن"اکبر حیدری کی تصانیف اور مقالوں کی نوعیت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے مرثیہ اور مرثیہ نگاروں پر خصوصیت کے ساتھ  توجہ دی ہے۔''(1)ڈاکٹر مسعود حسن رضوی کو رثائی ادب پر سب سے زیادہ مواد دریافت اور اکھٹا کرنے کا اعزاز حاصل ہے لیکن اس ادبی سرمایے سے تحقیقی نوادر کھوجنے میں ڈاکٹر اکبر حیدری کا جذب و شوق اور جان فشانی کام آئی۔ پروفیسر نیر مسعود لکھتے ہیں: ''موجودہ محققوں میں ڈاکٹر اکبر حیدری نے اردو مرثیے کے سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے۔''(۲)

مرثیے کی تحقیق میں حیدری نے نہ صرف تاریخ مرثیہ کا مطالعہ کیا بلکہ گمنام شعرا اور ان کے کلام کو بھی منظر عام پر لائے۔ تحقیق کا مایہ امتیاز یہ ہے کہ اس سے ادب میں کیا اضافہ ہوا اور کیا اثرات مرتب ہوئے۔ حیدری ان محققین کی صف میں نمایاں نظر آتے ہیں جن کی تحقیق ثمر آور ثابت ہوئی ہے اور جن کی تحقیقات نے اردو ادب کے دامن کو وسیع کیا۔پروفیسر ظہور الدین احمد نے ایسے ہی کچھ محققین کا ذکر اپنے ایک مضمون میں کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں:

''جنھوں نے اردو دنیا میں اپنے تحقیقی و تنقیدی مطالعات سے قابل قدر اضافہ کیا ان میں پروفیسر حامدی کاشمیری، ڈاکٹر اکبر حیدری، ڈاکٹر محمد زمان آزردہ۔۔۔ قابل ذکر ہیں۔''(۳)

اکبر حیدری نے ایک طرف تو مرثیے کی تاریخ کی ٹوٹی کڑیاں جوڑیں تو دوسری طرف کئی گم نام شعرا کونئی زندگی بخشی جن میں سکندرؔ ، گداؔ، مقبلؔ، ناظمؔ اور احسانؔ جیسے شعرا شامل ہیں۔ اکبر حیدری کی ان تحقیقی فتوحات کے پس منظر میں ان کی عالمانہ بصیرت، ذوق تحقیق اور جان سوزی کار فرما ہے۔ان کے اسلوب تحقیق میں ہمیں تقلیدی کے بجائے اجتہادی روش نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مرثیے کی تحقیق ماہ و سال کا اشاریہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد ٹھوس حقائق پر ہے۔ انھوں نے ایک بے باک محقق کے طور پر جہاں محسوس کیا معا صر محققین سے اختلاف کیا اور اپنی بھر پور علمیت سے اسے ثابت بھی کیا ۔ ناصر مرزا رقم طراز ہیں:

"اکبر حیدری کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کی نظر گہری تھی۔ مصلحت کے وہ قائل نہیں تھے۔ جرات ِ اختلاف ان کی شخصیت کا جزو لانیفک تھا۔ ان کی عالمانہ گرفت کی زد میں مشاہیر وقت بھی آئے اور اہم علمی و ادبی مسندوں پر فائز شخصیات بھی۔''(۴)

