قاسم حسرت بطور قطعہ نگار


ڈاکٹر بسمینہ سراج۔  صدرِ شعبہ اُردو شہید بےنظیر بھٹو خواتین یونیورسٹی پشاور
ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام  ۔ صدرِ شعبہ اردو             دی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ،بہاولنگر کیمپس

ABSTRACT
Qasim Hasrat was born at Peshawar, the capital of Khyber Pakhtunkhwa. He joined print media at an early age and started working as helper in a Daily Newspaper Office. Due to his inborn natural talent and literary potentials he developed into a great journalist and print media personality. He was blessed with great poetic and literary aesthetic sense and started poetry at a very early age as a young lad.
کلیدی الفاظ: تندی و جذباتیت ، طبقاتی کشمکش ، سرمایہ کی جنگ ، ایڈیٹوریل ، حالاتِ حاضرہ، ناہمواریوں ، رجعت پسندی ، شگفتہ طنز ، اجارہداری ، استحصالی قوتیں ، زوال پزیری
قومی دولت کو لوٹنے والو                     
چور کتنے ہیں کتنے ڈاکو ہیں                   
پہلے سنتے تھے ایک تھا حسرت               
اب مگر سینکڑوں ہلاکو ہیں                  
قاسم حسرت کی پیدائش ۱۳ اپریل ۱۹۳۸ء ؁ کو گلاب خانہ نزد جنگی محلہ پشاور شہر میں ہوئی۔ قاسم کی والدہ کا تعلق باجوڑ کے پشتون فارسی بولتے تھے۔ گیارہ سال کی عمر میں قاسم حسرت کے والد کا انتقال ہوا۔والد کی وفات کے بعد قاسم اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور نہایت کم عمری میں کام کاج شروع کر دیا۔ انہوں نے پریس میں بطور معاون کام شروع کر دیا آہستہ آہستہ اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت ترقی کرتے کرتے فورمین کے عہدے پر فائز ہوئے۔ قاسم حسرت کو اللہ تعا لیٰ نے خداداد قابلیت سے نوازا تھا۔ صبح سے شام تک پریس میں مشینوں کے آگے کھڑے ہو کر کام کرنا اور رات کو مطالعہ کرنا۔ وہ پرائمری سے آگے نہ پڑھ سکے اس کی وجہ ان کی تنگدستی اور غربت تھی لیکن ان کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا اس لئے باقاعدگی سے مطالعہ کی عادت اپنائی۔ان کا خط بڑا خراب تھا ، دوسرے ان کا لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے تھے۔ قاسم نے اس نقص کو دور کرنے کے لئے کچھ عرصہ اخبار کے خوش نویس دوستوں سے خوش نویسی سیکھنے کی کوشش کی لیکن وقت کی کمی اور معاشی حالات کی وجہ سے اس سلسلے کو زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکے۔
قاسم حسرت بہ یک وقت کئی زبانوں میں شعر لکھنے کی قدرت رکھتے تھے۔ وہ اردو، ہندکو اور پشتو میں شعر لکھتے تھے۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ کلام’’ بولتے پتھر‘‘ ۱۹۶۹ء ؁ میں ادارہ تخلیق نو گھنٹہ گھر پشاور سے شائع ہوا جس کا فلیپ مشہور شاعر احمدندیم قاسمی نے لکھا اور تعارف مسعود انور شفقی نے لکھا۔دوسرا شعری مجموعہ’’ پتھراؤ‘‘ تیار تھا لیکن مالی مشکلات اور بیماری کے باعث تا حال شا ئع نہ ہو سکا۔ قاسم حسرت ایک دردمند دل رکھنے والے، حساس اور ہمدرد انسان ہیں۔ دوستوں کی پریشانیوں پر ان سے بڑھ کر پریشان ہوتے ہیں۔ فارغ بخاری ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’قاسم حسرت ایک محنت کش نوجوان ہے۔ غمِ دوراں اور غمِ جاناں نے اس کی جوانی کی ہر خوشی چھین لی اور محض زندہ رہنے کے لئے بھی اسے بڑے جتن کرنے پڑے۔ اس لئے اس کے کلام میں تلخی، تندی و جذباتیت پائی جاتی ہے اور محنت و سرمایہ کی جنگ اور طبقاتی کشمکش کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں جن کا اسے عملی طور پر تجربہ ہوا ہے‘‘ (۱)
قاسم حسرت سیاسی شعور رکھنے والے اور جمہوریت کے علم بردار تھے جمہوریت کے حق میں آمریت کے خلاف ہیں اس کا منہ بولتا ثبوت ان کے وہ اخباری قطعات ہیں جو ایک عرصہ تک روزنامہ مشرق میں چھپتے رہے اور عوام سے قبولیت اور پسندیدگی کی سند حاصل کرتے رہے۔
مشرق کے لیے قطعات لکھنے کا موقعہ انہیں اس طرح ملا کہ مشرق کے ایڈیٹوریل کے صفحے پر پنجاب کے شعرا کے قطعات چھپتے تھے ۔ پھر آہستہ آہستہ شعور پیدا ہوا کہ قطعات بھی سرحد کے شعرا کے چھپنے چاہیے۔ اول تو مسعود انور شفقی صاحب جو مشرق کے ایڈیٹر تھے نے خود علامہ پاکٹ مار کے نام سے قطعات لکھنے شروع کیے۔ ان کے بعد عبد الواحد یوسفی مشرق کے ایڈیٹر بنے۔ ساتھ مشرق کا دفتر شعبہ بازار سے بلال ٹاؤن منتقل ہوا تو اخبار کا ایڈیٹوریل صفحہ پشاور میں ہی چھپنا شروع ہوا۔ یونس قیاسی کو ایڈیٹوریل کا انچارج بنا دیا گیا۔ تو انہوں نے قاسم حسرت کی خدمات قطعہ نگاری کے لیے حاصل کیں ۔ اور پھر ایک عرصہ تک حسرت حالاتِ حاضرہ کے مطابق قطعات لکھتے رہے پھر جب مشر ق کی نجکاری ہوئی تو حسرت مشرق سے الگ ہو گئے۔۔اس حوالے سے حسرت کہتے ہیں:
کچھ برس پہلے محبت تھی یہاں
اب مگر نفرت کہاں سے آگئی
زہر ہے ملت میں فرقوں کا وجود 
یہ برُی خصلت کہاں سے آگئی 

