فیضؔ  کے علامتی نظام کی پہلوداری اور انفرادیت


ڈاکٹر فرحانہ قاضی،اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اُردو جامعہ پشاور

ABSTRACT:
Symbols play a pivotal role in the age of political oppression and dictatorships. The poets and writers tend toward symbols and metaphors when they find no way for escape and want to express their revolutionary thoughts to the masses. Apart from protection, the symbols also give an aesthetic way for the manifestation of the complex emotions as well. Faiz Ahmad Faiz, a revolutionary poet, was greatly impressed by the Russian revolution 1917. That was the reason that he fought against the so called capitalism and feudalism before and after the partition. He was arrested, banned and confined in Pakistan. In these circumstances intension towards symbols and metaphors was natural. He used garden, candle, nightingale, murderer, hunter, spring and dozens other symbols to convey his thoughts successfully. In this research paper the researcher has shed light on the depth and aesthetical beauty of the symbols used in Faiz Poetry.
کلیدی الفاظ:فیض احمد فیض،اُردو غزل، علامت نگاری،علائم کی پہلوداری،تہذیبی سیاسی اور مذہبی زاویہ،مزاحمتی لہجہ۔
لفظ "علامت" شعر و نثر کے مباحث میں ایک مستقل باب کی حیثیت  رکھتاہے ، چاہے نثر ہو مثلاً ناول، یا افسانہ یا پھر شعری اصناف مثلاً نظم یا پھر کلاسیکی صنفِ سخن "غزل" علامت کا وجود ان سب میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامت بذاتِ خود ہے کیا چیز؟ یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس نے علامت کی تعریف کو مبہم اور اس کی بحث کو پیچیدہ بنا دیا ہے ۔ علامت کو سمجھنے کے لیے اس لفظ کے مفہوم کو سمجھنا ضروری ہے علامت جس کے لیے انگریزی میں Symbol   کا لفظ  استعمال ہوتا ہے۔ اس کی تعریف  یوں  ہے :
"لفظ Symbol  جس کے لیے اب اُردو میں علامت کی اصطلاح قبول کر لی گئی ہے ۔ یونانی لفظ Symbolسے نکلا ہے اور خود یہ لفظ دو لفظوں Sym  اور Bolan  کا مرکب ہے ۔ پہلا لفظ Sym  کا مفہوم "ساتھ ساتھ " ہے اور دوسرے کا "پھینکا" ہوا۔ چنانچہ پورے لفظ کا مطلب ہوا "جسے ساتھ ساتھ پھینکا گیا۔ " ( ۱ (
اہل یونان کا رواج رہا ہےکہ جب دو فریق کوئی چیز مثلاً چھڑی یا سکہ توڑ لیتے تو ان ٹکڑوں کو ان فریقین کے مابین طے ہونے والے معاہدے کی علامت سمجھا جاتا نیز تجارت کرنے والے بھی اس قسم کی چیز کسی بھی قسم کے معاہدے یاخرید و فروخت شدہ چیزوں کی تعداد و مقدار کا تعین کرنے کے لیے استعمال کرتےتھے۔
اس مفہوم اور تناظر میں  لفظ Symbol  کا مطلب ہوا کہ کسی ایک چیز کا ٹکڑا جب دوسرے ٹکڑے کے ساتھ ملاکررکھ دیا جائے ۔ اس طرح اس اصل مفہوم و مدعا کو واضح کردیا جائے جس کا یہ شناختی نشان تھا۔ دیکھا جائے تو  اصناف، ادب میں بھی Symbol  کا مقصد یہی   ہے کہ لکھنے والا کسی بھی علامتی لفظ اور اپنے ذہن میں موجود مفہوم و مدعا کو ملا دیتا ہے اور یوں قاری دونوں مفاہیم کو ساتھ ساتھ دیکھ اور سمجھ کر مطلوبہ مدعا تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈاکٹر شارب ردولوی اپنے مضمون "جدید غزل میں علامت نگاری" میں لکھتے ہیں :
"یوں تو ادبی اظہار میں  استعمال ہونے والا ہر لفظ ایک علامت ہے یا علامت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جب ہم شعر و ادب میں علامت کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں تو اس کی حدوں کا تعین کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔۔۔ بنیادی طور پر الفاظ اشیاء کے لیے اشارہ ہی  ہوتے ہیں ۔۔۔ لیکن جب کسی نظریے یا ادبی اظہار کی بات ہو تو اس کے کئی معنوی پہلو ہوسکتے ہیں ۔ " (۲)
