اردو غزل میں ترقی پسندوں کے غیر اسلامی تصورات کا تذکرہ


غلام فاروق۔ (پی ایچ ڈی سکالر) ،  شعبہ اردو، سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ، پشاور .
پروفیسر ڈاکٹر محمد احسان الحق۔   شعبہ اردو، سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی ، پشاور .

ABSTRACT:
Islam is a complete code of life. Its teachings embrace all aspects of human life both here and hereafter. Unfortunately the progressive poets have started completly deviating from Islam and in the lame excuse of making livelihood they have riddiculed the Islamic teachings.Instead of Islamic beliefs, morality and philosphy of peace, they have chosen obscenity, atheism and fighting as their goals of life. By giving false hopes they have instigated the poor masses to kill and to be killed. Infact, Islam has struck a lovely balance between materialism and spritualism and thereby presented a unique and matchless system of life to the world.
ملخص: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس کی تعلیمات دنیا اور آخرت کی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لیے ہیں۔ بد قسمتی سے ترقی پسند شعرا نے دین اسلام سے مکمل طور پر انحراف شروع کیا ہے اور معاش کے مسئلے کی آڑ میں اسلامی تعلیمات کا مذاق اُڑایا ہے ۔ اسلامی عقائد ، اخلاقیات اور امن کے فلسفے کے بر عکس الحاد، فحاشی اور جدلیات کو زندگی کے مقاصد ٹہرائے ہیں  اور  عوام کو سبز باغ دکھا کر انہیں مرنے اور مارنے پر آماد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ اسلام نے معاش بلکہ مادیت اور روحانیت کے درمیان حسین امتزاج پیش کرکے دنیا میں امن اور خوش حالی کا وہ نظام پیش کیا ہے جس سے بڑھ کر کوئی دوسرا مناسب نظام ممکن ہی نہیں۔
کلیدی الفا(Key Words ) : اشتراکی (کمیونسٹ)، ترقی پسند ، رجعت پسند ی، سرمایہ دار ، معاش ، معاشی نظام ، معاشی مساوات، غزل، اسلامی نظام، الحاد، جدلیاّت ، لینن ، مارکسزم ۔
انسان جب دنیا میں آجا تا ہے اور عاقل بالغ ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر دوقسم کے حقوق لازم ہو جاتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے حقوق اور مخلوق کے حقوق۔ اس طرح حقوق اللہ مزید دو اقسام میں منقسم ہیں یعنی عقائد اور عبادات ، جب کہ حقوق العباد بھی دو حصوں پر مشتمل ہیں جو کہ اخلاقیات اور معاملات ہیں ۔ پھر معاملات میں معاش کا مسئلہ بھی آجا تا ہے ۔ اس لحاظ سے جب دیکھا جا ئے تو اسلام نے معاش کے مسئلے کو ضرورت کے مطابق اہمیت دی ہے یعنی یہ اسلام کے نظام کا ایک جزو ہے اور جزو بھی ایسا  گویا یہ اسلام کے پیش کردہ نظام حیات کا عشر عشیر حیثیت سے ہے لیکن ترقی پسندوں اور کمیونسٹوں نے انسان کی زندگی کا مقصد یوں سمجھا ہے کہ شاید اس کی پیدائش کا مقصد ہی کھانا پینا ہے ۔ حالانکہ درحقیقت انسان کی شخصیت بہت پیچیدہ ہے۔جس میں کھانے پینے کی حیثیت ایک خاص حد تک  ہے ۔جب کہ ترقی پسندوں نے معاش کے مسئلے کی وجہ سے دنیا کو ایک نفسیاتی خوف (Phobia) میں مبتلاکرنے کی کو شش شروع کی ہے اور انسان کے بارے میں ایسا تاثر دیا ہے گویا دنیا میں یہ صرف کھانے پینے کی خاطر پیدا ہوا ہے۔ یا اس کی حیثیت صرف ایک بیل کی سی ہے جو دن رات کھاتاپیتا ہے اور یہی اس کا مقصد حیا ت ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ضروریات صرف معاش تک محدود نہیں بلکہ اس کی ضروریات کا فی وسیع ہیں جن میں روحانیت ،معاشرت،نفسیات ،عزت نفس اور اسی نوعیت کی  بہت چیزیں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روحانی طور پر مطمئن انسان معاش کے مسئلے سے کبھی بھی پریشان نہیں ہوتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے پر یقین رکھتاہے اور ضرورت معاش کی خاطر سنت نبویﷺ کے طور پر کسب معاش اختیار کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسب معاش کو سنت کے طور پر اپنانے والا  جب حلال مال کماتا ہے تو اس مال میں اپنے خاندان کے علاوہ رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور مستحقین کا بھی خیال رکھتا ہے اور زکوٰۃ کے علاوہ انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں معاشرے کے اندرموجود فقرا اور مساکین کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے  ایسا کرنے سے ایک مومن وہ اطمینان حاصل کرتا ہے جو کہ بہت زیادہ مال (معاش) کمانے کے بعد بھی حاصل نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ مومن کاا یمان ہوتا ہے کہ اس صدقے اور خیرات کی بدولت آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی میں سکون ملے گااور آخر کار امن وسکون کے اصل مقام کا مستحق بن جا ئے گا جو کہ جنت ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جنت میں وہ سب کچھ ملے گا جس کی کسی کو خواہش ہو۔
