شاہنامۂ اسلام میں حضرت علی ؓ کے کردار کا تحقیقی اور تجزیاتی مطالعہ


ڈاکٹر ولی محمد۔ لیکچرار، شعبہ اردو جامعہ پشاور۔

ABSTRACT
Shahnama e Islam is a long historical poem written by Hafiz Jalandhari. This poem is capable of great importance in the history of Urdu literature due to its provoking ideas and historical incidents. Apart from these facts the poem also contains unforgettable characters. Hazrat Ali (RA) is one of the importantant characters of shahnama e Islam and historical figure among those who played a key role in Islamic revolution. He was a brave and experienced warrior, devoted to the great cause of his life. In this research paper the researchers has analyzed the personality traits of Hazrat Ali (RA) in the light of Shahanama e Islam and Islamic history.
Key words: Shahnama e Islam, Hafiz jalandhari, Characters, Hazrat Ali (RA), Universality, devotion, sacrifices, moral values
کلیدی الفاظ: شاہنامۂ اسلام،حفیظ جالندھری، کردار، حضرت علی ؓ ،آفاقیت، خلوص، قربانیاں،اخلاقی اقدار
شاہنامۂ اسلام میں موجود تاریخی کردار نہ صرف اپنے دور پر پوری طرح سے چھائے ہوئے تھے ۔بلکہ آنے والے ادوار کو بھی عمل کی حرارت سے نوازتے رہے۔ حفیظؔ  کی دین یہ ہے کہ انہوں نے انہیں پہلی مرتبہ ان کے اصل روپ میں دیکھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ ان کا ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا کہ انہوں نے انسانی تاریخ کے جس دور اور جس انقلابی تحریک کا انتخاب کیا وہ بذاتِ خود اتنی زیادہ متحرک ، فعال اور معنی خیز تھی کہ اس جیسا دوراور اس قسم کی انقلابی تحریک شاید ہی زمانے کی آنکھ نے کوئی اور دیکھی ہو ۔اس تحریک سے تعلق رکھنے والے متحرک کردار اسلامی تاریخ اور روایات کے ڈھیر میں منتشر انداز سے موجود تھے ۔حفیظ نے پہلی مرتبہ ہزاروں صفحات میں بکھرے ہوئے ان کرداروں کو ایک خاص پیکرمیں منقلب کرنے کی کوشش کی ہے۔اسلامی تاریخ کو شاعری میں اس طرح اور اس انداز سے ٹٹولنے کی پہلی باقاعدہ کوشش ہمیں شاہنامے میں ملتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کو ضعیف روایات کے ڈھیرمیں چھپاکر مسلمانوں نے اپنے ساتھ کتنا بڑا ظلم کیاتھا؟جس کا ایک ایک واقعہ اس مردہ قوم میں از سرِنو نئی زندگی ڈال سکتا تھا۔
شاہنامۂ اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک زندہ نظم ہے۔شروع سے لے کر آخر تک اس میں زندگی کی ایک لہر دوڑ رہی ہے ۔اوراس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حفیظؔ نے جس دور، جن واقعات اور جن کرداروں کا انتخاب کیا ہے ،وہ زندگی ،حرکت اور حرارت سے مملو ہیں ۔یہ خصوصیت ان کے تمام کرداروں میں موجود ہے چاہے ان کا تعلق حق سے ہو یا چاہے باطل سے ۔