اردو غزل میں علامت کا معاملہ خود علامت کی طرح الجھا ہوا ہے کیونکہ جب بھی علامت کی بات ہوتی ہے تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اشاریت کی بات ہو رہی ہے ، استعارے کی یا پھر بالخصوص علامت کی چونکہ ان میں معنوی مماثلت موجود ہے اور یہ ایک دوسرے کے لیے بے حد قریب ہیں ، اس لیے پیچیدگی پیدا ہوتی ہے  کسی لفظ کے ساتھ کچھ قدریں اور تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں اور یہ تصورات علاقے، تہذیب، عقائد، معاشرت اور تاریخ وغیرہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پھر یہی تصورات لفظ کو علامتی اقدار دیتے ہیں جو اسے موقع و محل کے مطابق معنی کی نئی جہتوں سے روشناس کراتے ہیں گویا علامت کے لیے ایک تہذیبی پس منظر ضروری ہے ۔ مثلاً جنت سے بے دخلی کی علامت صرف ان معاشروں کے لیے بامعنی ہوسکتی ہے جہاں آدم  و حوا کی کہانی مذہبی یا تہذیبی اہمیت رکھتی ہے  ۔
مشرقی اصنافِ سخن میں غزل ممتاز اور ہر دلعزیز صنف ہے ۔  اسے حسن و عشق کی واردات و کیفیات اور معاملات حسن و عشق کے اظہار کا وسیلہ تصور کیا جاتا رہا ہے ، مگر اس کلاسیکی صنف میں کسی بھی موضوع  کو برتنے کی توانائی اور گنجائش موجود ہے اور شعرا نے انسانی زندگی کے تقریباً ہر رُخ اور ہر پہلو کو غزل میں سمویا ہے۔  اس میں اشاراتی اور استعاراتی انداز اپنایا جارتا رہا ہے ، اس لیے اس میں پہلوداری اور علامتی رنگ شامل ہوگیا ہے جس نےباقاعدہ ایک رویے کی صورت اپنا لی ہے۔ آہستہ آہستہ علامت غزل میں موجود ایک نظام بنتا چلا گیا  اور اب یہ علامتیں روایت کے طور پر مستعمل ہیں۔ مثلاً  کہ کچھ الفاظ میرؔ اور ولیؔ کے دور سے لے کر اب تک ایک ہی مفہوم میں استعمال ہورہے ہیں ۔ حالانکہ لغوی طور پر ان الفاظ کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں۔ جیسے کہ ہر دور میں قریباً محبوب کے لیے صنم، بت، کافر، قاتل، صیاد وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے ایک کے لغوی معانی بھی "محبوب" نہیں۔ یہی لفظ کا علامتی استعمال کہلاتا ہے ۔
علامت انسان کے وجود کے لفظی، بصری اور حیاتیاتی ادراک کی وسیع المعانی عملی تفسیر ہے ۔ آغازِ حیات میں جب دو انسانوں نے اپنے جذبوں  کی تسکین کے لیے ابلاغ اور ترسیل کی ضرورت محسوس کی ہوگی یہ علامت ہی تھی جس نے اشاروں کی زبان کی صورت میں رابطے کی ضرورت پوری کی کیونکہ ہر لفظ بجائے خود علامت  ہے ۔ دراصل  ہبوطِ آدم کے ساتھ ہی ایک علامتی نظام بھی وضع ہوگیا تھا بلکہ خدائی صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے انسان کو تو اپنی تخلیق کے ساتھ ہی ایک علامتی پیرایۂ اظہار بھی مل گیا تھا ۔
غزل  انسانی احساسات اور جذبات ، نیز خیالات و تصورات کا قوی ترین طریقۂ اظہار ہے، اس لیے علامت کا وجود بھی اس صنف میں زیادہ شد و مد کے ساتھ موجود ہے ۔ اولین نمایاں غزل گوولی کے ہاں ہمیں چند کلاسیکی قسم کی علامتیں نظر آتی ہیں مثلاً :
گل کی جفا بھی دیکھی، دیکھی وفائے بلبل
یک مشت پر پڑے تھے گلشن میں جائے بلبل(۳)
 مذکورہ شعر میں گل محبوب، جبکہ بلبل عاشق نیز گلشن دنیا کے معنوں میں علامتی انداز میں استعمال ہوا ہے ۔  میرؔ کے ہاں بھی چند علامتیں موجود ہیں مثلاً کارخانہ ، دنیا کے معنوں میں ، زخمی ہرن یعنی آہوئے رم خوردہ محبوب کے معنوں میں ، اس کے علاوہ غالبؔ کے ہاں بھی چند علامتیں موجود ہیں۔ مثلاً :
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے (۴)
شمع کی علامت اس شعر میں ایک زوال آمادہ تہذیب کے لیے استعمال ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؔ کے ہاں بھی ایک مضبوط علامتی نظام نظر آتا ہے بلکہ انہوں نے تو پہلے سے موجود کلاسیکی علامتوں کو نیا مفہوم عطا کیا ہے ۔
غزل ہمارے ہاں فارسی سے درآمد ہوئی ہے اس لیے شروع سے ہی اس پر ایران اور فارسی زبان و ادب کا اثر ملتا ہے۔ نہ صرف زبان و بیان کے وسیلوں بلکہ موضوعات اور پیرایۂ اظہار پر بھی فارسی کا اثر موجود ہے ۔ کلاسک اُردوشعراء کہ میرؔ، دردؔ، سوداؔ، غالبؔ، ناسخؔ، آتشؔ، حالیؔ، حسرتؔ، اقبالؔ، بلکہ آگے بڑھ کر فیضؔ اور فرازؔ کے ہاں بھی یہ اثر موجود ہے ۔ اُردو غزل کی روایت میں فارسی اثر کےتحت گل و بلبل کی علامتیں عاشق و محبوب (چاہے حقیقی ہوں یا مجازی) کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ گلچیں  ظالم اور غاصب کے معنوں میں بہار اچھے اور خوش حال وقت کے معنوں میں خزاں ، ظلم ، جبر، غم، مایوسی ، نااُمیدی اور ظلمت کے معنوں میں پنجرہ، قفس، زنداں ، استحصال، قید و بند، تشدد اور جبر کے معنوں میں آشیاں، چمن، باغ، گلستاں ،وطن، دنیا، گھر کے معنوں میں جبکہ  باغباں وغیرہ مثبت اور تعمیری تصورات رکھنے والے فرد کے معنوں میں استعمال ہیں۔
