واجدہ تبسّم کے افسانوں میں مشرقی تہذیبی زندگی کے عناصر


غنچہ بیگم( پی ایچ ڈی سکالر )  شعبۂ اُردو، یونیورسٹی آف پشاور .
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین( صدرِ شعبۂ اُردو ) شعبۂاُردو، یونیورسٹی آف پشاور

ABSTRACT:
A piece of arts in seen from the perspectives of practical utility in addition to its role in searching for beauty and aesthetics. Since art and society are deeply intertwined, art would be always reveal contemporary issues and trends. Looked from this perspective, Wajida Tabassum is one of those women fiction writers who has reflected on the cultural and social environment of Hyderabad Dacan in her creative works. She has chosen the castles of Nawabs and Wealthy people for minute depiction in her fictions and novels. A study of wajida tabassum’s stories would be helpful for any historian, critic, or researcher with interest in understanding the Daccan social environment.
ملخص:  واجدہ تبسّم اُردو کی ایک معروف افسانہ نگار ہے۔ اُن کے افسانوں میں حیدرآبادی ماحول اور تہذیب و تمدّن کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اُن کی کہانیوں کا بنیادی محور حیدر آبادی زبان  میں  حیدر آباد دکن کا زوال پذیر معاشر ہ ہے۔ ان کہانیوں کی بنیاد و ہ عالیشان محلات ہیں جن کی  دیواریں گرتی جاتی ہیں اور ان دیواروں کے ساتھ ایک پوری تاریخ زمین میں دفن ہو جاتی ہے۔ نوابوں کے محلات کی ڈیوڑھیوں کی غم  انگیز داستان ان کی کہانیوں کے موضوعات ہیں۔
کلیدی الفاظ(Key Words ): حیدرآباد دکن، مشرقی تہذیبی زندگی، زوال پذیر معاشرہ، محلات، حویلیاں، نوابان،
واجدہ تبسّم ۱۶مارچ ۱٩۳۵ء کو امراوتی مہارا شٹر میں پیدا ہوئیں۔ ابھی ان کی عمر ایک سال ہی تھی کہ والدہ انتقال کر گئیں۔ دوسال بعد والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔(۱) والدنے واجدہ کا نام واجدہ بیگم رکھا جبکہ والدہ نے ملکہ۔ امّی کا رکھا ہوا نام چل نکلا اور جب یہ نام بگڑا تو کسی نے ملکوں کہنا شروع کیا، کسی نے مکی اور کسی نے مِلکی۔ مگر سکول میں داخلہ کے وقت ان کا نام'' واجدہ بیگم ''درج کیا گیا۔ جب واجدہ نے لکھنا شروع کیا تو '' واجدہ تبسّم '' کا قلمی نام اختیار کیا۔ یہ قلمی نام اُنھوں نے کیوں رکھا اس بارے میں وہ خود لکھتی ہیں:
’’ صاف سیدھی بات ہے۔ زندگی نے مجھے غم ہی غم دیے، میں اپنی زندگی میں مُسکراہٹیں بھر لیناچاہتی تھی، اور یہی کیا بھی۔ اس طرح خود میرے خاندان میں بھی پہلے پہل بہت کم لوگوں کو پتہ چلا کہ میراہی نام '' واجدہ تبسّم '' ہے۔ ‘‘(۲)