درحقیقت ابتدا میں معاش کا مسئلہ اتناپریشان کن اس وجہ سے بھی نہیں تھا کہ ُاس زمانے میں ذرائع پیدا وار اور وسائل زیادہ تھے، زمین زیادہ تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے زمینیں قبضہ کرنی شروع کیں ۔مختلف قبائل نے اپنے لیے زمینیں حاصل کیں اور ان سے حاصل شدہ پیداوار اپنے استعمال میں لانے لگے۔گویا اپنے اور پرائے کا تصور پیدا ہوا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاگیردار انہ نظام آیا اور ریاستیں بننے لگیں ۔اس دوڑ میں بعض لوگوں نے لالچ میں آکر بہت کچھ حاصل کیا اور بعض دوسرے لوگ مایوس ہو کر تارک الدنیا بن گئے ۔ ایسے حالات میں رہبانیت اور زائید خوری(دونوں قسم) کے رجحانات پیدا ہونے لگے ۔ افراط وتفریط کے ان رجحانات میں صحیح نظر یہ وہ  ہے جو خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن پاک میں پیش کیا ہے کیونکہ انسان کی سوچ ، فکر اور تجربات ومشاہدات میں وہ حقانیت اور وسعت ممکن ہی نہیں جو خالق کے پیش کردہ تصور حیات میں ہیں۔لہذا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی معاش کی ضرورت کے لیے جوہدایات نازل فرمائے ہیں وہ حتمی اور کامل ومکمل ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام ِحیات ہے جس میں عقائد ، اخلاقیات ، عبادات اور معاملات سب کچھ شامل ہے۔ اسلامی نظام کے یہ اجزا اور شعبے ایک دوسرے کے ساتھ ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ایک کا دوسرے پر انحصاراور دارو مدار ہے اور ایک دوسرے کے لیے علت اور اثر کے طور پر سامنے آتے ہیں یعنی جو انسان اللہ تعالیٰ اور آخرت پرایمان رکھے گا وہ آخرت میں نجات کی خاطر اور روحانی سکون کی خاطر عبادات اور صدقات (مالی عبادات) کا سہارا ضرور لے گا اور اخلاقی طور پر اتنے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گا کہ کسی سے مال و دولت یا زمین چھین لینا تو درکنار، راستے میں کسی سے گری ہوئی کسی گمشدہ چیز کو بھی اپنے استعمال میں لانا حرام تصور کرے گا۔ وہ ترقی پسنددوں کی طرح جنگ و جدل اور فساد کے ذرائع سے لوگوں کی جائیداد چھین کر انقلاب کا ساتھ نہیں دے گاجو درحقیقت آمریت کی ایک شکل ہے  جس  کے دوران نتیجتاًنہ صرف غریب اُسی طرح محروم رہا بلکہ انقلاب کی آگ کا ایندھن بھی بن گیا ۔
ایک لحاظ سے اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی ابتدا سرسید احمد خان ہی سے ہوئی جنہوں نے اپنے رفقاکے ساتھ مل کر علی گڑھ تحریک شروع کی سرسید احمد خان اپنے زمانے کے ادب کو ایک لا حاصل چیز سمجھ رہے تھے اور یوں کافی غور و خوض کے بعد اس فیصلے تک پہنچے کہ ادب کو ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے ۔ سر سید احمد خان کا خیال تھا کہ ادب ایک فن لطیف ہے لہذا اس کی مددسے قارئین اور بلواسطہ تمام انسانیت کی تہذیب کی جاسکتی ہے لہذا مسلمانوں کی بیداری اور اخلاق و تہذیب کو سنوارنے کے لیے سرسید او رفقاء سرسید نے ادب کو ایک اہم عامل قرار دیا اور یوں ادب میں مقصدیت کو شامل کر کے سرسید نے ترقی پسندی کی داغ بیل ڈال دی۔
اس کے بعد جب روسی انقلاب کے زیر اثر ترقی پسند تنظیم کی ابتدا ہوئی اور ان کا منشور سامنے آیا تو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پسندوں نے اخلاقیات سے انکار کے ساتھ ساتھ مذہب کو بھی چھٹی دی ۔ جس کی وجہ سے کئی اہم ادباء اور شعراءاس تحریک سے الگ ہوگئے۔ یہاں تک کہ علامہ اقبا ل بھی اس سے علیحدہ ہوگئے کیونکہ علامہ اقبال کسی بھی صورت میں مذہب یا  عقیدے کو چھوڑنے یا اس میں ترمیم و تغیر کے لیے تیار نہ تھے ۔ البتہ ترقی پسند منشور کے اندر جو جائز نقاط تھے ان کے حوالے سے اقبال ؔکافی اچھی شاعری کر چکے تھے ۔خصوصی طور پر غرباء کے مسائل اقبالؔ نے بڑے احسن طریقے سے بیان کیے تھے ۔
مذہب سے انکار اور کفریہ عقائد کے پرچھار کی بدولت ترقی پسند بہت جلد بدنام ہوگئے ۔ جس کی وجہ سے اسلام کے شیدائی شعرا  پہلی ہی فرصت میں اس تحریک سے نہ صرف الگ ہو گئے بلکہ اس کی بر ملا مخالفت کواپنی ذمہ داریوں کا حصہ محسوس کیا اور ’’اسلامی ادب ‘‘کے نام سے ایک دوسری تحریک بھی شروع کی گئی جس کے رو ح رواں ابو الاعلیٰ مودودی تھے ۔ البتہ بعض ادبا اور شعرا اس کے بعد ہی کچھ عرصے تک ان کے ساتھ رہے ان  کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی گئی۔
شعرا کی اس محدود تعداد میں بھی غزل گو شعرا کی تعداد اس لیے قلیل تھی کہ ترقی پسند شعرا غزل کے مقابلے میں نظم کو زیادہ توجہ دے رہے تھے ۔ کیونکہ نظم کے ذریعے ترقی پسند اپنے مخصوص مقاصد کو زیادہ آسانی کے ساتھ حاصل کرسکتے تھے ۔ جب کہ غزل کے اندر روایتی انداز ہوتاہے اور وضاحت کے بر عکس اشاروں کنا یوں میں بات کر نی پڑتی ہے ۔ لہذا صنفِ غزل کے ذریعے پیغام رسانی کاکام ترقی پسند وں کو محدود نظر آیا کیونکہ ترقی پسند برملا جدلیات اور کشمکش کے قائل تھے جو کہ غزل کی رمزیات میں مشکل سے پیش کیا جاسکتا ہے ۔
ایسے حالات میں جب کہ  ادب میں سے غزل کو چن کر اس سے ترقی پسندانہ خیالات و نظریات اخذ کرنامقصود ہوتو مجبوراً غزل میں موجود نظریات کو اشاورں و کنا یوں کی مدد سے ثابت کرنا ہوگا اور یوں ترقی پسندوں کے غزل سے اخذ و استنباط کے دوران کسی پہلو کو بنیاد بنا کر نثری کتب کا سہارا لے کر کام چلانا ہوگا ۔ پھر ترقی پسند تحریک کے ڈانڈے چونکہ اشتمالیوں اور اشتراکیوں سے ملتے ہیں ۔ (جس کے بارے میں ترقی پسند بار بار برملا اظہار کر چکے ہیں)لہٰذا آگے جاکر ترقی پسندوں، اشتمالیوں اور اشتراکیوں (تینوں )کو ایک ہی معنوں میں لیا جائے گا کیونکہ کسی تنظیم کو حق اور سچائی پر کا ر بند ماننے سے، ماننے والے بھی اس تنظیم کی اچھائی یا برائی میں برابر کے شریک تصور ہوں گے ۔ جیسا کہ اسلا م کو اپنا مذہب ماننے والے فاسق اور فاجر مسلمان بھی اسلام کے دائرے میں بہر حال شمار ہونگے۔ تاہم احتیاط کی خاطر ترقی پسند شعرا کے غیر اسلامی نظریات پر تنقید کر تے وقت ہدف کا نشانہ صرف وہ شعرا تصور کیے جائیں جو متعلقہ غیر اسلامی نظریات کے حا مل ہو ں اور اُن شعراکو ان سے الگ تصور کیا جائے جو اسلام کے دائرے سے نہ نکلے ہوں خواہ وہ ترقی پسندوں کا حصہ بننے کے مدعی ہی کیوں نہ ہوں ۔  ایک لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وہ سارے شعرا مورود الزام ٹہرائے جا سکتے ہیں جو تنظیم کے ممبر ہوں کیونکہ ممبر بننے کے لیے ترقی پسند منشور کے غیر اسلامی اور الحاد پر مشتمل حصے بھی ماننے ضروری ہوتے ہیں ۔
