اُردوفکشن پر نائن الیون کے اثرات
ڈاکٹرمحمد الطاف  یوسفزئی ۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو جامعہ  ہزارہ، مانسہرہ
ڈاکٹر نذر عابد۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو جامعہ  ہزارہ، مانسرہ
ڈاکٹر افضال بٹ  ۔ ایسوسی ایٹ  پروفیسر  سیالکوٹ  یونیورسٹی  ، سیالکوٹ

ABSTRACT:


Pakistan has face a lot of Social, Political and economic problem due to prevailing extremism and terrorism in its society. There are so many stack-holder and factors beyond the curtain who are responsible to create such un wanted circumstances as literature is the reflections of the social life of a society. All the burning issue is being reflected quite effectively in different genre in Urdu literature of various languages. Fiction is a powerful genre in Urdu literature. The above mentioned global issue has been reflected in Urdu fiction especially in the forms of short stories. The proposed research paper will brought forward an analytical study of the topic under discussion in the light of Urdu short stories.

الفاظ پر گرفت کو علم وآگہی اور ابلاغ واطلاع کی حدود تسلیم کرنے کے معنی، افکار وخیالات، نظریات کے ارتقا کے باوصف ان کے ذریعہ اظہار کے حیثیت سے زبان میں ہونے والے تغیرات اور نئے علوم وفنون کے زبان کو عطا کردہ امتیازات کا اعتراف ہے۔ اکثر ماہرین ادب اس بات سے انکاری نہیں کہ زبان اپنے بولنے والے کو بڑھتے ہوئے علم وحکمت کے ذخیرے کی مناسبت سے تبدیل ہوتی ہے اور ان افکار ونظریات کے حوالے سے امتیازات کی شناخت کراتی ہے۔ اردو افسانہ بھی ان امتیازات سے معمور ہے۔ رومانیت کی شکل میں فطرت پسندی ہو یا سماجی بندھنوں اور اقدار کے نام پر مجبور عوام کی دلی جذبات کا اظہار تقسیم ہند کے فسادات ہو ےیا فوجی آمریت  اردو افسانہ ان تمام موضوعات  کا احاطہ کرتا ہے۔ان ہی موضوعات میں ایک موضوع دہشت گردی اور انتہا پسندی بھی ہے جس نے پچھلی دو دہایئوں سے پوری دنیا بل عموم اور مسلم معاشرہ بل خصوص اپنے حصار میں لیے ہوا ہے۔ دہشت گردی کی یہ اصطلاح ادب میں اس وقت  آئی جب   11/ 9 کو امریکہ پر دہشت ناک حملہ ہوا۔اس کے بعد 11/9 اس کرہ ارض پر دہشت گردی کا ایک استعارہ بنا۔ جو تباہی وبربادی قتل وغارت گری، وحشت ودہشت، خون واندیشہ، منافقت ومنافرت اور کنفیوژن وفرسٹریشن کے علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے۔ جو ہماری تاریخ کو نئی راہ پر کھڑا کردیتی ہے۔ حکومت، معیشت، تجارت، سماج، اخلاقیات، انفراسٹرکچر، تعلیم تہذیب، روایات، تمدن غرض کوئی شعبہ ایسا نہیں جس پر11/9 کے بادل سایہ فگن نہ ہوں۔ یہ عجیب جنگ ہے کہ اس میں حملہ آور ملک امریکہ اور جس پر حملہ کیا گیا یعنی افغانستان سے زیادہ ایک تیسرے ملک پاکستان کا نقصان ہوا اور زندگی اور زندہ رہنے کے تمام وسیلے مٹ گئے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے جو بات تقسیم ہند کے فسادات کے لیے کی تھی شاید تقسیم کے مقابلے میں 11/9 کے موجوہ War on Terror پر صحیح ثابت ہوتی ہو۔ کہ ہمارے معاشرے کا حساس ترین طبقہ ادیب اور لکھاری اس کے تماشائی نہیں تھے بلکہ وہ اس طوفان سے خود گزرے تھے۔ لاکھوں انسان زمین، خاندان اور صدیوں کے روایات کادامن چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں ٹھوکریں مارنے پر مجبور ہوگئے۔ فاقے، دباﺅ، خوف تشدد، قتل و غارت گری نے انسانی اقدار کی بنیادیں ہلا ڈالیں۔ بھوک افلاس، بارود، کنفیوژن، فرسٹریشن، عدم تحفظ، غیر یقینی حالات، کیپٹل ازم اور اسلام کے حوالے سے ذاتی تشریحات نے اس دور کے انسان کو بدترین زندگی گزارنے پر مجبور کردیا۔ دو الگ ملکوں کی لڑائی میں تیسرے ملک پاکستان کے نقصان، وجوہات اور ہمارے ادیبوں پر اس کے اثرات بیان کیے۔
پروفیسر نجیبہ عارف اس حوالے سے لکھتی ہیں :


" اس کے نتیجے میں دیگر زبانوں کی طرح اردو ادب میں بھی مزاحمتی رحجان کا آغاز ہوتا ہے۔ جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانیت کی تذلیل اور تباہی وبربادی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔ یہ مزاحمت کسی خاص حکومت نظریے یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی ہر نوع کے سیاسی، معاشی تہذیبی اور مذہبی استحصال کے خلاف ہے"۔(۱)