ایران باغوں، پھولوں، پرندوں وغیرہ  کا ملک ہے  فارسی زبان و ادب میں بھی ان چیزوں اور ان کے متعلقات مثلاً، گل ، بلبل، گلچیں، بہار، خزاں، پنجرہ، قفس، آشیاں، چمن، باغ، گلشن، گلستاں، باغباں، وغیرہ کی علامات موجود ہیں اور پھر یہ علامتیں ہمارے شاعروں نے بھی بعینیہ استعمال کی ہیں۔ چنانچہ میرؔ کے ہاں یہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں اور پھر موجود دور تک یہ علامتیں ہمہ پہلو معنوں میں شاعر استعمال کر رہے ہیں۔ گویا میرؔ سے فرازؔ تک ان علامتوں کی کہانی ایک ہی ہے ۔  فیض احمد فیضؔ کے ہاں یہ علامتیں  رچی ہوئی صورت میں ملتی ہیں  فیضؔ نے ان الفاظ کو علامت کا جو جامہ پہنایا ہے وہ منفرد اور انوکھا ہے۔ ان کے ہاں یہ  علامتیں عاشقانہ، سیاسی، معاشرتی اور سماجی جہتوں کے ساتھ استعمال ہوئی ہیں گویا ان علامتوں کو سب سے زیادہ پہلو داری انہوں نے ہی دی ہے۔
باغوں اور پھولوں کے اس علامتی نظام کے ساتھ ساتھ اُردو غزل نے ایران کے تہذیبی عناصر سے بھی بدرجہ اتم اخذ و استفادہ کیا ہے ۔ ایرانی تہذیب میں مے و ساغر اور رندی و خمریات کا بڑا حصہ رہا ہے۔ شراب ایرانی تہذیب کا جزو لا ینفک تھا۔ اس وجہ سے فارسی شاعر ی میں مے خانہ، ساقی، مے، صہبا، ساغر و جم، صراحی و پیالہ جیسی علامتیں کئی ایک حوالوں سے استعمال ہوتی ہیں۔ ان علامتوں نے تصوف کے مفاہیم و مطالب میں مستعمل ہو کر اردو غزل کو بھی وسعت وکشادگی کی خاصیت عطا کی ہے ۔ دنیا ، انسان اور اللہ کے تعلق ، کائنات کے علم اور انسان کی باطنی نیز خارجی زندگی سے متعلق بھی یہ الفاظ علامتی انداز میں استعمال ہو کر غزل کو ایک مضبوط علامتی نظام عطا کرتے ہیں۔
مذکورہ علامتوں کو خواجہ میر دردؔ کی غزل میں بھی دیکھا جاسکتا ہے اور پھر قریباً تمام کلاسیکی شعراء کے ہاں ان علامتوں کا استعمال انہی روایتی معنوں میں ہوا ہے ۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ ہر شاعر نے انہیں کچھ انفرادیت ضرور دی ہے اور اسی باعث ان علامتوں کو عہد بہ عہد متنوع صورتیں اور مفاہیم عطا ہوئے ہیں۔
فیضؔ وہ منفرد غزل گو ہیں جن کے ہاں یہ کلاسیکی علامتیں ایک الگ ہی رنگ اپنا لیتی ہیں ۔ آئندہ سطور میں فیضؔ کے ہاں ان تمام علامتوں کے استعمال پر بات کی جائے گی ۔ جنہیں فیضؔ نے تہذیبی  ،سیاسی، کچھ جگہوں پر مذہبی نیز سماجی تناظر میں استعمال کیا ہے۔
فیض احمد فیضؔ اپنے ہم عصر شعراء میں اپنے مخصوص لہجے اور جداگانہ اندازِ فکر کی وجہ سے ایک ایسا مقام رکھتے ہیں جس تک پہنچنے  کے لیے تہذیبی شعور کو کام میں لاکر انسانیت کے دکھ کو اپنا نے کے بعد تخلیقی کرب سے گزر کر دنیا کی کہانی کو دل کی کہانی بنانا پڑتا ہے اس علامتی انداز کو اپنا کر ہی شاعر معاشرے کی نباضی کا کٹھن فرض ادا کرپاتا ہے ۔
فیضؔ نے نظم اور غزل دونوں کو اپنے شاعرانہ تصورات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور ان دونوں آئینوں میں حیات انسانی کے سیاسی، سماجی، رومانی اور مذہبی حالات کی جھلکیاں دکھائیں جو ایک مجموعی نظریۂ حیات کی تشکیل کرتی ہیں ۔ ایسا کرنے کے لیے انہوں نے نظم و غزل دونوں کو ایک علامتی پیرایۂ بیان و زبان عطا کیا۔ اس علامتی انداز نے ان کے کلام میں وہ تاثیر پیدا کی جو کسی کسی شاعر کو نصیب ہوتی ہے۔
فیضؔ کے ہاں مستعمل لفظیات ایک الگ ہی رنگ میں نظر آتی ہیں جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ اردو غزل ایرانی یعنی فارسی غزل نیز تہذیبی اقدار سے حد درجہ اثرات قبول کیے ہوئے ہے ۔ اس تناظر میں فیضؔ کے ہاں قریباً وہ تمام علائم و رموز نظر آتے ہیں جو فارسی اور پھر کلاسیکی شعرائے اردو نے استعمال کیے ہیں۔ مثلاً فیضؔ کے ہاں ہمیں "قاتل" کی علامت کئی جگہ نظر آتی ہے جسے انہوں نے رومانی اور سیاسی دونوں طرح سے استعمال کیا ہے ۔ کہتے ہیں :
اب احتیاط کی کوئی صورت نہیں رہی
قاتل سے رسم و راہ سوا کر چکے ہیں ہم(۵)
سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو نہ صرف فیضؔ کے زمانے کے سیاسی حالات بلکہ موجودہ      دور کے سیاسی منظر نامے پہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں  یہ شعر اس حقیقت کا خوبصورت علامتی اظہار ہے۔ ہم جو خود قاتلوں کو دوست بنائے ہوئے ہیں کس طرح بچاؤ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ یا پھر ایک اور شعر میں کہتے ہیں :
کون قاتل بچا ہے شہر میں فیضؔ
جس سے یاروں نے رسم و راہ نہ کی(۶)
