نمائندہ اردوناول نگاروں کےتاریخی شعورکے ماخذات کی تفہیم ایک مطالعہ


مہرونہ لغاری۔ ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان
ڈاکٹر انوار احمد۔ شعبہ اردو، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان
ڈاکٹر روبینہ ترین۔ شعبہ اردو، بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی، ملتان

ABSTRACT:


In this article PhD research scholar has traced under the guidance of her supervisors, social and cultural and historical context which provided foundation to assess the level of consciousness, supression and hallowness [if any] in the writings of Master urdu novelists.These Novelists have portrayed the complexity of the situation in an individual level and as a society too on the bases of their own experiences.. From Qurat Ul Heider to Hassan Manzar Urdu novel has seen the bold pen and brush upon its convas being broadened by changing landscape.Treatment approach and outlook of the scholar is based upon historicity and post colonial vision. It is result of group research conducted under the PhD supervisors Dr.Anwaar Ahmad and Dr.Rubina Tareen leading to PhD degree in Urdu.
شعور انسان اور اس کے گردو وپیش میں پائے جانے والے واقعات کے درمیان باہمی ربط ضبط قائم کرنے کی ایک مخصوص کاوش کا نام ہے ۔یہ مختلف رنگوں کی پہچان کا عمل بھی ہے پہچان کا یہ عمل شعور تضاد کے سہارے طے کرتا ہے جب تک تمیز ، تضاد یا فرق کا یہ عمل دو رنگوں ، سیاہ و سفید ، دو اقدار صحیح یا غلط ،سچ یا جھوٹ ، اندھرا یا اجالا کی سطح تک رہتا ہے معاشرہ لچک،لامحدود امکانات سےمبرا ہو کر تہی دست تہی داماں رہتا ہے ،حبس اور گھٹن کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ سانس لینا اور بقا کے لیےہاتھ پاؤں مارنا بھی کارِ محال لگتا ہے۔لیکن جب یہی شعور لامحدود سطح پر آتاہے تو انسانی اذہان تغیر پذیر ی کی مثال بنتے ہیں اور یہیں سے تاریخی، تہذیبی ، مذہبی تناظرات بصیرت افروز معنی پیدا کرتے ہیں لفظ بصیرت کی بھی کئی تعبیرات اسی شعور ی محرک کے تابع ہیں ۔یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس وقت جو کچھ معاشرتی تنزل،مذہبی حسیت ،مادی پسماندگی، اور فکری رجعت سے نجات کے لیے یاسماج کی درست سمت کے تعین کے لیے تہذیب و تاریخ ،مذہب، معیشت سائنس اور ٹیکنالوجی سے رجوع کر لینا ہی کافی ہے ؟یا جسے دانشِ برہانی، داخلی بصیرت ،تاریخی و تہذیبی شعور یا تاریخیت کا نام دیا جاتا وہ کچھ اور چیز ہے؟جس کی طرف مسٹر چپس کے لازوال کردار نے اپنے متروک یا عنقریب متروک و مسترد قرار دیے جانے والے انگریزی نصاب کے چند پنوں پر مشتمل بظاہر بے ضرر لیکن حقیقت میں گہرا اور دیر پا چبھتا سوال اپنی طرز کے معصومانہ اور مذہبی انتہا پسندی کی طرف جاتے معاشرے کے نو خیز اذہان کے سامنے تب بھی رکھا تھا اور اب بھی اس سماج کے با شعور اذہان کو یاسیت اور واماندگی کے جس احساس تلے چھوڑاہے ، وہی شعور دراصل سماج کے اندر خود تنقیدی کی ایسی احتسابی خوبی پیدا کرتاہے کہ جہاں وسعت ِ قلب، رواداری اور دوسرے کے احساسات کو سمجھنے اور سمجھانے کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔زیر بحث مقالے میں اردو ادب کے نمائندہ ناول نگاروں کے یہاں ان کی نگارشات میں اس تاریخی شعور کے محرکات و ماخذات کا ایک مختصر سا جائزہ لینے کی کاوش کرنے سے قبل شعور کی چند متعینہ توضیحات پر ایک نظر ڈال لینا مناسب رہے گا ۔
 شعور اصل میں عقل (Mind) کی ایک ایسی کیفیت کو کہا جاتا ہے کہ جس میںSubjectivity ،Self awarness ،دانائی اور آگاہی کی خصوصیات پائی جاتی ہیں تاریخ کا علم ماضی کے اہم واقعات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک طرح کی تاریخی تحقیق یا سوانحی تحقیق کے مما ثل ہے جبکہ تاریخی شعور ایک بالکل مختلف نوعیت کی آگہی کا نام ہے۔ تاریخ کے اہم وقوعات / واقعات کا اس دور کے انسان کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے اور آج کا انسان اس سے متعلق کیا رویہ رکھتا ہے۔تاریخی شعور انفرادی یا اجتماعی ہر دو سطح پر ماضی کی تفہیم ہے جوداخلی و خارجی ،ذہنی و تہذیبی عوامل کو ایک نئی شکل میں متعارف کراتا ہے تاکہ ماضی کا رشتہ حال اور مستقبل سے جوڑا جا سکے۔
 تاریخ ایک ایسا طاقتور میڈیم ہے جس کی مدد سے موجودہ ادوار میں لوگوں کا طرز فکر موڑا بھی جاتا ہے اور انہیں گمراہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ظاہر ہے اس میں ریاستی عناصر اور مقتدر ادارے شامل ہیں تاریخ ایک ایسا جبر کا آلہ بھی ہے جو لوگوں کو مطیع بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے۔ یوں تو تاریخ سب لوگوں کی ہوتی ہے لیکن کسی بھی معاشرے کے مقتدرطبقات اس کی ترجمانی کا فریضہ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں یہ چند لوگ وہ ہیں جو قائدین کے طور پر اہل ِ معاشرہ مقرر کرتے ہیں ۔لیکن تاریخ کا یہ شعور جو بیسیویں صدی سے ہی عالمی جنگوں کے بعد حساس ترین اذہان ہی نہیں عام طور پر جامد اور ٹھس متصور ہونے والے دماغوں پر دستک دیتا رہا کہ ہمارا وجود کچھ مخصوص لوگوں کے خوابوں ،تلون مزاجی،اور خواہشوں کے تابع ہو چکا ہے جن کے اپنے کچھ جنگی نظریات دریافتیں اور انقلابی تصورات ہیں چاہیں نہ چاہیں آپکو ان کا حصہ بننا ہوگا ، دنیا کی تمام آبادی کو یا تو جینا ہوگا یا مرنا پڑے گا۔
 تاریخ یا مورخ کو معاشرے کے مقتدر طبقات نے اور بعد کے زمانوں میں، جمہوری اور عوامی حکمرانوں، نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اس لیے جدید عہد میں میڈیا اور نصاب کی کتابوں سے عوام کے شعور کو کنٹرول کیا گیا ۔تاریخ کو مختلف ادوار میں مختلف تناظرات سے لکھا گیا مثلاً کبھی سیاسی،مذہبی ،معاشی اعتبارات سے لکھا گیا۔ کبھی اسے زمانی اعتبار سے پتھروں کا زمانہ،کانسی یا لوہے کا زمانہ ،زرعی دور،صنعتی دور،یا انقلابات مثلا روس و فرانس انقلاب، کبھی عالمی جنگوں کے تناظر میں اور کبھی قدیم و جدید ادوار میں تقسیم کر کے لکھا گیا، معاشرتی شعور کے فروغ کے بعد اس رجحان پر زور دیا گیا کہ تاریخ کو سماجی زندگی کے آئینے میں دیکھا جائے اس کے لیے اُسے اپنے شعور کا ہونا ضروری ہے تاکہ سماج کا ہر وہ پہلو جو تاریخ کی حرکت میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کو بیان کیا جائے۔ پھر مارکس کے زیرِ اثر تاریخ کا اور پہلو جو سامنے آیا اس میں تاریخ کی حرکت کو پیداوار سے پیداواری رشتوں سے جوڑ دیا گیا۔
ان تمام مباحث پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد چونکہ اس مطالعہ میں پاکستانی ناول نگاروں کے یہاں تاریخی و تہذیبی شعور کے ماخذات کی دریافت مقصود ہے ۔ اس لیے تہذیبی و تاریخی مباحث میں پاکستانی ادیبوں کے شعور کے اندر تہذیب و تاریخ سے ساتھ وابستہ تضادات یا تصورات کا جائزہ لینا کٹھن بھی ہے اور اہم بھی ہے۔ ان ناول نگاروں کے یہاں اپنی تخلیقات میں اپنی طرز کے مخصوص شعور کا جائزہ ان کی خانگی زندگی ، ان کے عہد کے حالات انکے تجربات ،ان کے مطالعہ کی دنیا سے مدد سمجھنے کی کاوش کی جائیگی ۔ان ادیبوں کے یہاں جو تاریخی شعور ہے اس کا تعلق اس صدیوں سے قطرہ قطرہ کشید ہونے والی مشترکہ ہند مسلم تاریخ و تہذیب کی وراثت سے ہے جسے اس خطہ کے بعض عناصر کی بدولت تضادات کا سامنا ہے۔
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آصف فر خی لکھتے ہیں :
