میرزا ادیب کے ڈراموں میں نفسیاتی شعور

ڈاکٹرنسیم عباس احمر۔ استاد شعبہ اردو، سرگودھا یونیورسٹی۔

ABSTRACT

Meerz Adeeb [1914-1999] notorious fiction writer and editor of Urdu, is honored for his realist themes and treatments. This article is an attempt to analyze the psychological underpinnings in his fiction. The article in detail covered his craft and knowledge of psychology specially characters that represents middle and lower middle class. Female characters in his fiction is also analyzed at length.

Key Words:     Literature and Psychology; Urdu; Urdu Fiction; Feminism in Urdu

 

میرزا ادیب کے ڈراموں میں انسانی نفسیات کی رمز کشائی کا عمل بھی اپنے زوروں پر دکھائی دیتا ہے۔وہ اِنسانی ذات کے پاتال میں اُتر کر اُس کی باطنی کش مکش اور تصادم کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔جِس میں اُن کی ژرف نگاہی اور مشاہدہ دونوں کی کارفرمائی ملتی ہے۔جنس، رنگ، نسل اور رشتے معاشرتی امتیازات، اِنسان کی شخصیت پر جس طرح اثر انداز ہوتے ہیں، میرزا ادیب اسے اپنے پورے تنوعات کے ساتھ اُجاگر کرتے ہیں۔بعض ڈراموں میں نفسیاتی ردعمل کے مظاہر اپنے جلوے دکھاتے ہیں اور بعض ڈراموں میں عورت کی نفسیات واضح نظر آتی ہیں۔نفسیاتی رد عمل کے حامل ڈراموں میں ''بارش'' اور ''کھڑکی'' اہم ڈرامے ہیں۔ڈراما ''بارش '' میں ایک بچی کی نفسیاتی اُلجھنوں کو پیش کیا گیا ہے جو ساری زندگی اُس کے ساتھ رہتی ہیں اور سوائے غم زدہ ہونے کے کچھ حصول نہیں ہوتا۔وہ بچی اپنے باپ کی موت کی ذِمہّ دار ، اپنی ماں کی بے پروائی اور فرض سے روگردانی کو قرار دیتے ہوئے اُسے مجرم تصور کرتی ہے کیوں کہ جب اُس کا باپ شدید بارش میں بھیگتا ہوا گھر پہنچتا ہے تو ماں عدم توجہی برتتے ہوئے بدستور سوئی رہتی ہے اور باپ کی صحت کا خیال نہیں کرتی ، یوں باپ نمونیہ کے باعث مر جاتا ہے۔باپ کی اِس طرح موت، بیٹی کے لیے نفسیاتی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جب بھی شدید بارش اور گرج چمک کی آواز سنتی تو خوف زدہ ہو جاتی کیوں کہ اُس کے ذہن میں وہی رات زندہ ہو جاتی جس رات اُس کا باپ بارش میں بھیگتا ہوا آ یا تھا اور جو بارش اُس سے اُس کے باپ کی محرومی کا سبب بنی۔اِسی طرح نیم بے ہوشی کی حالت میں ''مجرم'' اور ''سنگ دل'' کے الفاظ ادا کرتی رہتی ہے جو اس کے باطن میں موجود بے چینی اور اضطراب کے غماز ہیں۔انھی الفاظ کے مصداق وہ اپنی ماں سے بے اعتنائی برتتے ہوئے اس کی عزت نہیں کرتی مگر اندر ہی اندر اُس کے ضمیر پر ایک بوجھ بھی رہتا ہے کہ اُس نے اپنی ماں کے حقوق ادا نہیں کیے۔یہی وجہ ہے کہ ماں کے لیے اُس کی محبت اُس وقت جاگتی ہے جب اُس کی ماں مرنے کے قریب ہوتی ہے ۔اُس کے ضمیر کا بوجھ اُسے مجبور کرتا ہے اور وہ اپنی ماں سے رو رو کر اپنے رویے پر معافی مانگتی ہے ۔میرزا ادیب نے اس ڈرامے میں خانگی زندگی کے دو بنیادی عوامل مرد اور عورت کے آپس کے تعلق کے نتیجے میں بیٹی کی شخصیت میں پیدا ہونے والی الجھنوں کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔

ڈراما ''کھڑکی'' میں پچھتاوے کے نفسیاتی اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔بعض اوقات بچپن کا ایک واقعہ، ساری زندگی کے لیے اذیت کا سبب بن جاتا ہے۔ایسی ہی اذیت شکیلہ کو سہنا پڑتی ہے جو ساری زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتی ہے۔زبیر اپنی بیوی شکیلہ کی کچھ ابنارمل حرکات کی بناء پر اپنی ماموں زاد بہن، ماہرِ نفسیات، راحت سے استفسار کرتا ہے کہ شکیلہ جونہی گھر میں کوئی کھڑکی کھلی دیکھتی اُسے بند کر دیتی ہے۔رات کے وقت وہ کھڑکی کھول کر سوتا ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو شکیلہ کھڑکی بند کرچکی ہوتی ہے اور پوچھنے پر صاف انکار کر دیتی ہے۔شکیلہ کا یہ طرزِ عمل اُس کے ساتھ بیتے ایک واقعے کا ردعمل ہے جس میں خوف اور پچھتاوا رچ بس گئے ہیں۔راحت نفسیاتی طریق کار کے مطابق مختلف سوالات کے ذریعے شکیلہ کے بچپن کا وہ راز دریافت کر لیتی ہے جس کے سبب اُس کے رویے ابنارمل ہیں۔گھر کی اس کھڑکی کو بند کرنے کی وجہ کھڑکی سے نظر آنے والا پہاڑ تھا اور پہاڑ کی حقیقت یہ ہے کہ بچپن میں اسی پہاڑ پر وہ اپنی سہیلی کے ساتھ سیر کے لیے گئی تھی۔پہاڑ پر پہلے پہنچنے کی خواہش میں دونوں بھاگتی ہیں ۔ ایک جگہ رضیہ اُس سے آگے نکلتی ہے تو شکیلہ اُسے دھکا دے دیتی ہے۔وہ نیچے پتھروں کے درمیان گر جاتی ہے اور لہو لہان آخری سانس لیتی ہوئی مر جاتی ۔یہ راز شکیلہ کے تمام عمر خود کو مجرمہ سمجھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔جیسےہی وہ پہاڑ اُس کی نظروں کے سامنے آتا ہے اُس کے سامنے اُس کا بھیانک ماضی زندہ ہو جاتا ہے اور پچھتاوا اُسے ذہنی و جذباتی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔شکیلہ کی اسی منتشر شخصیت کے سبب وہ اپنے اس بیتے کل سے آنکھیں نہیں ملا پاتی اور ہر وقت سہمی ہوئی رہتی ہے۔کھڑکی کے بار بار بند کرنے کے عمل میں دراصل اُس کا حقیقت سے فرار کا رویہ ظاہر ہوتا ہے۔راحت ، اس راز کو جاننے کے بعد اُس کے دل و دماغ سے اس واقعے کے تاثر کو مٹانے کی کوشش کرتی ہے تا کہ وہ اپنی صحت مند زندگی کی جانب واپس لوٹ سکے۔راحت اُسے سمجھاتی ہے کہ لاکھوں برس سے موجود اس پہاڑ کے سینے میں ہزاروں راز ہیں اور یہ راز چھپائے چپ چاپ کھڑا ہے اور ابد تک ایسے ہی رہے گا۔راحت، شکیلہ کی شخصیت کا تجزیہ کر کے اُس کا نفسیاتی علاج ان جملوں کی صورت میں کرتی ہے جس سے میرزا ادیب کا نفسیاتی شعور عکس ریز ہوتا ہے۔جملے ملاحظہ ہوں           :

