مستنصر حسین تارڑ کے شمالی علاقہ جات کے سفرناموں کے فکری محاسن


احمد اقبال ۔ ریسرچ اسکالر،   شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔
ڈاکٹر سلمان علی۔  پروفیسر،   شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

ABSTRACT:
The research papar is meant to explore the intellectual aspects of the Travelogues of Northern Areas written by Mustansar Hussain Tarar.His travelogues are the mirrors of social, cultural and civic life of the people of those regions. Suspence, curiosity, human psychology and patriotism are the prominent features of his travelogue writings. Mustansar Hussain Tarar has highlighted the sexual aspects of an individual in a broad prospective. Moreover, he has shared with us historical and Geographical information through his writings.
مستنصر حسین تارڑ کی ادبی زندگی کاآغازمغربی ممالک کے سفرناموں سے ہوتا ہے ۔کچھ  آوارگی کا جوش و جنون ،کچھ مغرب کی ظاہری چمک دمک اور جھلملاتی روشنیوں کا اثر اور کچھ مہم جویانہ طبیعت کا زور    جس نے مستنصر حسین تارڑ کوایسا مسحور کیا کہ  وہ  تصنیف و تالیف کی طرف مائل ہوا۔’’ نکلے تیری تلاش میں ‘‘ اور اُندلس میں اجنبی ‘‘سے فنِ سفرنامہ نگاری کو ایک ایسی جہت اور ایک ایسی منزل سے عطا کی جس نے اُردو سفرنامے کو معراج پر پہنچادیا۔چٹخارے دار زبان،رنگینئ بیان، حسِ مزاح، نفسیاتی رنگ اور مشاہدےکی گہرائی نے مستنصر کی تحریرمیں ایسا اثر پیدا کیا کہ وہ لکھتا چلا گیا اور لوگ پڑھتے چلے گئے۔ مستنصر کا یہ مشقِ سفر جاری تھا کہ اچانک اُس کا رخ مغر ب سے مشرق کی جانب ہوگیا اوراُنھیں اپنے وطن کے شمالی علاقہ جات کے حسین مناظر میں بے پنا ہ کشش محسوس ہوئی جس کا اظہار اُنھوں نے گاہے بگاہے اپنے سفرناموں میں کیا ہے۔’’ ہنزہ داستان ‘‘میں  اُنہوں نے شاہراہ ریشم کے بارے میں  چند دلچسپ اور تحیر انگیزتاریخی حقائق بیان کیے ہیں۔
’’ شاہراہ ریشم جسے چینی شاہراہ دوستی کہتے ہیں عرفِ عام میں کے کے ایچ یعنی قراقرم ہائی وے کہلاتی ہے۔پاکستان کے شہر حویلیاں سے شروع ہوکر آٹھ سو چار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ترکستان کی سرحد درہ خنجراب پر ختم ہوجاتی ہے۔ اسے پندرہ ہزار پاکستانیوں اور دس ہزار چینیوں نے مشترکہ طور پر مکمل کیا ۔ چٹانوں میں رستہ بنانے کے اس عمل میں فی کلومیٹر کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا یعنی آٹھ سو چار انسانی جانوں کی قربانی سے آٹھ سو چار کلومیٹرطویل سڑک دنیا کے دشوار گزار ترین پہاڑی سلسلے میں سے وجود میں آئی۔ اس میں نناوے بڑے پل ہیں اور سترہ سو آٹھ چھوٹے پُل ۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے مشہور ترین دریاؤں میں ایک یعنی انڈس بہتا چلا جاتا ہے ۔ انڈس جسے اباسین اور شیر دریا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے ‘‘۔۱؎
مستنصر حسین تارڑ گردو پیش کے مناظر اور تاریخی شواہد کے امتزاج سے اپنے سفرناموں کا ڈھانچہ تیار کرتے ہیں اور اپنی شگفتہ طرزِتحریر سے اُس ڈھانچے کو ایسا خوش نما لباس پہنادیتے ہیں جن پر نظر پڑتے ہی ہر ایک کی زبان سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔تاریخ و جغرافیے کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ کا مطالعہ کافی وسیع ہے خاص کر جب وہ بدھ مت کی تاریخ دھراتے ہیں اور اُن کی عظمت وثقافت کے گُن گاتے ہیں تو یہاں پر اُس کا قلم خوب رواں ہوتا ہے۔وہ مختلف تاریخی حوالوں سے اپنی بات میں وزن پیداکرتے ہیں جس کی وجہ سے سفرنامے کی وقعت و اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔’’ سفر شمال کے ‘‘ میں مستنصر کہتے ہیں :