کردار نگاری کے حوالے سے ایک اہم بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ چاہے ان کا تعلق تاریخ کے کسی دور سے ہو یا شاعر کے تخیل سے۔۔لیکن انہیں عام انسانوں سے منفرد نظر آنا  چاہیے۔تاریخی کرداروں کی صورت میں یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب متعلقہ کرداروں نے اپنی زندگیاں انسانی فلاح و بہبود کے لیے حاصل کیے جانے والے کسی بھی بڑے اور عظیم مقصدکے لیے وقف کردی ہوں ۔ڈرائیڈن کا خیال ہے :
" آدمیوں کے جذبات واقعی شاعری کا موضوع رہے ہیں ۔لیکن ادب کی بلندترین صورتوں میں ان کے گھریلو مقدرات سے زیادہ ان کی شاندار عظمتوں اور بلند بختیوں کا ذکر کیا جاتا رہا ہے ۔۔۔یونانی دور اور الزبتھ کا دور ۔۔۔دونوں کے مصنفین یہ محسوس کرتے ہیں(اگر چہ الزبتھ کے عہد کے مصنفین ٹریجڈی کا نسبتاًکمزور تصوررکھتے تھے )کہ ایڈی پس  ''Oedipus '' ہملٹ ''Hamlet ''اور کنگ لئیر ''King Lear ''قسم کے لوگوں کی زندگیوں کو ہی  ادب کے موضوع کی حیثیت سے منتخب کرنا چاہیئے ۔کیونکہ ان کی داخلی کشمکش''Inner Conflict ''بھی باہر کی زیادہ بڑی دنیا پر اثر انداز ہوتی تھی ۔۔۔اور ان کی عظیم (اگر چہ آج  اس سے بھی اختلاف ممکن ہے )فطرتیں ایک کسان کی فطرت کے مقابلے میں نوعِ انسانی کے مجموعی فکری امکانات کی بہتر نمائندگی کرتی تھیں ۔" ۱؎
شیکسپئیر کے جن کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی حیثیت محض افسانوی ہے ،جن کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ صفحۂ ہستی پہ کبھی مو جود بھی رہے ہیں یا نہیں ؟اس کے برعکس حفیظؔ کے کردار تاریخ کے حقیقی کردار ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ کا دھارا موڑنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جہاں تک ذا تی کشمکش کا تعلق ہے وہ بھی ہمیں حفیظؔ کے کرداروں میں اس لیے زیادہ نظر آتی ہے کہ یہ قدم قدم پر باطل کے ساتھ بر سرِ پیکار رہے ہیں۔
 کرداروں کی ایک خصوصیت ان کا آفاقی قدروں کا حامل ہونا بھی ہے۔ ادب کسی ایک قوم،گروہ، خطے یا کلچر سے تعلق رکھنے والے افراد کی کہانی نہیں ہوتی بلکہ تمام انسانوں کی کہانی ہوتی ہے۔اس وجہ سے اس میں نظر آنے والے کرداروں کی یہ خاصیت ہونی چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ انسا نوں کے لیے قابل قبول بھی ہوں اور انسا نوں کی ایک اکثریت ان سے قدم بہ قدم رہنمائی بھی لے سکے ۔اسی وجہ سے ارسطو نے شاعری کے متعلق کہاتھا کہ یہ عینی اور مثالی چیزوں سے تعلق رکھتی ہے ۔اس لیے اس میں جو لوگ یا کردار آتے ہیں وہ اپنی وقتی اور مقامی سب خصوصیا ت چھوڑ کر تمام انسانی فطرت کی نمائندگی کرتے ہیں۔۲؎