ابھی واجدہ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی تھی کہ تقسیمِ ہند کا واقعہ رونما ہوا۔ اُن کے خاندان نے امراؤتی سے حیدر آباد دکن ہجرت کی۔(۳)واجدہ تبسّم نے مڈل تک تعلیم امراؤتی میں حاصل کی تھی۔ حیدر آباد دکن آنے کے بعد یہاں اُنھیں مالی مشکلات نے آگھیرا ، اوروہ مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکیں۔ نانی امّاں نے جو مال و دولت بچا کر رکھا تھا اِ ن کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرتی رہیں۔ گاؤ ں کی زمینوں سے جو پیسہ آتا رہااس سے گزر بسر ہوا کرتا تھا ۔مالی مشکلات کے سبب اُنھوں نے میٹرک ، ایف اے، اور بی اے کے امتحانات جامعہ عثمانیہ حیدر آباد سے پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیت سے پا س کیے۔(۴)   ١٩٦٠ء میں ناگ پور یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کا امتحان اعزازی نمبروں سے پا س کیا۔ باوجود اِ س قدر اعلیٰ تعلیم کے اُنھوں نے اپنی زندگی گھر کی چار دیواری میں گزاری اور قلم سے رشتہ جوڑ کر اُردو زبان وا دب کی آبیاری کرتی رہیں۔
واجدہ تبسّم نے آٹھ سال کی عمر میں پہلی کہانی لکھی۔ ( ۵ ) ٢٦ /ستمبر ١٩٥٥ ء کو واجدہ تبسّم کی پہلی کہانی چھپی اور چار سال بعد یعنی دسمبر ١٩٥٩ء کو ان کا پہلا افسانوی مجموعہ '' شہرِ ممنوع '' منظرِ عام پر آیا۔ اس پہلے مجموعے نے ہی اُنھیں صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں لا کھڑا کیا۔ ناقدین کے نزدیک یہی ایک مجموعہ ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ اس کے بعد وہ مسلسل لکھتی رہیں۔ اُن کی تخلیقات اُردو ادب کے مؤقر جرائد و رسائل میں بامعاوضہ شائع ہونے لگیں۔ (۶)  ڈاکٹر نصیر الدین ہاشمی ان کی افسانہ نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’ اس وقت نہ صرف حیدر آباد بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے مشہور افسانہ نگاروںمیں شامل ہیں۔ ان کے افسانہ بلحاظ فن، بلحاظ زبان، بلحاظ اُسلوب قابلِ قدر ہوتے ہیں، واجدہ تبسّم کے افسانے اُردو کے معیاروں رسالوں میں شائع ہوتے ہیں، ان کے افسانوں کا مجموعہ '' شہر ممنوع '' پاکستان سے شائع ہوا ہے اور ایک ناول  ’’شعلہ '' بھی پاکستان ہی سے منظرِ عام پر آگیا ہے۔ ان کے افسانے  ’’شہرِ ممنوع ‘‘ اور دوسرے افسانے شکاگو یونیورسٹی ( امریکہ ) کے کورس میں شریک ہیں۔ ‘‘(۷)
آخری عمر میں واجدہ تبسّم مختلف قسم کی بیماریوں (بلڈ پریشر، شوگر ، جوڑوں کا درد ) میں ایک عرصے تک مبتلا رہنے کے بعد ٧/دسمبر ٢٠١١ء کو صبح کے ، ۳٠:۷ ( سات بج کر تیس منٹ ) ٧٦ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ بعد از نماز ظہر مرحومہ کا نمازِجنازہ ادا کیا گیا  اور جوہو قبرستان میں ہمیشہ کے لیے سو گئیں۔(٨)  
اُردو زبان و ادب کی یہ اہم ادیبہ اپنے پیچھے متعدد افسانوی مجموعوں ، ناولوں اور ناولٹوں کی صورت میں ایک اچھا خاصا ادبی سرمایہ چھوڑ گئی ہیں۔
