رحمان مذنب کی افسانہ نگاری اور موضوعات کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ
عاصمہ پی ایچ ڈی سکالر شعبہ اردو  جامعہ پشاور
پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شاہین(صدر نشین)  شعبہ اُردو جامعہ پشاور

ABSTRACT :


Rehman Muznib was a renowned writer of his times. The collection of his write ups was mainly short stories. He contributed a life time for writing. His stories were focused for specific purpose to have a positive impact on the society. He earned name for his writings about gay people and prostitute. The character of his stories was found in lower and oppressed section of the society to change the negative mentality and attitude of common people towards prostitution.
His write ups cover all the topics that have positive impact on the society and common people. Thearticle shown below is about the short stories and topics of Rehman Muznib.

کوئی بھی ادیب اپنے احساسات، تجربات، جذبات اور مشاہدات کی عکاسی ادب کے بل بوتے پر کرتا ہے۔اور اس اظہار کے لیے وہ مختلف اصناف ادب کا سہارا لیتا ہے۔ بلا شبہ اُردو کی مختلف اصناف میں سے افسانہ کو شاعری کے بعد زیادہ توجہ حاصل ہوئی۔ جس کی وجہ سے افسانہ  بڑی تعداد میں لکھا جانے لگا۔اُردو کے مختلف افسانہ نگار اپنے اسلوب، موضوع اور تکنیک کے حوالے سے اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں انہی میں ایک نام رحمان مذنب کا بھی ہے۔ رحمان مذنب ایک ہمہ جہت اور ہمہ وقت لکھنے والے ادیب تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کے بڑے بڑے ادبی پرچوں کو اپنے خوبصورت اور دل آویز تحریروں سے سجایا۔ لیکن اُن کا مخصوص میدان افسانہ ہے  انھوں نے بطور افسانہ نگار ہی زیادہ نام بھی پایا۔ اُن کی ادبی زندگی ساٹھ سال کی طویل عرصے پر مبنی ہے۔اُن کی تحریروں سے قارئین کی لگ بھگ تین نسلوں نے استفادہ کیا تاہم ناقد ین ادب نے اُن کے تحریروں کو نظر انداز کیا۔ لیکن ایسے میں ڈاکٹر وزیرآغا، مرزا حامد بیگ اور ڈاکٹر انورسدید نے آگے بڑھ کر انھیں نئے سرے سے دریافت کیا۔ اور ان کے فن و شخصیت پر قلم اُٹھایا اُن پر کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنا فرض ادا کیا۔ تاہم رحمان مذنب شہرت اور ناموری سے بے پروا اپنی تنہائی اور درویشی کو اپنی خوبصورت تخلیقات کی نذر کرتے رہے۔اورلاہور کی پرانی تہذیب اور روایت کو اپنے تخلیقی فن کا حصہ بنانے میں مصروف عمل رہے۔شہرت کی خاطر انھوں نے کسی گروہ کی بجائے  اپنے قلم سے تعلق جوڑا۔ اور اسی قلم کی بدولت انہوں نے زندگی پائی۔ رحمان مذنب کا شمار اُردو ادب قبیلے کے ان افرادمیں ہوتا ہےجن کے افسانے، اسلوب، مقصدیت، موضوع، زبان و بیان اور تکنیک کے اعتبارسے معیاری  ہیں۔ اُن کی موضوعات کی فہرست بڑی طویل ہے اور زندگی کا شاید ہی کوئی موضوع اس کے قلم سے بچ نکلا ہو۔ لیکن اُن کوزیادہ شہرت  بازاری عورتوں پہ افسانے لکھنے سے ملینفسیات سے متعلق افسانہ نگاروں میں رحمان مذنب کی نمایاں پہچان تیسری جنس یعنی ہیجڑوں اور طوائف سے متعلق افسانہ نگاری ہے ۔ناقدین ادب نے رحمان مذنب کوخوشبودار عورتوں کا افسانہ نگار کہا ہے ۔ رحمان مذنب کا افسانہ لکھنا اور پھر ایسے متنازعہ موضوع پہ لکھنا کسی کرشمہ سے کم نہیں۔ کیونکہ ان کا تعلق مذہبی گھرانے سے تھا۔ ان کے باپ دادا مفتیان شاہی مسجد رہ چکے تھے۔ گھر میں ہمیشہ قرآن، تفسیر، حدیث اور دینی مسائل پر بحث ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ گھر کے دیگر افراد بھی کتب بینی کا شوق رکھتے تھے۔گھر میں سب نے اپنی پسند اور دل چسپی کے مطابق کتابوں کا مطالعہ کر کے ایک دوسرے  پر برتری حاصل کرنا تھی۔ معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید کے ساتھ مکالمےمیں اس صورت حال پر تبصرہ کر تے ہوئے رحمان مذنب کہتے ہیں کہ:۔


" حضرت یوسف اور زلیخا کا قصہ ، جنگ بدر، جنگ اُحد اور جنگ خندق ایسی مہمات نیز رسول پاک  ﷺ کی زندگی کے واقعات اور انمٹ نقوش کا بیان والد صبح کےدرس حدیث میں کرتے، میں بھی سنتا۔ سہ پہر کو علمی اور سیاسی نشست ہوتی۔ میر مجلس والد ہوتے ۔:" (۱)