مثال کے طور پر محمد جمیل کا افسانہ ”پگلی“ ایک واقعاتی حقیقت کی افسانوی صورت ہے۔ اس کہانیکی پگلی زرمینہ پشتون ثقافتی ومعاشرتی زندگی کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ جو پشتون عورت کی معاشرتی حیثیت اور محبت و ازدواجی زندگی کے خدوخال سے عبارت ہے اور قدامت پسند روایت میں جکڑے ہوئے پسماندہ رسوم اور سماجی حدود وقیود میں منجمد خیالات وتصورات کی پیچیدگیوں میں نئی نسل کے جوان جذبات اور مچلتے احساسات کے نیم باغی ونیم بیدار احتجاجی رویوں کے دھندلے عکس لیے ہوئے ہیں۔


 زرمینہ بھاگ رہی تھی کسی روبوٹ کی طرح مسلسل اور تیز اس کے تمام حواس اور احساسات مرچکے تھے۔ اسے پر بھی احساس نہ تھا۔ کہ اس کے زخم زخم پاﺅں قدم قدم پر زمین کو رنگین بنائے جارہے ہیں۔ اور کئی بار گرنے سے اس کے گھٹنے چھل چکے ہیں۔ جس سے خون اس کی پنڈلیوں پر بہہ رہا ہے۔ ا سے اپنے سر کے اس زخم کی بھی پرواہ نہ تھی جس سے سرخ گاڑھا گاڑھا خون اس کے خوبصورت چہرے پر مسلسل گررہا تھا۔ اسے یہ بھی خبر نہ تھی کہ اس کے کپڑے جھاڑیوں اور پتھروں سے الجھ کر جگہ جگہ سے پھٹ چکے ہیں۔ اس کا دوپٹہ اس کے سر سے نہ جانے کب کاگر چکا تھا۔ وہ ایسی حالت میں تھی کہ عام زندگی میں اگر اس نیم برہنہ حالت میں اتنے لوگوں کی نظریں اس پر پڑتیں تو شاید وہ حیا اور صدمے سے مرجاتی۔ اس کا صرف ایک احساس زندہ تھا۔ اس کے دل ودماغ پر ایک سوچ قابض تھی کہ کسی طرح اپنے بیٹے کو بچائے جو ابھی دوماہ کا تھا۔ وہ ایک پوٹلی سینے سے چمٹائے بھاگ رہی تھی۔ (۲)

زرمینہ کی کہانی اس وقت اور بھیانک ہوجاتی ہے ۔ جب اس کی اتنی دوڑ دھوپ کے بعد اس کے ہاتھ میں بچہ نہیں بلکہ سرہا نہ ہوتا ہے۔ جو وہ جلدی میں پنگھوڑے سے بچہ سمجھ کر اٹھالیتی ہے۔ کیونکہ سوات میں پاکستانی طالبان کے خلاف اپریشن راہ راست جاری تھا۔ اور سوات کے لوگوں کو کہا گیا تھا۔ کہ تین گھنٹوں کے اندر اندر اپنے گاﺅں سے ہجرت کر جاﺅ۔ ایسے وقت میں انسان اپنی قیمتی شے ہی اٹھاتا ہے۔ زرمینہ کی قیمتی شے اس کا بیٹا تھا۔ جس نے اسے منحوسہ جیسے طعنے سے آزادی دلائی تھی اور اس کے طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے محبوب شوہر کی حقیقی نشانی۔ اس کہانی کا آخری منظر اپنے اندر کتنی وحشتوں اور تکلیفوں کی رونمائی کرتا ہے اور زرمینہ کے قہقہے عالمی امن کے نام پر کتنا بڑا طمانچہ ہیں :


" نہ جانے کب تک بھاگتی رہتی اس کے زخمی سر سے گرم گرم خون بہہ کر اس کی آنکھوں میں جمع ہو گیا۔اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس لئے وہ رک گئی۔اس نے اپنا تار تار دامن اٹھا کر آنکھوں میں آئے ہوئے لہو کو صاف کیا ۔پھر کمبل کو کھول کر دیکھنے لگی۔اس نے جیسے ہی کمبل کھولا اس کی آنکھیں کسی گڑیا کی خوبصورت بے جان آنکھوں کی طرح ایک جگہ ٹھہر گئیں۔وہ خود بھی پتھر کی طرح ساکت تھی۔وہ چند لمحے اس عالم میں کھڑی رہی پھر اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور میرا بچہ کہہ کر تکیے کو سینے سے لگایا اور قہقہے لگاتی رہی اسے کیا معلوم تھا کہ پہلے دھماکے کے ساتھ اس کی ساس بچے کو اٹھا کر بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک گولہ عین دونوں کے اوپر گرا دونوں کے ایسے چتھڑے اڑ گئے ۔کہ انھیں کفن کی ضرورت رہی نہ ہی قبر کی۔۔۔۔کیمپ میں وہ پگلی کے نام سے مشہور ہے۔جو ایک چھوٹا سا تکیہ سینے سے لگائے پھرتی تھی ۔وہ اسے بار بار اپنا دودھ پلانے کی کوشش کرتی رہتی جب تکیہ دودھ نہ پیتا تو وہ اسے زور زور سے مارنے لگتی۔پھر قہقہہ لگاتی اور میرا بچہ کہہ کر سینے سے چمٹا لیتی۔" (۳)

نائن الیون  کے بعد ہمارے خطے میں بننے والے منظر نامے میں بہت سی حقیقتیں خود بخود آشکار ہوتی گئیں۔ جو ہمارے ادباءکی تحریروں کے موضوع بنتے گئے، تاہم ایک طرح سے پورے پاکستان میں مذہبی اور لسانی جھگڑوں کے المیے اور آئے دن دھماکوں کے خوف اور پھر پروپیگنڈے کے سیلاب میں جھوٹ بھی حقیقت بدلتی نظر آتی رہی ۔ ہر سو ایک کنفیوژن کی کیفیت رہی اور یہ کنفیوژن یاسیت کی پیداوار بنی اور یہ یاسیت اس خوف ودہشت کا نتیجہ جو ہر طرف رقصاں تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اگلے لمحے کیا ہوگا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ سب کچھ کون اور کیوں کررہا ہے۔ اس منظر نامے کی ایک جھلک محمد جمیل کے افسانے ”ماں“ میں ملاحظہ کیجئے :