واجدہ تبسّم کی کہانیوں کا بنیادی محور حیدر آبادی زبان  میں  حیدر آباد دکن کا زوال پذیر معاشر ہ ہے۔ ان کہانیوں کی بنیاد و ہ عالیشان محلات ہیں جن کی  دیواریں گرتی جاتی ہیں اور ان دیواروں کے ساتھ ایک پوری تاریخ زمین میں دفن ہو جاتی ہے۔ نوابوں کے محلات کی ڈیوڑھیوں کی غم  انگیز داستان ان کی کہانیوں کے موضوعات ہیں۔ان ڈیوڑھیوں کی تلخ حقیقت نگاری پر اُنھیں لعن طعن بھی سننا پڑا،اس لیے اس کی صراحت اُنھوں نے خود یوں کی ہے:
’’ یہ داستانیں اور افسانے میں نے اس لیے نہیں لکھے ہیں کہ لوگ اُنھیں پڑھ کر چٹخارے بھریں، واہ، واہ کریں، یا مجھے داد دیں۔میں نے تو اُنھیں کاغذ پر یوں منتقل کیا ہے کہ میں جانتی تھی اگر میں نے انھیں صرف محلوں اور حویلیوں میں رہنے دیا تو وہ ہمیشہ کے لیے وہیں دفن ہو کر رہ جائیں گے، اور یہ خزانے وقت کی تہ در تہ گرد میں گم ہو کر مدفون ہوجاتےتو حالات کی تیز آندھی بھلے ہی کھل جا سم سم کا کتنا ہی وردکرتی وہ دَر کبھی وا نہ ہوتے۔میرا سارا قصوریہ  ہےکہ مجھے وہ منتر یا د تھاجو بند دروازوں کو کھول دیتا ہے۔ ‘‘(٩)
معترضین کو واجدہ تبسّم کی کہانیوں میں حیدرآباد دکن کے نوابوں کے محلوں اور حویلیوں کی ڈیوڑھیوں کے گنوانے  واقعات اور مناظر  تو نظر آتے ہیں لیکن واجدہ تبسّم نے جس تہذیبی زندگی کی عکاسی کی ہے وہ نظر نہیں آتی۔ واجدہ تبسّم کی کہانیوں میں مشرقی تہذیبی زندگی کے عناصر بدرجہ اتم موجود ہیں۔مشرقی تہذیبی وتمدّنی زندگی کے اجزاء تو متعدد ہیں لیکن  یہاں پر صرف ہماری مشرقی زندگی میں عمر رسیدہ افراد  کے ساتھ ہماری محبت ا ، اُن کا خیال  ، اُن کی نگہداشت ، اور  بزرگوں کی اپنی روایات سے جڑی زندگی پر گفتگو مقصود ہے۔ مغربی معاشرے میں مادیت کے سبب عمر رسید ہ افراد کے لیے سرکار کی طرف سے اولڈا یج ہومز بنائے جاتے ہیں۔ جہاں لوگ اپنے والدین  کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ کیونکہ اب والدین اُن پر ایک قسم کا بوجھ  ہو تے ہیں ۔ لیکن ہمارے  ہاں ایسا نہیں بلکہ بوڑھے والدین گھر کی برکت سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کی خدمت اولاد اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ والدین کا سایہ اپنے اُوپر رحمت سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے واجدہ تبسّم کے ہاں کئی ایک اچھے افسانے مل جا تے ہیں۔ جن میں : نتھ کا بوجھ، تحفہ، باپ بیٹا، ماں، عبادت گاہ ، وغیرہ خاص طور پر قابل ذکرہیں۔