اس مخصوص  حوالے سے جب ہماری نظر شاہنامہ ٔ  اسلام پر پڑتی ہے تو مایوسی نہیں ہوتی ۔اس لیے کہ شاہنامے میں حق کے علمبردار کردار انسان کی فکری اور اخلاقی امکانات کے حوالے سے اپنی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کرداروں میں جو اخلاقی جرأت اور حق کے ساتھ جو ذہنی اور قلبی وابستگی موجود ہے۔وہ اُن کی عظمت پہ دلالت کرتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ان میں سے ہر ایک کردار کے باطن میں حق اور باطل کی ایک نہ ختم ہو نے والی کشمکش جاری ہے۔وہ نفسیاتی حوالوں سے انسانی نفسیات کے اندرونی اُتار چڑھاو کی بخوبی نمائندگی کرتی ہیں ۔اسلامی تاریخ کے یہی غیر معمولی کردار نظم میں فکری رفعت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔شاہنامہ ٔ اسلام کے مرکزی کردار رسول اللہ ﷺ کے علاوہ اس نظم کےاہم کرداروں میں حضرت ابوبکر صدیقؓ ، حضرت عمر فاروق  ؓ ،حضرت حمزہ ؓ ،حضرت علی ؓ ، حضرت ابودجانہ ؓ ، حضرت خبیب ؓ اور حضرت زیدؓ سمیت اور بھی کئی ایک کردار شامل ہیں ۔منفی کرداروں میں ابوجہل ، عتبہ ، ابن عبدود، ابوسفیان ، ابن قمیہ ، ابن حمیداسدی،طلحہ بن عثمان اور ابوکرش کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔جہاں تک حق کے علمبردار کرداروں کاتعلق ہے ان کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک عمل قارئین کوپیروی کی دعوت دیتا ہے ۔تاریخ نے ان کرداروں کو اپنی تمام تر سیاق و سباق اور جزئیات کے ساتھ محفوظ نہیں کیا۔ان کے ان گوشوں کی کھوج لگانا جو تاریخ اور سیرت کے صفحات میں محفوظ نہیں، سعئی لاحاصل کے مترادف ہے ۔بعض مقامات پر کچھ گوشوں کی تخیل کے زور سے بازیافت ممکن بھی ہوجاتی ہے اور شاہنامہ میں کئی ایک مقامات میں یہ عنصر ملاحظہ کیاجاسکتاہے ۔لیکن حفیظ کی نظر میں اہمیت کرداروں کی بنت کو حاصل نہیں بلکہ ان واقعات کی معنویت اجاگر کرنے میں ہے جو اس کے خیال میں اسلامی تاریخ کے ولولہ انگیز واقعات ہیں ۔اس وجہ سے اس نے کرداروں کی تعمیر و تشکیل پر فنی حوالوں سے کچھ زیادہ توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ انہیں احساس ہے کہ ایسی صورت میں تخیل کو کئی ایک جولانیوں کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہےجس کے نتیجہ میں کرداروں کی تاریخی حیثیت مشکوک اور اصلیت مسخ ہوجاتی ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن واقعات اور حالات میں ان کرداروں کو پیش کیا گیا ہے ان سے ذہن میں ان کی مکمل تصویر بڑی آسانی سے بنائی جاسکتی ہے ۔دوسری بات یہ کہ حفیظؔ کو نیکی اور انقلاب کے ان علمبردار کرداروں کے اندر جھانکنے اور ان کی نفسیاتی تحلیل کا بھی موقع میسر نہیں تھا۔یہ شخصیتیں اتنی عظیم ہیں کہ ان پر قلم اٹھاتے ہوئے بہت ہی زیادہ احتیاط سے کام لینا پڑتاہے ۔مبادا کوئی ایسی بات ان سے منسوب ہو جائے جس پر جھوٹ کا احتمال ہو یا تخیل تاریخ کی خلائیں بھرتے بھرتے کہیں عقیدت مندانہ بے اعتدالی کا شکار ہوجائے اور یوں خدانخواستہ سوء ادب کا کوئی پہلو نکلے ۔