’’ گندھارا صوبہ سرحد کے ایک حصے کا نام ہے ۔۔۔۔بدھ ازم یہاں تیسری صدی قبل از مسیح میں آیا۔۔۔۔ یہ چھوٹا سا علاقہ اپنی شاندار تہذیب اور پرامن ثقافت کے اثرات روس کے دریا آمو تک لے جاتا ہے اور ادھر چین کے سرحدی علاقوں میں اس کے آثار ملتے ہیں۔۔۔۔ ۵۱۸ قبل مسیح کے ایک ایرانی کتبے میں اسے گندھارا کہا گیا ہے۔ آتش پرست ایرانی،یونانی اوربدھ اسے اپنامقدس وطن کہتے ہیں ۔فن مجسمہ سازی میں گندھارا کی الگ پہچان ہے ۔ گندھارا کے مجسمے یونانی اثرات میں گندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ کہاجاتا ہے کہ پہلے مہاتما بدھ کا مجسمہ نہیں بنایا جاتا تھا اور اس کی پرستش کارواج نہیں تھا ۔ ۔ ۔ پھر کنشک نے بُدھ ازم کی چوتھی کونسل بلائی جو کشمیر کونسل بھی کہلاتی تھی اورا س میں کئی اہم فیصلے کیے گئے ۔۔۔۔۔ کہا گیا کہ روم اور یونان کے دیوتاؤں کی طرح مہماتما بدھ کے مجسمے بھی تراشے جائیں تاکہ مجسمے کو دیکھ کر خوب صورتی اور امن کا احساس ہو ، نہ کہ بدہیئتی اور کراہت کا ۔چنانچہ روایت ہے کہ یونان سے چند مجسمہ ساز وں کوبھی بلایا گیاتاکہ وہ مقامی مجسمہ سازوں کو اپنے طریقِ کار سے آگاہ کرسکیں ۔۔۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گندھارا کا مہاتما بدھ دراصل یونانی دیوتا اپالو کی کاپی ہے ۔۔۔بامیان کے عظیم بدھ مجسمے بھی اس دور کی یادگار  ہیں اور ٹیکسلا کے دھرم راجیکا سٹوپا میں ایک مجسمے کی بلندی چالیس فٹ کے قریب تھی۔‘‘؂۲
تہذیب و معاشرت کی عکاسی سفرنامے کا ایک لازمی جز ہے جب تک سفرنامے میں کسی خطے میں رہنے والوں لوگوں کی زندگی ، طرزِ زندگی ،اُن کا بودوباش، اُن کے رسوم رواج  کا کماحقہ ذکر نہ ہو سفرنامہ  کی حیثیت محض ایک کاغذی تحریر  سے کچھ زیادہ نہیں۔مستنصر حسین تارڑ سفرنامے کے اس پہلو اور اس ضرورت سے اچھی طرح آگا ہ  ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی خطے کی سماجی ، ثقافتی اور تہذیبی حالات و واقعات کا ایک آزاد نقاد کی حیثیت سے جائزہ لے کر ضبط تحریر میں لاتے ہیں ۔وہ کسی معاشرے یا خطے کی تہذیبی و ثقافتی ورثے کو اُجاگر کرنے کے لیے مختلف وسیلوں کا سہارا لیتے ہیں ۔ کبھی وہ مروجہ حکایات سے اپنے سفرناموں کو مزیّن کرتے ہیں تو کبھی رسوم و رواج، عقائد، زبان، مذہبی رجحانات اور مختلف پیشوں سے اپنی بات کو مؤثر بناتے ہیں مستنصر کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سےنہیں بلکہ وہ اُس خطے کے باسیوں کی زبان سے اُس خطے کے رسوم ورواج اور اُس کی تہذیب و ثقافت سےروشناس کراتے ہیں نتیجتاً بیان میں ایسی سچائی اور صداقت رچ بس جاتی ہے کہ مستنصر کی شخصیت غائب جاتی ہے اور قاری اور کردار بالمشافہ گفتگو کرکے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
’’ ہمارا دادا اس وادی میں ٹھہر گیا اور کاشتکاری شروع کردی ۔۔۔۔ ایک روز ہمارا دادا کھیت میں کام کرتا تھا کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی خدیجہ کے پاس ایک بزرگ آیا ۔۔۔ اور اُس کے پاس ایک بھیڑ تھی۔۔۔۔بزرگ نے اس کو دعا دی اور کہا کہ تم اس بھیڑ کی قربانی کرو تو تمھارے ہاں اولاد آئے گی ۔۔۔ وہ بھیڑ قربان کیا تو اس کی برکت سے اُن کی بہت اولاد ہوا ۔ ہم سب شمشالی اُس کی اولاد ہیں۔‘‘۔؂۳
مستنصر حسین تارڑ کےسفرناموں میں مقامی اور علاقائی ثقافتی رنگ  بہت نمایاں ہے۔ وہ شمال کے چپے چپے اورگوشے گوشےسے واقف ہیں اس لیے شمال کا ہر رنگ اسے اَزبر ہے۔وہ ہنزہ، دیامر ، اسکردو، گلگت اور بلتی ثقافت کوگاہے بگاہے اُجاگر کرتے رہتے ہیں ۔ وہ ژرف بینی اور باریک بینی سے ہر چیز کا مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں۔  وہ ارادتاً تاریخ ، معاشرت یا ثقافت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ باتوں باتوں میں وہ ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن میں تاریخ بھی ہوتی ہے، ثقافت کا پرتو بھی نظر آتا ہے۔ منظر نگاری کا رنگ بھی موجود ہوتا ہے، تہذیب و تمدن پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور علاقائی اور مقامی رنگ و آہنگ کے سُر بھی ملتے ہیں۔
