فکرِ اقبال کا ایک مابعد الطبیعیاتی دریچہ (اردو نظموں کے تناظر میں )


ڈاکٹر  انور الحق لیکچرر  شعبہ اردو  جامعہ پشاور
ڈاکٹر پروین خان  اسسٹنٹ  پروفیسر  انسٹیوٹ آف  ایجوکیشن  اینڈ ریسرچ جامعہ پشاور

ABSTRACT:
Dr. Iqbal was very fond of metaphysics. That's the reason he presented metaphysical characters of Hoor, Khizer, Imam Mehdi, Ahraman , Yazdan and Iblees/satan in his poetry.He discussed some of very important universal theories through these characters. One of the splendid examples is his poem Fatima bint AbdAllah..Iqbal admires the role of Fatima in the battle of tripoli and calls her Hoor .e. Sahraai (the innocent and untoldably beautiful heavenly creature),and a magnificant date palm tree planted by Abd.Ar.Rahman in his spectacular gardens of  Spain was entitled as Hoor .E. Arab. Moreover the character of Khidher (AH)is presented in one of his well-known poems(Khidher.E.Raah)very impressively. Khizer (AS) palys a dramatic role in the poem. By this poem Dr Iqbal draws light upon the Nomadic characteristics of a wandering soul( khidher (A.S),the reality of life ,demerits of monarchy, class struggle between the capitalists and the labourers and their differences on  economic grounds, The troubles of Muslim world, the defeat o f Turks by the betrayal of Arabs .In fact all the worldwide burning issues are discussed in the poem. Another mentionable role is Imam mehdi. According to Dr .Iqbal the idea of Superman presented by a German Philosopher Nietzsche ,actually follows the muslims ' concept of Imam Mehdi. But he ruined it with his atheistic approach. Another metaphysical character is Iblees/satan. Through this character he proved the adversity of monarchy, and so called Western adversity of monarchy, and so called Western democratic system, Iqbal is of the opinion that materialism ,socialism, communism, And fascism Is actually the part of the satanic regime and can do no good to the world except  destruction. The only way for the world's betterment and peace is to follow the rule of Islamic system and by implementing the teachings of the Prophet(SAW).The following article discusses all the above mentioned issues in detail.
خلاصہ: اقبال کو ساری عمر مابعدالطبیعیات سے غیر معمولی دلچسپی رہی اس لیے انھوں نے حور، خضر،مہدی ،اہرمن،یزداں ،لات ،منات اور ابلیس جیسے کردار وں کو اپنی نظموں میں استعمال کیا اور مذکورہ کرداروں کے ذریعے متعدد اہم موضوعات پر بحث کی ،علامہ نے اپنی نظموں میں فاطمہ بنتِ عبداللہ کو حور ِ صحرائی اور  عبدالرحمٰن اول کے بوئے ہوئے کھجور کے درخت کو حور عرب کہا،اس کے علاوہ خضرؑ کے کردار کو اپنی معروف نظم ’’خضرراہ‘‘ میں ایک ڈرامائی انداز میں پیش کیا اور اس کے ذریعے ، خضر ؑ کا صحراؤں میں پھرنا ،زندگی کی ماہیت ،ملوکیت کی حقیقت ،سرمایہ دار اور مزدور کی آویزش ، عالمِ اسلام کے مصائب اور عربوں کی غداری  سے ترکوں کو پسپائی ، جیسے اہم اور سنجیدہ موضوعات پر بحث کی۔اقبال نے مہدی کے کردار کو بھی اپنی اردو نظموں کا حصہ بنایا اور دعویٰ کیاکہ جرمن فلاسفر  نطشے نے’’سپر مین‘‘کا تصور ،مسلمانوں  کے اہم تصور ’’تصور مہدی ‘‘ سے لیا  لیکن اسے اپنے  الحادی رویوں سے مسخ کر لیا۔اس کے علاوہ  مابعدالطبیعیاتی کرداروں میں ابلیس کے کردار کا  استعمال بھی متعدد مقامات پر کیا اور ایک وسیع تر،مذہبی سماجی اور فلسفیانہ انداز میں ابلیس کے کردار کو  استعمال کرتے ہوئے ثابت کیا کہ خون خوار ملوکیت ،نام نہاد مغربی جمہوریت ،مادیت، سوشل  ازم ،کمپونزم اور فاشزم  اصل میں سارے  ابلیسی نظامات ہیں  جو پوری دنیا کے لیے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ، اور پوری دنیا  کے انسانو ں  کی فلاح صرف اور صرف خالص اسلامی  نظام اور آئیں پیغمبرﷺ کے نفاذ  میں ہے زیرِ نظر  آرٹیکل میں مذکورہ بالا تمام مباحث پر مفصل بحث ہوگی۔