"راز کو خود سے چھپانے کی کوشش میں تم نے اپنی شخصیت کو دو حصوں میں بانٹ لیا ہے۔ایک شخصیت وہ ہے جسے یہ راز معلوم ہے ۔ دوسری وہ جو اس راز سے بھاگنا چاہتی ہے۔دوسری شخصیت ، پہلی شخصیت سے دور رہنا چاہتی ہے۔متواتر بھاگ رہی ہے مگر بھاگ نہیں سکتی ۔بھاگ کر آخر جائے گی کہاں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچپن کی ایک معصوم شرارت تمہارے لیے ایک جرم بن گئی ہے۔" (۱)

میرزا ادیب کے ڈراموں میں نفسیاتی شعور پوری طرح ظاہر ہوتا ہے ۔ان کے ڈراموں میں انسان کے داخل میں ہونے والی نفسیاتی کشا کش کی اہمیت کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

"انسانی ذات کی کش مکش اور اس سے جنم لینے والا المیہ میرزا کا محبوب موضوع رہا ہے اور ایک باب کے نسبتاً مختصر ڈراموں میں جس کامیابی سے میرزا نے انسانی سائیکی کو اُبھارا ہے یہ کچھ اُس سے مخصوص ہے۔''(۲)

ان کے ڈراموں میں عورت کی نفسیات کے حوالے سے بھی ان کا نقطۂ نظر سامنے آتا ہے،جس میں معاشرے میں سانس لیتی جیتی جاگتی عورت واضح طور پر اپنی جھلک دکھاتی ہے۔رشتوں کے اعتبار سے عورت کی مختلف حیثیتیں اور ان حیثیتوں سے منسلک رویے اور نفسیات کی پیش کش میں اُن کا نفسیاتی شعور دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔عورت کے کردار کی خوبیاں اور خامیاں؛ دونوں اُن کے ڈراموں میں دکھائی دیتی ہیں۔عورت کا ایثار، وفاداری، خلوص اور مظلومیت کی تصویر کی پیش کش کے ساتھ ساتھ خود مختاری کی خواہش، بہتان طرازی ، ضعیف الاعتقادی، خود غرضی، غیبت، اندھا اعتماد اور طمع و لالچ کے نفسیاتی تجزیے جا بہ جا نظر آتے ہیں۔اُن کے ڈراموں میں نظر آنے والی عورت زیادہ تر گھریلو عورتیں ہیں جن کی وساطت سے وہ گھریلو نفسیات کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ نسائی شعور کا بھی پتہ دیتے ہیں۔

جن ڈراموں میں عورت کی نفسیات واضح ہوتی ہے اُن میں ؛''اپنا گھر ، نئی ہمسائی اور اپنا اپنا راگ'' اہم ہیں۔ڈراما ''اپنا گھر'' میں صفیہ کے بہ طور بہو اور نند کے متضاد صورتِ حال، رویوں اور نفسیات کو بیان کیا گیا ہے۔اس ڈرامے میں عورت کی نفسیات کو اُس کے مختلف رشتوں اور سماجی مراتب کی تبدیلی کی صورت میں نمایاں کیا گیا ہے۔ہر عورت اپنی مرضی اور اختیار کے حصول میں ایک وقت میں ایک بات کو درست سمجھتی ہے اور دوسرے لمحے پچھلے گھر میں اپنی کہی ہوئی باتوں کی متضاد تشکیل کرتے ہوئے اُس پر ڈٹ جاتی ہے۔ہر بیوی اپنے گھر میں اپنی خود مختاری کی خواہاں ہے۔ایک گھر میں وہ ساس سے نبرد آزما ہے تو دوسرے گھر میں وہ نند سے مقابلہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔اشرف کے گھر میں صفیہ بہ طور بیوی اپنے حقوق اور آزادی مانگتی ہے دوسری طرف مسعود کے گھر میں شائستہ بہ طور بیوی اپنی خود مختاری کی خواہاں ہے۔اسی طرح ہر ساس یا نند بھی اپنی حکمرانی کے خواب دیکھتی ہے۔صفیہ چوں کہ اپنے گھر میں بہن بھائیوں میں بڑی ہوتی ہے لہٰذا ماں باپ کا سایہ، جلد سر سے اٹھ جانے کے سبب وہ گھر کی تمام ذمہ داریاں خود نبھاتی ہے جس کے سبب اُسے اپنے گھر میں مکمل آزادی اور خود مختاری حاصل ہوتی ہے اور جب اُس کی شادی اشرف سے ہوتی ہے تو سسرال میں اس کے سسر جمیل، ساس مسز جمیل اور شوہر کی خالہ حشمت بھی تھے۔وہاں اپنے گھر والی آزادی اور خود مختاری حاصل نہ ہونے کے باعث سسر اورساس سے ہر وقت نوک جھونک رہتی ۔سسر ساس صفیہ کی گھر کے لیے ضروری چیزوں کی خریدار ی کو فضول خرچی پر محمول کرتے ہیں اور صفیہ سسر ساس کو حسنِ ذوق سے محروم اور پرانے رسوم و رواج کارسیا سمجھتی ہے۔ اسی اختلافی صورتِ حال کے سبب وہ اپنے گھر واپس آ جاتی ہے جہاں اس کے چھوٹے بھائی مسعود کی بیوی شائستہ ہوتی ہے اور جو اس گھر کو اب اپنا گھر سمجھتے۔صفیہ بہ طور نند، اپنے سابقہ اختیارات اور آزادی کو استعمال کرتے ہوئے شائستہ کی خریدی گئی اشیا کو فضول خرچی کے زُمرے میں لاتی ہے۔شائستہ جب پرانے فرنیچر کو تبدیل کرنے کا اِرادہ ظاہر کرتی ہے تو صفیہ یہ سوال دراز کرتی ہے کہ پرانے وقتوں کی کیا ہر چیز اپنی قدرو قیمت کھو دیتی ہے؟یہ سوال دراصل وہ اپنے ماں باپ کے گھر میں اپنے مقام کے تعین سے متعلق ایک خود کلامی ہے۔