افسانہ ،’’ باپ بیٹا‘‘ ، میں ایک غریب آدمی اپنی کھیتوں میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ جب اُس کا بیٹا گاؤں کے سکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو   وہ اپنے بیٹے کو شہر کے سکول میں داخل  کردیتا ہے۔باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کابیٹا اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ باپ بیٹے کے ہر قسم کے اخراجات اُٹھاتا ہے۔ بیٹا جس کا نام شمیم ہوتا ہے۔ وہ بھی  بڑاسعادت مند  ہوتا ہے۔ تعلیم کے بعد ایک بڑا افسر بن جاتا ہے اور شہر کے مشہور اور امیر ترین ڈاکٹر کی اکلوتی بیٹی  ناہید رفعت سے شادی کر لیتا ہے۔ شادی کے بعد شمیم اپنے والد کو اپنے پاس شہر میں لے آنا چاہتا ہے لیکن شمیم کے والد  گاؤں چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ اُس نے اپنے لیے گھر میں مصروفیت کے لیے بلی، کتا، طوطا، اور مرغیاں پال رکھی ہوتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ گھر میں کیاریاں بھی بنا رکھی تھیں۔ جن میں طرح طرح کی سبزیاں اُگاتا رہتا ہے۔  گو یا اُس نے اپنے لیے مشغولیت پیدا کر رکھی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں گاؤں میں اُس کے دوست احباب بھی تھے۔ ان سب چیزوں میں اُس کامن لگا رہتاہے۔ سادہ طرزِ زندگی سے وہ خوش ہوتا ہے۔ لیکن آخر شمیم اپنے والدکو راضی کر کے شہر کی بڑی کوٹھی میں لے آتے ہیں۔
شہر کی کوٹھی میں نوکر چاکر ہوتے ہیں۔ جو بڑے میاں کا ہر طرح خیال رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کی کمی نہیں  ہوتی۔ طرح طرح  کے نئے نئے کھانے اُن کو پیش کیے جاتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا ٹھیک ایک بجے لگا کر اُن کو کھانے کی میز پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ صبح اُٹھتے ہی نوکر چائے لے آتا ہے۔ رات کو سونے سے پہلے اُسے چاکلیٹ اور دوسری چیز یں کھانے کو دی جاتی ہیں۔  شمیم  اور اس کی بیوی رفی بھی اُس کا خوب خیال رکھتے ہیں اور خدمت کرتے ہیں۔ لیکن شمیم محسوس کرتا ہے کہ اُن کے والد یہاں خوش نہیں ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اُن کی والد کی خدمت میں کوئی کمی بھی نہیں  ہے۔ رفی کا رویہ بھی والد کے ساتھ بہت محبت والا ہے۔ آخر وہ ڈاکٹر کو بلاتا ہے کہ کہیں صحت  کی خرابی کا کوئی مسئلہ تو نہیں ۔ ڈاکٹر پورا چیک اپ کر لیتا ہے  کوئی مسئلہ اُسے بھی نظر آتا ، تاہم اپنی فیس بھرنے  کے لیے وہ ابّا میاں کی چھوٹی سے ٹیبل دوائیوں سے بھر کر چلے جاتے  ہیں  ۔ شمیم  ، ابّا میاں کو بروقت دوائیاں دینے کے لیے ایک نرس رکھ لیتاہے۔ نرس بھی ابّا میاں کی خوب خدمت کرتی ہے۔
ایک دن  کلب میں ڈنر پارٹی ہوتی ہے۔ شمیم اور رفی نر س کو ہدایت  کر جاتے ہیں کہ ابّا میاں  کاپورا پورا خیال رکھے۔ ان کے جاتے ہی اتفاقاً نرس کی کہیں سے کال آجاتی ہے کہ اُس کے بچے کی طبعیت اچانک خرا ب ہو گئی ہے  لہٰذوہ فوراً گھر پہنچے ۔ نرس ابّامیاں سے رخصت لے کر گھر چلی جاتی ہے۔
ابّا  دیکھتےہیں کہ نرس چلی گئی ہیں۔ گھر کے باقی ملاز م بھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ ابّاں میاں اپنے خاص خدمت گار کر بُلا کر اُسے پیسے دے دیتا ہے اور شہر سے فلاں فلاں دوا خریدنے کے لیے بھیج دیتا ہے۔