چونکہ ترقی پسند دراصل کمیونسٹ ہیں ۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کمیونسٹوں یا اشتراکیوں ہی سے ابتدا کی جائے۔ لینن نے خود کمیونسٹوں کی تعریف یوں کی ہے :
’’ہم خود کو کمیونسٹ کہتے ہیں ۔ کمیونسٹ کیا ہوتا ہے ؟ یہ لا طینی زبان کا لفظ ہے ۔کمیونس ۔۔۔۔یعنی ۔۔۔۔مشترکہ ۔۔۔تو کمیونسٹ معاشرہ وہ ہوا ۔ جس میں تمام چیزیں یعنی زمین ، کارخانے سب کی مشترکہ ملکیت ہوں اور لو گ مشترکہ طور پر کام کرتے ہوں ۔۔۔یہی کمیونیزم ہے ‘‘(۱)
لینن نے بہت معصومانہ انداز میں کمیونسٹوں کی تعریف کی ۔ جب کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔ کمیونسٹوں کے نظریات اور غیر اسلامی تصورات کے بارے میں گفتگو آگے آئے گی ۔ فی الحال یہ ثابت کرنا ہے کہ ترقی پسند بھی فی الحقیقت کمیونسٹ ہی ہیں ۔ جس کی صراحت خود ترقی پسند با ر ہاکر چکے ہیں ۔ زیادہ منا سب وہ تذکرہ ہے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد ۱۹۴۹ء میں ترقی پسندوں کے کل پاکستان کا نفرنس میں ہوا ۔ جس میں احمد ندیم ؔقاسمی تنظیم کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے اور باقاعدہ طور پر نیا منشور پیش کیاگیا ۔ صراحت ملاحظہ ہو :
’’ہم ادب برائے زندگی ، ادب برائے جدوجہد اور ادب برائے انقلاب کے نظریے کو اپنا سنگ میل خیال کرتے ہیں۔ ہماری فکری اساس اشتراکی حقیقت پسندی پر ہے ‘‘(۲)
منشور سے ثابت ہے کہ ترقی پسندو ں کے نظریات دراصل اشتراکیوں ہی کے نظریات ہیں۔ لہذا نظریاتی طور پراشتراکیوں کا ساتھ دینے والے خواہ جس ملک اور علاقے میں بھی ہوں وہ فی الحقیقت روسی کمیونسٹ کہلائے جاتے ہیں ۔ اس بارے میں زیادہ واضح تبصرہ سجاد ظہیر کی چھوٹی بیٹی ’’نور ظہیر ‘‘نے اپنی تحریر کردہ کتاب ’’میرے حصے کی روشنائی ‘‘ میں کیا ہے ۔ نور ظہیر کی اپنے والد کے حوالے سے ایک سطر ملاحظہ ہو :
’’میرے والد بہت اچھے ادیب تھے کیونکہ وہ کمیونسٹ تھے ۔ ایک اچھے انسان تھے اور عوام سے بہت قریب تھے‘‘۔(۳)
لہٰذا یہ ثابت شدہ ہے کہ ترقی پسند دراصل کمیونسٹ ہی ہیں ۔ کیونکہ یہ خود اس کا اقرار کر چکے ہیں ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ واضح ہو جائے کہ اسلام کے خلاف کمیونسٹوں نے اتنا پروپیگنڈہ کیوں کیا کیونکہ کمیونزم تو ظاہر میں صرف ایک معاشی نظام کا دعویٰ کر چکا تھا ۔ اس بارے میں بنیادی حقیقت یہ ہے کہ کمیونزم بنیادی طور پر ایک معاشی نظا م کے طورپر ابھرا تھا بلکہ ایک سرمایہ دارانہ نظا م کے ردعمل کے طور پر ابھرا تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظا م کو تحفظ وتعاون عیسائی پادریوں کی بدولت حاصل تھا لہذا کمیونسٹوں نے پادریوں کی باتوںسے انکار کردیا اور یوں عیسائیت کے ساتھ کشمکش کی فضا پیدا ہوگئی۔ چونکہ عیسائیت مذہب کا نا م ہے اور اسلام بھی ایک آسمانی مذہب ہے اس لیے عیسائیت کی تردید کے دوران کمیونسٹوں نے اسلام کو بھی مورد الزام ٹہرایا اور یہ سلسلہ آگے بڑھتارہا ۔یہا ں تک کہ وجود باری تعالیٰ سے کمیونسٹوں نے انکا ر کر دیا اور یوں عیسائیت کے ساتھ ساتھ اسلام کے ساتھ بھی کمیونسٹوں کی جنگ شروع ہوگئی۔ کیونکہ وجود باری تعالیٰ اسلام کا بنیادی عقید ہ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظا م حیات ہے ۔ جس میں اور مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کا حل بلکہ یہا ں تک کہ سرمایہ دارانہ نظام کی برائیوں کا حل بھی موجود ہے ۔ جب کہ موجودہ عیسائیت صرف عبادات کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا ایک طرف اسلا م کے بارے میں کمیونسٹ غلط فہمی کا شکار ہوگئے تو دوسری طرف کمیونسٹو ں کی معیاری کتاب ’’سرمایہ‘‘ (یہ کا رل مارکس کی معرکۃ الآرا کتاب ہے)بھی فی الحقیقت کئی الجھنوں کا شکار تھی کیونکہ اس کتاب کے لکھنے کے دوران نہ صرف کارل مارکس بیمار تھے بلکہ کئی نفسیاتی مسائل سے بھی دو چار تھے اور بقول مترجم ِکتابِ ہذا اس کتاب کے شرو ع کے ’’۲۰۰‘‘ صفحات سمجھ سے بالاتر ہیں کیونکہ کا ر ل مارکس کو اس زمانے میں کئی معاشی اور معاشرتی پریشانیوں کا سامنا تھا ۔ (۴)
’’سرمایہ‘‘  کا مقام کمیونسٹوں کے ہاں اتنا بلند ہے کہ اسے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ’’سر مایہ‘‘کا مقام ملا حظہ ہو :
’’سرمایہ داری کے سائینٹیفک طور پر تحلیل کر نے کا سہرا کا رل ما رکس کے سر ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اس کو سوشلزم کا باوا آدم کہا جاتاہے ۔‘‘(۵)
اتنی اہم کتاب میں جب کئی غلط فہمیا ں موجود ہوں اور اسلام کے بارے میں بھی کمیونسٹوں کی رائے مبنی بر انصاف نہ ہو تو لامحالہ  اسلام کے ساتھ کمیونسٹوں کی محاذ آرائی ہی ہوگی ۔
مذکورہ اقتباس میں سوشلزم کی اصطلا ح آئی لہذا بہتر یہ ہے کہ اس اصطلاح کی بھی وضا حت کی جائے ۔ حقیقت میں سوشلزم اور کمیونزم ایک ہی نظام کے دو مرحلے ہیں یعنی جب سوشلزم اپنی ترقی یا فتہ صورت میں قائم ہو تو اسے کمیونزم کا نام دیا جاتا ہے ۔