پروفیسر شاہد کمال تہذیب و معاشرت کی عکاسی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:
"  اگر مصنف چاہے تو اپنے سفر کے احوال کو تہذیب و معاشرت کا خوب صورت امتزاج بنا سکتا ہے اور ہمارے ہاں کچھ ایسے ہیں جنہوں نے سفرنامے کو زندگی اورانسانی نفسیات سے جوڑ  کر پیش کیا ہے۔ ان میں ابن انشاء اور مستنصر حسین تارڑکےنام قابل ذکر ہیں ۔ ؂۴
مستنصر حسین تارڑ نے اپنے سفرنامے ’’ چترال داستان‘‘ میں کالاشی قوم سے متعلق بڑے عجیب و غریب مگر دلچسپ  حقائق بیان کیے ہیں۔ یہ قبیلہ خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں آباد ہے۔ کالاش ، کافرستان کے نام سے بھی معروف ہے۔ ان لوگوں کے رسوم و رواج دیگر مذاہب اور تہذیبوں سے یکسرمختلف ہیں۔ جب عورت کے مخصوص ایام شروع ہوجاتے ہیں یا کوئی عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو اُنہیں بچہ جننے تک لازماً ایک علیحدہ گوشہ ’’ باشیلانی‘‘ میں رہنا پڑتا ہے ۔ یہ لوگ حیض والی عورت کو یا حاملہ عورت کو اپنے مردوزن کے درمیان رہنے کو بد شگونی سمجھتے ہیں۔ کسی خاتون کا شوہر فوت ہونے کی صورت میں وہ چالیس دن تک گھر کے ایک کمرے میں مقیّد ہوتی ہے اور لوگوں سے بات چیت بند کردیتی ہے۔گھر سے بھاگ کر شادی کارجحان یہاں پر عام ہے۔ شادی شدہ خاتون کو  بھگایا بھی جاسکتا ہے مگر پھر اس کے بدلے میں اس کے سابقہ شوہر کو اس کی شادی کے اخراجات کا دگنا ادا کرنا پڑتا ہے۔مستنصر  کالاشی تہذیب پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’  کالاش میں قدیم روایت ہے کہ جن خواتین کے ایام کے دن ہوتے ہیں انہیں وہ مدت یہاں اس باشالی گھر میں گزارنی ہوتی ہے کہ وہ ناپاک ہوتی ہیں۔اس طور اگر کسی خاتون کا بچہ ہونے والا ہو تو وہ بھی اپنا گھر چھوڑ کر اس باشالی ریسٹ  ہاؤس میں آکر استراحت فرمائے گی ۔ اس کے لواحقین اسے تین وقت کا کھانا پہنچائیں گے ۔یہیں وہ بچہ جنے گی ۔شاید جئے گی شاید مرجائے گی؂۵
اُردو ادب میں جنس نگاری کا رجحان عام نہیں مگر بیشتر ادیبوں کے ہاں جابجا اس کے نمونے ملتے ہیں ۔ اگراسی تناظر میں مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مستنصر کے ہاں بھی یہ رجحان موجود ہے مگر کہیں پر اُنہوں نے کھل کر اس بابت اظہار خیال کیا ہے اور کہیں پر دبے دبے لفظوں میں اس کی وضاحت کی ہے۔خاص طور پر مستنصر کے بیرونی ممالک پر لکھے گئے سفرناموں میں اس کی مثالیں زیادہ ملتی ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب و معاشرت میں جنس کے معاملے میں زیادہ حدود و قیود نہیں البتہ اندرون ملک شمالی علاقہ جات کے سفرناموں میں جنس نگاری کم کم دکھائی دیتی ہے اور کہیں پر موجود بھی ہے تو اُنہوں نے اشاروں کنایوں سے اس کا ذکر کیا ہے یا پھر کسی مجرد چیزکو مجسّم بناکر اپنی اس جذبے کی تسکین کی ہے ۔ ذوالفقار علی احسن مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں موجود جنسی  لطافتوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’ مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے قارئین بہت دلچسپی سے پڑھتے ہیں کیونکہ وہ لوگوں کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اس میں بارہ مصالحوں کی چاٹ شامل کردیتے ہیں ۔وہ شاید جانتے ہیں کہ قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے ، آج کے قاری کی یہی خواہش ہے کہ گھر بیٹھے بٹھائے سیر بھی کرلی جائے اور جنس کے حوالے سے چٹخارے دار باتوں سے اس کی ذہنی عیاشی بھی ہوجائے گویا مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں ‘‘۔؂۶