’’ خدمت گار کے جاتے ہی اُنھوں نے چوروں کے سے انداز میں اِدھر اُدھر جھانکا۔پھاٹک پر دربان پہرہ دے رہا تھا۔ کچن میں خانساماں کے گنگناگنگنا کر پکانے کی آوازیں آرہی تھیں، پرلی طرف مالن، دھوبن، اور برتن دھونے والیوں  کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ ابّامیاں نے بڑی خوشی سے بات نوٹ کی کہ اتفاقاً ان کے کمرے کی جو کھڑکی باغ میں کھلتی ہے اس میں سلاخیں نہیں ہیں اور یہ کہ باغ میں کود کر جنگلہ الانگ کر مزے سے فرار ہوا جا سکتا ہے ۔ آنکھیں بند کر کے اور اللہ کا نام لے کر اُنھوں نے باغ میں چھلانگ لگا دی۔ ‘‘(۱٠)
یوں ابّامیاں  بھاگ کر واپس گاؤں والے گھر آجاتے ہیں۔ وہ یہاں آکر ایک قسم کی روحانی خوشی محسوس کرتا ہے۔ اُسے ہر چیز میں اپنائیت کا احساس ہوتاہے۔ اُسے ہر چیز اپنی اور پیاری لگتی ہے۔ گویا اُسے ایک قسم کی جسمانی اور ذہنی آزادی مل گئی  ہے۔ یہاں اُسے بان کی کھر ی چارپائی پر بیٹھنے اور اس پر لیٹنے  میں دلی سکون ملتا ہے۔ تام چینی  کی رکابی  میں مرچوں اور پیاز کے چھلکے کے ساتھ روٹی کھانا اور خود اپنے ہاتھوں دہی بلو کر  کانسی کے ایک بڑے سے گلاس میں لسّی پینے میں جو لذّت ملتی ہے وہ اُسے شہر کے گھر میں  ناشتے میں تلے ہوئے انڈوں ، سنکے ہوئے مکھن ٹوسٹ، کو کو، اولٹین، کافی، سوپ، اور مرغن کھانوں میں نہیں ملتی تھی۔ یہاں  ہاتھ میں حقے کی نَے  تھام کر حقہ پینے میں جو اطمینان ملتا ہے وہ شہر میں بڑھیا ٹین سگرٹوں کے غُپ اُڑانے میں نہیں تھا۔ بات بات پر قہقہے لگانا،  وہاں نہیں تھا۔  آسائشیں تو وہاں بہت تھیں ، کسی چیز کی کمی بھی نہ تھی پر بیگانگی بہت تھی۔ اس لیے اُس کا مزاج اُن چیز وں کو قبول نہیں کر پا رہا ہوتا ہے۔ وہ گاؤں آکر ما ئی خیراں  سے اپنی سرگذشت  مزے لے لے یوں بیان کرتا ہے:
’’ اوئی خیراں تجھے معلوم ہے کہ دوپہر میں شمیم مجھے کیا کھلاتا تھا ؟ برتنوں کی دھودن جیسا شوربہ، جس کو سوپ کہتا تھا۔ہا ہاہا۔ اور رات کو سوتے وقت چاکلیٹ۔ جیسے میں بچہ تھا اور صبح ہی صبح ملک الموت کی طرح بیرا  میرے لیے چائے لے کر کھڑا رہتا تھا ہا ہا ہا۔۔ نہ کوئی کام نہ دھام بس پڑے رہو تو بہ۔۔‘‘(۱۱)
مائی خیراں ، ان کے شوہر اور  ان کے بچے بڑی حیرت سے ساری باتیں منہ کھولے سُن رہےتھے۔ کتّا ، بلی ان کے قدموں میں لوٹ رہے تھے مرغیاں کڑا کڑا رہی تھی، طوطا۔ ’’ میاں جی آداب عرض ہے۔‘‘ کی رٹ لگائے تھا اور میاں جی ہنس ہنس کر کہہ رہے تھے۔
’’ جو مزہ کھرّ ی بان کی چارپائی  میں ہے وہ جھاگ ایسے نرم گدوں میں کہاں  سے آئےبھلا۔ کم بخت جسم ڈوب کر رہ جاتا ہے کہ کروٹ تک بدلنا نہ آئے۔ ‘‘ (۱۲)
اور پھر ابّامیاں مزے سے ہاتھ پاؤں پھیلا کر کھری بان پر لیٹ جاتے ہیں۔ 