کلیدی الفاظ: مابعد الطبعیات ، حور ، خضر ، یزداں،  اہرامن  ، ملوکیت، مہدی ، ابلیس، مادیت ،  سو شل ازم ، عالم اسلام۔
مابعد الطبیعیاتی کردارواں میں  علامہ کی نظموں میں ’’ حور ‘‘ کا کردار  متعدد مقامات پر مستعمل ہے، حور کا کردار اردو شاعری کے لیے کوئی نیا کردار نہیں کیوں کہ حور کا حسن ایک آفاقی صداقت کی حیثیت رکھتا ہے، اِس لیے شعرا عموماً اپنے محبوب کو حور سے تشبیہ دیتے ہیں، بلکہ بعض اوقات وہ اُنھیں حور سے بھی زیادہ حسین ٹھہرالیتے ہیں، علامہ نے راویتی شعرا کے روش سے ہٹ کر حور کے کردار کے پردے میں مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی۔ حور کا کردار پہلی دفعہ ’’ بانگِ درا ‘‘ کی نظم ’’ عشق اور موت ‘‘ میں آیا ہے،جس میں اُنھوں نے ابتدائے آفرینش کی مرقع نگاری کرتے ہوئے اُٹھنے والی کالی گھٹا کو حور کی چوٹی سے تشبیہ دی ہے،اِس کے بعد ’’ بانگِ درا ‘‘ ہی کی معروف نظم ’’ محبت ‘‘ میں، محبت کی عظمت و رفعت اور طہارت و پاکیزگی کا ذکر کرتے ہوئے محبت کے اجزا یوں بیان کیے ہیں کہ محبت کے خمیر کی تیاری میں کارکنانِ قضا و قدر نے تارے کی چمک، چاند کا داغِ جگر، شب کی برہم زلفوںکی تیرگی، ملک کی عاجزی، تقدیرِ شبنم کی افتادگی اور شانِ ربوبیت کی بے نیازی لی، اس میں بجلی کی تڑپ اور حور کی پاکیزگی کو باہم آمیز کیا اور محبت جیسا انمول جذبہ تیار کیا۔
اِس کے علاوہ بانگِ درا کی  نظموں ’’ نوائے غم ‘‘ اور ’’ عشرت امروز‘‘ میں اقبال نے انسانی فطرت کی بلندی کو غم آشنائی پر موقوف ٹھہرایا، مؤخر الذکر نظم میں جوانی کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے عیشِ فردا کی بجائے ’’ عشرتِ امروز ‘‘ کو جوانی کی عین فطرت کے مطابق قرار دیا، اور  یہ مضمون انہوں نے ’’حور‘‘ کے کردار کے پردے میں ادا کیا۔
حور کے کردار کا بہترین استعمال ’’ بانگِ درا ‘‘ کی نظموں ’’ شکوہ ‘‘ اور جوابِ شکوہ ‘‘ میں پایا جاتا ہے۔
جس میں علامہ کہتے ہیں کہ کافر بھی اگر ’’مسلم آئیں‘‘ ہو جائے تو حور و قصور کا حق دار ہو گا اور مسلماں کافر آئین ہو جائے تو حق دار ہونے کے باوجود بھی حق سے محروم ہوگا۔
اِس کے علاوہ ’’ بانگِ درا ‘‘ کی نظم ’’ فاطمہ بنتِ عبد اللہ ‘‘ میں فاطمہ بنتِ عبداللہ کے لیے علامہ نے ’’ حورِ صحرائی ‘‘ کا استعارہ استعمال کیا ہے اور نظم ’’ عبدا لرحمٰن اوّل ‘‘ کا بویا ہواکجھور کا پہلا درخت سرزمینِ اندلس ‘‘ میں مذکورہ ’’درخت ‘‘ کو ’’ حورِ عرب ‘‘ کہا ، جب کہ نظم ’’ ملا اور بہشت ‘‘ میں علامہ نے علمائے سو پر طنز کےتیر و نشتر برساتے ہوئے حور کے کردار کے استعمال سے فائدہ لیا:
مذکورہ نظم میں ’’ مُلا ‘‘ پر علامہ نے بوجوہات خاص گہری چوٹیں لگائیں، حور کے کردار سے علامہ نے جو مضامین نکالے وہ گذشتہ صفحات میں بیان ہو چکے جو یقینا قابلِ غور ہیں۔
مابعد الطبیعیاتی کرداروں میں اقبال نے خضر ؑ کے کردار کو متنوع اور معنی آفریں انداز میں متعدد مقامات پر اپنی نظموں کا حصہ بنایا ، ’’ بانگِ درا ‘‘ کے حصہ اول و دوم کی نظموں ’’عقل و دل، التجائے مسافر، فلسفۂ غم، ایک خط کے جواب میں اور مسلمان اور جدید تعلیم‘‘ میں خضر ؑ کا کردار ایک روایتی انداز میں برتا گیا ہے، لیکن حصہ سوم کی آخری نظموں میں علامہ کی مشہورِ زمانہ نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ میں خضر ؑ کے کردار کو جن وُسعتوں، ندرتوں اور تابانیوں کے ساتھ استعمال کیا گیا وہ یقیناً قابلِ داد ہے۔ اِس کے علاوہ ’’ بالِ جبریل ‘‘ کی ایک رباعی اور نظم ’’ جبریل و ابلیس ‘‘ کے علاوہ ’’ ارمغانِ حجاز ‘‘ کی طویل نظم کے بارہویں حصے کے آخری شعر میں بھی خضر ؑ کا کردار مستعمل ہے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ’’ اقبال کی فکر جدید دُنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم مسائل، افکار اور تحریکات کی باز گشت محسوس ہوتی ہے۔‘‘۔(۱) اِن افکار، مسائل اور تحریکات کے بیان کے لیے اقبال نے مختلف شاعرانہ کرتبوں کو استعمال کیا، نظم ’’خضرِ راہ ‘‘ میں ایک تمثیلی انداز میں، اُنھوں نے تمام عالمِ انسانی کو خضر ؑ کی زبانی ’’ ضمیرِ عصر ‘‘ میں منقلب ہونے والی تمدنی، تہذیبی اور سیاسی پیچ و تاب کی انگڑائیاں دکھائی ہیں، ’’خضر راہ‘‘ میں خضر ؑ کے کردار پر بحث سے قبل مذکورہ نظم کا مختصر پسِ منظر درج کرنا نا گزیر ہے۔
نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ علامہ اقبال نے انجمنِ حمایتِ اسلام لاہور کے ’’ ۳۷ ‘‘ ویں سالانہ جلسے منعقدہ : ۱۶/ اپریل : ۱۹۲۲ء میں ترنم سے پڑھ کر سنائی ۔۔۔ اس زمانے میں دُنیائے اسلام کی حالت بد سے بد تر ہو چکی تھی، جنگِ عظیم دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی، سلطنتِ عثمانیہ بکھر گئی تھی، عرب دُنیا مختلف ٹکڑوں میں بٹ چکی تھی، اعلان بالفور (:۱۹۱۷ء ) کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں صیہونی ریاست کے قیام کے لیے بنیادیں فراہم کر دی تھی،ترکی کا اندرونی خلفشار بڑھ گیا تھا، مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے انقرہ میں متوازی حکومت قائم کر لی تھی، برائے نام خلافت چند دنوں کی مہمان نظر آتی تھی، بیرونی دباؤ بھی کم نہ تھا، اِدھر ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ رحم تھی۔‘‘۔(۲) مذکورہ تمام حالات کے تناظر میں اقبال نے خضر ؑ ( جن کی علمیت کے سامنے علمِ موسٰی بھی حیرت فروش ہے ) کے سامنے یہ چند سوالات رکھے، کہ تو صحرا نوردی کیوں کرتا ہے؟، زندگی کی حقیقت کیا ہے؟، سلطنت یا ملوکیت کیا چیز ہے، سرمایہ اور محنت میں( سرمایہ دار و مزدور ) میں یہ آویزش کیسی بپا ہے؟، عالمِ اسلام کو مصائب نے کیوں گھیر رکھا ہے؟ یہ کیا عجب بات ہے کہ بادشاہ تو آئے دن مرتے رہتے ہیں لیکن ملوکیت اب تک زندہ ہیْ، عرب قوموں نے میراثِ خلیلؑ اغیار کے ہاتھوں بیچ ڈالی اور اس کی قیمت کلاہِ لالہ رنگ ( خلافتِ ترکی ) کی پسپائی و رسوائی کی صورت میں و صول کر لی۔ درج بالا سوالات پر اگر غور کیا جائے تو یہ سیاسی سطح پر ’’مغربی امپرئلزم‘‘ اور تہذیبی سطح پر ’’مغربی تہذیب‘‘ کے خون خوار رویّوں کی بے نقابی کی کامیاب کوشش ہے۔
خواجہ خضرؑ کی زبانی زندگی کی ماہیت، سرمایہ و محنت کے خروش، سلطنت کی حقیقت اور مشرق، با الخصوص ’’دُنیائے اسلام‘‘ کی غلامی کے باب میں اقبال جس اندازِ فکر و عمل کو پیش کرتے ہیں، اسے اگر ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو ’’انقلاب‘‘ کا نام دے سکتے ہیں، زندگی، سوز و ساز، آرزو مندی، خودی، تسخیرِ فطرت، سامراج دشمنی اور انقلابی اسلام کے جو تصوّرات، اقبال کی بعد کی شاعری اور نظامِ فکر میں بتدریج اور اساسی حیثیت اختیار کرتے ہیں، ان کی اولین نقش گری ’’ خضرِؑ راہ ‘‘ میں نظر آتی ہے، شاید اسی حقیقت کے پیشِ نظرعزیز احمد نے ’’ خضرِ راہ‘‘ کو اقبال کی انقلابی شاعری کا نقطۂ آغاز قرار دیا ہے۔‘‘۔(۳)
اقبال نے خضر ؑ کے کردار کو تلمیح کی تنگ دامنی سے نکالتے ہوئے اساطیر کے وسیع تر میدانوں میں داخل کرکے پورے اُردو ادب کا دامن فنی و فکری (دونوں حوالوں) سے مالا مال کیا، یوں دیکھا جائے تو ’’ خضرِ راہ ‘‘ اقبال کے فنی و فکری سفر کا نمایاں سنگِ میل ہے، فنی نشو و ارتقا کے اس مرحلے پر اقبال ’’قصص القرآن‘‘ اور ’’اساطیر‘‘ کے زرخیز علاقے میں داخل ہوتے ہیں۔ ’’ خضرِ راہ ‘‘ سے اقبال کی شاعری میں ہی نہیں بلکہ اُردو ادب میں قرآنی حکایات اور اساطیر کی جدید تفسیر و تعبیر کا عمل شروع ہوتا ہے۔
حضرت خضر ؑ کا کردار بھی اردو ادب کے لیے کوئی نیا کردار نہیں، کوچۂ عشق اور صحرائے زندگی میں بھٹکنے والوں کی رہ نمائی کا کام خضر ؑ سے لیا جاتا ہے، لیکن اقبال نے اپنی نظموں میں ’’ خضر ؑ کا کردار مشرقی روایات اور داستان کی بجائے بہ راہِ راست قرآن سے اخذ کیا ہے، اقبال خضر ؑ کے اس رسمی اور پیش پا افتادہ تصوّر کو منقلب کر دیتے ہیں، یہاں خضرؑ کا سب سے بڑا معجزہ اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ دُنیائے اسلام کا مقدر ’’پردۂ غیب‘‘ سے نمودار ہونے والے کسی معجزے سے نہیں، بلکہ سنگین حقائق کی ٹھوس سر زمین پر ہماری اپنی عملی، بھرپور اور انتھک جدوجہد سے ہی سنور سکتا ہے۔‘‘۔(۴) نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ اقبال کی نظموں میں تمام تر حوالوں کے ساتھ وسیع معنویت کی حامل نظم ہے، لیکن بعض اشتراکی نقادوں نے غلط تاویلات کے ذریعے مذکورہ نظم اور اقبال دونوں کی اشتراکیت کا علم بردار قرار دیا، اور ان سے با قاعدہ ’’بالشویک‘‘ خیالات منسوب کیے۔ علامہ اقبال کو جب معلوم ہوا کہ اُن سے بالشویک خیالات منسوب کیے گئے ہیں تو اُنھوں نے مدیر ’’ زمیندار ‘‘ کے نام :۲۴/ جون : ۱۹۲۳ء کو باقاعدہ ایک خط لکھ کر مذکورہ الزام کی تردید کی۔