مستنصر حسین تارڑ  کے  اُن سفرناموں میں جنس نگاری کا رنگ زیادہ ہے جن میں مغربی ممالک اور مغربی تہذیب کی تصویریں پیش کی گئی ہیں مستنصر حسین تارڑ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سفرناموں میں جنسی تسکین کے لیے بے تحاشا عورت کا کردار سامنے لائے ہیں ۔اکثر ناقدین اُس کے اس انداز تحریر کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اگرچہ اس بات میں کلام نہیں کہ مستنصر کے ہر سفرنامے میں میموں اور نوجوان لڑکیوں کا ذکر ملتا ہے مگر مستنصر کا دامن فحاشی اور عریانی سے پاک ہے ۔ وہ یورپ کی فحاشی کا تذکرہ اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ چیز اُن کی تہذیب و معاشرت کا ایک جزوِ لاینفک ہے البتہ اندرون ملک سفرناموں میں اگر کہیں عورت کا موضوع عود کر آیا ہے تو وہ قاری کی نفسیات کو سامنے رکھ کر اپنے تجربات میں اُسے شریک کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا قاری مستنصر کا قاری ہے اور جتنی رغبت اور شوق سے مستنصر کے سفرنامے پڑھے جاتے ہیں یہ سعادت بہت کم سفرنامہ نگاروں کو ملی ہے ۔’’ سنو لیک ‘‘ میں عورت کے حسن کے بارے میں مستنصر یوں رقم طراز ہیں :
"میں نے سنا تھا کہ اسکولے کی عورتوں کے بدن چھونے سے پگھل جاتے ہیں لیکن وہ عورت  نہ تھیابھی کچی ہریاول اور پانیوں کی پہلی روانی والے موسموں میں تھی ۔ وہ ڈری ہوئی تھی اور  میں نے صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا واقعی اُس کا بدن یاک کے سفید دودھ سے بنا ہے ،آگے  بہ کر اُس کے پہناوے کے گلے کو نیچے کیا ۔۔۔ اور وہ دودھ تھی ۔(۷)
زبان  و بیان پر قدرت ایک خداداد صلاحیت ہے۔ اسے مشق وریاضت سے نکھارا تو جاسکتا ہے مگر حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے مستنصر حسین تارڑ کو اس خصوصیت اور اس صلاحیت سے فراخدلی سے نواز اہے۔اُس کی زبان نکھری ہوئی ہے اور بیان میں روانی اور شستگی ہے۔وہ فصیح اللسان بھی ہیں اور بلیغ الکلام بھی ہیں۔مستنصر سوچ کر الفاظ نہیں جوڑتے اورنہ ہی وہ رٹے رٹائے جملے دہراتے ہیں ۔اُس کے ذہن کی سکرین پر الفاظ موتیوں کی طرح بکھرے پڑے ہوتے ہیں موقع اور محل کے مطابق الفاظ و محاورات اُس کے ذہن سے قلم کی چونچ تک آتے ہیں اور پھر قرطاسِ ابیض پر بکھر جاتے ہیں ۔ الفاظ و محاورات کی یہ آمدوآورد کسی سوچ، کسی تجربے یا کسی خاص وقت کی محتاج نہیں ہوتی ۔یہ سلسلہ چشمے کے پانی کی طرح ہر وقت رواں دواں رہتا ہے ۔مستنصرکا کام محض یہ ہوتا ہے کہ وہ تشبیہات و استعارات کے نگینوں سے مناظر وواقعات کے دامن میں گل گاری کرتے رہتے ہیں۔زیر نظر مثال اس کا بیّن ثبوت ہے۔ مستنصر لکھتے ہیں :
’’ عمر کے لمبے سفر نے میرے بدن کی رگ رگ میں تھکاوٹ کا زہر بھردیا تھا ۔۔جیسے موہنجودڑو کی ایک ایک اینٹ پانچ ہزار برس کی مسافت کے بعد بُھربھری اور شکستہ ہوجاتی ہے ،ایسے میرا بدن تھا ۔  اگرچہ اب میں وہ سنو ٹراؤٹ تھا جسے خشکی پر تڑپنے کے بعد یکدم پانی مل گئے تھے لیکن میرے گلپھڑے ابھی تک پھڑکتے تھے۔ میں وہ گولڈن ایگل تھا جو بلآخر ایک طویل پرواز کے بعد اپنے گھونسلے میں اتُر آیا تھا لیکن چونچ کھولے ہانپتا تھا"۔(۸)