مذکورہ ڈراما عورت کی نفسیات اور رشتوں کی نوعیت بدلنے سے جنم لینے والے تضاد کی صورت کو سمجھنے کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔اُن کے ڈراموں سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ عورت کی زندگی میں درپیش بہت سی مشکلات اور اذیتوں کا سبب بھی عورت ہی ہے جو اپنے مزاج میں موجود شک ، بہتان طرازی اور باتیں بنانے کے سبب دوسری عورت کے لیے تکلیف کا سبب بنتی ہے۔اِس حوالے سے ان کاڈراما ''نئی ہمسائی'' بھی اپنی خصوصی معنویت کا حامل ہے۔اس ڈرامے میں محلے کا منظر کھینچا گیا ہے جس میں محلے کی چھ عورتیں؛ زینت، رشیدہ، جمیلہ، نگہت اور رقیہ کے مابین ہونے والی گفتگو، عورت کی نفسیاتی کیفیات سے آشنائی کا وسیلہ بنتی ہے۔یہ خواتین پچھلے چھ ماہ سے محلے میں آنے والی نئی ہمسائی کے بارے میں معلومات کی جمع آوری کرتی ہیں ۔میل ملاپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ خواتین کے لیے ایک معمہ بن چکی ہے۔محلے کی خواتین؛ رشیدہ، زینت، جمیلہ، نگہت اور رقیہ، نئی ہمسائی کے بارے میں ٹوہ لگاتی رہتی ہیں اور مختلف کہانیاں سناتی ہیں۔رشیدہ نئی ہمسائی کے بارے میں یہ انکشاف کرتی ہے کہ اسے کسی سے گہری محبت تھی، بچپن میں اکٹھے کھیلتے تھے، رشتہ دار تھے، خیال تھا زندگی اکٹھے گزاریں گے مگر دنیا والے سنگدل نکلے اورشادی کہیں اور ہو گئی ۔البتہ محبت کا زخم نہ بھرا، ایک دن محبوب کا خط شوہر کے ہاتھ لگا، تلخی ہوئی اور شوہر سے الگ ہو کر رہنے لگی۔زینت جمیلہ کو اس کا راز اس شرط پر بتانے پر راضی ہوتی ہے کہ کسی کو بتانا نہیں۔جمیلہ اپنے سینے کو سمندر قرار دیتی ہے اور لگائی بجھائی سے نفرت کا یقین دلاتی ہے۔زینت کی نئی ہمسائی سے متعلق انکشافات کو رشیدہ کی اپنی زندگی کا واقعہ قرار دینے کے بعد اپنے تئیں نئی ہمسائی کی اصل کہانی سناتی ہے ۔اس کے نزدیک نئی ہمسائی کو بچپن سے ایکٹرس بننے کا شوق تھا، گھر والوں کی مخالفت کے باعث گھر سے نکل آئی اب سارا دن فلمی کمپنیوں کے دفاتر کے چکر لگاتی ہے اوراس راز کے معلوم ہو جانے کے ڈر سے کسی سے ملنے جلنے میں تا مّل برتتی ہے ساتھ ہی اُس کے جوانی میں فلمی رسالے پڑھنے کے شوق سے متعلق بھی آگاہ کرتی ہے۔زینت بھی دراصل اپنے خوابوں کی تعبیر نئی ہمسائی میں ڈھونڈ رہی ہے۔اس کے نزدیک وہ کسی کے ساتھ گھر سے بھاگ آئی تھی اور اب وہ بھی اُسے چھوڑ کر چلا گیا ہے۔زیور بیچ کر گزارا کر رہی ہے۔نگہت کے چلے جانے کے بعد رشیدہ جمیلہ کو بتاتی ہے کہ یہ تو خود نگہت کی کہانی ہے۔رقیہ دھماکے دار خبر کا عندیہ دیتے ہوئے داخل ہوتی ہے کہ اس کا میاں، کسی مقدمے میں گرفتارہونے کے سبب جیل میں ہے لہٰذا اُس نے سسرال اور والدین پر بوجھ بننے کی بجائے کسی دفتر میں ملازمت کر لی ہے۔نگہت، رقیہ سے اُس کے شوہر پر رشوت کے الزام کے بارے میں پوچھتی ہے تو وہ سیخ پا ہو جاتی ہے۔میرزا ادیب عورتوں کی عادات اور راز و نیاز کا پول یوں کھولتے ہیں:

"تم سب کی سب اپنی نئی ہمسائی شکل میں اپنا ماضی دیکھ رہی ہو۔اپنے اندیشوں کی پرچھائیں محسوس کر رہی ہو۔ تمہارا ماضی ابھی تک تمہارے اردگرد منڈلا رہا ہے۔تمہارے اندیشے دھواں بن کر تمہارے دماغوں پر چھائے ہوئے ہیں۔اس عورت کو تم نے ایک معما بنا دیا ہے۔۔۔میں خود اس کے پاس جاتی ہوں اور اس کی زبانی اس کے حالات سنتی ہوں" (۳)