سوشلزم ایک سماجی نظام ہے جس میں پیداوار کے ذرائع یعنی زمین ، کارخانے اور تجارت وغیرہ معاشرے کی مشترکہ ملکیت بنادی جاتی ہیں اور ہر شخص کو اس کے سماجی مرتبے کے برعکس اس کی محنت کے مطابق معاوضہ دیا جاتاہے ۔ کمیونزم اس سے اگلا قدم ہے جس میں ہر شہری کو بنیادی ضرورتیں (روٹی ، کپڑا ، مکان )ریاست کی طرف سے ملتی ہیں ، خواہ وہ کم محنت کر ے یا زیادہ ۔ کارل مارکس پرُ امید تھے کہ کمیونزم نظا م کے حصول کے بعد سماج اس قابل ہو جائے گا کہ اپنے پرچم پر یوں لکھ سکے گا کہ ہر فرد سے اس کی قابلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق اشیا ملیں گی ۔ (۶)
پس معلوم ہوا کہ کمیونزم اور سوشلزم دونوں معمولی تفصیل کے ساتھ ایک ہی نظام ِمعاش کی دو صورتیں ہیں اور ان نظام ہائے معاش کے ماننے والے اشتراکی ہیں ۔ چونکہ اس کا سہرا مارکس کے سر ہے اس لیے اسے ’’مارکسزم ‘‘بھی کہا جاتاہے ۔ ان نظا م ہائے معاش میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کی ترامیم بھی کی گئی ہیں کیونکہ فی الحقیقت (جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے )مارکس کا ’’سرمایہ ‘‘اتنا واضح نہیں اور اس میں کئی متنی اور تشر یحی مسائل موجود ہیں اور ان نظریات کا اطلاق بذات خود ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے ۔ اس نظا م کی خرابیوں کے کئی اہم دانشور قائل ہیں ۔ ریمنڈ ویلمز کی رائے ملاحظہ ہو :
’’ریمنڈ ویلمز نے اگرچہ مارکسزم کو اپنے کیر ئیر میں بہت بعد میں اختیا ر کیا لیکن اس کا شمار انگریزی کے لا ئق ذکر مارکسی نقا دوں میں ہو تا ہے اپنی تصانیف میں ویلمز صنعتی سماج کے انسان اور سوشلسٹ امکانا ت پر نظر ڈالتاہے اور اپنے تجر بات کی روشنی میں ادب پر بھی اس کا اطلاق کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ مارکس کا بنیاد ۔۔۔۔با لا ئی ساخت ،کا فارمولا خاصہ تجریدی ہے اور جھیلے ہوئے تجربے (Lived Experience )کی تہہ در تہہ با فت کا ساتھ نہیں دیتا ‘‘ (۷)
اس کے برعکس کمیونسٹ حضرات ماکسزم کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور لینن تو مارکس کے نظریے کو قادرِ مطلق کہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ نظریہ معاش لینن  اور سب سے جامع اور ہم آہنگ ہے اور ایک ایسا عالمی نظا م پیش کرتاہے جو وہم پرستی ، رجعت پسندی اور بور ژو ا کے خلاف اعلان کرتا ہے اور اسے انیسویں صدی کے بہترین خیالات کا وارث سمجھتے ہیں (۸)
یہی وجہ ہے کہ مارکس اور ان کے قریبی ساتھی اینگلز خالص کمیونزم کے قائل تھے وہ ترامیم اور تغیرّ کے قائل نہیں تھے ۔ اسی خاطر ان دونوں نے سوشل ڈیموکریٹ جیسی ڈھیلی ڈھالی اصطلا ح کو بھی استعمال کرنا منا سب نہیں سمجھا بلکہ اینگلز نے تو صرف اور صرف لفظ کمیونسٹ کو اپنے مضا مین میں استعمال کیا ہے(۹) لہذا ترقی پسند جن اشترا کی افکا ر کے قائل تھے اور جن نظریات کو دوام دینے کی کوشش کر رہے تھے وہ دراصل سوشلزم ، کمیونزم اور مارکسزم ہی ہیں ۔(۱۰)جو ابتدائی طور پر معاشی اصلاحات کا دعویٰ لے کر اٹھے تھے لیکن بعد میں جب ان کو عملی طور پر دیکھا گیا تو معاشی نظا م سے زیادہ ان کا لٹریچراسلا م دشمنی پر مبنی تھا ۔ وہ مذہب کو روحانی ظلم کی ایک شکل قرار دیتے ہیں ۔ اسے عوام النا س پر بڑا بوجھ سمجھتے ہیں ۔ جس کی خاطر انسانوں نے معجزوں اور دیوتاؤں کا سہارا لیا اور غریبو ں کو جنت کی امید پر بہلایاگیا ۔ یوں ان کے نزدیک مذہب دراصل ایک افیون ہے(۱۱)
مذہب کو افیون کہنے کا سلسلہ کئی کمیونسٹوں نے جاری رکھا ہے ۔بقول ڈاکٹر طاہر شبیر :
’’تھیو کریسی کی افیون عوام ہی کا مقدر تھی ۔ بادشاہ ، شاہی خاندانوں کے افراد اور امرا شرعی احکا م پر بس واجبی عمل کر تے تھے ،شاہی خاندانوں کے افراد اور امرا بھی بادشاہ کے خلاف سازشوں سے پر ہیز نہیں کرتے تھے ورنہ زمین پر خدا کے نائب وقتاً فوقتاً قتل نہ ہوتے ‘‘(۱۲)
اینگلز نے تصریح کی ہے کہ ہمارا کوئی کٹر عقیدہ نہیں بلکہ ہم صرف عمل کو مشعلِ راہ سمجھتے ہیں۔(۱۳)
یعنی کمیونزم /سوشلزم میں مذہب یا خدا کا تصور ہی موجود نہیں اور اگر کوئی تذکرہ ہے تو مذہب اور خدا سے عداوت کا تصور ہے ۔ یہ صرف اورصرف مادیت پر مشتمل نظام ہے اورمادہ پرستی کا داعی ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کمیونزم کی تحریک کے دوران جو چیز دوائی کے طور پر پیش کی گئی وہ علاج کی بجائے دراصل بیماری نکلی۔کیونکہ جس نظام کے ردعمل کے طور پر کمیونزم کی ابتدا ہوئی تھی وہ سرمایہ دارانہ نظا م ہے۔ اس نظام کی جو بیماری تھی وہ دراصل اﷲ تعالیٰ و آخرت کے عقیدے کے نہ ہو نے یا کم زورہو نے کی وجہ سے پیداہوئی تھی ۔ کیونکہ اس وقت لالچ اور زائد منا فع خوری کا بازار گر م تھا ۔ یتیم ، غریب کی فکر سرمایہ دارانہ نظا م میں نا پید تھی ۔ مالدار ، مالدار تر اور غریب ، غریب تر ہو رہے تھے ۔ مصیبت زدگا ن کا کوئی پرسان حا ل نہیں تھا ۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا تھا کہ اﷲتعالیٰ اور رسو لؐ کی تعلیمات کو لوگ بھول چکے تھے ۔ جب کہ خیرالقرون میں ا ﷲاور آخرت کے عقید ے پر پختہ ایمان کی بدولت مادی طور پر بھی اتنی خوشحال آئی ہوئی تھی کہ زکوٰۃکے مستحقین کی کمی واقع ہوئی تھی یعنی زکوٰۃ دینے والے تو بے شمار تھے لیکن لینے والے نہیں ملتے تھے ۔ لہذا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق سرمایہ دارانہ نظام میں مادہ پرستی کی بدولت جو مسائل پیدا ہوئے تھے ،ان کو حل کرنے کے لیے مادہ پرستی ہی کے ذرائع استعمال ہونے لگے اور یوں کمیونزم اور سوشلزم کی ضرورت محسوس کی گئی جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ گھمبیر مسائل پر منتج ہوگئی لہذا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سفید سامراج کی جگہ سر خ سامراج نے لینے کی کوشش کی اور یوں ایک پرانے ظالمانہ نظا م کی جگہ نئے ظالمانہ نظا م نے لے لی ۔ پھر مسئلہ یہ پیدا ہو ا کہ یہاں  ظا لمانہ نظام صرف معاش اور مسائلِ معاش تک محدود نہ رہا بلکہ اس نے پورے نظا م افکا رکو بھی متاثر کیا اور یوں سویت یونین کی محنت کش عوام کی کوششوں سے کا رل مارکس اور لینن کے افکا ر نے ایک طرف ملوکیت کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا تو دوسری طرف شعلہ ء نفس شاعروں نے پرانے لٹریچر کو جلا کر نیاادب تخلیق کیا اور ایسی شاعری پیش کی گئی جو دراصل جدلیّات ہی کی تبلیغ ہے ۔ نمونے کے طور پر روس کے اشترا کی شا عر وی لگووسکی کی شاعری ملاحظہ ہو :
میری شاعری میری شاعری
لڑائی کے میدان میں مارنے اور جلا دینے کے لیے ہے
زندگی کی مضبوط کلیّت ہٹا کر
اس کے حقیقی معانی تلاش کر نے کے لیے ہے

حوادث و واقعات کے اسرار میں اصرار کر کے
بہرے کو سماعت اور گونگے کو گویا ئی اداکرنا چاہتی ہے
کہ وہ قدرت کے قوانین جان سکیں۔ ‘‘(۱۴)
اسی نظام سے متاثر ہو کر روسیوں کو اردو کے بعض شعرا نے بھی لبیک کہا ۔ اس بارے میں کم از کم اتنا کہنا ضروری ہے کہ ان نا م نہاد مسلمان شعرا نے اسلام کے ساتھ بہت  بے انصافی کی کیونکہ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیو ں اور اشتراکی نظام کی فضیلتوں کو تو پڑھا لیکن ان شعرا نے اسلام کا عشر عشیر بھی نہ سمجھا اور نہ ہی سمجھنے کے لیے مطالعہ کیا اور یوں جہلِ مرکب میں اسلام پر اعتراضات شروع کیے ۔ ورنہ اگر یہ شعرااسلام کو سمجھ لیتے تو ان الجھے ہوئے نظام ہائے معاش میں پڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کیونکہ اسلام بذات خود ابتدا ہی سے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہائے معاش کے مخالف رہا ہے۔ لہذا ظلم یہی ہو ا کہ اسلام کو مطالعہ کرنے سے پہلے دہریت پر مشتمل کمیونزم کے گیت گائے جانے لگے ۔
جن اصحابِ علم و فضل نے ترقی پسندوں کی عُجلت پسندی کو غیر منا سب جانا  ان کے خلاف ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے سخت پروپیگنڈاکیا اور یوں اکثر شعرا ایسے پید ا ہوئے جو کمیونزم کو سرسری نظر سے دیکھ کر ہی اس کے عاشق بن گئے اور کمیونزم کو اپنا مذہب اور سب کچھ بنایا ۔
قتیلؔ شفائی کا شعر ملاحظہ ہو :
نکل آؤ ، جدائی کے اندھیروں سے نکل آؤ
اجالوں کا سفر ہے روشنی آواز دیتی ہے (۱۵)
افسوس کا مقام ہے کہ ذہنی مریضوںFrustrated People) ) کے تیار کردہ نظا م کوتو روشنی کہا گیا لیکن اﷲتعالیٰ نے جس چیز کو نورکہا ہے وہ اندھیرا محسوس ہو رہاہے ۔بہر حال فیصلہ تو اﷲپاک نے ہی فرمایا ہے جو کہ اٹل ہے اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ ا ﷲتعالیٰ کا نور (دین اسلام )ہی تمام نظام ہائے زندگی اور باطل ادیان پر غالب ہوگا (۱۶)
ہندوستان میں ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم قائم کرنے کا منصوبہ ۱۹۳۵ء میں ڈاکٹر تاثیر نے لندن میں بنا یاتھا ۔ بعد میں اس منصوبے نے عملی شکل ۱۹۳۶ء میں اس وقت اختیارکی، جب سجاد ظہیر نے ملک واپس آکر بیشتر ممتاز ادیبوں سے ملاقات کی اور ان ادیبوں کی حمایت حاصل کی ۔ اس دوران فیض احمد فیضؔ بھی سو شلسٹ نظریا ت سے آشنا ہوئے اور یوں بقول ان کے ، ان کے فکر و احساس میں اضافہ ہوا اور وہ کہنے لگے کہ مجھے احساس ہوگیا کہ دنیا ظلم وستم میں آج تک کیوں مبتلا رہی اور انسانوں کی تجارت کیوں جاری ہے ۔ اس قسم کے سوالات کے جوابات فیض احمد فیضؔ کو سوشلزم کی کُتب میں ملے ۔ جو ان کے نزدیک انقلاب کا واحد راستہ تھا ۔ شعر ملاحظہ ہو :
 یہ حسیں کھیت ، پھٹا پڑتاہے جوبن جن کا
کس لیے ان میں فقط ، بھوک اگا کرتی ہے (۱۷)
لہٰذا ترقی پسندو ں کا مطمع نظر و اشتراکی ہی ہیں یہی وجہ ہے کہ غریبوں اور مزارعین کو انقلاب کے لیے تیار کرنے اور ان کو امیروں اور سرما یہ داروں کے خلاف اٹھ کھڑا کرانے میں ترقی پسندوں نے وہی طریقے اپنانے کی کوشش کی جو کہ کمیونسٹ اپنے اشترا کی روس کے اندر کر چکے تھے ۔
بحیثیت مسلمان سب سے بڑی تشویش ہماری یہ رہی کہ اس معاشی نظام نے مذہب کو اپنے مقابل دیکھ کر اسلام کے نظا م کو مورود الزام ٹہرانے کی کوشش کی ۔ اگر چہ ترقی پسند کمیونسٹ بظاہر مولویوں کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ اسلامی نظام کے خلا ف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں ایسے اشعار کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں جس میں کمیونزم کی دعوت اور اسلام کے نظا م کی تردیدکی گئی ہے ۔ نثر اور نظم میں یہ تاثر صراحتاً موجود ہے جب کہ غزل کے اندر اشاروں ، کنا یوں میں کمیونزم کی پرچھا ر موجود ہے ۔ ترقی پسندوں کے مذہب سے انکار بلکہ اسلام دشمنی کو ثابت کرنے کی خاطر یہاں پر چند مثالیں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ احمد فراز ؔ بر ملا طور پر ملحدانہ نظریے کے حامل ہونے کا دعوی ٰکرتے ہیں ۔ شعر ملاحظہ ہو :
 تشکیک و ملحدانہ رویے کے باوجود
رومی سے والہانہ عقیدت کے رات دن (۱۸)
