غزل، اعتراضات اور عمرانی مطالعات


ظفر اقبال، پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اُردو،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد
ڈاکٹر طارق محمود ہاشمی، ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ اُردو،گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد

ABSTRACT :
"The inception of criticism on Ghazal coincided with its creation. Initially, this critical paradigm was not in writing but it was in the consciousness of poets. Afterwards, when regular criticism on Ghazal started, the Ghazal was considered the poetry of flower and nightingale; and comb and pigtail for a long time under its notion of conversation with women. The reality is opposite to it and the poets have included this alternative reality into Ghazal after having a serious look on what is happening all around .
In this article, objections aimed at the form of Ghazal will be analysed. After that, the impact of external factors will be analysed in the light of opinions of learned researchers and a practical appraisal of textual chunks ."
Key Words: Ghazal, Criticism, Flower, Nightingale, Comb, Pigtail, External Factors .
غزل ایسی شعری صنف ہے جس سے وابستہ تخلیق کاروں نے تخلیقی عمل کے ساتھ ساتھ تنقیدی معیارات بھی تشکیل دیے۔ یہ تنقیدی معیارات ابتدا میں تحریری صورت میں نہیں بلکہ شعوری صورت میں غزل گوؤں کے ذہن میں موجود تھے۔ ایسے  میں جب غزل تخلیق کی گئی تو وہ مثنوی، قصیدے، مرثیے یا کسی بھی رائج الوقت صنف سے اپنی الگ ہئیتی اور تخلیقی انفرادیت رکھتی تھی۔
غزل کی تنقید کا آغاز تذکروں سے ہو اجو اتنا مربوط اور منظم نہیں تھا۔ تذکرہ نگار متقدمین و معاصرین میں سے جس شخصیت کا ذکر کرتا اس کے معلوم سوانحی کوائف درج کرنے کے بعد چند مخصوص الفاظ میں کلام پر تبصرہ اوراشعار کا انتخاب پیش کرتا۔ تنقید کا یہ انداز اتنا محدود تھا کہ تذکرہ میں مذکور تمام شخصیات کے کلام پر محدود ذخیرۂ الفاظ میں کمی بیشی سے روشنی ڈالی جاتی۔ یہ انداز اور روایت کم و بیش آبِ حیات تک جاری رہی۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ پہلے نقاد تھے جنھوں نے سرسید تحریک کی فکری جہتوں کے زیراثر تنقید کی مضبوط اور مربوط روایت کی بنیاد ڈالی اور ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ میں پہلی دفعہ غزل کے نظریاتی اور عملی مباحث پر قلم فرسائی کی۔ حالیؔ نے اس بحث میں جہاں غزل پر کچھ اعتراضات کیے وہاں چند معقول اور مناسب مشورے بھی دیے، جن میں غزل کے موضوعات کا دائرہ کار سیاسی اور معاشرتی مسائل و معاملات تک پھیلانے کی بابت بھی رائے دی۔ حالیؔ کے بعد اُردو تنقید کا وہ در وا ہو جس میں آج تک زمانے کے حسب حال ضروری و غیر ضروری اضافے کرنے کی روایت جاری ہے۔
اُردو میں دیگر اصنافِ سخن کی نسبت غزل سب سے زیادہ لکھی جانے والی صنف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا تنقیدی معیار بھی دیگر اصناف کی نسبت زیادہ سخت رہا۔ غزل کی مدافعت و مخالفت میں جو کچھ اور جتنے شدو مد سے کہا گیا کسی دوسری صنف کے بارے میں ویسا سوچا بھی نہیں گیا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ غزل میں اتنی جان ضرور تھی کہ تمام تر سختیوں کو برداشت اور کڑے معیار ات پر پورا اُترتے ہوئے آج بھی شہرت اور دوام کا سہرا سر پہ سجائے ہوئے ہے۔
غزل پر جن صاحبانِ فکر و نظر نے اعتراضات کیے ان میں حالیؔ کا غزل کے اشعار میں موضوعاتی عدمِ تسلسل پر اِلّا ماشاء اللہ، نظم طباطبائی کا معترض اور معترف قلم، عظمت اللہ خاں کا غزل کو نظم بنانے کا سانچہ اور گردن زنی کرنے والی تلوار، جوش ملیح آبادی کی اشعار کو مربوط کرنے والی زنجیر اور کلیم الدین احمد کا نیم وحشی انداز برابر حملہ آور ہوتارہا۔
اس سے قبل کہ آگے بڑھا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان اعتراضات کی نوعیت کا جائزہ لیا جائے اور ممکن جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے حالیؔ سے رجوع کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کو اوّلیت بھی حاصل ہے اور بعد کے بیشتر معترضین نے کسی حد تک انھی کے اعتراض کی جگالی کی ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں:
’’غزل میں جیسا کہ معلوم ہے کوئی خاص مضمون مسلسل بیان نہیں کیا جاتا۔ اِلّا ماشاء اللہ۔ بلکہ جدا جدا خیالات الگ الگ بیتوں میں ادا کیے جاتے ہیں۔‘‘(۱)
حالیؔ نے غزل کے اشعار میں موضوع کے عدمِ تسلسل پر سوال اٹھایا ہے اور اس سوال کی نوعیت ایسے ہے جیسے دنیا کی تمام چیزوں میں تسلسل تلاش کیا جائے جو یقینا ممکن نہیں۔ لیکن اس عدم تسلسل کو تسلسل میں اس طرح بدلا جا سکتا ہے کہ ہر چیز کو اپنے اپنے دائرے میں رکھ کر ایک بڑا دائرہ لگا دیا جائے جس میں تمام چیزیں اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے بھی ’’گلوبل ویلج‘‘ کا نقشہ پیش کریں گی۔ یہی صورتِ حال غزل کی ہے جس میں تمام اشعار اپنی انفرادیت کے باوجود وسیع دائرے میں ایسی کہانی پیش کرتے ہیں جس میں زندگی کے بیشتر پہلو سمٹ آتے ہیں۔
نظم طباطبائی نے جو اعتراضات کیے ہیں ان میں نمایاں اعتراض قافیے اور ردیف کی پابندی ہے۔ اس اعتراض کا جواب آج تک لکھی جانے والی غزلوں میں بہتر انداز میں دیا چکا ہے جن میں اس پابندی کے باوجود زندگی کا کون سا فلسفہ ہے جو بیان نہیں ہوا؟ کون سا پہلو ہے جس پر روشنی نہیں ڈالی گئی؟ مزید یہ کہ وہ جتنے غزل کے معترض ہیں اتنے ہی معترف بھی ہیں جس کی ایک مثال ’’شرح دیوان غالب‘‘ ہے۔
عظمت اللہ خاں نے غزل کی مخالفت میں بے جا سخت لہجہ اختیار کیا ہے جس میں انھوں نے قافیے اور ردیف کی قید پر اعتراض کرتے ہوئے غزل کی گردن اڑا دینے کی بات کی ہے۔ اِس اعتراض کا جواب دینے سے قبل اُس نظم کا حوالہ دینا ضروری ہے جس کی حمایت میں وہ تلوار لے کر غزل کے پیچھے پڑ گئے۔ نظم کے دو بند ملاحظہ ہوں:


ہائے وہ صورت پیاری

بڑی بڑی آنکھیں کالی

 

چکنے چکنے بال بھی کالے

ہونٹ رسیلے ، امرت والے

وہ تندرستی کی لالی

 

گال گلابی ، روئی کے گالے

________


اٹھتا جوبن گدرا گدرا

آپ ہی من میں کھب جائے

 

لوچ بدن میں پھولوں کی ڈالی

ایک گھلاوٹ یکسر چھائی

بے ساختہ جی للچائے

 

موہنی مورت ، موہنے والی(۲)

ان دونوں بندوں میں جتنے لفظ حسنِ محبوب کی ترجمانی پہ ضائع کیے گئے ہیں اس سے کم لفظوں میں بہتر مفہوم ادا کرنے کی کئی مثالیں درمیانے درجے کے شعرا کے ہاں بھی مل جاتی ہیں۔ لہٰذا ایسی نظم کی ضرور گردن اڑا دینی چاہیے جس پر وقت کا ضیاع بھی ہو اور شعری لطافت بھی مفقود ہو۔ شاید ایسی ہی نامقبول شاعری سے متعلق سلیم احمد نے لکھا تھا کہ:
’’یہ خیال تو بہت ہی عام ہے کہ یہ ناکام قسم کی ناقابلِ توجہ شاعری ہے جو چند ایسے مغرب زدہ لوگوں نے شروع کی ہے، جو اپنی تہذیب اور شعر و شاعری کی روایت سے ناواقف ہیں، یا اس روایت میں کوئی قابلِ قدر اضافہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔‘‘(۳)
جوشؔ ملیح آبادی کا اعتراض یہ ہے کہ غزل کے تمام اشعار عموماً ایک ہی وقت میں تخلیق ہوتے ہیں اور ایک ہی وقت میں تخلیق کردہ غزل میں مختلف اور بعض اوقات متضاد خیالات کی جلوہ فرمائی غیر فطری ہے۔ اس کے ساتھ کورانہ تقلید کے معترض اور تنگنائے غزل کے حامی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ غزل میں مختلف اور بعض اوقات متضاد جذبات کی ترجمانی بھی ملتی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کوئی بھی انسان ایک ہی طرح کے جذبات کا حامل نہیں ہے بلکہ مختلف جذبات کا مجموعہ ہے جن کا کسی ترتیب و تنظیم میں ظاہر ہونا لازمی نہیں۔ انسان ہنستے ہوئے رو بھی سکتا ہے اور روتے ہوئے ہنس بھی سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ہر نئی تخلیق سے کسی نئے جذبے کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ ہر تخلیق، تخلیقی عمل کا تسلسل ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی ماں ایک سے زائد بچوں کو جنم دیتی ہے تو ہر بچے کی پیدائش پر اس کے کسی نئے جذبے کی تسکین نہیں ہوتی بلکہ ہر بچہ اُس کے ماں بننے کے عمل کا تسلسل ہوتا ہے۔ دوسرا اعتراض تکرارِ مضامین کا ہے جس میں جوشؔ کو شاید غلط فہمی ہوئی ہے کیوں کہ غزل کی روایت میں تکرارِ مضمون سے زیادہ تکرارِ علامات ہے جن کے مفاہیم حالات و واقعات کے ساتھ بدلتے گئے۔ اقبالؔ اور فیضؔ کی علامات مثال کے طورپرپیش کی جا سکتی ہیں۔ تیسرا اعتراض تنگنائے غزل کا ہے جس میں غالب سے استفادہ کیا گیا ہے۔ غالب نے جس غزل میں تنگنائے غزل کا ذکر کیا ہے اس میں انھوں نے نواب تجمل حسین خاں کی تعریف کی ہے اور وہ جتنی تعریف نواب کی کرنا چاہتے تھے اتنی نہیں کر سکے۔(۴) اور کر بھی کیسے سکتے تھے کیوں کہ یہ اعزاز غزل کا نہیں قصیدے کا خاصا ہے۔ اس لیے غزل کو قصیدے کا متبادل سمجھنا نادانی ہے۔
کلیم الدین احمد نے بھی عظمت اللہ خاں کی طرح سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے غزل کو نیم وحشی صنف ادب قرار دیا۔ اس اعتراض کے پیچھے ان کا فلسفہ یہ ہے کہ غزل کے تمام اشعار جذبے کی فوری تسکین کے لیے تخلیق کیے جاتے ہیں اور فوری تسکین میں جذبے کی تہذیب ممکن نہیں۔ لہٰذا جذبے کی تسکین میں تہذیب کی عدم موجودگی وحشی جانوروں کی صفت ہے اس لیے غزل بھی نیم وحشی صنف ادب ہے۔اس کے جواب میں بھی جوش ملیح آبادی کے ضمن میں مذکور مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ مزید تسلی کے لیے ڈاکٹر عبادت بریلوی کے الفاظ میں یوں جواب دیا جا سکتا ہے:
’’غزل کے بارے میں یہ خیال قائم کر لینا کہ وہ احساس کی وقتی شدت یا جذبے کی برانگیختگی کے نتیجے میں تخلیق ہوتی ہے، صحیح نہیں ہے۔ تخلیق کا عمل بڑ اپیچیدہ ہے۔ غزل کا شاعر کسی ایک خارجی واقعے سے متاثر ہوتا ہے اور اس واقعے کو اس کی شخصیت کا جزو بننے میں خاصی مدت صرف ہوتی ہے۔ جب خارجی واقعے کا یہ خام مواد اس کی شخصیت کا جزو بن جاتا ہے اس کے بعد غزل کی تخلیق ہوتی ہے۔‘‘(۵)
غزل کے ان معترضین میں سے بیشتر مغرب زدہ تھے جو مغربی نظم اور مغرب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کو غزل تو کیا مشرق کی ہر چیز بری لگنے لگی۔ ان کی اسی مغرب پسند اور مشرق گریز طبیعت سے متعلق سلیم احمد لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں نزلہ عضوِ ضعیف پر گرتا ہے لیکن اُردو شاعری کی پچھلی سو سالہ تاریخ میں عضوِرئیس پر گرا ہے یعنی غزل پر۔ غدر کے ہنگامے میں انگریزوں سے مار کھانے کے بعد روشن خیال مسلمانوں کو اپنی جو چیز سب سے بری لگی وہ یہی بدنام صنفِ سخن تھی۔ روشن خیال مسلمانوں سے میری مراد ان بزرگوں سے ہے جنھیں آگے چل کر اس بات پر شرم آنے لگی کہ ان کے مذہب نے چار شادیوں کی اجازت کیوں دی ہے۔‘‘(۶)
