پروین شاکر کی شاعری میں نسائی جذبات کی محاکات نگاری


ڈاکٹرانتل ضیاءلیکچرار جامعۂ شہید بینظیر بھٹو برائے خواتین پشاور

ABSTRACT
Parveen Shakir is the known famous Urdu female poet. She is considered one of the best and "most prominent" modern poets, Urdu language has ever produced. She is considered among the breed of writers regarded as pioneers in defying tradition by expressing the "female experience" in Urdu poetry. She can be termed the first female poet to use the word larki (girl) in her creations. Parveen Shakir was famous for her both two forms of poetry in Urdu, one being the Ghazal and the other Free Verse (Nazam). The most prominent themes in Parveen Shakir's poetry are love, feminism, and social stigmas, though she occasionally wrote on other topics as well. Her poetry was often based on romanticism, exploring the concepts of love, beauty and their contradictions, and heavily integrated the use of metaphors, similes and personifications.
اردو شاعری نے ہمیشہ بدلتے ہوئے شعور کا ساتھ دیا اور وقت اور زمانے کے ساتھ ہونے والی تبدیلی کو مختلف صورتوں میں پیش کیا۔ شعرا کے ساتھ ساتھ شاعرات بھی اس میدان کی مسافر رہی اور ہیں۔ان شاعرات میں   ایک اہم نام پروین شاکر کا ہے جس نے اردو شاعری کو ایک منفرد لہجہ اور احساس دیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کا خوبصورت آئینہ اور ماضی کی روایت کا تسلسل ہے۔ پروین شاکر کی شاعری کا اہم حوالہ محبت اور نسوانی جذبات و احساسات کی پیش کش ہے۔ وہ اپنی  شاعری میں ایک پوری نسائی حسیات کی تشکیل کرتی دکھائی  دیتی ہے۔ نسائیت صرف یہ نہیں کہ گھر، انگن اور سنگھار کی بات کی  جائےبلکہ مونث جذبات کی مکمل تصویر کشی، خوشبو، رنگ، لمس و بصر، موسموں کی رنگینی اور رشتوں کے ذائقوں کا بیان ہے اور  پروین شاکر کی شاعری ان نسوانی کیفیات کا باکمال اظہار ہے۔ عورت کا  ایک روپ  اسے چاہے جانا اور محبوب بن کہ زندگی گزارنا  جب کہ  دوسرا روپ بطور عاشق پیش کرنا پروین شاکر کا خاصا ہے۔  اس نے روایتی شرم و حجاب کے برعکس نسوانی جذبات کی ترجمانی بھرپور انداز میں کی ہے۔ اس کے ہاں عورت کی طرف سے محبت کااظہار پایا جاتا ہے جیسا کہ وہ کہتی ہیں:
"مہ تمام! ابھی چھت یہ کون آیا تھا
کہ جس کہ آگے تیری روشنی بھی ماند ہوئی "۱؎
پروین شاکر بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہے۔ ان کی غزل بڑی شگفتہ اور بے ساختہ ہے۔پروین شاکر کے ہاں روایتی شاعری کا تبتع بھی ہےمگر زیادہ تر اپنی ذاتی محرومیوں اور مایوسیوں کا بیان ہے لیکن ان محرومیوں کی بدولت اس کے ہاں بیزاری کا رویہ نہیں ملتا بلکہ وہ زندگی کے مختلف تجربات سے زندگی  کے نئے سلیقے اور انداز اخذ  کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس نے ذاتی غم کے علاوہ روح عصر کے حالات اور غم کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا۔ وہ معاشرے میں عورت کے کرب کی صحیح نمائندگی کرنے والی شاعرہ ہے۔ پروین شاکر  اپنی شاعری میں  حقوقِ نسواں کی سچی علم بردار اور صنفِ نازک کے جذبات و احساسات کی خوبصورت عکاسی کرتی ہے۔