رحمان مذنب کا اس موضوع پر لکھنا بھی لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے کہ ایک علمی گھرانے کا لڑکا جس کے گھر میں درس و تدریس کا اہتمام ہوتا آخر اس موضوع کا انتخاب کیوں کرے گا۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ رحمان مذنب کے گھر اور باہر کے ماحول میں ہم آہنگی نہ تھی۔ ان کا گھر ناچنے، گانے والیوں، طوائفوں اور ہیجڑوں کےمحلے میں تھا۔ جس کی وجہ سے ان کا روز اس طبقے سے واسطہ پڑتا۔ طوائف کے کوٹھوں کے پہلو میں رہ کر اس ماحول سے متاثر تو ہونا ہی تھا۔اور پھر ادیب تو ہوتا ہی ہے اپنے معاشرے کو بیان کرنے والا۔ گو رحمان مذنب کا گھر پاک تھا، مقدس تھامگر محلہ غلیظ اور گناہوں سے تر رہتا۔ رحمان مذنب ان کیفیات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ:۔

" گھر میں علم تھا، پاکبازی تھی، درویشی تھی، دانائی تھی۔ باہر افسانہ اورڈرامہ تھا۔ ہر آن کوئی واقعہ، کوئی سانحہ دیکھنے میں آتا۔۔۔۔بے وفاؤں کی بستی میں، کوٹھی خانوں کے کونوں میں، کلال خانے میں اور بھرے بازار میں دن اور رات میں کیا کیا گل کھلتے۔ حسن و عشق کے جوالا مکھیوں میں پروانے کس طرح جلتے مرتے، جنت اور جہنم کےحیرت خیز مناظر کم و بیش ساٹھ سال تک میں نے دیکھے۔ یہ تماشے مجھ پرگزرے ، کنارے پر  کھڑے ہو کر نہیں ، جوالا مکھی میں کود کر تجربہ کیا۔ " (۲)

       رحمان مذنب کو قریب سے اس ماحول کودیکھنے کا موقع ملا وہ طوائفوں کی زندگی کے عینی شاہد تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے مشاہدے کو افسانوں میں اس طرح پیش کیا کہ  اپنی مثال آپ بن گئے۔ بعض لوگ اُن کی طوائف نگاری کو اپنے مذہبی گھرانے اور ماحول سے بغاوت قرار دیتے ہیں۔ جہاں ہر روز قرآن و حدیث اور فقہ کی کتابیں پڑھی جاتی تھی۔ لیکن اس بات میں کوئی وزن نہیں۔ کیونکہ وہ بخوشی ایسی علمی محفلوں اور مجلسوں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے والد کے زیر نگرانی دینی تعلیم بھی حاصل کی۔ انھوں نے یہ بغاوت اپنے گھریلو ماحول سے نہیں بلکہ اس ماحول و معاشرے سے کی جہاں بیسوں مسجد اور مدرسہ نعمانیہ جیسی اسلامی درسگاہ موجود ہونے کے باوجود طوائف کا بازار بھی اس مقدس جگہ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ جہاں دن رات جسم فروشی کا دھندہ چل رہا تھا۔ تو ایسے میں رحمان مذنب نے اپنے قلم کو آلہ کار بنا کر طوائف کو موضوع بنایا۔ اس گندے  اور غلیظ دھندے کے پردے چاک کئے اور اپنی تحریروں کے ذریعے ان کو سامنے لایا۔طوائف کے کوٹھوں پر ہونے والے واردات کی جزئیات بیان کر کے قارئین تک پہنچائے۔ اس گھناؤنے کاروبار پر پڑے پردے نوچ ڈالے تو ایسے میں یہ بغاوت طوائف کے ماحول سے ہے اپنے مذہبی گھرانے سے نہیں۔
اس موضوع پر لکھے گئے رحمان مذنب کےافسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ اُنھوں نے طوائف اور اس کے ماحول کے حوالے سے بڑی گہرائی سے لکھا اس کی زندگی کا ہر رخ بے نقاب کیا۔ اُنھوں نے نہ صرف طوائف کی موجودہ زندگی اور سرگرمیوں کو موضوع بنایا بلکہ اس تلخ حقیقت کی نقاب کشائی بھی کی کہ ایک عورت جو انسان ہے ، صنف نازک ہے طوائف بننے پر کیوں مجبور ہوئی۔ عورت کی جگہ چونکہ گھر اور چاردیواری ہے اوریہ ایک ایسی مخلوق ہے جس کو پردوں میں چھپایا جاتا ہے۔اس کے معاشی ضروریا ت کا بوجھ ایک فرد کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے۔ چاہے وہ باپ کی صورت میں ہو، بھائی کی صورت میں یا خاوند کی صورت میں ہو، وہ ایسے گھناؤنے راستے کا انتخاب کیوں کرتی ہے۔ اسے کن معاشرتی رویوں اور حالات نے اس کام پر مجبور کیاہے۔ اور وہ گھر کی چاردیواری کی بجائے بازار میں بیٹھنے پر مجبور ہوگئی۔ انھوں نے طوائف کی تدریجی تنزل سے اپنی کہانیوں کا تار و پود بُنا ہے۔ اُن کی کہانیوں سے وہ سارا پس منظر سامنے آتا ہے جو عورت کو طوائف بننے پر مجبور کرتاہے۔ اور وہ سارے کردار بے نقاب ہو تے ہیں جو عورت کو گھر کے چاردیواری سے نکال  کر کوٹھے پر بٹھا دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے رحمان مذنب کی افسانہ نگاری کو کچھ یوں سراہا ہے:۔