ہر تخلیق کار کے لکھنے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور یہی انداز تحریر اُن کی اور دوسرے لکھاریوں کے درمیان خطِ تنصیف کھینچتا ہے ۔ اسی کا نام اُسلوب ہے۔ہرفن پارہ اپنے خاص اُسلوب کا متقاضی ہوتا ہے اور اگر تخلیق کار اُس خاص اُسلوب کو اپنی تحریر میں نہ برتے تو اُس کا پایہ ادبی معیار سے گر جاتا ہے ۔ سفرنامہ لکھنے کے لیے  نہ صرف شگفتہ اُسلوب ضروری ہے بلکہ سفرنامہ کے لیے زبان و بیان کی شستگی ، شائستگی اور شگفتگی جزو ِلاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر رشید امجد مستنصر حسین تارڑ کےاُسلوب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"  سفرنامہ نگار کی حیثیت سے مستنصر حسین تارڑ کا نام ایک منفرد حیثیت کاحامل  ہے۔ اُن کے سفرنامے کی دو بنیادی خصوصیات اُن کا اُسلوب اور سفرنامے کی ثقافتی عکاسی ہے جو اُنہیں دوسرے سفرنامہ نگاروں سے ممتاز بناتی ہے"۔( ۹)
انسانی نفسیات کو سمجھنا فن بھی ہے اور علم بھی ہے ۔وہی لوگ انسانی نفسیات اور اس کی گہرائیوں کو سمجھ سکتے ہیں جو بھانت بھانت کے لوگوں میں بیٹھا ہو، اُن کی حرکات و سکنات ، اُس کی اندازِ گفتگو ، اُن کی نشست و برخاست اور اُن کی طرز ندگی کا خوب باریک بینی سے مشاہد ہ کیا ہو اور انسان کے پس منظر اور پیش منظر سے پوری طرح آگاہ ہو ۔ مستنصر حسین تارڑ انسانی نفسیات کا گہرا ادراک رکھتے ہیں کیونکہ اُن کا واسطہ ہر قسم کے لوگوں اور ہر طبقے کے افراد سے پڑا ہے ۔ اُن کی تخلیقات میں ہزاروں قسم کے کردار موجود ہیں ۔ جن میں اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی موجود ہیں اور نچلے طبقے مثلاً ڈرائیور حضرات ، مزدور ، ، ہنر مند ، پورٹر ، ملازمت پیشہ لوگ بھی بطور کردار سامنے آتے ہیں  ۔ مستنصر بخوبی جانتے ہیں کہ  کون سا کردارکس قسم کے معاشرتی پس منظر سے  تعلق رکھتا ہے اور کون سا  کس قسم کی بولی بولتا ہے ۔وہ اُن کی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر اُن کا کریکٹر اُجاگر کرتے ہیں۔ زیر نظر مثالوں میں مستنصر نے دو طبقوں کی تحلیل نفسی کرکے اُن کے کرداروں کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔ان میں سے ایک پورٹر ( قلی ) طبقہ ہے ۔اگرچہ یہ مزدور پیشہ لوگ ہوتے ہیں مگر چونکہ یہ معاشرے میں ایک خاص قسم کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں اور یہ خاص ماحول اُن کی نفسیات پر اثر انداز ہوتا ہے اس لیے بہت سے معیوب اور ناشائستہ طور طریقے اُن کی نظر میں شائستہ اور قابل قبول ہوتے ہیں حتیٰ کہ ماں بہن کی گالیاں اُن کو عام سی گفتگو لگتی ہے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ مستنصر اور اُن کے ساتھی ایک مشکل برساتی نالہ عبور کرتے ہیں اُن کے ساتھ پورٹر بھی اُس نالہ کے پار جاتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی بیویوں کو گالیوں کی صورت میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں :
’’ پار پہنچ کر پورٹرز نے بے پناہ شور مچایا ، چیخیں ماریں اور ایک دوسرے کی گھر والیوں کی شان میں گستاخی کرکے خوشی کا اظہار کیا'' ۔۱۰؂
یوں تو ہمارے مہذب معاشرے میں رکھ رکھاؤ ، وضعداری اور ادب و آداب کا خاص خیال رکھا جاتاہے مگر کھانے کی میز سامنے ہو تو سب تہذیب اور اَدب و آداب بالائے طاق رکھ کر کھانے کی میز پر ایسے ندیدوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں جیسے صدیوں کے بھوکے ہوں ۔ کھانے کے موقع پر ایسی دھکم پیل ہوتی ہے کہ اس میں شمال ، جنوب اور مشرق ، مغرب کا سوال نکل جاتا ہے، بس انسان ہوتا ہے اور اس کی حرص ہوتی ہے باقی سب چیزیں ثانوی رہ جاتی ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ نے بھی انسان کی اس بدخوئی، حرص و لالچ اور ندیدے پن پر گہرا طنز کیا ہے اور بتایا ہے کہ کھاناہر جگہ وافر مقدار میں ہوتا ہے مگر انسان کی بھوک اُ سے بدرجہا زیادہ ہوتی ہے۔ہنزہ میں دربار ہوٹل میں مستنصر کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا اس بارے میں وہ یوں اظہار خیال کرتے ہیں