کئی روز سے علاقے کی فضا پر ایک بے نام سی سوگواری چھائی ہوئی تھی۔ ہر چہرہ بے رونق تھا۔ اور آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں تھیں۔ انسان تو انسان جانوروں پر بھی اس گھمبیر تا کا اثر تھا پرندے جیسے چہچہانا بھول گئے تھے۔ گاﺅں کے کتے بھی کونوں کھدروں میں چھپ گئے تھے۔ نہ تو بکریوں کی منمناہٹ تھی اور نہ مویشیوں کے گلے میں پڑی گھنٹیوں کی آوازیں ان جانوروںکی حرکت بھی قدرتی طورپر سست پڑگئی تھی۔ جیسا کہ انہیں بھی خطرے کا احساس ہوا ہو۔ دریا ئے سوات اورچیڑوں کی آوازوں کے سرتال کی مدھر موسیقی کسی ایک نوحہ میں ڈھل چکی تھی۔ ابھی تک تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ لیکن ہر کسی کو احساس تھا کہ بہت کچھ ہونے والا ہے۔ اور جو کچھ ہونے والا ہے شاید بہت برا ہونے والا ہے۔“(۴)

ڈر، خوف، کنفیوژن کے موضوع پر مبین مرزا کا افسانہ ”دام وحشت“ بھی ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ”وحشت“ پر مبنی پاکستانی باشندے شیخ سخاوت کی کہانی ہے۔ شیخ سخاوت علی کراچی کے ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہانہ آمدن لاکھ سے اوپر ہے زندگی آسان اور خوش وخرم ہے بیوی امریکہ سیٹلڈ ہے۔ جو اپنے تین بچوں کے ہاں پچھلے تین سال سے اُدھر ہی رہائش پذیر ہے۔ شیخ صاحب صوم وصلوٰة کا پابند ہیں مگر بیوی سے طویل دوری کے بعد کچھ جنسی خواہشات کی تکمیل بھی چاہتا ہے اور بقول مبین مرزا شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ دوستوں کے ذریعے سبیل بن گئی اور پھر عورتیں اس کی زندگی میں داخل ہونے لگیں یوں داخل ہوگئیں کہ ہر جگہ اور ہر منظر میں اس کے ذہن پر عورت ، عورتوں کی آوازیں ہی مسلط ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ جمعے کے نماز کی ادائیگی میں مولوی صاحب کی آواز بھی ان کو عورت کی آواز سنائی دیتی ہے بہرحال یہ تو شیخ صاحب کا نفسیاتی مسئلہ تھا جو کہ بیوی سے دوری کی بنا ان کو لاحق ہوگیا تھا۔ مگر وہ مسئلہ جس سے ہماری ساری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہےاور پورے ملک میں بے یقینی کی کیفیات پھیل چکی ہیں وہ ہے خودکش حملے اور دھماکوں کا خوف۔ پارکوں، پبلک پلیسز، منڈیوں، میلوں اور عیدین وتہواروں پر ہجوم عوامی اجتماعات جو کہ کبھی ہماری قوم کی زندہ دلی اور معاشرتی زندگی کا ہر دل عزیز لمحہ ہوتا تھا نو گیارہ کے حالات کے بعد ہماری زندگیوں سے اس طرح ختم ہوگیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، اور تو باجماعت نماز کی دائیگی کا تصور بھی ناپید اور خطرناک ہوتا گیاکیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اکثر خودکش حملے اور دھماکے مساجد میں نماز کی ادائیگی کے وقت ہوتے ۔ کچھ ایسا ہی منظر ”دام وحشت“ میں ملاحظہ کیجئے اور خوف سے نڈھال ہمارے معاشرے کی بے بسی دیکھئے۔