ان معترضین کے علاوہ ترقی پسند تحریک کو بھی عموماً غزل مخالف تحریک سمجھا جاتا ہے جس کی دو وجوہات میں سے اوّل بعض ترقی پسند ناقدین کی تمام کلاسیکی شعری سرمائے پر کڑی تنقید اور دوم ترقی پسند شعرا کا اپنے تحریکی مقاصد کے لیے نظم کو وسیلۂ اظہار بنانا ہے۔ اس بات میں صداقت نہیں جس کی تائید ترقی پسند تحریک کے سرخیل سیّد سجاد ظہیر کے اس بیان سے ہو جاتی ہے:
’’غزل یا کسی بھی صنفِ شعر یا شعر کے کسی بھی فارم کو برا بھلا کہنے یا اس کو رد کرنے کا سوال اُٹھانا ہماری رائے میں غلط ہے۔ ایک اچھا اور حساس فنکار جب کسی شاعرانہ پیکر کی تخلیق کرتا ہے تو اس کے لیے مناسب اور موزوں فارم کو چن لیتا ہے۔ یہ فارم غزل کا ہو سکتا ہے۔ مثنوی، مسدس، قطعے، رباعی کا یا پھر آزاد یا نظم معریٰ کا۔‘‘(۷)
اگر کسی ایک جگہ غزل پر کیے جانے والے تمام اعتراضات کا خلاصہ بیان کر کے اور چند سوالات اٹھا کے اعتراضات کا جواب دینا اور سوالات کا جواب لینا ہو تو سلیم احمد کا ایک قدرے طویل اقتباس معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پتا نہیں کہ یہ بات اونٹ پر کوئی الزام ہے یا نہیں کہ اس کے کوہان ہوتا ہے اور سینگ نہیں ہوتے لیکن غزل پر یہ اعتراض ضرور ہے کہ اس میں تسلسل نہیں ہوتا یا انتشار ہوتا ہے۔ عشق و عاشقی کے مضامین ہوتے ہیں، شمع ہوتی ہے، پروانہ ہوتا ہے۔ بلبل ہوتی ہے ، گل ہوتاہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ردیف اور قافیہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس الزام کا جواب اس طرح دیا کہ مسلسل غزلیں لکھنے لگے یا مربوط مضامین اختیار کیے۔ بعض نے عشق و عاشقی کو طلاق دی اور سیاست کو گھر میں ڈالا۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ شمع اور پروانہ، گل و بلبل کی جگہ نئی علامتیں لائے اور یوں بھی ہوا کہ لمبی لمبی ردیفیں پرانے لکھنؤ یا بگڑتی ہوئی دہلی کے سپرد ہوئیں اور یار لوگ غیر مردّف غزلیں کہنے لگے۔ مجھے اصلاحِ طوائفاں کی تحریک پر اعتراض نہیں ہوا تو اصلاحِ غزل پر کیوں ہو۔ یہ سب کچھ تو بہت اچھا ہوا لیکن پوچھنے کی ایک بات پوچھی نہیں گئی۔ غزل میں یہ سب خامیاں ہیں تو یہ کم بخت صنفِ سخن اب تک عروسِ سخن کیوں بنی رہی ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ ہماری زبانوں میں شاعر کی ابتدا اور انتہا اسی پر ہوتی ہے؟‘‘(۸)
یہاں تک کی جانے والی تمام تر بحث غزل پر کیے جانے والے اعتراضات اور حتی المقدور ان کے جواب دینے سے متعلق تھی۔ اب غزل کی مدافعت کی جانب بڑھتے ہیں اور اس ضمن میں طوالت سے بچنے کے لیے غزل کے مباحث پر سنجیدہ تحریریں لکھنے والے رشید احمد صدیقی، یوسف حسین خاں، سلیم احمد، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر وزیر آغا جیسے اہم ناموں میں سے صرف رشید احمد صدیقی کا ایک بیان نقل کیا جاتا ہے تاکہ بحث طول بھی نہ پکڑے اور تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آسکے۔ لکھتے ہیں:
’’غزل جتنی بدنام ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے۔ شاعری کا ذکر آتے ہی میرا ذہن غزل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ غزل کو میں اردو شاعری کی آبرو سمجھتا ہوں۔ ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہوئی ہے۔‘‘(۹)
غزل کی ہیئت سے اب مواد کی بحث کی جانب بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ مواد کی بحث میں کیا کچھ کہا گیا ہے اور حقائق کیا ہیں؟
ابتدا سے آج تک غزل پر کی جانے والی موضوعاتی تنقید کا بیشتر حصہ غزل کے ایک مفہوم ’’سخن بازناں‘‘ سے متعلق ہے اور اسی ایک مفہوم ہی کو سامنے رکھ کر غزل میں استعمال ہونے والی علامات عشق، عاشق، معشوق، شراب، ساقی، جام، مے خانہ، محتسب، زاہد، واعظ، ناصح، گل، بلبل وغیرہ کو لغوی معنی تک محدود کر کے غزل کے دائرہ کار کو بھی محدود کر دیا گیا اور اگر غزل گو شعرا نے ان روایتی علامات کو سیاسی، سماجی، تہذیبی، تاریخی اور تمدنی موضوعات کی تصویر کشی اور حالات کا تجزیہ پیش کرنے کے لیے استعمال کیا تو بھی ناقدین نے ان علامات کو لغوی تعبیر و تفسیر تک محدود رکھا۔ غزل کی معنوی تحدید کرنے میں جن اکابرین نے اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سے نجم الغنی رام پوری کی ایک رائے ملاحظہ ہو:
’’غزل میں سوائے ذکرِ شباب و کباب، خال و خط، شاہدِ رعنا، شکوۂ الم مفارقت، ذکرِوصال، بیانِ جفاے فلک، خوے بد معشوق کے اور قسم کے مضمون، مثل نصیحت و معرفت، وعظ و پند وغیرہ کے زیبا نہیں۔‘‘(۱۰)