اس ڈرامے میں عورتوں کی نفسیات ''جتنے منہ اتنی باتیں'' والی کیفیت موجود ہے اور آئینے میں ہر کسی کو اپنی تصویر کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ڈراما ''اپنا اپنا راگ'' میں عورتوں کاباتیں بنانا، طعنے، طنز، گلے شکوے اور رشتے کروانے والیوں کے طریقِ گفتار و عمل کو نمایاں کیا گیا ہے۔بیگم غیاث متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جواپنی بیٹی ثریا کا رشتہ کروانا چاہتی ہیں۔محلے کا ایک لڑکا ڈاکٹر جلیل، جس کی ماں اور باپ انتقال کر چکے ہیں، اپنے رشتہ کی بات کرنے کے لیے آتا ہے، ابھی وہ اپنا مدعا بیان نہیں کر پاتا کہ بیگم غیاث اُس سے باتوں باتوں میں کوئی اور ہی معنی اخذ کیے بیٹھتی ہے۔بیگم غیاث ڈاکٹر جلیل سے ملاقات کے دوران اُسے ڈاکٹروں کی خوب کمائی بلکہ لوٹ مار مچانے کا طعنہ دیتی ہے۔بعد ازاں اُس کے پان نہ کھانے کو بدذوقی قرار دیتی ہے اور ماں باپ کی وفات کی خبر نہ دینے کا گلہ کرتی ہیں۔وہ خود زیادہ بولتی ہے اور ڈاکٹر جمیل کی ادھوری باتوں کو معنی پہناتی ہے۔اُس کی نامکمل بات سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ اُس کی ڈاکٹر ی نہیں چل رہی اور وہ مدد کا طلب گار ہے۔رشتہ کروانے والیوں کے رویے، رقیہ، طلعت اور نزہت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو مختلف رشتے بتاتی ہیں۔رقیہ، محمد یعقوب کا رشتہ بتاتی ہے، جو جنگلات کے محکمے میں ٖلازم ہے اور جس کی بالائی آمدنی بھی خوب ہے۔طلعت، نور دین انجینئر کے صاحب زادے کا رشتہ بتاتی ہے۔اور دونوں رشتہ کروانے والی ایک دوسرے کو ایک ہی جگہ پر دیکھ کر طنز کے تیر چلاتی ہیں۔طلعت، رقیہ کو کنویں کا مینڈک تک کہہ دیتی ہے۔اس ڈرامے میں گھریلو اور کاروباری خواتین کی نفسیات کو بہت عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

میرزا ادیب کے ڈراموں میں معاشرتی حیثیت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ معاشرتی مسائل کے بڑے نباض ہیں اور ان مسائل کی وجوہات کے بیان پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک معاشرے کے منفی اورقابلِ مذمت کردار، دراصل معاشرتی پس منظر اور معاشرتی رویوں کے رد عمل کے طور پر ہی منفی بنتے ہیں۔اِنسان کے تمام رویے اُس کے معاشرتی پس منظر کے مرہونِ منت ہیں۔چور، ڈاکو، شرابی اور طوائف پیدائشی نہیں ہوتے بلکہ اُن کا خاص پس منظر انھیں یہ بننے پر مجبور کرتا ہے۔حالات کا بہاؤ اِنسان کے مخصوص طرزِ عمل کی سمت نمائی کرتا ہے۔میرزا ادیب کے بہت سے ڈراموں میں یہ منفی کردار خواہش کے باوجود معاشرے میں عزت و وقار حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔اِنسان کی شخصیت کی پیچیدگیوں کے اظہار، رویوں اور معاشرتی پس منظر کے بیان کے حوالے سے اُن کے اہم ڈراموں میں؛''سحر سے پہلے''، ''سیکرٹری'' اور ''علاج'' شامل ہیں۔''سحر سے پہلے'' میں چور اور طوائف کے اُن حالات کا بیان ہے جنھوں نے انھیں معاشرے کے باعزت و باوقار دائرے سے الگ کر دیا۔ایک چور، بوڑھی طوائف زہرا کے گھر چوری کے لیے آتا ہے جو زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہے اور اُس کی منہ بولی ماں کے عزیز رشتہ دار بھی اُسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ۔چور اور طوائف کی باہمی گفتگو، یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ انسان سے حالات سب کچھ کرواتے ہیں۔کسی کا چور بننا یا گناہ کا راستہ اختیار کرنا، معاشرے کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔چور، ڈاکو، شرابی، طوائف، اگرچہ معاشرے کے ناسور ہیں لیکن اُن کے اندر موجود انسان، مہذب معاشرے کے معزز انسانوں سے بڑھ کر انسانیت کا شعور رکھتے ہیں۔زہرا کو حالات نے طوائف بنا دیا تھا۔ماں باپ کی وفات کے بعد رشتہ دار پہلے یتیم خانے میں داخل کرا آئے بعد ازاں اُسے فروخت کر دیا۔شہر کے معززین اُس کے گاہک بن کر بھی معزز رہے اور وہ قابلِ نفرت، ذلیل، بیسوا اور رنڈی کہلائی۔ڈرامے میں مذکورہ چور کو چور بنانے میں مال دار گھرانے کے مالک نے کردار ادا کیا۔وہ ایک معمولی نوکر تھا۔مالک نے چوری کا الزام لگا کر گھر سے نکال دیا۔ناکردہ گناہ پر معافی کے بعد پھر وہیں چلا گیا۔مالک کی گھڑی گم ہوئی تو اُسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔جیل سے رہا ہوا تو کوئی نوکر رکھنے کو تیار نہ تھا۔بھوکوں مرنے سے نجات پانے کے لیے اُس نے وہی بننا پسند کیا جو معاشرے نے اُسے روپ دیا ۔ڈراما ''سیکرٹری'' میں انسان کا جو تصور ابھرتا ہے وہ انسانیت کی افضلیت کے مقابلے میں فلسفہ، منطق اور عقلی باتوں کی ثانویت کا ہے۔یہاں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ انسان پتھر یا مشین نہیں اور فلسفی یامنطقی بھی بعد میں ہے مگر انسانیت کا پیکر انسان اولیت کا حامل ہے۔ڈرامے میں فلسفے کے پروفیسر کو ایسے سیکرٹری کی ضرورت تھی جو وقت اور فلسفیانہ اُصولوں کا پابند ہو اور اس کے دل و دماغ فلسفیانہ تفکر میں ڈوبے ہوں۔ایک نوجوان محمود نیازی انٹرویو کے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے آ جاتا ہے اور پروفیسر اُسے سیکرٹری رکھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔انکار کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس نے فلسفی کانٹ کا مطالعہ نہیں کیا اور اُس کا انداز زیست منطقی سے زیادہ شاعرانہ ہے ۔چونکہ شاعرانہ ذہن فلسفیانہ مسائل اور منطقی انداز میں سوچنے سے قاصر ہے اس لیے وہ سیکرٹری کے عہدے کے لیے موزوں نہیں ہے۔محمود نیازی کانٹ کا مطالعہ کر کے حاضر ہونے کا عہد کر کے چلا جاتا ہے۔عین اُسی وقت دوسرا نوجوان جبار آ تا ہے جو پروفیسر کی منطقی سوچ سے بڑھ کر منطقی ثابت ہوتا ہے۔وہ پروفیسر کی منطق کو اتنی بار لا جواب کرتا ہے اُس کے نزدیک پروفیسر کا اس کا نام دریافت کرنے کے لیے اسم شریف کہنا اور اشتہار میں تنخواہ درج ہونے کے باوجود تنخواہ پوچھنا غیر منطقی ہے۔پروفیسر اُس منطقی سوچ کو دیکھتے ہوئے اُسے فوراً سیکرٹری رکھ لیتا ہے۔ایک دن پروفیسر بیمار ہو جاتا ہے تو اُس کی بیٹی رضیہ اس کے گھر آئے شاگردوں کو واپس بھیج دیتی ہے ۔پروفیسر اپنی زندگی کے انیس سال بعد لیکچر نہ دے پانے کے سبب دُکھی ہو تا ہے۔رضیہ کو سیکرٹری سے چڑ ہو جاتی ہے کیوں کہ وہ انسان کم اور پتھر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔پروفیسر کی بیماری کے باوجود سیکرٹری آ کر نا مکمل ابواب کی تکمیل کے فرض سے پروفیسر کو آگاہ کرتا ہے۔پروفیسر بار باراُسے کہتا ہے کہ میرے سینے میں درد ہے لیکن سیکرٹری اپنے روزانہ کے فرائض کےمطابق باتیں اور بحث کرتاہے۔پروفیسر ڈاکٹر لانے کے لیے سیکرٹری کو پکارتا ہے ۔سیکرٹری ، ڈاکٹر کو بلانے کی بجائے کانٹ کے ناقدین کی فہرست بتانا شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ وقت ڈاکٹر کو بلانے کا نہیں بلکہ نوٹ لکھنے کا ہے۔پروفیسر جبار کہتا ہے کہ میں آپ جیسے منطقی سیکرٹری کے قابل نہیں ہوں اور اگریہاں رہنا چاہتے ہیں تو منطق کو دماغ سے نکالنا ہو گا ۔سیکرٹری سوال کرتا ہے کہ منطق کو دماغ سے نکال دیا جائے تو کیا باقی بچتا ہے؟ پروفیسر جواب دیتا ہے کہ دماغ سے منطق کو نکال دیا جائے تو انسان بچتا ہے اور انسانیت بچتی ہے۔کچھ دیر بعد محمود نیازی ڈھیر ساری کتابوں کے ساتھ حاضر ہوتا ہے۔کانٹ کے وسیع مطالعے کی خبر، پروفیسر کو سناتا ہے۔پروفیسر کی قلب ماہیت ہو چکی ہے وہ اُسے منطق کے بوجھ سمیت تشریف لے جانے کو کہتا ہے۔محمود نیازی پروفیسر کو اصل حقیقت بتاتا ہے کہ وہ کئی دن فلسفے میں سر کھپاتا رہا مگر منطقی نہیں بن سکا اور اب بھی کتابیں کسی سے مانگ کر لایا تھا۔اس ڈرامے میں میرزا ادیب نے منطق اور فلسفے کے باوجود جذباتِ انسانی ، اور انسانیت کی افضلیت کو انسان کی اصل معراج قرار دیا ہے۔