 امام صاحب جمعے کا خطبہ پڑھ رہے تھے۔ جب شیخ سخاوت علی کے نظر اُس آدمی پر پڑی۔ جھر جھری سی آگئی سوچا اٹھے اور جاکر اُسے پکڑے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ آدمی ٹھیک نہیں، مشکوک ہے۔ لیکن یوں اضطرابی انداز میں اٹھنا اسے عجیب لگا۔ لیکن خوف اس کے رگ رگ میں اتر چکا تھا۔ اور ٹھنڈی لہریں مسلسل ریڑھ کی ہڈی میں سرسرا رہی تھیں۔ اس نے سوچا وہ دائیں بائیں برابر میں بیٹھے ہوئے آدمی کو معاملے کی سنگینی کے بارے میں بتائے۔ لیکن اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کس طرح اور کن لفظوں میں بات کا آغاز کرے۔ امام صاحب کا خطبہ جاری تھا۔ شیخ سخاوت علی نے ایک لمحے کو سوچا کہ یہ کہیں اس کا وہم تو نہیں۔ اس نے ایک بار پھر اس آدمی کی طرف دیکھا۔ وہ واقعی مشکوک لگ رہا تھا۔ اس کالمبا سفید چوغہ، سرخ رنگ کا عمامہ، گھنی داڑھی، سرخ وسفید چہرہ اور چہرے پر پوری طرح سجا ہوا گہرا اطمینان۔۔۔ ایک ایک چیز سب مشکوک لگ رہا تھا۔ یہ آدمی ضرور اپنے جسم سے بم باندھے بیٹھا ہوگا۔ اورجب جماعت کھڑی ہوگی۔ تو یہ پہلی رکعت میں یا دوسری رکعت میں یہ خود بھی پھٹ جائے گا۔ اور اس کے ساتھ۔۔۔ شیخ سخاوت علی کے نگاہوں میں وہ سارے منظر پھرگئے جو مسجدوں میں بم دھماکوں، خودکش حملوں کے حوالے سے ٹی وی پر اب تک دکھائے گئے تھے۔ کٹے پھٹے جسم، ٹکڑے ٹکڑے بکھرے انسانی اعضائ، گاڑھا خون۔۔۔ ا وہ خدایا! اس نے دونوں کانوں کی لویں چھوئیں۔ وہ کیا کرے، کیا واقعی اٹھ کھڑا ہو۔ اور اس آدمی کو پکڑلے۔ لیکن اگر اس کے پاس سے کچھ نہ نکلا۔ تو کیسی ذلت ہوگی۔ کتنا تماشا بنے گا۔ اور کب تک لوگ اس واقعے کا تذکرہ کرکے اسے شرمسار کرتے رہیں گے۔ ویسے اگر اس آدمی کے پاس واقعی کوئی ایسی چیز ہوتی تو یہ مسجد میں داخل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ مسجد کے دونوں دروازوں پر کئی کئی گارڈ اور بم ڈسپوزل سکوارڈ کے لوگ تعینات تھے جو جمعے کے نماز کے لیے آنے والے ہر شخص کی اچھی طرح تلاشی لینے کے بعد اسے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دیتے تھے۔ یہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی ایسے واقعات کہیں نہ کہیں تو ہو ہی جاتے تھے۔ اور اب ایک کراچی ہی کیا، سیالکوٹ، ملتان، لاہور، کہاں کہاں ایسی وارداتیں نہیں ہوچکی تھیں، کوئی شہر محفوظ نہیں تھا۔ کہیں امان نہ تھی۔(۵)

خوف کے مارے ”پگلی“ کی دوڑ ہو یا وحشت ناک ماحول میں سرہانے کو بچہ سمجھ کر پنگھوڑے سے اٹھانے کا منظر ہوشہر میں آئے روز دھماکوں سے ڈر اور خوف کی کیفیت یا محمد جمیل کے افسانے ”ماں“میں موجود جنت نظیر وادی سوات میں سوگواری،خطرہ گھمبیرتا کا احساس اور تو اور مساجد میں ایک اللہ کو راضی کرنے اور ان کے حضور سجدہ ریز ہونے والے انسان جو کہ ”دین سلامتی“کے علمبردار ہیں بھی ایک دوسرے سے شیخ سخاوت علی کی طرح ڈر،خوف محسوس کرتے ہیں۔جوکہ ۱۱/۹ کے بعد اردو افسانے کا اہم موضوع ہے اور اکثر افسانے اسی خوف،کنفیوژن اور ڈر کے تناظر میں تحریر ہوئے ہیں ۔جس سے ہمارے معاشرے کا واسطہ پڑا اور زندگی کا حصہ بنا۔
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور اس کے بعد ارض للہ پر ٹوٹنے والی قیامت نے ہمارے ادب کو جو موضوعات دیئے ان میں ایک موضوع جنگ بھی ہے ۔حیرت کی بات ہے کہ شاعری اور فکشن جو محبت ،پریم،آشتی،دوستی،رنگینی،خوشی اور امن کے موضوعات سے لبریز ہوا کرتے تھےاب بارود،دھماکوں، خون،سازشوں اور جنگوں کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔پاکستان کی پر آشوب فضاؤں میں لڑی جانے والی غیروں کی جنگ جسے ہمارے رہنما اپنے عوام کواپنی جنگ کاباور کرواتے نہیں تھکتے مآل کار اس جنگ کے نتائج کیا ہوں گے۔وہ مغائرت پسندی جو ہماری نوجوان نسل میں خوف ویاس کے تمام امکانات کے ساتھ موجود ہے۔آخر ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گا ۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی اپنی نظم ربی جعل ھٰذا بلدً  آمنً میں لکھتے ہیں :
مری تہذیب بدلی ہے
مری تاریخ بدلی ہے
کلاشنکوف، خنجر، توپ گولہ، خون، لاشیں،
موت دنگل خاکی وردی ،آہ، سسکی،
ڈرون حملے، تورا بورارقصِ مردہ، خوف ، دہشت ،
بھوک ،ہجرت بم دھماکے
میرے شاعر کی ردیفیں ہیں    (۶)
ارض لللہ میں تباہ کاری اور اللہ کے بندوں سے جینے کا حق چھیننے کے لئے دنیا کے سپر پاور امریکہ کے ”پینٹا گون“میں کیا مشورے نو گیارہ کے واقعے کے بعد ہو رہے تھے اور باقی دنیا خصوصاً مسلم ممالک کے بارے میں امریکیوں کی سوچ اور ذہنیت کیا تھی پر نیلوفر اقبال کا ایک خوبصورت افسانہ ”اوپریشن مائس“ہے۔اس افسانے کے دو حصے ہیں ۔پہلا حصہ”اوپریشن مائس“ جبکہ دوسرا حصہ ”اوپریشن مائس ۲“ ہے۔دونوں کا موضوع جنگ ہی ہےاور دونوں افسانوں میں امریکی افواج کے جنگی جنون کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار جنرل مرسی ہےجو کہ اپنی پالتو کتیا بلیئر کی بیماری اور تکلیف سے مجبور ہو کر اس کو موت کا انجکشن دینے سے انتہائی رنجیدہ ہے اور اس کی بیوی مارتھا اس کو بار بار طعنہ دیتی ہے کہ اتنے ڈرپوک ہو پتہ نہیں تمھیں جنرل کس نے بنایا کہ بلیئر کو مار نہیں سکتے۔ اس کے برخلاف وہ عراق کو جنگ کے شعلوں میں دیکھنا چاہتا ہےاور عراقی عوام اور عرب اقوام کو چوہوں”مائس“ سے تشبیہہ دیتا ہےاسی لیے امریکی انتظامیہ اس جنگ کا نام ”اپریشن مائس“ رکھتی ہے ۔جنرل مرسی کوجب اس کی بیوی مار تھا جنگ کی تباہ کاریوں اوربربادیوںپرلیکچردینے کی کوشش کرتی ہے کہ یہ ان سویلائزڈ (uncivilized)چیز ہے۔اور یہ تو پرانے زمانے کے وحشی لوگ لڑتے تھے جس کا ذکر ہسٹری کی کتابوںمیں ملتا ہے یہ تو ماڈرن زمانہ ہے جنگ کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔تو جنگی جنون میں مبتلا امریکی جنرل جواب دیتا ہے۔