یہی تحدید غزل کی فکری حدود کو محدود کرتی رہی اور ناقدین غزل انھی حدود میں رہ کر تشریح و تعبیر کرتے رہے۔ یہی وہ زاویۂ نظر تھا جس کی تائید میں مجنوں گورکھ پوری نے شاعری میں روحِ عصر کے مفقود ہونے کا ذکر کیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اُردو شاعری میں یہ عنصر (روحِ عصر) کم نہیں، بلکہ سرے سے مفقود تھا۔ کسی شاعر کو اپنے ماحول اور زمانے سے کوئی سروکار نہیں رہا۔ اُردو کا کوئی شاعر نہیں جس کے کلام کو پڑھ کر ہم اس کے زمانے کی معاشرت اور سماجی حالات کا کوئی اندازہ کر سکیں۔ ہاں اگر شاعر قصیدہ گو ہوا تو زیادہ سے زیادہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس بادشاہ کے زمانے میں تھا یا کس دربار سے توسُّل رکھتا تھا۔‘‘(۱۱)
یہی وہ زاویۂ نگاہ تھا جس میں شاعری گل و بلبل اور کنگھی چوٹی کی روداد معلوم ہونے لگی۔(۱۲) جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی کیوں کہ ’’آدمی زندگی سے لاکھ بے تعلق ہونا چاہے مگر خود زندگی اپنے حقائق کے ساتھ ذہن کے دریچوں سے شخصیت کے قلعہ میں در آتی ہے۔۔۔(اور) ہر فنکار اپنی انفرادیت اور مخصوص افتادِ طبع کے باوصف اپنے گردوپیش کی دنیا سے متاثر ہوتا ہے۔(۱۳) تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھنے کے لیے چند اقتباسات درج کیے جاتے ہیں۔ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار شعرا کی گردوپیش سے بے خبری کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’دلّی کے اردو شعرا نے اپنے عہد کی سیاسی اور سماجی زندگی کے سرسری سے ذکر پر ہی قناعت نہیں کی بلکہ اس زندگی کے مختلف پہلوؤں پر تنقید و تبصرہ بھی کیا ہے، جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اردو شعرا اپنے ماحول سے غافل یا بے گانہ نہیں تھے اور نہ ہی وہ اپنے ماحول کے تماشائی یا محض ترجمان تھے بلکہ وہ اپنے عہد کے نقاد بھی تھے۔ انھیں اپنے عہد کی سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی، معاشرتی بے راہ روی، اخلاقی پستی اور انسانی قدروں کی بیخ کنی کا دوسروں سے کچھ زیادہ ہی شدید احساس تھا۔‘‘(۱۴)
خان رشید گل و بلبل کی تکرار اور اس کی حقیقت یوں بیان کرتے ہیں:
’’قدیم اُردو شاعری پر یہ اعتراض کہ وہ گل و بلبل کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی اور شعرا بالعموم ماحول، معاشرے اور گردوپیش سے آنکھیں بند کیے رہتے ہیں۔ حقائق کے ایک سرے سے خلاف اور محض بے بنیاد ہے۔ ادبا اور شعرا ہمیشہ حساس دل اوردوررس نگاہ کے حامل رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں یہی ان کا طرۂ امتیاز ہے اور یہی وہ آگہی اور بصیرت ہے جو طبائع میں ناصبوری اور فکر میں تعمُّق پیدا کرتی ہے۔ اُردو شاعری کسی دور میں بھی اِس سے بے گانہ نہیں رہی۔‘‘(۱۵)
ڈاکٹر تنویر احمد علوی بھی کلامِ ذوقؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے ذوقؔ کی غزلوں میں اسی طرح کے عمرانی عناصر کی نشان دہی کرتے ہیں:
’’یہ غزل کے شعر ہیں ان میں کچھ جانی پہچانی روایتیں اور علامتیں ہیں اس پر بھی ذوقؔ کے عہد کے سیاسی حالات سے واقف کوئی شخص ان اشعار سے سرسری نہیں گزر سکتا۔ کیا ان شعروں میں دم توڑتی ہوئی مغل تہذیب، دہلی کی مٹتی ہوئی شہنشاہیت، بیرونی اقتدار کے بڑھتے ہوئے سائے، دورِ حاضر کی اختراعی کیفیت اور قلعہ اور قلعے سے باہر کی زندگی کے درمیان کش مکش کا کوئی عکس، تاثر یاتصور موجود نہیں؟ کیا ذوقؔ ان تمام واقعات، سیاسی حادثات اور وقت کی افتاد سے بے گانہ وار گزرے ہیں؟‘‘(۱۶)
ذوقؔ، جو حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے وظیفہ خوار اور بے اختیار بادشاہ کو ’’شاہِ عالمیانِ عالم‘‘ کہتے تھے اگر ان کے کلام کی یہ کیفیت ہے تو غیر جانبدار شعرا کے واقفِ حال ہونے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ الغرض یہ چند قدرے طویل مگر ضروری اقتباسات کنگھی چوٹی والے تصور کی یقینا نفی کرتے ہیں اور شاعری میں سیاسی، سماجی اور عمرانی تصورات کے موجود ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں اور ہمارے ذہنوں پر پڑی گرد صاف کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
شاعری کو عمرانی تناظر میں دیکھنے کی جو چند سنجیدہ کوششیں ہوئیں ان میں غلام حسین ذوالفقار کا مقالہ ’’اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر‘‘ سیّد ابوالخیر کشفی کا ’’اُردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر (۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ء) خان رشید کا ’’اردو شاعری کا تاریخی اور سیاسی پس منظر‘‘ سیّد محمود الرحمن کا ’’جنگِ آزادی کے اُردو شعرا‘‘ محمد حسن کی کتاب ’’دہلی میں اُردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر (عہد میر تک)‘‘ ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین کی ’’سماجی شاعری (آزادی سے قبل اور بعد کے عبوری دور پر نظر)‘‘ اور ڈاکٹر شہناز بیگم کی ’’اُردو شاعری میں مغل سلطنت کے زوال کی عکاسی‘‘ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
