مثنوی گنج الا سرار کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ


عامر اقبال ۔ ریسرچ اسکالر ،  پی۔ایچ ۔ڈی (شعبہ اردو ) وفاقی اردو یونیورسٹی  آف آرٹس ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، اسلام آباد
ڈاکٹر محمد وسیم انجم ۔ اسسٹنٹ پروفیسر ، چیئرمین شعبہ اردو ،وفاقی اردو یونیورسٹی  آف آرٹس ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، اسلام آباد

ABSTRACT
Masnavi Ganj-ul-Asrar is a literary master piece work of Sufiism. It is classical contribution of famous Sufi poet Haji Muhammad well known as Hazrat Nosho Ganj Bakhsh Rehmat ullah Alaih. This Musnavi was available in the form of hand-written manuscripts. It was edited in hand-written form by Syed Sharif Ahmad Sharaft Noshahi. Its major topics are Allah's Marifat, Rove for the prophet Sallallah-o-Alehe Wa Aalehi Wasallum and preaching of Sirate Mustaqeem. It includes multiple term from Arabic, Persian, and Hindi languages in tis Urdu poetical material. Semantically, it is also well constructed and well designed. Thus Masnavi is masterpiece of Urdu Sufi literature both is matter and manner. This Masnavi "Ganjul Asrar" is a great contribution towards Urdu literature in the historical and linguistic context.
Key Words:   Masnavi Ganj-ul-Asrar, classical contribution, hand-written form, preaching of Sirate Mustaqeem, poetical material, Semantically, well-constructed, well designed, Sufi,
برصغیر میں مسلمانوں کی  حکومت کم و بیش ایک ہزار سال تک قائم رہی اس دوران ہندوؤں نے اسلامی ثقافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن صوفیائے کرام کی مسلسل تبلیغی کاوشوں کی بدولت وہ کبھی کامیاب نہ ہو سکے۔ ہر دور میں صوفیائے کرام کا ہاتھ ہمیشہ ملت کی نبض پر رہا ،مادیت کے سیلاب کو روکنے اور ذہنی انتشار کو ختم کرنے کا جو عظیم الشان فریضہ اس جماعت نے سرا نجام دیا تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ یہ انہیں بزرگان دین اور اولیا کرام کی مخلصانہ کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ برصغیر میں مقیم غیر مسلموں کی ایک بہت بڑی تعداد جو ق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مولوی عبدالحق اپنی تصنیف "اردو کی ابتدائی نشوو نما میں صوفیائے کرام کا کام " میں رقم طراز ہیں:
"مسلمان درویش ہندوستان میں پر خطر اور دشوار گزار راستوں ،سر بفلک پہاڑوں اور لق و دق بیابانوں کو طے کر کے ایسے مقامات پر پہنچے جہاں کوئی اسلام اور مسلمان کے نام سےبھی واقف نہ تھااور ہر چیز اجنبی  اور ہر بات ان کی طبیعت کے مخالف تھی ۔ جہاں کی آب و ہوا ،رسم و رواج ، صورت و شکل ، اداب و اطوار لباس ، بات چیت غرض ہر چیز ایسی تھی کہ ان کو اہلِ ملک سے اور اہل ِملک کو ان سے وحشت ہو  لیکن حال یہ ہے کہ انہیں مرے صد ہا سال گزر چکے ہیں ۔لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بندگان خدا صبح و شام ان کے آستانوں پر پیشانیاں رگڑتے ہیں اور جن جن مقامات پر ان کے قدم پڑے تھے وہ اب تک "شریف" اور "مقدس" کے نام سے یاد کیے جا تے ہیں۔ یہ کیا بات تھی ؟ بات یہ تھی کہ ان کے پاس دلوں کو کھینچنے کا وہ سامان تھا جو نہ امراو سلاطین کے پاس ہے اور نہ علما و حکما کے پاس"(۱)