 آج سے پانچ سو سال بعد یہ بھی ہسٹری ہوگی مارتھا۔شاید تم نے وقت کے بارے میں اس انداز سے سوچا ہی نہیں تمہارے لئے وقت شاید لمحہ ہی ہے۔اور پھر مارتھاسویلائزیشن تو سویلائزڈ کے لئے ہوتی ہے۔تم ان چوہوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ان کے وجود کا کوئی مقصد نہیں ان کا کام صرف بریڈ (Breed)کرنا ہے۔ان کو تو اپنے بچوں کی صحیح تعداد کا بھی پتہ نہیں ہوتا ان کا تو ایک ہی کام ہے ۔
Forminate and breed, breed and forminate......
مارتھا ان کے لیڈر اتنے بزدل ہیں کہ اپنا روپیہ بھی اپنے ملک میں نہیں رکھتے۔ ڈرتے ہیں کہ ان کے لوگوں کو ان کی دولت کی انتہا کی خبر نہ ہو جائے ۔ہنسنے والی بات تو یہ ہے کہ ہم جو آئل ان سے خریدتے ہیں اس کی رقم بھی زیادہ تر ہمارے بینکوں میں آتی ہے ۔پھر ان میں سے کوئی چوہا خاموشی سے مر جاتا ہے ۔اور دولت ہمارے سوئس بینکوں میں پڑی رہ جاتی ہے۔(۷)

یہ تو تھے اس بوڑھے جنرل کے خیالات وخواہشات جو جنگ کے بدلے میں وہ حاصل کرنا چاہتا تھا ۔جو عربوں کو چوہے کہہ کر تیل کے خزانوں سے ان کو اٹھا کر اپنی اجارہ داری کے قیام کا آرزومند تھا ۔جس کے لئے جنگ سے پہلے ان کے ڈھائی لاکھ ٹروپس پہنچ چکے تھے۔اور ان کے جنگی جہاز اس سرزمین پر Buzzکرنے اور عوام الناس کے پر خچے اڑانے کے لئے حکم کے انتظارمیں تھے جن کے لیے Mass کلنگ Mouse کلنگ کے برابر تھی۔ اور جو اپنی کتیا کی موت کے صدمے سے نڈھال تھا مگر خدا کے اشرف المخلوقات ”انسان“ کو بے رحم موت مارنے کی شدید خواہش بھی رکھتا تھا اور نام تھا مرسی یعنی رحم۔
جنگ زدہ ماحول میں کیاکیابربادوتباہ حال نہیں ہوتے اس کی مثال عطیہ سیدکے افسانے ”بلقیان کابت“میں دیکھئے جب ۱۱/۹ کا واقعہ ابھی رونما نہیں ہوا تا تو امن اور آشتی کے ماحول میں بدھ مت کے مجسمے افغانستان کے دور دراز پہاڑوں میں چین اور انسان دوستی کی علامت بن کر لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں ۔اور بین المذاہب ہم آہنگی کی گواہی دیتی ہیں۔وہ لکھتی ہیں:


پہاڑ میں کئی غار تھے۔شاید کسی زمانے میں ان غاروں میں لوگ رہتے تھے۔چند ایک میں اب تک ان کے استعمال شدہ مٹی کے ٹوٹے برتن پڑے تھے۔غاروں سے ذرا آگےدس بارہ فٹ بلند ایک بت پہاڑ کے سینے سے یوں پیوست تھا جیسے آغوش مادر میں بچہ۔
بت کو فنکار ہاتھوں نے محبت وعقیدت کے گہرے جذبے کے شیشے سے تراشا تھا ۔اس کے ملبوس کی اک اک سلوٹ کو قرینے سے ابھارا گیا تھا۔اس کے پاؤں کی انگلیاں اور ان کے ناخن کمال فن کا عکس تھے۔۔۔لیکن اس کا چہرہ۔۔۔ناقابل فراموش تھا۔بال جوڑے کی شکل سر کے اوپر اکھٹے کیے گئے تھے۔ناک میں یونانی نفاست۔۔۔آنکھیں بڑی بڑی پھولوں کی طرح کھلی ہوئی اور ان میں اتھاہ سمندروں جیسا شفیق سکون ۔لب متناسب ۔۔۔ہلکی سی مسکراہٹ کا شائبہ لیے ہوئے ۔ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے کی تین انگلیاں اوپر اٹھی ہوئی پہلی انگلی اور انگوٹھاانبی کی شکل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے۔ احمد شاہ نے بت کو دیکھا ۔اور دیکھتا رہ گیا ۔وہ اتنے آنند اور سندرتا سے حیرت زدہ رہ گیا ۔بت نے اس کی حیرانی اور تحسین کو جیسے محسوس کیا ۔احمد شاہ کو یوں لگا وہ اس کی طرف بے پناہ شفقت سے مسکرا رہا ہے۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ بھی مسکرا اٹھا۔مٹیالے پہاڑ کے اندر کیسا خزانہ چھپا تھا ! (۸)