شاعری کے اس مجموعی عمرانی تناظر کے علاوہ چند اصنافی اور شخصی مطالعات بھی لائقِ تحسین ہیں۔ جن میں معین احسن جذبیؔ کا ’’حالیؔ کا سیاسی شعور‘‘ ڈاکٹر افصح ظفر کا ’’اکبر الہ آبادی۔۔۔ ایک سماجی و سیاسی مطالعہ‘‘ ڈاکٹر صدیق جاوید کا ’’فکرِ اقبال کا عمرانی مطالعہ‘‘ نعیم السحر صدیقی کا ’’جوش کی شاعری کا فکری اور سماجی مطالعہ‘‘ اور ڈاکٹر سید قمر عابدی کا ’’تقسیم کے بعد جدید اُردو مرثیے کا تہذیبی و تاریخی مطالعہ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
مذکور عمرانی مطالعات میں ترتیب و تنظیم، تاریخی تحدید، موضوعاتی، اصنافی اور شخصی انفرادیت شاعری میں وسیع عمرانی تناظر کی موجودگی کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے جس کا مطالعہ ان محققین نے ماقبل کی جگالی کر کے نہیں بلکہ اپنے ذاتی نقطہ نظر کی روشنی میں کیا ہے۔ ذیل میں شاعری کے مجموعی مطالعات (شخصی اور اصنافی کو چھوڑ کر) کی ابواب بندی کا ذکر خلاصہ جات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ہر عمرانی محقق کی انفرادیت کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شاعری میں موجود عمرانی عناصر کی ایک جھلک دیکھی جا سکے۔
غلام حسین ذوالفقار نے دکنی دور کی ابتدائی شاعری سے لے کر آزادی (۱۹۴۷ء) سے بعد تک کی شاعری کا مطالعہ، معروف شعرا، اہم تاریخی واقعات اور علاقائی ابواب بندی کے تحت کیا ہے۔سیّد ابوالخیر کشفی نے اورنگ زیب عالمگیر (م۱۷۰۷ء) کے عہدسے جنگ آزادی (۱۸۵۷ء) تک کی شاعری کا اہم تاریخی واقعات، معروف شعرا، ان کے سلاسلِ تلامذہ، انتزاعِ سلطنتِ اودھ، سیّد احمد شہید کی تحریکِ جہاد اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کی روشنی میں خصوصی مطالعہ پیش کیا ہے۔ خان رشید نے اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے پہلے کی شاعری کا عمومی اور اس کے بعد ۱۸۵۷ء تک کے معروف بادشاہوں کے ناموں کے تحت منقسم ابواب میں خصوصی عمرانی جائزہ لیا ہے۔سیّد محمود الرحمن نے اہم واقعات اور معروف تحریکوں کو بنیاد بنا کر شاعری پر خارج کے اثر انداز ہونے کی کہانی بیان کی ہے۔ محمد حسن نے عمرانی موضوعات کے تحت شاعری کو دیکھا ہے۔ ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے ہندوستانی تمدن کا جائزہ مجموعی اور علاقائی تقسیم کے تحت پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر عزیز نے عمرانی اجزا کے تحت شاعری کا عمرانی تجزیہ پیش کیا ہے جب کہ ڈاکٹر شہناز بیگم نے مغلیہ سلطنت کو روبہ زوال کرنے والے اہم تاریخی واقعات کو بنیاد کر اُردو شاعری میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی عکاسی کی داستان رقم کی ہے۔
ان تمام مطالعات کے عناوین اور ابواب بندی کے خلاصہ جات کی قدرے طویل مگر ضروری تفصیل سے اس دعوے کی مزید تائید ہو جاتی ہے کہ شعرا ’’نے اپنے فکر و فن کو گل و بلبل کی مدح سرائی تک محدود نہیں رکھا بلکہ برعظیم کی تباہی و بربادی کا جو مشاہدہ و مطالعہ انھوں نے کیا تھا، اس کا نقشہ بلاکم و کاست اپنے کلام میں پیش کر دیا‘‘(۱۷) ہے۔
یہ تمام حوالے بغیر کسی تخصُّص کے تمام اصنافِ شاعری میں عمرانی عناصر کی نشان دہی سے متعلق ہیں۔ اب آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ غزل، جس پر آپ بیتی اور ذاتی جذبات و احساسات کی ترجمانی کا اعتراض کیا جاتا ہے۔ واقعی صرف آپ بیتی ہے یا’’یہ واقعات کے بجائے ان سے حاصل شدہ نتیجوں کو آپ بیتی کے لہجے میں بیان کرتی ہے۔‘‘(۱۸) اس ضمن میں سیّد ابوالخیر کشفی کی رائے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شہر آشوب کے ساتھ ساتھ غزل کے فارم میں شاعروں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ۱۸۵۷ء کے اثرات دل و ذہن پر اتنے گہرے مرتسم ہوئے تھے کہ شعرا اسی جذباتی صنف کا سہارا لے سکتے تھے۔ وہ خود اس واقعہ سے متاثر ہوئے۔ اسی لیے دلّی کا ذکر انھوں نے دل کی زبان سے کیا ہے۔‘‘(۱۹)
اس دعوے کی تصدیق کے لیے غزل کے چند عمرانی محققین اور عمرانی مطالعات  کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ محققین کی آراء اور مطالعات ہمارے موقف کی کتنی تائید کر سکتے ہیں۔
غزل میں خارجی عناصر کی جلوہ فرمائی کے حوالے سے (گزشہ صفحات میں مذکور مطالعات کے علاوہ) جو چند اہم مطالعات پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سعد اللہ کلیم کا مقالہ ’’اُردو غزل کی تہذیبی و فکری بنیادیں‘‘ پروفیسر محمد حسن کی کتاب ’’اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ‘‘ اور خواجہ منظور حسین کی ’’اردو غزل کا خارجی روپ بہروپ‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