ثابت لکھنوی، سید حامد حسین قادری، ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر مسیح الزمان جیسے زعمائے ادب کے تحقیقی نتائج کو حیدری نے رد کر کے نئے حقائق پیش کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاصرین ان سے متاثر بھی تھے اور ان کی صلاحیتوں کا لوہا بھی مانتے تھے۔ ان کی تحقیقات کے علاوہ ان کے کتب خانے سے بھی مستفید ہوتے جو نوادرات ادب سے مزین تھا۔ ڈاکٹر وحید قریشی، مشفق خواجہ اور جمیل جالبی جیسے مشاہیر تحقیق آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مشفق خواجہ تو آپ کی خدمات کے حوالے سے مقالہ لکھنا چاہتے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی۔ مرثیے کی تاریخ و ارتقا پر حیدری کی مایہ ناز تصنیف ان کا ڈی لٹ کا مقالہ '' اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقا'' ہے جو ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں مرثیے کی تاریخ کے علاوہ اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والے تہذیبی ، سیاسی اور سماجی عناصر سے بھی بحث کی گئی ہے اور اودھ میں اردو مرثیے کے ارتقا پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حیدری کا تحقیقی اختصاص یہ بھی ہے کہ وہ نئے اور نایاب ماخذات تحقیق سے استفادہ کرتے ہیں۔ مذکورہ مقالے میں انھوں نے 61 قلمی و غیر مطبوعہ ماخذات سے استفادہ کر کے تحقیقی ثمرات پیش کیے ہیں۔ حیدری نے کئی اہم شعرا  کے احوال و آثار پر تحقیق کی بلکہ ان کا کافی کلام دریافت کر کے شائع کیا۔ خلیق ؔکے مراثی کے حوالے سے اکثر تذکرے خاموش اور محققین منکر تھے کہ ان کا وجود اب ناپید ہے لیکن حیدری کی انتھک محنت سے ایسے کئی جواہر سامنے آئے اور ادب کا حصہ بنے۔

میر ضمیر کا مرثیے کی تاریخ میں ایک اہم نام ہے بلکہ بعض ناقدین انھیں مرثیے میں طرز نوی کا موجد کہتے ہیں۔کہا جاتاہے کہ اگر میر ضمیر نہ ہوتے تو انیس و دبیر کا یہ مقام اور  مرثیے کی یہ صورت ہی ممکن نہ ہوتی۔ حیدری کی اس حوالے سے "میر ضمیر:تحقیقی مطالعہ'' اہم کتاب ہے جس میں نہ صرف ان کے احوال و آثار پر گفتگو کی گئی ہے بلکہ ان کا کلام بھی مدون کیا گیا ہے۔اپنی معلومات افزا کتاب ''ہندو مرثیہ گو شعرا'' میں حیدری نے مختلف شعرا  کے نادر ونایاب مراثی کی دریافت کا ذکر کیا ہے۔ اس میں کم معروف شعرا  سے لے کر معروف ہندو مرثیہ گو شامل ہیں مثلاً گوپی ناتھ امن لکھنوی جنھیں کئی قومی اور ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ ان میں مشہور مرثیہ نگار مہاراجا کشن پرشاد شاد بھی ہیں جن کے مقام علمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حیدری کے مطابق حالیؔ، شبلیؔ سے لے کر نظم طباطبائی اور دلورام کو ثری تک شعرا  نے ان کے ذوق طبع سے استفادہ کیا۔

دنیا ئے تحقیق میں غیر مطبوعہ مواد، قلمی نسخہ جات اور مخطوطات کی کلیدی اہمیت ہے۔ مطبوعہ کتب کی نسبت قلمی نسخے تحقیق میں اس حوالے سے بھی زیادہ معتبر مانے جاتے ہیں کہ اکثر مصنف کے ہاتھ کے لکھے ہونے کی وجہ سے سہو کاتب سے محفوظ ہوتے ہیں اور بنیادی ماخذ کے طورپر ان سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ حیدری ؔنے کئی شعرا  کے قلمی نسخے دریافت کیے اور کئی کےقلمی نسخوں کی فہارس مرتب کیں جو تحقیق میں ایک بیش قیمت اضافہ اور آنے والے محققین کے لیے جادہ منزل ہے۔ اکبر حیدری کی تدوینی خدمات میں رثائی کلام کو الحاق سے پاک کرنا سرفہرست ہے۔ انھوں نے اصول تحقیق و تدوین کے مطابق اور زیادہ سے زیادہ موجود نسخوں کے تقابلی مطالعے سے اصل متن کی بازیافت کی جو انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ جعفر بٹ اپنے مقالے ''ڈاکٹر اکبر حیدری: حیات و فن'' میں رقم طراز ہیں:

''اکبرحیدری نے تحقیق میں   مختلف النوع کارنامے انجام دیے ہیں لیکن خاص طورپر گم نام ادبی شہ پاروں اور شخصیتوں کو منظر عام پر لانے سے محذوف اور گم شدہ اشعار کی بازیافت ، عظیم شعرا  کے کلام کے ماخذات سے بحث وغیرہ ایسے کام ہیں جنھیں تحقیقی اعتبار سے اردو دنیا میں قدر اور فخر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔''(۵)