ڈراما ''علاج'' میں انسانی سوچوں کو اُس کا قاتل بتایا گیا ہے۔مسٹر صفدر ایک ذہنی دباؤ کا شکار مریض ہے اور اس کی بیوی اپنے شوہر کی قنوطیت سے بہت پریشان ہے وہ اُسے ، شوہر کے ڈاکٹر دوست سے ملنے کے لیے بھیجتی ہے اور ڈاکٹر سے فون پر اپنے شوہر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ڈاکٹر، صفدر سے اس کی طبیعت، سر درد اور ہاضمے کا احوال دریافت کرتا ہے۔جس سے صفدر زچ ہو جاتا ہے کیوں کہ اُس کے نزدیک وہ بیمار نہیں ہے البتہ وہ ہر وقت پریشان رہنے کا اعتراف کرتا ہے۔صفدر انسان کو دنیا میں مجبور محض خیال کرتا ہے اور دنیا کے تنگ و تاریک غار سے رخصت ہو جانے کی اپنی دیرینہ آرزو کا اظہار کرتا ہے۔ڈاکٹر اُسے ایک بے ضرر سفوف پلا کر اُسے اُس کی دیرینہ آرزو کے پورا کرنے کے اہتمام کی خبر دیتا ہے تو صفدر چونک جاتا ہے اور ڈاکٹر سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اسے بچا لے۔ڈاکٹر اُسے کہتا ہے کہ اب دنیا سے رخصتی کا انتطار کرے۔یہ سن کر صفدر مزید مضطرب ہو جاتا ہے۔صفدر تنگ آ کر ڈاکٹر کو قاتل قرار دیتا ہے اور جُونہی اُسے اپنے بیوی بچوں کا خیال آتا ہے تو دنیا سے رخصت کی اپنی فضول آرزو کو اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اُسے بچانے کے لیے کوئی دوسرا سفوف پلایا جائے۔بالآخر ڈاکٹر اُسے میٹھی دوا پلا دیتا ہے اور مسز صفدر کو فون کر کے صفدر کے بارے میں بتاتا ہے کہ صفدر نے چوں کہ زندگی کی عملی جدو جہد میں کوئی حصہ نہیں لیا لہٰذا فرصت کے لمحوں میں انسانی ذہن طرح طرح کے منتشر خیالات کا مرکز بن جاتا ہے ۔زندگی کی قدر کا احساس اُس کے اندر اُس وقت بیدار ہوتا ہے۔اس طرح ڈاکٹر صفدر کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اُس کے ذہنی دباؤ کا علاج کرتا ہے۔میرزا ادیب کے ڈراموں میں نفسیاتی مسائل اور ان کی وجوہات کی دریافت کا عمل، غالب رجحان کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔اس حوالے سے سجاد حارث لکھتے ہیں:

"میرزا ادیب ایک سچے فنکار کی طرح زندگی کا بڑا گہرا اور پر خلوص مشاہدہ و مطالعہ کرتے ہیں۔ وہ انسانی اذیتوں کے اسباب و علل معلوم کرنے کی سعی کرتے ہیں اور پھر اپنے مشاہدات کو حیرت انگیز توازن و اعتدال کے ساتھ ڈرامائی پیکر میں ڈھال دیتے  ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کےڈرامے نہ تو پر جوش خطابت اور صحافت کےنمونے ہیں، نہ ہی تجریدی آرٹ کے تمثیلی مرقع ہیں۔" (۴)