درحقیقت کمیونسٹوں اور ترقی پسندوں نے ابتدائی طور پر عیسائی مذہب سے انکار کیا تھا لیکن جب ان کا تشدد حد سے بڑھ گیا تو اسلام کے بھی منکر ہوگئے بلکہ با لآخر ہر قسم کے مذہب اور اخلاقی نظام سے انکار ہو گئے ۔ اس حوالے سے لینن کا خیال بیان کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ بقول لینن :
"ہم بے شک یہ کہتے ہیں کہ خدا پر ایمان نہیں رکھتے "(۱۹)
لینن نے وجود باری تعالیٰ سے انکار کیا تو فرا زـؔنے ہر قسم کے مذہبی رہنما سے برا ت اختیار کی۔ شعر ملاحظہ ہو :
اب زمین پر کوئی گوتم ، نہ محمد ؐ ، نہ مسیح ؑ
آسمانوں سے نئے لوگ اتارے جائیں (۲۰)
اسلام اور باقی ادیان اور مذاہب سے انکار ترقی پسند کمیونسٹوں کی ایک بڑی ضرورت تھی کیونکہ معاش کے بارے میں جو نظریہ انہوں نے پیش کیا تھا وہ ظلم و جبر اور حق تلفی و غصب پر مشتمل تھا جو کہ تمام مذاہب میں بالعموم اور اسلام میں باالخصوص حرام ہے ۔ لہٰذا جب تک کمیونسٹ ترقی پسند آسمانی کتب اور اسلامی تعلیمات کے منکر نہ بن جائیں وہ اپنے غصب کے نظام کو رائج کرنے کا جواز فراہم نہیں کر سکتے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ معاش کے نظام کااخلاق اور اعتقادی نظریات کے ساتھ کتنا قریبی تعلق ہے بلکہ درحقیقت اسلام کے تمام نظام ہائے زندگی ایک کُل کے تابع ہیں یعنی اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس نظام میں تمام شعبے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا جب ایک شعبے سے انکار کیا جاتا ہے تو لا محالہ  دوسرا شعبہ بھی چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اس طرح ایک کا اقرار دوسرے کے اقرار کا پیش خیمہ بن جاتا ہے ۔
ترقی پسند کمیونسٹ بظاہرایک خوبصورت نظام معاش کے مدعی ضرور ہیں لیکن در حقیقت وہ آشیانے کے نام پر قفس تیارکر چکے ہیں ، جس میں غریب عوام پھنس کر نہ صرف لاچار رہ جاتے ہیں بلکہ ایمان کی دولت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ معاشی مساوات کا پروپیگنڈا ترقی پسندوں کا نصب العین ہے ۔ شعر ملاحظہ ہو :
تم کونسی زنجیر سے باندھو گے ارادے
اب شور مساوات تو ہر گھر سے اٹھے گا (۲۱)
اس بارے میں فیضؔ کا شعر ملاحظہ ہو :
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے (۲۲)
یہاں پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ کمیونسٹوں کے برعکس اسلام کے مطابق معاشی مساوات یا معاشی انصاف ضروری نہیں بلکہ درحقیقت معاشی عدم مساوات اور عدم انصا ف تو فطرت کے قانون کے عین مطابق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنے کے وسائل انسانوں کے مابین ایک ایسے انداز میں تقسیم کیے گئے ہیں کہ بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے معاشی طور پر زیادہ آسودہ حال ہیں تاکہ بعض لوگ بعض سے خدمت لے سکیں (۲۳) ورنہ بصور تِ دیگر دنیا میں کام کاج کا نظام رک جائے گا۔ معاشی اونچ نیچ خود سرکار دو عالمؐ کے دور میں بھی یہی  ہے ۔بلکہ یہ تفاوت ہر دورمیں موجود رہی ہے لیکن ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ معاشی تفاوت کے باوجود معاشرتی تفاوت ناپید تھی بلکہ غریب اور مالدار کے حقوق بالکل بھی برابر تھے ۔جو حقوق عثمان غنی ؓ کو حاصل تھے وہی ابو ہریرہ ؓ کو بھی حاصل تھے ۔ معاشی اونچ نیچ کے برعکس اسلام تقویٰ کو اہمیت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ میں ترقی کی بدولت بعض صحابہ ؓ غریب ہونے کے باوجود مالداروں سے اونچے مقام و مرتبے پر فائز تھے(۲۴) لیکن ترقی پسند اسلام کے اس فطری نظام کے انکاری ہیں ۔ اس کے برعکس وہ عوام الناس کو اکساتے ہیں کہ وہ مالداروں کی جائیدا د چھین کر قبضہ کر لیں اور یوں سر مایہ داروں کے خلاف مزدوروں کو بغاوت پر آمادہ کیا جاتا رہا  اور خون ریزی کی دعوت دی جاتی رہی ۔ شعر ملاحظہ ہو :
آہ یہ رنگین موسم خون کی برسات کا
چھا رہا ہے عقل پر جذبات کی ہلچل کا رنگ (۲۵)
اور کبھی سرخ انقلاب کے لیے یوں آواز دیتے ہیں ۔
اجڑ رہے ہیں گھرانے ، بدل رہے ہیں زمانے
لپک رہے ہیں دوانے ، اتارہے کہ چڑھاؤ (۲۶)
اس شعر میں احمد ندیم ؔ قاسمی بظاہر  تو جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت اس انقلاب میں غریب کا شتکار اور مزدور ہی بنیاد  ہوئے ۔ اس جدل و فساد کے دوران کمیونزم کے علم بردار قائدین محفوظ رہے ہیں۔ صرف غریب ہی جنگ کے دوران کام آئے ۔ جو بچے پہلے صرف غریب تھے وہ اس انقلاب کے بعد یتیم بھی بن گئے ۔ اس طرح ترقی پسند نظریہ مان لینے کے بعدوہ اسلام اور ایمان سے بھی فارغ ہوگئے اور یوں دنیا و آخرت کے خُسران کا سامنا کرنا پڑا۔ غریبوں کے علاوہ انقلابی کونسل کے کئی اہم افراد قتل کیے گئے جس کو کمیونسٹ رہنماؤں نے عمل تطہیر کہا اور یہ قتل و قتال کمیونسٹ راہنماؤں نے خود اپنے ہاتھ سے کیا۔ انقلابی کونسل اسّی افراد پر مشتمل تھی لیکن وہ سارے قتل کیے گئے۔ کوئی بھی طبعی موت نہیں مرا۔ سٹالن نے اپنے دور میں سات لاکھ انسانوں کو قتل کیا۔ صرف ۱۹۳۷ء میں بیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ نو جرنیل بھی قتل کیے گئے ۔ (۲۷)معلوم ہوا کہ ترقی پسند فی الحقیقت غریبوں کو لڑوا کر اقتدار حاصل کرنا چاہ رہے تھے اور اس سازش کے دوران جن افراد کو اقتدار ہاتھ آیا انھوں نے نہ صرف غریبوں کو محروم رکھا بلکہ اپنے جرنیلوں اور فوجیوں کو بھی مخبروں کی فہرست میں ڈال کر ان کو بھی سامنے سے ہٹایا بلکہ بقول ان کے صاف ( عمل تطہیر کے ذریعے )کیا۔ ظاہر ہے جس نظامِ معاش میں آخرت کا ڈر اور اللہ تعالیٰ کے وجود کا عقیدہ موجود نہ ہو اُس سے اس قسم کی توقع ہی کی جاسکتی ہے ۔ بلکہ اسلامی عقائد کے فقدان کی بدولت در حقیقت ترقی پسند کمیونسٹ مختلف قسم کے تضادات کابھی شکار ہو گئے جو کہ درحقیقت منافقت ہے ۔ مثال کے طور پر ایک طرف اگر دیکھا جائے تو ترقی پسند مادی ترقی کے قائل ہیں اور روحانیت اور مذہب کے انکاری ہیں یعنی صرف معاشی ترقی کو سب کچھ گردانتے ہیں۔ بلکہ کارل مارکس اپنے منشور میں واضح طور پر لکھتے ہیں :
’’قانون ، مذہب سب بورژوا کی فریب کاری ہے ‘‘(۲۸)
لیکن فیضؔ تصوف ( روحانیت کی ایک شکل ) کے بارے میں یوں رقم طراز  ہیں۔
’’بھئی صوفی تو بڑی چیز ہے نا۔وہ زمان مکان اور رنگ و ملت کی سرحد میں پھلانگ چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو اصلی کا مریڈلوگ ہیں (۲۹)
یعنی کمیونسٹ کا مریڈاور روحانیت پسند صوفی آپس میں برابر ہوگئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ہدایت کا اصل سر چشمہ چھوڑ دیا جاتا ہے تو گمراہی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ مذہب اور روحانیت کے انکاری اور مادیت کی خاطر جنگ و جدل سے تھک کر دوبارہ کمیونسٹ ترقی پسند روحانیت کی ایک بگڑی ہوئی صورت کی طرف واپس آتے ہیں۔  اس طرح امن و فساد کے حوالے سے بھی ترقی پسند تضاد کا شکار ہیں ۔بظاہر تو یہ انسان دوستی اور انسان نوازی کی دعوت چلاتے ہیں ۔جیسا کہ فراز ؔکا شعر ہے :
 واعظوں میں نے بھی انساں کی عبادت کی ہے
پر کوئی نقش نہیں ہے مری پیشانی پر(۳۰)
لیکن کمیونزم  کی تاریخ سے واضح ہے کہ انہوں نے بہت زیادہ انسانوں کو کمیونسٹ انقلاب کے دوران مروایا ۔ ذرا ان کے دور ِحکومت کے حالات ملاحظہ ہو :
"جبر کے ان گنت طریقے اختیار کر دیے گئے ۔ جن میں ایک یہ بھی تھا کہ جس نے اپنی نوکری چھوڑ دی  تو اس کو قید میں ڈالا جاتا ہے "(۳۱)
خود فیض احمد فیضؔ نے عوام کے لیے "کتے"لفظ استعمال کیا ہے ۔ جس پر سبط حسن نے تنقید بھی کی ہے (۳۲) اس طرح وطن دوستی کی خاطر فیض ؔ وطن کے ترانے بھی گاتے رہے لیکن پاکستان کے ساتھ غداری سے بھی دریغ نہیں کیا۔ فیض ؔ کی وطن دوستی ملاحظہ ہو :
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ، ترے جان نثار چلے گئے
تری راہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرراہ گزارچلے گئے (۳۳)
لیکن راوالپنڈی سازش کیس میں با قاعدہ فیضؔ نے حکومت پاکستان کا تختہ الٹنے کے حوالے سے اقرار جرم بھی کیا ہے (۳۴) اور روس نوازی کا عملی ثبوت، سوویت یونین میں قیام کے دوران، یوں دیا ہے کہ وہاں پر دلی مسرت سے رہتے تھے اور کسی قسم کی بیگانگی اور تنہائی کا احساس قریب بھی نہیں آنے دیا  ۔ (۳۵)یہی وجہ ہے کہ لینن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔
مذکورہ  مثالیں ترقی پسندوں کے تضادات کا ثبوت ہیں جو دراصل اسلامی تعلیمات کے ساتھ تصادم کی وجہ سے پیدا ہوئے ۔
درحقیقت اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے لہٰذا اس نظام کے ثمرات اُس وقت ظاہر ہونا شروع ہو تے ہیں جب اس کو بحیثیت کل (یعنی مجموعی نظام کےطورپر) رائج کیا جا ئے۔ اس نظام میں انسانوں کے روحانی ، اعتقادی، نفسیاتی اور معاشی مسائل کا حل ہر لحاظ سے موجود ہے ، ترقی پسند کمیونسٹوں کے برعکس اسلام صرف معاش کو سب کچھ نہیں مانتا بلکہ اسلام روحانی اور مادی دونوں ضروریات زندگی کو اہمیت دیتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اسلام ایک خاص تناسب کا قائل ہے۔ اسلام نہ عیسائیت کی طرح رہبانیت اور تصوف کے نام پر ترک دنیا کا قائل ہے اور نہ ہر امر اور بات کو صرف مادیت کے چشم سے دیکھتا ہے بلکہ اسلام انسان کی شخصیت کو دو حصوں میں منقسم کرتا ہے یعنی جسم اور روح ۔لہٰذا انسان کی ضروریات مادی بھی ہیں اور روحانی بھی ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف رزق حلال کمانے کا قائل ہے بلکہ روحانی تسکین کی خاطر اسے غریبوں اور مستحقین میں صدقہ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے۔
 اسلام نے حقوق وفرائض کا ایک مستقل نظام پیش کیاہے جس کے مطابق مسلمان کو رزق حلال کے حصول کا پابند بنا یا ہے اور حصول رزق حلال کو عبادت کہا ہے اور مال کمانے کے لیے کئی اہم شرائط دی ہیں ۔ مثال کے طور پر مال کماتے وقت کوئی بھی ایسا ذریعہ استعمال کرنا جائز نہیں جو براہ راست یا بلواسطہ حقوق اللہ یا حقوق العباد کے ساتھ متصادم ہو ۔ ناجائز کمائی کے تمام ذرائع اسلام نے بند کیے ہیں۔ اسلام سود خوری کی بیخ کنی کر چکا ہے کیونکہ دراصل یہ غریبوں کے استحصال پر  منتج ہو  تا ہے۔ اس طرح منشیات کی خرید و فروخت اور سمگلنگ پر بھی ابتدا ہی سے پابندی عائد کی گئی ہے ۔جُوابھی اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ زائد منافع خوری بھی جائز نہیں ۔ ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کوبھی اسلام نے بہت بڑا گناہ قراردیا ہے۔ مذکورہ تمام ذرائع آمدن دراصل حقوق العباد اور حقوق اللہ کی پاسداری کے خلاف ہیں لہذا اسلام نے ان سب کو حرام قرار دیا ہے ۔ اس لحاظ سے جب دیکھا جائے تو اسلام نے سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کی ہے کیونکہ اس نظام میں زیادہ سے زیادہ کمانے کی دوڑ میں جائز وناجائز ذرائع کے درمیان تمیز کرنے کو لایعنی سمجھا جا تا ہے اور یوں بلواسطہ طور پر غریبوں کا استحصال کیا جا تا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں غریب مزید غریب بن جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مالدار لوگ مالدار تر اور پھر مال دار ترین بن جاتے ہیں۔ لہٰذااسلام نے کئی اہم شرائط لگا کر مالداروں اور سرمایہ داروں کو لگام ڈالی تاکہ غربا کا استحصال نہ ہو سکے۔ اس طرح کمانے کے بعد بھی اسلام نے مال جمع کرنے کے ساتھ کئی شرائط باندھی ہیں۔  اول شرط تو یہ ہے کہ صرف اس مال کو ملکیت کے طور پر جمع کیا جاسکے گا جو حلال ذرائع سے حاصل ہو۔ پھر سال گزنے کے بعد ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ دینا بھی فرض قرار دیا گیا ہے ۔یہاں پر اس نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اسلام مال جمع کرنے کا مخالف نہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو زکوٰۃ کا تصور ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلمان مال جمع کر سکتا ہے ، بصورت دیگر زکوٰۃ کا تصور ہی محال ہے۔
بہر حال مال پر سال گزر جانے کے بعد (بشرط یہ کہ مالیت ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو)مستحقین میں  زکوٰۃ تقسیم کرنا ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔یہاں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے باوجود اگر کوئی غریب اور نادار سامنے آیا تو اس پر مزید مال خرچ کرنا بھی ضروری ہے ۔اسے انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتاہے ۔اس کے علاوہ پڑوسی کے حقوق بھی مقررہیں۔پڑوسی کے گھر میں اگر بھوک پیاس موجود ہو تو کسی مومن کی ذمہ داری اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک اُس پڑوسی کا مسئلہ حل نہ ہو۔
اسلام نہ بے لگام اور شتر بے مہار سرمایہ داروں کی طرح زیادہ کمانے کی اجازت دیتا ہے جو درحقیقت ظالمانہ نظام ہے اور نہ اشتراکیوں اور ترقی پسندوں کی طرح انفرادی ملکیت سے کسی کو محروم رکھتا ہے۔ بلکہ اسلام ہر قسم کی افراط و تفریط کے خلاف ہے جس میں انفرادی ملکیت بھی حلال اور قانونی طور پر جائز قرار دی گئی ہے اور اجتماعی فلاح کا تصور بھی واضح طور پر موجود ہے۔اسلام اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے علمبردار اپنے اپنے نظام ہائے معاش کی جو افادیت بیان کرتے ہیں وہ در اصل اسلام کے اجتماعی معاشی نظام کے کچھ حصے ہی تو ہیں لیکن ان دونوں نظاموں کے علمبرداروں نے اپنے اپنے نظام میں شدت پیدا کر کے اسلام کے فلسفے کو غلط انداز میں پیش کیا ہے اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام ترقی پسندوں کے نظام معاش اور سرمایہ داروں کے اقتصادی نظام کے برعکس ایک اعتدال پسندانہ حکمت پر مبنی نظام ہے جو کہ درحقیقت خالق کائنات کے آئین ہی کے مطابق ہے۔


حواشی وحوالہ جات
۱۔      لینن ،’’اشتراکی نظریات اور ثقافت‘‘(مترجم : مرزا اشرف بیگ ) ، لاہور، فکشن ہاؤس، ۲۰۱۳ء ،ص ۱۵۰
۲۔     طاہر شبیر ، ڈاکٹر ’’انقلاب کی دہلیز تک ‘‘لاہور ، فکشن ہاؤس ، ۲۰۱۳ء ،ص۱۲۲
۳۔     ایضاً ، ص ۱۲۷
۴۔     کارل مارکس’’سرمایہ‘‘(ترجمہ و تلخیص م ۔ م جوہر میر ٹھی)، لاہور، فکشن ہاؤس ، ۲۰۱۱ء،ص ۶
۵۔     ایضاً، ص۱۱
۶۔     طاہر شبیر ، ڈاکٹر ،’’انقلاب کی دہلیز تک ‘‘، ص۴۳
۷۔     گوپی چند نارنگ ، ’’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘،لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ، ۲۰۱۰ء ، ص۲۶۳
۸۔     لینن، ’’اشتراکی نظریات اور ثقافت‘‘،ص۸/۷
۹۔     طاہر شبیر ، ڈاکٹر ’’انقلاب کی دہلیز تک‘‘، ص۴۲
۱۰۔    ایضاً، ص۱۱
۱۱۔     لینن، ’’اشتراکی نظریات اور ثقافت‘‘، ص۶۰/۶۱
۱۲۔    طاہر شبیر ، ڈاکٹر ، ’’انقلاب کی دہلیز تک‘‘ ، ص۳۳
۱۳۔    لینن ،’’اشتراکی نظریات اور ثقافت‘‘، ص ۷۰
۱۴۔    علی احمد فاطمی ، پروفیسر ، ’’کامر یڈ منٹو‘‘لاہور فکشن ہاؤس، ۲۰۱۴ء، ص۱۰۳
۱۵۔    قتیلؔ شفائی ، ’’صنم‘‘لاہور، الحمد پبلی کیشنز ،۱۹۹۵ء، ص۱۹
۱۶۔    القرآن الحکیم ،’’سورۃ صف ‘‘آیت نمبر (۸)
۱۷۔    سبط حسن، ’’سخن درسخن ‘‘، لاہور، حوری نوری مکتبہ دانیال ، ۲۰۰۹ء، ص۱۳
۱۸۔    احمد فرازؔ،ـ’’ غزل بہانہ کروں‘‘ کراچی ، دوست پبلی کیشنز ، ۲۰۱۴ء، ص ۱۴۷
۱۹۔    لینن،’’اشتراکی نظریات اور ثقافت‘‘، ص ۱۴۵
۲۰۔   احمد فرازؔ، ’’اے عشق جنوں پیشہ‘‘لاہور، دوست پبلی کیشنز ، ۲۰۱۰ء،ص ۱۶۳
۲۱۔    طاہر شبیر ، ڈاکٹر ، ’’انقلاب کی دہلیز تک ‘‘،ص۱۴۶
۲۲۔   فیض احمد فیضؔ ، ’’نسخہ ہائے وفا‘‘لاہور، مکتبہ ء کارواں ، س ن ، ص ۳۲۹
۲۳۔   القرآن الحکیم ،’’سورۃزخرف‘‘آیت نمبر ۳۲
۲۴۔   محمد تقی عثمانی ، مولانا، ’’ہمارا معاشی نظام ‘‘کراچی ، مکتبہ ء دارالعلوم کراچی ، ۱۴۲۳ھ، ص۷۳
۲۵۔   قتیلؔ شفائی ،’’گفتگو‘‘ ،لاہور، احمد پبلی کیشنز ، ۲۰۰۰ ء ،ص ۷۲
۲۶۔    احمد ندیم قاسم ، ’’شعلہ گل ‘‘لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ، ۲۰۱۲ء ،ص ۱۸۴
۲۷۔   اسعد گیلانی سید ، ’’اسلام اور سوشلزم‘‘، لاہور ، ادارہ ترجمان القرآن ، ۱۹۹۶، ص ۱۴۷
۲۸۔   حسین خان ، ’’سوشلزم اور معاشی ترقی‘‘( مرتبہ ): سعد بن اسعد ، لاہور، ادارہ ترجمان القرآن ، ۱۹۹۶ء ، ص ۶۳
۲۹۔    فتح محمد ملک ، ’’فیض شاعری اور سیاست‘‘، لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز ، ۲۰۰۸ء ، ص ۴۷
۳۰۔   احمد فرازؔ، ’’جاناں جاناں‘‘اسلام آباد ، دوست پبلی کیشنز ، ۲۰۱۵ء ، ص ۱۲۳
۳۱۔    حسین خان ، ’’سوشلزم او ر معاشی ترقی‘‘،ص ۶۳
۳۲۔   سبط حسن ، ’’سخن در سخن ‘‘،ص ۱۷
۳۳۔   سبط حسن ، ’’سخن در سخن ‘‘،ص ۴۷
۳۴۔   فتح محمد ملک ، ’’فیض شاعری اور سیاست‘‘،ص ۴۷
۳۵۔   سبط حسن ، ’’سخن در سخن ‘‘ ،ص ۸۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com