مرثیے کی تحقیق کے ساتھ ساتھ حیدری کے تنقیدی نظریات بھی خاصی اہمیت کے حامل ہیں ۔ مرثیے کی تاریخ کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مرثیے کے بنیادی تنقیدی مباحث بھی حیدری کے زیر نظر رہے ہیں۔ جس میں مرثیے کی تعریف، معنویت، اہمیت، اجزائے ترکیبی اور ارتقا شامل ہے۔ مرثیے کی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر ہلال نقوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں:

''اس ادب نے اردو زبان اور لٹریچر کو اپنے لازوال سرمائے سے مالا مال کیا ہے۔ افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ کچھ لوگ مرثیے کو صرف رونے رلانے اور ایک مخصوص فرقے کے ساتھ منسوب کر تے ہیں۔ اگر اس صنف کو اردو ادب سے خارج کر دیا جائے تو اردو کی آبرو خاک میں مل سکتی ہے۔ اردو مرثیے نے ہماری زبان کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے مقابل لاکھڑا کر دیا ہے۔ ''(۶)

کسی بھی نظریہ ساز محقق و نقاد کی پرداخت میں وسعت مطالعہ کے ساتھ ساتھ استخراج نتائج کی صلاحیت کلیدی کردار اداکرتی ہے۔ تب ہی وہ کسی موضوع پر اپنا نظریہ تخلیق کر سکتا ہے اوردوسروں کی آرا کو دلائل و براہین سے غلط ثابت کر سکتا ہے۔ مثنوی اور مرثیہ میں سراپا نگاری کا موضوع مشترک ہے۔ اکثر ناقدین سراپا نگاری کو قابل توجہ نہیں سمجھتے بلکہ بے مقصد قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے بھی سراپا نگاری کو شاعری میں ایک کار بے کار سے تعبیر کیا ہے۔ حیدریؔ ان کے برخلاف اپنے مقالات کے مجموعے ''تحقیق و انتقاد'' میں رقم طراز ہیں: "ہماری اردو شاعری میں مرثیہ گویوں نے سراپا کو منزلت اور تقدس بخشا ہے اور اس میں پاکیزگی کے دریا بہائے "(۷)

حیدری نے کلاسیکی شعرا  اور مرثیہ گویان کے کلام کا تنقیدی مطالعہ بھی کیا۔ حیدریؔ، میرؔ و سوداؔ، میر حسن اور مصحفی کے علاوہ کئی کم معروف اور گم نام شعرا  کے رثائی کلام کو میزان نقد پر پرکھا نیز ان کے تنقیدی نظریات سے  بحث کی۔ عصر حاضر کے رثائی ادب پر تنقید بھی حیدری کے کارناموں کا حصہ ہیں وہ عصری تخلیقات سے بھی آگاہ رہتے اور پھر اپنی علمی بصیرت کے مطابق آرا، تبصروں اور تنقید کی صورت میں روح عصر میں اپنا حصہ ڈالتے ۔ بعض محققین کے مقالات کے جواب میں انھوں نے خود مضامین لکھے جیسا کہ شمس الرحمن فاروقی کے مضمون "مرثیے کی معنویت" کے جواب میں اپنے  مضمون میں رقم طراز ہیں:

 "مرثیے کی جو بھی معنویت قرار دی جائے مرثیہ گو شعرا  ہمیشہ خود بھی شہدائے کربلا پر روئے گا اور لوگوں کو بھی روتا ہوا دیکھے گا۔ یہی مرثیے کی غرض و غایت ہے۔"(۸)