’’ میں دعوتوں میں کئی بار بھوکا رہا ہوں لیکن دھکم پیل کرکے ۔۔۔ اپنی پلیٹ سے لوگوں کی کمر میں کچوکے دیتا کبھی خوراک حاصل نہ کرسکا۔۔۔۔۔ اگرچہ یہاں خوراک وافر تھی لیکن لوگوں کی بھوک اس سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ اہلکار بھاگ دوڑ کرنے کے بعد ذرا ہانپتے ہوئے میرے پاس آئے اور سرگوشی میں بولے ’’ جناب کھانا کچن سے چلتا ہے تو میزوں تک پہنچنے سے ہی لُوٹ لیا جاتا ہے ۔۔۔۔ میں کہاں سے لاؤں  ۔  ۱۱؂
ہر انسان میں تھوڑی بہت لالچ ضرور ہوتی ہے اور جب موقع ملتا ہے تو یہ لالچ انسان کو حاجت مندوں اور ضرورت مندوں کے استحصال پرضرور اُکساتی ہے۔کارخانہ دار، سرمایہ دار اوربااثر طبقہ تو استحصال کے لیے مشہور ہے ۔ غریب اور مزدور طبقے کی نفسیات بھی جدا نہیں ۔ وہ بھی وقت آنے پر اپنے استحصالی رویے کا اظہار ضرور کرتے ہیں ۔ مستنصر حسین تارڑ نےجہاں برفیلےپہاڑوں، بلندوبالا چوٹیوں،  جھلملاتےجھرنوں، پرشور چشموں اور دیگر مظاہر فطرت کی رنگینیاں بیان کی ہیں وہاں اُنہوں نے انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں جھانک کر اُن کا وسیع اور گہرا مطالعہ بھی کیا ہے  اورمزدور طبقہ کے استحصالی رویہ اوراُن کی موقع شناسی کاپردہ سب کے سامنے چاک کیا ہے اور لوگوں کو اُن کا یہ منفی رخ دکھا کرمحتاط رہنے کی تلقین کی ہے ۔
ہر محب وطن شہری کی طرح مستنصر حسین تارڑ نے بھی اپنے سفرناموں میں حب الوطنی کے  رس  گھولے ہیں  وطن سے اُس کی بے پایاں محبت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اُنھو ں نے اپنی تحریروں میں وطن عزیز کے پہاڑوں، بلند وبالا چوٹیوں، چشموں،جھرنوں،سبزہ زاروں، دہاڑتے چھنگاڑتے دریاؤں، رنگ برنگ پھولوں اور محیر العقول مناظرِ قدرت کے گیت گائے ہیں ۔اُنھیں وطن کی ہر گھاٹی سے محبت ہے ۔وہ دیس کا ہر رنگ دیکھنے کے لیے بے قرارہیں ۔وہ اپنائیت کا درس دیتے ہیں اور اپنے دیس کی ہر زبان کو اپنی زبان سمجھتے ہیں اور جہاں کہیں خود میں یا کسی اور ہم وطن میں اس ضمن میں کمی یا کوتاہی دیکھتے ہیں تو اُن پر طنز کسنے سے بھی نہیں چوکتے بلکہ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ خود کو بھی اکثر اوقات طنز و تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔سوات کی سیر کے دوران مستنصر حسین تارڑ کا بیٹا سمیر راستے میں ملنے والے بچوں سے پشتو کے چند بول سیکھ لیتا ہے اور اپنے ابو کو اس بابت بتاتا ہے ۔باپبیٹے کی باہم گفتگو ملاحظہ کریں :
’’ ابو یہ بچے کہہ رہے ہیں ادھرایک دوکان پر پٹاخے مل جائیں گے‘‘۔
سمیر نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔
’’ سنو۔۔ میں نے اس کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر پوچھا ’ یہ تم ان کے ساتھ کیسے گفتگو کرلیتے ہو‘‘۔
’’ وہ ابو میں نے راستے میں بچوں سے پشتو کے مختلف فقرے پوچھ لیے تھے پھر اُنہیں لکھ کر یاد کرتا تھا اور اب مجھے تھوڑی سی پشتو آتی ہے‘‘۔ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔   ؂۱۲
تب میں تھوڑا سا شرمندہ ہوا کہ مجھ میں اتنی عقل نہیں ہے کہ میں اپنے وطن کی ایک زبان کو تھوڑا سا سیکھ لوں۔ میں اپنے دھن میں بھی بے زبان پھرتا ہوں اور میری خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہر شخص وہ زبان بولے جو مجھے آتی ہے اور یوں میں ان سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے ۔ان کے قریب نہیں جاسکتا ۔۔۔۔اور میرے بیٹے نے دو دن کے اندر اندریہ جان لیا ہے کہ اگر سوات کے بچوں کے قریب آنا ہے تو  اسے اُن کی زبان کے چند فقرے سیکھنے چاہیءں اور ہم سب پاکستانی چالیس برس سے یہ نہیں جان سکے‘‘۔
ہر قوم میں ہیروز ہوتے ہیں اور ہر قوم کے لوگ اپنے ہیروز کو دل و جان سے چاہتے ہیں ۔اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں ، اُن پر جان نچھاور کرتے ہیں اور اُن کی ایک ایک ادا سے پیار کرتے ہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اُن کی یہ بھی دلی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے ہیروز کودوسری اقوام کے لوگ بھی اچھی اور قابل قدر نگاہوں سے دیکھیں اور اُن کی عزت واحترام کریں۔ وہ اپنے ہیروزکے متعلق کوئی بھی ایسی بات یا کوئی ایسا تبصرہ نہیں کرتے جن کی وجہ سے اُن کے ہیرو زکا وقار مجروح ہوتا ہو یا اُن کے قد کاٹھ میں کمی آتی ہو اور نہ وہ کسی دوسرے شخص کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اُن کے ہیروز کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوں۔مستنصر حسین تارڑ نے اپنی قوم کے بعض پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد کی جانب سےاپنے ہیروز کی شان میں اُن سے منسوب بعض حقائق کو منظر عام پر لانے والوں کی سرزنش کی ہے اورببانگ دہل بتایا ہے کہ اگرچہ ہمارے ہیروز اور نابغۂ روزگار شخصیات کے بارے میں بعض حقائق سچے ہیں مگر اُن کو منظر عام پر لانا ، سب کے سامنے اُن پر تبصرہ کرنا اور محفلوں میں اُن کے چرچے کرنا اُن ہیروز کی شان میں گستاخی اور بے ادبی ہے۔ یہ حقائق اُن ہیروز کی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں ،اُن کی تحقیر کا باعث بنتے ہیں۔ عوام الناس نہ صرف اُن سے غلط تآثر لیتے ہیں بلکہ اُن ہیروز کی منفی تصاویر اُن کے ذہنوں میں بیٹھ جاتی ہیں جن کا واضح نتیجہ قوم کے اُن عظیم سپوتوں ، بہادروں اور ہیروز کی تحقیر اور بے قدری کی صورت میں نکلتا ہے لہٰذا عوام تو عوام پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ طبقے کو بھی اس معاملے میں حدردجہ احتیاط کا مظاہر ہ کرنا چاہیئے اور قومی اور عوامی ہیروز سے منسوب کوئی بھی ایسی بات ، کوئی بھی ایسا تبصرہ نہیں کرنا چاہیئے جو عوام الناس میں بے چینی کا سبب بنے اور لوگوں کے ذہنوں میں اپنے ہیروز کے بارے میں منفی تآثر پیدا ہو ۔مستنصر لکھتے ہیں :
’’ مجھے یاد ہے کہ کسی یوم اقبال کے موقع پر ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام کی میزبانی کررہا تھا اور میرے مہمانوں میں شریف کنجاہی، مرزا منور اور میم شین شامل تھے اور اس محفل میں ان بزرگوں نے بتایا تھا کہ شاعر مشرق کا فیورٹ لباس دھوتی اور بنیان تھا اور وہ ہمیشہ فالودے کو ’’ پھلودہ‘‘ کہتے تھے تو اُس گفتگو کو سنسر کردیا گیاکہ کمال ہے شاعر مشرق اور نظریۂ پاکستان کے خالق اتنے عوامی اور سادہ مزاج ہوسکتے ہیں''۔؂۱۳
سفرنامے کا حسن بڑھانے والے عناصر تو بے شمار ہیں مگر تجسس و تحیر اور سسپنس ایسی خوبیاں ہیں جن سے سفرنامے کے حسن کو چار چاند لگ جاتا ہے ۔عموماً تجسس اور سسپنس جاسوسی ناولوں اور جاسوسی کہانیوں میں برتاجاتا ہے مگر مستنصر حسین تارڑ کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ادب میں خصوصاً سفرنامے میں نت نئے تجربات کرکے اسے قارئین کے لیے جاذب توجہ اور حد سے زیادہ دلچسپ بناتے ہیں ۔ قاری جب ایسے واقعات اور مناظر کوپڑھتا ہے اور اسے چشم تصور سے دیکھتا ہے تو اُسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سفرنامے کی بجائے تجسس وسسپنس سے بھرپور کوئی ناول پڑھ رہا ہے۔دراصل مستنصر حسین تارڑ قاری کے رجحان اور نفسیات کو سمجھتا ہے اُسے بخوبی یہ ادراک ہے کہ آج کا قاری کیا پڑھنا چاہتا ہے اور وہ کس چیز میں دلچسپی لینے کا خواہاں ہے۔ سیدھی سادی باتیں اور عام سے واقعات میں قاری کی دلچسپی صفر ہوتی ہے ۔آج کا قاری ایسی تحریریں پڑھنا چاہتا ہے جس سے نہ صرف اُس کے ذوق جمالیات کی تسکین ہو بلکہ اُس کی نفسیات کو ایسی مہمیز میسر ہو جس سے اُس کا قلب و ذہن ناقابل بیاں سرور سے آشنا ہو۔مستنصر حسین تارڑ نے قاری کی نفسیات کو سامنے رکھ کر عام سے واقعات کو ایسے پرپیچ اور پر تجسس میں انداز میں بیان کیا ہے جو آج کے قاری کا مطالبہ ہے۔’’ ہنزہ داستان ‘‘ میں تجسس و تحیر اور سسپنس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جن کو پڑھ کر قاری کا دل اُس سے آگے کے مناظر، واقعات اور اُس کے نتائج جاننے کے لیے بے قرار ہوجاتا ہے۔مستنصر حسین تارڑ اور ویگن میں سوار دوسرے مسافر ہنزہ کی جانب رواں دواں ہیں ۔بشام کے قریب راستے میں ایسی تنگ سڑک آجاتی ہے جہاں ویگن کا پہیہ بالکل سڑک کے کنارے پر چلتا ہے ۔ ایک طرف عمودی چٹانیں ہیں اور دوسری طرف ایک یا دو کلومیٹر نیچے انڈس پرشور آواز کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ اس وقت کی صورت حال مستنصر ان الفاظ میں بیان کرتا ہے جن میں تجسس ہے، سسپنس ہے مگر خوف ان تمام جذبوں پر غالب ہے :
’’ تھوڑی دیر بعد تمام مسافرایڈونچر کے تمام جذبوں سے خالی ہوجاتے ہیں اور اُن میں قراقرم کا سیاہ خوف بھر جاتا ہے۔ویگن یکدم بلند ہوجاتی ہے اور ایک موڑ کاٹتی ہے۔
’’ یہاں سے پچھلے ماہ کوہستان والوں کی بس گئی تھی ‘‘۔ اکرم خان کہتا ہے۔
’’ کہاں گئی تھی ‘‘ راجہ گھگھیا کر پوچھتاہے۔ ’’ اُدھر نیچے ‘‘   پھر ؟ ‘‘
’’ پھر پتہ نہیں ۔۔۔ پچاسی مسافر تھے۔           نکالے نہیں ‘‘ ؟
’’ اِدھر اِس کی گہرائی کا کچھ پتہ نہیں، نکالنا کیا تھا۔۔ اور نکالنے کے  لیے کچھ بچتا بھی ہے ۔ ‘ 
’’ کیوں کیوں ‘‘ 
’’ بس کا ڈھانچہ چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر گیند بن جاتا ہے ۔صاحب اور پھر نیچے چلا جاتا ہے ۔یا نکالنا ہے ‘‘۔
’’ سارے ڈوب گئے ؟‘ ‘ راجہ یقین نہیں کرنا چاہتا ‘‘۔ ؂۱۴


حوالہ جات
1؎           ہنزہ داستان          مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                    ص:  10
2 ؎        سفر شمال کے مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                   ص:19
3 ؎      شمشال بے مثال       مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                2000ء ص: 19
4 ؎      ادبیاتِ اُردو پروفیسر شاہد کمال     مکتبہ اُردو زبان ،لاہور   2006ء   ص:496
5 ؎      چترال داستان           مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                1994  ص:  113
6 ؎      اُردو سفرنامے میں جنس نگاری کا رجحان         ذوالفقار علی احسن           ہفت روزہ " عزم " مشمولہ
مستنصر حسین تارڑ سے خصوصی انٹرویو 30 جولائی تا 15 اگست 2006 ء          ص:  211      
7 ؎      سنو لیک               مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور      2000       ص:  22
8 ؎      دیوسائی                مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                2002  ص:  153
9 ؎      سیاہ آنکھ میں تصویر           ڈاکٹر رشید امجد        مشمولہ عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ  2003 
10 ؎    یاک سرائے مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور             1997  ص:  97
11 ؎    شمشال بے مثال       مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                2000  ص:  17
12 ؎    سفر شمال کے مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور        1987      ص:  25
13 ؎    سنو لیک               مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور                2000  ص: 373
14 ؎    ہنزہ داستان مستنصر حسین تارڑ             سنگ میل پبلی کیشنز ۔لاہور             1985  ص:  11


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com