عطاءالحق قاسمی کی فکاہیہ کالم نگاری


مظہر اقبال۔  پی ایچ ڈی اسکالر، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور
ڈاکٹر وحید الرحمن خان۔  صدر شعبہ اُردو، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن لاہور

ABSTRACT:
Basically, a column is a journalistic expression. But if a columnist is aware of art of creativity, he/she may make it a literary piece as well. Like Ibne Insha, Ata Ulhaq Qasmi has written many a column in Urdu that has become matchless part of Urdu literature. Qasmi's writing is full of witness and originality. His columns are satiric and light. He also writes on common and simple issues of life by employing his unique style that makes his writings special and memorable. This article presents a study of satiric column writing of Ata Ul haq Qasmi.
کالم --- بنیادی طور پر ایک وقتی اور صحافتی صنفِ سخن ہے۔ اس کے موضوعات کا دائرہ اگرچہ بہت وسیع ہے اور زندگی کی ہر ادا اور ہر زاویہ اس کا عنوان ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود عارضی اس کی زندگانی ہے۔ سیاست کا ایوان ہو یا کھیل کا میدان، مسائلِ تصوف ہوں یا معاشی وسائل، عطار کی دکان ہو یا فلسفۂ زمان و مکان، مکتبِ عشق ہو یا حسن کا بازار - --  زندگی کی ہر جہت اور ہر پہلو کو  کالم میں بیان کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ بیان منطق سے سُلجھا اور لُغت کے بکھیڑوں میں اُلجھا ہوا ہو۔ جو چیز ضروری ہے وہ ہے بیان کی بے تکلفی۔ ایک کامیاب کالم کے لیے بے تکلفی اور غیر رسمی طرزِ تحریر بنیادی شرط ہے۔ شوخی اور شگفتگی، کالم میں اضافی حسن پیدا کرتے ہیں۔       عطاءالحق قاسمی کی کالم نگاری بھی انہی اوصاف کی حامل ہے۔ انتظار حسین کے بقول :
"عطاءالحق قاسمی کے کالم اخبار کی فضا سے پھوٹتے نظر نہیں آتے، اس میں ایک رنگ کا اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ یہ کالم اس طریقے سے اخبار کے بطن سے برآمد نہیں ہوتے جیسے سالک و حسرت کے کالم برآمد ہوتے تھے۔ یہ اس طرز پر سوچے اور لکھے گئے جس طرز پر پطرس بخاری نے اپنے مضامین لکھے تھے یا ہمارے دور میں مشتاق احمد یوسفی نے لکھے ہیں۔" (۱)
عطاءالحق قاسمی نے اردو کی فکاہیہ کالم نگاری کو محدود اور مخصوص موضوعات سے نکال کر سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی کے ہر خاص و عام پہلو کو نہایت خوبی سے موضوعِ تحریر بنایا ہے۔
ان کے کالم لطافت، سلاست، شوخی و روانی، موضوعات کے تنوع کے باعث فنِ کالم نگاری کے بے مثال نمونے قرار پاتے ہیں۔          قاسمی صاحب کی شوخیٔ تحریر کے باعث ان کے کالم صحافت کے محدود، وقتی اور ہنگامی میدان سے نکل کر ادب کے وسیع دائرے میں شامل ہو گئے ہیں۔ ممتاز فکاہیہ کالم نگار نصراللہ خان کی رائے میں :
عطاءالحق قاسمی کی تحریر ملک کے پچھلے تمام مزاح نگاروں اور بالخصوص کالم نویسوں کے اندازِ تحریر کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ انہوں نے مزاحیہ کالم نویسی کو ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے۔ ان کی تحریریں شگفتہ، منفرد اور متنوع ہیں۔ وہ مزاح کے روایتی تلازمات سے کام نہیں لیتے اور نہ مضحک واقعات و کردار کے پیچھے اپنے کان پر قلم رکھ کر دوڑتے ہیں۔ بلکہ ان کی شخصیت میں جو مزاح رچا بسا ہوا ہے وہ اسے کام میں لا کر جس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں اسے بڑی آسانی سے مسخر کر لیتے ہیں اور اس کی ہیئت بدل ڈالتے ہیں۔"(۲)
قاسمی صاحب کی روزمرہ زندگی کے مسائل اور تضادات پر گہری نظر ہے۔ مثلاً ہم اپنی سماجی اور معاشرتی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے انہیں ایام، ہفتوں اور یا سالانہ بنیاد پر منا کر پورا سال خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتے ہیں۔ اپنے کالم ”ایک ہفتہ ہماری فرمائش پر“ میں         قاسمی صاحب عملہ صفائی کی سالانہ ”چہرہ نمائی“ کو پرمزاح انداز میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں :
ہفتہ صفائی منانے کی ضرورت کارپوریشن کو محسوس ہوتی ہے۔ چناں چہ اس کا پورا عملہ ہفتہ صفائی کی’’برسی‘‘ اس کے شایانِ شان منانے کا اہتمام کرتا ہے۔ ہمیں یاد پڑتا ہے کہ گزشتہ برس جب کارپوریشن کو اس بھولے ہوئے فرض کی یاد ستائی اور اس نے ہفتہ صفائی کا آغاز کیا تو صبح ہی صبح خاکروبوں کے جھنڈ کے جھنڈ کوچوں کی صفائی کے لیے پہنچ گئے ہم تو پھر انسان ہیں، محلے کے بے جان و بے زبان در و دیوار تک حیرت سے ان اجنبیوں کو تک رہے تھے جن کی شکل انہوں نے اس سے قبل نہیں دیکھی تھی۔‘‘ (۳)
کالم “فنکاروں کی ناقدری کا نتیجہ” میں قاسمی صاحب نے ‘‘طبقۂ خاص’’ کے لٹیروں اور جیب تراشوں کا موازنہ ماضی قریب میں بکثرت پائے جانے والے حقیقی ‘‘جیب تراشوں’’ سے کیا ہے جو کسی جیب کی صفائی کمال فنکارانہ طریقے سے کرتے تھے اور حاصل ہونے والے چند روپوں کو بھی ‘‘بہت’’ سمجھتے تھے۔ جب کہ موجود دور کے ‘‘صاحبانِ اقتدار’’ آئندہ نسلوں کا رزق بھی کھا جانے کے بعد بھی ہل من مزید پکارتے رہتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے جیب کتروں کو ‘‘بے ضرر مخلوق’’ قرار دیتے ہوئے ان کے ‘‘طریقۂ واردات’’ کو اپنے مخصوص اور منفرد مزاحیہ انداز میں بیان کر کے مسکراہٹوں کے پھول کھلائے ہیں :
ایک بے ضرر مخلوق اور بھی ہوا کرتی تھی۔ جنہیں جیب کترے کہا جاتا تھا۔ یہ صاحبِ فن لوگ تھے۔ اتنی مہارت سے جیب کاٹتے کہ آج کی ایلیٹ کلاس کے جیب تراش جو گزشتہ برس ہا برس سے قوم کی جیب کاٹ رہے ہیں ان کے سامنے طفلِ مکتب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ماڈرن جیب تراشوں کی ہر واردات اور ان کے ہر طریقِ واردات سے قوم واقف ہے۔ بس اپنی کمزوری اور بے بسی کی وجہ سے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ جبکہ ہمارے دور کے ”عوامی جیب تراش“ اپنی دو اُنگلیاں اپنے ہدف کی جیب میں ڈالتے تھے اور جو کچھ اندر ہوتا تھا وہ ایک ماہر سرجن کی طرح باہر نکال لیتے تھے۔ انہیں بعض اوقات بلیڈ بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ مجال ہے کہ اس عمل کے دوران ان کے ‘‘محسن’’ کو کوئی ٹک لگے یا جیب کے علاوہ اس کے ملبوس کا کوئی دوسرا حصہ بلیڈ کی زد میں آ کر خراب ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے نازک آپریشن کے باوجود ان کے ہاتھ کبھی تیس بتیس روپے لگتے اور کبھی بجلی کا بل ہاتھ آتا اور اگر وہ غلطی سے کسی شاعر کی جیب پر ہاتھ ڈال بیٹھتے تو اندر سے ‘‘چند تصویرِ بتاں اور چند حسینوں کے خطوط’’ کے سوا کچھ برآمد نہ ہوتا تھا۔‘‘  (۴)
قاسمی صاحب کی تحریر ‘‘مہر دین مالشیا’’ طنز و مزاح نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ ہر طبقۂ زندگی میں موجود ‘‘مہر دین مالشیا’’ ایک ایسا کردار ہے جس نے اپنے کمالِ فن سے اچھے اچھوں کو ‘‘زیر’’ کر رکھا ہے۔ یہ کردار ‘‘صاحبانِ اقتدار’’ کی تسکینِ طبع کے لیے مالش کو بطور ہنر استعمال کرتے ہوئے تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے کا فن جانتا ہے۔ ‘‘مہر دین مالشیا’’ ایک ایسا کالم ہے جسے خالص مزاح کا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تحریر میں قاسمی صاحب نے مالش کے عمل کی دلچسپ انداز میں منظرکشی پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے وقتی و دائمی فیوض و برکات پر بھی شگفتہ پیرائے میں روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں :
لاہور والوں کو جو چیز بہت مرغوب ہے، وہ سر کی مالش کرانا ہے اور وہ اس کے لیے ‘‘عزتِ سادات’’ کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ چناں چہ ہم نے بڑے بڑے شرفاءکو بیچ لکشمی چوک کے مالشیوں کے ہاتھوں ‘‘ٹھاپیں’’ کھاتے دیکھا ہے اور ظاہر ہے اس میں ان کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ سر کی مالش کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ مالشیا دونوں ہاتھوں سے سر کو جھنجھوڑنے کے بعد درمیان درمیان میں ایک ہاتھ جھاڑ دیتا ہے اور مالشیے کی یہ وہ ادا ہے جو مالش کرانے والوں کو زیادہ پسند ہوتی ہے۔ ہمیں ذاتی طور پر مالش کرانا زیادہ پسند نہیں جتنا دوسروں کو مالش کرواتے دیکھنا ہے۔ کیونکہ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب مالش کنندہ اور ‘‘مالش زدہ’’ دونوں کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ مالش کنندہ بیک وقت مالش بھی کر رہا ہوتا ہے، درمیان درمیان میں اس معزز آدمی کو ایک آدھ ہاتھ جھاڑ کر اپنی انا کی تسکین بھی کر لیتا ہے اور اس مالش کے درمیان اپنے دونوں ہاتھوں کی ضرب سے تالی کی آواز پیدا کر کے اپنا ذوقِ موسیقی بھی پورا کرتا رہتا ہے۔ اس طرح مالش زدگان بھی اس وقت سرور اور لذت کے عالم میں رتبہ، منصب، ذات، مقام سبھی کچھ بھول جاتے ہیں اور یوں اس کیفیت میں بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہو جاتے ہیں۔ ان لمحات میں مالش زدگان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، ان کے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ رہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے چہرے پر جو شانتی نظر آتی ہے، اسے ایک مونو گرام کی صورت میں محفوظ کر لینا چاہیے اور اسے امنِ عالم کی علامت کے طور پر فاختہ کی جگہ استعمال کرنا چاہیے۔‘‘(۵)
عطاءالحق قاسمی عوامی موضوعات کو بھی طرزِ خاص میں پیش کرتے ہیں۔ پنجابی زبان کے الفاظ وہ بے تکلف استعمال کرتے ہیں جس سے تحریر میں شگفتگی پیدا ہوتی ہے۔
کالم ’’اخباری زنان خانے’’ میں صنفِ نازک کے لیے مخصوص رنگین اخباری صفحات میں چھپنے والی حسن و ادا کی عکس بندی کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے۔ ان صفحات میں ‘‘زمانے میں انتخاب’’ چہروں کو ‘‘دیدارِ عام’’ کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ تقریباً تمام اخبارات اپنے قارئین کے ‘‘شوقِ دید’’ اور ‘‘ذوقِ تماشا’’ کے پیشِ نظر یہ صفحات بڑے اہتمام سے شائع کرتے ہیں اور یوں ‘‘اہلِ نظر’’ نہایت باریک بینی سے ان عکسی حشر سامانیوں کا ‘‘مشاہدہ’’ کر کے تسکینِ دل پاتے ہیں۔ اس بارے میں قاسمی صاحب لکھتے ہیں :
جہاں تک اخباروں کے ‘‘زنان خانے’’ کا تعلق ہے۔ یہ اخباروں کا سب سے بارونق حصہ ہوتا ہے۔ اس میں اودے اودے، نیلے نیلے اور پیلے پیلے پیرہن نظر آتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھیں تو ہر پیکرِ تصویر کا پیرہن کاغذی ہوتا ہے اور تہذیبِ حاضر کے حوالے سے فریادی دکھائی دیتا ہے۔ اخباروں کے   ‘‘زنان خانے’’ میں تصویر کی اشاعت کے لیے کوئی کڑا معیار نہیں، ماسوائے اس کے جو شکل نظر آئے ‘‘تصویر’’ نظر آئے۔ البتہ سائز ضرور متعین ہے یعنی یہ تصویر آدھے صفحے سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ اخباروں کے یہ صفحات شرفا کے لیے مفید ہیں جو راہ چلتی خواتین کو دیکھ کر آنکھیں جھکا لیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن ان سے اگر عورت کے سراپا کے بارے میں سوال ہو تو وہ کم از کم تصویروں کی وجہ سے ندامت سے بچ جائیں۔‘‘ (۶)
ایک کالم میں قاسمی صاحب نے اپنے منفرد طنزیہ و مزاحیہ اسلوبِ بیان سے اس خاص طبقے کی نشاندہی کی ہے جو ماہِ رمضان میں عیاری اور فنکاری کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ”مال و اعمال“ میں خوب اضافہ کرتا ہے :
یہ لوگ روزے بھی رکھتے ہیں، پنج وقت نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن تجارت کے فروغ کے لیے مختلف محکموں کے اہلکاروں کے جو ماہانے انہوں نے مقرر کر رکھے ہیں، وہ بھی باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں، اگر مرچوں میں پسی ہوئی اینٹیں مکس کر کے بیچنی ہیں تو یہ سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، بلیک کرنے میں بھی لگے رہتے ہیں اگر سمگلنگ کا شوق ہے تو یہ بھی پورا ہوتا رہتا ہے۔ تاہم ان میں سے جو زیادہ دیندار ہیں وہ یہ سب افطاری کے بعد کرتے ہیں۔
میں تو ان دنوں اخباروں میں ایک فیچر تلاش کر رہا ہوں جو ہر ماہِ رمضان میں باقاعدگی سے اور بڑی بڑی رنگین دیدہ زیب تصویروں کے ساتھ شائع ہوتا ہے، یہ فلمی ایکٹرسوں کے حوالے سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے اخبار کے لیے بطور روزہ دار ماڈلنگ کی ہوتی ہے، سر پر دوپٹہ آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پہ لپ اسٹک ہوتی ہے۔ افطاری کا سامان سامنے سجا ہوتا ہے اور کھجور لب لعین کے قریب لے جا کر تصویر کھنچوائی ہوتی ہے۔ اللہ جانے ان اداکاروں کا روزہ کیمرے کے سامنے دن کے کتنے بجے کھلتا ہے۔‘‘ (۷)
ملکی سیاسی حالات کی طرح موسمی تبدیلیوں کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ صورتِ حال یہ ہے کہ گرمیاں جاتی نہیں ہیں اور سردیاں آتی نہیں ہیں۔ مصنف نے ‘‘مڈٹرم ونٹر’’ کے عنوان سے لکھے کالم میں سردیوں کے ‘‘موسمی سلوک’’ کا شکار ہونے پر اپنی ‘‘تن بیتی’’ کو پرمزاح اور دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو :
ہمارے ایک دوست ہیں، ان کی جب ضرورت نہ ہو تو وہ آن موجود ہوتے ہیں لیکن اگر کبھی سوءِ اتفاق سے ان کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ یہی حال موسم سرما کا ہے۔ ہمیں ان دنوں اس کی سخت ضرورت ہے کہ مہینہ پہلے ایک گرم سوٹ سلوا چکے ہیں مگر سردیاں ہیں کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ اسی دوران ہم نے دو تین دفعہ ‘‘اجتہاد’’ سے کام لینے کی کوشش کی مگر ان تمام لوگوں نے اسے ‘‘بدعت’’ قرار دے کر ہمارے ارادوں پر پانی پھیر دیا، جن کے پاس سوٹ نہیں ہیں مثلاً چند روز بیشتر ٹھیک ٹھاک بارش ہوئی۔ ہم نے موقع غنیمت جانا اور سوٹ پہن کر گھر سے نکلے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ حاسدین نے فقرے کسنے شروع کر دیے۔ اسی طرح چند روز بیشتر ذرا ہوا چلنے پر ہم نے ایک دفعہ پھر یہ سوٹ نکالا۔ ہمیں دوپہر کو تھوڑی بہت گرمی تو محسوس ہوئی، پسینے کے کچھ قطرے بھی پیشانی پر نمودار ہوئے مگر اس کے لیے ہم نے جیب میں رومال رکھا ہوا تھا۔ چناں چہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہم پسینہ پونچھ لیتے تھے۔ اب اگر دیکھا جائے تو سوٹ پہننے کے جملہ نتائج ہم خود بھگت رہے تھے۔ یعنی ہم اپنی جان پر کھیل رہے تھے۔ کسی کو کچھ نہ کہتے تھے۔ مگر یہاں بھی یار لوگ خبثِ باطن کے اظہار سے باز نہیں آئے اور کچھ ایسی نازیبا باتیں کیں کہ پیشانی پر نمودار ہونے والے قطروں کے پونچھنے کے لیے رومال کافی نہ رہا کہ اب یہ قطرے عرقِ ندامت کی صورت اختیار کر چکے تھے۔’’(۸)
مشاہدۂ عام ہے کہ اکثر روزہ خور رمضان کے مہینے میں افطاری سے لطف اندوز ہونے کے لیے روزہ دار والی ‘‘کیفیت’’ طاری کر کے اپنا نام ‘‘پرہیزگاروں’’ کی فہرست میں درج کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
قاسمی صاحب نے اپنے کالم ‘‘نوالہ اور پیالہ’’ میں روزے کی اداکاری کرنے والوں کو یوں بے نقاب کیا ہے :
ادھر افطار پارٹیوں کا سلسلہ بھی زوروں پر ہے اور ان افطار پارٹیوں میں روزہ رکھنے والی اور کھولنے والی دونوں پارٹیاں شریک ہوتی ہیں۔ ان پارٹیوں میں ‘‘فریقین’’ کے نمائندوں سے ہماری ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ ان میں سے روزہ دار کون ہے اور روزہ دار کون نہیں ہے کیونکہ روزہ دار کی جو نشانیاں ہیں، وہ سب کی سب ان روزہ خوروں نے بھی اپنے چہروں پر سجائی ہوتی ہیں۔ مجال ہے اپنی کسی حرکت سے اخفائے راز ہونے دیں۔ مثلاً دسترخوان پر انواع و اقسام کی نعمتیں سجی ہوتی ہیں۔ مگر یہ آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھتے۔ بلکہ کھجوروں کی پلیٹ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں اور دعا پڑھتے ہوئے کھجور کا ایک دانہ منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ اس کے بعد شربت کے جگ کی طرف کچھ اس خشوع و خضوع سے ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
والا مصرع خواہ مخواہ یاد آنے لگتا ہے اور پھر جب گلاس منہ کو لگاتے ہیں تو پہلا گھونٹ پینے کے بعد ان کے چہرے پر جو تاثرات اُبھرتے ہیں تو بس یوں لگتا ہے کہ سارے دن کی پیاس کے بعد پانی کا یہ پہلا قطرہ ہے جو ان کے حلق میں اُترا ہے۔ اللہ اللہ! کیسے کیسے فنکار لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں۔’’(۹)
انگریزی دان اور مغرب زدہ طبقے کا شمار ہمیشہ ‘‘خواص’’ میں کیا جاتا ہے۔ مغربی تہذیب کے چلتے پھرتے یہ ‘‘نمونے’’   القابات و اعزازات کے حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اپنے مغربی آقاﺅں کے رنگ میں رنگے یہ لوگ اپنی ہی دھرتی پر ‘‘سفیرانِ فرنگ’’ لگتے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی وطن عزیز میں انگریزی زبان کو ‘‘آقاﺅں کی زبان’’ کا درجہ حاصل ہے۔ انگریزی زبان سے آشنا اور فرنگی بود و باش اختیار کرنے والے مقتدر حلقوں میں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے انگریزی کی لسانی بالادستی اور قوم کے احساسِ کمتری پر شگفتہ انداز میں تبصرہ کیا ہے :
انگریز کے جانے کے بعد بھی دفتروں سے انگریزی نہیں گئی۔ دراصل اس زبان میں برکت بہت ہے۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی، پشتو میں بات کرتے ہوئے انسان کو کچھ گھٹیا سا لگتا ہے لیکن جونہی وہ انگریزی میں گفتگو کا آغاز کرتا ہے، ایک دم سے ‘اپ گریڈ’ ہو جاتا ہے۔ ہم نے بھی تو دیکھا ہے کہ جونہی کوئی شخص انگریزی بولنے والوں کی ‘‘یونین’’ میں شامل ہوا، اس کے درجات بلند ہو گئے، تاہم اس کے لیے صرف انگریزی بولنا کافی نہیں بلکہ اندر سے انگریز ہونا بھی ضروری ہے اور ‘‘کالے لوگوں’’ کو ایک فاصلے پر روکنا بنیادی شرط ہے۔’’(۱۰)
‘‘گنجا پن’’ مزاح نگاروں کا مرغوب موضوعِ سخن رہا ہے۔ دنیا کے تمام ‘‘بے بال’’ حضرات اپنے سر کی کشتِ ویراں کو سرسبز کرنے کے لیے انواع اقسام کے ‘‘ٹوٹکے’’ آزماتے نظر آتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے گنجے پن کے ‘‘محاسن’’ پر شگفتہ تبصرہ کیا ہے۔
اب اگر آپ مجھ سے دل کی بات پوچھیں تو مجھے ذاتی طور پر ‘‘فارغ البال’’ لوگ اچھے لگتے ہیں۔ بلکہ    بسا اوقات تو ان پر باقاعدہ رشک آتا ہے اور یوں دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر مقدروں میں گنجے ہونا لکھا ہی ہے تو پھر ایسے گنجے ہوں کہ سر کے اردگرد صرف شوشا کے لیے بالوں کی جھالر سی رہ جائے، اس سے شخصیت کچھ باوقار سی ہو جاتی ہے، چناں چہ دنیا کے بعض بڑے بڑے مدبروں کی باوقار شخصیت میں ان کے ‘‘ننگے سر’’ کا بھی بہت حصہ ہے بلکہ میں نے تو یہ بھی سنا تھا کہ جن کے سر کے بال نہیں ہوتے وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں، لیکن میں نے ایک گنجے دوست سے اس کی تصدیق چاہی تو اس نے بے ساختہ کہا ‘‘بکواس ہے’’۔(۱۱)
ایک کالم میں شادیوں کی ‘‘تصویری کارروائی’’ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے عنوان ہے: ‘‘دلہا، دلہن اور اخبار’’۔ آج کل دلہن کے ‘‘خود ساختہ’’ نازو ادا کی ‘‘تصویری یادگار’’ کو نہایت اہتمام سے سرعام دیدار کے لیے زینتِ اخبار بنایا جاتا ہے تاکہ ‘‘سند’’ رہے۔ مصنف شادی بیاہ کی ایسی تقریبات کو ‘‘طالبانِ دید’’ کے لیے کسی ‘‘نعمت’’ سے کم نہیں سمجھتے، لکھتے ہیں :
اخبارات میں شائع ہونے والی ان تصویروں کی بدولت اب قلب و نظر کو اس طرح کی شکایات پیدا نہیں ہوتی بلکہ ہم ڈائریکٹ زنان خانے میں جا پہنچتے ہیں۔ دلہن کا میک اپ ہوتے دیکھتے ہیں۔ اس کے حنائی ہاتھ دیکھتے ہیں۔ اس کی سہیلیوں کی چہلیں نظر آتی ہیں۔ ڈھولک پر لڑکیوں کے گیت سنتے ہیں۔ بسااوقات لڈی ڈانس بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ غرض کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہیں جو پہلے صرف قریبی عزیز اور رشتے دار ہی دیکھ سکتے تھے۔ یارانِ نکتہ دان کے لیے صلائے عام ہے۔ اس ضمن میں ہم اخبارات کے اس لیے بھی ممنون ہیں کہ ڈیڑھ روپے کا اخبار خرید کر ایک سو ایک روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جو دلہن کو منہ دکھائی کے طور پر دینا پڑتے تھے۔ اب تو یہ ہے کہ چاند نکلتا ہے تو سارا عالم دیکھتا ہے اور فی سبیل اللہ دیکھتا ہے۔’’(۱۲)
کالم ‘‘بتیسی فارغ نہیں ہے’’ میں ایسے ‘‘شکم پرست’’ لوگوں کی خبر لی گئی ہے۔ جو ہمہ وقت پیٹ بھرنے کی سعی میں رہتے ہیں اور آخرکار جن کا پیٹ بے تحاشا ذخیرہ اندوزی کی بدولت اپنی جسمانی حدود و قیود سے آزاد ہو کر ایک الگ پہچان کا حامل ٹھہر جاتا ہے۔ اپنے پیٹ کی خاطر یہ دوسروں کے پیٹ پر لات مارنے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات و اعتقادات کو پسِ پشت ڈالنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ نیز پیٹ کے معاملے میں ان کی ‘‘صلح جوئی’’ حیران کن حد تک مثالی ہوتی ہے۔قاسمی صاحب نے کالم میں قوم کی خوش خوراکی کو زیر بحث لاتے ہوئے پیٹ کے معاملے میں متحد ہونے والے ان افراد کو نشانۂ تضحیک بنایا ہے۔ جو کھانے پینے کے موقع پر اپنے باہمی اختلافات بھلا کر مثالی اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کھانے پینے کے معاملے میں ہم لوگ خوش خوراک یا بسیار خور ہی نہیں بڑے صلح کل بھی واقع ہوئے ہیں۔ چناں چہ اور تو اور ہم نے بعض علماءکو دیکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، لیکن مل کر کھاتے ہیں۔ ہم ایسے کئی صحافیوں کو جانتے ہیں جو صرف دسترخوان پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو والوں کو دیکھا ہے کہ جب کھانے کا وقت آیا، دونوں اپنے اپنے طریقوں سے کھاتے ہیں، ایک دائیں ہاتھ سے لقمہ اُٹھاتا ہے اور دوسرا بائیں ہاتھ سے۔ دراصل لڑائیاں نظریات کے خلاف ہوتی ہیں پیٹ کے خلاف تو نہیں ہوتیں۔ جن علماءاور صحافیوں کا ذکر ہم کر رہے ہیں آپ کبھی ان کے پیٹ پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھیں، کسی کا پیٹ اگر کم ظرف ہے تو ‘‘سینہ شمشیر سے باہر ہے دمِ شمشیر کا’’ کے مصداق آپے سے باہر ہوتا نظر آتا ہے۔ جس کھانے والے کا پیٹ اعلیٰ ظرف ہے وہ اپنے پیٹ کو انکم ٹیکس کی طرح چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔’’(۱۳)
عطاءالحق قاسمی کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع اور متنوع ہے۔ وہ زندگی کے عمومی رویوں، رجحانوں اور روایتوں کو اپنی زندہ دلی اور شگفتگی سے اہم اور خاص بنا دیتے ہیں۔ وہ تازہ لطائف سے تحریر میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں۔ قاسمی صاحب ‘‘مقامیت’’ میں ‘‘آفاقیت’’ پیدا کرنے کے ہنر سے بھی آشنا ہیں۔
انگریز رُخصت ہونے کے بعد اپنی نشانیاں اینگلو انڈین لوگوں کی صورت میں چھوڑ گئے تھے۔ ‘‘آدھے تیتر آدھے بٹیر’’، کی مثال یہ لوگ دیسی اور ولایتی طرزِ معاشرت میں اُلجھی انوکھی مخلوق تھے۔ ‘‘یہ اجنبی لوگ’’ کے عنوان سے اپنے کالم میں قاسمی صاحب نے اُس ہم وطن ‘‘انگریز پرست’’ طبقے پر اظہار خیال کیا ہے جو اپنی طرزِ حیات کے لحاظ سے ‘‘اینگلو انڈین’’ لگتے ہیں۔ دیسی انگریز، اپنوں میں ‘‘غیر’’ ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنی پہچان کھو چکا ہے۔ ‘‘سدا کے اجنبی یہ لوگ’’ اپنے لوگوں میں ‘‘اجنبی’’ اور ستم یہ کہ اپنے آقاﺅں کے دیس میں بھی ‘‘بدیسی’’ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں :
قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں بلکہ چھٹی دہائی تک گڑھی شاہو لاہور میں اینگلو انڈین رہا کرتے تھے۔ جن کے ‘‘پاپا’’ یا ‘‘ماما’’ ہندوستان پر غاصبانہ طور پر قابض گروہ میں تھے یعنی ‘‘اینگلو انڈین’’ کی والدہ ماجدہ یا والد ماجد انگریز تھے۔ باقی سارا خاندان دیسی بلکہ خالص دیسی ہوتا تھا۔ مرد حضرات تنگ مہری والی پتلونیں پہنتے تھے، انگریزی دھنیں سنتے تھے اور انگریزی دھنوں پر ڈانس کرتے تھے۔ خواتین اسکرٹ پہنتی تھیں، اور اپنی کالی کالی ٹانگوں کے ساتھ مال روڈ پر سیر کو نکلا کرتی تھیں۔ یہ خود کو یورپین سمجھتے تھے اور لوگ انہیں ‘‘چوڑپین’’ کہتے تھے۔ یہ جعلی انگریز بڑے دلچسپ لوگ تھے۔ ان کے حوالے سے ان دنوں ایک لطیفہ بہت مشہور تھا جو اس ڈائیلاگ کی صورت میں تھا ‘‘ٹانگے والا تم بھاٹی گیٹ جانا مانگتا؟
بیٹھو میم صاحب
تم بھاٹی گیٹ کے کتنے پیسے مانگتا؟
آٹھ آنے میم صاحب
بے ایمان نہ ہوے،میں تے روز چوانی دے کے جانی آں
لوگ ان پر ہنستے تھے اور مجھے ہمیشہ ان پر ترس آتا تھا کہ وہ بدنصیب تھے جو اپنوں میں رہتے ہوئے بھی اپنوں کے لیے اجنبی اجنبی سے تھے۔ ان دنوں ہمارے درمیان یہ ‘‘اینگلوانڈین’’ تو نہیں ہیں لیکن ان سے ملتی جلتی نسل گزشتہ باون برسوں میں ہمارے ہاں پروان چڑھی ہے۔ یہ مشنری اداروں اور حرام مال میں پلی ہونی جنریش ہے جس نے آہستہ آہستہ اقتدار میں آ کر ملک کے نوے فیصد دیسی عوام کی آرزوؤں اور اُمنگوں کو اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ ان کے والد اور والدہ بھی پاکستانی ہوں، مسلمان ہیں لیکن ان کی روزمرہ کی زبان اور رہن سہن مغربی ہے۔’’(۱۴)
عطاءالحق قاسمی کے کالموں میں ان کی وطن دوستی خاص طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ خاکِ وطن کا ہر ذرہ ان کے لیے دیوتا کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے وطنِ عزیز کے سماجی، ثقافتی اور معاشرتی مسائل کو اپنے کالموں کا موضوع بنایا ہے۔ شوخی، شگفتگی، زندہ دلی اور بذلہ سنجی ان کی کالم نگاری کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اردو کی فکاہیہ کالم نگاری میں عطاءالحق قاسمی ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ سیّد ضمیر جعفری لکھتے ہیں :
کالم کو جرنیلی سڑک پر نہیں، پگڈنڈیوں پر چلنا چاہیے۔ وہ گرجے کم، برسے زیادہ۔ ان توقعات پر وہی کالم پورا اُترتا ہے جو توقعات سے بے نیاز ہو کر لکھا جاتا ہے اور عطاءالحق قاسمی کا یہی وہ بے نیازانہ ہے، جس کی صحت اور زندگی کی دعا دوست دشمن دونوں مانگتے ہیں۔
عطاءالحق قاسمی معاشرتی، سیاسی کوتاہیوں اور ناہمواریوں کے خلاف شدید احتجاج کرتا ہے۔ ظالم اور مظلوم کی نشاندہی، اس کے کالموں میں جابجا نظر آتی ہے۔ بعض اوقات تو وہ آستینیں چڑھائے، ڈنڈا اُٹھائے، برے کو اس کے گھر تک چھوڑ آتا ہے لیکن اس ساری کارروائی میں وہ اپنے قاری کو بدمزہ یا ماحول کو افسردہ نہیں ہونے دیتا۔ اس کا غصہ ایک ایماندار شخص کا غصہ ہے جو آتا بھی جلد ہے اور جاتا بھی جلد ہے۔ وہ جہاد کرتا ہے، فساد نہیں کرتا۔ طنز کو وہ عینک کی طرح نہیں پہنتا کہ اپنے چہرے کے سوا سب کچھ نظر آئے۔ اس کا دھاوا دفاعی اور رفاہی ہوتا ہے۔ اس کے کالموں کی مقبولیت کا راز اس کے ‘‘سوادلے’’ طرزِ تحریر میں مضمر ہے۔’’(۱۵)
خالد اختر کے الفاظ میں :
عطاءالحق قاسمی کی یہ تحریریں کسی کی تعریف کی محتاج نہیں۔ کہنے کو تو یہ سب کی سب اخباری کالم نویسی کی صف میں آتی ہیں۔ ایک دن کی زندگی پانے والی وقتی تحریریں، مگر ان میں اتنی شگفتگی اتنی انبساط انگیزی ہے، ان کا اسلوب اتنا قدرتی، اتنا روشن ہے کہ میری رائے میں (اور اس کے دوسرے پڑھنے والوں کی رائے میں) وہ ادب کے قریب آ جاتی ہیں ان میں سے چند ایک تو ادب پارے ہیں۔ اعلیٰ معیار کی طنز اور ظرافت کے نثری ٹکڑے جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔’’(۱۶)
عطاءالحق قاسمی کی اخبار کے صفحات میں شائع ہونے والی تحریریں تاریخِ ادب کے صفحات میں نمایاں ہو گئی ہیں۔

حوالہ جات
۱ -      انتظار حسین (فلیپ نگار)، مجموعہ (مصنف: عطاءالحق قاسمی) نیشنل بک فاﺅنڈیشن، اسلام آباد، اپریل۲۰۱۶ء
۲ -     نصر اللہ خان (تبصرہ نگار) ‘‘روزنِ دیوار سے’’ (مصنف: عطاءالحق قاسمی)نستعلیق مطبوعات، اُردو بازار، لاہور،  ۲۰۱۲ء، ص ۷
۳ -     عطاءالحق قاسمی، روزنِ دیوار سے، ص ۴۱
۴ -     عطاءالحق قاسمی، خندِ مکرر، نستعلیق مطبوعات، اردو بازار، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۲۱
۵ -     عطاءالحق قاسمی، جرمِ ظریفی، نستعلیق مطبوعات، اردو بازار، لاہور، مئی ۲۰۱۲ء، ص ۵۷
۶ -     ایضاً، ص ۱۱۱
۷ -     عطاءالحق قاسمی، دھول دھپا، نستعلیق مطبوعات، اردو بازار، لاہور ۲۰۱۲ء، ص ۴۲
۸ -     ایضاً، ص۲۱۰
۹ -      ایضاً، ص ۲۱۷
۱۰ -    ایضاً، ص ص ۲۳۰
۱۱ -     عطاءالحق قاسمی، شر- گوشیاں، نستعلیق مطبوعات اردو بازار، لاہور، ۲۰۱۲ء، ص ۲۲، ۲۳
۱۲ -    ایضاً، ص ۱۰۳
۱۳ -    ایضا، ص ۲۰۵
۱۴ -    عطاءالحق قاسمی، بارہ سنگھے، نستعلیق مطبوعات، اردو بازار لاہور، ۲۰۰۹ء، ص ۴۳، ۴۴
۱۵ -    سیّد ضمیر جعفری (دیباچہ نگار) ‘‘جرمِ ظریفی’’ (مصنف: عطاءالحق قاسمی)نستعلیق مطبوعات، اُردو بازار، لاہور، مئی ۲۰۱۲ء، ص ۱۴-۱۵
۱۶ -    محمد خالد اختر (دیباچہ نگار) ‘‘روزنِ دیوار سے’’، ص ۱۳


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com