حیدری نے مختلف محققین کے کتب و مقالات پر بھی تبصرے او ر مضامین تحریر کیے مثلاً ڈاکٹر ہلال نقوی کے پی ایچ۔ ڈی کے مقالے "بیسویں صدی اور جدید مرثیہ" اور ان کی کتاب "دفتر دبیر" پر انھوں نے تبصراتی مضمون تحریرکیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر تقی عابدی جو رثائی ادب کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کی کتاب "تجزیہ یاد گار انیس" نہ صرف حیدری کی رہنمائی میں شائع ہوئی بلکہ اس پر حیدری نے ایک مضمون بھی قلم بند کیا۔ مرثیے کے حوالے سے حیدریؔ کی خدمات میں سید محمد رشید کے معروف کتب خانے کو بذریعہ بحری جہاز کنیڈا میں ڈاکٹر تقی عابدی تک ترسیل بھی ہے۔ جس سے رثائی ادب کا ایک بڑا خزانہ دست بردزمانہ سے محفوظ ہو گیا۔ ایسی ہی دیگر کئی خدمات ان سے خاص ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محمد طفیل ایڈیٹر نقوش کو برملا اعتراف کرنا پڑا کہ بہر حال اردو ادب پر آپ کا جو احسان ہے سو وہ تو ہے۔ یوسف سرہندی ان کے مقالات پر مشتمل کتاب "تحقیقی جائزے" کے حوالے سے اپنے تبصراتی مضمون میں لکھتے ہیں:۔

" ان مقالات کے ذریعے بہت سی ایسی باتیں  منظر عام پر آ گئی ہیں جو پہلے پر دہ اخفا میں ہونے کے باعث غلط فہمی کا سبب بنی ہوئی تھیں یا بن سکتی تھیں۔ کتاب معلومات افزا بھی ہے۔ بلا خوف تردید اسے اردو کے ادبی اور تحقیقی سرمایے میں ایک گراں قدر اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔"(۹)

تدوین اور حفظ متن دستاویزی تحقیق کا ایک اہم شعبہ ہے جسے متنی تنقید سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مشکل عملی فن ہے اورچوں کہ یہ محنت شاقہ کا متقاضی ہے، لہذا شارع عام نہیں ہے۔ لیکن اکبر حیدری جیسے اکابرین نے تدوین میں بھی اپنے کمالات دکھائے ہیں۔حیدری کا مضمون "اردو تحقیق کے گذشتہ پچاس سال" اس حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اس میں انھوں نے کلاسیکی ادب کے بیش بہا دریافت کردہ مخطوطات کا تعارف کروایا ہے۔ اس قیمتی ادبی دفینے کی انھوں  نے فہرست سازی کی اور مختلف عنوانات یعنی دواوین، مثنویات، تذکرے،تواریخ، مرثیے اور متفرقات کے تحت انھیں محفوط کیا۔جمیل جالبی خراج تحسین پیش کرتےہوئے لکھتے ہیں:

 " آپ نئی نئی دریافتوں اور بالخصوص راجا صاحب محمود آباد کے کتب خانے سے جس طرح نئے نئے موتی تلاش کر کے اہل علم و ادب کے سامنے پیش کرتے ہیں یقیناً آپ کا کارنامہ ہے اور آپ ہر طرح مبارک باد کے مستحق ہیں۔"(۱۰)

حیدریؔ نے مرثیہ گو شعرا  کے کلام کو یکجا کر کے تدوینی مراحل سے گزارا،اس میں چاہے کسی شاعر کاکوئی دیوان دستیاب ہو یا مجموعہ مراثی، ایک مرثیہ ہو یا فقط ایک بندحیدریؔ نے اسے قلم بند کرکے رثائی ادب کے خزانے میں اضافہ کیا۔ حسام الدین حیدرخان نامی جیسے مرثیہ گو شعرا  کا دیوان مرتب کیا۔ میرؔو سوداؔ اور مہربان جیسے شعرا  کے مراثی تلاش کر کے مرتب کیے اور مختلف شعرا  کے الحاقی کلام کو علیحدہ کیا۔ حیدری نے کئی مخطوطات کے وحید نسخے دریافت کیے جن میں دیوان افسردہ ،خلیق کا دیوان سلام اور دیوان رقت نسخہ آصفیہ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ حیدری کا تحقیق وتدوین کے حوالے سے ذوق و شوق بلکہ جنون کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کلیات تجلی کو نقل کیا۔ اس حوالے سے حیدریؔ لکھتے ہیں :

" اب یہ کتاب بہت کمیاب ہو گئی ہے۔ راقم کے کتب خانے میں اس کی مکمل نقل معہ مقدمہ موجود ہے جو چار ضخیم رجسٹروں میں نوسوصفحات پر مشتمل ہے"۔(۱۱)