نظم ’’ خضرِ راہ ‘‘ کے علاوہ اقبال نے ’’ بالِ جبریل ‘‘ کے جس ’’چو مصرعے‘‘ میں خضر ؑ کا کردار استعمال کیا، اس کا مقصد مجموعی طور پر یہ ہے کہ کائنات کی اصل حقیقت وجودِ باری تعالیٰ ہے، کائنات کی باقی چیزوں کی تفہیم میں آسانی کی خاطر ہم نے اسے نام دیے ہیں، اِسی طرح ’’ بالِ جبریل ‘‘ کی نظم ’’جبریل و ابلیس ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے خضر ؑ کا کردار یوں استعمال کیا ہے:
خضرؑ بھی بے دست و پا، الیاسؑ بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو           (۵)
اقبال کی زبانی خضر ؑ اور الیاس ؑ پر شیطان کی اس برتری کو شاعرانہ کسوٹی پر پرکھا جائے تو مفہوم یہی ہے کہ بہت متقی اور بزرگ لوگ بھی شیطان بہکاوے میں آنے سے بچ نہ سکے، تو عام انسان کی کیا اوقات ؟،البتہ مذکورہ شعر کو منطق کی کسوٹی پر جانچا نہیں جا سکتا، کیوں کہ اس میں بات براہِ راست الحادی رویے تک پہنچتی ہے جس کی توقع کم از کم اقبال جیسے صاحبِ علم و فضل سے بالکل نہیں کی جا سکتی۔  آخری دفعہ خضر ؑ کا کردار ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ کی طویل تمثیلی نظم ’’ ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض ‘‘ میں کشمیری مسلمانوں کو بیدار کرنے اور اس میں آزادی کے حصول کے لیے آتشیں جذبے اُبھارنے کے لیے انتہائی کامیابی سے برتا گیا ہے۔
خضر ؑ کے کردار کے علاوہ ما بعد الطبیعیاتی کرداروں میں مہدی ؑ کے کردار کو بھی اقبال نے تلمیح کے تنگ دائرے سے نکال کر اساطیر کے وسیع ز مرے میں شامل کر کے مسلمان قوم کے مجموعی تخیئل کو صلابت بخشنے کی کوشش کی ہے، مذکورہ کردار ’’ ضربِ کلیم ‘‘ میں شامل چار، چار اشعار پر مشتمل دو نظموں میں استعمال ہوا ہے، پہلی نظم کا عنوان ’’ مہدی بر حقؑ ‘‘ جب کہ دوسری نظم ’’مہدیؑ‘‘ کے عنوان سے ہے، دونوں نظموں میں اقبال نے پوری نوعِ انسانی میں بالعموم اور ملتِ اسلامیہ کے افراد میں باالخصوص، موجودہ ملوکیت، شہنشائیت، ڈریکولا جمہوریت، سرمایہ درانہ و جاگیر درانہ نظام غرض تمام تر انسان دُشمن نظاموں کے خلاف حشر انگیز بیداری اور عظیم انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، خالص اسلامی تخیل کے مطابق مذکورہ عظیم الشان ’’انقلاب‘‘ کے لیے مہدی ؑ کا کردار مناسب ترین کردار ہے۔
پہلی نظم میں اقبال نے اِس دُکھ کا اظہار کیا ہے کہ مشرق و مغرب کے عوام آفاقی جذبوں کے بجائے اپنے بنائے زندانوں میں محبوس ہیں، خواہ وہ عوام ہو یا خواص، پیرانِ حرم ہو یا شیخانِ کلیسا، اہلِ سیاست ہویا اہلِ ادب، سب کے سب محدود ذاتی و مادی مفادات کے اسیر ہیں اور اس کا واحد حل ایسے مہدی برحق کی نگہ (کا متقاضی) ہے جو آفاقی سطح پر عالمِ افکار میں زلزلہ برپا کر دے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ وہ محض شاعرانہ دعوے نہیں کرتا بلکہ اپنے دعوئوں کا مدلل ثبوت بھی پیش کرتا ہے، اور یہ ثبوت (اپنی نظم ’’ مہدیؑ ‘‘ میں ) اُنھوں نے یہ کہہ کر پیش کیا ہے:
مجذوب فرنگی نے باندازِ فرنگی
مہدیؑ کے تخیئل سے کیا زندہ وطن کو(۶)
اقبال کے مطابق مسلمان قوم اگر مہدیؑ کے تخیل (وسیع معنوں خالص اسلامی تعلیمات) کو مدنظر رکھ کر سراپا عمل بن جائیں تو ایک دفعہ پھر غلام سے حکمران بن سکتے ہیں کیوں کہ ’’جرمنی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ نٹشے نے اپنی قوم کے سامنے مغربی انداز میں مہدی کا تخیئل پیش کیا، یعنی اِس جرمن فلسفی نے مہدی کے تخیئل کو ’’ فوق البشر ‘‘ (Super Man ) کے نام سے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ بہت جلد تمھارے اندار ایک فوق البشر ظاہر ہونے والا ہے، اِس تخیئل کی بدولت جرمن قوم کا ہر فرد فوق البشر بننے کی کوشش میں مصروف ہو گیا اور ایک صدی کے اندر اندر جرمن قوم دُنیا کی اقوام کی پہلی صف میں آگئی۔‘‘(۷) اِسی منطقے پر اقبال نے ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد کو بھرپور انداز میں دعوت دی ہے کہ مہدی ؑ کے انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر نہ رہو، بلکہ اپنے اندر حقیقی اسلامی رُوح بیدار کرکے ’’مہدیت‘‘ کے اوصاف پیدا کرو اور ایک بار پھر ’’خلیفۂ خُدا‘‘ بن کر فرائضِ جہاں گیری و جہاں بانی ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ در حقیقت اقبال نے ملتِ اسلامیہ اور باالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو سامراج و اغیار کی غلامی سے آزاد کرنے اور اس میں حقیقی اسلامی رُوح بیدار کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے، نظموں میں خضر ؑ کے کردار کا استعمال بھی اِنھی حربوں میں سے ایک حربہ ہے۔