غزل میں ان کی انفرادیت کا سبب ان کی موضوعاتی جدت ہے۔ انہوں نے نسوانی جذبات و احساسات کو حقیقی انداز میں غزل میں پیش کیا۔ ان کے ہاں چاہت، رفاقت، ملاقات، جدائی، فراق، جذبے اور احساسات نئے انداز اور جدید دور کے تناظر میں محرک ملتے ہیں۔   اگرچہ ان کی غزل میں یوں لگتا ہے کہ انھوں نے میرابائی کے گیت کا رنگ اپنا لیا ہے جو کہ ماضی سے وابستگی اور تسلسل کی بنا پر ہے، مگر یہ ان کی جذبوں کی صداقت ہے جو انھیں یہ رنگ اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ پروین شاکر نے بھرپور طریقے سے نسوانی احساسات کا اظہار کیا ہے۔ وہ عشق کی جسمانی اور محسوساتی کیفیات کا بیان بڑی خوبصورتی سے کرتی ہے جیسا کہ یہ شعر ہے۔
"اس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی "۲؎
درد اور تکلیف کی شدت محبوب کی قربت کی بدولت کم ہو جاتی ہے اور پروین شاکر ایک ایسی عورت کو اپنی شاعری میں پیش کرتی ہےجس کی تمام تھکن اور درد محبت کے پھاہے کا طلب گار ہے۔ جس طرح دوا مریض پر اثر کرتی ہے، مریضِ عشق کے لیے محبت کا حصول اور اس کا  قرب مسیحائی کا سبب بنتا ہےاور پروین شاکر کے لیے یہ جذبہ اس لیےبھی شدید رہا کہ وہ اپنی محبت کے حصول سے محروم رہی۔ لیکن اپنی شاعری میں وہ اس کا  شدید اظہار تصوراتی  لمس کی صورت میں کرتی ہے۔حسن کا بیان بھی اس کے عشقیہ جذبات کی پیشکش میں روایتی انداز سے مختلف ہے۔ وہ حسن کے حسی اور لمسی کیفیات بیان کرتے ہوئےاردو شاعری کی روایت سے اجتناب کرتی نظر آتی ہے۔ محبت میں گزرے ہوئے لمحے اور محبوب کے وجود کے احساس کا بیان پروین شاکر کے ہاں نظم اور غزل دونوں میں پایا جاتا ہے جیسا کہ نظم گماں میں کہتی ہے۔
"گماں
میں کچیّ نیند میں ہوں
اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی
چاندنی کی چاپ سنتی ہوں
گماں ہے
آج بھی شاید
مرے ماتھےپہ تیرے لب، ستارے ثبت کرتے ہیں! "   ۳؎
پروین شاکر محبت میں معاملہ بندی کا بیان کچھ اس انداز سے کرتی ہے جس میں ایک عورت کے گہرے جذبے اور تاثرات جھلکتے ہیں یہاں بھی محبوب سے قربت میں  گزرے ہوئےلمحوں کی عکس بندی لفظوں میں چلتی پھرتی تصویر کی مانند سامنے آتے ہیں۔ پروین شاکر کی نظم اور غزل زندگی کے رنگوں اور تجربوں کے رس سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں اداسیوں اور تنہائیوں کے نوحے بھی ہیں اور امید و رجائیت کی کرنیں بھی۔ وہ کبھی کبھی وہم و گماں میں مبتلا محبت کے قرب کو محسوس کرتی ہے۔ اس لیے نظم "کانچ کی سرخ چوڑی" میں نسوانی جذبات کی نمائندگی کچھ یوں کرتی ہے۔
"کانچ کی سرخ چوڑی
کانچ کی سرخ چوڑی
مرے ہاتھ میں
آج ایسے کھنکنے لگی
جیسے کل رات، شبنم سے لکھی ہوئی
ترے ہاتھ کی شوخیوں کو
ہواؤں نے سُر دے دیا ہو!۔ "   ۴؎  
پروین شاکر کی شاعری میں اس کا وسیع مطالعہ، اس کے ذاتی تجربات، شدت جذبات اور مشاہدے کی گہرائی جھلکتی ہے۔ پروین شاکر  سے پہلے زیادہ تر نسانی جذبات کا اظہار مرد شعرا نے کیا تھا۔ لیکن پروین شاکر وہ بے خوف شاعرہ ہے جس نے اپنے کو مل جذبات کا برملا اظہار کیا۔ اس لیے اپنے پہلے مجموعہ شاعری "خوشبو" میں ایسی نوخیز لڑکی کے جذبات پیش کیے ہیں جس نے سنِ بلاغت میں قدم رکھا ہے اور چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو کی لپیٹ میں شدت سے گرفتار ہے۔ وہ ساری آرزویں اور تمنائیں جو لڑکیاں اپنے دلوں میں محسوس کرتی ہیں۔یوں ان کی شاعری میں ایسے نسائی جذبات کچھ یوں سامنے آتے ہیں۔
"کشف
ہونٹ بے بات ہنسے
زلف بے وجہ کھلی
خواب دکھلا کے مجھے
نیند کس سمت چلی
خوشبو لہرائی، مرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں ترے نام کا تارہ چمکا!"۵؎
لیکن محبت میں پیش آنے والے وہ معاملات جن میں محبوب کی بے وفائی کا ذکر ہو اور جس میں جسمانی لذت کا بیان بے باک انداز میں کیا ہو وہ بھی پروین شاکر کی اہم خاصیت ہے۔ جدید دور کے میکانکی محبت کا ایک عکس اس کی نظم "ڈیوٹی" میں ملتا ہے۔
"ڈیوٹی
جان!