ہم اپنی اساس پر بہت الجھاﺅ کا شکار ہیں۔ آیا ہم اپنی شناخت کا آغاز اپنی مذہبی بنیاد پر کریں ۔ یا اپنی مملکت کی زمینی اساس پر موہن جو دڑو کی رقاصہ ہماری ثقافت کا نقطہ آغاز ہے یا سندھ کے ساحل پر لنگر آزما ہونے والے عرب جہاز رانوں کی افواج؟ تکشیلا کے عجائب گھر میں لکھا ہوا مہاتما بدھ ہماری ثقافت کاجزو ہو سکتا ہے اور وہ شاعر ادیب جو تقسیم کے وقت سرحد کے اس پار رہ گئے؟ گویا ہم نے پرے کر رکھا ہے ۔ یہ شناخت کے ایک پہلو کو قبول کرنے کا مطلب ہے باقی  سب پر خطِ تنسیخ پھیر دینا۔ ہمارے ان رویوں کے خلاف نجیب محفوظ کا وہ رویہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ جہاں نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد لمحہ افتخار میں اپنی تہذیبی دھاراﺅں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے ۔ اور اپنی سرزمین کی روایت اور مذہبی روایت میں تضاد و تصادم کا شکار نہیں ہوتا۔ “ [۱] ہر معاشرے میں تہذیب اور کلچر کا سچا نمائندہ ادیبوں کا وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے لیے تاریخی و تہذیبی تناظرات کے پیچھے جواز یا مقصد کی کافرمائی نہ تھی ۔
بجا طور پر ، ڈیوڈ سیپل نے ناول کو ایک ایسا فنی کارنامہ قرار دیا ہے جو ہمکو ایک زندہ دنیا سے متعارف کراتا ہے ،حقیقی، سماجی اور تہذیبی پس منظر اور پیش منظر بھی ناول کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے ۔ اس لیے  کہ ناول صرف واقعہ نگاری نہیں ہوتا بلکہ اپنے عہد کی تاریخ بھی ہوتا ہے اور ناول کی کوئی بھی تاریخ تہذیب کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔اکثر ناول نگار ناول کے مرکزی موضوع خیال یا کردار سے اسقدر شدت سے وابستہ ہوجاتے ہیں کہ وہ ناول کی مکمل اور تخلیقی و تہذیبی فضا بنانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ پریم چندسے لیکر قرة العین حیدر تک کے ناول کا میابی کا ایک بہت بڑا راز ان کے موضوعات کا تہذیبی اور سماجی پس منظر ہے جس کی تہذیب سے ا صل موضوع بر آمد ہوتا ہے اور پھرپوری تاثیر و تعبیر کے ساتھ قلب و جگر اور فکر و نظر میں سما جاتا ہے۔ “[۲]
 اس مطالعہ میں سب سے پہلا نام قرة العین حیدر[20 جنوری1926۔21اگست 2007] کا ہے، قرة العین حیدر کے ناولوں میں تاریخی شعور اور جڑوں کی تلاش بالخصوص ہندوستان کی تاریخ و تہذیب کامطالعہ کیے بغیر،اس کے یہاں کے موجود فکری بصیرت سے فیض یا ب ہونا ممکن نہیں ۔قرة العین حیدر کا کینوس بے حد وسیع ہے۔وہ برِ صغیر کے مشترک کلچر،بھگتی تحریک،مغلوں اور سلاطین ِ دہلی کے زمانے کی باطنیت سے بھی پہلے گپھاوں کے تپسویوں، اور بودھوں اور کوروؤں و پانڈوؤں اور آریوں کے تہذیبی تسلط اور شعوری ولا شعوری رشتوں کی بازیافت کے وسیلے سے زندگی کے المیے اور اس کے ازلی اور بنیادی سوالات کو اظہار کی زبان دیتی ہیں جدید طرزِ اظہار میں اپنے ناول لکھنے کا انتخاب کر کے قرةالعین حیدر نے تقسیم کے موضوع کو وسیع تر تناظر فراہم کیا جائے۔قرة العین حیدر خو د اپنی تخلیقات کو مابعد التاریخ سے تعبیر کرتی ہیں کہ انکی تاریخ میں دلچسپی کے باوجود ان کے ناول تاریخی ناولوں کی اس قبول ِ عام صنف سے تعلق نہیں رکھتے نہ ان کے ناولوں کی کہانی تاریخی کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ قرة العین حیدر کے ہاں تاریخی شعور یا عصری بصیرت کی جڑیں تلاش کرنی ہوں تو لا محالہ آپکی نظریں قرة العین حیدر کے عہد میں موجود جاگیرداری،تعلقہ داری،زمیندارانہ نظام کے اندر تلاش کرتی ہیں ۔قرة العین کے ہاں تاریخی شعور کی تلاش بیک وقت مشکل بھی ہے اور بامعنی بھی کہ ان کا عہد تیز رفتارسماجی، سیاسی، تہذیبی،علمی تبدیلیوںکی زد پر تھا۔ان کے ماضی قریب وبعید کا عہد، مغلیہ سلطنت کا مکمل انحطاط،اوودھ کی تہذیب،مسلم معاشرے کی زوال پذیری ،انگریزوں کی ہندوستان پر مکمل عملداری، غدر،سر سید کی تحریک علی گڑھ،کانگریس کی فعالیت، دو بڑی عالمی جنگیں ( خود ان کا اپنا زمانہ) ،تقسیم ہند، ہجرت و فسادات،سقوط مشرقی پاکستان اور پھر اکیسویں صدی کی تیزرفتار تبدیلیوں کی زد پر تھا۔ دوسری طرف ان کا مطالعہ اور وہ علمی ادبی خانگی ماحول تھا جس نے انہیں دنیا میں نئے سیاسی و معاشی نظریا ت (مارکسزم،سوشلزم،فسطایت،کمیونزم،) سے آگاہ کیا۔
 خود قرة العین حیدر نہ صرف ان تمام تبدیلیوں اور تغیرات ِ زمانہ کی متاثرہ تھیں بلکہ تماشائی بھی،اور صرف تماشائی نہیں بلکہ عہد کے تجربات کی امین بھی۔ قرة العین حیدر کے ہاں انفرادیت اور تہذیبی تشخص کی شناخت بارے کافی تردد دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خاندانی روایات اور شجرہ نسب سے قلبی وا بستگی ان کے نیم سوانحی ناول کار ِ جہاں دراز کی تین جلدوں ان کے انٹرویوز خطوط میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے ہاں ایک خاص قسم کا تفاخر ملتا ہے۔ وہ اپنی تخلیقات میں جس طبقہ اشرافیہ کو پیش کرتی ہیں وہ خود بھی اسی طبقہ کی نمائندہ ہیں ۔ قرة العین کا تاریخی و تہذیبی شعور ان کے عہد اور خاندانی پرورش، تعلیم و تر بیت ،تعلیم یافتہ والدین کی روشن خیالی۔تہذیبی تعلیمی ادبی سیاسی ،صحافتی سرگرمیوں اور زندگی کے عمیق مطالعہ سے پھوٹتا ہے۔جس کلاس سے وہ تعلق رکھتی ہیں اور جس خاندانی تہذیبی ،ادبی ماحول اور روایات سے وہ وابستہ رہی ہیں اس میں ایک خاص طرح کا افتخارجنم لینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔اس لیے جب  بھی ان سے ان کی شخصیت کے متعلق سوال کیا گیا انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو اپنی شخصیت کا جزوِ لازم قرار دیا۔
ان کے ہاں نسلی افتخار نہ صرف انہیں اپنے خاندانی شجرہ کو بلکہ خود ان کے عہد کو تخلیقی سطح پر محفوظ کرنے کے لیے اکساتا ہے۔اور یہی افتخار قرةالعین کو خاندانی روایات کے کھونچے اتارنے نہیں دیتا بلکہ نسلی افتخار،ذکاوت علمی،ادبی کاوشوں اور کافی حد تک طبقاتی امتیاز کو تہذیبی حوالوں سے مزید سنوارتی ہیں ۔اسی لیے ان کے ناولوں میں متوسط طبقہ یا نچلا طبقہ کے مسائل بہت کم زیر ِ بحث آئے ہیں۔جس میں ان کے عہد کے ناول نگار الجھے رہے۔اس طبقہ کے معاشی و سماجی مسائل قرة العین کا نہ تو مسائل تھے اور نہ ان کے تخلیقی تجربہ کی اسا س بن سکے ۔ قرة العین کے مسائل زیادہ تر تہذیبی و فکری نوعیت کے رہے۔یوں تقسیم ہندقرة العین کے ہاں معاشی مسائل سے ہٹ کر تہذیبی تاریخی حوالوں سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔
ان کے ہاں کہانی یا قصہ سے زیادہ فکشن میں اہمیت اس بصیرت کی ہے جو تہذیبی اور تاریخی شعور کی حامل ہے۔وہ جس تہذیبی و تاریخی ورثہ کی امانت دار ہیں۔ایسے میں ماضی کی شاندار اور کربناک یادوں کا اسیر ہونا لازم تھا۔لیکن ان کا ناسٹلجیا اپنے قاری کو کسی بھی طرح کی مفعولیت میں مبتلا نہیں کرتا ۔بلکہ وہ تہذیبی و تاریخی سطح پر ایسے سوالات اٹھاتی ہیں جن سے ذہن ِ انسانی کی گرہیں کھل سکیں ۔ قرة العین حیدر کے ہاںتاریخی وتہذیبی شعور کی کارفرمائی کے مطالعہ کے لیے ان کے کسی ایک ناول سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ ان کے تقریبا تمام ناولوں میں یہ عناصر بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔قصہ یہ ہے کہ قرة العین حیدر کا فکر و فن ارتقا پذیر تو رہا ہے۔ لیکن تاریخیت کا عنصر ان میں قدر مشترک رہا۔ اس لیے ان کے تمام ناول ایک کڑی میں پروے ہوئے ہیں اگر قرة العین کے نظام فکر کو سمجھنا ہو تو ان سب ناولوں کے مطالعہ کے بغیر بات بنتی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے کچھ طویل مختصر افسانوں مثلاًسیتا ہرن،چائے کے باغ،جلا وطن،ہاؤسنگ سوسائیٹی،سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات،اگلے جنم موہے بیٹیا نہ کیجیو، اور دلربااور کچھ مختصر افسانے جن میں ان کے مخصوص تاریخی شعور کی نمائندگی ہوتی ہے،سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات،آئینہ فروشِ شہر کوراں،ملفوظات حاجی گل بابا،فوٹو گرافر،روشنی کی رفتار ،لکڑ بگھے کی ہنسی،ڈالن والا،قلندر ،کارمن،ایک مکالمہ،پت جھڑ کی آواز،آوارہ گرد،یاد کی ایک دھنک جلے،فقیروں کی پہاڑی،نظارہ درمیاں ہے،اکثر اس طرح سے بھی رقصِ فغاں ہوتا ہے،دو سیاح اور یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے،قید خانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے،کیکٹس لینڈ میں تاریخ کے گزشتہ ادوار ،کی تہذیبی باز آفرینی کی گئی ہے۔وقت کا تصور ان کے ہاں جبر کی علامت ہے وہ جبر جو مقدر اور تاریخ کا جبر ہے۔وقت جو زندگی اور موت کے بیچ کی کڑی ہے۔اور مقدر جو انسان کو اپنی تمام تر ترقی اور فضیلت کے باوجود وقت کے بے رحم ہاتھوں میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتا ہے۔لہٰذا ان کے افسانوں اور ناولوں کے کردار تاریخی جبر کے ہاتھوں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں ۔