سعد اللہ کلیم نے غزل پر خارج کے اثر انداز ہونے اور اس کے نتیجے میں شعرا کے مذہبی فکر و فلسفہ میں ہونے والی تبدیلی پر سیر حاصل بحث کی ہے اور مذہب چونکہ کسی نہ کسی حد تک انسانی فطرت کا لازمہ ہے اس لیے یہ مطالعہ عمرانی موضوعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتا لہٰذا اس کے تفصیلی مطالعہ سے گریز کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ پروفیسر محمد حسن کی کتاب اگرچہ خالص غزل کے موضوع پر نہیں بلکہ نظم و نثر کی سماجیاتی تاریخ ہے تاہم اس میں غزل کے متعلق جو تقریباً چونتیس (۳۴) صفحات لکھے گئے ہیں وہ قابلِ توجہ ہیں۔
محمد حسن نے غزل میں استعمال ہونے والی علامات پر خارج کے اثر انداز ہونے اور ان کے مفاہیم میں گزرتے وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں پر فکر انگیز گفتگو کی ہے۔ انھوں نے عہدِ حاضر تک پہنچ کر روایت کا درجہ حاصل کر جانے والی علامات کے در آنے سے متعلق جو حقائق پیش کیے ہیں، وہ متاثر کن ہیں۔ غزل میں علامات کے بدلتے تناظر اور ان میں چار چار (طرفیں) جہتوں کی موجودگی کے دعویٰ میرؔ کی تائید وہ یوں کرتے ہیں:
’’غزل کی علامتیں اپنے دور کی کہانی اپنے انداز میں بیان کرتی ہیں، ان کے پیچھے عوامل و محرکات کا ایک جہان آباد ہے۔ بے انصافی ہو گی اگر علامتوں کے لغوی معنوں سے گمراہ ہو کر یہ سمجھ لیا جائے کہ اُردو غزل صرف عشق و عاشقی یا شراب ہی کی شاعری ہے اور گہرائی، بصیرت اور آگہی سے خالی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان علامتوں کے پردے کے پیچھے کارفرما سماجی محرکات، تاریخ اور تہذیب کے وہ شواہد ہیں، جن کی مدد سے ہم اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں اور اپنے طرزِ احساس کی تشکیل کرنے والے عوامل و محرکات کی شناخت کر سکتے ہیں۔‘‘(۲۰)
روایتی علامتوں کے پیچھے کارفرما سماجی، تاریخی اور تہذیبی عوامل کے اس دعوے کی مزید توثیق اور چند علامات کی تفہیم ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے اس بیان سے بھی ہو جاتی ہے:
’’شاعر جہاں گلستان، باغ چمن اور آشیاں کا ذکر کرتا ہے تو صاف ظاہرہوتا ہے کہ وہ کنایتہ اپنے ملک و وطن اور گھر بار کا ذکر کررہا ہے اسی طرح ظالموں، قاتلوں، لٹیروں اور غارت گروں کو کبھی گل چیں اور کبھی صیّاد کے لقب سے یاد کرتا ہے اور چمن کے باسیوں کو غنچہ، گل، پھول، پھل اور بلبل سے تشبیہ دیتا ہے اور اسی طرح دورِ امن و خوش حالی کو بہار سے اور دورِ انتشار و اضطراب کو خزاں سے۔‘‘(۲۱)
محمد حسن کے مطابق باغ اور متعلقاتِ باغ کی علامات کا وردو شاہی محلات کے پائیں باغ سے ہوا۔ گویا باغ کی بہار سلطنت اور تہذیب کے مراکز شاہی محلات کی بہار تھی اور خزاں صرف باغ کی خزاں نہ تھی بلکہ سلطنت اور تہذیب کے مٹنے کی علامت تھی۔
گذشتہ صفحات میں مذکور شاعری کے مجموعی عمرانی مطالعات میں سے چند ایک کے غزل کے عمرانی مطالعات کا اجمالی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ غزل پر خارجی اثرات کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی نہ رہے بلکہ اس کے عملی نمونے بھی سامنے آسکیں۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے ’’اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر‘‘ میں دکنی دور سے آزادی (۱۹۴۷ء) کے بعد تک کی شاعری کو بنظرِ غائر دیکھا ہے اور بڑی تفصیل اور وضاحت سے غزل اور دیگر اصنافِ سخن میں سماجی اور تاریخی عوامل کی نشان دہی کی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے وسیع تاریخی مطالعے کے تناظر میں تمام نو ابواب میں تاریخی حقائق و واردات کو نہایت ہی خوب صورت اور دل چسپ  پیرائے میں بیان کرنے کے بعد عمرانی اجزا کے ذیل میں مذکور عہد کے تمام معروف شعرا کے ہاں سے اتنی امثال پیش کر دی ہیں کہ کسی طرح کی تشنگی کا احساس باقی نہیں رہتا۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ہر شاعر کی پیش کردہ امثال میں اتنے واضح اشارے ہیں کہ ان میں مذکور تاریخی، سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ ایسے تمام اشعار کو پڑھتے ہوئے فاضل محقق کو دادِ تحقیق دیے بغیر چارہ نہیں کہ جس طرح سے انھوں نے غزل اور غزل گو شعر ا پر خارجی حالات سے آنکھیں بند کرنے کے اعتراض کو مسترد کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مذکور موضوعات اور منتخبہ اشعار میں اس قدر موضوعاتی ہم آہنگی ہے کہ ان اشعار کا کوئی دوسرا مفہوم مذکور مقام کے علاوہ نظر ہی نہیں آتا۔ چند نمونوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
دل اور دلّی کی مماثلت کے ذیل میں غزل پر عمرانی اثرات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ابدالی اور درانی کے حملوں سے دلّی کی شکست و ریخت کا نقشہ اشعارِ میرؔ سے یوں پیش کرتے ہیں:
دل و دلّی دونوں اگر ہیں خراب
پہ کچھ لطف اس اجڑے گھر میں بھی ہے