مگر جب نوگیارہ کی تباہی کا قصور وار معصوم افغان عوام کو گردانا جاتا ہے۔ اور ان کے مٹی کے بنے گھروندوں کو امریکی جنگی جہاز مزید ملیامیٹ کردیتے ہیں۔ اور افغانوں کی سادہ اور پرسکون دنیا میں حشر بپا ہوتا ہے۔ تو یہاں کے باسی سفید چمڑی والے غیرملکیوں کے اس سوال پر کہ بت بہت قیمتی ہے۔ صناعی کا شاہکار ہے۔ مگر خطرہ ہے کہ اس کی مرمت نہ کی گئی تو یہ ٹوٹ پھوٹ جائے گااس کا جواب یوں دیتے ہیں۔


"ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں کہ اس کی مرمت کرسکیں تمہیں معلوم ہے۔ کہ یہاں برسوں سے جنگ جاری ہے ہم طوائف الملوکی، بدحالی اور قحط سالی کا شکار ہیں۔ ہمارے لیے زندگی اور موت یکساں ہیں۔ ہمارے بچے پیداہوتے ہی مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔۔۔۔ خوراک کی کمی اور علاج معالجے کے نہ ہونے کی بناپر۔ ہماری عورتیں جوان ہوتے ہی بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ مرد بلوغت کی حدود میں داخل ہوتے ہیں۔ درندہ صفت بن جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور راکٹ لانچر ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وحشت اور پیٹ میں بھوک کی بھٹی جلتی ہے۔ انہیں ہر چیز سرخ دکھائی دیتی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ گلاب سرخ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ لہو کا رنگ سرخ ہے۔ ان کے کان موسیقی سے نہیں بلکہ بموں کے دھماکوں سے آشنا ہیں۔"

بہرحال یہ بت تو تمہارا ثقافتی ورثہ ہے۔۔۔۔ اسے بچانا بہت ضروری ہے۔ ہم تمہیں اس کی مرمت کے لیے لاکھوں ڈالر دینے کو تیار ہیں۔ غیر ملکیوں کا ترجمان بولا۔ درشت باریش چہروں پر تلخی ابھری“۔ یہ بت بے شک بہت قیمتی ہے۔ ۔۔۔۔ مگر ماضی ہے حال تمہارے سامنے ہے۔ ہمارے بچے مستقبل ہیں۔۔۔۔ اور وہ مررہے ہیں۔ انہیں بچانا کیا زیادہ ضروری نہیں؟ ماضی تو گزرچکا ہے یا صرف ایک یاد ہے۔ حال نڈھال ہے۔۔۔۔ اور مستقبل تاریک۔ یقینا ہمیں لاکھوں کیا اربوں کھربوں ڈالر چاہیے۔۔۔۔ اپنے بچوں کی بقا کے لیے، غذا کے لیے۔۔۔۔ دوائیوں کے لیے ہمیں کم از کم اتنی رقم بطور ”ایڈ“ دو کہ ہم سارے ملک میں بکھری بارودی سرنگیں صاف کرسکیں“(۹)
پیار ومحبت اور انسان دوستی پر مبنی معاشرہ جہاں بدھا کے افکار اور اسلام کی تعلیمات کے منور نور ہزاروں سال سے روشنی بکھیر رہے تھے۔ جنگوں کی وجہ سے درندہ صفت بن جاتا ہے۔ اس کے باسیوں کی آنکھوں میں وحشت اور پیٹ میں بھوک کی بھٹی جلتی ہے۔ عورتیں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے بوڑھی ہوجاتی ہیں۔ اور پورا معاشرہ گلاب رنگ کی بجائے لہورنگ سے آشنا ہوجاتا ہے۔ جہاں کے پرندے چہچہاتے اور ندیاں گنگناتی تھیں۔ اب وہاں انسان کے کان موسیقی سے نہیں بم دھماکوں سے آشنا تھے اور ان ہی لوگوں اور دھماکوں کی روئیدادیں اور منظر کشی ہمارے فکشن اور خاص طور پر افسانوں کے موضوعات بنتے تھے۔ پروفیسر نجیبہ عارف لکھتی ہیں :


احمد شاہ کا بدھا کا پرستار ہونا جو امن اور سکون کا پیغام لے کر آیا تھا کہانی میں ایک گہری رمزیت پیدا کرتا ہے۔ غیر ملکی جو باریش مقامی افراد کو بت کی مرمت کے لیے لاکھوں ڈالرز دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ان کے مرتے ہوئے بچوں کو زندگی کی نوید دینے کو تیار نہیں۔ کہانی کی ایک اور جہت روشن کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ثقافتی ورثے کی حفاظت پر مامور یہ غیرملکی اس ثقافت کے وارثوں میں موت بانٹنے پھرتے ہیں اور انسانیت کے نام پر سنگین اور وحشیانہ جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسلحے کے ڈھیر لگاتی قوتیں بالآخر کرہ ارض پر موجود ذی روح کی مکمل فنا کا باعث بن جاتی ہیں“(۱۰)