اس علامت قاتل کو فیضؔ نے کئی دوسرے حوالوں سے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً :
کرے کوئی تیغ کا نظارا، اب اُن کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد ہے قاتل کہ جانِ بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے (۷)
کلاسیکی فارسی غزل میں لفظ قاتل محبوب کے حوالے سے بھی استعمال ہوا ہے اور فیضؔ کے ہاں بھی اس علامت کا یہ استعمال نظر آتا ہے  رومانی اور انقلابی ہر دو صورتوں میں یہ علامت پوری خوبصورتی کے ساتھ ابلاغ کرتی نظر آتی ہے۔ مثلاً ایک شعر میں کہتے ہیں :
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا (۸)
یا پھر
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی (۹)
قاتل کی علامت کے استعمال کی یہ پہلو داری فیضؔ کے کلام کی منفرد خوبی ہے۔ فیضؔ کے ہاں استعمال ہونے والی ایک اور خوبصورت علامت گلشن ہے ۔ اس علامت کو فیضؔ نے دنیا، وطن، ملک اور زندگی کے مفہوم میں بے حد دلکشی سے استعمال کیا ہے۔ فیضؔ روس کے اشتراکی نظام کے پرستار تھے اور وہ اشتراکیت کو نسبتاً بہتر انداز ِ زیست سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گلشن، گلستاں، چمن کی کلاسیکی علامتوں کو استعمال کرکے اپنے اشعار میں معانی کا ایک جہان آباد کیا ہے۔ مثلاً ان کا ایک مشہور شعر ہے :
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے (۱۰)
اس شعر میں انھوں نے اشتراکیت کو بادِنو بہار کہہ کر گلشن یعنی ملک میں اس نظام کے لیے خیر مقدمی جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ گلشن یا گلستاں ان کی غزل میں کثیر طور پر استعمال ہونے والی ایک علامت ہے اور جن اشعار میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ بےمثال ہیں :
شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیٔ رنگِ گلستاں ہے وہی(۱۱)

رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا رنگ گلشن سے اب  حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا اشک اُمڈے کہ  ابرِ بہار آگئی (۱۲)

دستِ تۂ سنگ میں ایک جگہ کہتے ہیں :
صحنِ گلشن میں بہر مشتاقاں
ہر روش کھنچ گئی کماں کی طرح
جانے کس پر ہو مہرباں قاتل
بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح(۱۳)
دارورسن ایسی علامت ہے جو شروع سے اُردو غزل میں مستعمل ہے ۔ ظلم و بیدار، بے گناہوں کا خون ناحق اور بلا قصور سزا وار ٹھہراےَجانا یہ ایسی بات ہے جس کا ذکر اہل ِ مشرق ہمیشہ سے اپنی شاعری میں کرتے رہے ہیں کہ بد نصیب مشرق میں یہ داستان ہمیشہ موجود رہی ہے چاہے  کربلا کا میدان ہو ، جہاں اہل ِ بیت کا خونِ ناحق بہا یا پھر عہد در عہد مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی بھی باب  دارورسن کا وجود ہمیشہ رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شعراء اس کا ذکر کرتے ہی رہے ہیں اور یہ باقاعدہ ایک علامت کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔ دیگر کلاسیکی شعراء کی طرح فیضؔ نے بھی اس علامت کو بے حد خوبصورتی اور بامعنی انداز میں استعمال کیا ہے ۔ مثلاً دستِ تۂ سنگ میں ایک جگہ  کہتے ہیں :
نہ رہا جنونِ رخِ وفا، یہ رسن یہ دار کروگے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے(۱۴)
دستِ صبا میں لکھتے ہیں :
گلوئے عشق کو دارورسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آئے  ترے سر بلند کیا کرتے(۱۵)

کہو تو ہم بھی چلیں فیضؔ، اب نہیں سردار
وہ فرقِ مرتبۂ خاص  و عام کہتے ہیں (۱۶)
فیضؔ کا ایک مشہور اور معنی خیز شعر جو رومان اور انقلاب کے سنگم  کا بہترین عکاس ہے اس میں بھی فیضؔ نے دار کی علامت استعمال کی ہے ۔ کہتے ہیں :
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے (۱۷)
مذکورہ شعر میں کوئے یار اور سوئے دار محض تراکیب ہی نہیں بلکہ دو الگ اندازِ زیست اور زاویہ خیال ہیں جنہیں شاعر نے دو علامتیں بنا دیا ہے اور یقیناً یہ علامتیں شاعر کی اپنی حیات سے لگا کھاتی ہیں۔