"رحمان مذنب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے تیسری جنس، پیشہ کرانےوالی عورت اور شہوت میں بھنتے ہوئے افراد کی نفسی کیفیات کو تمام ترجزئیات اور تاریخی پس منظر کے ساتھ اپنے افسانوں میں سمیٹنے کا جتن کیا ہے۔ بطور افسانہ طراز، رحمان مذنب اپنے پسندیدہ لینڈا سکیپ(خصوصاًہیجڑوں کی بیٹھک یا چکلے) پر چھوٹا کھیل نہیں کھیلتے، بڑی بازی لگاتے ہیں۔جس کےطفیل ان کا قاری ہیجڑے، طوائف اور تماشبین کےعلاوہ نوسر بازکبابے، جیب تراش، دلےّ  اور سفید کپڑوں میں پولیس کے کارندوں کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔ اس خصوص میں رحمان مذنب کے گوری گلاباںپتلی جان، گشتی، لال چوبارہ، چڑھتا سورج وغیرہ لازوال افسانے ہیں" (۳)

                   رحمان مذنب کے افسانوں میں جتنے بھی کوٹھے، بالاخانے، تکیے، جوا خانےاور  چانڈو خانے ہیں وہ سارے اُن کے مشاہدےکا عکس معلوم ہوتے ہیں ۔ رحمان مذنب کے افسانوی ادب میں لاہور کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اُن کے ہاں پرانا لاہور یعنی ثقافتی لاہور نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے لاہور کے سرزمین پر آنکھیں کھولی، جنم لیا اور شعور سنبھالا  اور وہیں اُٹھتے بیٹھتے رہے۔ اُن کی سوچ، خیالات، احساسات اور مشاہدات ہے۔ اپنے علاقے اور ماحول سے اُن کا تعلق گہرا ہے۔ اُن کے قلم نے اپنے ماحول اور علاقے کے حالات و واقعات کو روشنائی بخشی اور محفوظ کر لیا۔ایک ادیب وتخلیق کار کی بڑی خوبی وکامیابی اسی میں ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد اور اردگرد کے ماحول ، حالات وواقعات کو اپنے فن پاروں میں پیش کرتا ہے ۔ اپنے عہد، معاشرت اور تہذیب کو اپنی تخلیقات کے ذریعے دوام بخشتا ہے اور اسی سے فن کی بقا ہوتی ہے ۔ اگر مذنب کے افسانوی ادب کا جائزہ لیا جائے توا س کی پہلی خوبی یہ نظر آتی ہے کہ اُنھوں نے اپنے عہد کے حالات وواقعات ، اردگرد کے ماحول ومعاشرت کو اپنے تخلیقات کا موضوع بنایا ۔ وہ اپنے دور کے واحد فن کار ہے جس نے سات دہائیوں کے بازار کو اپنی روایات اور تفصیلات کے ساتھ بھر پور انداز میں پیش کرکے ، ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا ۔رحمان مذنب کا کمال یہ ہے کہ اُنھوں نے طوائف کو دریافت کیا ۔ اس کی تہہ در تہہ ہستی ، اس کی اندرونی اور پوشیدہ زندگی اور اس کے خدوخال ، حالات اور معاملات کو جانا ۔ اس کی کاروبار ی زندگی، اس کی محبتوں اور وفاؤں کی حقیقت سے پردہ سرکایا ۔ اس کی ذمہ داریوں ، ضرورتوں اور مجبور یوں کو سامنے لایا ۔ لوگ کس طرح طوائف کے چوکھٹ پر آکر جھک جاتے اور چت جاتے ہیں یہ ساری جزئیات رحمان مذنب کے فن پاروں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اُنھوں طوائف کی زندگی کو اس  کےاصل روپ میں پیش  کیا ۔ وہ روپ جو طوائف اور عورت کے مابین ہونے والے کشمکش ختم ہونے کے بعد سامنے آتا ہے اور پھر کسی مذہبی اور سماجی قیودوحدود اور ضوابط کو خاطر میں نہیں لاتی ۔ اُنھوں نے ایسی عورت کوپیش کیا ہے جو کسی کشمکش یا تذبذب کا شکار نہیں بلکہ ہر آزمائش ومصیبت سے گزر کر جسم فروشی کو اپنی ضروریات زندگی کے لیے آخری وسیلے کے طور پر اختیار کرلیتی ہے اور پھر جیسے اپنی کشتیوں کو جلا کر واپسی کے سارے راستے اور امکانات ختم کردیئے ہو ۔اُنھوں نے بطور خاص طوائف اور بازار حسن کو موضوع بنایا  اور اس سے وابستہ چھوٹے چھوٹے کرداروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ رحمان مذنب کے گھر کا ماحول مذہبی تھا لیکن باہر نکلتے ہی شرو فتنوں سے واسطہ پڑتا۔ اور یہیں سے رحمان مذنب کو اپنے افسانوں کے خام مواد ملتا رہا۔ اس لیے جب انھوں نے میدان ادب میں قدم رکھا تو افسانوں میں ہیجڑوں اور طوائف کو اپنا موضوع بنایا۔ وہ اپنے کردار ،اپنے ارد گرد کے ماحول اور اکثر نچلے اور مظلوم طبقے سے تلاش کرتے رہے ۔ اور معاشرے کے دو رُخے چہرے کو بے نقاب کر نے کے لیے میدان ادب میں کود پڑے۔
رحمان مذنب معاشرے کے اس طبقے کا افسانہ نگار ہے جہاں طوائف پیدا ہوتی ہیں، پروان چڑھتیں اور ایک عالم کو لوٹنے کے بعد اپنے فن اور کلچر کا ورثہ اگلی نسلوں تک منتقل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ رحمان مذنب چونکہ طوائف اور بازار حسن کے پڑوس میں رہ چکے ہیں۔ اس لیے اس بازار سے متعلق کئی قسم کے کردار اُن کے مشاہدے اور تعلق میں رہ چکے ہیں۔ اس بازار اور طوائف کے پیشے کے پیش کش میں رحمان مذنب جیسا کوئی افسانہ نگار نظر نہیں آتا۔اُنھوں نے جو دیکھا وہی پیش کیا ۔ اُنھوں نے اپنے افسانوں کے لیے خام مواد کسی خیالی یا فرضی دنیا سے نہیں اپنے ارد گرد کے ماحول و معاشرے سے چنا ہے۔
بعض ناقدین ادب جیسے ڈاکٹر وزیر آغا اور انور سدید نے بھی اُن کے فن پاروں میں موجود طوائف کے کردار کے بارے میں کہا ہے کہ اُن کے فن پاروں میں موجود بازاری عورت کے دل میں خانہ داریا گھریلو عورت بننے کی آرزوجنم ہی نہیں لیتی ۔ لیکن ایسا نہیں کیونکہ اُنھوں نے بعض کہانیوں میں طوائف و عورت کے اس کشمکش کو دکھایا ہے ۔ طوائف کےمردہ ضمیر کو جاگتے اور اس میں عورت کے خوابیدہ روپ اُٹھتے دکھایا ہے ۔ اس لیے اُن کے افسانوں میں خیروشریا عورت وطوائف کے باہمی کشمکش اور آویزش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ "باسی گلی " کی ایشاں جو ناموافق حالات کے تحت اپنے پیٹ پالنے کے لیے جسم فروشی کا دھندہ شروع کردیتی ہے ۔ لیکن اُن کی دل میں واپس جانے کی خواہش باربار کروٹ لیتی ہے۔ آخر کار واپس جانے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس طرح "خلاء" کی نوچندی بھی اپنا گھر بنانے کی خواہش رکھتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتی اس طرح افسانہ "بالی" کا مرکزی کردار بھی اپنی اس خواہش میں کا میاب ہوجاتی ہے ۔ اس کے علاوہ بلوری بلبل اور کوباں کی کامیابی بھی موجود ہے۔ اس طرح افسانہ "گوری گلاباں " کا کردار گلاباں بھی یہی خواہش رکھتی ہے کہ کوئی اس سے بیاہ کرے "آغوش شرر" کی مہرالنساء بھی ۔ اس طرح "بدر بہادر ڈکیٹ " میں موجود نین تارا بھی گھر بسانے کی خاطر اپنی نائیکہ سمیت اس دھندے کو خیر باد کہہ دیتی ہے ۔ ناول "گل بدن " میں موجود طوائف کا کردار بھی اگر چہ ایک خاندانی طوائف ہے۔اور اس کی تربیت بھی ان خطوط پر  ہوتی ہے کہ وہ نہ صر ف خود یہ دھندہ خوش اسلوبی سے جاری رکھےاور اگلی نسلوں تک منتقل کرے۔
رحمان مذنب نے اپنے افسانوی سرمایے میں صرف طوائف ، اس کے شب وروز اس کےماحول اور اس پیشے سے وابستہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں معلومات نہیں دی بلکہ اُنھوں نے موضوع کے لحاظ سے عام عورت کی کردار کے مختلف روپ اور مسائل کو اپنے فن پاروں کا موضوع بنا کر فنی  سطح پر بھی اپنے موضوعات کو معتبر بنانے کی کوشش کی۔ایسے افسانوں میں پھول سائیں، پھرکی، کیسری لاچا، صحرا کا انتقام،بیڈمنٹن، رام پیاری، قیصری اور پرانا شہر شامل ہیں۔ جن کے ذریعے اُنھوں نے گھروں میں محفوظ عورتوں کو موضوع بنایا ہے۔اس کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی بہترین افسانے تخلیق کیے ہیں۔یہ افسانے اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ موضوعاتی سطح پر رحمان مذنب یکسانیت اور تکرار کا شکارنہیں ۔"موتیوں والی سرکار " کے ذریعے بھی اُنھوں نے عورت کی ذات اور اس کی گھریلو زندگی  سے غفلت کو موضوع بنایا ہے نیز اس کے ذریعے رحمان مذنب نے  مردکی طرف سے عورت کو ملنے والی بے جا آزادی پر بھی گرفت کی اور گھر کی بربادی کا دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔انھوں نے سن پینتالیس کے فسادات کا نقشہ اپنے افسانہ "جلتی بستی" میں کھینچا ہے۔اس طرح "کوہسارزادے" میں پختون قوم برطانوی سامراج سے نبرد آزما نظر آتی ہے۔"زہریلی عورت" میں اُنھوں نے اسرائیل اور یہودیوں کی چالاکیوں کا ذکر کیا ہے۔ "رام پیاری" میں ۱۹۷۱ء کی جنگ اور تقسیم پاکستان کا ذکر ہے۔افسانہ "بھوکی اُمنگ"میں غیر شادی شدہ نوجوانوں کے مسائل اور نفسیات کی عکاسی کی ہے،ان فن پاروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ  رحمان مذنب نے طوائف اور عورت کی زندگی کے ہر پہلو کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کے دیگر موضوعات کو  بھی فنی چابک دستی کے ساتھ اپنے فن پاروں میں پیش کیا ۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُنھوں نے اپنی بیشتر  فن پاروں میں عورت کو مرکزی حیثیت سے پیش کرکے یہ تاثر غلط قرار دیا کہ عورت معاشرے معاشرے کی غیر اہم یا کمزور ہستی ہے ۔ رحمان مذنب ایک اچھے معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں عورت کے کردار کی اہمیت کو فوقیت دیتے ہیں ۔ اُ ن کے فن پاروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک ومعاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے مردکی کوشش میں عورت کی پشت پناہی کتنا حصہ ڈالتی ہے جیسے رحمان مذنب کی تخلیقات مقدس پیالہ ،میواڑ کی رادھا ، نقد وفا ، رام پیاری ، یروشلم کی تتلی، وغیرہ میں یہ عناصر دیکھے جا سکتے ہیں ۔رحمان مذنب عورت کے حقوق اور باعزت زندگی کے علمبردار فن کار ہے وہ معاشرے میں عورت کو اہم مقام دلانے کے خواہش مند ہیں ۔ اور اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیشتر کہانیوں میں عورت ہی کواہمیت دے کر مرکزی کردار کے طور پر پیش کیا ہے لیکن عورت کی بے حیائی ، فحاشی اور جدیدتہذیب کے نام پر عورت کے استحصال کے خلاف بغاوت کرتے نظر آتے اور جہاں بھی بے حیائی  ، فحاشی پھیلانے اور عورت کے استحصال کرنے والے کردار اُن کی تخلیقات میں نظر آتے  ہیں تو فوراً اُن کی زندگی کی رسی کٹوا دیتے ہیں ۔ جیسے "افلاس کی آغوش " میں زبیدہ کے ہاتھوں جاگیردار کی زند گی کا پتا کٹوا دیتے ہیں ۔ تو "گوری گلاباں "میں مظلوم گلاباں کے ہاتھوں ظالم نتھے خان کا ، "میواڑ کی رادھا "میں  حامد خان مجددی کے ہاتھوں ہوس پرست پروہت کا ۔
رحمان مذنب نے اپنے بیشتر فن پاروں میں عورت کو بطور مرکزی کردار پیش کرکے اُن کے اردگرد اپنی کہانیوں کا پلاٹ بُنا ہے ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ رحمان مذنب نے صرف عورت کو اپنے افسانوی ادب کا محور ومرکز بنایا بلکہ اُنھوں نےا پنے افسانوی سرمایے کے ذریعے انسانی زندگی سے وابستہ بہت سے حقائق کو موضوع بنایا جیسے افسانہ "پتلی جان " کے ذریعے اُنھوں نے عورت اور مرد کے سنگم پر تیسری جنس یعنی ہیجڑے کے جذبات واحساسات تک رسائی حاصل کی ۔ افسانہ "نوکری " کے ذریعے بے روز گار ی کی لعنت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو زیر بحث لایا ہے ۔ افسانہ "کلاوتی اور چانکیہ " کے ذریعے کمزور ومحکوم طبقہ میں جو ش وولولہ پیدا کرنے ، ظالم حکمرانوں کے خلاف متحد ہونے اور اُن کے خلاف لڑنے پر کمربستہ  دکھایا ہے ۔ مقدس پیالہ میں ایک طرف ظالم عیاش حکمرانوں اور سیاستدانوں کو بُرے انجام کودکھایا ہے دوسری طرف  سردار سناطوس اور قامہ کی عوام دوست حکومت کے ذریعے عوام پر حکومت کرنے اور سیاست کے آداب ورموز بھی سکھادیتی ہے۔"میواڑ کی رادھا " کے ذریعے برصغیر کے ہندوسماج میں مذہب کے نام پر فحاشی اور عریانی کو موضوع بنایا ہے ۔ نیز مسلمان مصلحین  ان حرافات کا سدِباب کرتے دکھایا ہے ۔"زرینہ اور ہاشم " افغانستان پر روسی حملے کے پس منظر میں لکھا گیا ہے ۔ بدر بہادر ڈکیٹ انگریزوں کی من مانیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ان کے کاروائیوں کے خلاف مزاحمت کرتے دکھایا ۔
رحمان مذنب نے افسانوی ادب میں جاگیردار وسرمایہ دار طبقے متوسط طبقے کےساتھ ساتھ نچلے اور غریب طبقے کے مسائل اور سائیکی کو منظر عام پر لایا ہے افسانہ "پھرکی،"قیصراں"، "نوکری"،کلاوتی اور چانکیہ " اور افلاس کی آغوش "پنجرے کے پنچھی وغیرہ میں یہ عناصر  دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ طوائف کے نفسیات وحالات پر گہری نظر رکھنا بھی اُن کا خاصہ ہے ۔ جس سے رحمان مذنب کے سماجی اور طبقاتی شعور کا پتہ چلتا ہے جو باطنی سطح ر چابسا ہونے کے ساتھ ساتھ خا رجی سطح پر بھی اپنے تمام تاریخی شعور اور تجربے کے ساتھ  نمایاں ہوتا ہے ۔ اُن کے فسانوی ادب میں ایک بات یہ بھی نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اُنھوں نے ہمیشہ تخلیقات کوخیروشر کی باہمی آویزش کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کش مکش اور آویزش میں خیر کو نمایاں کرکے دکھایا ہے۔جیسے راضیہ شمشیر لکھتی ہے ۔


"گویا رحمان مذنب کے ہاں افسانہ نگاری کا عمل دراصل نیک وبد کے نقوش واضح کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو قاری کو اس قابل بناتا ہے کہ افسانے کے ماحول سے نکلنے کے بعد اس کی نگاہ نیکی کے پوتروپُرنوروجود اور شرکی بظاہر جگماتی مگر بباطن تاریک ہستی کو الگ الگ پہچان سکے رحمان مذنب کے افسانے اسی نظریہ فن کے تابع ہیں ۔"(۴)

                              
لیکن خیرو شر کے اس کش مکش میں حقیقت نگاری کو بطورخاص جگہ دی ہے اور تلخ حقائق کو بلا جھجک اور بغیر  لگی لپٹی بیان کرتے وقت اُن کا قلم بے باک ہوجاتا ہے ۔اور خاص کر طوائف کے اڈو ں  اور کوٹھو ں کی جزئیات بڑے بے باکی سےبیان کی ہیں اس وجہ سے ناقدین ادب نے رحمان مذنب کو خوشبو دار عورتوں کا افسانہ نگار کہا ہے۔ رحمان مذنب نے اس موضوع کے متعلق نئے نئے پہلو سامنے لائے لیکن اس کے باوجود اُن کے اسلوب میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ملتی۔ اُنھوں نے جو لکھا بڑی احتیاط کے ساتھ ناپ تول کے لکھا۔ وہ منٹو کے ہم عصر ہے اور ان دونوں کے درمیان جو چیز مشترک ہے وہ طوائف ہے۔ لیکن دونوں کا انداز بیان اور اسلوب مختلف ہے۔ اس لیے دونوں کے اسٹائل میں بہت فرق ہے۔ ایک دوسری بات جو اُن کے قلم کو بھٹکنے نہیں دیتی وہ یہ ہے کہ وہ ایک اچھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے والد شاہی مسجد کے مفتی تھے۔ اور مذنب اپنے والد کے ایک فرمانبردار بیٹے کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ وہ طوائف، تماش بینوں، کوٹھوں اور بالاخانوں کے حالات و جزئیات لکھتے ہیں لیکن مہذب انداز میں ۔ اُن کا انداز فحش نہیں ، نہ فحاشی و عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہےبلکہ اُن کی تحریریں ان حالات کے خلاف ایک بھر پورآوازکی کیفیت لی ہوئی ہے۔ اور یہی اُن کی خاندانی شرافت کا اثر ہے ۔ جو طوائف کے متعلق لکھتے وقت بھی اپنے مفتی باپ اور خاندان کی لاج رکھتے نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے والدکے ضد اور اُلٹ ہوتے ہیں جیسے مولانا مودودی کے بیٹے حیدر فاروق مودودی اپنے تحریروں میں بالکل اپنے والد کے اُلٹ نظر آتے ہیں۔ لیکن رحمان مذنب کے ہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں۔اگر بعض مخالفین نے رحمان مذنب کو فحش نگار یا جنس نگار کہا ہےتو یہ الزام بے بنیاد ہے۔ وہ فحش نگار نہیں اُن پر جن صف اول کے ناقدین نے مضامین لکھے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اُن کو فحش نگار یا جنس نگار نہیں کہا۔ جیسے مولانا صلاح الدین احمد، مرزا ادیب، ڈاکٹر انور سدید، وزیر آغا، غلام الثقلین نقوی، صابر لودھی میں سے کسی نے بھی اپنے تحریروں میں اُن کے متعلق کوئی ایسا خدشہ ظاہر نہیں کیا۔ رحمان مذنب ایسے افسانوں میں بیسوں جگہ بچ نکلے ہیں۔ اُن کے اور منٹو کے اسلوب کی نمایاں فرق یہ ہے کہ وہ کوٹھوں اور بالاخانوں کے فحش سے فحش مناظر کو بھی ناقابل اعتراض اسلوب اور خوش اسلوبی سے ظاہر کرنے پر قادر نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے رحمان مذنب نے تنویر ظہور کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کچھ یوں ذکر کیا ہے:۔


"اللہ کے فضل سے میرے پاس ذخیرہ الفاظ بھی ہے اور انداز بیان بھی۔میں فحش سے فحش بات کو ناقابل اعتراض اسلوب سے ظاہر کرنے پرقادر ہوں۔منٹو مرحوم کی اور بات تھی۔ بوتل نے اس کی روزمرہ زندگی اور اس کے قلم پر جواثر ڈالا۔ اس سے اس کے افسانے متاثر ہوئے۔وہ ہمیشہ جلدی میں ہوتا تھا۔ "(۵)

خالد اقبال  یاسر رحمان مذنب کا اس سلسلے میں دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔


"رحمان مذنب نام کے مذنب ہیں۔ جیسے ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے نام انکساری سےعاصی رکھ لیتے ہیں۔ ان کا موضوع طوائف ہےجنس پرستی ہے مگر موضوع کی حد تک جنسیت نہیں۔ اور اگر جنسیت بھی ہو تو لذتیت نہیں۔ حالانکہ منٹو کے ہاں لذتیت کے پہلو کہیں نہ کہیں نکل ہی آتے ہیں"۔(۶)

              اُن کے ارد گرد مختلف النوع کردار موجود تھے اور بچپن سے رحمان مذنب کی اُن سے جان پہچان اور تعلق تھا۔  ان میں عیاش بھی تھے، تماش بین بھی  اور عابدوصالح بھی تھے۔ حالات کی چکی میں پیسنے والی عورتیں یعنی طوائف، مجبور اور لاچار مرد بھی تھے۔ جو اپنا سب کچھ کوٹھوںاور طوائف پر لٹا نے کے بعد لنگوٹ باندھ کر تا حیات صبر و قناعت کرنے لگے۔


" جواری کرنے والے ایسے کہ کسی میزیا چٹائی کے بجائےطوائف کےننگے جسم پر پتے پھینکتے اور شوقین مزاجی کا ثبوت دیتے۔عیاش ایسے کہ روپوں کے نوٹ کا سگرٹ بنا بنا کر خود بھی پیتے اور اپنےمحبوباؤں کو بھی پلاتے اور اپنی دولت کی تشہیر کرتے۔"(۷)

تیسری جنس یعنی  ایسے مرد بھی جو مرد اور عورت کے سنگم پر ہوتے ہیں۔ اور انھیں ہم ہیجڑا اور خواجہ سرا جیسے ذلت آمیز الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ اور لوگ اس کے اس کمزوری سے غلط فائدہ اُٹھاتے ہیں اور طرح طرح سے تنگ کرتے ہیں۔ رحمان مذنب نے ان سب کا بہت قریب سے مشاہد ہ کیا۔ لیکن ان مشاہدات کے بیان میں کہیں بھی فحاشی اور لذت پرستی کا شائبہ تک نہیں۔ رحمان مذنب خود بھی فحاشی اور لذت پرستی کو ایک فن کار اور ادیب کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں:۔


" فن کار جو ہڑ میں پھول اُگاتا اور گندی کھاد سے پھول کھلاتاہے، گندگی نہیں پھیلاتا۔ فحاشی اور لذت سے دور رہتا ہےکیونکہ یہ دونوں اس کے قاتل ہیں۔ آرٹ اور پلے بوائے میں زمین و آسمان کا فرق ہے"۔(۸)

              رحمان مذنب تلخ حقیقتوں کا افسانہ نگار ہے۔ وہ افسانے کو آڑ بنا کر ان ناپسندیدہ حقیقتوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں، بے نقاب کرتے ہیں اور سامنے لاتے ہیں  جو ہمارے ماحول اور معاشرے میں موجود ہے۔ اور لوگ اس کو نہ چاہتے ہوئے بھی پروان چڑھاتےاورشہ دیتے ہیں۔ وہ صرف ان حقیقتوں کو بیان کرتے ہیں فحاشی اور عریانی کی نقاب کشائی نہیں کرتے۔ رحمان مذنب کے افسانوں کے طوائف وہ مظلوم و مجبور عورتیں ہیں جنہیں ہمارے معاشرےکے جرائم پیشہ افراد گھروں سے نکلوا کر بازار حسن میں بٹھانے پر مجبور کرتی ہیں۔ وہ ان حقیقتوں کو ایسے انداز سے آشکارہ کرتے ہیں کہ اسے پڑھ کر قارئین کے دل میں ان ناپسندیدہ حقیقتوں سے نفرت اور بے زاری کا جذبہ اُبھرتا ہے،لذت کا احساس نہیں۔ رحمان مذنب کے پاس الفاظ کا بے تحاشا ذخیرہ بھی ہے اورانداز بیان پر کمال کی حد  تک قدرت بھی رکھتے ہیں۔ وہ ایک فقرہ بھی ایسا نہیں لکھتے جس میں شائستگی نہ ہو۔ موضوع کے مناسبت سے جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں۔اُن کی نگاہوں نے کوٹھوں پر جو دیکھا اور جو کرب محسوس کیا ۔ اسے وہ کرداروں کے زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ بھی بڑے شائستگی کے ساتھ۔ انھوں نے لکھنے میں بڑی احتیاط برتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ ایک سرکاری ملازم بھی تھے۔ اگر منٹو کی طرح بے لگا م لکھتے تو پھراُنھیں بھی مقد مات کا سامنا کرنا پڑتا جس سے اُن کی نوکری  بھی خطرے میں پڑتی۔ انھوں نےادب کو روزی روٹی  کامسئلہ نہیں بنایا۔ وہ ایک خوشحال ادیب تھے۔ انھوں نے پر سکون ماحول میں لکھا۔ منٹو کی طرح پیسے کے لیے نہیں لکھا۔ منٹو کا ذہن زرخیز تھا ۔ اُنھوں نے افسانے کو ایک ذریعہ معاش بنا کر لکھا ۔


" وہ افسانہ لکھ کر پچاس ساٹھ روپے کے عوض کسی پبلشر کو دے دیتے اورپبلشر افسانہ رکھ کر تجوری سے پیسے دے دیتا۔ اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا اور جب آٹھ دس افسانے اکٹھے ہوجاتے تو پھر پبلشر اسے چھاپ دیتا۔اس لیے منٹو کے افسانوں کی خاص بات یہ تھی کہ اُنھوں نے پیسے کمانےکی خاطر لکھ کر پبلک کو خوش کرنے کی خاص اہتمام کی۔  اس وجہ سےوہ ایک پاپولر ادیب بن گئے۔ مذنب کی نسبت منٹو کی پبلک ڈیمانڈ زیادہ تھی۔"(۹)

اس لیے ایک طویل عرصے تک ادبی دُنیا میں منٹو  پرستوں نے اس سوال پر غصے اور ناراضی کا اظہار کیا کہ رحمان مذنب منٹو سے بڑا افسانہ نگار ہے۔ لیکن رحمان مذنب کی فنی پختگی اور اسلوب بیان نے ان کو منٹو کے برابر مقام پر بٹھا دیا ہے۔ اس حوالے سے خالد اقبال یا سر کا بیان سند کا درجہ رکھتا ہے۔


"اُن کے افسانے منٹو کی طرح مختصر نہیں بلکہ عام طور پر طویل مختصر افسانے ہوتے ہیں۔ منٹو کے پاس وقت کم تھا۔ اور اس کی ضروریات زیادہ تھی یا اس کے مزاج ہی میں عجیب سی بے چینی تھی۔ جس نے اسے کفایت لفظی سکھائی اور اس کفایت لفظی سے موثراور دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جانے والے افسانے لکھوائے۔اس کا ذہن بے حد زرخیز تھا۔ مگر اس  نے افسانے کو نقد آور فصل سمجھ لیا۔پھر بھی جس طرح اس کی اسلوب کی پیروی ممکن نہیں۔ اسی طرح رحمان مذنب جیسے افسانے لکھنے بھی آسان نہیں۔ ان کے لیے زندگی بھر کا مطالعہ،مشاہدہ اور تجربہ چاہیے۔ "(۱۰)

  ظاہر ہے جب گھر اور بیوی بچوں کی ضرورتوں کا کوئی اور وسیلہ نہ ہو۔ بلکہ ایک ادیب کی معاشی ذمہ داریوں کا انحصار صرف ان کی تحریریں اور افسانوں پر ملنے والی رقم تک محدود ہو تو اس فکر میں زیادہ سے زیادہ اپنے قارئین کو خوش رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے وہ ایک پبلک رائٹر بن جاتا ہے۔  اس طرح قارئین میں مذنب کی نسبت منٹو کی تحریروں اور افسانوں کی طلب بڑھنے لگی۔ رحمان مذنب کو چونکہ روزی روٹی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے اُنھوں نے اپنے افسانوں کو چھپوانے میں بڑی دیر کردی۔ مذنب جیسے عظیم فن کار اپنی خوددارانہ اور درویشانہ طبیعت کی وجہ سے بر وقت منظر عام پر نہ آسکے اور زمانے کی مار کھا گئے۔ قارئین کی بڑی تعداد اُن کے کام اور نام سے واقف نہیں۔ وہ چونکہ بیٹھک کے آدمی تھے  صرف لکھنے پڑھنے سے عرض رکھتے۔ شہرت ، دولت اور ناموری کی لالچ سے بالاتر ہو کر لکھنا اُن کا مقصد حیات تھا۔
ایک ادیب اور تخلیق کار کی بڑی خوبی و کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد اور ارد گرد کے ماحول ، حالات و واقعات کو اپنے فن پاروں میں پیش کرتا ہے۔ اپنے عہد، معاشرت اور تہذیب کو اپنی تخلیقات کے ذریعے دوام بخشتا ہے۔اور اس سے فن کی بقاہوتی ہے بقول ڈاکٹراحراز نقوی :۔


 "فن کی تخلیق اور نشوونما میں اس کے عہد کا بڑا حصّہ ہوتا ہے۔ہر فن کار اپنے عہد کا اکتساب کرتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ فن کار کا شعور، ادراک اور تخلیقی رد عمل اس پس منظر میں مرتب ہوتا ہے ۔پھر اس کی تخلیقی متاع اس کے عصر کا شفاف آئینہ بن جاتی ہے جس میں ہم اپنی اجتماعی زندگی کے تما م خط وخال کا مشاہد ہ کرتے ہیں۔"(۱۱)

  
اگرمذنب کی تخلیقات اور افسانوں کا جائزہ لیا جائےتو اس کی پہلی خوبی یہ ہے۔ کہ اُنھوں نے اپنے عہد کے حالات و واقعات ، ارد گرد کے ماحول و معاشرت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔انہوں نے تہذیب معاشرت اور فرد کو اپنامحور بنا کر ان تمام حقائق کو سامنے لایا جو ان سے وابستہ ہیں یا ہو سکتے ہیں۔

حوالہ جات :
۱۔        انور سدید ، ڈاکٹر ، مواجہہ رحمان مذنب ، مشمولہ  ،کتاب ، تجھے ہم ولی سمجھتے ، مرتب ، انور سدید ، رحمان ، ادبی ٹرسٹ لاہور ، ص ۳۱۸
۲۔          ایضا  ً ، ص ۳۱۹
۳۔          مرزا حامد بیگ ، ڈاکٹر ، اُردو افسانے کی روایت ، دوست پبلی کشینر ۱۹۰۳ءتا۲۰۰۹ء، ص ۸۹تا ۹۹
۴۔           راضیہ شمشیر ، رحمان مذنب کی افسانہ  نگاری ، مقالہ برائے ایم فل اُردو اسلام آباد ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۲۰۰۳ء ص ۱۳۳
۵۔           تنویر ظہور مواجہہ رحمان مذنب ، مشمولہ ، تجھے ہم ولی سمجھتے ، ص ۲۸۲
۶۔           خالد اقبال یا سر ، رحمان مذنب ، گرینڈ اولڈ مین آف لیٹرز ، مشمولہ "تخلیق " اپریل ۲۰۰۵، ص ۱۰۲
۷۔          ڈاکٹر عرفان احمد خان ، مواجہہ مضمون   نگار بذریعہ ٹیلی فون ، ۷اکتوبر ۲۰۱۸ء
۸۔          رحمان مذنب ، قلم کتا ب اور زندگی ، مشمولہ ، افسانوی مجموعہ ، پتلی جان ، ص ۲۰
۹۔          ڈاکٹر عرفان احمد خان ، مواجہہ مضمون نگار بذریعہ ٹیلی فون ، ۷اکتوبر ۲۰۱۸ء
۱۰۔          خالد اقبال یا سر ، رحمان مذنب ، گرینڈ اولڈ مین آف لیٹرز ، مشمولہ "تخلیق " اپریل ۲۰۰۵ء، ص۱۰۰
۱۱۔          اخرار نقوی ،ڈاکٹر ، رتن ناتھ سر شاربحثیت  ناول نگار ، مغربی پاکستان ۔۔۔ "اُردو اکیڈمی لاہور ، ۲۰۰۶ء، ص ۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com