دراصل ابّاں میاں مشرقی تہذیب کا نمائندہ کردار ہے۔ یہ بزرگ لوگ ہماری تہذیبی زندگی کی یادگاریں ہیں۔ انھیں اپنی سادگی زندگی پسند ہے۔ وہ اسی میں خوش ہیں۔ وہ مغربی طرزِ زندگی میں خود کو نہیں ڈال سکتے۔ مغربی طرزِ زندگی انسان کو ہر کام میں پابند کر دیتی ہے۔ نہ اپنی مرضی سے اُٹھنا بیٹھنا اور نہ کھانا پینا۔ ایسی زندگی  مادی  جسمانی آسائشیں تو بہت دے سکتی ہے پر روحانی خوشی نہیں دے سکتی۔
افسانہ ، ’’ عیدی ‘‘ میں بھی راحت بوا جو دادی بی  بھی کہلاتی ہے کا کردار مشرقی تہذیبی زندگی کا نمائندہ کردار ہے۔ جو اپنی کمر  میں اڑسی ہوئی ایک بوسیدہ سی تھیلی میں سے بے حد پیار سے زینب کو ہر عید  پرچونّی بطور عیدی دیا کرتی ہے۔ اور زینب سے یہ بھی کہتی ہے کہ اپنی نانی اماں سے چھپا کے رکھنا۔ 
’’ اچھا یہ تو بتا اپنی نانی امّاں سے تو نہیں کہہ دے گی کہ میں نے تجھے چونّی دی ہے۔
’’ بالکل نہیں‘‘۔ میں نے  مُٹھی کو مضبوطی سے بند کرتے ہوئے کہا۔ دادی بی جانتی تھیں کہ نانی امّاں ان معاملوں میں حددرجہ سخت واقع ہوئی ہیں۔ وہ اس بات کی روادار نہ تھیں کہ ہم کسی سے ایک پائی بھی لیں۔ بھلے سے وہ عید ی کے ناطے  ہی کیوں نہ ہو۔ جب دادی بی مطمئن ہوگئیں تو انھوں نے بڑے رازدارانہ لہجے میں پوچھا۔’’ اچھا بی بی یہ تو بتا تو ان چار آنوں میں کیا کیاخریدے گی۔ ‘‘(۱۳)
دراصل اُس زمانے میں چونّی بڑی رقم ہوا کرتی تھی۔  جب زینب بڑی ہو کر بیاہی ہوتی ہے اور شہر میں رہتی ہے تو ایک عرصے بعد پھر اپنے علاقے میں آتی ہے۔ سب کچھ بدلا ہوتا ہے۔ وہ دادی بی سے ملنے اُس کے گھر آتی ہے۔ اب دادی بی مزید بوڑھی ہوچکی  ہوتی ہے ۔آنکھوں کی بینائی بھی نہیں رہی۔ یہ بھی عید ہی کا دن ہوتا ہے۔
’’ کون ہے  ؟ پاؤں کی چاپ سُن کر ایک کمزور سی آواز نے سُر اُٹھایا۔
’’ ارے یہ داد ی ہیں۔ ‘‘ میں نے دکھے دل سے سوچا، بڑی ہمّت جمع کرکے میں  نے آواز نکالی۔’’ دادی بی میں ہوں آپ کی بی بی۔‘‘ ۔۔۔۔یوں جیسے ذہن پر زور ڈال کر انھوں نے سوچنا شروع کیاہو، پھر خوشی سے لرزتی آواز میں انھوں نے اپنے ہاتھ پھیلا دیے۔ ’’ اری بی بی تو ؟ آمنہ بوا کی نواسی ہے نا تو ؟ ‘‘ گویا انھوں نے یقین کر لینا چاہا ہو۔۔۔ ’’ ہاں دادی بی میں ہوں۔آپ مجھے بھول گئیں۔‘‘۔۔۔شرمندگی کے ہلکے سے غبار میں لپٹی اور دُکھ میں ڈوبی آواز میں وہ بولیں۔ ’’ نہیں بی بی تو کوئی بھولنے جیسی چیز ہے۔ مگر برس بھی کتنے گزر گئے۔ کم بخت آنکھیں  بھی جاتی رہی۔‘‘(۱۴)
پھر زینب دیر تک دادی بی کےساتھ بیٹھ کر  باتیں کرتی ہیں۔ پرانی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ اپنی نئی زندگی کے بارے میں بتاتی ہے۔ دادی بی پھر بھی کہتی ہے کہ تو چاہے کتنی بھی بڑی ہو جائے میرے لیے تو  وہی ننّھی  بچی ہے جسے میں ہر عید پر چونّی دیا کرتی تھی۔  