 قرةالعین حیدر کے ہاں تاریخی و تہذیبی سطح پر یہ بات اہم ہے کہ وہ سماج یا معاشرے کو جامد یا ٹھہری ہوئی شکل میں پیش نہیں کرتیں ان کے ہاں سماج یا معاشرہ پس منظر میں رہنے والا عنصر نہیں ہے بلکہ یہ ان کے ادب میں متحرک کردار ہے جو انسانی کرداروں کے اندر تبدیلیوں کا موجب بنتا ہے۔
قرة العین حیدر کا کمال یہ ہے کہ وہ کسی بھی عہد کے تاریخی پس منظر یا روحِ عصر کی ترجمانی کے لیے اخباری سطح پراطلاع نہیں دیتیں نہ وہ سطحی واقعات ان کے پیشِ نظر رہتے ہیں ۔نہ جنگ و جدل،فسادات،ہجرت،مہاجرین یا شرنارتھیوں کی تعداد اور رقت آمیز تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ اس کے برعکس وہ سیاسی،مذہبی سماجی حالات،سماجی ڈھانچے،مختلف طبقات بالخصوص عورت کا سماج میں مقام و مرتبہ ذہنی رویے،ایسی دلچسپ اور مکمل صورت میں تجزیاتی انداز میں پیش کرتی ہیں کہ قاری اس عہد کے تاریخی و سماجی تقاضوں سے آشنائی محسوس کرتا ہے۔
پھر قرة العین حیدر کا مطالعہ وسیع اور مزاج محققانہ ہے۔کسی بھی موضوع پر قلم اُ ٹھانے سے پیشتر اس کی تمام جزئیات سے واقفیت حاصل کرنا ان کے لیے ضروری تھا۔مثلاً گردش ِ رنگ چمن میں غدر کو موضوع بنایا تو بقول انکے غدر کے متعلق پڑھا اور ان لوگوں کے قلم سے پڑھا جنہوں نے خود اس کا براہ راست مشاہدہ کیا۔یا وہ اس تجربہ کے امانت دار تھے۔
قرة العین حیدرکی شخصیت میں موجود تاریخی بصیرت ،مشاہدہ،قابلیت،فراست اور تخیل کی زبردست قوت ہے جو تاریخ کی گمشدہ کڑیوں تک رسائی حاصل کر لیتی ہے یا مستقبل کی پیش بینی ۔ مثلاً آگ کا دریا 1956 کے آس پاس لکھا اور 1970میں سقوط ڈھاکہ میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق اشارے موجود ہیں ۔اسی لیے وہ تاریخی تسلسل کی قائل تھیں ۔کہ ماضی حال میں موجود ہے اور مستقبل بھی دونوں زمانوں سے جڑا ہوا ہے۔
 ان کے ناول میرے بھی صنم خانے میں ہندوستان کے تاریخی اتار چڑھاو،ذاتی المیہ، ذہنی جلاوطنی،تشخص اور جڑوں کی تلاش ،خوابوں کا ٹوٹنا،مغائرت اور اوودھ کے تعلقہ داری نظام کی تہذیبی روایات سے قلبی وابستگی اور اقدار کے انہدام کا نوحہ بیا ن کیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اس بصیرت کا اظہار بھی کرتی ہیں کہ جاگیرداری یا تعلقہ داری نظام سے انکی قلبی وابستگی انکی مجبوری صیحح لیکن اس بات سے کیا انکار ممکن  ہے کہ اس طبقہ نے ہندوستانی معاشرے کے اندر نفاست اور تہذیب کی ان اقدار سے نوازا جو پیسے مال و زر سے لازمی طور پر وابستہ نہیں ۔ ان کے ناول آگ کا دریا میں برِ صغیر کی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ،گوتم بدھ،انگریزوں کی آمد،تحریک پاکستان، اور ان سب واقعات سے وابستہ تاریخی جبریت،تصورِ زماں اور انسانی تہذیب کے عروج و زوال کی داستان تفاخر کے ساتھ ساتھ د و سرحدوں اور دو دنیاوں ،کھوئے ہوؤں کی جستجو،تہذیبی شناخت کی گمشدگی کو اس لیے بیان کرتی ہے کہ یہ براہ راست ان کے طبقے ان کے عہد سے وابستہ تھا۔ قرة العین حیدر مشترکہ ہند مسلم کلچر کی سب سے بڑی حامی تھیں ،ان کا ناول آ خر ِ شب کے ہمسفربنگالیوں کے تہذیبی و تاریخی مطالعہ پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ ناول میں بنگالی قوم پرستانہ جذبوںکی جڑیں،انقلاب کی رومان انگیزی اور سامراجی میراث، طبقاتی تقسیم میں پستا نچلا اور متوسط طبقہ، پاکستان کا دو لخت ہونا جیسے اہم تاریخی مباحث کی پیشکش پر مبنی ہے۔گردشِ رنگ چمن برطانوی ہند میں نئے طبقات کی ظہور پذیری، اس عہد کالونیل ہندوستان ، لوگوں کی اس نظام سے مفاہمت ، اوودھ کی تہذیبی فضا میں عورت اور طوائف کا طبقہ کس طور پر زندگی بسر کر رہا ہے۔ایک وقت میں ایلیٹ کہلانے والے مغل کس حال میں زندگی بسر کرتے ہیں، نئے یوریشین طبقات کی حکومت برطانیہ کے ساتھ وفاداریاں اور اپنے ہی نیٹوز رشتہ داروں کے درمیان بڑھتی دوریاں تاریخی و تہذیبی تناظر میں اختلاف کی وجوہات کا بہت مؤ ثر احوال ناول کا حصہ ہے۔ چاندنی بیگم کالونیل ہندکے بعد کی مسلم معاشرے کی تاریخ و تہذیب، مسلم معاشرت کے زوال اٹھارویں صدی سے بیسویں صدی تک کا منطقی انجام،نئے طبقات کی ظہور پذیری، سر مایہ دارانہ معاشرہ، تہذیب کی پرانی اقدار کا تیزی سے خاتمے کا نوحہ،۔ماضی کی کشش ،حال کا بکھراؤ، طبقہ اشرافیہ کا زوال،ماضی کی کربناک یادیں اور ہندوستانی پاکستانی قومیت میں بٹے ایک ہی خاندان کے درمیان تیزی سے جنم لیتی دوریوں جیسے رویوں کا تجزیاتی مطا لعہ ملتا ہے۔
 اسی عہد کا ایک اور ناول نگار جس نے اپنے ناولوں میں تاریخی شعور کو ایک بالکل متنوع جہت میں پیش کیا وہ شوکت صدیقی [20 مارچ1923۔18 دسمبر2006]تھے لکھنؤ کے رہنے والے تھے ۔شوکت صدیقی کے تاریخی و تہذیبی شعور کا ناول کے اندر جو اظہار ملتا ہے اس کا جائزہ لینے سے قبل یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ان کا سماجی و تہذیبی فلسفہ تاریخی و سیاسی تناظر میں کیا رہا ہے۔؟اس کے پیچھے کونسے محرکات تھے جس نے انہیں ایک مخصوص فلسفہ حیات کی تشکیل ،مطالعہ،اور عملی وابستگی کے لیے تیار کیا۔؟ اس سلسلے میں ان کے عہد کے سیاسی تناظرات ہیں۔ برصغیر میں پہلی عالمی جنگ کے بعد کی صورتحال ہے ۔ جب عالمی سطح پر برپا شورش اور ہنگامے سلطنت ِبرطانیہ کی اس بہت بڑی نو آبادیات پر براہ راست اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔اس وقت یہ برطانوی نو آبادیات کے لیے خام مال کی فراہمی اور تیار مصنوعات کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ثابت ہو رہا تھا جس سے اس وقت کا ہندوستانی معاشرہ طبقاتی سطح پر دو بڑے خانوں میں بٹ چکا تھا ۔امیر امیر تر اور غریب ،غریب تر ہو رہے تھے ہندوستان میں یہ استحصالی صورتحال اس کی معیشت کو اور د گر گوں کر رہی تھی ۔ زمیندار،جاگیر دار،تعلقہ دار زرعی معیشت پر قابض تھے ۔صنعتوں کا کہیں وجود نہیں تھابھوک اور تنگدستی اس وقت کی عام رعایا کا مقدر بن چکی تھیں۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی تھا کہ انگریزوں کی لائی ہوئی تمام تر قباحتیں ، سامراجی مفادات کی پالیسیاں اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود ایک طاقتور کلچر کے لائے ہوئے نئے تصواتِ جدید علوم ،تہذیبی مظاہر ادبی اسالیب ایک نئے شعور طرزِ زندگی کے نئے طور سے اذہان کو ضرور متاثر کر رہے تھے ۔ادبی سطح پر اس وقت انگریزی کی تعلیم اور ادبی تراجم کا آغاز ،سر سید تحریک، فورٹ ولیم کالج ،دہلی کالج جیسے اداروں سے ہو رہاتھا اور انہوں نے بھی ایک بالکل نئی فضا سازی کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیاتھا ، ایسے میں ادبی سطح پر پریم چند سماج میں ناانصافی ،تضادات کی مختلف شکلوں کے مشاہدہ بیں ہوئے اور 1901کے لگ بھگ بڑی درد مندی اور خلوص کے ساتھ سماجی حقیقت نگاری کی طرف بڑھتے ہیں ۔جبکہ ابھی ادب کا واسطہ سماج سے براہ راست نہیں جڑ ا تھا۔دوسری طرف فسانہ آزاد اودھ پنج کے تحت داستانوی ماحول کے ساتھ معروض کی کچھ جھلکیاں بھی پیش کر رہاتھا۔جس میں خوجی کا کردار اپنی بناوٹ کے اعتبار سے مغرب سے درآمد شدہ کردار محسوس ہوتا ہے۔دوسری طرف بنگال سے آنے والے مختلف رجحانات اور رویے تھے ۔بالخصوص سوامی گوپی نند ،سرت چندر چیٹر جی،رابندر ناتھ ٹیگور،جنہوں نے روسی انقلاب کے بعد سوشلزم کو ہندوستانی مسائل کا حل سمجھا ۔ اسی کے زیرِ اثریہاں رومان پسندوں نے ادب اور سماج دونوں میں بغاوت کی ایک اور شکل کو رائج کیا اور فرسودہ رواجوں ،ریتی رسموں ،مذہبی اور سماجی جبر کے خلاف ردِ عمل ظاہر کیا بالخصوص سماج میں عورت کا کردار،خاص کر طوائف کو جس تہذیبی ناسور کے طور پر شناخت کیا جاتا تھا اس کو بطور ِ خاص موضوع بنایا۔اوہام پرستی اور جاگیردارانہ تہذیب کے کھوکھلے معیارات کو بے نقاب کیا گیا۔روشن خیالی کی فضا ہموار کی گئی۔ایک طرف سیاسی سطح پر محاذ گرم تھا تو دوسری طرف ادبی سطح پر انگارے ، شعلے اور پھر انجمن ترقی پسند مصنفین اور پریم چند نے سماجی اور طبقاتی ناانصافی کو موضوع بنایا۔جھوٹی تہذیبی اقدار ،معاشرتی گراوٹ ،انگریزوں کی سامراجی ریشہ دوانیوں کو کھلم کھلا چیلنج کیا گیا۔یہ تو وہ معروضی ادبی منظر نامہ تھا جس سے شوکت صدیقی کا واسطہ پڑا۔ تو دوسری طرف شوکت صدیقی کی زندگی اور فن پر دو تجربات کی چھاپ موجود ہے اوّل انکی صحافتی زندگی ہے جس میں ادبی رسائل ماہنامہ’ترکش،مندر، اورجدید ادب ، کےمدیر رہے۔پاکستان آنے کے بعد انہوں نے صحافت کا پیشہ اختیا رکیا۔’پاکستان اسٹینڈرڈ‘،روزنامہ ٹائمز آف کراچی،’مارننگ نیوز‘، انجام ، الفتح اور مساوات کے ایڈیٹر رہے‘[۳]
 دوسری جنگ ِ عظیم میں فوج میں ملازم رہے 1949میں لکھنو یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا ۔1950میں پاکستان [لاہور]آئے اور پھرکراچی منتقل ہوگئے ، 1952میں ڈاکٹر محمد سعید خان کی صاحبزادی’ثریا بیگم ،سے شادی کی۔دوم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔تحریک کے بانیوں ڈاکٹر عبدالعلیم ،نیاز فتح پوری ،پروفیسر احتشام حسین ،نواب جعفر علی خان اثر اور پنڈت کشن پرشاد کول جیسے معروف ادیبوں کے ساتھ نشست و برخاست رہی۔ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وابستگی کے باعث گرفتار ہوئے دو ماہ تک جیل میں رہے۔۔پاکستان رائٹر گلڈز کی مجلس ِ عاملہ کے رکن رہے۔1985انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی میں کنویننگ کمیٹی کے چئیر مین اور مجلس استقبالیہ کے صدر منتخب ہوئے۔1987میں ماسکو عالمی امن کانفرنس میں شرکت کی ۔ کبھی ادبی وفود کی نمائندگی کی ،کبھی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ غیر ملکی دوروں میں اور کبھی ذاتی طور پر دنیا کے اکثر ممالک کا دورہ کیا۔1997ءمیں حکومت ِپاکستان نے ادب میں اعلیٰ کارکردگی کے اعتراف کے طور پر صدارتی ایوارڈ ”تمغہ حسن ِ کارکردگی“عطا کیا شوکت صدیقی نے1950سے 2000تک کے پانچ عشروں میں ادبی اور صحافیانہ اعتبار سے بہت متحرک زندگی گزاری۔وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریب رہے۔ان کے ساتھ بیرون ِ ملک دوروں میں شریک رہے۔ پیپلز پارٹی کی قومیانے کی پالیسی اور نجی ملکیت کے خاتمے کے لیے کی گئی سماجی اور اقتصادی اصلاحات [بڑی اور کلیدی صنعتوں ، بینکوں ،بیمہ کمپنیوں اور ایسے ہی دوسرے اداروں کی نجی ملکیت ختم کر کے قومی تحویل میں لینا ،تعلیمی پالیسی کے تحت نجی درسگاہوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینا ،آبیانہ معاف کرنا،ادویات کے برانڈ نام ختم کر کے جنرک اسکیم کا نفاذ ،بلوچستان میں سرداری نظام کا خاتمہ ، ایسے اقدامات ]کو وہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔
شوکت صدیقی کی شخصیت کی تشکیل میں کثیر افراد ِخانہ [ان کے والد الطاف حسین سترہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور خود شوکت صدیقی سات بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھے]کمزور مالی حالات نے اہم کردار ادا کیا ۔ شوکت صدیقی کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے نظریہ حیات یا فلسفہ حیات کے حوالے سے خاصا گہرا ہے۔وہ اپنی تخلیقات میں سماجی وتاریخی شعور،طبقاتی تفاوت کی بات کرتے رہے۔ تو یہ وہ فلسفہ حیات نہیں ہے جسے آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر یا بطور فیشن کسی عہد کے رجحانات دیکھتے ہوئے یا خود کو پیش قدم یا ترقی پسندوں کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اختیا ر کرتے ہیں ڈاکٹر ستیہ پال آنند ”شوکت صدیقی ۔ایک سوانحی مونتاژ“ میں رقمطراز ہیں:
 ” 1928ءتا 1938....دس یا گیارہ برس ایک حساس لڑکے کو زندگی کا تلخ سبق سکھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔فاقے کی نوبت تو شاید نہ آتی ہو لیکن اگر شوکت صدیقی کی کچھ کہانیوں میں سوانحی عنصر تلاش کیا جائے تو صرف دو کُرتے اور دو پاجامےہونے اور صرف ایک جوڑا ربڑکے سلیپر نما بوٹ ہونے کا سراغ ملتاہے بھائی کے گھر میں اپنے اور بھائی کے بچوں کے کپڑے دھونے اور گھر کے کام کاج میں بڑی بھابھی کا ہاتھ بٹانے کی کچھ سو بو ملتی ہے جیب خرچ کے بالکل نہ ہونےاور آدھی چھٹی کے وقت جب دیگر لڑکے خوانچہ فروشوں کے گرد جمگھٹ لگا کر چٹ پٹی چیزیں خرید رہے ہوتے تھےتو ان سے دور کھڑے ہوکر گلی میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر گم صم رہنے کی خبر ملتی ہے۔“[۴]
وہ خود اس عسرت اور معاشی بد حالی سے گزرے بھی ہیں اور اس بالکل نچلے طبقے کے ساتھ رہنے سہنے کا موقع بھی ملا ہے ۔کیونکہ تقسیم کے بعد انہیں ایک ایسا ماحول میسر آیا کہ انہوں نے نہ صرف تقسیم کے عمل کو سمجھا بلکہ زمینی حقائق کے ساتھ اس کی معنویت بھی ان پر آشکار ہوئی۔انہوں نے نچلے طبقے کی زندگی کا مشاہدہ کیا۔ان کے مسائل کو سمجھا ،اعلی ٰ طبقات کے ساتھ وابستہ دوہرے معیارات اور منافقانہ طرزِ عمل پر بھی انکی نظر پڑی۔۱۹۵۹کے لگ بھگ جب وہ پاکستان آتے ہیں تو معاشی تنگدستی کا ساتھ ان کے ہمرکاب ہے، اور یہ بعینہ وہی زمانہ ہے جب ان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور خدا کی بستی کے کرداروں کو انہوں نے اپنے ساتھ ،اردگرد چلتے پھرتے ،اور بولتے،جملے کستے سنا ہوگا ۔ان کے افسانوی مجموعہ تیسرا آدمی میں یہ تبدیلی انکی گذشتہ تخلیقات کے بالمقابل دیکھی جا سکتی ہے۔اس وقت انہیں ایک افسانہ لکھنے کے پچاس روپے بطور معاوضہ ملتا تھا ۔ہر ہفتہ ایک افسانہ لکھنا ان کے معمولات میں تھا ۔جیب کتروں ،اٹھائی گیروں اور جواریوں کے ساتھ انہیں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ایک ایسے باشعور،تعلیم یافتہ اور تخلیقی ذہن کے لیے یہ مشاہدہ اور تجربہ کس قدر با معنی سطح پر ہوا ہو گا اس کا اظہار ان کے افسانوی مجموعے”تیسرا آدمی“،”راتوں کا شہر“ اور ناول خدا کی بستی میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ انکے بقول مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جیکب لائن کے ایک تنگ کوارٹر میں رات گئے میں بیٹھا کہانی لکھ رہا تھااور وہاں بیٹھے ہوئے بد قماش لوگ جواءکھیل رہے تھےجوئے کی ایک کھدری قسم ہوتی ہے جسے ”مانگ پتہ“ کہتے ہیں وہ مانگ پتہ کھیل رہے تھے اور چرس پی رہے تھے ۔کمرہ دھویں سے بھراہوا ہوا تھا اور میں چارپائی پر تکیے سے ٹیک لگائے کہانی لکھنے میں مگن تھا۔وہ کھیلتے کھیلتے مجھے مخاطب کر کے کہتے ”سوکت صاب!معسوکوں کو خط لکھے جا رہے ہیں “خدا کی بستی کی کہانی اسی زمانے کی ہے تاہم میں اصرار کے ساتھ کہوں گا کہ اس کے کردار میرے جانے پہچانے نہیں ہیں ۔یعنی وہ ایسے نہیں ہیں کہ زندگی میں وجود رکھتے ہوں۔اس کے برعکس جانگلوس اور اور کسی حدتک چار دیواری کے کرداروں کا وجودحقیقی ہے اور اس میں بیشتر واقعات بڑی حد تک حقائق پر مبنی ہیں “[۵]
کراچی آمد سے قبل انکی کہانیوںمیں فکری حوالے سے سماجی اور اقتصادی مسائل کو موضوع بنایا گیا ۔جیسا کہ انکے پہلے دو مجموعوں”تیسرا آدمی“ اور ”اندھیرا اور اندھیرا میں دیکھا جا سکتا ہے لیکن بعد میں کراچی آمد اور معاشی مسائل کے ساتھ نئے ماحول میں سر گرم عناصر ،سماج کے اندر ہونے والے نئے بدلاؤنچلے طبقات کے رجحانات،مسائل اور تضادات نے انکے یہاں سماجی ،اقتصادی مسائل کے ساتھ جرائم پیشہ کرداروں کی سائیکی ،ان کے پس ِ پردہ محرکات اور رویوں کا مشاہدہ اور مطالعہ ملتا ہے ۔وہ خود اس حوالے سے لکھتے ہیں:
ہمارے نقاد اصطلاحات کا سہارا لیتے ہیں مگر ان کا مفہوم ان کے ذہن میں واضح نہیں ہوتا ۔اب اسی اصطلاح کو لیجیے ۔جسے کرمنالوجی یعنی جرمیات کہا جاتا ہے ۔ان کے ذہن میں صرف یہی تصور ہوتا ہے ۔کہ جرائم صرف چوری ڈکیتی ،اغوا اور لوٹ مار وغیرہ ہیں جو عام طور پر دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں ۔مگر کیا یہی جرائم جاگیردار اور سر مایہ دار اور دوسرے حکمران طبقات نہیں انجام دیتے اور اگر ہاں آپ گہرائی میں جائیں اور ان کا تجزیہ کریں تو یہ واضح ہوگا کہ انکی بنیاد محنت کا استحصال ہی ہوتی ہے اور انکی نوعیت طبقاتی ہوتی ہے استحصال زدہ طبقات کے خلاف قانون کی خلاف ورزی کو جرم سمجھ لیا جاتا ہے اور حکمران طبقات اور مملکت کی مشینری کے لیے ایسے ہی ناروا اقدامات کو جرم نہیں قرار دیا جاتا۔یہ ایک معاشرتی المیہ ہے جس کی بنیاد طبقاتی عدم مساوات پر ہے “[۶]
مطالعہ ان کا بہت وسیع تھا ،خاص کر مغربی ادب کا مطالعہ کیا ۔پسندیدہ ادیبوں میں پریم چند،چارلس ڈکنز ،ٹالسٹائی،میکسم گورکی،بالزاک،دستو فسکی منٹو اور بیدی تھے۔اشتراکیت کا فلسفہ ان کا مسلکِ حیات تھا جس کا انتخاب خوب سوچ بچار کے بعد کیا ۔تاریخ اور اشتراکی فلسفے کا مطالعہ انہوں نے دلجمعی سے کیا ۔اس مطالعے کو اپنے مشاہدے سے تقویت دی ۔ اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ بقول کارل مارکس ،جملہ معلوم تاریخ ،طبقاتی تقسیم اور کشمکش کی تاریخ ہے۔شوکت صدیقی کا تاریخی و تہذیبی شعور قومی بیانیہ سے ہٹ کر تاریخ کو نصابی ضروریات سے مبّرا کر کے پیش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں انکی کتاب ”گمشدہ اوراق‘ برِ صغیر کی تاریخ کی ان جہات کا احاطہ کرتی ہے جس کے تحت برطانوی استعمار کی سازشوں اور دوہری پالیسوں کے ردِ عمل میں یہاںکے باسیوں نے بھی ایکشن لیا شوکت صدیقی کی سیاسی عمرانی اور سماجی فکر و فلسفہ کو تین فکری ستون پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔برصغیر بالخصوص مسلمان اور پاکستان کے مسلمانوں کے اندر سوشلزم کے بارے مخصوص نظریات کی ترویج کا تاریخی و سیاسی تناظر میں جائزہ۔نوآبادکاروں کی سامراجی پالیسیاں اور انکے سہولت کاروں کے مفادات۔”گمشدہ اوراق “شوکت صدیقی کی تاریخ سے دلچسپی اور تنقیدی و تاریخی شعور کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد شوکت صدیقی کے تاریخی شعور کے حوالے سے بجا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
شوکت صدیقی صاحب کی ایک اور قابل ذکر کتاب ”گمشدہ اوراق “کے نام سے شائع ہوئی جس میں ان کے وہ مضامین یکجا کیے گئے ہیں جو برِ صغیر میں بر طانوی استعمار کی ریشہ دوانیوں اور اس کے ردِ عمل میں اٹھنے والی احتجاجی اور انقلابی تحریکوںکا احاطہ کرتے ہیں اس کتاب میں تحریک ہجرت ،غدر تحریک ،غدر پارٹی ،ریشمی رومال تحریک،کمیونسٹ پارٹی اور ایسے ہی دیگر موضوعات پر فکر انگیز مضامین شامل ہیں ۔اس کتاب کی اہمیت اُس وقت ہمارے سامنے زیادہ اجاگر ہوجاتی ہے جب ہم اپنے یہاں پچھلے ساٹھ پینسٹھ برسوں میں سرکاری سطح پر لکھی یا لکھوائی گئی تاریخ کی کتابوں کے تناظرمیں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں جس قسم کی تاریخ نویسی کو فروغ دیا گیا ہے اس میں بر صغیر کی انقلابی تحریکوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ہماری روایتی تاریک نویسی تحریک ِ آزادی کے نام پر جن موضوعات کا احاطہ کرتی ہے وہ تمام و کمال برِ صغیر کے فرقہ وارانہ (communal)قصے تک محدود ہے کانگریس اور مسلم لیگ کی کشمکش اور انکی سیاسی آویزش ،متحدہ قومیت اور مسلم قومیت کے مباحثے نیز متحدہ ہندوستان یا ایک منقسم ہندوستان کی بحثیں یہ امور ہی ہماری تاریخ کا کل مافیہ فراہم کرتے ہیں “[۷]
 شوکت صدیقی کا مطالعہ انہیں باور کراتا ہے کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی جتنی بھی سیاسی تحریکیں ابھریں وہ بنیادی طور پر سامراج دشمن تھیں۔ سید احمد شہید بریلوی کی جماعت مجاہدین ۔ جنگِ آزادی1857،دیو بند تحریک،تحریک ہجرت،تحریک ِ خلافت اور تحریک پاکستان تمام تحریکیں اپنے مزاج کے اعتبار سے سامراج مخالف تھیں۔حتیٰ کہ جب 1917کا انقلاب روس اپنے جلو میں جس فلسفہ حیات کو اپنے ساتھ لایا اس کا بھی خیر مقدم مسلمانوں اور بالخصوص حکیم الامت علامہ اقبال نے کیا ۔جبکہ اس سے قبل جماعتِ اسلامی اور اس جیسی دیگر مذہبی اور نیم مذہبی جماعتیں مغربی طاقتوں کے طرز معاشرت اور سیاست کی سخت مخالف تھیں۔ اسی کتاب میں انہوں نے اظہار کیا ہے کہ کس طرح مغربی طاقتیں ذرائع ابلاغ کی قوت سے رائے عامہ ہموار کر تی ہیں ،بالخصوص ایک ایسا معاشرہ جو تقلیدی روش رکھتا ہے اور جس کا مزج غیر تحقیقی ہو وہاں کس قدر مؤثر انداز میں معاشرے کی فکری جہات کو اگلے کئی عشروں تک اپنے مقاصد کے لیے ایک مخصوص نہج دی جاسکتی ہے۔اس کی طرف بھی شوکت صدیقی اپنی کتاب میں اشارہ کرتے ہیں کہ ان نو آبادکاروں نے برِ صغیر کے عوام کی ذہنی فضا سازی کے لیے کس طرح سامراج دشمن تحریکوں کا رخ سوشلزم کی طرف موڑ دیا۔
شوکت صدیقی صاحب کا فکشن اس لحاظ سے بہت قابل ِ ذکر اور قابل ِقدر ہے۔کہ وہ بدلتے ہوئے پاکستانی سماج کو دیکھنے اور اس کا اعتراف کرنے میں ناکام نہیں رہے ۔ایک لحاظ سے یہ اُ ن کی بہت بڑی کامیابی بھی ہے کیونکہ وہ ایک یکسر مختلف پس منظر اور ماحول سے نکل کر پاکستان پہنچے تھے لیکن شوکت صدیقی نے پاکستان آنے کے بعد یہاں کے تہذیبی خدو خال اور ثقافتی تنوعات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائی اور پھر انہوں نے پاکستان میں بدلتے ہوئے سماج کی حرکیات کو بہت احسن طور پر سمجھنا شروع کر دیا تھا اُ ن کے ناولوں اور افسانوں میں جو زبان استعمال ہوئی ہے اور اُ ن کے کردارجن لفظیات کا سہارا لیتے ہیں اُ س کا ذرا سا بھی اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے تھے جو تقسیم ِ ہند سے قبل ہندوستان میں آباد تھے اور پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں سے کبھی ان کو سابقہ نہیں رہا تھا ۔یہی نہیں بلکہ انہوں مقامی لب و لہجہ اور مقامی زبانوں کو برتنے کی بھی کامیاب کوشش کی “[۸]
 شوکت صدیقی کا یہ ناول ”خدا کی بستی“ سماج اور معاشرے کے انہی رنگوں کے متعلق ہے۔یا یوں کہیے اس ناسور کے متعلق ہے جس نے ابتداءمیں ہی پاکستان کے اندر اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دی تھیں ۔تقسیم اور فسادات کا المیہ اس سماج کے اندر کسی بھی قسم کی نظریاتی ،داخلی قوت کے طور پر نہیں سامنے آسکابنیادی طور پر یہ ایک ناکام تجربہ تھا کیونکہ یہاں کے باسیوں نے آزادی ،ہجرت،تقسیم کے بعد فسادات ایسے المیوں سے کسی مفروضہ یا خوش کن معاشرے کی تشکیل کے امکانات کو دریافت کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی ،نہ ریاستی سطح پر، نہ معاشرتی سطح پر نہ فرد کی سطح پر۔ بلکہ یہ تجربہ ایک ایسے تہذیبی المیے اور مسائل ساتھ لایا جہاں تہذیبی،اخلاقی ،سماجی اقدار مادیت پرستی ،اور چھیناجھپٹی کے عمل کے سامنے بھر بھری ریت بن گئی۔کس طرح معاشرے کے اندر امیر امیر تر ہوتے گئے اور غریب غریب تر۔کیونکر چوری،ڈکیتی،فراڈ کرپشن جیسے عناصر نے سر اُٹھایا اور نئی نسل کو استعمال کیا اس راستے پر ڈالا کہ جو کل چاقو استعمال کرتا تھا وہ آج کلاشنکوف استعمال کرتاہے۔
کمیں گاہ“ ساٹھ کی دہائی میں پہلی بار منظر ِ عام پر آیا۔تقریبا 176 صفحات پر مشتمل ایک مختصر ناول ہے۔شوکت صدیقی کا یہ ناول سرمایہ دارانہ اخلاقیات کی نقاب کشائی کرتا نظر آتا ہے۔’خدا کی بستی [1958] کے تیس سال بعد جانگلوس،تقریبا دو ہزار صفحات پر مشتمل ناول 1988ءمیں شائع ہوا ۔کتابی شکل[تین جلدوں] میں اس کی اشاعت سے قبل یہ ’سب رنگ ڈائجسٹ ‘ میں سلسلہ وار شائع ہونے والا مقبول ترین ناول تھا۔
جانگلوس انہوں نے 1978ءمیں لکھنا شروع کیا جس کے پیچھے محرک ان کا وہ مضمون بن گیا”چھوٹے چور بڑے چور“ جو 17 مئی 1976 میں لکھا گیا۔مساوات کے مدیر اور ایک طویل عرصہ صحافت کے پیشے سے وابستہ رہنے کے سبب ان کا معاشرتی و تہذیبی انہدام کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔سماجی شکست و ریخت کو وہ مارکسی تناظر میں دیکھتے تھے۔چیزوں کو دیکھنے کا یہ سیاق انہیں بالآ خر اس تھیسس تک لے گیا کہ معاشرتی استحصال اول اول محنت کی چوری سے شروع ہوتا ہے۔ جس کا اظہار انہوں جس کا اظہار انہوں نے وقتاً فوقتاً کئی مقامات پر کیا ۔انکے نزدیک معاشرتی سماجی معاملات میں وہ چھوٹی چھوٹی چوریاں جو آغازِ کار ایک فرد یا ایک خاندان کی محنت کی چوری تک محدود ہوتی ہیں رفتہ رفتہ وہ بڑھ کر استحصال کی شکل میں سماج کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔تاریخی اعتبار سے طبقاتی حد بندیوں اور استحصال کا آغاز احساس ِ ملکیت سے شروع ہوا جب کسی نے زمین کے ایک ٹکڑے پر قبضہ کرکے کہا کہ” یہ میری ملکیت ہے“یا جب جنگوں کے دوران ہاتھ لگنے والے انسانوں کو غلام بنانے کا عمل شروع ہوا جو کہ انفرادی غلامی پر مشتمل تھا یا مویشیوں کے لیے بھی ذاتی ملکیت کا دعویٰ کیا گیا ۔لہذا شوکت صدیقی کا تاریخی شعور انہیں آج تک کے انسانی معاشرے کو تین ادوار یا مراحل غلام داری،جاگیرداری اور سرمایہ داری سے گزرتا ہوا دکھاتا ہےشوکت صدیقی کی اشتراکیت پسند اپروچ اسے ماضی کا قیدی نہیں بناتی بلکہ زندگی سے متعلق پریکٹیکل اپروچ کا مطالعہ ملتا ہے ان کے ناولوں میں تقسیم کے بعد کا منظر نامہ،کراچی میں نیا ابھرتا پاکستانی معاشرہ جو جھگیوں اور جھونپڑ پٹی جیسی بستیوں سے ابھرتا ہے، پاکستانی سیاسی سماجی صورتحال بے ساختہ اظہار،تہذیبی و ثقافتی قدروں کا بحران،صنعتی عہد،سماجی مرتبہ کی خواہش،دولت کے حصول کی اندھی لگن،مستقبل کا خوف،زندگی کا بد ہیت نقش،بیورو کریسی،نو دولتیا طبقہ،آدرشوں کا ٹوٹنا ،جرائم کی دنیا،دیہی پنجاب کی تصویر کشی،جعلی کلیموں کا بازار گرم کرتے مقامی جاگیر دار، غربت کی انتہا، عورت کی مظلومیت، چادر اور چار دیواری کے تنا ظر ، لکھنو کا زوال پذیری تہذیبی معاشرہ،ہندوستان میں نیا ابھرتا ہوا سرمایہ دار اور انڈسٹریل طبقہ اور اس کی سفاکانہ اقدار ان کے نالوں کا منظر نامہ ہے ۔
انتظار حسین [21دسمبر1925۔2فروری 2016] پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے ۔انکے والد منظر علی مذہبی ذہن کے آدمی تھے بقول انتظار حسین ’وہ کچھ واعظ او ر مبلغ قسم کے آدمی تھے“[۹]
ان کی والدہ گھریلو خاتون تھیں جن سے انتظار صاحب کو بہت محبت تھی اور انکے مزاج میں موجود نفاست بھی انکی اپنی والدہ سے لگاؤ کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ان کے والد انتظار حسین کو دینی تعلیم کی طرف لاناچاہتے تھے ۔لہذا عربی انہوں نے اپنے والد سے پڑھی۔اور ابتدائی تعلیم کا بندو بست بھی گھر پر تھا ، کیونکہ انکے والد جدید تعلیم سے اس دور کے رائج رویوں میں سے ایک یعنی انگریزی کلچر ،تہذیب اور تعلیم سے حتیٰ الامکان دوری بنائے رکھنے کے رجحان کے حامل تھے۔ لہذا مڈل تک انکی تعلیم گھر پر ہوئی۔اس دور میں املی ،نیم،جامن ،آم کے پیڑ انکے شعور کے ساتھی بنے اور اکّوں کی سواری انکا محبوب مشغلہ۔اپنے اس دور کے متعلق وہ کہتے ہیں ”میں جب تک اس بستی میں رہا اسکول میں داخل نہیں ہوا۔اس میں میرے والد صاحب کا ایک تعصب بھی کام کررہا تھا ٍان کا تعصب یہ تھا کہ صاحب یہ جو نئی تعلیم ہے یہ کچھ بہت غلط ہے۔تو وہ مُصر تھے کہ میں تو اپنے بیٹے کو گھر پڑھاؤں گا اور عربی سے انہوں نے میری تعلیم کا آغاز کیا تھا۔تو وہ بہت سے سال مجھے عربی پڑھانے کی کوشش کرتے رہے۔اور میں چھپ کر ان سے اردو کی کتابیں پڑھتا رہا۔تو میرا مطالعہ اور یہ تعلیم جو ہے کہ میرے والد صاحب مجھے کچھ تعلیم دینے کی کوشش کر رہے تھے میں کچھ اور تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ یعنی میں جنگلوں میں جا کر آم بیر اور اس قسم کی چیزیں توڑتا تھا ۔املی کی کٹاریںاور جو میں یعنی درختوں سے اور کھیتوں سے اور ان میدانوں سے جو میرا ربط ضبط قائم ہوتا تھا اس سے جو رعایتیں اور کہانیاں تھیں وہ انہیں قبول کر رہا تھا۔انتظار حسین کے شعور کو مرتب کرنے میں الف لیلیٰ کی کہانیاں ،والد ماجد کی مذہبی کتب،قصص الانبیاء،اور روز رات کو نانی اماں سے سنی ہوئی کہانیوں نے ،مظاہر فطرت کے حوالے سے وساوس،توہمات کی وہ دنیا جو ہندوستانی تہذیب کی فضا میں ایک درخت یا کسی خالی پڑے گھر کے گرد آسیب اور جنوں کی وابستگی اور شگون لینے کے عمل سے جڑی ہے یہ سب چیزیں انتظار حسین کے شعور کا حصہّ بن رہی تھیں۔ اور پھر اسی دور میں ان کا پہلا واسطہ کہانی کی ایک اور شکل سے پڑا جو راشد الخیری کی کہانیاں تھیں ۔والد کی مذہبی روایت کے اسیر انتظار حسین بعد میں اس سے بغاوت پر بھی بہت کچھ تیا ر ہو گئے جب انکی بڑی بہن حسنین فاطمہ کی خواہش پر انہیں اسکول میں داخل کرایا گیا۔1946میں میرٹھ کالج میں ایم اے اردو کیا اساتذہ میں سے پروفیسر کرّار حسین سے انہوں نے گہرا اثر قبول کیا ۔جبکہ حسن عسکری کی دعوت پر ہی انہوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی ۔ حسن عسکری کو بھی انکے معنوی اساتذہ میں شمار کیا جاسکتا ہے ”اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی و تشکیلی ادوار میں انہوں نے حسن عسکری سے گہرا اثر قبول کیا ۔ان کے ابتدائی مضامین میں یہ اثرات نمایاں نظر آتے ہیں ۔ترقی پسندتحریک سے اختلاف،فسادات کے افسانوں کے بارے میں نقطہ نظر اور پاکستانی ادب جیسے معاملات میں وہ محمد حسن عسکری کی اختیار کردہ راہ کے مسافر نظر آتے ہیں اور انکے خیالات سے دور نہیں جاتے۔لاہور میں اپنے ابتدائی دنوں میں بھی وہ حسن عسکری کے زیرِ سایہ چلتے نظر آتے ہیں جس کا احوال انہوں نے ’چراغوں کادھواں ‘ میں بھی درج کیا ہے ۔انکے توسط سے وہ ناصر کاظمی سے بھی ملے جو انکے گہرے دوست بن گئے اور یہ دوستی انکی عسکری صاحب سے ارادت مندی میں دراڑ کا سبب بن گئی“[۱۰]
دوسری طرف عسکری صاحب تصوف کی طرف چلے گئے اور انتظار حسین اپنی افتاد ِ طبع کے باعث ان راہوں سے دور رہے۔اگرچہ یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ تصوف اور دینی و مذہبی رجحانات انکے خاندانی ورثہ یا روایت کا حصہ ہیں۔ 2011ءمیں اپنی آپ بیتی ’جستجو کیا ہے ‘میں انہوں نے درج کیا ہے۔کہ انکے خاندان کے ایک بزرگ خاندانی شجرے کو حضرت امام حسین سے جا ملاتے تھے اور اس خاندان کو اہل ِ سادات میں سے بتاتے تھے جبکہ عمر میمن کو دیے طویل انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:
میں بچپن میں سنتا رہوں کہ ہمارے خاندان میں ہر نسل میں کوئی نہ کوئی فقیریا درویش یا صوفی جو بھی آپ کہنا چاہیں ،ہوتا رہا ہےمیرے ایک بزرگ تھے میرے والد صاحب کے ماموں جو بڑے عالم قسم کے آدمی تھے اور پورے علاقے میں ایک صوفی اوربزرگ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے [۱۱]
دوسری طرف انکی ماموں زاد بہن کے گھر میں رسالہ عصمت کا آنا اس بات کی علامت تھا کہ ایک طرف puritan رویہ ہے تو دوسری طرف انکے خاندان میں ادب اور جدید عہد کے ساتھ جڑت بھی موجود ہے۔
انتظار حسین کا عہد وہ ہے جو اپنے اندر مظہریاتی سطح پر بہت شعوری و غیر شعوری تبدیلیوں،تضادات کا حامل تھا۔ 1857کا زمانہ ماضی قریب میں اس عہد کے مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور میں کرب انگیز عہد تھا تو اس کے ساتھ نو آبادیاتی ہندوستان ایک نئے کلچر کا ہر سطح پر سامنا بھی کر رہا تھا اور مسلمانوں کی طرف سے اسکے مقابل پسپائی کے آثار نمایاں تھے، یہ پسپائی اس وقت پہلی بار جدید عہد کا کھلی آنکھوں سے سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے جب سر سید احمد خان کی طرف سے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کیا گیا ۔1925ءسے 2016ءتک تقریباً ایک صدی کے دوران کتنے بڑے تاریخی نوعیت کے واقعات کا مشاہدہ انتظار حسین نے کیا نہ صرف یہ بلکہ ان سب واقعات کو سیاسی و تہذیبی،تاریخی تناظرات میں ایک کلیت کے ساتھ دیکھا اور انسانی شعور میں اس کی عصری معنویت کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی۔1857کے غدر سے پہلی عالمی جنگ،تحریک خلافت،جلیانوالہ باغ کا سانحہ، تقسیم ِ ہند ،ہجرت ،فسادات،نئے ملک کے تاریخی،تہذیبی،سیاسی فکری تناظرات کے وہ نہ صرف مشاہدہ بیں بھی تھے بلکہ تخلیقی اعتبار سے فعال بھی کہ آخری وقت تک ان کے کالم اخبارات میں چھپتے رہے۔انتظار حسین کئی حوالوں سے اردو دنیا میں جانے جاتے ہیں اور اپنی جگہ پر یہ حوالے بڑے پر اثر بھی ہیں ان کا مقدم تخلیقی حوالہ تو افسانہ کا ہے۔پہلا افسانہ 1947میں قیوما کی دکان لکھا ۔کل نو افسانوی مجموعے لکھے ،انکے ناول اور مختصر ناولوں کی کل تعداد پانچ ہے ۔انتظار حسین کے چار ناولوں چاند گرہن ،بستی،نیا گھر اور آگے سمندر ہے کے تاریخی و تہذیبی مطالعہ کو موضوع بناتا ہے انتظار حسین ، ناسٹلجیا ،ماضی کی کربناکیوں کا شاہسوار اور ہند اسلامی تہذیب کی پرچھائیں کے طور پر اپنی شناخت قائم کرتا ہے،۔تقسیم سے قبل کا بر ِ صغیر ،بنگلہ دیش کے قیام تک،1965، 1971 کی جنگوں کا احوال ،مہاجرت کا باطنی احساس ،معاشرتی وسیاسی شعور اور گہری سماجی ذمہ داریاں ،تاریخی و تہذیبی وژن،علامت ،ہجرت،ماضی کی معنویت ، تاریخ، مذہب،نسلی اثرات،دیومالا،حکایتیں،جاتک کہانیاں،عقائد،توہمات ،ایک ہزار سالہ ہند اسلامی تجربہ،چودہ سو سالہ تاریخی شعور،تہذیبی اقدار کا ماتم،تہذیبی جڑوں کی تلاش ایسے سروکاروں سے بحث کرتاہے۔
 گجرات سے تعلق رکھنے والے عبداللہ حسین [محمد خان: 14اگست1931ءتا 4 جولائی 2015] قرة العین حیدر کے ہم عصر تھے ۔ ان کے والد متوسط درجے کے زمیندار تھے۔ عبداللہ حسین اپنے والد کی پانچویں بیوی کی پہلی اور آخری اولاد تھے تین بہنوں کے اکلوتے بھائی اور ابھی چھے ماہ ہی کے ہوئے تھے کہ انکی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ تقسیم برصغیر کے وقت تقریباً۶۱ برس کے تھے تقسیم عبداللہ حسین کے لیے ایک بڑے واقعے اور سانحہ کی صورت سامنے آتی ہے۔جس کے اثرات اور مابعد اثرات نے انہیں ناول میں سیاست ،ریاست اور سماج کی مثلث پر مبنی ایسی کہانیوں کا تخلیق کار بنا دیا جس میں تاریخی اور عصری شعور کی کار فرمائی بڑی نمایا ں ہے۔
اپنی وفات سے چند مہینے پہلے ایک فیس بک پوسٹ میں اپنے لڑکپن کے ایک تجربے کی روداد قلم بند کی تھی انکی یہ انگریزی تحریر اجمل کمال نے ’آج کراچی کے ایک شمارے نمبر 90)میں اپنے اردو ترجمے کے ساتھ شائع کی ہے ۔اپنی فکری اہمیت اور معنویت کے پیشِ نظر یہ تحریر اس لائق ہے کہ اسے یہاں نقل کردیا جائے عبداللہ حسین نے لکھا تھا۔
میں پیچھے مڑ کر اس دور دراز صبح کی طرف دیکھتا ہوں جب میں اسکول کا لڑکا تھا اور رات بھر گولیاں چلنے کی آواز سنتا رہتا تھاہم لڑکوں کی ایک ٹولی صبح تڑکے سائیکل چلایا کرتی تھی اسکول جانے کی بجائے ہم ریلوے اسٹیشن کی طرف چلے جاتےتھے ۔بنّوںسے آنے والی ٹرین کو جو ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو انڈیا لے جا رہی تھی ،ان قبائلیوں نے روک لیا تھاجو کشمیر میں لڑنے کی غرض سے ہمارے شہر میں مقیم تھے اور وہ مسافروں کو ذبح کر رہے تھے ۔مقامی شہری بھی پوری توانائی کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے ہم نے اپنے ڈرائنگ ماسٹر کو دیکھا جو ایک شاعر اور گایک بھی تھااور ہمارا آئیڈیل تھا۔اس نے موٹے سے ایک آدمی کو زمین پر گرا رکھا تھا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی درزیوں والی قینچی اس کے جسم میں بار بار بھونک رہا تھاپھر اس نے اس آدمی کے کرتے کا سامنے والا حصہ پھاڑ کر اس کی سوتی بنڈی کی دونوں جیبیں ،جو نوٹوں اور سونے کے زیوروں سے بھری ہوئی تھیں،اسی قینچی سے کا ٹ لیں،اس کے بعد ماسٹرسرور پیچھے دیکھے بغیر ،اپنے مال ِ غنیمت کے ساتھ بھاگ کھڑاہواپورا پلیٹ فارم مرے ہوئے اور مرتے ہوئے انسانوں سے بھرا ہوا تھا۔میری عمر اس وقت سولہ برس کی نہیں ہوئی تھی۔
یہ صرف ہمارے خوابوں کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ دنیا کے ساتھ ہمارے رومانس کی بھی موت تھی ۔ہم میں سے کئی بعد میں خود کردہ جلا وطنی میں چلے گئے،چند ایک نہ لوٹنے کے لیے ۔لیکن ہم جہاں بھی گئے ،ناخوش رہے،ہم ایک اکھڑی ہوئی گمشدہ نسل تھے ۔۔۔۔لوگ اکثر ٹوٹے ہوئے دلوں کی بات کرتے ہیں لیکن اس نسل کے ادیبوں نے زخمی ذہنوں کے ساتھ لکھا ہم سب کے اندر اپنی اپنی جلاوطنی کی جگہیں موجود تھیں ‘یہ کتنی گہری اداسی اورلاحاصلی کے احساس میں ڈوبے ہوئے الفاظ ہیں اس اداسی نے اور لاحاصلی کے اس احساس نے زندگی بھر عبداللہ حسین کا پیچھانہیں چھوڑا۔لہذا اس واقعہ پر ذرا بھی حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ انکی کہانیوں کا آخری مجموعہ جو اُردو میں سامنے آیا اس کا عنوان ’فریب‘ ہے یہ عام تجربوں پر مبنی زندگی کی کہانیاں ہیں!“[۲ ۱]
عبداللہ حسین کے متعلق اتنی بات تو سب جانتے ہیں کہ یہ اردو ادب کا وہ ناول نگار ہے جو اپنی قد آور شخصیت کے باجود اردو ادبی منظر نامے سے ہمیشہ پرے رہے۔وہ ایک مجلسی انسان نہیں تھے،لیکن کشادہ قلبی،انسان دوستی ،لطیف حسِ مزاح ،روشن خیالی ،آزادہ روی ، انکی شخصیت کو غیر معمولی صفات کا حامل بنانے والی خوبیا ں تھیں ۔گفتگو میں محتاط لیکن اپنی ظاہری وضع قطع سے بے نیاز ایک ایسا ادیب جسے لوگوں کے دوہرے معیارات حیران بھی کرتے تھے اور بعض اوقات جھنجلاہٹ میں بھی مبتلاکرد یتے تھے ۔
 عبداللہ حسین کے تاریخی تناظرات اور مہاجرت، عالمی جنگوں ، تقسیم ہند اور فسادات کے اس خطے پر اثرات ، ملٹرائزیشن کا عمل ان کے ناولوں اداس نسلیں باگھ اور نادار لوگ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے  عبداللہ حسین کاتاریخی و تہذیبی شعور ہند مسلم کلچرکے اشتراک کی تاریخی داستان، برصغیر پاک و ہند کا تحریک ِ آزادی کے تناظر میں سماجی و تاریخی جائزہ، پہلی اور دوسری جنگ ِ عظیم،تقسیم ِ بر صغیر کی نسل کی ہیجان خیزی ۔نینشلزم اور کمیونلزم کی جدلیات،معاشرتی نا انصافی و عدم مساوات کے تناظر میں شہری و دیہی زندگی کا تضاد،جہالت مفلسی،انسانی جبر و قہر،غربت و افلاس کے سائے تلے سسکتی زندگی،صنعتی انقلاب،جمود اور قناعت،انگریزوں کی ریشہ دوانیاں،جنگ ِ آزادی کا شور ، خوں ریزی،ہجرت ،بیگانگی جبکہ ناول باگھ میں ضیا ءکا دور سیاہ، ظلم ،زیادتی اور جبر،خوف و دہشت کے سائے،تاریخ کا نوحہ، نادار لوگ میں پاکستان کی متوازن تاریخ،سیاسی بحران،مصلحت کوشی،معاشرتی مغائرت و تفاوت کا آئینہ دار،رائیگانی کا ہمہ گیر احساس جیسے عناصر کو پیش کیا گیا ہے۔
دریائے چناب کے کنارے پر واقع ضلع گجرات کے قصبہ جو کالیاں میں پردادا محکم دین،داداچودھری امیر بخش کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھنے والے جاٹ(تارڑ)برادری سے تھے آبائی پیشہ کاشتکاری تھا۔پرکھے انکے سکھ تھے جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا ،مستنصر حسین تارڑ[یکم مارچ 1939] کے والد کا نام چوہدری رحمت علی خان اور والدہ کا نام محترمہ نواب بیگم تھا۔چھ بہن بھائیوں [مستنصر حسین تارڑ،زبیر حسین تارڑ،کرنل مبشر حسین تارڑ،پروین منظور،شاہدہ الطاف،شائستہ ذوالفقار] میں مستنصر حسین پہلے نمبر پر ہیں۔دنیا کے تقریبا تما م قابل ذکر مقامات اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بالخصوص سفر کیے۔ ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔مختلف ڈراموں میں اداکاری کی،کمپئیرنگ اور الیکشن ٹرانسمیشن بھی انکے تجربات کا حصہ بنے۔اردو دنیا کے بڑے اور بیسٹ سیلر ادیب ۔سنگ ِ میل پبلی کیشنز ان کا مستقل اشاعتی ادارہ ہے۔ مطالعہ ان کا بہت وسیع ہے مطالعہ کی یہ عادت ہنوز برقرار ہے ۔کہ جس میں تاریخ ،ادب ،جغرافیہ ،تصوف،بشریات اور فلسفہ بالخصوص شامل ہیں ۔اس وقت دنیا کے کلاسیکل لٹریچر میں تمام اہم ناموں کی تخلیقات ان کے مطالعہ میں شامل ہیں بالخصوص ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ادب کے نوبل پرائز ونر تخلیق کاروں اور تخلیق کا مطالعہ کیا جائےاس کے علاوہ فلم اور تھیٹر سے بھی گہرا لگاؤرکھتے ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ کی وسعت ِ مطالعہ ،متنوع تجربات اسے رومان اور راکھ کے بیچ اسیر بنائے ہوئے ملتے ہیں رومان انگیز طاقت ور بیانیہ،اداسی، فنا کا احساس، موت کا مستقل کردار، تہذیبی زوال کو دریاوؤں کی خشکی کی متھ سے بیان کرنے کی کوشش کی ، پرندوں اور موت سے تخلیقی کائنات کو مزین کرتے ہیں ،سماجی جبر، آمریت ،وقت کی تند و تیز دھار،انڈس تہذیب کے مختلف گوشوں کی دریافت ،پنجابی اور دراوڑی تہذیب سے نسبت کا تفاخر، لاہور شہر ،رنجیت سنگھ ، پنجاب کے تہذیبی ورثے میں سکھوں کی عملدری پر بطور خاص نگاہ کرتے ہیں بہاؤکواستعارہ بنایا ہے خشک ہوتا ہوا دریا اور پاکستان کا منظر نامہ راکھ:پھولوں کے شہر کی کایا پلٹ سیاسی اتار چڑھاؤ۔تاریخی بصیرت، سقوط بنگا ل کا گھاؤ، عصری تباہی غزال شب میں توقعات و پیمان کی خوں ریزی،برصغیر خصوصاً پاکستانی پنجاب کے ’انقلابیوں‘ کی روس کے بکھراؤ کے بعد وطن کی طرف دل شکستہ مراجعت لیکن واپسی کے مسدود راستے اس کے ناولوں کے موضوعات ہیں۔
حسن منظر [4 مارچ 1934]کا پہلا ناول العاصفہ 2006ءمیں مرزا اطہر بیگ کے ناول غلام باغ ،شمس الرحمن فاروقی کا ’کئی چاند تھے سر آسمان ‘کے ساتھ ہی منظر ِ عام پر آیا۔اگلے ایک عشرے میں ان کی کئی تحریریں ،افسانوی مجموعے اور چھے مزید ناول منظر عام پر آئے۔1934کو گدا پاڑہ ضلع ہاپوڑ  میں پیدا ہونے والے حسن منظر کی تحریریں فنی و فکری خصائص کے ساتھ ساتھ گہری تاریخی بصیرت اور عصری حساسیت کی حامل ہیں کہ حسن منظر کا عہد ملکی اور بین الملکی ہر دو سطح پر تیز رفتار تبدیلیوں کا عہد رہا۔ انقلاب روس، مارکسزم،سوشلزم،فاشزم ،کیپیٹل ازم، نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ اور مابعد نو آبادیاتی نظام ،فکری سطح پر اذہان کو دوعوت ِ تفکر دے رہے تھے تو پہلی عالمی جنگ کی ہولناکیوں سے انگشت بدنداں دنیا اگلی عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی برصغیر میں بیک وقت دو دھارے فکری سطح پر رواں دواں تھے۔ ایک طرف علم،شعور و تہذیب کی روشنی سے برصغیر کے اذہان روشناس ہو رہے تھے تو دوسری طرف انتہا پسندانہ سوچیں فرقہ واریت کو ہوا دے رہی تھیں ادبی سطح پر انگارے شعلے اور انجمن ترقی پسند مصنفین نے ادبی منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا تھا ۔حسن منظر جس ادبی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں وہاں فکر کے دھارے پریم چند ،ٹالسٹائی،دستو فسکی،ٹیگور کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی بالخصوص روسی ادیبوں کے مطالعہ سے تقویت پا رہے تھے۔ قرآن پاک کے مختلف زبانوں میں کیے گئے تراجم کا مطالعہ بھی جم کر کیا تو دیوان غالب بھی ہمرکاب رہا ہمیشہ۔پاکستان کے مختلف خطوں بالخصوص لاہور کراچی میں رہے اور حیدر آبا کو بھی ااپنا مسکن بنایا 1960کی دہائی میں ملک سے باہر رہے تقریبا دس سال کا عرصہ مختلف ممالک افریقہ،یورپ اور مشرقِ وسطٰی میں گزارا۔ہجرت بھی کی اور اس تجربہ کا مشاہدہ بھی لیکن ہجرت کا موضوع ان کے ہاں جنس ،سیاست یا تقسیم کے حوالے سے نہیں ہے جیسا کہ ان کے دیگر ہم عصر لیکن سینئر فکشن نگاروں کے ہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ حسن منظر کے ہاں تنوع وہ عنصر ہے جو انکی تخلیقات میں شناخت کیا جاسکتا ہے یہ تنوع ان کے ہاں موضوعات میں ،لوکیل میں ،کرداروں کے چناؤمیں یہاں تک کہ زبان اور اسلوب کی سطح پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن ان کا ٹریٹمنٹ کچھ ایساہے کہ اجنبی کردار ،ماحول،زبان ،معاشرت،تہذیب کے باوجود ان کرداروں کی ابتلائی،ان کی خوشیاں پریشانیاں سب ویسی ہوتی ہیں جیسی دوسری جگہوں کی اس لیے ان کے ان کرداروں سے اجنبیت کا احساس پیدا نہیں ہونے پاتا۔                
دھنی بخش کے بیٹے۔۔۔انسان اے انسان: ایک متین اور معتبر دنیا کی کامل عکاسی، مشاہدے کی وسعت،فکر کی گہرائی تجربے کا تنوع،سندھی سر زمین میں وڈیرہ شاہی میں پنپتے نظام کے اندر عورت کے سماجی ، جنسی استحصال ، معاشرے کے ٹھہراو ¿ ، زوال، اور مقتدر طبقات کی ذہنی زبوں حالی کی عکاسی کرتا ہے ،جبکہ انسان اے انسان میں حسن منظر نے تقسیم سے ذرا قبل کا منظر نامہ ، مسلم پیورٹن رویے کا منفی رویہ، نئی نسل کے کردار کی کجی میں بے جا سختی ، نئے پاکستانی سماج میں کرپشن اور ناجائز ذرائع سے دولٹ اکٹھی کرنے کی ریس ، مذہبی ادارے کی نئی جنم لیتی صورت ان کے یہاں برتے جانے والے موضوعات ہیں۔
العاصفہ ۔مسلم دنیا کی سچائیوں بالخصوص برصغیر پاک و ہند کے اس خطہ کی ترجمانی،دھوکہ اور منافقت پر مبنی سماج کی نقاب کشائی بیر شیبا میں ایک یہودی نرس اور اس کے لاشعور میں موجود ہولوکاسٹ کی معنویت جبکہ حبس میں حسن منظر نے عرب اسرائیل تنازعے میں سفید ہاد ، یورپیوں کی دوہری منافقت اور تضاد پر مبنی سیاسی فتنہ طرازیوں کو بھی بے نقاب کیا اور مسلم دنیا کی بے حسی کو سمجھنے اور ہائی لائیٹ کرنے کی کوشش ملتی ہے ۔ اردو کے یہ چند نمائندہ ناول نگار ہیں جن کے فکشن کو انکے عہد ،انکے خانگی حالات ، تعلیم، تجربات حیات ماضی قریب و بعد کے مطالعے سے سمجھنے کی کاوش کی گئی ہے ان ناول نگاروں نے تقسیم کے المیے کو اپنی تمام تر گہرائی کے ساتھ نہ صرف محسوس کیا بلکہ منتخب معاشرے میں بنیادی اداروں کے کردار پر اعتماد کا اظہار نہ کرتے ہوئے اس معاشرے کی تنزلی کے اسباب کو سمجھنے کی کاوش کی ۔جنس ، مذہب، سزا و جزا، سیاسی مصلحت کوشیوں ، ازلی ابدی انسان کو ان کے ساتھ نبرد آزما ہوتے بھی دیکھا اور زندگی سے ہٹ کر یاسیت ،واماندگی کا کھوج لگانے کی بھی سعی کی۔ یہ ناول سیاسی سماجی اور مقتدر بیانیہ پر مبنی تاریخ کے بین ایک متوازن تاریخ و شعور کی راہ بھی دکھلاتے ہیں اور کچھ سوالوں کو جنم دیتے ہیں البتہ ان کا جواب اپنے قاری سے طلب کرتے ہیں ۔


حواشی و حوالہ جات
۱۔      آصف فرخی ،ناول کا نیا فن ،سٹی بک پوائنٹ ،کراچی،2018،ص12/11
۲۔     علی احمد فاظمی، پرفیسر، ”ایک چادر میلی سی “ کا سماجی اور تہذیبی مطالعہ مشمولہ مکالمہ ، اکادمی بادیافت، کراچی، سال نامہ 218، ص نمبر 372
۳۔     انوار احمد،ڈاکٹر،اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ “ کتاب نگر ملتان، 2017ص220
۴۔     آنند ،ستیہ پال ،شوکت صدیقی ایک سوانحی مونتاژ مشمولہ ”جدید ادب“شمارہ 13جولائی تا دسمبر 2009،ص 302
۵۔     شوکت صدیقی افکارو شخصیت،مرتبہ نثار حسین،رکتاب پبلی کیشنز،2014،،ص147
۶۔     ایضاً،ص61/60
  ۷۔     شوکت صدیقی افکارو شخصیت،ایضاً، ص111
۸۔     جعفر احمد،سید ،ڈاکٹر ،مقدمہ مشمولہ،شوکت صدیقی افکا رو شخصیت ،ایضاً،2014،ص15/14
۹۔     محمد عمر میمن،انتظار حسین ایک بات چیت مشمولہ’ انتظار حسین ایک دبستان،تر تیب ڈاکٹر ارتضٰی کریم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی1996،ص50،عقیدے کے اعتبار سے اہلِ تشیع تھے،والدہ انکی صغریٰ بیگم ایک گھریلو لیکن نفیس مزا
۱۰۔    آصف فرخی ،ایضا،ص22
۱۱۔     محمد عمر میمن،ایضاً،ص50
۱۲۔    شمیم حنفی،عبداللہ حسین کو یاد کرتے ہوئے ،مشمولہ دنیا زاد ،کتابی سلسلہ43،کراچی،2016، ص242/241

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com