فیضؔ کے ہاں ان علامتوں کے ساتھ ساتھ محتسب، زاہد ،شیخ اور ناصح کی علامتوں کا استعمال بھی کافی ہوا ہے ۔ ان روایتی اور کلاسیکی  علامتوں کو فیضؔ نے روایتی مفہوم میں بھی استعمال  کیا ہےاور خود اپنا ایک انفرادی رنگ بھی شامل کیا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد سیاست، مذہب، معاشرت اور رسومات کے نام پر انسانوں کے بنیادی حقوق کی جو تذلیل کی گئی وہ عام انسانوں سے بھی مخفی نہیں اور پھر شاعر جو معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے اس پر تو ان چیزوں کا ازحد اثر ہوتا ہے اگر شاعر فیضؔ ہو تو یہ علامتیں اپنا ایک الگ رنگ اور مفہوم اُجاگر کرنے لگتی ہیں ۔ یہ علامتیں "زنداں نامہ" میں جس خوبصورتی سے استعمال ہوئی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ مثلاً :
کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی اب جام میں کمتر جاتی ہے (۱۸)
یا پھر شیخ کےروایتی ریاکار اور تنگ نظر مذہبی علامتی کردار کے بارے میں "زنداں نامہ" میں کہتے ہیں :
شیخ صاحب سے رسم و راہ نہ کی
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی (۱۹)
کسی بھی باطنِ صادق رکھنے والے شخص اور بالخصوص فنکار کو شیخ جیسے ریا کار اور تنگ نظر انسان سے تنفر محسوس ہوتا ہے اور فیضؔ نے انہی قسم کے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ شیخ کی طرح فیضؔ نے ناصح کی علامت کو بھی بارہا اور بہت پہلو دار بنا کر استعمال کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
مجرم ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں کا
سوئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں (۲۰)
فیضؔ نے شیخ کی ابن الوقتی اور غیر مستقل رویے کی نشاندہی بھی کی ہے اور بے حد وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ یہ شیخ کوئی ایک مستقل اصول حیات نہیں رکھتا بلکہ دیکھتا ہے کہ جو چیز جس وقت فائدہ دے اسی کو اپنا لیا جائے ۔ چنانچہ کہتے ہیں :
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں، راحتِ جاں ٹھہری ہے (۲۱)
جس طرح شروع میں ذکر کیا گیا ہے کہ باغ، گل و بلبل، چمن،اورگلشن  جیسی علامتوں کہ وغیرہ کی علامتیں دیگر شاعروں کی طرح فیضؔ نے بھی ایرانی تہذیب و ثقافت سے درآمد شدہ علامتوں کے طور پر نہایت پہلوداری کے ساتھ استعمال کیا ہے ، اسی طرح انہوں نے قفس اور زنداں کی علامتیں بھی استعمال کی ہیں۔ ملکی حالات کے تناظر میں بالخصوص فیضؔ کے سیاسی نظریات کے حوالے سے بطورِ خاص قید و بند کی صعوبتیں جو انہوں نے جھیلیں، یہ علامتیں بے حد معنی خیز ہیں۔ اس ضمن میں مذکورہ اشعار ملاحظہ کریں :
ہوئی ہے حضرت ناصح سے گفتگو جس شب
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے(۲۲)

جگہ جگہ پہ تھے ناصح تو کُو بکُو دلبر
انہیں پسند انہیں ناپسند کیا کرتے (۲۳)
محتسب کی خیر زندہ ہے اس کے فیض سے
رند کا ، ساقی کا، مے کا، خم کا، پیمانے کا نام (۲۴)
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے (۲۵)
ملک بننے کے بعد جو حالات پیش آئے ، خواب دیکھنے والی آنکھوں کے خوابوں ، خود ان آنکھوں اور ان آنکھ  والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ،سیاسی خداؤں نے ظلم و استحصال کا جو بازار گرم کیا ،  ملک کے سفینے کو مذہبی، سیاسی اور سماجی نا خداؤں نے جس طرح طوفانوں کے حوالے کیا، خوشیوں اور خوشحالی کے لیے حاصل کرنے والے ملک کو بجائے باغ اور گلشن کے جس طرح زنداں اور قفس میں تبدیل کیا گیا، فیضؔ کے حساس دل و دماغ نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا جب اس ظلم اور جبر کے خلاف انہوں نے آوازِ حق بلند کی تو نتیجے میں انہیں پابندِ سلاسل ہونا پڑا مگر قید و بند اور زنداں بھی ان کا حوصلہ  کم نہ کرسکے ۔ یہی وہ مقام تھا جب انہوں نے قفس اور زنداں نیز سحر، صبح، شام، رات اور صبا وغیرہ جیسی پہلو دار علامتوں کی مدد سےوہ لازوال اشعار کہے جو ان کی شاعری کا حسن اور امتیاز کہلائے ۔ فیضؔ کے ہاں یہ علامتیں سب سے زیادہ استعمال ہوئی ہیں اور ان کلاسیکی تہذیبی اورتمدنی علامتوں کو جو پہلوداری انہوں نے دی، وہ انہی کا طرۂ امتیاز ہے ۔ ان کے مجموعہ ہاےَ کلام دستِ صبا، زنداں نامہ، دستِ تۂ رنگ ، ان علامتوں کے استعمال کی خوبصورت مثالیں ہیں جن میں سے چند ایک اشعار ذیل میں درج کۓ جارہے ہیں :
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آرہے ہیں (۲۶)
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے (۲۷)
چمن یہ غارتِ گلچیں سے جانے کیا گزری
قفس سے آج صبا بے قرار گزری ہے (۲۸)
درِقفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اُترنے لگتے ہیں(۲۹)