شاہنامہ ٔ اسلام میں لشکرِ اسلامی سے تعلق رکھنے والا ہر ایک کردار چاہے اس کا تعلق مہاجرین سے ہو یا پھر انصار سے، ایثار اور قربانی کی ایک لازول مثال پیش کر تا ہے ۔مہاجرین نے اپنا وطن ، اپنی جائیدادیں اور اپنا کاروبار سب کچھ قربان کر دیا تھا اور مدینہ پہنچے تھے اور انصار نے وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی اموال اور جائیداد میں ان کو شریک بناکر بہت بڑی قربانی دی تھی ۔یوں ایثار اور قربانی قدرِ مشترک کے طور پر مہاجرین اور انصار دونوں کے ہاں موجود ہے ۔ہر قسم کی مشکلات کے باوجود حق پر ڈٹے رہنے کا حوالہ بھی اسلامی لشکر کے ہر ایک کردار کے ہاں نظر آتا ہے ۔ان کرداروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قاری کو ان کا تاریخی پسِ منظر معلوم ہو ۔اسے یہ پتہ ہو کہ یہ کردار حق کی طرف کس طرح راغب ہو ئے تھے اور حق قبول کرنے کے بعد کس استقامت سے مسلسل ساری زندگی اس پر ڈٹے رہے ۔اس لیے کہ ان کی پوری زندگی کی تفصیلات اور جزئیات شاہنامہ میں نہیں ملتیں ۔کردار سے ا تنا ہی تعارف ہوتا ہے جتنا کہ منتخبہ واقعہ کی مناسبت سے مناسب ہوتا ہے ۔پھر حفیظ نے ان کی زندگی کے وہ گوشے ابھارے ہیں جن کا تعلق جنگوں سے ہے۔مثلاً حضرت علی ؓ کے کردار میں علم اور حلم جیسی خوبیاں بھی موجود ہیں ۔لیکن ان کی شخصیت میں جرأت اور بہادری کی صفات پر زیادہ فوکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس لیے کہ میدانِ جنگ اور منتخبہ واقعات کا تقاضا یہی تھا ۔
 حضرت علی ؓ کی شخصیت قبولِ اسلام سے لے کر شہادت تک کردار کی عظمت کا ثبوت دیتی نظر آتی ہے ۔آپ ؓ نے اعلانِ نبوت کے بعد بنو ہاشم کے بھرے مجمع میں (جب آ پ کی عمر محض تیرہ برس تھی)برملا آپ ﷺ کی اطاعت اور اسلامی انقلاب کی تحریک میں شمولیت اور مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔اس موقع پر حفیظ حضرت علی ؓ کے کردار کا ایک اہم گوشہ سامنے لاتے ہیں ۔حضورﷺ جب نبوت کا اعلان فرماتے ہیں تو :
یہ سن کر منہ لگے اک دوسرے کا سب کے سب تکنے
ابو لہب لعیں پھر چاہتا تھا اور کچھ بکنے
کہ طفلِ سیز دہ سالہ علی ؓ ابن ابی طالب
رہی جس کی صداقت مصلحت پر عمر بھر غالب
وہ اٹھا اور بولا میں اگر چہ عمر میں کم ہوں
مری آنکھوں میں ہے آشوب گویا چشمِ پُر نم ہوں
بھری محفل میں لیکن آج یہ اعلان کرتا ہوں
کہ میں سچے نبی ؐ  پر جان و دل قربان کرتا ہوں
میں اپنی زندگی بھر ساتھ دوں گا یا رسول اللہ ﷺ
یقیں کیجے کہ قدموں میں رہوں گا یا رسول اللہ ﷺ        ۳؎
رہی جس کی صداقت مصلحت پر عمر بھر غالب ’’حضرت علی ؓ کی شخصیت کا ایک توانا زاویہ ابھارتا ہے ۔اسلام کا اصل الاصول ہی دین کی خاطر ہر قسم کی مصلحت سے ہاتھ دھو کر دل و جان سے اس دستورِ حیات پر عمل پیرا ہونا ہے۔استحکامِ کردار کے لیے یہ ضروری ہے کہ صداقت کے راستے میں مزاحم ہر قسم کی مصلحت قربان کر دی جائے ۔