مجھے افسوس ہے
تم سے ملنے، شاید اس ہفتے بھی نہ آسکوں گا
بڑی اہم مجبوری ہے!"
جان!
تمہاری مجبوری کو
اب تو میں بھی سمجھنے لگی ہوں
شاید اس ہفتے بھی
تمہارے چیف کی بیوی تنہا ہوگی! "   ۶؎
یہاں محبت کا جسمانی اور مادی تصور سامنے آتا ہے جس میں جسم کی طلب اور حصول آسان بھی ہے اور جس میں موجودہ دور کی ہوس ناکی اور بناوٹی پن سامنے آتا ہے جب ایک عورت اپنے محبوب کی اس مجبوری کو بیان کرتی ہے کہ وہ کسی دوسری عورت کی تنہائی کو دور کرنے میں مصروف ہے۔ پروین شاکر نے اپنی ذات کے کرب کو لفظوں کا پیکر دے کر امر کر دیا۔ زندگی میں پیش آنے والے ہر غم کو اپنے اندر جذب کیا جو اس کی ستارہ آنکھوں میں روشنی بن کر چمکتا رہا۔ نظر صدیقی اس بارے میں کچھ یوں رقم طراز ہے:
"خوشبو کو صرف مزے کی خاطر یا مزے لے لے کر پڑھنا ممکن نہیں۔ محبت کا یہ المیہ بدن میں وہ ارتعاش اور روح میں وہ لرزش پیدا کرتا ہے جو کسی بھی ٹریجیڈی کو دیکھتے  یا پڑھتے وقت ناگزیر ہے۔ یہ بات کہہ کر میں خوشبو کو دنیا کی بڑی ٹریجیڈی کے برابر نہیں رکھ رہا ہوں۔ دراصل کہنا صرف یہ ہے کہ چونکہ خوشبو پروین شاکر کے کربِ ذات کی کمائی ہے اس لیے اس کتاب کے قارئین کرب کی لطیف ترین اور شدید ترین کیفیات سے بچ کر  نہیں گزر سکتے۔ پروین شاکر نے خوشبو میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ خود جس آگ میں جلی اور تپتی ہیں اس کی آنچیں پڑھنے والوں کے قلب و روح تک پہنچ رہی ہیں۔"۷؎
پروین شاکر کی شاعری میں نسوانی کردار کی پیش کش پروین کی انفرادیت کی عکاس ہے کیونکہ انہوں نے شاعری  میں اپنی حقیقی ذات کو پیش کیا۔ انہوں نے وہی کچھ لکھا جو ان کی ذات ان سے لکھوا رہی تھی۔ انہوں نے ہوس کے اس دور میں حق و صداقت کا ساتھ دیا، مشرقیت کا ساتھ نبھایا، اعلیِ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اپنی روایات کا بھرم رکھا۔ حتٰی کے والدین کی خوشی اور رضا کے لیے اپنی محبت کی قربانی دی۔ اسد ملک جو سنی ہونے کے باوجوداپنی محبت کی خاطر ایک شیعہ مسلک کی لڑکی کے گھر رشتہ بھیجتاتا ہے، لیکن پروین شاکر اپنے والد کی رضا کے لیے اس محبت کی قربانی دیتی ہے اور یوں ساری زندگی نارسائی کے کرب میں مبتلا رہتی ہے۔ والدین کی مرضی سے شاددی کرتی ہے تو شوہر سسرال کی طرف سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے وہ مشرقی عورت کی صورت اپنے سسرال اور شوہر کو خوش رکھنے کے لیے گھر کے کام کاج تک کرتی ہے، مگر انجام کا ر طلاق کا  دداغ دامن گیر ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ عزم و ہمت کا  پیکر مسلسل گردش پیہم کا سامنا کرتے ہوئے زندگی کی روش پر چلتی ہے۔ پروین شاکر اپنی کیفیات کا بیان صد برگ کے دیباچے بعنوان "رزقِ ہوا" میں کچھ یوں کرتی ہے۔