صبا نے پھر در زنداں پر آکے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے (۳۰)
پا پھر  شب کی علامت کو کچھ اس طرح استعمال کیا ہے :
اور کچھ دیر نہ گزرے شبِ فرقت سے کہو
دل بھی کم دکھتاہے وہ یاد بھی کم آتےہیں (۳۱)
فیضؔ نے اپنی غزل میں صبح اور صبا کی علامت کو اچھے وقت کی اُمید اور خبر کے معنوں میں بے حد خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔ "دستِ صبا" میں کہتے ہیں :
شاید قریب پہنچی صبح وصال ہمدم
موجِ صبا لیے ہے خوشبوئے خوش کناراں (۳۲)
"زنداں نامے" میں لکھتے ہیں :
لاکھ پیغام ہوگئے ہیں
جب صبا ایک پل چلی ہے(۳۳)
متذکرہ بالا علامتوں کے علاوہ بھی علامتوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔جس کی پہلو داری کو کام میں لا کر  فیضؔ نے اپنی شاعری میں معانی کے لیے جہاں آباد کیے ہیں، ان کی مختصر فہرست ذیل میں دی جاتی ہے :
بادہ کش، بہار، میخانہ، فصلِ گل، دستار، دامنِ یوسف، جنون ، دیوانگی، دیوانہ، کوچۂ دلبر، ساقی، صیاد، ہجر، خزاں، خضر، کلاہِ خسروی، مئے لالہ فام، موسمِ گل، فغاں، بادِ بہار، مقتل، بادِ خزاں، تلاشِ بہار، کوچۂ جاناں، آمدِ صبح، سرگلزار، راہِ یار وغیرہ۔
ان علامتوں میں بادہ کش وہ علامت ہے جو فیضؔ کے اپنے فلسفۂ حیات کے مطابق ہے۔ ان کے ہاں یہ علامت ان باغی اور سرفروش لوگوں کے معنوں میں استعمال ہوئی ہے جو اس دنیا کو ایک نئے نظام کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔ ایسا نظام جس میں ظلم اور جبر کی کوئی بات نہ ہو ، اس حوالے سے ان کا ایک شعر ہے :
کچھ محتسبوں کی خلوت میں،  کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی اب جام میں کمتر جاتی ہے (۳۴)
یا پھر دیوانے کی علامت کچھ  اس طرح استعمال کی ہے :
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام (۳۵)
فیضؔ کی شاعری میں استعمال ہونے والی ایک خوبصورت علامت کوچۂ جاناں ہے۔ اسے انہوں نے ایک آدرش ایک خواب اور ایک نظریۂ حیات کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ زنداں نامے کا ایک شعر ہے :
مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والوں! کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں(۳۶)
مشرقی تہذیب میں دستار فضیلت اور تعظیم کی علامت اور شخصی وقار کی نشانی سمجھی جاتی ہے ۔ اس روایتی اور تہذیبی علامت  کو بھی فیضؔ نے بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔ اپنے پہلے مجموعے نقشِ فریادی میں لکھتے ہیں :
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے (۳۷)
کوچۂ جاناں کی طرح کوچۂ دلبر کی علامت بھی فیضؔ نے بہت منفرد انداز میں استعمال کی ہے ۔
اب کوچۂ دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے (۳۸)
جامۂ صدچاک اور بخیہ گری ایک شعر میں جیسی علائم بھی بہت معنی خیز انداز میں استعمال ہوئی ہیں جس سے شاعر کی حقیقت شناس فطرت اور ذہنیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں :
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیضؔ کبھی بخیہ گری نے (۳۹)
بخیہ گری اُس کٹھن اور دشوار راستے کی علامت ہے جو شاعر  نے اپنے لیے منتخب کیا ہے اگرچہ اس میں انہیں بے شمار صعوبتیں سہنی پڑی مگر راستہ بدلنے کا ارادہ انہوں نے کبھی نہ کیا بلکہ یہ خیال بھی انہیں گوارا نہ ہوا۔
خضر جو ہماری ایک تہذیبی علامت ہے ۔ خضر ایک ایسا شخص جو رہنمائی کا فریضہ ادا کرتاہے لیکن ہماری ادبی تاریخ میں خضر کی علامت ایسے رہنما کےلیے بھی استعمال ہوئی ہے جو رہنما ہوتے ہوئے اس منصب کے وقار کا خیال نہیں رکھتا اور خود ہی راہ سے بھٹکا دیتا ہے۔ فیضؔ   لکھتے ہیں :
لحاظ میں کوئی کچھ دور ساتھ جاتا ہے
وگرنہ دیر میں اب خضر کا بھرم کیا ہے؟ (۴۰)
ان علائم کے علاوہ بھی فیضؔ کے ہاں بہت سی علائم استعمال ہوئی ہیں۔ جو بے حد معنی خیز اور خوبصورت ہیں۔ ان علامتوں  کی خاص بات یہ ہے کہ ابلاغ کا حق بھی ادا کرتی ہیں اور نئے نئے مفاہیم کی طرف رسائی بھی کرتی ہیں ۔
فیضؔ کے علامتی نظام کی پہلو داری اور معنی خیزی نےاُن کی شاعری کو وقیع اور خوبصورت بنایا ہے۔ دراصل فیضؔ نے اپنے لیے جو راہِ حیات چنی اور زندگی میں بطور فنکار اپنا جو حصہ دیا ، اس کی تفہیم کے لیے انھوں نے ایک منفرد علامتی نظام استعمال کیا اور ان علامتوں کے ذریعے واضح کیا کہ ان کا فلسفۂ حیات کیا ہے ، ان کے مطابق فنکار معاشرے کا ذمہ دار ترین فرد ہوتا ہے جسے  کردار ضرور ادا کرنا چاہیے ۔ اس حوالے سے دستِ صبا کے ابتدایے میں لکھتے ہیں :