مابعد الطبعیاتی کرداروں میں مہدی کے علاوہ  علامہ نے (ان دونوں نظموں میں) ابلیس کے کردار کے پردے میں بھی اپنے افکار دلچسپ انداز میں پیش کئے ہیں ۔اقبال کی اُردو نظموں میں ابلیس کا کردار اتنے متنوع، معنی خیز اور ولولہ انگیز انداز میں پایا جاتا ہے کہ جو دل چسپ ہونے کے ساتھ ساتھ حیران کُن بھی ہے،مختلف مذاہبِ عالم باالخصوص آسمانی مذاہب میں ابلیس برائی کی عظیم ترین علامت، بدی کا سر چشمہ، بغاوت کا نمائندہ اور طاغوت و عصیان کا سر چشمہ قرار دیا جاتا ہے، اِسی نہج پر مختلف حکما اور علمائے عمرانیات نے ابلیس اور برائی کے وجود کو سماجی و عمرانی نقطہ ہائے نظر سے دیکھا، کسی نے اُسے مادیت کا امام کہا، تو کسی نے اس کو دُنیا کا سب سے بڑا مؤحد گردانا، جیسا کہ منصور حلاج لکھتے ہیں:’’ابلیس  وفا داری کی علامت ہے اور اسے فراق بھی محبت کی خاطر پسند ہے، خُدا سے کوئی محبت نہ کرے، اِس لیے تو وہ بنی آدم کے خلاف ہے ، ابلیس صحیح معنوں میں مؤحد ہے بلکہ مؤحدِ اعظم ہے۔‘‘۔(۸)
یوں دیکھا جائے تو اقبال سے قبل دانتے (:۱۲۶۵ء  تا  :۱۳۲۱ء ) نے ’’ ڈیوائن کامیڈی ‘‘، ملٹن نے (:۱۶۰۸ء  تا  :۱۶۷۴ء ) ’’پیراڈائز لاسٹ ‘‘ اور گوئٹے (: ۱۷۴۹ء  تا  : ۱۸۳۲ء ) نے ’’ فاوسٹ ‘‘ میں شیطان کے کردار کو با قاعدہ ادب کا حصہ بنایا، لیکن اول الذکر تینوں شاعرابلیس کی یک رُخی تصویریں پیش کرکے عموماً افراط و تفریط کا شکار ہو گئے، اقبال ایک وسیع تناظر میں سماجی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ مخصوص اخلاقی، مذہبی اور فلسفیانہ انداز میں اِس مسئلے کو دیکھتے ہیں اور اسلامی تناظر میں ابلیس کے کردار کو فلسفیانہ اور ادیبانہ اُسلوب میں پیش کرتے ہیں، اقبال کی اُردو نظموں کے تناظر میں ہی دیکھا جائے تو ابلیس کا کردار پہلی دفعہ ’’ بالِ جبریل ‘‘ کی نظم ’’ آزادیٔ افکار ‘‘ کے آخری شعر میں  استعمال ہوا ہے، دوسری دفعہ ’’ضرب کلیم ‘‘  کی نظم ’’ خاقانی ‘‘کے آخری شعر  میں مستعمل ہے ،جب کہ تیسری دفعہ ’’ ضربِ کلیم ‘‘ کی معروف نظم ’’ ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام ‘‘ میں   ایک ڈرامائی انداز میں  استعمال ہوا ہے ۔
اول الذکر نظم ( آزادیٔ افکار ) میں اقبال نے جدید دور کے انسان کی بے مہار آزادی پر گرفت کی ہے، اقبال کے خیال میں انسان کو ’’ اسلامی تصوّرِ حُریت ‘‘ تک آزاد رہنا چاہیے،باقی اس سے زیادہ ’’آزادی‘‘ بجز تباہی کے کچھ نہیں، لیکن عہد اقبال میں لوگوں نے اسلام کے ’’تصورِ حُریت‘‘ پر مزید ’’مغربی تصورحُریت ‘‘کے الحادی پردے چڑھائے تو مذہب سے لے کر تہذیب تک مادر پدر آزادی نے انسانیت پر وہ داغ لگائے جس سے آج تک اخلاق، مذہب اور تہذیب کا چہرہ داغ دار ہے اور (اس سے) پھر مسئلہ یہ بن گیا کہ آدمی تو رہ گیا، لیکن اس سے آدم ؑ کی صفات مطلقاً ختم ہو گئیں۔ دوسرے شعر میں اسی آدم کو تلاش کرنے کی بھر پور دعوت دی گئی ہے، لیکن مسئلہ یہاں ایک اور ہے اور وہ کیا ہے؟، اقبال ’’ ضربِ کلیم ‘‘ کی نظم ’’ سیاستِ فرنگ ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے حضور سخن سرا ہوتے ہیں کہ:
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تو نے
بنائے خاک سے اس نے دو صد ہزار ابلیس(۹)
اور اِس سے بڑی دُکھ کی بات یہ ہے کہ اسی ’’اولادِ ابلیس‘‘ یا ابلیس کے تیار کردہ ’’کارندوں‘‘ کو ابلیس نے جو تعلیمات دیے وہ من و عن اس پر عمل پھیرا ہو کر ہمہ تن اُسے پھیلانے میں مصروف ہیں اور خصوصاً اہلِ مشرق کے لیے ابلیس نے اپنے چیلوں کو تاکید کی کہ مشرقی اقوام کو گرفت میں کرنے کے لیے برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں لاؤ، زناریوں کو دیرِ کہن سے نکال دو، موت سے نہ ڈرنے والے فاقہ کش کے بدن سے رُوحِ محمدﷺ نکال دو، فکرِ عرب کو ’’فرنگی‘‘ ملحد خیالات سے آمیز کرو، تو یوں حجاز و یمن سے حقیقی اسلام یقینا نکل جائے گا، مُلا کو آبادیوں اور ویرانیوں سے نکال دو، افغانی خود بخود ننگ و غیرت سے عاری ہو جائیں گے اور اہلِ حرم یعنی مسلمانوں سے اُن کی روایات چھین کر مغربی تہذیب میں رنگ دو اور جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھائے اُسے کٹھ مُلا، تنگ ذہن، متعصب، رُجعت پسند، ماضی پرست اور انتہا پسند کہہ کر اس پر جہالت کی مہر لگا دو، لہٰذا دیکھا جائے تو وہ ساری ابلیسی تعلیمات  اہل مغرب نے اہلِ مشرق پر آزمائیں اور اُن کے سارے تیر مطلوبہ ہدف پر ہی لگے۔ ڈیموکریٹک نظام، لا ادریت، تشکیک، دہریت، الحاد، زندقہ، مادہ پرستی، مزدکیت، ماکسزم، انارکزم، ڈی ازم، کمیونزم، سوشلزم اور اسی قبیل کے دوسرے ازم آئے اور ہر طرح چھا گئے، مگر انسانیت کے لیے محض تباہی ہی لے کر آئے، غرض (اقبال کے خیال میں) خالص اسلامی نظام کے سوا ہر نظام ’’ ابلیسی نظام ‘‘ ہے۔