’’ ہاں بی بی پر میرے لیے تو تُو  آج بھی وہی ننّھی سی بچی ہے جو میرے ہاتھوں کے بنے نوالے کھا کر میرے بستر میں ہی سو جایا کرتی تھی۔ ‘‘ ایک دم انھوں نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھ کر کسی کو پکارنا شروع کردیا۔ ’’ اری زینو، او زینو، کچھ سوئیاں میٹھا ہو تو یہاں دے جا۔ میری بی بی  آئی ہے۔ ‘‘ شاید وہ اپنی پڑوسن کو آواز دے رہی تھیں۔ ‘‘(۱۵)  
دادی بی کا کردار اُس کی ذہنیت اور جذبات کی صحیح ترجمانی کررہی ہے کہ مشرقی معاشرے میں مہمان کی کس طرح خاطر داری کی جاتی ہے اور کس طرح خیال رکھا جاتا ہے۔ دادی بی کے پاس کچھ ہے بھی نہیں لیکن جس طرح وہ  زینب بی بی کو بچپن میں ہر عید پر میٹھا کھلاتی تھی آج بھی میٹھا کھلانے کی فکر میں ہے ۔ یہ فکر دراصل ہمارے معاشرے کی تہذیبی زندگی  ہے ۔
ہماری تہذیبی زندگی  کا یہ ایک مثبت عنصر ہے کہ یہاں اولاد بوڑھے ماں باپ کے بڑھاپے کا سہار ا بنتے ہیں۔  افسانہ،   ’’ماں ‘‘  اور  ’ ’ نتھ کا بوجھ ‘‘ ، ایسے ہی افسانے ہیں۔ اولاد میں چاہے بیٹی ہو کہ بیٹا دونوں ماں باپ کو بڑھاپے میں سہارا دیتے ہیں۔ افسانہ ، ’’ ماں ‘‘ میں شادی کے بعد بھی بیٹی والدین کا بوجھ اٹھاتی ہے  ملاحظہ کیجیے:
’’ امّاں نے مجھے پلٹ کر دیکھا۔ انجانے خوف نے مجھے آدبوچا۔ یہ ماں جو آج اس طرح بے بس ہو کر میرے سامنے کھڑی ہے جس نے اپنی خوشیاں اپنا آرام ، اپنی زندگی تک میرے لیے تج دی، یہ میں ہی ہوں وقت اسی طرح ایک بار پھر اس کہانی کو دہرائے گا۔ کیاآنے والے ماہ و سال اس طرح میری زندگی کا رس نچوڑ لیں گے؟ کیا کیا۔۔۔ میں نے رکتے رکتے سوچا۔۔۔ کیامیری بیٹی بھی میرے نقشِ قد م پر چلے گی۔ میر ے دل سے آنسوؤں کا ایک بادل اُٹھا۔‘‘(۱۶)
افسانہ ، ’’ نتھ کا بوجھ ‘‘، ایک لڑکی کا دلہن بننے کے سفرسے شروع ہو کر   اُس کے  ماں بننے تک ہے ۔ بوڑھی ہو کربھی وہ بے چین سی رہتی ہے۔ بیٹیوں کو بیاہ دیتی ہے  پر زندگی بھر جس سوال نے اُسے پریشان کر کے اُس کی خوشیاں چھین لی تھیں۔ لیکن جب ایک دن بڑھاپے میں  اُسے زور کا چکر آکر وہ گر جاتی  ہے تو فوراً اُس کا بیٹا  اُسے تھام  لیتا ہے۔
’’اور میں اپنے بڑھاپے کا بوجھ اُٹھائے ، باورچی خانے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اِک دم مجھے زور سے چکّر آگیا اور میں تیورا کر زمین پر گر پڑی۔ میرے گرتے ہی تیزی سے کمرے کا دروازہ کُھل گیا اور بجلی کی سی پُھرتی سے میرا بیٹا لپکا۔ ’’ امّاں۔ ارے امّاں ۔ آپ گر گئیں۔ میری امّاں ۔۔ ‘‘ اور اُس نے ایک دم مجھے اپنے بازوؤں میں یُوں اُٹھالیا جیسے میں کوئی پھول تھی۔
زندگی بھر سے جس سوال نے مجھے پریشان کر کے میر ی خوشیاں چھین لی تھیں۔ مجھے آج اُس کا جواب اپنے آپ مل گیا۔ کیا ہر عورت نتھ کا بوجھ اسی لیے نہیں اُٹھاتی کہ بڑھاپے میں اُسے اولاد کا سہار امل جائے ؟ وہ سہارا جو دُنیا  میں خدا کے بعد سب سے بڑا سہار ا ہوتا ہے۔ ماں باپ کے بڑھاپے کا بوجھ اُٹھانے کے لیے ایسے ہی مضبوط اور محبت بھرے ہاتھوں کی ضرورت ہوتی ہے  نا ؟ کیا یہ لمحہ ایسا نہیں جس پر زندگی بھر کے سارے غم وار دیے جائیں۔ ‘‘(۱۷)
خلاصہ کلام یہ کہ تہذیب کسی قوم یا ملک کی داخلی اور خارجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں سے مجموعی طور پر پیدا ہونے والی وہ امتیازی خصوصیات مراد ہوتی ہیں جنھیں اس ملک کے لوگ عزیز رکھتے ہیں اور جن کے حوالے سے وہ دنیا میں پہنچانا جا تا ہے۔(۱٨)
واجدہ تبسّم کے افسانوں سےصاف طور پر نظر آتا ہے کہ اُن کے ہاں تہذیب سے مراد وہ عقائد ، نظریات و افکار ہیں جن سے اس کی شخصیت  بنتی اور سنورتی ہے۔(۱٩)  اُنھوں نے اپنی کہانیوں میں بھی اپنے علاقے کے لوگوں کی تہذیبی زندگی کی بھر پور عکاسی ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں حیدر آباد دکن کے متوسط اور اعلیٰ طبقے کے گھریلو زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں ملتی ہیں۔
حوالہ جات
۱۔      طاہر منصو ر فاروقی، مرتب؛ '' واجدہ تبسّم کے بے مثال افسانے''، الحمد پبلی کیشنز ، لاہور، ٢٠٠٨ء  فلیپ
۲۔     واجدہ تبسّم، '' شہرِ ممنوع'' ، ( میری کہانی ) ، نیا ادارہ، لاہور، دسمبر ١٩٥٩ء ، ص،  ۳۶
۳۔     واجدہ تبسّم، '' شہرِ ممنوع '' ، ص۔ ٢٥، ٢٦
۴۔     نریش کمار شاد، '' واجدہ تبسّم سے انٹر ویو''، مشمولہ؛ محبت ( افسانوی مجموعہ) از: واجدہ تبسّم،  ملک رفعت پبلشرز، لاہور، ستمبر ١٩٧٢ء ،ص۔٣٥٠
۵۔     نریش کمار شاد، '' واجدہ سے انٹرویو''، مشمولہ؛ محبت،( افسانوی مجموعہ) واجدہ تبسّم،ص۔٣٥٠
۶۔     ( دی ملی گزٹ، پندرہ واڑہ، ١٦  تا ٣١ جنوری ٢٠١١ء ، ص  ١٦ )
۷۔     نصیر الدین ہاشمی، '' دکن میں اُردو''، ترقی اُردو بیورو، نئی دہلی، ١٩٨٥ء ، ص۔٩٣٠
٨۔     دی ملی گزٹ، شمارہ؛ ١٦  تا  ٣١  جنوری ٢٠١١ء ، اشاعت: ١٩ /فروری ٢٠١١ء ، ص۔١٦
٩۔     واجدہ تبسّم، ’’ پھول کھلنے دو ‘‘ ( ناولٹ ) ، اورسیز بک سنٹر بمبئے، ۱٩۷۷ء، ص ۱۳٩)
۱٠۔    واجدہ تبسّم،  ’’باپ بیٹا‘‘ ، افسانوی مجموعہ: مُحبّت، رفعت پبلشرز، لاہور، ۱٩۷۲ء، ص۔ ۱٨۴
۱۱۔     ایضاً، ص۔ ۱٨۵
۱۲۔    ایضاً، ص۔ ۱٨۵
۱۳۔    واجدہ تبسّم،  ’’ عیدی ‘‘ ، افسانوی مجموعہ: مُحبّت، رفعت پبلشرز، لاہور، ۱٩۷۲ء، ص۔۱۲٨،۱۲٩ 
۱۴۔    ایضاً،ص۔ ۲۳۵
۱۵۔     ایضاً، ص۔ ۲۳۶
۱۶۔    واجدہ تبسّم، ’’ ماں ‘‘، افسانوی مجموعہ: مُحبّت، رفعت پبلشرز، لاہور ، ۱٩۷۲ء، ص۔۲٠٨
۱۷۔    واجدہ تبسّم، ’’نتھ کا بوجھ ‘‘، ایضاً، ص ۔٨٠
۱٨۔    احتشام حسین ،سیّد،’’ ہندوستانی تہذیب کے عناصر‘‘،مشمولہ: مجموعہ مضامین، تنقیدی جائزے، احباب پبلشرز لکھنؤ، ۱٩۶۳ء، ص۔۲۲۶
۱٩۔    ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر،’’ مطالعہ تہذیب ‘‘، قرطاس کراچی، ۲٠٠۷ء، ص ۔۱۷


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com