موت کے خوف کے سائے اور عدم تحفظ کے خدشات صرف پاکستان، عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کا پیچھا نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کا شکار اس واقعے کے بعد بننے والی فضا میں وہ مسلمان بھی ہیں جو امریکہ اور یورپ جیسے لبرل اور خوشحال ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔ عجیب واقعہ ہے کہ پوری انسانیت خصوصاً مسلمان ہر جگہ اور ہر ملک میں ہر وقت عدم تحفظ کا شکار ہوئے لیکن مغربی استعماری سوچ صرف مسلمانوں کو ہی Security Risk قراردے رہے ہیں۔
امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنی۔ ان کی قدم قدم پر جامہ تلاشی اور ان پر شک کی نظریں ان کو مسلسل ہراساں کرتی ہیں۔ مسلمانوں سے شکلاً مشابہت رکھنے والی سکھ قوم جن کی بھی لمبی لمبی داڑھیاں ہوتی ہیں نے اپنے گھروں اور گاڑیوں میںwe are not muslim کے سائن بورڈ لگائے۔ کیونکہ مسلمانوں پر دہشت گردی اور خوں خوار قوم کا وہ دھبہ لگالیا گیا ہے۔ جس سے ہر امریکی اور مغربی باشندے کی نظر میں وہ مشکوک ہے۔ اس واقعے کی منظر کشی مسعود مفتی کے افسانے ”شناخت“ میں نظر آتی ہے۔ جب ایک بنگلہ دیشی مسلمان مفیض جو کہ طویل عرصے سے امریکی شہری ہے اور اپنے وطن بنگلہ دیش اور بیوی کے وطن پاکستان سے Nationality قومیت کا تعلق بھی نہ رہا جس کا دکھ، درد اور خوشی ، غمی امریکہ ہی سے وابستہ ہیں۔ اور ٹوئن ٹاورز کے گرنے کا ان کو بھی اتنا ہی غم ہے۔ جتنا دوسرے امریکیوں کو مگر سفید فام امریکی ان کو بھی معاف نہیں کررہے اور ان کو القاعدہ اور طالبان کے ساتھی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔
سورج اپنی تیز روشنی سمیٹ کر سمندر میں غوطہ لگانے کو تھا۔ سبزے کی فراوانی، پھولوں سے لدی ہوئی خوشبودار پگڈنڈیاں، پودوں کی باسلیقہ تراش۔۔۔ خالد بشاش انداز میں چلا جارہا تھا۔ تیز خرامی بھی ہانپ رہی تھی۔ شام کے دھندلکے میں پرندوں کے اکادکا بول ادھر اُدھر ابھرنے لگے تھے۔ خالد نے سوچا چند بار بازوہلا کر لمبے سانس لے لوں۔ اور وہ پگڈنڈی سے ہٹ کر درختوں میں گھرے ہوئے کھلے لان میں داخل ہوگیا۔
حیرت اور تشویش نے ایک دم اس کے قدم جکڑ لیے۔۔۔ تھوڑے فاصلے پر ایک اونچے درخت کے موٹے تنے کے پیچھے مفیض مدا فعانہ انداز میں سمٹ کر کھڑا تھا۔ اور درختوں سے ٹوٹی ہوئی شاخوں سے مسلح تین سفید فام امریکن لڑکے اسے جارحانہ انداز میں دھمکا اور ڈرا رہے تھے۔ غور سے دیکھا تو ان لڑکوں میں ایک جو زفین کا بھانجا بل (Bill)تھا۔ باقی دو اس کے اپنے بیٹے کے دوست تھے۔ خالد نے ایک دم پکارا “ بل ۔۔۔۔ کیا کررہے ہو تم لوگ
لڑکے ایک دم رُکے۔۔۔۔ بل نے پلٹ کر دیکھا اور پھر سب بھاتے ہوئے بری اپنائیت کے ساتھ خالد کے گرد آن کھڑے ہوئے۔ بل نے اسے اعتماد میں لینے کے انداز سے دبی زبان میں کہا ”انکل۔۔۔ یہ القاعدہ کا دہشت گرد ہے

 ۔۔۔۔ دوسرا بولا ”طالبان“ ۔۔۔۔
اور تم کیا کر رہے ہو“ خالد نے پریشانی سے پوچھا۔
ہم اسے سبق سکھائیں گے
تب خالد کو اصل خطرے کا احساس ہوا۔ ”تم کچھ نہیں کروگے۔۔۔۔ یہ کئی برسوں سے میرا دوست ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں“۔۔۔۔ وہ بھاگ کر مفیض کے پاس پہنچا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب کر لیا۔ اور بلند آواز سے بچوں کو سمجھانے لگا کہ وہ کوئی غلط حرکت نہ کریں“(۱۱)