میرزا ادیب کے ڈراموں میں مجروح انا کی تسکین کے حوالے سے انسانی نفسیات کو اُجاگر کیا گیا ہے جس کی عکاسی اُن کے ایک ڈراما ''خواب گریز پا'' میں ملتی ہے۔سلیم کی اماں، اُس سے نہ صرف شدید محبت کرتی ہے بلکہ اُس پر اندھا اعتماد بھی کرتی ہے اور اُس کے دیر سے گھر آنے اور اتوار کو بھی دفتر جانے کو محنت کا دھنی تصور کرتی ہے۔سلیم کی منگیتر نگہت کاباپ ،سلیم کو ایک رقاصہ نسرین کے ساتھ تین مرتبہ دیکھ لینے کے باوجود اُسے اُس کی غلط فہمی تصور کرتی ہے۔ماں کا اپنے بیٹے پر حد درجہ اعتماد ماں اور بیٹے کے رشتے کے مابین محبت کا نفسیاتی رخ پیش کرتا ہے۔سلیم اپنی ماں کے سامنے رقاصہ نسرین کے ساتھ محبت کا اعتراف کرتا ہے۔دوسری جانب رقاصہ نسرین سلیم کلرک کی بجائے ایک دولت مند شخص کو اہمیت دیتی ہے۔رقاصہ نسرین کی نفسیات بھی یہاں واضح ہے۔رقیب سلیم کی شکست کا مذاق اڑانے اور ذلیل و رسوا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔سلیم اپنی مجروح انا کی تسکین اور رقیب کے طعن و تشنیع سے تنگ آ کر اُسے قتل کر دیتا ہے۔اس ڈرامے میں انسانی نفسیات کا باریک بینی اور گہرائی سے حوالہ ملتا ہے۔محبوب کا بے وفا ثابت ہونا ، غربت کا مذاق، رقابت کی آگ میں جلنے کے ساتھ تضحیک و طنز کے اثرات، اُسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں اور وہ عاشق سے قاتل بن جاتا ہے۔

ضمیر کی خلش کا اظہار، میرزا ادیب کے بہت سے ڈراموں کا موضوع بنتا ہے جن میں کرداروں سے غیر معمولی سوچ اور اعمال سر زد ہوتے ہیں جن کا سبب اکثر و بیشتر ضمیر کی خلش کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ماضی کا کوئی واقعہ یا غلطی اُنھیں نفسیاتی الجھن میں مبتلا کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ کبھی خود قاتل بن جاتے ہیں اور کبھی خود کشی میں اپنے لیے سکون کی تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ڈراما ''اجنبی'' میں دادا سے سرزد ہونے والا عمل، پوتے عزیز کے لیے مسلسل خلش اور تکلیف کا سبب بن جاتا ہے۔عزیز جس کوٹھی میں رہتا ہے وہ کوٹھی اس کے مالک نے بے انتہا محبت سے بنائی تھی مگر قرض خواہوں کے قرض ادا نہ کرنے پر وہ کوٹھی عزیز کے دادا کے حصے میں آتی ہے۔عزیز کو اکثر ایک سایہ وہاں گھومتا پھرتا نظر آتا ہے جسے وہ کوٹھی کے اصل مالک سے تعبیر کرتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ آرزو کی شدت انسان کو موت کی سرحد سے زندگی کی حدود میں کھینچ لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔وہ اس بات کی خلش محسوس کرتا ہے کہ اُس کے دادا کو وہ کوٹھی نہیں لینی چاہیے تھی۔عزیز کے ضمیر کی اس آواز کو اس وقت تسکین ملتی ہے جب وہ سایہ پکڑا جاتا ہے جو کوٹھی کے اصل مالک کا نہیں بلکہ ایک چور کا ہوتا ہے۔ڈراما ''بیٹا'' کا مرکزی کردار شبیر اپنی غلطی کے سامنے آ جانے پر، ذہنی دباؤ اور باطنی کش مکش کے نتیجے میں خود کشی کر لیتا ہے۔شبیر اپنے کلکتہ کے قیام کے دوران ایک رقاصہ شائستہ سے نکاح کر لیتا ہے ۔وہ لاہور واپس آ کر دوسری شادی کر لیتا ہے اور شائستہ کے ساتھ اپنی شادی اور ایک بیٹے کا راز اپنی بیوی زینت سے چھپا کر رکھتا ہے۔بہت سال گزر جانے کے بعد جب یہ راز فاش ہوتا ہے تو شبیر اپنی بیوی اور معاشرے کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور خود کشی کی صورت میں اپنی نفسیاتی الجھنوں اور دباؤ سے چھٹکارا پاتا ہے۔اس ڈرامے میں گناہوں پر پردہ ڈالنے اور ضمیر کو مطمئن رکھنے کی کوشش کے ساتھ حقیقت کا سامنا کرنے میں بزدلی کا رویہ نمایاں ہے۔

ڈراما ''دستک''ضمیر کی آواز کا عمدہ اظہاریہ ہے۔بوڑھے ڈاکٹر زیدی کو دروازے پر دستک ہونے کا وہم ستائے رکھتا ہے ۔بیگم زیدی، انھیں اطمینان دلاتی ہے کہ دروازے پر دستک نہیں ہو رہی بلکہ تیز ہوا کا شور ہے۔جب ڈاکٹر برہان سردی میں رات گئے ڈاکٹر زیدی کے طبی معائنے کے لیے آتا ہے تو بیگم زیدی، اُن کے واہمات سے متعلق اپنی پریشانی کا اظہار کرتی ہے۔ڈاکٹر برہان کے بار ہا اسرار پر ڈاکٹر زیدی، دستک سنائی دینے کو ماضی کی ایک دستک کے ساتھ ملا دیتے ہیں جو ان کے ضمیر کی خلش بن کر زندہ رہ جاتی ہے۔اٹھارہ بیس برس پہلے ایک رات دیر سے گھر پہنچنے اور تھکن سے چور ہونے کے سبب وہ لیٹ چکا تھا کہ نوکر نے بتایا کہ بڑے میاں کا پوتا شدید بیمار ہے جسے پہلے بھی انھیں سے شفا ہوئی تھی، وہ بوڑھا نوکر سے اصرار کرتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اُس کے ساتھ چلیں مگر ڈاکٹر زیدی نے سختی سے منع کر دیا۔بوڑھا مسلسل التجائیں کرتا رہا اور ڈاکٹر زیدی نے نوکر کے ذریعے اُسے زبردستی باہر نکلوا دیا۔اُس کے بعد بوڑھا نہ جانے کب تک دستک دیتا رہا۔صبح اٹھنے پر ڈاکٹر زیدی کا ضمیر ملامت کر رہا تھا اور یہ ملامت تا حال موجود ہے۔ڈاکٹر برہان کے ذریعے ایسا انکشاف سامنے آتا ہے جو ڈاکٹر زیدی کو ملامت کی اتھاہ گہرائیوں سے باہر نکالنے کا وسیلہ بنتا ہے۔ڈاکٹر برہان اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ اُس رات التجا کرنے والا بوڑھا اس کا دادا تھا اور وہ بیمار پوتا وہ خود ہے۔میرزا ادیب نے اس ڈرامے میں غیر معمولی انداز میں ضمیر کی آواز اور خلش کی پیش کش کی ہے۔میرزا ادیب کے ڈراموں میں ضمیر کی اقدار کی پاس داری اور خلش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی عکاسی کے حوالے سے فرزانہ سید لکھتی ہیں:

"ان کی تحریروں میں انسانی ہمدردیاں اور شخصی وقار موجود ہے۔وہ اپنی تحریروں میں درد مندی اور انسان  دوستی کا پرچار کرتے ہیں۔معاشرتی برائیوں پر بھی ان کی نظر ہے اور وہ ضمیر کی قدروں کے فروغ کے لیے اپنے خاص طرزِ نگارش سے کام لیتے ہوئے مقصدی اور افادی تحریریں اور ڈرامے تحریر کرتے ہیں۔''(۵)

ڈراما ''ابابیل'' بھی ضمیر کی خلش کو نمایاں کرتا ہے۔باپ شہاب اور بیٹا وسیم کے کرداروں کی صورت میں نفسیاتی کش مکش ظاہر ہوتی ہے۔شہاب ماضی میں ابا بیل کا شکار کیا کرتا تھا، شکار کے دوران اُس سے ایک عورت ہلاک ہو جاتی ہے۔عورت کے ہلاک ہونے کا دُکھ اُس وقت تو شہاب کو شدید صدمے سے دوچار نہیں کرتا اور وہ یہ واقعہ بھی بھول جاتا ہے مگر یہ بھولی بسری داستان اُس وقت زندہ ہو کر اُسے اذیت میں مبتلا کرتی ہے جب اُس کا بیٹا وسیم بھی ابا بیلوں کے شکار میں دلچسپی رکھتا ہے۔اُس کے بندوق خریدتے ہی باپ کو پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ کہیں یہ ابابیلوں کا شکار نہ کرے۔اُس کا خدشہ اُس وقت یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے جب شہاب گھر کی بالائی منزل پر موجود کمرے کی کھڑکی سے بہت سی ابابیلوں کو اڑتے ہوئے دیکھتا ہے اور پھر یہ بھی سنتا ہے کہ کسی شکاری کے ابا بیلوں کے شکار کے دوران ایک لڑکی زخمی ہو گئی ہے ۔شہاب، وسیم سے استفسار کرتا ہے تو پہلے پہل وہ نہیں بتاتا اور ناراض ہو کر گھر چھوڑ جاتا ہے کہ گھر والے وسیم کے گھر سے چلے جانے کا قصور وار شہاب کو سمجھتے ہیں۔وسیم کے ہاتھوں ایک لڑکی کا زخمی ہونا شہاب کے ماضی کے واقعے کو بھی اس کے ذہن میں زندہ کر دیتا ہے جو اُسے ماضی کی ایک خلش کی صورت میں مسلسل کسک میں مبتلا رکھتا ہے ۔حتیٰ کہ بیٹا، باپ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا ہے اور بیٹے کا یہ اعتراف باپ کے ضمیر کے بوجھ میں کمی کا وسیلہ بنتا ہے۔یوں بیٹا اپنے جرم کا اعتراف کر کے نہ صرف خود کو مطمئن کرتا ہے بلکہ باپ کو بھی ضمیر کی خلش سے نجات دلاتا ہے۔

میرزا ادیب انسانی ذہن میں ہونے والی افرا تفری اور کش مکش کی پیش کش میں خوب مہارت رکھتے ہیں جس سے وہ انسانوں کے منفی اعمال کی نفسیاتی توجیہ کی ایک صورت پیدا کرتے ہیں۔وہ انسانی سوچ اور شخصیت کی ہر زاویے سے عکاسی کرتے ہیں اور لاشعور میں پیوست ہونے والی جزئیات کے نتیجے میں بننے والے اعمال اور شخصیت کو کہانی کی صورت میں ڈھالنے کا ہُنر بہ خوبی جانتے ہیں۔وہ انسانی نفسیات اور شخصیت سازی کے ان محرکات کا بھی تجزیہ پیش کرتے ہیں جو گردو پیش کے ماحول کے ساتھ تضاداور فرار کی صورت میں المیوں کو جنم دیتے ہیں۔ڈراما ''حویلی'' میں خاندانی عظمت کی جھوٹی شان و شوکت برقرار رکھنے کے لیے حالات اور اقدار کے تقاضوں سے بے بہرہ انسانوں کے المیے کو بیان کیا گیا ہے۔ڈرامے کا مرکزی کردار ، مرزا اکبر بیگ اپنی حویلی کو اپنی خاندانی، عزت و عظمت کی نشانی سمجھتا ہے۔باپ کی عیاشی کے سبب قرضوں کا اتنا بوجھ پڑ جاتا ہے کہ جس کے لیے حویلی کو بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔مرزا اکبر بیگ حویلی کو بچانے کے لیے کوشش کرتا ہے اور ہر طرح کی اخلاقی قربانی دینے تک کے لیے تیار ہوتا ہے۔نوکری کرنے کے علاوہ وہ جوا کھیل کر، ڈربی کھیل کے ٹکٹ خرید کر حتیٰ کہ اپنی بیٹی کی شادی اپنی عمر سے بھی دس سال بڑے اور تین بیویوں کے شوہر سے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے کیوں کہ وہ شخص یہ یقین دلاتا ہے کہ وہ اُس کے تمام قرض ادا کر کے اس کی جھوٹی شان و شوکت کی نشانی اُس حویلی کو نیلام ہونے سے بچائے گا۔بیٹا، باپ سے ناراض ہو جاتا ہے۔بیٹی شادی سے بچنے کے لیے خود کشی کا ارادہ باندھتی ہے اور چھوٹی بیٹی اُس بوڑھے شخص کی دی ہوئی رقم کو آگ لگا دیتی ہے۔مرزا اکبر بیگ کا رویہ اور اُس کے اعمال، میرزا ادیب کی فنکارانہ بصیرت اور انسانی نفسیات پر گرفت کی بہترین عکاسی کرتے ہیں ۔مرزا اکبر بیگ کو جب یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ اب کسی صورت حویلی کو نہیں بچا پائے گا تو حویلی کے تمام نوکروں کو اکٹھا کر کے اُن کی خدمات کے صلے میں روپوں اور خلعت سے نوازتا ہے۔حالاں کہ پیسے نہ ہونے کی بنا پر اپنی بیوی کے لیے دوا تک نہیں لا پاتا۔خود کو اس صدمے سے نکالنے اور جھوٹی خاندانی عظمت کے ختم ہو جانے کے منظر سے خود کو بچانے کے لیے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتاہے۔یہ ڈراما دراصل اُن لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی خاندانی عظمت کے خبط میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب یہ ظاہر ی حوالے دم توڑنے لگتے ہیں تو اُن کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہوئے فرار کا راستہ اختیارکرتے ہیں۔