ابلیس کے کردار کے پردے میں ابلیسی نظام کے حوالے سے اقبال کے افکار سب سے بہترین، عمیق ترین اور وسیع ترین انداز میں علامہ کی آفاقی نظم ’’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ ‘‘ میں آئے ہیں، یہ نظم اقبال کے دینی عقائد، شاعرانہ انتہاؤں، طویل تاریخی و عمرانی مطالعہ کا نچوڑ اور الہامی دانش و بصیرت کا حسین امتزاج ہے،ابلیس کے منفی کردار نے روئے زمیں پر جو فساد برپا کی، اس سے تاریخِ عالم کے اوراق ہمیشہ آلودہ رہے ہیں۔
نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ علامہ نے : ۱۹۳۶ء میں لکھی، یورپ کی استعماری طاقتوں نے پہلی جنگِ عظیم ( : ۱۹۱۴ء  تا  : ۱۹۱۸ء ) میں دُنیا کو ہولناک تباہی کے منہ میں دھکیلا اور جوعِ الارض اور ہوسِ زر ومال کے نشے میں اندھا ہو کر، مزید تباہی کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ ’’ یورپ میں قوم پرستی کا جنون تاریخ کے بد ترین عفریت کی شکل اختیار کر چکا تھا، ہٹلر کے نازی ازم کی طرح اٹلی کا فاشسٹ آمر ’’مسولینی‘‘ بھی اطالویوں کو کم و بیش اِن ہی خطوط پر لڑائی کے لیے تیار کر رہا تھا، اس نے اگست : ۱۹۳۵ء میں حبشہ پر حملہ کیا، ادھر اشتراکیت کے اثرات روس سے بھی باہر پھیل چکے تھے ۔۔۔ دُنیا ایک خوف ناک جنگ کے دھانے پر کھڑی تھی ۔۔۔ بیشتر مسلم ممالک پر استعماری طاقتوں کا قبضہ تھا، مسلمان عجمیت و قومیت کے لات و منات کے اسیر تھے، غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے عبادات بھی ایک ظاہری گورکھ دھندا بن کر رہ گئی۔‘‘
دُنیا کے مختلف نظاموں کی طرح ’’ابلیسیت‘‘ کو بھی ایک مستقل نظام کی حیثیت حاصل ہے، اِس نظامِ فکر کا سرچشمہ ابلیس کی ذات ہے، یہ نظام محض ’’ فکر ‘‘ تک محدود نہیں بلکہ دُنیا کو اپنے فکر کے تابع رکھنے اور عملاً اپنے فکر کے فروغ و ترویج کے لیے ابلیس نے سیادت و حکمرانی کے اصول و قوانین وضع کر رکھے ہیں، اس کے مشیر ابلیسی نظامِ حکومت کے صاحبِ رائے ارکانِ حکومت شمار ہوتے ہیں، ابلیسی نظامِ حکومت کی پارلیمنٹ محض مشیروں پر مشتمل ہوتی ہے، ابلیس اپنی حکمتِ عملی اور طریقۂ واردات وضع کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اپنی پارلیمنٹ کا اجلاس منعقد کرتا ہے اوراپنے مشیروں کو اپنی پالیسیوں کے مصالح سے آگاہ کرتا ہے، تا کہ وہ پورے شرحِ صدر اور دل جمعی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتے رہیں۔‘‘(۱۰)
نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ پورے ابلیسی کارناموں مثلاً یورپی استعمار کا فروغ ، مذہب کی بالا دستی کا خاتمہ، عوام کو تقدیر پرستی کی افیون کھلانا، سرمایہ داری کا تسلط، امتِ مسلمہ کو حقیقی اسلام سے بے گانہ رکھنا، غلامانہ ذہنیت کا مالک بنانا اور منفی تصوف کی ترویج کے علاوہ جمہوریت و اشتراکیت پر بحث کی گئی ہے، لیکن آخر میں ابلیس از خود چند اعترافات کرتا ہے جس کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ ابلیسی نظام کو نہ ملوکیت سے کوئی خطرہ ہے نہ جمہوریت سے، نہ سرمایہ داری سے نہ آمریت سے، نہ نازیت سے نہ فاشستیت سے، نہ اشتراکیت سے نہ مزدکیت سے، نہ اشتمالیت سے، کیوں کہ یہ سب تحریکیں خود اس کی پر وردہ ہیں، اسے اگر کوئی خطرہ ہے تو اسلام سے ہے، دیکھا جائے تو دینی روایت سے ماخوذ کرداروں میں ’’ابلیس‘‘ کا کردار اقبال کے ہاں نہایت دل چسپ کردار کے طور پر مستعمل ہے، مزید برآں یہ امر بھی خاص دل چسپی کا حامل ہے کہ اقبال کی شاعری میں ابلیس کا کردار پہلی بار منفی حوالے کی بجائے ایک مثبت زاویے سے اُبھرتا ہوا نظر آتا ہے، اور اِس حوالے سے علامہ کی ایک اہم نمائندہ نظم ’’ جبریل و ابلیس ‘‘ ہے، اِس ضمن میں ڈاکٹر طارق ہاشمی لکھتے ہیں:
’’ اِس نظم میں ابلیس انتہائی دل چسپ ، پُر کشش اور جاذبِ نظر کردار کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے، وہ یہاں شرکی قوت کے بجائے سارے کائنات کا راز داں اور بزمِ کون و مکاں کا ہیرو نظر آتا ہے اور اِس کے مقابلے میں جبریلؑ کا کردار اپنی تمام ترتنزیہہ و تقدیس کے باوجود کم زور اور بے جان لگتا ہے، جبریلؑ کے مقابلے میں ابلیس کی دلیلیں نہ صرف مستحکم ہیں بلکہ پُر زور بھی ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ ابلیس کی جبریلؑ پر تعریضیں بھی تاثیر رکھتی ہیں، یہاں ابلیس اپنے معروف حوالہ ’’بدی‘‘ کی طاقت کے رُوپ میں قطعاً دکھائی نہیں دیتا، البتہ کسی حد تک عہد نامہ قدیم کے اِس عقیدے کے قریب ضرور ہے، جس کے مطابق ابلیس خُدا کا حریف نہیں بلکہ اس کا کام نسلِ آدم کی غلط کاریاں تلاش کرکے خُدا کے سامنے پیش کرنا ہے، لیکن ابلیس کا کردار اقبال کی اس نظم میں اس عقیدے سے کہیں آگے ترفع رکھتا ہے۔‘‘(۱۱)
بہرحال شدید حرکت و عمل کی انمول خوبی کی وجہ سے ابلیس اقبال کا پسندیدہ کردار ہے۔ باقی اقبال کی نظر میں ’’ابلیس‘‘ بجز ابلیس کے کچھ بھی نہیں۔       
اقبال اپنی نظموں میں بعض کرداروں کو اُبھارنے کے لیے اس کے متضاد کردار لاتے ہیں اور یہ حربہ متعدد مقامات پر اُن کی نظموں میں پایا جاتا ہے، اِسی انداز پر اُنھوں نے ’’ اہر من اور یزداں ‘‘ کے کرداروں کو مختلف مفاہیم کے تحت استعمال کیا، ’’ زرتشت ‘‘ کے فلسفہ ’’ تکوین ‘‘ کے مطابق کائنات میں خیر و شر کی قوتیں دائماً برسرِ پیکار ہیں، خیر کی قوتوں کے لیے وہ ‘‘ یزداں ‘‘ اور شر کی قوتوں کے لیے وہ ’’ اہرمن ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، ’’اہرمن‘‘ کا کردار اقبال نے ’’ضربِ کلیم ‘‘ کی نظموں ’’ رقص و موسیقی ‘‘ اور ’’ لادین سیاست‘‘ کے جن دو شعروں میں استعمال کیا ہے اس میں اول الذکر شعر کے پہلے مصرع میں شعر کو جبریل ؑ اور اہرمن کی جان کہا گیا ہے، مطلب یہ کہ اچھا شعر نیک و بد، مومن و کافر غرض ہر شخص پر اثر انداز ہوتا ہے، جب کہ دوسرے شعر میں فرنگی سیاست کو اس کی خون خواری، انسان دشمنی اور مبنی بر ظلم ہونے کی وجہ سے ’’اہرمن‘‘( شر کے قوتوں ) کی کنیز کہا گیا ہے، جو انسان کو انسانیت کے مقام سے گِرا کر ’’خالص حیوان‘‘ بنا دیتی ہے۔
جہاں تک ’’ یزداں ‘‘ کے کردار کا استعمال ہے، تو ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ کی دو نظموں ’’ زمین‘‘ اور ’’ حضرتِ انسان‘‘ اور ایک رباعی میں مذکورہ کردار استعمال ہوا ہے، نظم ’’ زمین ‘‘ میں تمام انسانوں کے شیطان کا غلا م ہونے کا نوحہ ہے، رباعی میں انسان کو تقدیر کے ہاتھوں بے دست و پا ہونے کے بجائے تقدیرِ یزداں بننے کی تلقین ہے، جب کہ نظم ’’حضرتِ انسان ‘‘( جو علامہ کی اُردو شاعری میں سب سے آخری نظم ہے ) میں علامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ:
یہی فرزندِ آدم ہے کہ جس کے اشکِ خونیں سے
کیا ہے حضرتِ یزداں نے دریاؤں کو طوفانی(۱۲)
غرض ’’ اہرمن و یزداں ‘‘ کے کرداروں کا استعمال علامہ نے نسبتاً کم کیا ہے، لیکن جہاں جہاں بھی کیا ہے وہاں ان میں ایک اہم موضوع کی نقاب کُشائی بہر حال اُنھوں نے ضرور کی ہے۔
اہرامن و یزداں کے کرداروں کے علاوہ اقبال نے اپنی نظموں میں ’’ لات و منات ‘‘ کے کرداروں کا استعمال بھی متعدد مقامات پر مختلف اسالیب کے تحت کیا ہے، ’’ ضربِ کلیم ‘‘ کی نظم ’’ نماز‘‘ میں پہلی دفعہ ان کا استعمال یوں ہوا ہے:
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات(۱۳)
اقبال نے لات و منات کے کرداروں کو وسیع استعاروں اور وسیع تناظر میں استعمال کیا ہے، اُن کے مطابق انسان ہر دور میں خُدائے واحد کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم سے بھٹک کر ’’ غیر اللہ ‘‘ ( لات و منات ‘‘ کی پرستش میں محو ہو جاتا ہے اور یہ ’’لات و منات‘‘ ہر دور میں محض بُتوں کی صورت میں نہیں آتے بلکہ یہ مادی دُنیا کی وہ تمام آسائشیں ہیں جو ہر دور میں انسان کو راہِ راست سے بھٹکاتی ہیں، نظم ’’تیاتر‘‘ میں علامہ نے صنف ’’ڈراما‘‘ پر سخت تنقید کرتے ہوئے اُسے کاروبارِ لات و منات کہا ہے، نظم ’’ مخلوقاتِ ہنر ‘‘ میں اُنھوں نے ہندوستان کے کم مایہ تخلیق کاروں پر اِس لیے گرفت کی ہے کہ اُن کا فن زندگی اور خودی کو کوئی تقویت نہیں بخشتا، جب کہ ’’ بلشویک روس ‘‘ میں اُنھوں نے باالشوزم ‘‘کے الحادی اور خُدا سے باغی نظریات پر طنز کے تیر برسائے، اِسی طرح ’’ محراب گل افغان کے افکار ‘‘ کے اٹھارہویں حصے میں شیر شاہ سوری کی زبانی اقبال نے ملتِ افغانیہ کو قبیلوں میں بٹنے کے بجائے ایک قوم (افغان قوم ) کی حیثیت سے اُبھرنے کی تلقین کی ہے۔