یا
دیدۂ گریاں ہمارا نہر ہے

دل خرابہ جیسے دلّی شہر ہے(۲۲)

آگے چل کر لکھنؤ کے سیاسی حالات کی شاعری میں عکاسی کے حوالے سے ’’سیاسی حالات‘‘ کے ذیل میں ہندوستان سے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور استحصالِ زر سے بدتر ہونے والی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کرنے کے بعد مصحفیؔ کا یہ شعر درج کرتے ہیں:
ہندوستاں  میں دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی
کافر فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی(۲۳)

دوسرا اہم اور سنجیدہ مطالعہ سیّد محمد ابوالخیر کشفی کا ہے جس میں مغلیہ سلطنت کے نصف النہار (۱۷۰۷ء) سے غروب آفتاب (۱۸۵۷ء) تک کی شاعری کے سیاسی اور تاریخی پس منظر کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ یہ مطالعہ شاعری میں صرف تاریخی حالات کی بازیافت کے حوالے ہی سے اہم نہیں بلکہ مختلف حالات اور ادوار میں تشکیل پانے والے نظریات کے مطالعے کے حوالے سے بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔
سیّد محمد ابوالخیر کشفی نے اپنے موضوع کے روایتی تقاضے سے بغاوت کرتے ہوئے ذرا مختلف نوعیت کی ابواب بندی کی ہے۔ انھوں نے اپنے موضوع کی تحدید (۱۷۰۷ء تا ۱۸۵۷ء) کے دور کا تفصیلی، تاریخی جائزہ پیش کرنے کے بعد میر جعفر زٹلّی سے لے کر دبستانِ دہلی اور لکھنؤ کے تمام بڑے شعرا، ان کے سلاسلِ تلامذہ، سیّد احمد شہید کی تحریکِ جہاد، انتزاعِ سلطنتِ اودھ اور ۱۸۵۷ء کے واقعات کو بنیاد بنا کر شاعری کو تاریخی اور سماجی حالات کے تناظر میں دیکھا ہے۔
سیّد ابوالخیر کشفی نے جہاں دیگر اصنافِ شاعری میں عمرانی عناصر کا کھوج لگایا ہے وہیں غزل کی روایتی علامات میں تاریخی اور سیاسی عناصر کو بھی دریافت کیا ہے۔ چند مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
میر عبدالحئی تاباںؔ جن کی کثرتِ شراب نوشی کے باعث عین جوانی میں موت میرؔ جیسے شعرا کے لیے بھی چھاتی کا داغ تھی، نے اپنی غزلوںمیں میرؔ ایسے شاعر سے بھی زیادہ واضح انداز میں اپنے دور کے ہنگاموں کو بیان کیا ہے۔ تاباںؔ بیشتر اوقات غزل کی رمز و ایما کے بجائے علی الاعلان واقعات کے پس منظر کو بیان کرتے ہیں۔ نادری حملے کی تباہ کاریوں اور ہندوستانی حکمرانوں کی نااہلیوں کا تذکرہ ان کی شاعری میں بہ کثرت ملتا ہے۔ سیّد ابوالخیر کشفی نے تاباںؔ کے ان حالات اور شاعری کا تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے یہ اشعار درج کرتے ہیں:
داغ ہے ہاتھ سے نادر کے مرا دل تاباںؔ
نہیں مقدور کہ جا چھین لوں تختِ طاؤس
__________
دیکھ کر ان کے تئیں شاہ بھی مردی پکڑے
ہو شجاعت کا اگر جزو امیروں کے بیچ
_________
طرح اسکندر کے تاباںؔ شاہِ ہفت اقلیم ہو

اب اگر جرأت کرے یہ خسروِ ہندوستاں(۲۴)

مومن خان مومنؔ کی شاعری پہ ان کی عاشقانہ مزاجی کا ٹھپہ لگ چکا ہے اور ان کی شاعری میں ناقدین کو ماسوائے تغزل اور شوخی کے، کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ سیّد ابوالخیر کشفی نے مومنؔ کی غزلوں سے غدر سے پہلے کے عہد کی بھرپور عکاسی کے ثبوت پیش کیے ہیں۔ مومنؔ کی جہادیہ مثنوی تو علی الخصوص ایک خارجی تحریک کا اثر تھی جبکہ ان کی غزلوں کے اشعار میں بھی اس تحریک اور غدر سے پہلے کے سیاسی حالات کی ترجمانی ملتی ہے۔ سیّد ابوالخیر کشفی نے مومنؔ کی شاعری کا عمومی عمرانی جائزہ پیش کرنے کے بعد غزلوں کے ذیل میں لکھا ہے:
’’مومنؔ کی غزلوں میں غلامی کے ان مرحلوں کے علاوہ صیّاد کا ایک تصور ملتا ہے جو ہمارے ذہن میں بدیسی حاکموں کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس صیّاد میں تخلیق اور ظلم اتنا نہیں ہے جس قدر مکاری اور چالاکی ہے اور مکاری بھی ایسی جو لطف کے پردے میں چھپی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صیّاد روایتی نہیں ہے اور یہی صیّاد ہمیں کافر صنم کے روپ میں بھی ملتا ہے:
بندے ہیں ہم صیّاد کے ، کہتا ہے کس کس لطف سے
گر ہو سکے راہِ چمن ، اے رُستگانِ دام لو
__________
ہر ستم صیّاد کا کیا التفات آمیز تھا
بند کرنے کو قفس میں دام میں چھوڑا ہمیں(۲۵)

