نائن الیون اورمزاحمتی ناول

محمدکامران شہزاد۔ پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر،  گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، فیصل آباد۔
ڈاکٹرمحمدآصف اعوان۔ پروفیسر ,صدرشعبہ اردو،  ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لینگویجز، جی سی  یونیورسٹی، فیصل آباد۔

ABSTRACT :
In historical junctures of Eastern and Western civilizations, the nine-eleven event has great influence on literature produced in both poles of human spheres. This paradigm shift compelled the fiction writers to produce resistance in the literal literature of Pakistan. Mustanser Hussain Tarar and Muhammad Ilyas utilized resistance in their literature. This paper deals the same zeal, passion and enthusiasm in literature produced in perspective of Nine-Eleven event.
Key Words:  Nine-Eleven, Resistance, Novel, Eastern Pole, Literal Spheres
بیسویں صدی کے اختتامی عشروں میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا تو دنیا میں یہ سمجھا گیا کہ سیاسی بنیادوں پر یہ آخری جنگ ہوگی لیکن بعدازاں دنیا میں انقلاب کے کھوکھلے نعرے اور جنگیں ہوتی رہیں۔ نوے کی دہائی میں سموئیل پی ہنٹنگٹن  اپنی مشہور کتاب The Clash of Civilizationمیں لکھتے ہیں کہ سرد جنگ کے بعد دنیا میں جنگ مذہب، فرقہ واریت، قومیت کی بنیاد پر ہوگی اقتباس ملاحظہ کیجئے:
Cold War world drives…. A third map of the post from what is often called the realist theory of international relations. According to this theory, states are the primary indeed, the relation among  states is one of the anarchy, and hence to insure their survival attempt to maximize and seaurity, state invariably their power. If one state sees another state increasing its power and there by becoming a pontential threat, it attemts to protect its own security by strengthening its power on or by allying it self with other states. The intrests and actions of the more or less 18th cold war world can be predicted states of the post. (1)
سموئیل کی بات سچ ثابت ہوئی اور اکیسویں صدی  کا آغاز کربناک ثابت ہوا ،جب نومبر 2001 ءمیں امریکہ کے دو  بلندترین عظیم ٹاوروں سے جہاز ٹکرائے اور پینٹاگون  کی عمارت پر دہشت گردی کے واقعے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ انسانی تاریخ کے دھارے با لکل نئی سمت کی طرف مڑ گئے۔ عالمی امور پر غیر مطالعہ رکھنے والے دانشوروں اور ادیبوں نے نائن الیون کے پس منظر میں عالمی سیاست کے حقائق کو بیان کیا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران اس ضمن میں لکھتے ہیں:
" عوامی ذہنوں کی طنابیں کھینچنا ہی اسی اشرافیہ کی حکمت عملی کا سب سے ضروری جزو ہے جس کی بناپر وہ نئے" عالمی نظام" کا قیام عمل میں لانا چاہتے ہیں۔۔۔  ان کے لیے اپنے عزائم کو چھپانا اور اپنے کنٹرول کو خاموشی اور بے رحمی سے بڑھانا ممکن ہو سکے گا۔ اس طرح پیدا ہونے والے ورلڈ اور سبک دست انداز فکر و ذہنی رجحان کے ذریعے عوام کو قابو کرنے کی خاطر یہ یہ اشرافیہ فکری  سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کی سرپرستی اور انھیں رکن فراہم کرتا ہے۔ محض عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں یہ اشرافیہ  کرہِ ارض پر قبضہ جمانے اور یہاں حکومت کرنے کے لیے اپنی کارروائیاں سرانجام دیتا ہے ان اشرافیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ بنی نوع انسان کی بڑی اکثریت کو دھوکہ دینے میں کامیاب اور کامران رہے ہیں" (2)
نائن الیون کے سانحے کے فورا بعد عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ اس واقعہ کے مکمل تانے بانے افغانستان  سےجوڑ دیئے گئے جو کبھی اپنے آپ کو سپرپاور منوانے کے لیے امریکہ کا منظور نظر رہا اور اسی طاقت کو ختم کرنے کے لیے پورے ملک کو میدان جنگ کے طور پر استعمال کیا اور روس اور اس کے حمایت یافتہ ممالک کو شکست دینے کے لیے مسلمان ممالک میں ذاتی مفاد کے لیے مقدس جنگ کا تصور پھیلایا گیا۔ (3)
افغانستان میں اسامہ بن لادن جیسے لیڈر بھی اس جنگ میں کودنے کے لیے رضامندہو گئے۔ پاکستان افغانستان، امریکا اور اس کے دیگر حلیف ممالک میں مذہبی بنیادوں پر مجاہدین کی تر بیت دی گئی اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا گیا لیکن سوویت یونین کا ٹوٹنا تھا کہ دنیا کی سپر پاور امریکہ کو اپنے ہی تربیت یافتہ جنگجو سے خطرے کی بو آنے لگی اور اسامہ بن لادن کو انسانیت کا سب سے بڑا دشمن گرداننے لگا کیونکہ  اب دنیا کا کنٹرول امریکہ کے ہاتھ میں تھا اور پوری دنیا میں اپنی مرتب کی ہوئی معاشی پالیسیوں  کو لاگو کرنا چاہتا تھا۔ نائن الیون کے بعد سیاسی منظر نامے کواروندھتی رائے ان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
" 11 ستمبر 2001 کے بعد جس طرح کی سیاسی نعرہ بازی اور بیان بازی کا بازار گرم ہوا تو میرا خیال تھا کہ یہ محض اور خود پسندانہ نعرے بازی کے سوا کچھ نہیں ہےلیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھ پر یہ حقیقت افشاں ہوگئی کہ دراصل یہ ایک بے بنیاد اور خطرناک جنگ کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ آئے دن مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کا خیال ہے کہ افغانستان جنگ کی مخالفت کرنا، دہشتگردی یا طالبان کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔" (4)
نائن الیون کے بعد تاریخ میں ہیرو یا مجاہد کہلانے والوں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور افسوس اس بات پر کہ امریکہ کے مفاد میں روس کے خلاف افغانستان وار میں المجاہد تھے ان سے لیا جانے والا مقدس کام مکمل ہوا تو انہیں کو دہشتگرد کا لقب دیا گیا۔ اس حادثے کے بعد مشرق و مغرب میں مختلف پیشوں کے لکھاریوں نے سانحہ کے محرکات پر مضامین لکھے اور نائن الیون کے بعد عالمی دنیا کو ایسی جنگ کا محرک کہا ،جو مذہبی، معاشی،  تہذیبی بنیادوں پر لڑی جائیگی جو بظاہر جنگ نہیں لیکن مشرق وسطی میں ممالک کی جڑیں کھوکھلی کر دے گی۔ڈاکٹر نجیبہ عارف نائن الیون کی نامعلوم حدودوقیود کے متعلق  لکھتی ہیں:
"مابعد کی اس دنیا میں جو بلند و بالا عمارتوں کا گرنا، دراصل دو خلاؤں کی تشکیل ہے۔  ایسی تخریب جس کی بنیاد پر نئی تعمیر ہوسکتی ہے؟۔ واقعہ ایک عہد کی فصیل اور دوسرےعہد کا دروازہ ہے۔ یہ بات بش اور اوبامہ کی تقاریر سے لے کرسکول کے بچوں کے مباحثے تک کئی بار کہی  اور سنی گئی ہے کہ گیارہ ستمبر کا دن عہد جدید کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے جب پرانی جمی جمائی زندگی کی بساط الٹ گئی اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک نیا رشتہ استوار ہوا۔ اس الٹی ہوئی بساط کو اس نے رشتے کے پیچ و خم کو، ہر ایک نے اپنے فکری، تاریخی اور واقعاتی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔" (5)
نائن الیون کے سانحے سےجہاں زندگی کے تمام شعبوں پر اثرات مرتب ہوئے وہاں عالمی اوراُردو ادب پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ کئی ناول، کہانیاں، ڈرامے قلمبند کیے گئے۔محمد ساجد لکھتے ہیں:
"پاکستان وہ اسلامی ملک تھا جس نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو تسلیم کیا۔نائن الیون کے حملوں کے فورا بعد جب میڈیا کی توپوں کا رخ اسامہ بن لادن کے خلاف ہوا جو اس وقت افغانستان میں موجود تھا تو پاکستان کو ڈپلومیٹک انداز سے دباؤمیں لانے کے حربے شروع ہو گئے۔" (6)
پاکستان چونکہ اس سے براہ راست متاثر ہوا اس لیے پاکستانی تخلیق کاروں نے بھی نائن الیون کے موضوع پر کھل کر لکھا اور سانحے کے بعد نہ ختم ہونے والا جبرواستحصال کو بیان کیا۔ فکشن نگاروں اور شعرا کے ہاں عالمی سیاست  منظرنامہ، عالمی سازشیں، دہشتگردی، عدم تحفظ کی صورت حال، فوجی آپریشن،مشرف کی ناقص پالیسیوں کے خلاف مزاحمتی رویے ،نفرتیں، بےبنیاد جنگ، مذہب کی بنیاد پر فرقہ وارانہ واقعات وغیرہ موضوعات رہے۔ ان موضوعات کے حوالے سے ڈاکٹر نجیبہ عارف بیان کرتی ہیں:
" یہاں اس بات پر بحث کرنا مقصود نہیں کہ یہ رویہ کس حد تک جائز اور یکطرفہ ہے۔ یہاں صرف اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب بھی ملک سیاست یا معاشرتی زندگی کے افق پر کوئی قابل ذکر واقعہ رونما ہوا، اُردو ادیبوں نے اپنی تخلیق کا موضوع ضرور بنایا ہے۔" (7)
نائن الیون کے بعد اُردو فکشن میں نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ناول کی نسبت اُردو افسانہ نگاروں نے اس موضوع پر اور بعد از نائن الیون سیاسی، سماجی اور عصری صورتحال پر بھرپور لکھا۔اس ضمن میں منشایاد، خالدہ حسین، رشید امجد، نیلوفر اقبال، مبین مرزا، زاہدہ حنا، افتخار نسیم، محمدحمید شاہد، عطیہ سید فاروق ندیم اور علی حیدر ملک وغیرہ افسانہ نگار سرفہرست ہیں۔ لکھے جانے والے ناولوں میں براہ راست تو نائن الیون کو موضوع نہیں بنایا گیا لیکن اس کے بعد نائن الیون کے اثرات سیاسی صورتحال، دہشتگردی، فوجی آپریشن کو علامتی و استعاراتی اور سیدھے سادے بیانیے میں بیان کیا ہے۔
اس حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کا ناول "قلعہ جنگی" اور "خس و خاشاک زمانے" کو اولیت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں محمدالیاس کے "برف" ناول میں بھی نائن الیون کے بعد مذہبی دہشتگردی کو بیان کیا گیا ہے۔ مزاحمتی رویوں پر تفصیلی جائزہ آگے لیا جائے گا ان ناولوں کے علاوہ محسنہ جیلانی کا ناولٹ میں دہشت گرد ہوں" جس میں ایک پاکستانی خاندان جو ساٹھ کی دہائی میں بہتر مستقبل کے لیے برطانیہ میں مقیم ہوجاتا ہے نائن الیون کے سانحے کے بعد حالات سازگار نہیں رہتے تو ناول کے مرکزی کردار زرینہ کو آتے جاتے دہشتگرد کہا جاتا ہے جس کے سبب وہ ذہنی مریضہ بن جاتی ہیں اور ڈراؤنے خواب دیکھتی ہے۔
سانحہ نائن الیون کے پس منظر کے حوالے سے یونس جاوید کا ناول " سونت سنگھ کا کالادن " بھی اہم ہے جس میں اس سانحے کے بعد پاکستان میں غیر یقینی صورت بیان کی گئی ہے یعنی یونس جاوید کا ناول پاکستان کی سیاسی تاریخ اور عصری واقعات کے حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے۔ سرفراز کا ناول " پس آئینہ " کے پلاٹ میں بھی نائن الیون کے بعد پاکستان کی معیشت کا تذکرہ کیا گیاہے  ۔ایم اختر کا ناول  ایک لوسٹوری اور ایک ایٹمی قیامت ہے " کے پلاٹ میں ایبٹ آباد کے کمپاؤنڈ میں اسامہ کی موجودگی سے ظاہر کیا گیا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے علاوہ ازیں ایبٹ آباد میں امریکی خفیہ آپریشن کا مکمل ذکر ہے۔ مرزا اطہر بیگ کاناول " صفرسے ایک تک " جس کا موضوع سائنس فکشن ہے۔ لیکن  ناول کی کہانی میں سرسری طور پرنائن الیون کے بعد غیر ملکیوں کے اغوا کی طرف اشارہ موجود ہے۔ ناول میں ایک فرانسیسی صحافی لڑکی کو اغواکرلیا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ اکیسویں صدی میں ناول میں جس موضوع پر بھی قلم چلا،بنیادی یاثانوی نقطہ نائن الیون یااس سے پیدا ہونے والی عصری صورتِ حال رہا۔ علاوہ ازیں امریکہ کی مشرقی وسطیٰ کے متعلق معاشی پالیسی، تیسری دنیا کےمسائل،عراق اورافغانستان پرحملہ،فرقہ پرستی،دہشت گردی،اغواء اورٹارگٹ کلنگ بھی موضوع رہے۔ کہیں ناول نگاروں نے   نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال کے خلاف احتجاج یامزاحمتی رویہ اپنایا۔  مذکورہ  فصل میں مستنصرحسین تارڑ کے "قلعہ جنگی" ،"خس وخاشاک زمانے " اورمحمدالیاس کا "برف" ناول میں مزاحمتی رنگوں کی پرت کھولنے کے جتن کریں گئے ۔
اکیسویں صدی میں شایع ہونے والے ناولوں میں سب سے زیادہ نمایاں ناول مستنصرحسین تارڑ کا ناول"قلعہ جنگی"(2002ء) ہے، جو نائن الیون کے بعد افغان  جہاد کے پس منظر میں لکھا گیا۔ قلعہ جنگی کی کہانی قلعہ کے صحن میں انسانی لاشوں کاتعفن اورتہہ خانے کی سینتیس  سیڑھیوں اترکر سات مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مجاہدین پر مشتمل  ہے جہاں ان کرداروں کومجبوراً پناہ لینی پڑی ۔جیتے جاگتے انسانی کرداروں کے علاوہ ایک گھوڑا بھی موجود ہے  جو امریکہ بمباری میں زخمی ہوا ہے۔
قلعہ جنگی کے تہہ خانے میں موجود سات کردار مرتضی بیگ،جی جی ابوطالب، اللہ بخش، عبدالوہاب ،گل شیرولی، ہاشم ہر جو مختلف ممالک کے ساتھ ساتھ مختلف  تہذیبوں میں پلنے بڑھنے والے طالبان  ہیں، جو تہہ خانے میں پہنچنے کے بعد ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔ کہانی ان طالبان کے حوالے سے ہے جنھیں ذاتی مفاد  کی خاطر جہاد کےلیے اکٹھا کیاگیا اورجب مقصد پوراہوگیاتو مقصدپوراکرانے والے ٹشو پیپرسمجھتے ہوئے یہاں بھول گئے بعدازاں القاعدہ افغانستان کے کئی علاقوں پرقابض ہوجاتے ہیں ۔ اسی اثناء میں 9/11کاواقعہ رونما ہوتا ہے تو امریکہ نے ساراملبہ طالبان اورالقاعدہ پر گرایااورافغانستان پر حملہ کردیا۔ ڈاکٹرفوزیہ چودھری ، نائن الیون کے بعد مجاہدین کودہشت گرد قراردینے کی داستان کوان الفاظ میں بیان کرتی ہیں:
"جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تو ہزاروں عرب ادھر آنکلے اورالقاعدہ سے متاثرہوئے۔۔۔امریکہ اوریورپ کی آنکھوں  کے تارے جن کی جھولیاں ڈالروں اورہتھیاروں سے بھردی جاتی تھیں۔ یہ وہی مجاہدین اورہیروتھے جو 9/11کے بعد دہشت گردبن گئے ۔پہلے یہ جہا دتھا کہ روس مدمقابل تھا اوراب یہ دہشت گردی ہے کہ وہ اپنا دفاع کررہے تھے۔" (8)
مستنصرحسین تارڑ کے ہاں  امریکہ افغانستان جنگ کے دوران کرداروں کے ذریعے مزاحمتی رنگ کئی جگہ نظرآتا ہے ۔امریکہ افغانستان کی جنگ میں جنگی قیدیوں کے پکڑے جانے اورپھران میں سے چندقیدیوں کی آخری کوشش کے طورپرجان  بچانے کےلیے مزاحمت کرنے اورگرفتار کرنے والوں میں سے چند کومارنے اورجواب میں امریکی بمباربی ون طیاروں  کی بمباری سے تمام قیدیوں کے پرخچے اڑنے کے مناظرکومستنصر نے بیان کیا ہے:
"وہ ہراساں ہوگئے کہ اب انہیں  اجتماعی طورپرقتل  کیا جانے لگا ہے کہ روایت یہی تھی اورجن کے ہاتھ ابھی بندھے ہوئے نہیں تھے ،اُنہوں نے بغاوت کردی۔ شمالیوں کواس کی توقع نہیں تھی  وہ تو اُنہیں فتنہ پروری  سے روکنے کےلیے باندھ  رہے تھے۔۔۔۔اُن کے قتل کا فیصلہ  ابھی نہیں ہوا تھا لیکن وہ حواس  کھوبیٹھے  اورجن کی تلاشی مکمل  نہیں ہوئی تھی وہ اپنے ہتھیار نکال کر فائر کرنے لگے۔۔۔دوستم کا پولیس  چیف اُن کانشانہ بن گیا۔ ۔۔۔ایک امریکی سی آئی  اے کے ایجنٹ کے پرخچے اڑگئے اورپھران پر بی -52 کاعتاب نازل ہوگیا قلعے  کی دیواروں  میں نصب مشین  گنوں نے جو کچھ ان کے بس میں تھا ، سب کا سب  اُگل دیا۔۔۔ڈیزی کٹراوربنکر بسٹر آسمان سے نازل ہونے لگے  اورکچے صحن میں مٹی کے آتش  فشاں اُبل  کر اُنہیں زندہ دفن کرتے گئے۔۔۔یہ قیامت تو  نہیں تھی  پر قیامت سے کم نہ تھی۔۔۔بلکہ زیادہ تھی۔۔۔وہ رزق خاک تھے  سوخاک ہوئے۔۔۔۔یہ کھیل تماشہ  صرف چند لمحوں کا تھا اورپھرختم  ہوگیا۔" (9)
مستنصر نے افغان جہادمیں آرمی کے اہم کرداروں کابھی ذکرکرتے ہوئے آرمی میں موجود کالی بھیڑوں کے مکروہ چہروں سے پردہ اٹھایا ہے۔جنہوں نے افغان جہاد سے مکمل فائدہ اٹھایا ہے۔ افغانستان  میں روس کی درندگی کے بعد روسی فوج کی طرف سے ظلم وستم اوربربریت  کی مثالیں قائم کی گئیں۔ پاکستان کی اس جنگ میں امریکی مہرے کا کردار اداکرنے کے بعد روسی طیاروں کی افغانی عوام اوراملاک کی تباہی کا نوحہ  ناول نگار نے دردمندی کے ساتھ پڑھا ہے اس کے علاوہ پاکستان آرمی کے چترال اورکرنل رینک کے لوگوں کے دولت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کاروائی کوبھی مستنصر نے بیان کیا ہے:
"ان ہیلی کاپٹر گن شپ اورطیاروں  کی آسمانوں  پر مسلسل موجودگی امریکیوں اورمجاہدین  کےلیے اُ جگہ پر درد تھی جس کا نام نہیں لیاجاسکتا۔
انہیں آسمانوں سے ہٹانے کےلیے   ایس ۔اے ۔سیون میزائل  استعمال ہوتے تھے جو مکمل طورپرمؤثر نہ تھے۔۔اُن کی ہٹ ریشو تیس فیصد سےبھی کم تھی اورروسی اس نقصان کو فوری طورپر پوراکرکے آسمانوں پراپنی برتری  قائم رکھنے میں کامیاب رہتے تھے۔۔۔امریکہ نےبہت دیر صبر کیا لیکن جب " ایول ایمپائر" قوت ایمانی  اورڈالروں کے سامنے ڈٹی رہی تو پھر مجبوراً ایک ایسے ہتھیار کو اسلحہ خانے سے نکالنا پڑا جسے امریکیوں نے صرف تیسری جنگ  عظیم کےلیے سنبھال رکھا تھا اورخفیہ رکھا تھا" (10)
ناول نگار نے چیچنیا کی حسین وادی میں روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے پیش رو امام شامل کی  مزاحمتی زندگی کا نقشہ عمدگی سے کھینچا ہے علاوہ ازیں رسول حمزہ کے دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثرہوکر امام شامل کی ہجو لکھنے اوربعد میں امام شامل کی مزاحمتی کاروائیوں کوحق بجانب سمجھتے ہوئے اوراس کی حمایت میں ایک اورنظم لکھنے کی روداد  میں بیان کیا ہے۔ (11)
ناول میں موجود کرداروں کے ذریعے مستنصرنے مزاحمت کا یہ رخ بھی دکھایا ہے کہ جن مجاہدین کوضیاء دورمیں امریکہ اورروس کی جنگ میں ہیرو قرار دیا گیا اورپوری دنیا کے مسلمان ملکوں کے نوجوانوں کومقدس جہاد کےلیے ابھارا  جاتا تھا ۔ان کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی تھی وہی ہیرو نائن الیون کے بعد دہشت گرد قراردیےجانے لگے۔ قلعہ کے تہ خانے  میں موجود  قیدیوں کی زبانی ان کا طالبان کے ساتھ دینے اورموجودہ صورتِ حال میں اپنا دفاع کرنے کی تصویر کشی کربناک کیفیت میں بیان کی ہے:
"سہم وہی مجاہدین اورہیرو تھے  جو 11ستمبر کے بعد دہشت گرد اوربدترین مجرم بن گئے۔۔۔پہلے یہ جہاد  تھا کیونکہ روس مقابل  میں تھا اوراب یہ قابل گردن زدنی ہے کیونکہ ہم  اپنا دفاع  کررہے  ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ شمال والے ہمیں کبھی نہیں بخشیں گے کیونکہ ہم نے طالبان  کا ساتھ دیا ہے۔ شائد یہی  ہماری غلطی  تھی۔ ہمیں  یہاں سے نکل جانا چاہئے  تھا لیکن ہمارے لیے اورکوئی جائےپناہ  نہ تھی۔۔۔۔  بادشاہت  میں ہم قدم  نہیں رکھ سکتے تھے کہ اس قدم کو ۔۔۔پہلے قدم کوکاٹ دیا جاتا اورہمارا بقیہ  دھڑ بعد میں گرتا ۔۔۔ہم کدھر جاتے  ۔۔۔طالبان کوسپورٹ کرنا ہماری مجبوری تھی (12)
مستنصر نے قلعہ جنگی میں روسی ٹینکوں کاافغانستان میں بچوں ،عورتوں اوربوڑھے جو کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھتے تھے ،کوملیا میٹ کرنے کی روداد جہاں دردناک انداز میں بیان کی ہے وہاں مسلمان کے احسان مند ہونے اوراحسان کا بدلہ احسان سے چکانے کی خوں چکاں داستان کوبھی دردمندی سے بھی بیان کیا ہے:
"جب اُس روسی ٹینک  ملبے کے ڈھیر میں بدل رہے تھے اوراس ڈھیر میں ہزاروں بچے بوڑھے اورعورتیں  دفن ہورہے تھے تو ابوطالب  کے شانوں کے ساتھ شانہ ملائے کچھ مکمل اجنبی بھی تھے  جو دوردیسوں سے آئے تھے۔ ان میں عربی ،پاکستانی،سوڈانی اورافغانی بھی تھے۔۔۔افغانی  تعدادمیں بہت  زیادہ تھے۔ اوران میں سے بہت  سے گروزنی کے ملبے میں بے نام دفن ہوئے۔
ابوطالب ۔۔۔اگرقندوزمیں تھا۔۔۔۔ اوراب اس تہہ خانے میں تھا تو اس احسان کا بدلہ چکانےکےلیے تھا۔ ۔۔اگریہ وہاں  تھے تو اسے بھی یہاں ہونا چاہئے تھا۔۔۔انہوں نے اس کا ساتھ دیا تھا۔ (13)
قلعہ جنگی کے تہہ خانے میں موجود طالبان اپنی زندگی کوحالات کےتابع کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں  کیونکہ ان کو علم ہے کہ ہم قریب موت ہیں لیکن ضمیر مطمئن ہے تو حالات کتنے ہی دشوارہوں وہ طالبان تہہ خانے میں ہنسی خوشی  رہے لیکن ان لفظوں کا غائر مطالعہ کیاجائے تومستنصر کے نزدیک طالبان کا  یہ انداز مزاحمتی ہے کہ وہ موت کوقریب اوربھوک اورپیاس سے نڈھال حالت میں بھی اپنے آپ کومطمئن کہہ رہے  تھے (14)
مستنصر نے مولوی اللہ بخش کی مزاحمت  کو منفرد اندازمیں بیان کرتے ہیں کہ مولوی جو کمین  قوم ہوتے ہیں ،چوہدری کے سامنے زبان تک نہیں کھولتے لیکن داڑھیاں رکھنے کے بعد طالبان  کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کوئی بھی چوں تک نہیں کرتا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
"ادھر ہمارے پاس  جتنے بھی ذرا سخت طبیعت  والے مولوی اورمدرسوں  کے طالبِ علم ہیں اُن میں بڑی تعداد میرےجیسےکمی کمینوں کی ہے۔۔۔پوچھو کیوں؟۔۔۔ایک تو یہ اُدھرروٹی  پانی کا بندوبست  ہوجاتا ہے۔۔۔ سب لوگ برابر ہوتے ہیں کیونکہ  میرے سوہنے  رسول ﷺ نے اعلان فرمایا تھا کہ  رنگ نسل  اورقبیلہ  برادری کچھ  نہیں سب برابر ہیں۔ دوسرا یہ کہ کمی کمین جب داڑھیاں  رکھ کر مولوی ہوجاتے ہیں  اورہاتھ میں کلاشنکوف  پکڑ لیتے تھے تواُن  کےسامنے کوئی چُوں نہیں کرسکتا  تھا کہ وہ تو اللہ کے سپاہی ہوتے تھے۔ ذراسوچو قیاس کروکہ ایک کمی جو چوھدری کے آگے کُسک  نہیں سکتا تھا۔۔۔۔جب مولوی ہو جاتا تھا تو چوہدری کیا کوئی بھی اُس کے آگے  کُسک نہیں سکتا تھا۔۔۔سمجھ لو کہ ایسے وہ بدلہ لیتے تھے اُن سے جو انہیں کمتر جانتے تھے۔" (15)
نائن الیون کے پس ِمنظرمیں مستنصرحسین تارڑ کادوسرا ناول "خس وخاشاک زمانے" (2010ء) ہے،جس کابنیادی موضوع زوال انسان ہے لیکن ناول کے آخری حصے میں نائن الیون کے واقعے کے بعد مشرقی وسطی کی سیاسی وسماجی صورت حال کوجہاں بیان  کیا گیا ہے وہاں امریکی پالیسیاں جو کہ ذاتی مفاد کےلیےپاکستان جیسے ملک کوڈالر دے کر ان طالبان کے خلاف جنگ پرآمادہ کیا ،اس حوالے سے مستنصر کا مشاہدہ عمیق ہے وہ بات  اختصار کے ساتھ کرتے ہیں  لیکن جامع ہوتی ہے، انہوں نے نائن الیون کے خودساختہ امریکی المیے کےبعد افغان وار میں  طالبان کے ہسپتال میں محصور ہوتے ہوئے بھی امریکی اتحادی فوج کے خلاف بھرپور مزاحمت کرنے اورہتھیار ڈالنے کی روداد کوانھوں نے عمدگی سے بیان کیا ہے۔ (16)
نائن الیون کے سانحے کے تین سال بعد امریکی نیشنل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 19دہشت گردوں کا تعلق سعودی عرب،عرب امارات  اورلبنان سے تھا اوراس گروہ کا سرغنہ محمدعطامصری تھا۔ اس کے باوجود مغرب میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں کوتضحیک کانشانہ بنایا جانے لگا ۔ ڈنمارک میں نبی کریم ﷺ کے خاکے بنائے گئے توامت مسلمہ میں اس کے خلاف شدید احتجاج ہوا۔ لوگ سڑکوں پر نکلے۔ مختلف ممالک نے ڈنمارک کے سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ ان کے ہاتھ  میں تھمایا۔ پاکستان میں بھی مولویوں نے احتجاج کی کال دی اوران کا مقتدر طبقہ خاکے بنانے والوں کے خلاف سڑکوں پرنکل آیا اوراپنے ہی ملک کی عوام کی املاک کوتباہ کرکے  بدلہ لیا۔ درج ذیل اقتباس میں لاہورکی سڑکوں کا منظرپیش کیا جہاں احتجاج کرنے والوں نے سڑک کے دورویہ املاک کوتیل چھڑک کرآگ لگا دی:
"شہر کے بام ودر اورشاہراہوں میں سے نامانوس سادھواں اٹھتا تھا، لوگ ماتم کناں تھے، گڑھی شاہو مال روڈ ، داتا گنج بخش ،میکلوڈ روڈ ،ایجرٹن روڈ اورچیئرنگ کراس  اس دھویں کے ملجگے میں دن کی روشنی میں بھی تاریک ہوتے تھے۔ جن کے دل دکھے ہوئے تھے، وہ ٹریفک لائٹس، شورومز، سائن بورڈ پر یلغار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مال  روڈ پر سایہ فگن پیپل کے گھنے اشجار کے تنوں پر پٹرول چھڑک کر انہیں بھی جلاڈالنے کی کوشش میں مصروف تھے، یہ سب دنیا کے کھیل ،تماشے تھے۔لہولعب تھے انہیں راکھ کردینے سے اگر بخشش کا یقینی بندوبست ہوسکتا تھا تو یہ گھاٹے کا سودانہ تھا۔" (17)
محمدالیاس کادوسرا ناول "برف" (2010ء)میں منظرعام پرآیا۔ ناول اسی کی دہائی سے لے کر نائن الیون کے سانحے کے چندسال بعد تک پھیلاہوا ہے۔ ناول کثیر الموضوعات ہے ۔مزاحمتی رنگ ناول کا اہم موضوع ہے تاہم مرکزی موضوع شیخ نورالاسلام کی معصوم بیٹی فخرالنساء اورظفر کے عشق کی داستان ہے علاوہ ازیں ناول میں مارشل  لا،افغان وار، کشمیروار  اوررشتوں کی شکست وریخت کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔
ناول کے اختتامی حصے  میں نائن الیون کے بعد ہونے والی دہشت گردی افغانستان وار اوراس کی سیاسی اورمعاشی بدحالی کا ذکرملتا ہے،وہاں ہی اس سانحے کے خلاف مزاحمتی اندازبھی نمایاں ہے۔ امریکہ نے افغانستان وار کےلیے جو مجاہد تیارکیے تھے، نائن الیون کے  سانحے  کے بعد وہی دہشت گرد کی صورت میں سامنے آئے ناول کے مرکزی کردار ظفر جو کشمیر وار میں مجاہد بنا لیکن ہماری  ایجنسیوں  کی تفتیش کے دائرہ کار میں ظفر بھی آیا  علاوہ ازیں اکبرمجاہد جو کہ امریکہ میں مقیم تھا، اس سانحے کے بعدجبری  وطن واپس بھیج دیا گیا تو واپسی پر عالمی استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمتی اندازاورظفر کے بطوردہشت گرد پکڑے جانے کی کتھا کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
"محمداکبر مجاہد نے امریکہ سے جبری وطن واپسی پر عالمی سامراج اور اسلام دشمن قوتوں کے خلاف نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کر دیا ایجنسیوں نے تفتیش کا وسیع جال پھیلا رکھا تھا جس کی زد میں ظفر بھی آیا لیکن اس کے بارے میں رپورٹ دی گئی کہ جہاد کشمیر میں حصہ ضرور لیا تاہم گزشتہ عشرے سے اس کا کسی بھی جہادی یا مذہبی تنظیم سے کوئی رابطہ نہیں رہا محمد اکبر مجاہد نے اپنا مستقر جنوبی وزیرستان بنالیا اور ملک بھر میں خفیہ دورے کرکے ہم خیال لوگوں کو عالمی استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے منظم کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا۔" (18)
شیخ نورالاسلام جو کپڑے کی تجارت کرتا ہے جس نے اس کومالا مال کردیا ،نائن الیون کے سانحے کے بعد نام نہاد مولوی کا مجاہدین تنظیم کومالی امداد دینے  پر فوجی ایجنسیوں نے اٹھالیا، جب اس کو رہائی ملی تو اس کامجاہدین کے حق میں اورفوجی کاروائی کے خلاف مزاحمتی اندز اس اقتباس میں ملاحظہ کیجئے:
"خدائی خوار بڑا ظالم ہے۔ مسلمانوں کے ملک میں کافر کا حکومت بن گیا حاجی صیب بنے بہت بول دیا کہ اسلام کی خدمت کے واسطے روپیہ پیسہ دیا اور مجاہد لوگوں کا خدمت کر دیا جو بھی کیا اللہ کے حکم پر کردیا۔ کافر کا بچہ اللہ کو مانتا ہےنہ رسول کو مانتا ہے، بس فوج کو مانتا ہے۔ ہمارااچھی طرح تسلی کرلیا کہ ہم فوجی ہے تو چھوڑ دیا۔ حاجی صیب کو نہیں چھوڑے گا۔ کدھر سے پتہ چلے گا کہ وہ اس وقت کدھر ہے۔ حاجی صیب بچہ کے موافق نازک ہے، وہاں کتنا  زندہ رہ جائے گا۔" (19)
ناول نگار نے ماضی کے مجاہد اورحال کے دہشت گرد کی کتھا بھی دلدوزی سے بیان کی ہے کہ آج کا مسلمان بھی منافق ہوگا کہ جو دہشت گرد تنظیموں کے  سربراہ غیروں کی اولادوں کو خوش کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں اورنابالغ لڑکوں کی برین واشنگ کرکے بمبار دہشت گرد بناکرفرقہ وارانہ تنظیموں کوفروخت کرتے ہیں (20)
شیخ نورالاسلام جو پہلے دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت بھی کرتے تھےا وران کی کارروائیوں کوجہاد گردانتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک ریاستی ادارے اورپولیس حرام خور ہوتےہیں لیکن ان کی نظروں کے سامنے جب پولیس اہلکاروں اورافسر نے خودکش بم دھماکے میں جام شہادت نوش کیا تو مولوی صاحب کی نفرت دلی ہمدردی میں تبدیل ہوگئی اوران دہشت گردتنظیموں کے خلاف مزاحمتی انداز اپنایا کہ  جو ہماری دفاعی لائن کو کمزورکرنا چاہتے ہیں:
"اس سے قبل بہت سے پولیس اہلکار اور افسر بھی خودکش حملہ آوروں کا شکار ہوئے۔ پولیس کے محکمے سے شیخ صاحب کو خدا واسطے کا بیرتھا۔ لیکن یوں فرائض منصبی کی ادائیگی میں جان دینے والوں سے شیخ صاحب کو دلی ہمدردی ہونے لگی۔ پولیس والوں نے پے درپے قربانیاں دیں تو شیخ صاحب کے دل سے اس ادارے کے بارے میں تعصب تحلیل ہوتا گیا۔ وہ حیران ہوتے کہ کس طرح سڑک پر ان کی لاشیں بکھری پڑی تڑپتی دکھائی دیتی ہیں لیکن اگلے ہی لمحے وہ پھر اس مقام پر ڈیوٹی دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کا دل فرط جذبات سے بھر آیا کہ جس ادارے کو وہ ہمیشہ سے حرام خور سمجھتے رہے، ملک و قوم پر مشکل کی گھڑی آئی تو پہلا دفاعی حصار اسی محکمے نے قائم کیا ہے۔ ایک صف ٹوٹ کر گری تو دوسری کھڑی ہوگئی اور جن لوگوں کو عطیات کی صورت میں بھاری رقوم دیتے رہے وہ ملک کے پہلی چھوڑ دوسری اور تیسری دفاعی لائن بھی نیست و نابود کرنے پر تل گئے ہیں ۔" (21)
مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو نائن الیون کےبعد مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورت حال اوردہشت گردی کی تباہ کاریوں کے موضوع پر براہِ راست خال خال ناول لکھے گئے ہیں۔مستنصر حسین تارڑ، محمدالیاس ،اطہر بیگ، آغاگل کے علاوہ کسی بڑے ناول نگار نے اس موضوع  کو باقاعدہ نہیں چھیڑا۔  اس  کے علاوہ سانحے کے نتیجے میں ہونے والی معاشی، سماجی تبدیلیوں  پر ناول لکھے گئے جس میں امریکی پالیسیوں  کی ناکامیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کی ڈالر کے لالچ میں اپنی سرزمین کے باشندوں کودہشت گرد تنظیموں  کاسرغنہ سمجھ کران کے حوالے کرنے کو بھی دو موضوع بنادیا گیا۔ راقم کے نزدیک نائن الیون کے واقعہ نے جو پرسکون انسانی زندگی میں انتشار پیدکیا ، اس کے اثرات آنے والی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ 

حوالہ جات
1. Samuel P. Huntington, The Clash of Civilization, Penguin books, New York,1996,p:33
2    ۔       مجاہدکامران ،پروفیسر، ڈاکٹر،The new word order9/11 ، سانحہ ستمبر اور نیا عالمی نظام،مترجم: ظفر المحسن پیرزادہ، لاہور:یونی ورسٹی آف دی پنجاب،2014ء،ص:04
3   ۔      طاہرہ اقبال،ڈاکٹر،پاکستانی اُردو افسانہ،سیاسی و تاریخی تناظر میں،لاہور:فکشن ہاؤس،2015ء، ص:623
4    ۔     اردن دھتی،سرمایہ داریت، ریاستی جبر اور مزاحمت، مترجم امجد نذیر،ملتان : سو جھلا برائے سماجی تبدیلی،2012 ء،ص:05
5   ۔     نجیبہ عارف، ڈاکٹر ،9/11 اور پاکستانی اُردو افسانہ، اسلام آباد:پورب اکادمی،2001ء،ص:11،12
6   ۔     محمد ساجد، نائن الیون حقیقت سے اُردو افسانے تک،لاہور:ادارہ نوید سحر،2015ء،ص:41
7   ۔     نجیبہ عارف،9/11 اور پاکستانی اُردو افسانہ، ص:21،22
7    ۔      فوزیہ چودھری ،ڈاکٹر ،/119  کے اُردو ناول پر اثرات ، مشمولہ  پاکستانی زبان و ادب پر 9/11 کے اثرات،  پشاور : جامعہ پشاور،اگست2010ء،ص:97
9    ۔     مستنصر حسین تارڑ، قلعہ جنگی، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 2008ء،ص :45،46
10    ۔   ایضاً،ص:57
11   ۔   ایضاًَ، ص:71،72
12   ۔   ایضاً، ص:154
13   ۔   ایضاًَ، ص:76
14   ۔   ایضاًَ، ص:90
15   ۔   ایضاًَ، ص:103
16 ۔    مستنصرحسین تارڑ "خس وخاشاک زمانے"  ص:115
17   ۔   ایضاًَ،ص:640
18   ۔   محمد الیاس،برف، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،2010ء،ص:429
19    ۔   ایضاً،ص:439
20    ۔   ایضاً، ص:445
21   ۔   ایضاً، ص:494


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com