حیدریؔ کی تدوینی کتب میں شامل وقیع مقدمات، اشاریہ مراثی اس بات کے شاہد ہیں کہ انھوں نے تحقیق و تدوین کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کیااور رثائی ادب میں قابل قدر اضافہ کیا یوں وہ ایک اہم مرثیہ شناس کے طورپر ابھرتے ہیں۔ انیس و دبیر مرثیہ شناسی کا زریں باب ہیں اور یہی اکبر حیدری کا تحقیقی اختصاص بھی ہے اور ان کی تحقیقات و تصنیفات کا ایک بڑا حصہ انیس و دبیر کے حوالے سے ہے۔ فردوسی ہند انیسؔ کو بھرپور انداز میں متعارف کروانے کا سہرا شبلیؔ کے سر ہے۔ ان کی کتاب "موازنہ انیس و دبیر" تقابلی تنقید کا شان دار نمونہ ہے۔ ڈاکٹر شارب ردولوی، ڈاکٹر ارشاد نیازی کے حوالے سے "تنقیدی مباحث اور شبلی کا نظام نقد" میں لکھتے ہیں:

"اگرشبلی نے موازنہ انیس و دبیر نہ لکھا ہوتا تو مرثیہ کو ادب میں وہ مرتبہ نہ حاصل ہوتا جو آج حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو مراثی کی تاریخ و تنقید میں شبلی کو ارسطو اور موازنہ کو مرثیہ کی بوطیقا کا درجہ حاصل ہو گیا۔"(۱۲)

اکبر حیدری کا تحقیقی مزاج کو رانہ تقلید کے بجائے اجتہادی روش کا حامل تھا۔ حیدری نے شبلی کی "موازنہ انیس و دبیر" میں بھی شبلی پر انیس کی مدلل مداحی کا الزام لگایا اور اپنی تحقیقات سے یہ ثابت کیا کہ دبیر انیس سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ بلکہ دونوں باکمال شعرا اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ کچھ خوبیوں میں ایک دوسرے سے  ممتاز ضرور تھے لیکن  مرتبے میں یکساں تھے۔ حیدری اپنے تحقیقی حاصلات میں اس حوالے سے رقم طراز ہیں:"حق تو یہ ہے کہ اردو مرثیے کی تاریخ میں انیس و دبیر کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور دونوں کا نام جب تک اردو زبان کا سکہ جاری رہے گا، ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ لیا جائے گا۔"(13) انیس کے حوالے سے ان کی تنقیدی خدمات کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ "انیس بحیثیت رزمیہ شاعر" ہے۔ شبلی، اثر لکھنوی، امدا د امام اثر،ڈاکٹر مسیح الزمان اور ڈاکٹر احتشام حسین نے اگرچہ اس موضوع پر لکھا ہے لیکن جس مربوط اور مدلل انداز میں حیدری نے انیس کے رزمیہ پہلوئوں پر گفتگو کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی Epic poetryکے سامنے مراثی انیس کو بلا جھجک رکھا جا سکتا ہے اور انیس ایک اہم رزمیہ شاعر ہیں، قابل تحسین ہے۔ غلام السیدین ان کے مقالے کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

" یہ اردو  تنقیدی ادب میں ایک سودمند اور گراں قدر اضافہ ہے جس محنت اور سلیقہ سے آپ نے اسے ترتیب دیا وہ یقیناً لائق صد آفرین ہے۔ آج تک انیس پر ایسا مقالہ دیکھنے میں نہیں آیا۔"(۱۴)