امریکی مسلمانوں کی بیچارگی کی ایک تصویر افتخار افی کے افسانے ”پردیس“ میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا ایک کردار اسلم جو تقسیم ہند کے فسادات کی وجہ سے اصل ماں باپ کی بجائے ایک اور خاندان میں لے پالک کی زندگی گزارتا ہے ۔مگر جب اس کے دوسرے بہن بھائی اس کو اپنا بھائی قبول کرنے سے عار محسوس کرتے ہیں اور جب گود لینے والے والدین کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو اس کو گھر سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔اورزندگی کے مختلف اتار چڑھاؤسے گزرنے کے بعد امریکہ کا پرامن شہری بن جاتا ہے ۔جہاں زندگی کے قیمتی چالیس سال گزار دیتا ہے۔جب نو گیارہ کا واقعہ پیش آتا ہے ۔تو اپنے اس گھر جس میں اس نے بچپن سے جوانی تک عزیز ترین عرصہ گزارا تھا کی طرح امریکہ سے بھی نو دو گیارہ ہونے  یعنی Go back to your country کی دھمکیاں ملتی ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک آدم اور حوا سے پیدا کیا ہےمگر انسانوں نے اپنے اندر اختلاف اور تقسیم کی مختلف شکلیں اور نوعیتیں پیدا کی ہیں۔ تقسیم ذات سے لے کر خاندان، مذہب، جغرافیائی اور مادروطن تک میں اپنے آپ کو منقسم کردیا ہے۔ ایک حد تک یہ درست بھی ہے کہ اس تقسیم نے انسان کو شناخت اور پہچان عطا کی مگر ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو اس شناخت نے انسان کو محدود اور لاچار کردیا ہے اور کائناتی اختیارات سے خود کو محروم اپنی ذات کو کسی نہ کسی شناخت کا ماسک پہنا کر اپنے آپ کو بریکٹ کردیا ہے۔ اگر تیسری دنیا میں اس کی شدت واضح اور کھلے انداز میں ہے تو مغربی یاپہلی دنیا میں بھی اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار یورپ اور امریکہ میں یہی امتیازی سلوک روا رکھاجارہا ہے جو کہ انصاف ومساوات سے کوئی لگا نہیں رکھتا۔ امریکی اور یورپی مسلمانوں اور خاص کر پاکستانیوں کو اس حقیقت کا ادراک گیارہ ستمبر کے سانحہ کو فوراً بعد ہی ہوجاتا ہے۔ دہشت گردی سے متاثرہ افسانوں کے موضوعات میں ایک موضوع ہجرت بھی ہے۔ انسان فطرتاً امن پسند ہے اور امن والی جگہوں میں رہنے کی خواہش رکھتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت یعنی زندگی کو پرسکون انداز میں چین سے گزارسکے مگر نوگیارہ کے واقعے کے بعد جو بین الاقوامی جنگ اور اس کے نتیجے میں دہشت گردی باقی دنیا پر مسلط کی گئی اس نے فرد اور خاندان کیا پورے گاﺅں کے گاﺅں کو ہجرت پر مجبور کردیا ۔ لوگ موت سے فرار اور امن کی چاردیواری کی تلاش میں اپنی چاردیواروں کو خیرباد کہہ گئے اور آسمان سے پھینکے جانے والے آتش و آہن سے بچنے کے لیے مہاجر بننے پر مجبور ہوئے۔ ایسے ہی ایک واقعے کی روداد جو سوات میں طالبان کے خلاف پاکستانی افواج کے ”اپریشن راہ راست“ میں پیش آیا افسانہ ”میں کہاں جاﺅں“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کہ والدین کے ہاں شادی کے چھٹے سال پیدا ہونے والی عائشہ ہجرت سے کس قدر متاثر ہوتی ہے اور حالات سے مجبور ہو کر موت سے ہمکنار ہو کر والدین کے ہاتھوں میں جان دے دیتی ہے۔

 بستیوں کی بستیاں خالی ہورہی تھیں۔ انسان مررہے تھے۔ گھر اُجڑرہے تھے۔ ایسے میں لوٹ مار انوکھی بات نہیں رہی تھی۔ مگر بہادرخان کے گھر میں کیا تھا۔ جو اس کی لوٹ کا خطرہ ہوتا۔ البتہ کئی دنوں سے عائشہ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے وہ پریشان تھا۔ عائشہ کو کھانسی کے ساتھ بخار بھی تھا۔ وہ اسے مسلسل گھریلو اور گھر میں پڑے ہوئے چند ایلوپیتھی ادویہ کھلا رہے تھے۔ جس سے وقتی افاقہ تو ہوتا تھا۔ مگر بخار اور کھانسی جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ قریبی گاﺅں کا ڈاکٹر طالبان کے ڈر سے گاﺅں سے بھاگ گیا تھا۔ بہادر اُسی سوچ میں ڈوبا ہوا بے دلی سے کام کررہا تھا۔ کہ اس کی بیوی اُسے زور زور سے پکارنے لگی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی دہشت زدہ ہے۔ بہادر ممکن تیز رفتاری سے گھر بھاگا، گھر پہنچ کر لمحے بھر کے لیے وہ بالکل ساکت ہوگیا۔ پہلی نظر میں اُسے لگا کہ جیسے عائشہ کی جگہ اس کی لاش پڑی ہے۔ مگر بیوی کے جھنجھوڑنے پر وہ ہوش میں آیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ مگر سانس بہت کمزور تھی۔ جورُک رُک کر آرہی تھی ۔ اس نے عائشہ کو گود میں اُٹھایا۔ اس کی بیوی گھر میں رکھی ہوئی تھوڑی سی رقم اٹھالائی۔ پھر دوڑنے لگے۔وہ بھاگتے بھاگتے نیچے بڑے گاﺅں پہنچے۔ مگر سارا گاﺅں آثار قدیمہ کا نقشہ پیش کررہا تھا۔ وہ طلسم ہوشربا کا ایسا گاﺅں لگ رہا تھا۔ کہ جیسے ساری آبادی کو کوئی عفریت کھا گیا ہو یا کسی ظالم جادوگر نے سحر سےخالی کیاہو۔ وہ گاﺅں سے نکل کر ایک پگڈنڈی پر دوