ضر ب المثل کے بنیادی مباحث

ندیم حسن ، پی ایچ ڈی اسکالر ، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ اردو ،جامعہ پشاور

ABSTRACT
The proverbs are simple, concrete and traditional sayings which offer wisdom and experiences of society in few words. They represent not only their specific cultures but some proverbs are universal in nature too.  In Urdu language there are some ambiguities about the definition of proverbs and the differences between proverbs and Idioms. The researchers have explained the nature of proverbs and its related ambiguities and problems in full detail.
غور کیا جائے تو انسان حروف، الفاظ اور جملوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ حروف الفاظ کی صورتوں میں ڈھلتے ہیں الفاظ فقرات کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہی فقرات با معنی جملوں کا روپ دھار کر ایک ایسی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں جو جذبات، احساسات اور معاملات سے مملو ہے۔ اگریوں کہا جائے کہ زبان کے بغیر زندگی ادھوری اور بے مقصد ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو شعر کی صورت میں ڈھلتے ہیں اور روزمرہ بھی انہی سے تخلیق پاتا ہے۔ محاورہ کی تشکیل میں یہی الفاظ کارفرما ہیں اور انہی کی ایک خاص اور بامعنی ترتیب ضرب المثل یا کہاوت کہلاتی ہے۔
کسی بھی زبان کی تفہیم میں ضرب الامثال کی اہمیت مسلم ہے۔یہ نہ صرف لسانی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں بلکہ سماجی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت کے کئی ایک زاویےبنتے ہیں ۔ لیکن ایک  ضرب المثل کی تفہیم کا بھی  ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ  تکنیکی اعتبار سے اس  بات کا تعین ہو جائے کہ ضرب المثل کے حوالے سے کی گئی تعریفات ضرب المثل کی تشریح و تعبیر میں کس حد تک معاون ثابت ہوسکتی ہیں اور وہ کون سے پہلو ہے جن کی وجہ سے ضرب المثل کے حوالے سے اردو لغات میں اغلاط اور ابہامات موجود ہیں ۔نیز اس میں کئے گئے تصرفات کس حد تک جائز ہیں اور کون سے مقامات پر ان تصرفات کے لیے جواز موجود نہیں ہے ۔شان الحق حقی نے جامع الامثال کے دیباچے میں ضرب المثل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’امثلہ کو ہمارے ہاں ‘‘ضرب المثل’’ بھی کہا جاتاہے۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں ‘‘ضَرَبَت مثلاً’’ میں نے مثال دی یا مثل کہی۔ اس کی بنیاد پر اصطلاح بنائی گئی۔( 1 )
جامع الامثال، ضرب المثل کے حوالے سے مرتب کی گئی فرہنگوں میں اہمیت کی حامل ہے۔ شان الحق حقی نے اس کے دیباچے میں ضرب المثل کی جو تعریف کی ہے وہ ادب کے طالب علموں کی تشنگی کا مداوا کرتی نظر نہیں آتی شان الحق حقی جیسے ماہر لسان  اور ماہر زبان کا اس حوالے سے رویہ سمجھ سے بالاترہے ۔ راجہ راجیور راؤ اصغر نے اپنی کتاب ‘‘رسالہ گنجینۂ امثال’’ میں ضرب المثل کو یوں بیان کیا ہے۔
’’ہر ایک ضرب المثل کسی نہ کسی وارداتِ گزشتہ کا خلاصہ اور سوانحات قدیم کا نتیجہ ہے جس سے نصیحت یا عبرت ضرور حاصل ہوتی ہے۔’’ ( 2 )
جبکہ مرزا سلطان احمد نے ضرب المثل کی تعریف یوں کی ہے:
’’ضرب ا لمثل کی تعریف میں بھی اسی طرح اختلاف پائے جاتے ہیں جیسے شعر کی تعریف میں ہر ملک اور ہر قوم میں کہاوت کی گو ایک طرز اور ایک مفہوم میں تعریف نہیں کی جاتی لیکن پھر بھی ان سب تعریفات میں ایک قسم کی مناسبت ہے۔ جو جزوی اختلاف ہے وہ توارد تعریف میں چنداں فرق نہیں لاتا ضرب المثل کیا ہے۔ ‘‘مختلف مذاق کے آدمیوں کے مختلف قسم کے تجربوں، مشاہدوں، نظائر ، آپ بیتیوں، واقعات اور مسلمہ قیاسات کا نچوڑ اور غیر معمولی خلاصہ یا نتیجہ۔’’ ( 3 )
راجہ راجیشور اور مرزا سلطان کی کی گئی تعریفوں کے تحت ضرب المثل کسی گزشتہ واقعے، یا پھر مختلف قسم کے تجربات، مشاہدات ، قیاسات اور آپ بیتیوں میں موجود قصہ ، کہانیوں سے ماخوذ کی جاتی ہے۔یہ تعریفیں کسی حد تک درست ہیں لیکن ان سے کلی طور پر اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ضرب الامثال کی ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن کی تشکیل کسی واقعاتی صداقت کا نتیجہ نہیں ہے ۔مثلاً
الف        باپ سے بیر،پوت سے سگائی
ب         بابا آئیں نہ گھنٹہ باجے
ج          بتیس منہ کی بھاکا خالی نہیں جاتی
وغیرہ میں مذکورہ بالا تعریفات کی خصوصیات نہیں پائی جاتی ۔
مجمع الامثال میں ضرب المثل کی تعریف ان الفاظ میں کی گئ ہے۔
’’کہاوت یا ضرب المثل ان تجربوں، مشاہدوں، نظائر، قیاسات اور خیالات کا خلاصہ ہوتے ہیں جو پہلے عمل میں آچکے ہیں اور جن کی بابت بہت کچھ کہا سنا گیا ہوتا ہے اس واسطے اسے کہاوت کہا جاتا ہے ضرب المثل کے معنی مثال مارنے یعنی مثال دینے کے بھی ہوتے ہیں۔’’ ( 4 )
شیخ محمد مہدی واصف کی تعریف میں تجربوں ، مشاہدوں کی حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن جہاں وہ ضرب المثل کی تعریف کو آگے بڑھاتے ہوئے نظائر، قیاسات، خیالات اور ان کی بابت بہت کچھ کہا سنا گیا ہو ، لکھتے ہیں وہاں ان سب کی توجیہہ سمجھ سے بالاتر ہو جاتی ہے ۔مولوی ذکا ءاللہ نے ضرب المثل کی تعریف یوں بیان کی ہے:
’’عربی زبان کے علم بیان کی کتابوں میں باب استعارہ میں ضرب المثلوں کی یہ تعریف کی جاتی ہے کہ استعارہ کی ایک قسم تمثیل بہ سبیل استعارہ کہلاتی ہے کیونکہ اس میں مشبہ بہ ذکر کرتے ہیں اور مشبہ مراد لیتے ہیں یہی استعارہ کا طریقہ ہے اور کبھی فقط اس کو تمثیل بے استعارہ کے کہتے ہیں استعارہ کی قید نہیں لگاتے۔ مثل اک نوع کی مجاز مرکب ہے جس کا استعمال شائع اور مشہور ہو کر مروج ہو گیا ہو اس میں ایک صورت کو دوسری صورت سے تشبیہہ دیتے ہیں جس میں وجہ شبہ کئی چیزوں سے حاصل ہوتی ہے اور اس میں دعوے یہ کرتے ہیں کہ صورت مشبہ کی جنس مشبہ بہ سے ہے اور اس کے واسطے اس لفظ کا اطلاق کرتے ہیں کہ مشبہ پر دلالت نہیں کرتا مثلاً ذوق کے اس شعر میں
میرے نالوں سے چپ ہیں مرغ خوش الحان زمانہ میں
صدا طوطی کی سنتا کون ہے نقارخانہ میں( 5 )

شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ کی پیش کردہ تعریف میں انہوں نے اردو ضرب المثل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عربی قواعد کی رو سے اس کی تعریف کی ہے ان کی کتاب بیشک ۱۸۹۸ میں چھپی ہے لیکن اس وقت تک اردو صرف ونحو باقاعدہ گرامر کی صورت میں وضع ہو چکی تھی اس لیے اگر وہ اردو قواعد کو سامنے رکھ کر ضرب المثل کی تعریف کرتے تو یہ اردو زبان کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہوتا۔ جہاں تک ضرب المثل اور استعارے کا تعلق ہے تو ضرب المثل کے مخصوص معنی طے کر دئیے گئے ہیں یہاں تک کہ اس کے الفاظ میں تصریف بھی روا نہیں جیسا کہ ‘‘باباآئیں نہ گھنٹہ باجے’’ ‘‘ایک حمام میں سبھی ننگے’’، جبکہ ضرب المثل کی نسبت استعارے کا معنوی دائرہ وسیع ہے آپ شیر کو بہادری اور دلیری کا استعارہ بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ یہی شیر درندگی اور خونخواری کا استعارہ بھی ہے جیسے چاند خوبصورتی کا استعارہ بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ چاند کو روشنی کے استعارے کے طور پر بھی برتا جاتا ہے۔ لہٰذا ضرب المثل کی تعریف کے حوالے سے مولوی ذکاء اللہ کا استعارے کا استدلال قابل قبول نہیں ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ماہنامہ ‘‘نگار’’ کے خصوصی شمارہ نمبر ۱۰ میں ضرب المثل کی تعریف یوں کی ہے:
’’ضرب المثل یا کہاوت کا تعلق کسی خاص موقع پر کسی آدمی کے اس برجستہ جملے سے ہوتا ہے جو وہ شخص موقع محل کی رعایت سے اپنی بات کو مؤثر بنانے کے لیے مختصراً ادا کرتا ہے پھر یہی فقرہ یا جملہ اپنی برجستگی کے سبب اور مقبولیت کے سبب ایک فرد سے دوسرے فرد تک پہنچتا ہے اور اسی طرح گردش کرتے کرتے وہ پورے معاشرے میں قبول عام حاصل کر لیتاہے گویا ماضی کی کسی داستان یا تاریخی واقعے سے ضرب المثل کا تعلق ہوتا ہے لیکن یہ تلمیح کی طرح ایک یا دو لفظوں کی شکل میں نہیں ہوتی بلکہ عموماً ایک پورا فقرہ اس کی نمائندگی کرتا ہے۔’’ ( 6 )
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نےا س رسالے میں ضرب المثل کی تعریف میں موقع محل کے حساب سے جس برجستگی کا ذکر کیا ہے وہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے لیکن اپنی تعریف میں وہ جہاں ضرب المثل کا تعلق ماضی کے قصے سے جوڑتے ہیں وہاں پھر وہی سوال  پیدا ہوتا ہے کہ ضرب الامثال کی ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جن کا ماضی کے کسی قصے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں لہٰذا ان کی کی گئی تعریف سے کلی اتفاق ممکن نہیں۔ مولوی محمد نجم الدین اپنی کتاب ‘‘نجم الامثال’’ کے حصہ چہارم و پنجم میں ضرب المثل کی تعریف میں تھوڑی سی تبدیلی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں مولوی محمد نجم الدین کی کتاب ‘‘نجم الامثال ’’حصہ چہارم و پنجم میں ضرب المثل کی بیان کردہ دونوں تعریفوں میں فرق ہے حصہ چہارم میں لکھتے ہیں۔
’’مثل کا استعمال ہر زبان میں ہے لیکن زیادہ تر اس کا رواج ہندی ، عربی دو زبانوں میں دیکھا گیا ہے عرب اس کو مثل سائر کہتے ہیں اور ہندی والے کہاوت کہتے ہیں عربی مثلوں میں اکثر کسی شخص کے قصے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور ہندی کہاوتوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی عام مضمون کو خاص لفظوں میں بیان کرتے ہیں اکثر کہاوتیں بعضے قصوں پر مبنی ہیں جیسے ٹیڑھی کھیر، بھیگی بلی وغیرہ اس کے سوا بعض دفعہ کوئی جملہ یا کوئی مصرعہ یا کوئی شعر کسی بڑے فصیح و بلیغ کایہی کثرت شہرت سے مثل کے قائم ہو جاتا ہے۔’’( 7 )
جبکہ حصہ پنجم میں لکھتے ہیں:
’’مثل کا استعمال ہر زبان میں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ عربی مثلوں میں اکثر کسی شخص کے قصے کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور ہندی کہاوتوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی عام مضمون میں یا طول کلام کو مختصر عبارت میں بیان کرتے ہیں۔’’ ( 8 )
دونوں تعریفوں کا بغور جائزہ لیں تو آخری جملے میں موجود فرق کے سوا کچھ مختلف نہیں کہ ‘‘طول کلام کو مختصر عبارت میں بیان کرتے ہیں ’’یہاں عام مضمون کو خاص لفظوں میں بیان کرنا سمجھ سے بالاتر ہے دوسری جانب نجم الدین نے بھی ضرب المثل کو قصے کہانیوں سے جوڑ دیا ہے جس کی رد میں ہم پچھلے صفحات میں مفصل بحث کر چکے ہیں۔
خلیل صدیقی نے ضرب المثل کی تعریف یوں کی ہے:
’’ کم و بیش ہر زبان میں قومی تلمیحات، ماضی کے حقیقی یا فرضی لیکن مسلمہ واقعات اور ثقافتی روایات کے حوالے سے کلام میں تاثیر پیدا کی جاتی رہی ہے یہ حوالے فقروں یا جملوں کے کوزوں میں ایک جہان معانی سمو دیتے ہیں اور اکثر استعمال و قبول عام سے لسانی روایت کا حصہ بن جاتے ہیں انہیں کہاوت یا ضرب المثل کہتے ہیں۔ ( 9 )
جبکہ محمد منیر صدیقی لکھنؤی ضرب المثل کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’وہ چند جملے جو کسی خاص موقع پربولے گئے ہوں اور لوگوں کے زبان زد ہو کر ضرب المثل بن گئے ہوں’’ ( 10 )
سید یوسف بخاری دہلوی نے ضرب المثل کی تعریف یوں بیان کی ہے:
’’مثل کو اردو، فارسی، عربی زبان میں مثل یا ضرب المثل ، ہندی میں کہاوت، پنجابی میں اکھان یا کنیت اور سندھی میں پھا کو کہتے ہیں کہاوت ، اکھان اور کنیت یہ تینوں لفظ مصدر ‘‘کہنا’’ کے مشتقات ہیں۔مثل کے مفہوم سے ایسی بات مراد ہے جس میں کوئی واقعہ، ماضی کا، حال کے دوسرے مشابہ واقعہ پر، بطورِ نظر بر محل ذکر ہو اور اس ذکر کی غایت یہ ہو کہ آئندہ بھی بوقت ضرورت اس کا ذکر بدستور برابر جاری رہے یہ مثل کی لغوی تشریح ہے۔’’ ( 11 )
مذکورہ بالا تعریفوں میں ضرب المثل کا تعلق کسی واقعے، ماضی کی کسی بات سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے اور ضرب المثل کا ماخذ کسی پرانے قصے کو قرار دیا ہے جو کہ د رست نہیں ہے لہٰذا ان تعریفوں میں کئے گئے استدلال سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
سیفی پریمی نے اپنی کتاب میں ضرب المثل کی تعریف یوں کی ہے ملاحظہ ہو:
’’اصل میں ضرب المثل ایک جملہ تامہ ہوتا ہے اور اپنا ذاتی مفہوم ادا کرنے کے لیے کسی دوسرے جملے یا عبارت کا محتاج نہیں ہوتا بر خلاف اس کے محاورہ ایک ایسا غیر تامہ جملہ ہوتا ہے جو کسی دوسری عبارت کے بغیر اپنا مفہوم ادا نہیں کر سکتا ضرب المثل میں الفاظ کی تقدیم و تاخیر جائز ہے لیکن مصدر کے تمام مشتقات کے ساتھ ساتھ استعمال کرنا جائز نہیں مثلاً ‘‘ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا’’ ایک ضرب المثل ہے اس کی جگہ اگر یہ کہا جائے ‘‘ناچ نہیں آیا، آنگن ٹیڑھا’’ بنا دیا جائے تو یہ تصرف بیجا ہوگا مختصراً یہ کہ ضرب المثل وہ کہاوت ہے جس کو اہل زبان نے استعمال کیا ہو اور جو زبان زد عام ہو جائے۔’’ ( 12 )
سیفی پریمی کی تعریف کا ابتدائی حصہ جس میں انہوں نے ضرب المثل اور محاورے کا فرق بتلایا ہے درست ہے لیکن اگلے حصے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ضرب المثل میں تقدیم و تاخیر جائز ہے یہ کہنے کے بعد وہ اپنے اس استدلال کے لیے کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں البتہ تصرف بیجا کی مثال ضرور دیتے ہیں جہاں تک ضرب المثل کے حوالے سے تصرف کی گنجائش کا تعلق ہے اس پر تفصیلی بحث کی جا چکی ہے۔
سید حسین شاہ نے ضرب المثل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔
’’مثل کیا ہے کہ جس سے احوال گزشتہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کہاوت کو کسی نے وقت ظاہر ہونے کسی حادثے یا کسی واسطے مثال دینے کے ایک حال کے ساتھ حال دوسرے کے ایک لطف غرابت کے ساتھ وضع کیا ہو تو جس وقت ویسا ہی سانحہ ظاہر ہو اس مثل کو کہیں تاننے والوں کو شے مخیل محقق ہو جانے اور توہم بصورت قیقن کے نظر آوے یا غائب غیرلہ مشاہد کے دکھائی دےا ور کچھ پردہ حقیقت میں اس چیز کے نہ رہے۔’’ ( 13 )
سید حسین شاہ نے بھی ضرب المثل کا تعلق پرانے واقعات اور ماضی کے ساتھ جوڑا ہے البتہ اس سیدھی سادھی بات کو انہوں نے مبہم اور دقیق الفاظ سے مزید الجھا دیا ہے لیکن ان کی اس تعریف سے کُلی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر یونس اگاسکر نے ضرب المثل کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’کہاوت، قدما کے طویل تجربات و مشاہدات کا نچوڑ وہ دانش مندانہ قول ہے جس میں کسی کی ذہانت نے زور بیان پیدا کیا ہو اور جسے قبول عام نے روزمرہ کی زندگی کا کلیہ بنا دیا ہو۔’’ ( 14 )
ڈاکٹر یونس اگاسکر کا ضرب المثل کے حوالے سے کیا گیا یہ تحقیقی کام تحقیق  کے لحاظ سے اب تک سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اگر چہ اس کتاب کو اپنے موضوع کے اعتبار سے کافی شہرت بھی ملی ہے لیکن اس کا تحقیقی حوالے سے مشاہدہ کرنے کے بعد ان کی وضع کردہ تعریف قول یا مقولے کی تعریف پر زیادہ صادق آتی ہے۔ ان کا یہ بیان ‘‘ قدما کے طویل تجربات کا نچوڑ جس میں کسی کی ذہانت نے زور بیان پیدا کیا ہو ۔’’ اپنی جگہ تحقیق کی محتاج ہے یہاں ضرب المثل کے حوالے سے ‘‘قبول عام’’ کی شرط سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا ۔
اب تک ہم نے جتنے بھی ماہرین لسانیات و لغت نویسوں اور ضرب الامثال کی فرہنگوں کے مرتبین کے حوالے سے جو تعریفیں پیش کی ہیں وہ تمام صاحبان علم و دانش ہیں اور ان کی پیش کردہ تعریفیں قابل تحسین ہیں ان تعریفوں کی روشنی میں ہم نے جو نتائج اخذ کیے ہیں اور ضرب الامثال کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد ضرب المثل کے جو اجزاسامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
۱۔      ضرب المثل کے الفاظ لغوی معنی کی بجائے مجازی معنوں میں اور بعض اوقات اصطلاحی معنوں میں بھی استعمال ہو سکتے ہیں۔
۲۔     ضرب المثل بہت کم ایک جملے میں ہوتی ہے اور ایسی صورت میں بھی اس ایک جملے کے دو جزہوتے ہیں۔
۳۔     ضرب المثل عمومی طور پر دو بعض اوقات تین اور چار جملوں پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے لیکن ان کے نظائر شاذ ہیں۔
۴۔     ضرب المثل عمومی طور پر مقفع، مسجع اور بعض اوقات ان میں غنائیت و شعریت بھی پائی جاتی ہے۔
۵۔     محاورے کے برعکس ضرب المثل میں تصرف روا ہے لیکن کچھ شرائط کی پابندی لازمی ہے ۔ان تعریفات کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
۱۔          ترتیب الفاظ کا تصرف
۲۔         تبدیلی الفاظ کا تصرف
۳۔         املا کا تصرف
۴۔         حذف و اختصار
مذکورہ بالا تمام تصریفات صرف اس صورت میں روا ہیں جب تک ضرب المثل کی معنوی حیثیت متاثرنہ ہو اگر ان میں سے کسی بھی تصرف کی وجہ سے ضرب المثل کی معنوی حیثیت متاثر ہوتو وہ تصرف روا نہیں ۔ضرب المثال میں تصرفات کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے بھی دلچسپ مباحث موجود ہیں ، جن پر تحقیق ہمیں نئے اور دلچسپ نتائج تک پہنچا سکتی ہے ۔


حوالہ جات
1 ۔     وارث سر ہندی مرتب، دیباچہ جامع الامثال ، مقتدرہ قومی زبان ، مارچ ۱۹۸۶ء،ص ، ہ ،
2 ۔     راجیشور راؤ اصغر، راجہ ،رسالہ گنجینۂ امثال ، مطبع شمسی حیدر آباد دکن، ص ۲ ، ۱۳۱۲ ھ
3 ۔     سلطان احمد صادق مرزا ،مرتبہ، امثال، صادق الانوار سٹیم پریس بہاولپور یکم مئی ۱۹۱۱
4 ۔     محمد مہدی واصف شیخ ،مرتبہ ڈاکٹر محمد افضل الویں اقبال، مجمع الامثال، دیباچہ، عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد ص ۵ جنوری ۱۹۹۹
5 ۔     محمد ذکاء اللہ، فلسفہ امثال و منتخب امثال، مطبع مجتبائی دہلی ص ۳ ستمبر ۱۸۹۸
6 ۔     فرمان فتح پوری، نگار، فتح پور ایجوکیشنل سوسائٹی اکتوبر ۱۹۹۱
7 ۔     محمد نجم الدین، مولوی ،نجم الامثال جلد چہارم ، مطبع مجتبالی دہلی ص ۴
8 ۔     محمد نجم الدین، مولوی ،نجم الامثال جلد پنجم، مطبع احمدی دہلی ص ۶
9 ۔     خلیل صدیقی، زبان کیا ہے؟ بیکن بکس لاہور ص ۳۹، ۲۰۰۹
10 ۔   محمد منیر صدیقی لکھنوی، گنجینۂ اقوال و امثال، مطبع مجیدی کانپور بار اول ص ۲، ۱۹۳۳
11 ۔   یوسف بخاری، سید ،مرقع اقوال و امثال، انجمن ترقی اردو کراچی پاکستان، اشاعت دوم، ص ۲۶۔۲۷، ۲۰۱۶
12 ۔   سیفی پریمی، ہمارے محاورے اور کہاوتیں ، شمس پرکاش جامعہ نگر دہلی ص ۷۔۸، اکتوبر ۱۹۷۰
13 ۔   سید حسین شاہ، خزینہ الامثال ،مطبع مصطفائی کانپور اول ص ۵۔۶، ۱۸۴۷
14 ۔   یونس اگاسکر، ڈاکٹر ،اردو کہاوت اور ان کے سماجی و لسانی پہلو، موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی، ص ۱۳۔۲۳، ۱۹۸۸


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com