"لیکن جس معاشرے میں قدروں کے نمبر منسوخ ہوچکے ہوں اور درہم خوداری، دینارِ عزتِ نفس کوڑیوں کے بھی مول نہ نکلیں، وہاں نیکی کی نصرت کو کون آئے؟  وہاں تو سماعتیں، بہری اور بصارتیں اندھی ہوجاتی ہیں۔۔۔ اور میرا گناہ یہ ہے کہ میں ایک ایسے قبیلے میں پیدا ہوئی جہاں سوچ رکھنا جرائم میں شامل ہے، مگر قبیلے والوں سے بھول یہ ہوئی کہ انھوں نے مجھے پیدا ہوتے  ہی زمین میں نہیں گاڑا (اور اب مجھے دیوار میں چن دینا اُن کے لیے اخلاقی طور پر اتنا آسان نہیں رہا!) مگر وہ اپنی بھول سے بے خبر نہیں، سو اب میں ہوں اور ہونے کی مجبوری کا یہ اندھا کنواں جس کے گرد گھومتے گھومتے میرے پاؤں پتھر کے ہوگئے ہیں اور آنکھیں پانی کی۔۔۔ کیونکہ میں نے اور لڑکیوںکی طرح کھوپے پہننے سے انکار کر دیا تھا! اور انکار کرنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا!۔
ہر انکار پر میرے جسم میں ایک میخ کا اور اضافہ ہوگیا۔۔۔ مگر میخیں ٹھونکنے والوں نے میری آنکھوں سے کوئی تعرض نہ کیا۔۔۔ شاید وہ جانتے تھے کہ انھیں بجھانے سے میرے اندر کی روشنی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، یا پھر اپنی سفّاکیوں سے لُطف اندوز ہونے کے لیے وہ ایک گونگےگواہ کے طالب تھے اور میں حیران ہوں کہ اس گواہی سے میری آنکھیں اب تک پتھرائی کیوں  نہیں"۸؎
صدبرگ تک پہنچتے پہنچتے پروین شاکر کی محبت روایتی تصور کو چھوڑ کر حقیقت کے قالب میں ڈھل کر سامنےآتی ہے۔ سماجی شعور، عصری تجربات اور ذاتی غم ان کی غزل کا پیکر پیش کرتی ہے۔ یہاں نسائی جذبات، خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی زندگی سے آنکھ ملاتے ہیں اور وہ کہتی ہے۔
"میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی تھی
کہ تیرے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا۔ "۹؎
صدبرگ کی نظم "بُدن کے موسم بے اختیاری میں"میں  ایک ایسی خواہش کی جھلک نظر آتی ہے کہ وہ ایک ایسی رومان پرور فضا کی طلب گار ہےجس میں وہ اپنے سارے رشتوں اور ناطوں کو بھول کر اپنی محبت اور محبوب کی قربت چاہتی ہے، یہ بھی ایک ایسی نسائی کیفیت ہے کہ جس کا بیان بہت بے باکی اور جرأت کا متقاضی ہے۔ پروین شاکر اگرچہ عملی زندگی میں مشرقی روایات کی پاس داری میں اپنی محبت کی قربانی دیتی ہےمگر اس نظم میں وہ اس خول سے کچھ یوں نکلتی ہے۔
"بدن کے موسم بے اختیاری میں
بدن کے موسم بے اختیاری میں
کوئی دن زندگی میں ایسا آئے
تو میرے دھیان میں کھو کر
رموزِ شہر یاری بھول جائے
میں اس شدّت سے یاد آؤں
شکوہِ کج کلا ہی بھول جائے
مرے بھی سارے رشتے، سارے ناطے
خود فراموشی بہا لے جائے
کلُ دنیا سمٹ کر تیری بانہوں میں سما جائے
بدن کے موسم بے اختیاری میں
کسی پل۔۔۔
فصیلِ شہر سے باہر
حصارِ چادر و دستار کی حد سے نکل کر
ایک لمحےکو۔۔۔ بس اک لمحے کو
ہم اپنے مقدر آزما لیں۔۔۔
شب ممنوع سے اِک پُل چُرالیں!"۱۰؎
پروین شاکر محبت میں وارفتگی اور شدت کی خواہاں ہےاسی لیے کہتی ہے کہ
"میں اس کی کھوج میں دیوانہ وار پھرتی ہوں
اسی تکن  سے کبھی مجھ کو ڈھونڈتا وہ بھی "۱۱؎