اِسی طرح شیطان ہمیشہ ایسے بہانے تراشتا ہے کہ مسلمان عمل سے بے گانہ رہیں، اِسی لیے تو شیطان ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے آخری حصے میں بڑے فخر سے کہتا ہے کہ ’’ میں نے بڑی کوششوں سے بنو اُمیہ کے عہد میں یہ نکتہ مسلمانوں کے ذہن نشین کیا تھا کہ اسلام صرف پوجا پاٹ، رسومِ ظاہری اور بعض مسائلِ نظری کا نام ہے، یہ کوئی دستور العمل یا آئینِ حیات یا زندگی کا ضابطہ نہیں، مقامِ حیرت ہے کہ مسلمان حقائقِ قرآن سے بے گانہ ہو کر فقہ کے فروعی مسائل میں اس درجہ منہمک ہو گیا کہ اس نے آمین، رفع یدین، فاتحہ حلف الامام، مسح علی الخفین اور تقبیل الاسبیائین اور اِسی قسم کے دوسرے مسائل پر کئی دفعہ بغداد کے گلی کوچوں کو اپنے بھائیوں کے خون سے رنگین کیا۔‘‘۔(۱۴) اور آج بھی حقیقی اسلام اور جہاد چھوڑ کر اسی قسم کے بکھیڑوں میں عصرِ حاضر کے مسلمان اُلجھے نظر آتے ہیں۔
اقبال  کے مطابق  یہ اور اس قسم کے مختلف حربے مسلمانوں کے لیے بمنزلۂ لات و منات ہیں اور اس میں عارف و عامی ، عوام و خواص سب مبتلا ہیں، آخری مرتبہ ’’لات و منات‘‘ کے کردار ’’ ارمغانِ حجاز ‘‘ کی نظم ’’ مسعود مرحوم ‘‘ کے دوسرے حصے میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں علامہ نے ’’ مومن ‘‘ کی غیر معمولی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ مومن کا مقام ’’ ورائے سپہر ‘‘ ہے،یہ باقی فانی دُنیا کی آسائشیں محض لات و منات کی حیثیت رکھتی ہیں، جس کی حیثیت مومن کی نگاہ میں اس کے توڑنے کے علاوہ کچھ نہیں، لہٰذا دیکھا جائے تو اقبال مذکورہ منفی کرداروں کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کرکے اپنے موضوعات کو غیر معمولی وُسعت بخشتے ہیں۔ یوں   حور  خضر  ،مہدی ، اہرمن، یزداں ، ابلیس ، اور  لات ومنات   جیسے  ما بعد الطبیعیاتی  کرداروں   کو   مختلف اور متنوع  اسالیب  کے تحت  اقبال نے  اپنی نظموں  کے پردے میں  قومی اور بین الاقوامی     مسائل و افکار سے سجا کر   خوبصورت انداز میں  شاعرانہ پیکر میں  پیش کر کے   اردو نظم کی روایت کو  فنی اور فکری دونوں  سطح   پر غیر معمولی  وسعت بخشی ۔

حوالہ جات
۱۔      معین الدین عقیل، ڈاکٹر، مضمون، اقبال اور بعض شخصیات، مشمولہ: اقبالیات کے سو سال، مرتبین، (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، محمد سہیل عمر) اسلام آباد، اکادمی ادبیات، ص:۱۰۲۳
۲۔     رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز ،:۲۰۱۴ء ص: ۱۰۳
۳۔     فتح محمد ملک، پروفیسر، آتشِ رفتہ کا سراغ، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، :۲۰۱۳ء، ص:۳۱۹
۴۔     فتح محمد ملک، پروفیسر، آتشِ رفتہ کا سراغ، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن، :۲۰۱۳ء، ص:۳۲۰
۵۔     کلیات  اقبا ل اردو ،  فضلی سنز کراچی ، اشاعت  ہفتم ، نومبر ۲۰۱۱ء، ص ۵۸۰
۶۔     کلیات  اقبا ل اردو ،  فضلی سنز کراچی ، اشاعت  ہفتم ، نومبر ۲۰۱۱ء، ص ۵۸۱
۷۔     یوسف سلیم چشتی ، شرحِ ضربِ کلیم ، لاہور، مکتبہ تعمیرِ انسانیت، س ن ، ص:۱۵۵
۸۔     حلاج منصور، الطواسین، بحوالہ مضمون ’’ قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو ‘‘ مشمولہ: دانشِ اقبال کے چند پہلو         ( مرتب ) طالب حسین سیال، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن:۲۰۰۶ء ،ص:۵۷
۹۔     کلیات اقبال  اردو ، فضلی سنز کراچی ، اشاعت  ہفتم ، نومبر ۲۰۱۱ء ،ص ، ۷۶۷
۱۰۔    رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اقبال کی طویل نظمیں، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز ،:۲۰۱۴ء ص: ۲۱۶
۱۱۔     طارق ہاشمی، ڈاکٹر، اُردو نظم کی تیسری جہت، فیصل آباد، شمع بکس سنٹر:۲۰۱۴ء ،ص:۵۷
۱۲۔      کلیات اقبال اردو ، فضلی سنز کراچی ، اشاعت  ہفتم ، نومبر ۲۰۱۱ء ،ص ۸۵۸
۱۳۔    کلیات اقبال اردو ، فضلی سنز کراچی ، اشاعت  ہفتم ، نومبر ۲۰۱۱ء ،ص ، ۶۵۹
۱۴۔    یوسف سلیم چشتی ، شرحِ ارمغانِ حجاز، ، لاہور، مکتبہ تعمیرِ انسانیت، س ن ص:۳۲

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com