قطعہ کی فنی خوبی یہ ہے کہ شاعر اپنے جذبات کا اظہار فوری طور پر اختصار کے ساتھ کر دینے پر قادر ہوتا ہے۔ قاسم حسرت کے قطعات پر بات کرنے سے پہلے قطعہ کے فن پر بحث کرنا ضروری ہے۔
قطعہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ٹکڑے کے ہیں ۔کشاف تنقیدی اصطلاحات کے مطابق ’’ قطعہ کے لٖغوی معنی ٹکڑے کے ہیں اور اصطلاحی معنوں میں یہ ایک صنف شعر ہے جس میں قوافی کی ترتیب قصیدے یا غزل کے مطابق ہوتی ہے ۔یعنی تمام اشعار کے مصرعہ ہائے ثانی ہم قافیہ ہوتے ہیں لیکن غزل اور قصیدے کے برعکس قطعہ میں مطلع نہیں ہوتا اور مقطع ضروری نہیں ہوتا قطعہ کے لئے کم سے کم دو شعروں کا ہونا ضروری ہے ۔زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں ۔ ‘‘(۲) 
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی قطعہ کے بارے میں لکھتے ہیں ’’اصطلاح میں اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی خیال یا واقعہ مسلسل بیان کیا گیا ہو ۔قطعے میں مطلع کی موجودگی ضروری نہیں ۔قطعے میں ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں قافیہ کی پابندی لازمی ہے ۔گویا قطعے کی ہیت قصیدےکی ہوتی ہے ۔مگر قطعے میں مطلع نہیں ہوتا ۔قطعہ ہر بحر میں کہا جا سکتا ہے قطعہ کم ا ز کم دو شعروں کا ہوتا ہے ۔زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں ‘‘ (۳) 
اُردو شاعری کی تاریخ میں قطعہ نگاری تو ابتدا ہی سے جاری ہے لیکن بیسویں صدی کے نصف میں اس صنف ادب نے خاصی ترقی کر لی ہے اور اب تک اکثر شعرا کے باقاعدہ قطعات کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔چونکہ قطعہ کے لئے موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی اس لئے شاعر کے پاس اظہار کی آزادی کا حق ہوتا ہے اس لئے قطعہ نگار واقعات،خیالات،نظریات،احساسات،اورجذبات کو بیان کرسکتا ہے بہت سے شعرا نے سیاسی ، طنزیہ اور مزاحیہ قطعات بھی کہے ہیں۔
پہلے تو مفلسی کا بڑا شور تھا سُنا                   
پھر یہ ہوا کہ خیر سے خوشحال ہوگئے            
شاعر نہ بن سکے وہ کسی انگ سے مگر               
مشہور یہ ہوا کہ وہ قوال ہو گئے                  
ہر شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے وہ جب اپنے عہد کی ناہموا ریوں کو دیکھتا ہے تو اس کا اثر قبول کرتا ہے اور پھر مختلف ذرائع سے طنزیہ و مزاحیہ پیرائے میں وہ معاشی ناہمواریاں جو اُن کے معاشرے سے جونک بن کر چمٹی ہوتی ہیں بیان کرتا ہے ۔معاشرتی ناہمواریوں اور سماجی لُوٹ گھسوٹ کو روا رکھنے والے نام نہاد لیڈروں کو جو رہبری کا لبادہ اوڑھ کر آزادی کا فریب دیکر عوام کا استحصال کرتے ہیں قاسم حسرت انہیں اس طرح آئینہ دکھاتے ہیں۔
کسی طرح بھی سیاست نہیں میر ا پیشہ    
متاعِ زر کا یہ تحفہ وصول کر لوں گا       
میں اقتدار کا بھوکا نہیں کسی صورت
اگر عوام نے بخشا قبول کر لوں گا        

قاسم کے ہاں گہرے طنز کے بجائے شگفتہ طنز کا استعمال زیادہ ہے ۔جس میں بزلہ سنجی کی گھلاوٹ سے خوشی طبعی،حاضر جوابی، شیریں بیانی اور لطافت کے ہتھیاروں سے طنز کی تلخی اور زہرناکی کو خند ہ آور بنا کر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ برجموہن دتاتریہ کیفی کے بقول ’’مزاح و ظرافت میں حوش طبعی کے ساتھ ذہنی چاشنی اور جودت طبع بھی ضروری ہے ۔اس کا نشانہ حاضرین میں سے کوئی بھی نہ ہو تو اس کو سن کردماغوں میں تازگی آجاتی ہے اور لوگ بلا جھجک ہنس پڑتے ہیں (۴) 
آزادی و جمہوریت کے نام پر جس طرح پاکستان کے مخصوص طبقے کے چند خاندانوں نے اپنی اجارہ داری قائم کر کے ناجائز مفاداُٹھایا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی اُن کے بارے میں قاسم حسرت لکھتے ہیں ۔
بینک سے قرضے لئے اور کھا گئے                  
لیڈری کرتے ہیں پھر بھی شان سے              
صرف الزامات پر زند ہ ہیں جو                           
بھاگ جائیں گے وہ پاکستان سے                  
قاسم حسرت کی شاعری پر اُس کے ذاتی حالات کا اثر نمایاں ہے ۔وہ جس طبقے میں رہے اُس کے حقیقی مسائل سے اچھی طرح باخبر تھے۔ سماج کے بنیادی اور معاشی و معاشرتی مسائل کو زیرِ غور لانا طبقاتی سماج کے کرب کو سامنے لانے کے لئے ضروری ہے ۔کیونکہ شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے ۔معاشرے میں شاعر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ وہ جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے وہ اپنی ذات کو ماحول سے الگ نہیں کر سکتا ۔بقول رشید احمد صدیقی
’’ حقیقت تلخ ہوتی ہے ۔اس تلخی کو ایسے ا لفاظ میں بیان کرنا کہ اس شخص یا معاشرے کو کم سے کم نقصان کے ساتھ غیر شعوری طور پر اصلاح احوال ہو جائے کہ جس پر طنز کا وار کیا گیا ہو حقیقی طنز ہے (۵)
قاسم کے سامنے طنز ومنزاح کی افادیت یہ نہ تھی کہ کسی کی ذات کو نشانہ تمسخر بنایا جائے یا کسی قومی ادارے کی خواہ مخواہ تضحیک کی جائے اور اپنی انا کی تسکین کی جائے بلکہ ان کے مزاح میں اصلاح اور طنز میں ہمدردی کا عنصر پوشیدہ رہتا جیسے کہ غریبی میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہوتا ہے ۔
فلسفہ ہے نہ یہ کوئی قصہ                  
بات جو کچھ بھی ہے زبانی ہے                  
صرف ارزاں ہے زندگی اپنی                  
اور ہر چیز پر گرانی ہے                  

اردو شاعری میں نظیر اکبر آبادی سے لے کر موجودہ عہد تک روٹی ہر دور میں اور ہر معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت رہی ہے ۔اس کی مانگ میں اُس وقت اضافہ ہوتا ہے جب صرف چند افراد معاشرے کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں اور معاشی استحصال کی وجہ سے معاشرے کے امیروغریب کے دو واضح خانوں میں تقسیم ہو کر ایک طرف حکمرانوں کی تجوریاں پیسوں اور گودام غلے سے بھرے رہتے ہیں اور دوسری طرف غریب کے گھر میں آٹا نہ ہونے کی وجہ سے چولہے ٹھنڈے رہتے ہیں جب اس طرح کی صورت حال ہو تو پھر انسان اپنی بھوک مٹانے کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کرتا ہے۔
بے مہر پر کلام کا ہوتا نہیں اثر                  
روٹھا ہوا نصیب مناوں میں کس طرح             
لکھتا ہوں روز روز کہ آٹا ہوا گراں             
سوئے ہوؤں کو اور جگاؤں میں کس طرح         
جب معاشرے میں رجعت پسندی،زوال پزیری،اعلی اخلاقی قدروں کی پامالی اورسماجی استحصالی قوتیں ملک و قوم کو گہرے غار میں دھکیلنے پر تُلی ہوں تو ایسی ابتر و انتشار کی کیفیت میں ایک طنز نگار ہی معاشرے کے توازن کو واپس لا سکتا ہے ۔شاعر اپنی شاعری میں لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد محسوس کرتے اور ایک عظیم تخلیق کار کسی عہد یا خطے تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کی تخلیق میں پوری کائنات کے مسائل موجود ہوتے ہیں 
مسکرانے کا نہیں کوئی جواز                   
اس قدر رونے کی عادت ہو گئی                  
مانگ کر کھانا پڑے گا آج کل                  
آہ جو آٹے کی قیمت ہو گئی                  

ہمارے اردو ادب میں ایسے بے شمار ادبا اور شعرا ہیں جنہوں نے اپنی محبت ،ہنر اور فن سے ادب میں جدت پیدا کی اور اپنی فنی صلاحیتوں اور ادبی کارناموں کے باوجود اپنا صحیح مقام نہ پاسکے۔قاسم حسرت بھی زندگی بھر اپنا صحیح مقام نہ پاسکے کیونکہ ان کو خوشامد سے نفرت تھی اور چاپلوسی ان کو آتی نہیں تھی گروپ بندی کے وہ قائل نہ تھے اور رہی سہی کسر غربت نے نکال دی ۔ قاسم کی شاعری میں ظرافت کی چاشنی بھی موجود ہے۔
’’ ظرافت ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے جس سے تمام پژمردہ دل باغ باغ ہو جاتے ہیں اور تھوڑی دیر کیلئے غم غلط ہو جاتے ہیں اس سے جودت اور ذہن کو تیزی ہوتی ہے(۶) 
قاسم کی شاعری میں مقامی رنگ نمایاں ہے ۔ پشاور شہر کے مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو پھر اپنے قلم کی طاقت سے ان مسائل کو حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔پشاور کے سب سے بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ کی ز بوں حا لی پر اس طرح طنز کرتے ہیں ۔
خرچ اس پر ہوئے ہیں اربوں تک    
پھر بھی ناگفتہ اس کی حالت ہے        
موت ہے ہر قدم یہاں موجود        
زندگی کی طلب حماقت ہے                  
قاسم کے قطعات کا اسلوب اس بات کا شاہد ہے کہ ان کے ہاں رفعت خیال ،لطافت بیان اور مشاہدے کا عنصر نمایاں ہے۔وہ فلسفیانہ مسائل کو بھی سادگی اور روانی سے بیان کر جاتے ہیں۔اور زندگی کے گھمبیر مسائل کواسی روانی سے زیر بحث لاتے ہیں۔ ان کے قطعات ان کی دیگر شاعری پر حاوی نظر آتے ہیں اور فنی نقطہ نگاہ سے بھی وہ ایک کامیاب قطعہ نگار ہیں ۔ حالاں کہ
’’نہ تو انھیں کسی سے شرف تلمذ حاصل ہے اور نہ ہی وہ روایتی استادی شاگردی کے قائل تھے بلکہ انھوں نے جو کچھ کہا ہے وہ محض ذوق صیحح اور وجدان سلیم کی رہبری و رہنمائی میں کہا‘‘(۷) ِ ِ
پشاور کے مسائل کوقاسم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو دوسروں کی طرح آنکھیں بند نہیں کرتے بلکہ اپنے قلم کی آنکھ سے یہ مسائل تمام لوگوں کو کچھ اس طرح دکھاتے ہیں۔
آپ ہتھ ریڑھیاں جلا ڈالیں        
یا کریں اب وصول جرمانہ        
شاہی کٹھے کا پل تو ویسا ہے        
بلمقابل ہے کابلی تھانہ        

قاسم حسرت کو علمِ عروض پر بڑی دسترس حاصل تھی۔اگر کوئی شاعر بے وزن  شعر پڑھتا تو فوراً پکڑ لیتے۔ اکثر شاعر کوشش کرتے ہیں کہ علمِ عروض پر دسترس حاصل کر لیں لیکن پھر بھی وہ اس علم پر عبور حاصل نہیں کر پاتے جب کہ خداداد صلاحیت والے شاعر کو اللہ کی طرف سے یہ عطیہ حاصل ہوتا ہے۔ یونس قیاسی صاحب قاسم حسرت کے بارے میں کہتے ہیں
’’ میرا اور قاسم حسرت کا ساتھ ۴۰ سال سے زیادہ کا ہے۔ قاسم کی شاعری بڑی rich ہے میں اکثر قاسم سے اپنی شاعری کے بارے میں مشورے لیتا ہوں جب کوئی شعر وزن و بحر میں نہ ہو تو اصلاح کر دیتے ہیں اور میں اس بات میں فخر محسوس کرتا ہوں قاسم حسرت تنقید کرکے میں بہت ماہر ہیں اور اس کی وجہ تعلیم نہیں بلکہ بڑے شعرا و ادبا کی محفلوں میں شرکت ہے۔‘‘ (۸)
گھر کا ہر اک کام اب کرنا پڑا        
کون سنتا ہے ہماری داستاں                   
پہلے شوہر تھے بہت ظالم مگر                   
اب ستم ڈھاتی ہیں ان پر بیویاں        
جہاں تک قاسم کے قطعات کے موضوعات کا تعلق ہے وہ قیامِ پاکستان کے بعد کے سماجی و سیاسی حالات و واقعات ہیں ۔ اس دور کے حوالے سے اتنی مقدار میں اتنے معیاری اصلاحی و ادبی قطعات پیش کر کے میدانِ قطعہ نگاری میں انھوں نے اپنی اہمیت کو منوایا ۔  وہ خوب صورت الفاظ و محاورات و ضرب الامثال سے قطعات میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں جس میں ان کے جذبوں کا خلوص بھی شامل ہوتا ہے اور بات دل سے نکلتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے۔(۹)
گھی ہوا مہنگا تو یہ صورت ہوئی                  
خشک ہونٹوں پہ تری آتی نہیں        
اور جب سے ہو گئی چینی گراں                  
شاعری میں چاشنی آتی نہیں                   
معاشرے میں پائی جانے والی سیاسی وتہذیبی ناہمواریوں اور بد اعتدالیوں سے پیدا ہونے والی مضحک صورتوں نے انھیں براہ راست تنقید کی بجائے ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرنے کی ر اہ پر ڈال دیا ۔انھوں نے معاشرے میں پائی جانے خرابیوں کو گہری نظر سے دیکھا اور ان کو اپنے قطعات کا موضوع بنایا ۔عوام کے مسائل، پشاور کے مسائل اور پاکستان کے مسائل اور ان کے حل کے لئے قطعات لکھتے رہے اور مسائل کو اجاگر کرتے اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے رہے۔ان کی جولانی طبع نے ان کی شاعرانہ فکر کو محدود نہیں ہونے دیا بلکہ لا محدود وسعتوں سے ہمکنار کیا ۔


حوالہ جات
۱)       فارغ بخاری۔ دیباچہ بولتے پتھر۔ مجموعہ کلام قاسم حسرت۔ تخلیق نو گھنٹہ گھر پشاور۔ ۱۹۶۹ء
۲)     ابو الا عجاز حفیظ صدیقی۔کشاف تنقیدی اصطلاحات ۔ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد طبع اول ۱۹۸۵ ص۹۵
۳)      رفیع الدین ہاشمی۔ اصنافِ ادب۔ سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور۔س ن  ص ۸۵
۴)      برجوہن دتاتریہ کیفی۔کیفہ ،دہلی پبلشنگ ہاوس نئی دہلی ۱۹۵۰۔ص۹۵
۵)     رشید احمد صدیقی ،مضمون اُردو میں طنز و مزاح مشمولہ، تاریخ تنقید طنز و نزاح ۔سنگ میل پبلی کیشبز ،لاہور۔۱۹۸۵۔ص۱۱۰
۶)      اسماعیل پانی پتی  شیخ مرتب ۔ کلیات نثر حالی ،حصہ اول ۔ مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۶۷۔ ص۱۲۹ 
۷)      انٹرویو قاسم حسرت۔ مورخہ ۴ اپریل ۲۰۰۹ء دن ۳۰۔۱۱ بجے
۸)      انٹرویو یونس قیاسی۔ مورخہ ۱۸ اپریل ۲۰۰۹ء دن ۱۰ بجے

۹)           انٹرویو قاسم حسرت۔ مورخہ ۴ اپریل ۲۰۰۹ء دن ۳۰۔۱۱ بجے
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com