قرب محبوب کے دلنواز لمحوں کی  خواہش اور تمنا اس کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہےلیکن ہجر کی بدولت اس کی شاعری میں ایک تڑپ اور سوزگداز پایا جاتا ہے۔ ہجر و فراق کی بدولت وہ درد میں تڑپتی ہے اور غم جاناں اور غم دوراں کی بدولت اس کی آنکھوں سے آنسوں کی لڑیاں بھی رواں ہوتی نظر آتی ہیں۔ آنسو بہانا بھی نسوانی جذبات کا عکاس ہے، اس حوالے سے شہلا غزل لکھتی ہے۔
"اس کی آنکھ سے ڈھلکے ہوئے آنسو اس کی نسوانی بصیرت اور احساسات کی غمازی کرتے ہیں اور وہ قلبی واردات کا اظہار کرنے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتی۔ یہاں اس کی غزل اپنے کومل پیکر کی پاسداری کرتی ہوئی ایک نیا روپ دھار لیتی ہے۔ ایک ایسا روپ جس میں ہمارے سماج کی بیشتر لڑکیاں اپنی دھڑکنوں کو صاف سن سکتی ہیں۔ غزل کا یہ سلونا انداز پروین  کے علاوہ آپ کو کسی اور کے ہاں دکھائی نہیں دیگا۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش کرتی ہوں۔
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
…………………………….
سپرد کر کے اُسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤنگی
…………………………….
گلی کے موڑ پہ دیکھا اسے تو کیسی خوشی
کسی کے واسطے ہوگا رُکا ہوا وہ بھی
…………………………….
وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا کلی روپ میں چمبیلی ہوئی
…………………………….
بار ہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح "۱۲؎
شاعری کے ذریعے پروین شاکر نے اظہارِ ذات کو ممکن بنایا اس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے کرتے ماحول اور اپنے اردگرد کی بھی تصویر شعروں میں پیش کی۔
"شعبۂ رزق خُدا نے جو رکھا اپنے پاس
نائب اللہ بہت بددل و رنجُور ہوئے
وہ رعونت ہے کہ لگتا ہے ازل سے ہیں یونہی
نشّۂ مسندِ شاہانہ سے مخمُور ہوئےمُور ہوئے "۱۳؎
پروین شاکرنے زمانے  کے  درد کو بھی لفظوں میں پیش کیا اور اپنی ذات میں چھپےپے درد اور غم کو بھی صفحہ قرطاس پر قوسِ قزع کے رنگوں کی طرح بکھیرااور ان خوابوں کا ذکر بھی کیا جن کو کبھی تعبیر نہ  ملی۔ اس نے اپنے حسین جذبوں اور اچھوتے خیالوں کو بڑے نرم و نازک لفظوں میں بیان کیا۔ اسی طرح انسائی  نفسیات کی عکاسی بھی بڑی نفاست سے کرتی ہے۔ رومان پرور لمحوں میں جو احساسات و جذبات جنم لیتے ہیں وہ بھی بہت پُر لطف ہوتے ہیں ان کا بیان بھی پروین شاکر کی شاعری میں ایک جمالیاتی آہنگ لیے ہوئے ہیں جیسا کہ وہ کہتی ہے۔
"اس نے چُوما مری آنکھوں کو سحردم اور پھر
رکھ گیا میرے سرہانے مرے خوابوں کے گلاب
کون چھوکر انہیں گزرا کہ کِھلے جاتے ہیں
اتنے سرشار تو پہلے نہ تھے ہونٹوں کے گلاب "۱۴؎
درج بالا اشعار رومان پرور لمحوں میں نسائی کیفیات   کے خوبصورت ترجمان ہیں کہ چھو  جانے  کی کیفیت سے جو خواب آنکھوں میں بیدار ہوتے ہیں اور جو محسوسات جنم لیتے ہیں اس کا خوبصورت عکس لفظوں کے انتخاب سے پیش کیا ہے۔ پروین شاکر پر نسائی جذبات کے حوالے سے لکھا جائے تو پورا ایک مقالہ بھی کم پڑ جائے۔ مختصر یہ کہ وہ عورت کے جذبات و احساسات کی خوبصورت مصوری کرتی  ہے اور اس کے لفظ شاعری میں جذبوں کی ایسی تصویر کشی ہے کہ جو چلتی پھرتی اور حرکت کرتی محبت کی شدت میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ اس کے حوالے سے ایس ایف شیرانی اپنے مضمون میں ایک حوالہ ان الفاظ میں دیتے ہیں۔
"اردو شاعری کی پوری تاریخ میں پروین شاکر سے قبل ایسی کوئی شاعرہ نظر نہیں آتی جس کے ہاں جذبات کی اتنی حقیقی اور بیباک ترجمانی ملتی ہو۔ پروین شاکر کے یہاں محبت ایک تصور محض ہی نہیں، بلکہ وہ اپنے ایک طویل پراسیس سے تعبیر کرتی ہے۔ ایک ایسا عمل جو مسلسل ملاقاتوں کا متقاضی ہے پروین شاکر کی جولانی قلم کی زیادہ واضح اور مؤثر تصویر ہمیں اُن کے اشعار میں نظر آتی ہے۔ جو عالمِ فراق کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان ہی اشعار کے ذریعے عورت کی اس نفسیاتی کمزوری کا پتہ چلتا ہے کہ جب تک وہ چاہت کے دام میں گرفتار نہیں ہوتی۔ ہمارے روایت زدہ شعرأ عورت پر بے اعتنائی، بےوفائی، بےتوجہی، بے رخی اور بے رحمی کے خود ساختہ الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔"۱۵؎
پروین شاکر کے ہاں ایک نوجوان لڑکی کے  جذبات سے لےکر ایک شادی  شدہ عورت  اور پھر ایک ماں کی نسائی کیفیات کا بھرپور اظہار انتہائی ہنروری سے ملتا  ہے۔ اس کے ہاں جس عورت کا کردار سامنے  آتا ہے وہ مسلسل ارتقا پزیر ہے۔ ایک کم عمر لڑکی کی جو  گھروندوں کے خواب بنتی ہے،  محبت میں ناکامی کے بعد مشرقی اقدار کے لیے اپنے والدین کی مرضی سے شادی کرتی ہے مگر شادی کا انجام ناکامی پر ہوتا ہے۔ اپنےبیٹے کو اپنی خوشیوں کا محور بناتی ہے اور زمانے کی گردشوں کو برداشت کرتی ہے۔ یوں اس کی شاعری میں عورت کے  حوالے سےتقریباً ہر رنگ ملتا ہے جو فطری بھی ہے اور پُرتاثیر بھی۔ عرض پروین شاکر نسائی کیفیات کی محاکات نگاری بھرپور انداز میں شاعری میں پیش کرتی ہے۔


حوالہ جات
۱؎       پروین شاکر، مجموعہ ماہِ تمام (خوشبو)  مراد پبلی کیشنز اسلام آباد، ۱۹۹۴ء ص ۲۸۹
۲؎      ایضاً         ص ۱۱۷
۳؎      ایضاً         ص ۳۲
۴؎      ایضاً         ص ۳۱
۵؎      ایضاً         ص ۳۰
۶؎      ایضاً         ص ۱۲۴
۷؎      احمد پراچہ    پروین شاکر فکر و فن، خورشید مقبول پریس لاہور  ۱۹۹۹ء    ص ۴۱
۸؎      پروین شاکر، مجموعہ ماہِ تمام(صد برگ) , مراد پبلی کیشنز اسلام آباد  ۱۹۹۴ء    دیباچہ
۹؎      ایضاً         ص ۲۲
۱۰؎     ایضاً         ص ۹۷ تا ۹۸
۱۱؎      پروین شاکر، مجموعہ ماہِ تمام(خودکلام)           مراد پبلی کیشنز اسلام آباد، ۱۹۹۴ء      ص ۱۶۱
۱۲؎     احمد پراچہ    پروین شاکر فکر و فن   خورشید مقبول پریس لاہور  ۱۹۹۹ء    ص ۱۶۶
۱۳؎     پروین شاکر، مجموعہ ماہِ تمام(انکار)   مراد پبلی کیشنز اسلام آباد  ۱۹۹۴ء    ص ۱۶۱
۱۴؎     پروین شاکر، مجموعہ ماہِ تمام(خودکلام) مراد پبلی کیشنز اسلام آباد  ۱۹۹۴ء    ص ۱۴۷تا ۱۴۸
۱۵؎     احمد پراچہ، پروین شاکر فکر و فن      خورشید مقبول پریس لاہور  ۱۹۹۹ء    ص ۱۶۳


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com