خطرات سے خالی زندگی کو خیر باد کہہ کر خطرات سے بھر پور زندگی کو قبول کر لینا اور عمر بھر یعنی اپنی موت یا شہادت تک اس پر قائم و دائم رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی۔حضرت علیؓ کے لیے کفر کی زندگی میں ہر قسم کی آسائشیں تھیں ۔جان کا کوئی خوف نہیں تھا۔بے فکری تھی۔مکی معاشرے میں قریش ہونے کے ناتے عزت کی نگاہ سے دیکھاجانا تھا ۔وقار قائم تھا۔کوئی مخالفت نہیں تھی ۔غلام تھے ۔ذاتی مفادات کا حصول ممکن تھا۔جان اور مال کی قربانی کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی تھی ۔آزمائشوں اور مصیبتوں سے گزرنا نہیں تھا۔لیکن مادی حوالوں سے ان تمام خوش گوار باتوں کو رد کرکے صرف حق اور صداقت کی خاطر پورے مکی معاشرے سے بغاوت کا اعلان وہ شخص نہیں کر سکتا جواپنے مفادات کی بنیاد پر مسلسل مصلحتوں سے کام لے رہا ہو۔حضرت علی ؓ  کا کردار شاہنامہ ٔ اسلام میں اس کے قبولِ اسلام سے لے کر جنگِ خندق تک برابر موجود ہے ۔شعب بن ابی طالب ؓ میں بھی آپؓ  صبر و ضبط کی ایک مجسم تصویر نظر آتے ہیں :
وہ بچوں کا تڑپنا ماہیٔ بے آب کی صورت
علی ؓ کے ضبط میں غصے کے پیچ و تاب کی صورت   ۴؎
ضبط اور غصہ سے پیچ و تاب کھانا حضرت علی ؓ کے کردار میں موجود جلال و جمال کے ایک حسین سنگم کی طرف اشارہ کرتاہے ۔ان کی شخصیت میں جلال وجمال کا یہ حسین امتزاج اس وجہ سے دیکھنے کو ملا ہے کہ ان کی زندگی محض قاہریت سے عبارت نہیں بلکہ دلبریت کا حوالہ بھی رکھتی ہے ۔اس مقام پر دیکھا جائے تو ایلیڈ کے اکلیز مجسم قاہریت تو ہیں لیکن دلبریت سے مکمل طور پر ناآشنا ہیں ۔لہٰذا ایلیڈ کا اکلیز جلیل تو ہے مگر جمیل نہیں ہے ۔مجسم غصہ اور قہر تو ہے لیکن اس کا غصہ ایک بپھرے ہوئے ہاتھی کا غصہ ہے۔جس میں اطاعت رمق برابربھی موجود نہیں ہے بلکہ غصہ کے نقطۂ انتہا پر وہ دیوتاؤں کے حضور گستاخی کرنے میں بھی پس وپیش کا مظاہرہ نہیں کرتا۔حضرت علی ؓ کے مقابلے میں اس کردار کو رکھا جائے تو اخلاقی  اعتبار سےزمین و آسمان کا فرق معلوم ہونے لگتاہے ۔
حضرت علی ؓ رسول کریم ﷺ کے زیادہ قریبی صحابہؓ  میں سے ایک ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے موقع پر جب حضور کریمﷺ مدینہ کو ہجرت فرماتے ہیں تو حضرت علی ؓ کو ہی اپنے بستر پر ان ہدایات کے ساتھ لِٹا دیتے ہیں کہ وہ اہلِ مکہ کو ان کی امانتیں لوٹا کر بعد میں خود بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرلیں ۔لہٰذا اس موقع پر جو نہی مشرکینِ مکہ کو پتہ چل گیا کہ آنحضرت ہجرت کر چکے ہیں تو انہوں نے حضرت علی ؓ کو پکڑا، حرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور پھر چھوڑدیا۔۵؎جان کو لاحق خطرات کے باوجود ایک اہم فرض کی بجا آوری آپؓ کے ذمہ تھی اور وہ اہلِ مکہ کوان کی امانتیں لوٹاناتھیں۔انہیں یہ درس دینا تھاکہ اسلام حالتِ جنگ میں بھی دشمنوں کے اموال پرناجائز قبضہ جمانے کے حق  میں نہیں ہے ۔
علی ؓالمرتضیٰ بھی تیسرے ہی روز آپہنچے
چلے مکے سے تنہا پاپیادہ تا قبا پہنچے
وہ اہلِ مکہ کو ان کی امانت دے کے آئے تھے
انہیں اسلام کا درسِ دیانت دے کے آئے تھے
ہوئے حاضر تو پا سوجے ہوئے تھے خون جاری تھا
نبی ﷺ کا دیدۂ ہمدرد محوِ اشکِ باری تھا         ۶؎
اتنی بڑی اور نازک ذمہ داری بہادر اور قابلِ اعتبار لوگوں کو سونپی جا سکتی ہے ۔ایک ایسی شخصیت کے بستر پر لیٹنا جو اپنی حق گوئی کی وجہ سے تمام مکہ بلکہ اہلِ عرب کی دشمن بن چکی ہے ، بڑا دل گردے کا کام تھا۔لیکن ایسی شخصیتیں جو کسی نظام کی حقانیت پر دل کی گہرائیوں سے پورے خلوصِ نیت سے ایمان لاتی ہیں ۔ان کے دل سے خوفِ باطل مکمل طور پر ختم ہو جا تا ہے ۔
حضرت علی ؓ  کی شخصیت کا ایک اہم حوالہ شجاعت ہے۔ انہوں نے ہر ایک جنگ میں مخالف لشکر کے نامی گرامی پہلوانوں کا مقابلہ کیا ہے۔مبارزت کے جواب میں تینوں جنگوں میں حضرت علی ؓ مقابلہ کرنے کے لیے ضرور نکلے ہیں۔مثلاً بدر میں عتبہ کی طرف سے انصاریوں پر اعتراض کے نتیجہ میں آپ ﷺ حضرت حمزہ ؓ ، حضرت ابو عبیدہ ؓ اور حضرت علیؓ کو نکلنے کا حکم دیتے ہیں ۔
بڑھے شیروں کی صورت سوئے میدانِ وغا تینوں
علی ؓ، حمزہ ؓ، عبیدہؓ اولیائے مصطفیﷺتینوں
خدائے پاک کی مدح و ثنا کرتے ہوئے نکلے
رَجز پڑھتے ہوئے ، وحدت کا دم بھرتے ہو ئے نکلے          ۷؎
حضرت علی ؓ کی شخصیت میں اطاعت،بے خوفی،خلوص اور فرائض کی بجاآوری کے ساتھ ساتھ شجاعت جیسی صفت بھی شامل ہے ۔ان تینوں جنگوں میں حضرت علیؓ کی تلوار کئی ایک اہم سورماؤں کا خاتمہ کر دیتی ہے ۔مثلاً غزوہ بدر کے موقع پر ولید، احد میں علمبردار طلحہ بن عثمان، صواب غلام بنی عبدالدار، شریح قارظہ ،خندق میں ابن عبدود، جیسے جنگجو اور پہلوان حضرت علی ؓ کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ولید کے ساتھ مقابلہ میں حفیظ نے حضرت علی ؓ کی شمشیر بازی کی بڑی خوبصورت تصویر کھینچی ہے ۔
علی ؓ اس شان سے رد کر رہے تھے اس کے واروں کو
کہ ہوتا تھا تعجب نوجواں پر پختہ کاروں کو
کبھی رد کر دیے جھک کر کبھی خالی دیے ہٹ کر
یہ آگے بڑھ کے منہ پر آگئے وہ رہ گیا گھٹ کر
زرہ بکتر کو الجھن چار آئینوں کو سکتہ تھا
مگر عتبہ کا بیٹا وار کرنے سے نہ تھکتا تھا
مگر اب وار خالی دے کے حیدرؓ  کو جلال آیا
کہ نازک وقت گزرا جا رہا ہے یہ خیال آیا
کیا نعرہ ہمارا بھی تو لے اک وار او کافر!
سنبھل دیکھ آئی یہ اللہ کی تلوار او کافر!
صدائے شیرِ حق سے چھائی ہیبت قلبِ دشمن پر
سپر اٹھنے نہ پائی تھی کہ آئی تیغ گردن پر
نہ پائی دیکھنے والی نگاہوں نے بھی آگاہی
کب اٹھی ، کب گری، کیسے پھری تیغِ ید اللّٰہی      ۸؎
ان کے تلوار کی تیزی و تندی مندرجہ بالا منظر میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔حفیظ کی نظر جنگِ ملغوبہ میں بھی ان مخصوص کرداروں پر ہوتی ہے۔مثلاً بدر میں حضرت علی ؓ ولید کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بعد بھی گم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔بلکہ دادِ شجاعت دیتے نظر آتے ہیں :