حیات انسانی کی اجتماعی جدوجہد کا ادراک اور اس جدوجہد میں حسبِ توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے ۔ (۴۱)
فن کے اس تقاضے کو فیضؔ نے کئی ایک وسیلوں سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے اور ان میں ایک اہم وسیلہ وہ علامت نگاری ہے جو ہمیں ان کی شاعری میں نظر آتی ہے ۔
فیضؔ ایک بڑے شاعر تھے جنہوں نے یہ جان لیا تھا کہ دور جدید میں علامت نے سیاسیات، بشریات، عمرانیات اور دوسرے علوم میں اپنی  کلیدی حیثیت منوالی ہے اور بالخصوص ادب اور نفسیات میں علامتوں کے مفاہیم اور مطالب کے  اتنے زاؤیے سامنے آئے ہیں کہ ان کے استعمال سے معانی کی نئی دنیائیں آباد کی جاسکتی ہیں۔ اس ادراک نے فیضؔ کی علامتوں کو آفاقیت کی خوبی دی  اور ایک نےطرز کے پہلودار علامتی نظام کی نشاندہی کی  ۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان علامتوں میں سے اکثر کا تعلق فارسی زبان و ادب نیز ایرانی تہذیب اور روایت سے ہے مگر انہیں استعمال اس طرح کیا گیا ہے کہ ان میں بے ساختگی اور برجستگی پیدا ہوگی ہے ۔ اس حوالے سے وزیر آغا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
"فیضؔ نے فارسی الفاظ کو بالعموم بڑی نفاست سے اس طور پر استعمال کیا کہ وہ دل کی آواز بن گئے۔ "(۴۲)
آغا بابر فیضؔ کی اس لفظ شناسی اور پہلو دار نظام ِ علائم کے ضمن میں لکھتے ہیں :
"اس نے انسانیت کی ان اقدار کے لیے نہایت اعلیٰ بصیرت پائی تھی اور اس بصیرت کو عام کرنے کے لیے اس نے جو الفاظ اور تراکیب استعمال کیں  ، وہ ساری کی ساری غزل کی تھیں اپنی بات کہی تو شعر کے وسیلے سے اور شعر ایسا کہ ترازو میں تلا ہوا۔ الفاظ دمکتے موتی، تراکیب چمکتا سونا، جرأت بے مثال سادگی میں ایک بات کہہ جاتے اور اس ڈھنگ سے کہ غزل حاصلِ مشاعرہ بن جاتی ۔۔۔۔۔ فیضؔ کا کمال یہ تھا کہ وہ غزل کے پردے میں سیاسی بات کہہ جاتے مگر غزل کے الفاظ ، تراکیب، معاملہ بندی اور سارے کے سارے تیور کہیں بھی نہیں بدلتے تھے۔ "(۴۳)
مختصر یہ کہ فیضؔ نے پرانی علامتوں کو نئی اور سیاسی معنویت دی، ساقی، میخانہ، قفس، دار،صلیب، واعظ، محتسب، بہار، خزاں، چمن، ساغر، نامہ بر، گلچیں، آشیانہ، ناصح،اورزاہد کو اپنے محسوسات سے ملا کر پیش کیا اور انہیں نیا مفہوم عطا کیا۔  انہوں نے قدیم روایتی لفظیات اور علامتوں سے معنی کی ایک نئی دنیا آباد کی ۔
علامت  نہ  صرف کسی شاعر کے تخیل کی اختراع ہوتی ہے اور نہ صرف وسیلۂ تزئین بلکہ اس میں کئی معنوی سطحیں ہوتی ہیں جو اپنی تہذیبی اور معاشرتی قدروں سے متعین ہوتی ہیں۔  دراصل لفظ کا ایک social contract  ہوتا ہے چنانچہ سننے والا وہی مراد لے گا جو کہنے والا کہنا چاہے گا۔ اس طرح علامت بھی سماجی اعتبار کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی اس لیے کہا جاتا ہے کہ علامت ایجاد نہیں کی جاتی بلکہ تمدنی ورثےسے وجود میں آتی ہے ۔ فیضؔ نے ان تمام شرائط کو اپنی شاعری کے علامتی نظام میں کامیابی سے برت کر انہیں ایک منفردلیکن پہلودار صورت میں پیش کیا ہے۔

حوالہ جات
1          ابوالاعجاز حفیظ صدیقی  کشاف تنقیدی اصطلاحات                  
2          شارب ردولوی                  جدید غزل میں علامت نگاری               ص ۳۲۸
3          دیوانِ میر                                                                
4          دیوانِ غالب                                                             
5          دستِ صبا                                                                 ص ۹۳
6          زنداں نامہ                                                      ص ۴۵
7          زنداں نامہ                                                      ص ۵۰
8          دست تہِ سنگ                                                              ص ۶۵
9          ایضاً                                                                      ص۵۲
10        زنداں نامہ                                                      ص ۷۰
11        ایضاً                                                                       ص ۶۳