حیدری کے مقالات بھی ان کی کتب کی طرح علمی و ادبی خزانوں سے معمور ہیں۔ رزمیہ شاعری کے حوالے سے بھی ان کے کئی مقالات مختلف رسائل و جرائد کی زینت بنے ہیں۔ حیدری کے تنقیدی مطالعات میں انیس کی شاعرانہ خوبیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو شاعری سے اگر انیس کو نکال دیا جائے تو اس کا رنگ پھیکا اور بے کیف ہو جائے گا۔ حیدری نے معترفین انیس مثلاً کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، ڈاکٹر محمد احسن فاروقی اور نیاز فتح پوری کے نظریات کے بر خلاف اپنے حاصلات مطالعہ پیش کیے ہیں۔حیدری، انیس کے یہاں مضامین نو کے بجائے بیان نو کی خوبیاں دیکھتے ہیں۔ اسی بنا پر انیس کا قلم معاملات رزم ہو کہ بزم ہر منظر کو لفظوں میں سمیٹنے پر قادر ہے۔ حیدری کی تحقیقات کا دائرہ زیادہ تر کلام انیس اور مقام انیس کے حوالے سے ہے لیکن انیس کے شخصی اور سوانحی معلومات کے حوالے سے بھی وہ نئے نئے پہلووں کو سامنے لائے ہیں۔ اس حوالے سے حیدری کے مضامین "میر انیس۔۔۔بعض نئی معلومات" اور "انیس کے متعلق بعض غلط فہمیوں کا ازالہ" اہم مضامین ہیں۔ انیس کے حوالے سے حیدری کے تدوینی کارناموں میں باقیات انیس کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ حیدری نے اس میں انیس کے 29 مراثی مرتب کیے۔ اس کتاب کو نقوش کے انیس نمبر کے طورپر شائع ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حیدری نے کلام انیس کو الحاق سے پاک کرنے کی سعی بلیغ بھی کی ہے۔ نیز انیس کے غیر مطبوعہ مراثی پر مضامین  قلم بند کیے ہیں۔ حیدری کے یہ کتب و مقالات انیس کے حوالے سے ان کی خدمات کا مظہر ہیں اور حیدری کی بطور ماہر انیس شناس اہمیت کے ضامن بھی۔

انیس کے علاوہ دبیر کے حوالے سے حیدری کے مطالعات بھی قابل ذکر ہیں۔ حیدری اس امر کے شاکی تھے کہ دبیر کو ناقدین بالخصوص انیسوں نے کم تر ثابت کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ اس سلسلے میں حیدری نے شبلی، آزاد اور دیگر ناقدین کا تقابلی مطالعہ کیا اور ان کی تحقیقات سے اختلاف کرکے نئے حقائق سامنے لائے۔ ان کی کتاب "شاعر اعظم مرزا سلامت علی دبیر" اس حوالے سے خاصی اہم ہے۔" باقیات دبیر" میں حیدری نے دبیر کے نایاب غیر مطبوعہ مراثی کو مدون کیا ہے۔ "انتخاب مراثی دبیر" بھی دبیر شناسی میں ایک اہم اضافہ ہے۔    دبیر کے سوانحی معلومات کے علاوہ کلام دبیر کا ناقدانہ جائزہ بھی ان کی نگارشات کا حصہ ہے۔ جس کا تاروپور نہ صرف ان کی تحقیقی و تنقیدی نظریات سے عبارت ہے بلکہ معاصرین کے مطالعات بھی ان کے زیر نظر رہے۔ جس سے ان کی تحقیق و تنقید عمیق تر ہو گئی ہے۔ حیدری کا ایک اہم کارنامہ دبیر کی کتاب "ابواب المصائب" کی دریافت ہے۔ دبیر نے اس میں حضرت یوسف کے واقعات پر آل عبا کے مصائب بیان کیے ہیں۔ حیدری لکھتے ہیں: " مصائب کربلا پر مرزا سے ایک نثری مجموعہ بھی یا دگار ہے۔ اس تصنیف کا نام ابوالمصائب ہے۔ یہ کتاب مدت دراز سے  نایاب ہے اور "حیات دبیر" کے  مصنف کو بھی دستیاب نہ ہوئی۔"(۱۵)

اشاریہ سازی بھی حیدری کا ایک خاص میدان ہے۔ انیس و دبیر کے مراثی کے اشاریے مرتب کر کے حیدری نے آنے والے محققین کی راہیں آسان کردی ہیں۔بے شک ان کا انیس فہمی اور دبیر شناسی میں اہم مقام ہے۔ نہ صرف کتب و مقالات بلکہ ان کے خطوط بھی علمی مباحث، تبصروں، مملوکہ مواد، تحقیقی ماخذات ،قدیم نسخہ جات، تذکروں ،سوانح ،تریدات و انکشافات کے حوالے سے رثائی ادب کی تحقیق و تنقید کا ایک اہم باب ہے۔ ان کے خطوط بھی غیر مطبوعہ صورت میں مشاہیر ادب کے پاس موجود ہیں جو خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حیدری کی علمی و ادبی اور تحقیقی و تنقیدی خدمات ہمہ جہت ہیں جو انھیں معاصرین سے ممتاز کرتی ہیں۔ بالخصوص رثائی ادب میں ان کی تحقیقات اور تدونیات نے گہرے اثرات مرتب کیے اور گراں قدر اضافے کیے۔ مرثیے کی تاریخ و ارتقا پر گفتگو ہو یا فردوسی ہند کو رزمیہ شاعر ثابت کر کے داد تنقید حاصل کرنا، میر خلیق کے نایاب مراثی کی دریافت و اشاعت ہو یا دبیر کی شاعرانہ عظمت کو ثابت کرنا۔ یہ سب کارنامے ان کی مرثیہ شناسی کے غماز ہیں۔ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچتا ہے کہ اردو ادب اور بالخصوص رثائی ادب کی کوئی تاریخ ڈاکٹر اکبر حیدری کے ذکر اور ان کے کارناموں کے بیانات کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

حوالہ جات

۱۔      جاوید احمد قدوس، "پروفیسر اکبر حیدری:تحقیق کا امام"، اکبر حیدری نمبر،حکیم الامت 2012، سری نگر ، صفحہ 39
۲۔     نیر مسعود، "پروفیسر اکبر حیدری کی تصنیف(ڈی لٹ مقالہ) اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقا"، مشمولہ ہماری زبان دہلی، یکم جون 1982، صفحہ 27
۳۔     ظہور الدین احمد، پروفیسر، "کشمیر میں تحقیق و تنقید"، مشمولہ بازیافت جشن زریں نمبر ، شعبہ اردو جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی،2007، صفحہ 110
۴۔     ناصر مرزا، "ایک شمع تھی دلیل سحر"، مشمولہ اکبر حیدری نمبر حکیم الامت ،سری نگر، 2012  صفحہ 48
۵۔     جعفر بٹ، "ڈاکٹر اکبر حیدری: حیات و فن"، مقالہ برائے پی ایچ ڈی اردو کشمیر یونی ورسٹی،1995، ٖصفحہ 179
۶۔     اکبر حیدری ، ڈاکٹر، "مکتوب بنام رثائی ادب کے ایڈیٹر(ہلال نقوی)، مطبوعہ رثائی ادب شمارہ نومبر دسمبر 2012، صفحہ 84
۷۔     اکبر حیدری، ڈاکٹر، "میر ضمیر کی نادر مثنویاں مظہر العجائب و نسخہ محبت"، تحقیق و انتقاد ،ادبستان کشمیر، دسمبر 1966، صفحہ 138-137
۸۔     اکبر حیدری، ڈاکٹر، "شمس الرحمن فاروقی کے مضمون کے جواب میں"، رثائی ادب کراچی، جولائی 2003، صفحہ 17
۹۔     یوسف سرہندی، "تبصرہ تحقیقی جائزے از اکبر حیدری"، صحیفہ شمارہ 52، جولائی 1970، صفحہ 137۔136
۱۰۔    اکبر حیدری، ڈاکٹر، "ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری"، خود نوشت حالات"، القلم شمارہ 10 صفحہ 155
۱۱۔     اکبر حیدری ، ڈاکٹر، "میر حسن علی تجلی غیر مطبوعہ دیوان"، نوادرشمارہ 18 تا 19 ، 2007، صفحہ 36
۱۲۔    شاداب عالم ، ڈاکٹر، "تنقیدی مباحث اور شبلی کا نظام نقد"، کتاب سرائے لاہور، شبلی صدی 1914 تا 2014، صفحہ 121
۱۳۔    اکبر حیدری، "شاعر اعظم مرزا سلامت علی دبیر" ، اردو پبلشرز ، تلگ مارگ، لکھنو، 1976، صفحہ 83
۱۴۔    اکبرحیدری، "میر انیس بحیثیت رزمیہ شاعر"، سرفراز قومی پریس لکھنو، 1965، صفحہ 4
۱۵۔    اکبر حیدری، "ابوالمصائب : ایک تعارف " ، رثائی ادب ، دبیر نمبر ، شمارہ 35، اگست 2013، صفحہ 601
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com