ہجومِ اہلِ مکہ نے جہاں غلبہ ذرا پایا
جہاں انبوہ قرشی پہلوانوں کا نظر آیا
بڑھے مشکل کشاؓ  للکار کر ان بد نہادوں کو
لگے زیر و زبر کرنے سواروں کو پیادوں کو
مدد کرنے کو اپنے ساتھیوں کی بار بار آئے
کبھی سوئے یمیں جھپٹے ، کبھی سوئے یسا ر آئے     ۹؎
آپ ؓ کی بہادری کے سبب میدانِ جنگ میں آپ ؓ  کا تعین فوج کے قلب میں ہوتا تھا۔غزوہ ٔ احد میں آپﷺنے حضرت علیؓ کو فوج کے قلب میں رکھا تھا۔ ۱۰ ؎  ۔اسی غزوہ میں عارضی شکست کے نتیجہ میں کفار کا لشکر دَل کے دَل لے کر آپ ﷺ پر حملہ آور ہونے لگا۔ تو پہلے آگے بڑھنے والے غول کو روکنے اور ہٹانے کی ذمہ داری حضرت علیؓ کو دے دی گئی ۔حضرت علی ؓ نے بڑھ کر ان کو منتشر کر دیا۔ ۱۱؎۔جس سے آپ ؓ کی بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتاہے ۔آپ ؓ کی مضبوط تلوار نے بڑے بڑے مغروروں کا سر کچلا ہے ۔مثلاًاحد کے موقع پر طلحہ بن عثمان آگے بڑھا اور پکارا کہ اے اصحابِ محمد ﷺ تمہارا اعتقاد ہے کہ تمہاری تلواریں ہمیں دوزخ میں اور ہماری تلواریں تمہیں جنت میں پہنچا دیتی ہیں۔کون جنت کا مشتاق ہے کہ میری تلوار اس کی آرزو پوری کرے ۔تواس للکار کا جواب دینے کے لیے حضرت علی ؓ صف سے نکلے ۔۱۲؎
مجاہد منتظر تھے بخت کس خوش بخت کا جاگے
کہ اتنے میں علی المرتضٰیؓ صف سے بڑھے آگے
نگاہ ِ مصطفی ﷺ سے مرتضٰی نے حوصلہ پایا
محبت نذر گذرانی ، محبت ہی صلہ پایا
پئے تعظیم جھک کر اور ہادیؐ کی رضالے کر
بڑھے شیرِ خدا میدان میں نامِ خد ا لے کر         ۱۳؎
مقابلہ کے لیے نکلنے سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے سامنے تعظیماً جھکنا اور جنگ کی اجازت مانگنا اور خداکا نام لے کرنکلنا ہمارے ذہن میں حضرت علی ؓ کی شخصیت کاایک خوش گوار تاثر قائم کرتا ہے۔اتنے بہادر لوگ اکثر مغرور بھی بن جاتے ہیں لیکن یہاں عجز کی کیفیت نظر آتی ہے ۔جو دوسرے رزمیوں کے کرداروں میں ناپید ہے ۔یہ وہ عجز نہیں جو کسی منافقت یا تصنع کا نتیجہ ہو ۔بلکہ دل کی گہرائیوں میں اسلامی تعلیمات کو مکمل طور پر جذب کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہو نے والا انکسار ہے ۔طلحہ کی للکار کے جواب میں حضرت علیؓ فرماتے ہیں :
تبسم زیرِ لب فرما کے حید ر ؓ نے یہ فرمایا
ہمارا وقت ابھی دنیا سے جانے کا نہیں آیا
مگر ہاں مضطرب ہے تو بہت دوزخ میں جانے کو
کہ روحیں جانتی ہیں اصل میں اپنے ٹھکانے کو۱۴؎
طلحہ کے غرور کا جواب تبسم سے دینا آپؓ کے اطمینانِ قلب کی عکاسی کرتا ہے۔ طلحہ حضرت علی ؓ سے کہتے ہیں کہ کیاتم میں اتنا حوصلہ ہے کہ تم مجھے دوزخ پہنچاؤگے تو حضرت علی ؓ فرماتے ہیں :
کہا مولیٰ علی ؓ نے ہاں یہی میرا ارادہ ہے
تسلی رکھ تری خاطر درِ دوزخ کشادہ ہے ۱۵؎