میرزا ادیب ایک حقیقت پسند مصنف ہیں جن کے ڈراموں میں خیالی تصویروں کی بجائے گردو پیش کا ماحول جیتا جاگتا دکھائی دیتا ہے۔انسان اور اس کے معمولات پر مبنی تمثالیں ہر طرف بکھری ہوئی ملتی ہیں جس میں انسانی شخصیت کے تمام پہلو، معاشرے پر اپنے مخصوص انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ضعیف الاعتقادی اور اوہام پرستی ایسا عوامی رجحان ہے جو صدیوں سے انسانوں کے اعمال اور مزاج میں گھل مل چکا ہے ۔میرزا ادیب ان اوہام کے نتیجے میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور ان اوہام کے نفسیاتی اثرات کو بہ طور خاص موضوع بناتے ہیں۔

ڈراما ''مسافر'' میں ایک آرٹسٹ صولت نازی سے محبت اور مشکلات سے گزر کر شادی کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد نازی کی خواہش کے مطابق شہر سے دور ، پہاڑ کے دامن میں گھر بناتا ہے جہاں کسی نا مانوس شخص کا قیام کرنا مشکل تھا۔نازی کی بھانجیاں روحی اور ناہید، اُن کے پاس قیام کرتی ہیں اور دونوں میاں بیوی کی پریشانی کے سبب کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہیں کیوں کہ وہ اپنی اکلوتی اولاد خاور، جو فوج میں بھرتی ہو گیا تھا، اُس کے زندہ یا مردہ ہونے کی خبر نہ پا کر پریشان ہوتے ہیں۔ صولت اصل راز کا پردہ چاک کرتا ہے کہ وہ خاور کا مجرم ہے، خاور کو وادی کی بد نام زمانہ لڑکی غزالہ سے محبت ہوتی ہے لیکن صولت اُسے اپنے گھر کی بہو بنانے سے انکار کرتا ہے، خاور بغیر بتائے غزالہ کو بیاہ کر گھر لے آتا ہے اور باپ کی ناراضی سے تنگ آ کر بغیر اطلاع دیے گھر سے چلاجاتا ہے اور کبھی واپس نہیں آتا۔غزالہ خاور کی جدائی برداشت نہ کرتے ہوئے، بیمار رہ کر فوت ہو جاتی ہے اور اس کی ماں نازی بھی شدید علیل ہوتی ہے ۔ صولت کے نزدیک آج کی رات بھی ویسی ہی رات محسوس ہو رہی ہے جس رات غزالہ فوت ہوئی تھی اور اگر خاور آج نہ آیا تو نازی کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جائے۔صولت اس رات کے حوالے سے دو وہموں کا شکار ہے کہ اُس رات بھی کتے کے رونے کی آواز بار بار آ رہی تھی اور سامنے کی پہاڑی کے اوپر دمکتا ہوا ستارا بھی دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا تھا۔یہاں میرزا ادیب اوہام پرستی کی حوصلہ شکنی اس طرح کرتے ہیں کہ صولت کے دونوں وہم، وہم ہی رہتے ہیں کیوں کہ اس رات خاور گھر واپس آ جاتا ہے اور نازی کی طبیعت بھی سنبھلنے لگتی ہے۔

ڈراما ''بچہ گاڑی'' میں ماں کی محبت کے ساتھ وہم کو موضوع بنایا گیا ہے۔سراج اپنے بچپن کی حسرت پوری کرنے کے لیے اپنے بیٹے گڈوکو بچہ گاڑی لا کر دیتا ہے جس کے لیے اُسے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے مگر گڈو کی ماں کے ذہن پر بچپن کے ایک واقعے کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ وہم کی صورت اختیار کر جاتا ہے جس میں ایک گاڑی، بچہ گاڑی کو ٹکر مار کر بچے کو لہو لہان کر دیتا ہے۔اس لیے وہ بچہ گاڑی کو ایک منحوس چیز قرار دیتی ہے اور سراج کو اسے دکان دار کو واپس کرنے پر زور دیتی ہے۔سراج، مہراں کے خدشات اور وہموں سے ناراض ہو جاتا ہے اور اُس کے خیالا ت کو منحوس قرار دیتا ہے۔مہراں کا یہ وہم اُس وقت سکون میں بدلتا ہے جب وہ بچہ گاڑی کوئی چُرا کر لے جاتا ہے ۔اس ڈرامے میں غریبوں کی آرزوؤں اور اوہام کے درمیان کش مکش کی صورت پیدا ہوتی ہے۔

درج بالا تجزیے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اُن کے ڈراموں میں متوسط اور زیریں متوسط طبقے کے کردار، معاشرے میں اپنے معاشی اور نفسیاتی مسائل کے ساتھ اظہار پاتے ہیں۔عورت کی نفسیات و عادات، پچھتاوے کے نفسیاتی اثرات، اوہام پرستی کے نتائج، ضمیر کی خلش، مجروح انا کی تسکین اور کرداروں کے نفسیاتی تجزیے؛ اُن کی انسانی نفسیات سے دلچسپی کی ضمانت ہیں۔


 

 

حوالہ جات

۱۔       میرزا ادیب، پس پردہ، لاہور: مقبول اکیڈمی،۱۹۸۵ ،ص۱۰۷
۲۔      ڈاکٹر سلیم اختر، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، لاہور:مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، ۱۹۹۵ ، ص۴۳۴
۳۔      میرزا ادیب، ستون، لاہور:سنگ میل پبلیکیشنز،۱۹۵۷ ،ص۱۳۲
۴۔      سجاد حارث، ادب اور جدلیاتی عمل، لاہور:تخلیق مرکز،۱۹۷۲ ،ص۹۱
۵۔      فرزانہ سید، نقوش ادب، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ ، ص۴۵۳

کتابیات

     سجاد حارث۔ ادب اور جدلیاتی عمل۔  لاہور:تخلیق مرکز،۱۹۷۲
     سلیم اختر،ڈاکٹر، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، لاہور:مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، ۱۹۹۵
     فرزانہ سید، نقوش ادب، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۹
     میرزا ادیب، آنسو اور ستارے، لاہور:مقبول اکیڈمی، س ن
     میرزا ادیب، لہو اور قالین، لاہور:مکتبہ اُردو، ۱۹۵۴
6 ۔     میرزا ادیب، ستون، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز،۱۹۵۷
     میرزا ادیب، پس پردہ، لاہور: مقبول اکیڈمی،۱۹۸۵
     میرزا ادیب، خاک نشیں، لاہور:مقبول اکیڈمی، ۱۹۹۹ ،
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com