12        ایضاً                                                                       ص۵۸
13        دست تہ سنگ                                                              ص ۶۲
14        ایضاً                                                                       ص ۵۰
15        دست صبا                                                                 ص ۵۲
16        ایضاً                                                                       ص ۵۴
17        زنداں نامہ                                                      ص۷۱
18        ایضاً                                                                       ص ۷۴
19        ایضاً                                                                       ص۴۵
20        دستِ صبا                                                                 ص ۹۰
21        ایضاً                                                                       ص۶۸
22        ایضاً                                                                       ص۳۶
23        ایضاً                                                                       ص۵۱
24        ایضاً                                                                       ص۵۶
25        ایضاً                                                                       ص۶۸
26        نقش فریادی                                                               ص ۸۸
27        دستِ صبا                                                                 ص ۳۶
28        ایضاً                                                                       ص۳۶
29        ایضاً                                                                       ص۳۷
30        ایضاً                                                                       ص۳۹
31        ایضاً                                                                       ص۶۲
32        ایضاً                                                                       ص۹۱
33        زنداں نامہ                                                      ص ۶۰
34        ایضاً                                                                       ص۷۶
35        دستِ صبا                                                                 ص ۵۶
36        زنداں نامہ                                                      ص ۶۵
37        نقش فریادی                                                               ص۷۶
38        زنداں نامہ                                                      ص۷۷
39        دستِ تہِ سنگ                                                             ص۷۵
40        غبارِایام                                                                   ص۳۲
41        ابتدائیہ دستِ صبا                                                         
42        وزیرآغا مضمون "غالب اور فیض" مشمولہ ماہِ نو فیض نمبر ابیادِ فیض، ص ۱۴۲
43        آغا بابر مضمون "دیکھے ہیں ہم نے حوصلے"، مشمولہ ماہِ نو فیض نمبر، بیادِ فیض، ص ۱۴۳ تا ۱۴۵
کتابیات
ابوالاعجاز حفیظ صدیقی ، کشاف تنقیدی اصطلاحات،اسلام آباد،مقتدرہ قومی زبان،۱۹۸۵
انور صابر (ڈاکٹر)، پاکستان میں اُردو غزل کا ارتقاء ،کراچی، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، ۲۰۰۲ء
دیوانِ غالبؔ
دیوانِ میرؔ
شارب ردولوی(ڈاکٹر)جدید غزل میں  علامت نگاری،دہلی،ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس ۱۹۹۶
غلام حسین ذوالفقار(ڈاکٹر)  اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، لاہور ، سنگ میل پبلی کیشنز ۱۹۹۸ء
فیض احمد فیضؔ،          دستِ تہ سنگ، لاہور مکتبۂ کارواں،س ن
            دستِ صبا،  ایضاً
            زنداں نامہ،  ایضاً
غبارِایام،  ایضاً
نقشِ فریادی، ایضاً
ماہِ نو ،(بیاد فیضؔ)، لاہور ،  ادارۂ مطبوعات پاکستان، شمارہ نمبر۱،۲ فروری ۲۰۰۲ء


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com