اولیائے کرام کے تذکرے اور حالات و واقعات مخلوق خدا کی نجات کے لیے رہبر و راہنما ہیں ان برگزیدہ ہستیوں نے سب سے پہلے اپنی زندگیوں کو اسوۂ حسنہ ﷺ کے مطابق ڈھالا اور پھر مخلوق خدا کے سامنے خود کو بطور نمونہ پیش کیا۔ خدا کے ان مخلص بندوں کی ساری زندگی اسلامی تعلیمات کی سچی اور حقیقی تصویر تھی۔ تاریخ کے اوراق کی اگر ورق گردانی کی جائے تو  یہ حقیقت منضۂ شہود پر آشکار ہو تی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی اشاعت اولیا ئےکرام اور بزرگان دین کی کاوشوں سے ممکن ہو ئی ہے ۔ ان برگزیدہ ہستیوں کی فہرست میں شامل ایک نام بانی ٔ سلسلہ نو شاہیہ  حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے ۔ اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد اپنی تصنیف "حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"برصغیر پاک و ہند میں دین متین کی ترویج و اشاعت کے ذریعے رشد و ہدایت اور علم و فن کے چراغ روشن کرنے میں پنجاب کے جن اولیائے عظام نے اہم کردار ادا کیا ان میں قطب الا قطاب ، امام العارفین بانی سلسلہ نوشاہیہ حضرت حاجی محمد قادری معروف بہ نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا اسم گرامی کسی تعارف کا محتاج نہیں۔آپ کی تبلیغی کوششوں اور کارناموں کا اعتراف نہ صرف ہمارے ہاں کے صاحبان ِعلم و فضل کرتے آئے ہیں بلکہ مستشرقین کو بھی واضح الفاظ میں اس کا اعتراف رہا ہے ۔ آپ جہانِ تصوف کے روشن آفتاب تسلیم کیے جاتے ہیں، صدیوں سے جاری آپ کے فیضان و کرم سے مستفیض ہونے والے نظر و مستی کے حامل نوشاہی درویش پوری دنیا میں پھیلے ہو ئے ہیں۔ جو آج بھی دلوں میں اور ذہنوں کی کایا پلٹنے میں ید ِ طولیٰ رکھتے ہیں"۔ (۲)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سولہویں صدی کے وسط میں منڈی بہاؤالدین کی تحصیل پھالیہ کے نواحی گاؤں موضع گھوگانوالی میں حاجی علاؤالدین کے ہاں پیدا ہو ئے ابتدائی دینی تعلیم تحصیل پھالیہ کے نواحی موضع جاگو تارڑاں میں واقع درس حافظ قائم الدین سے حاصل کی ۔آپ ؒ کی عظمت ِ ولائیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ آپ ؒ کو مقام نوشاہت ، مقام امامت اور مقام غوثیت جیسے ارفع مقام حاصل تھے ۔ آپ ؒ ظاہر و باطن اور قول و فعل میں سنت نبوی ﷺ کے مکمل متبع تھے اور آپ ؒ    کو کئی ایک کمالات ِ ولائیت بھی حاصل تھے ۔ اس ضمن میں سید شریف احمد شرافت نوشاہی اپنی تصنیف "تذکرہ شعرائے نوشاہیہ " میں لکھتے ہیں۔
"آپ کا اسم گرامی حاجی محمد لقب نوشہ، خطابات ،گنج بخش ، مجدد اکبربھورے والا، وارث الا نبیاء  ، غالب الاولیاء تھے۔ والد  بزرگوار کا نام حاجی سید علاؤالدین حسین غازی تھا، والد ہ محترمہ کا نام حضر ت بی بی جیونی تھا جو حضر ت شیخ عبداللہ مفتی ، قصبہ رسول پور ہیلاں کی صاحبزادی تھیں ۔ آپؒ کی ولادتِ باسعادت عہدِحکومت اسلام شاہ ، (سلیم شاہ ) ولد شیر شاہ سوری ،یکم رمضان المبارک ۹۵۹ھ / ۲۱اگست ۱۵۵۲ ء کو بمقام گھوگاں  والی ضلع منڈی بہاؤالدین میں ہوئی ۔ ظاہری علوم کی تحصیل مولانا حافظ قائم الدین اور مولانا حافظ بڈھا قاری سے بمقام جاگو تارڑاں کے درس میں کی ۔ چند ماہ میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ علم معقول اور منقول سے فارغ التحصیل ہوئے۔"  (۳)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ نے ابتدائی دینی تعلیم اور قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد فقہ ، نحو، حدیث، فلسفہ ، منطق ، ادب کلام ، معانی تفسیر اور دیگر فنون میں بھی مہارت حاصل کی تھی ۔ آپ نے نہ صرف سترھویں صدی میں رشد و ہدایت کی شمع سے برصغیر پاک و ہند میں میں اجالا کیا بلکہ آپ  اپنے دور کے اردو پنجابی ، فارسی کے عظیم شاعر اور پنجابی زبان کے پہلے نثر نگار بھی تھے۔ اس ضمن میں سید شفیق الرحمن نوشاہی  اپنی تصنیف "نقوش ظفر" میں رقم طراز  ہیں:
"حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کو بہت سے علوم وفنون پر دسترس حاصل تھی۔ مثلاً علوم قران ، علم کتب سماویہ ، علم حدیث ، علم فقہ ، مسلم تصوف ، علم توحید ، علم دعوت اسماء ، علم عملیات ، علم ادوایہ ، اور علم بزاۃ و غیرہ جبکہ فنون میں نیرنجیات ، فن تجارت ، فن روشنائی ، فن کتابت فن زر نگاری ، فن پہلوانی ، فن شہسواری ، فن حرب ، فن شمشیر زنی  اور فن تیر اندازی میں آپ کو دسترس حاصل تھی (۴)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ   تمام عمر تبلیغ اسلام میں مصروف رہے ۔آپ کی روحانی توجیہات اور عملی اقدامات سے لاکھوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔دینی و تبلیغی خدمات کے ساتھ ساتھ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ علمی و ادبی خدمات میں بھی اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ آپ فارسی ، ہندی ، اردو اور پنجابی کے مایہ نا ز شاعر ہیں لیکن آپ کے علمی و ادبی کارناموں کا ذکر بہت کم ملتا ہے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں آپ کا مزار واقع ہے وہاں مزار اور اس سے ملحق آبادی بار ہا سیلاب کی لپیٹ میں آتے رہے اور مخطوطات کی صورت میں محفوظ ہونے والا علمی و ادبی خزانہ سیلاب کی نظر ہو کر ضائع ہوتا چلا گیا۔ لیکن اس کے باوجود آپ کے علمی و روحانی سرمائے کی گواہی ان عارفانہ اشعار اور مقولوں سے ملتی رہی جو سلسلہ نوشاہیہ سے وابستہ درویشوں کے سینہ بہ سینہ چلےآرہے ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر محمد اصغر یزدانی اپنی کتاب "سلسہ نوشاہیہ کی ادبی تاریخ " میں لکھتے ہیں۔
"سلسلہ نوشاہیہ کے مورث اعلیٰ شیخ الا سلام حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری نے اکبری الحاد کے ظلمت انگیز دور میں حق و صداقت کی قندیل فروزاں کی اور ایمان و ایقان کی پر نور شعاعوں سے لاکھوں قلوب و اذہان کو منور فرمایا ۔ سلسہ نوشاہیہ سے وابستہ مشائخ عظام نے ایک طرف اپنے عرفانی کمالات ، انسان دوستی ، اخلاق و محبت اور تربیت کردار کے ذریعے اخلاقی قدروں کو بلند کیا تو دوسری طرف تصنیف و تالیف کے ذریعے اذہان کو مجلیّٰ و مصفّٰی کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔حُبِ دنیا اور حُبِ دولت سے آزاداِن صوفیا ء کرام کی مساعی جمیلہ کے کیف آگیں اثرات سے روحانی برکات کے ساتھ ساتھ زبا ن و ادب میں بھی فروغ پایا۔ ان ارباب علم و فضل نے مختلف زبانوں میں نظم و نثر کے ایسے فن پارے تخلیق کیے کہ صدیا ں گزر جانے کے بعد وہ آج بھی اپنی جاذبیت ، خوش بیانی اور گہری معنویت کے سبب دنیائے علم و معرفت میں راہ نما کا درجہ رکھتے ہیں"(۵)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بلند فکر ، ممتاز ترین اور قادر الکلام شاعر تھے۔ آپ اردو عربی ، فارسی اور پنجابی میں اشعار کی مدد سے معرفت کی نت نئی جہتیں کھولتے تو لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر ہوتا ۔ آپ کے اشعار آپ کی سوچ کا محور ہیں۔ جس کی عمدہ مثال مثنوی گنج الا سرار ہے مثنوی گنج الا سرار اردو کی قدیم ترین مثنوی ہے ۔ قدامت اور زبان کے حوالے سے بھی یہ مثنوی بہت سی خوبیوں کی حامل ہے ۔ اس ضمن میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری اپنی کتاب "اردو ادب کی تاریخ " میں لکھتے ہیں:
"عہد مغلیہ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت نوشہ گنج بخش ؒ       (م۱۶۵۴ء ) کے نام سے نوشاہی سلسلے کے ایک صوفی شرافت نوشاہی نے مثنوی گنج الا سرار شائع کی تواس سے اردو ادب کی دنیا میں خوش گوار حیرت پیدا ہوئی اور اسے اردو ادب کی گم گشتہ کڑیوں میں ایک اہم کڑی کی دریافت قرار دیا گیا۔ ۔ گنج الا سرار کی اشاعت سے خاصا حوصلہ افزا رد عمل ظاہر ہو ا جس سے متاثر ہو کر شرافت نوشاہی نے ۱۹۷۵ء میں حضرت نوشہ گنج بخش ؒ کا شعری مجموعہ "انتخاب گنج شریف " شائع کیا ۔ اس کتاب کی اشاعت سے موصوف کو پنجاب میں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر قرار دیا گیا ۔ (۶)
حضرت نوشہ گنج بخش ؒ زبان و بیان پر عبور اور تصوف کے جملہ مسائل کی باریکیوں سے بھی بخوبی شناسا تھے ۔ جن کی بناء پر مثنوی گنج الا سرار ایک شاہکار کا روپ دھا ر گئی ۔ آپ نے مثنوی گنج الا سرار میں مذہبی مسائل بیان کرنے کے علاوہ قادری سلسلے کے صوفیا کی ریاضت کو بھی منظوم کیا ہے   جو آج بھی نوشاہی درویشوں میں مروج ہے ۔ اشعار ملاحظہ کیجیے:


"کلام خدا کی دارو کھاناں

 

جس جاناں برحق کر ماناں

جو اذکار ، افکار ، افعال

 

جو اوراد، وظائف، اعمال

جو حروف کلمات عظام

 

جو آیات اسماء کرام

جو آویں بندیوں کے کام

 

دین دنی میں ہو ویں تمام

سب قرآن مجید میں آئے

 

حق تعالیٰ نے آپ فرمائے ۔ (۸)

"لیکن سمجھ نہ گور بن آوے                  ستگور باجھ یہ سوجھ نہ پاوے
آکھے پیر جو دل پر رکھ                         خوب طرح یہ انبرت چکھ
جو تجھ کو فرماوے پیر                         اس پر چلیں تو ہو فقیر "  (۷)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی گنج الا سرار میں جہاں ذکر اور فکر کا طریقہ نظم کی صورت میں بیان کیا ہے وہاں سالک کے لیے حقیقت کی راہوں کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ مثنوی کا انداز بیاں بڑا دلکش اور دلنشین ہے۔ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مثنوی اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کی خوشنودی اور سالکان ِراہ ِحقیقت کو صراط مستقیم دکھانے کے لیے لکھی۔ مثنوی گنج الا سرار میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید اور اسمائے ربانی کی برکت اور اہمیت کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کیا ۔اشعار ملاحظہ کیجیے:
مثنوی گنج الاسرار میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کا بھی نہایت واشگاف الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ عام انسان میں اس قدر حوصلہ نہیں ہو تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک کلام اور اسمائے ربانی کی حقیقت کو پوری طرح جان سکے ۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات والا  صفات بے حدو بے حساب اور قیودو حدود سے مبرا ہے اسی طرح اس کے کلام پاک کے مفاہیم اور اس کے اسماء کےمطالب انسانی ادراک سے بلندوہ بالا ہیں۔اس کی سب سے وجہ سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عقل انسانی  مادہ پرستی اور ظاہری آنکھ سے دکھائی جانے والے چیزوں پر یقین رکھتی ہے۔ لہذاحقیقت ازلی کے ادراک کی براہِ راست متحمل نہیں ہو سکتی۔  مثنوی گنج الا سرار میں طریقت کے اصولوں کے علاوہ حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے فنی اعتبار سے بھی  اپنے کمالات کے جو ہر دکھائے ہیں۔ بعض مقامات پر اُنھوں نے خوبصورت مقامی تشبیہات کا بھی استعمال کیا ہے ۔ شعر ملاحظہ کیجیے:
جیویں کرپیر کرے تلقین
لاگ  رہے جیوں جل میں مین"  (۹)
دراوڑی زبان میں مچھلی کو مین کہا جا تا ہے ۔ پانی اور مچھلی کی اس قدر خوبصورت مثال حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر شعرا میں کہیں نظر نہیں آتی ۔ اس طرح مثنوی گنج الا سرار میں صنعتِ تجنیس کی بھی ایک عمدہ مثال ملاحظہ کیجیے :
"سر جاوے پر سِر نہ جاوے
تو یہ سر سِرکوں پاوے   (۱۰)
مثنوی گنج الا سرار کے اس شعر میں مناسب اور موزوں قوافی کے استعمال کے علاوہ روانی اور تسلسل بھی پایا جا تا ہے ۔ الفاظ کا صوتی آہنگ مثنوی کے اشعار میں ترنم اور موسیقی کی ایک فضا پیدا کر تا ہے ۔ بعض ناقدین کی جانب سے مثنوی گنج الا سرار کی زبان کو  ہندی قرار دیا گیا تھا حالانکہ یہ ہندی نہیں بلکہ مثنوی کی زبان اس دورکی اردو زبان کا بہترین نمونہ تھی جسے قدیم زمانے میں ہندوی کا نام دیا جا تا تھا ۔ پروفیسر شجا ع الدین مثنوی گنج الا سرار کی زبان کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سر زمین پاکستان و ہند پر اسلام کا نیر درخشاں طلوع ہوا تو مسلمان حاکموں ، تاجروں ، سیاحوں ، عالموں درویشوں اور مقامی باشندوں میں تبادلہ و خیالات کے لیے ایک مشترکہ زبان کی ضرورت پیش آئی ۔ یہ زبان جو ہندو پاکستان اور ترکی ، عربی ، فارسی وغیرہ بیرونی زبانوں کے امتزج سے عالم میں وجود میں آئی  اور دور اسلامیہ میں پروان چڑھی جو اردو کے نام سے موسوم ہوئی ۔ صوفیائے کرام نے اردو کی نشوو نما میں نمایاں حصہ لیا اور اسے اپنی تبلیغی مساعی کا ذریعہ بنایا ۔ پنجاب کے مشا ئخ میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مشترکہ زبان میں اظہار خیال فرمایا ۔ مثنوی گنج الا سرار اسی زبان میں ہے ۔ اس کا مطالعہ جہاں ہمیں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے صوفیانہ خیالات سے آگاہ کرتا ہے وہاں ہمیں اس دور کی اردو بھی متعارف کراتا ہے ۔ اس کی عبارت میں ہندی الفاظ ، اصطلاحات کی کثرت ہے اور یہ اصطلاحات وہی ہیں جو اس زمانہ کے ہندو مذہبی رہنماؤں جن میں سکھ گورو بھی شامل ہیں کے ہاں بھی مستعمل تھیں۔ عوام میں پرچار کے لیے ان کا استعمال نا گزیر تھا۔  ۔  (۱۱)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی گنج الا سرار میں تصوف کے موضوعات حدیث ، عالم برزخ ، ذکر حق ، فنافی الوجود ، فنافی اللہ کو پیش نظر رکھا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ ؒ کلمہ کی اہمیت اور اس کے وظیفے کا طریق کار بیان کرتے ہو ئے یہ تاکید کر تے ہیں کہ کلمہ کے جملہ اسرار و رموز مرشد کے بغیر سالک پر واضح نہیں ہو تے ۔ اسی لیے وہ مرشد کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے ۔ یہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہو تا رہتا ہے ۔ شعر ملاحظہ کیجیے:
پُر سش اس کی پیر سوں پاوے
جو لکھنے موں رسم نہ آوے  (۱۲)
حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ سالک کو تلقین کر تے ہیں کہ جب و ہ عرفان خداواندی حاصل کر لے تو پھر چپ سادھ لے اور یہ راز کسی پر ظاہر نہ کرے ۔ بے شک اس راز کی پردہ پوشی میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے  اور یہی ایک عارف باللہ کی شان ہو تی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مثنوی اللہ اور اس کے رسول حضرت   محمد ﷺ کے احکامات اور سالکان راہ حقیقت کو سیدھا راستہ کھانے کے لیے لکھی ۔ اس ضمن میں شاہد نذیر چودھری اپنے کالم بعنوان "شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی" میں لکھتے ہیں:
"حضرت سید نوشہ ؒ رسول کریم ﷺ کے نقش پا پر چلتے آپ نے اپنے ہر عمل کو محبوب خدا ﷺکے سانچے میں ڈھال رکھا تھا۔"   (۱۳)
مثنوی گنج الا سرار میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے صرف ہندی الفاظ اور اصطلاحات ہی استعمال نہیں کیں بلکہ اُنھوں نے عربی ، فارسی الفاظ اور اصطلاحات بھی بطریق احسن استعمال کی ہیں ۔  مثنوی گنج الا سرار کا کمال یہ بھی ہے کہ اس میں اس قدر ادق اور مشکل اصطلاحات کو اشعار کی لڑی میں  اس خوبصورتی سے پرویا گیا ہے کہ فنی اعتبار سے بھی کسی شعر میں جھول دکھائی نہیں دیتا۔ اگرچہ قاری ان الفاظ کے معانی اور مفاہیم نہیں سمجھتا لیکن پڑھتے ہوئے ایک عجیب قسم کا سرور ضرور محسوس  کرتا ہے  مثنوی گنج الا سرار  جہاں تصوف کی دنیا میں بہترین خزانہ ہے وہاں اس کی اہمیت اس اعتبار سے بھی مسلم ہےکہ جس دور میں یہ مثنوی لکھی گئی اس دور میں شمالی ہندوستان میں اردو ادب کا وجود بھی ایک ہیولا تھا ۔ اس لیے مثنوی گنج الا سرار لسانی اور تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔

حوالہ جات
۱۔          مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر ، اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام (علی گڑھ: انجمن ترقی اردو ہند  ،س ن )، ص ۷ ، ۸
۲۔     عصمت اللہ زاہد ، ڈاکٹر ، دیباچہ ، حضرت نوشہ گنج بخش ؒ (احوال و آثار )، مترجم ، تنویر حسین نوشاہی ، (لاہور:مقصود پرنٹرز، لاہور ، ۲۰۰۹ء) ،ص ۱۳
۳۔     شریف احمد شرافت نوشاہی ، سید ، تذکرہ شعرائے نوشاہیہ ، ترتیب و تدوین وتکمیل ، عارف نوشاہی ، ڈاکٹر ، (لاہور :اورنٹیل پبلی کیشنز ، پاکستان ، ۲۰۰۷ء)، ص ۹
۴۔     شفیق الرحمن نوشاہی ، سید ، نقوش ظفر ، (ساہنپال  شریف ، ضلع منڈی بہاؤالدین :مکتبہ بیت الحکمت نوشاہیہ ،  ۲۰۱۷ء)، ص  ۴۴
۵۔     محمد اصغر یزدانی ، ڈاکٹر ، سلسلہ نوشاہیہ کی ادبی تاریخ( راوالپنڈی: الفتح پبلی کیشنز ،  ۲۰۱۲ء)، ص ۷
۶۔     تبسم کاشمیری ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تاریخ(لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ،۲۰۰۹ء) ،ص ۴۱، ۴۲
۷۔         حضرت نوشہ گنج بخش، گنج الا سرار ، مرتب ، شرافت نوشاہی ( ساہنپال ، گجرات : کتب خانہ ، شرافت نوشاہی ، ۱۹۶۴ء)، ص ۴۰
۸۔     گوہر نوشاہی، ڈاکٹر ، مضمون، گنج الا سرار اردو کی ایک قدیم مثنوی ، مشمولہ ، سہ ماہی مجلہ ، صحیفہ ، مدیر ، سید عابد علی عابد ، شمارہ ۳۵،(لاہور : مجلس ترقی ادب       ، ۱۹۶۶)، ص ۴۷
۹۔     حضرت نوشہ گنج بخش، گنج الا سرار ، مرتب ، شرافت نوشاہی ( ساہنپال ، گجرات : کتب خانہ ، شرافت نوشاہی ، ۱۹۶۴ء)، ص ۳۸
۱۰۔        حضرت نوشہ گنج بخش، گنج الا سرار ، مرتب ، شرافت نوشاہی ( ساہنپال ، گجرات : کتب خانہ ، شرافت نوشاہی ، ۱۹۶۴ء)، ص ۳۸
۱۱۔     شجاع الدین ، پروفیسر، دیپاچہ ، گنج الا سرار ، مرتب ، شرافت نوشاہی  ( ساہنپال ، گجرات : کتب خانہ ، شرافت نوشاہی ، ۱۹۶۴ء)،ص ۶
۱۲۔    حضرت نوشہ گنج بخش، گنج الا سرار ، مرتب ، شرافت نوشاہی ( ساہنپال ، گجرات : کتب خانہ ، شرافت نوشاہی ، ۱۹۶۴ء)، ص ۳۲
۱۳۔    شاہد نذیر چودھری، شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی ، کالم(لاہور :  روزنامہ پاکستان شمارہ ، ۵ جولائی  ۲۰۱۷ء)، ص۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com