سیّد ابوالخیر کشفی کی یہ رائے اور اشعار کا انتخاب اس نتیجے پر پہنچنے میں یقینا معاون ثابت ہوتا ہے کہ مومنؔ حسن و عشق ہی کے شاعر نہیں تھے بلکہ اپنے عہد کے ایسے حکیم تھے جو دور سے آتے مریضوں کو دیکھ کر ان کے باطنی امراض کی تشخیص کر سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ۱۸۵۷ء سے پہلے ہی انگریزوں کی سوچ کی پیشین گوئی کر دی تھی۔
دونوں مطالعات سے پیش کردہ امثال ایسے شعرا کی ہیں جن کے ہاں عموماً غم، حسن و عشق اور شباب و شراب کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ایسی امثال انتخاب کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر ان شعرا کے ہاں ایسی امثال موجود ہیں تو خارجی ماحول کے بارے میں قدرے سنجیدہ رویّہ رکھنے والے شعرا کے ہاں تو اس کے نمونے یقینا نکھرے ہوئے انداز میں ہوں گے۔
یہ تمام امثال ایک اشارہ ہیں اور اس مقالے میں ان کی حیثیت اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہے جب کہ دونوں فاضل محققین (غلام حسین ذوالفقار اور سیّد محمد ابوالخیر کشفی) نے نہایت ہی جانفشانی سے تاریخی کتب اور کلاسیکی شاعری کے دواوین کی چھان پھٹک کر کے ممکن حد تک اپنے موضوعات سے انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ دونوں مطالعات اور گزشتہ صفحات میں مذکور تمام مطالعات تفصیلی مطالعے کے متقاضی ہیں جس کا بار، ظاہر ہے یہ مقالہ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن میں اتنا ضرور عرض کروں گا کہ یہ اندازِ نظر مذکور اکابرمحققین کی طرف سے نئے محققین و ناقدین کے لیے ایک دعوت نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس پر لبیّک کہنے والے کلاسیکی شاعری کے عمرانی مطالعات سے اس کی جہات میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر سکتے ہیں اور اچھے موضوعات کی کمی کا رونا رونے والے نئے محققین اپنے اندازِ فکر سے بابِ تحقیق کو نئے سرے اور نئے انداز میں وا کر سکتے ہیں اور شاید ایسے ہی محققین اور ناقدین کے بارے میں فراقؔ گورکھ پوری نے کہا تھا:
’’پرانی شاعری کو اچھا یا برا کہ کر ٹال دینے سے کام نہیں چلتا۔ غوروتامل سے اسے پڑھنا ہے اور اس سے مانوس ہونا ہے۔ خاص کر پرانی غزلوں سے جو شخص اچھی طرح مانوس نہیں اس نے اُردو کیا پڑھی اور وہ بھی کیا سمجھے گا؟ خوش نصیب ہیں نئی نسل والوں میں اور نئے ادب کے قدرشناسوں میں وہ لوگ جو پرانی غزلوں کے سمندر میں ڈوب کر ایسے ایسے موتی نکال لاتے ہیں جن کی آب و تاب کو وقت دھندلا نہیں سکا۔‘‘(۲۶)
ان مباحث کے تناظر میں یہ کہنا بہت مناسب ہوگا کہ غزل پر آپ بیتی اور خارج سے آنکھیں بند کرنے کے جو الزامات لگائے گئے ان میں صداقت نہیں اور میں نے حتّی الامکان اکابرین کی آراء اور عملی نمونوں سے ایسے تصوّرات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی شاعری میں اور بھی بہت کچھ ہے جس کا کھوج لگانے کے لیے ایسے ماہر غوطہ خوروں کی ضرورت ہے جو بحرِ شاعری سے گوہرِ آب دار نکال سکیں۔ لیکن اس کام کو سرانجام دینے کے لیے وسیع مطالعے اور کھلے ذہن کی ضرورت ہے اگر یہ دونوں خوبیاں ہمارے نوجوان محققین میں ہوں تو یقینا کلاسیکی شاعری کے مطالعے سے ایسے ہیرے تراش سکتے ہیں جن کی آب و تاب محدود نقطۂ نظر اور وقت کی گرد میں دب چکی ہے۔

حوالہ جات
۱۔      حالی، الطاف حسین، مقدمہ شعرو شاعری، لاہور: مکتبہ دین و دنیا، س ن، ص۱۱۸
۲۔     عظمت اللہ خاں، سریلے بول، حیدر آباددکن: حیدر آباد بک ڈپو، ۱۹۴۰ء، ص۹۱
۳۔     سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، مرتبہ: جمال پانی پتی، کراچی: اکیڈمی بازیافت، ۲۰۱۹ء، ص۳۱۹
۴۔     احتشام حسین، سید، اعتبارِ نظر، لکھنؤ: کتاب پبلشرز، ۱۹۶۵ء، ص۹۹
۵۔     عبادت بریلوی، ڈاکٹر، غزل اور مطالعۂ غزل، کراچی: انجمن ترقی اُردو، ۱۹۵۵ء، ص۲۱
۶۔     سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، ص۸۷
۷۔     سجاد ظہیر، سید، مضامین سجاد ظہیر، لکھنؤ: اترپردیش اردو اکادمی، ۱۹۷۹ء، ص۱۳۔۱۲
۸۔     سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، ص۴۱۸
۹۔     صدیقی، رشید احمد ،جدید غزل، علی گڑھ: سرسید بک ڈپو، ۱۹۶۷ء، (اشاعت دوم)، ص۱۱
۱۰۔    نجم الغنی رامپوری، بحر الفصاحت (جلداوّل)، مرتب: سید قدر ت نقوی، لاہور: مجلس ترقی ادب، س ن، ص۲۰۲،۲۰۰
۱۱۔     مجنوں گورکھ پوری، ادب اور زندگی، لکھنؤ: ایوانِ اشاعت، س ن، ص۱۰۹
۱۲۔    چک بست، برج نارائن، مضامین چک بست، الٰہ آباد: انڈین پریس لمیٹڈ، ۱۹۳۷ء، ص۲۵۹
۱۳۔    کشفی، ابوالخیر ،سید، اُردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، س ن، ص
۱۴۔    ذوالفقار، غلام حسین ،اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء، ص۱۲۳۔۱۲۲
۱۵۔    خان رشید، اُردو شاعری کا تاریخی اور سیاسی پس منظر (غیر مطبوعہ مقالہ)، حیدر آباد: یونیورسٹی آف سندھ، س ن، ص۶۴
۱۶۔    تنویر احمد علوی، ڈاکٹر، ذوق۔ سوانح اور انتقاد ، لاہور: مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۴ء، ص۲۱۴
۱۷۔    محمود الرحمن، سید شاہ، جنگ آزادی کے اُردو شعرا (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) (غیر مطبوعہ مقالہ برائے پی ایچ ڈی) جام شورو (سندھ): جامعہ سندھ، ۱۹۷۹ء، ص۵۰
۱۸۔    محمد حسن ، اُردو ادب کی سماجیاتی تاریخ، نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، ۱۹۹۸ء، ص۱۸۶
۱۹۔    کشفی، ابوالخیر ،سید، اُردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر، ص۹۲۔۹۱
۲۰۔   محمد حسن، پروفیسر، اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ، ص۱۱۸
۲۱۔    ذوالفقار،غلام حسین ، اُردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر،ص۱۲۵
۲۲۔   ایضاً، ص۱۲۸
۲۳۔   ایضاً، ص۲۴۲
۲۴۔   کشفی، سید محمد ابوالخیر، اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ص۱۴۷
۲۵۔   ایضاً، ص۵۴۔۲۵۳
۲۶۔    فراقؔ گورکھ پوری، اندازے، الہ آباد: ادارہ انیس اُردو، ۱۹۵۹ء، ص۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com