باطل کے سامنے ڈٹ جانے کی بنیادی وجہ جرأت کے ساتھ ساتھ اپنے فلسفۂ حیات پر یقینِ کامل بھی ہے۔شہادت چوں کہ مومن کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے اسی وجہ سے مومن ہر باطل قوت کے سامنے بڑی بے خوفی سے ڈٹ جاتا ہے ۔
حضرت علی ؓ کی شخصیت اسلامی اقدار میں پوری طرح سے لپٹی ہوئی ہے ۔مثلاً آپؓ کے حسنِ کردار کا ایک اہم زاویہ آپ ؓ کی شخصیت میں حیا کی موجودگی ہے ۔طلحہ بن عثمان کو مارنے کے بعد چونکہ طلحہ برہنہ ہو گئے تھے۔اس میں ابھی جان باقی تھی کہ آپ ؓ ان کے اوپر انہی کا جھنڈا ڈال کر واپس آئے ۔۱۶؎
حیا پروردہ آنکھیں جھک گئیں دشمن کی ذلت پر
علم اس کا اٹھایا ڈال دی مجروح پر چادر
عدو بھی ہو نہ بے پردہ عجب احساس تھا دل میں
خدا کا خوف تھا دل میں نبی ﷺ کا پاس تھا دل میں           ۱۷؎
خدا کا خوف اور نبی ﷺ کا پاس ، یہ دو بنیادی عناصر مومن کو مغرور نہیں بننے دیتیں اور یہی دو عناصراسلامی اقدار کے گراں بہا سر چشمے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کے فقر کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی ؓ کی شادی کے موقع پر جب رسول اللہﷺ حضرت علی ؓ سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا کچھ ہے ۔حضرت علی ؓ جواب دیتے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔آپﷺ نے فرمایا کہ وہ زرہ کیا ہوئی جوجنگِ بدر میں بطورِ غنیمت تمہارے ہاتھ آئی تھی عرض کیا موجود ہے۔آپ ﷺ نے فرمایالے آؤ۔چنانچہ زرہ بیچی گئی ۔ ۴۱؎۔ اور اسی میں آپ ؓ کی شادی کے تمام اخراجات اُٹھائے گئے ۔
حضرت علی ؓ کی شخصیت میں بہادری اوربے خوفی، اسلامی نظریہ ٔ حیات پر ایمانِ کامل،آپ ﷺ کے لیے محبت، خلوص، احترام ،حیا اور فقر جیسی خوبیاں موجود ہیں ۔ ہجرت کے موقع پر آپ ﷺ کا حضرت علی ؓ پر اعتماد اور اسے اپنے بستر میں لٹا کر امانتیں واپس کرنے کی اہم ذمہ داری سونپنا بھی اس بات کی علامت ہے کہ آپ ﷺ کو آپ ؓ پر کتنا اعتماد تھا۔؟یہ اعتماد اس وقت آتا ہے جب کسی انقلابی شخصیت کو اپنے پیروکاروں کے خلوص پر یقین آجائے ۔ان تمام حوالوں سے حضرت علی ؓ کا کردار قارئین کے لیے پیروی کے کافی توانا حوالے رکھتا ہے ۔

حوالہ جات
۱۔عابد صدیق، مغربی تنقید کا مطالعہ، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، لاہور۔دسمبر ۱۹۹۳۔ص ، ۱۰۲
۲۔ایضاً۔ص، ۱۳۵
۳۔حفیظ جالندھری ، ابولاثر، شاہنامہ ٔ اسلام (جلد اول)مکتبۂ تعمیرِ انسانیت، اُردوبازار، لاہور۔۱۹۹۲۔ص ،۱۴۳
۴۔ایضاً،ص ۱۷۰
۵۔ایضاً،ص ۱۸۸
۶۔ایضاً،ص ۱۹۶
۷۔حفیظ جالندھری ، ابولاثر، شاہنامہ ٔ اسلام (جلد دوم)مکتبۂ تعمیرِ انسانیت، اُردوبازار، لاہور۔۱۹۹۲۔ص ،۷۸
۸۔ ایضاً،ص ۸۱
۹۔ایضاً،ص ۹۲
۱۰۔حفیظ جالندھری ، ابولاثر، شاہنامہ ٔ اسلام (جلدسوم )مکتبۂ تعمیرِ انسانیت، اُردوبازار، لاہور۔۱۹۹۲۔ص ،۷۵
۱۱۔ایضاً،ص ۱۸۷
۱۲۔ایضاً،ص ۱۰۷
۱۳۔ایضاً،ص ۱۰۷
۱۴۔ایضاً،ص۱۰۸
۱۵۔ایضاً،ص ۱۰۸
۱۶۔ایضاً،ص ۱۱۰
۱۷۔ایضاً،ص ۱۱۰


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com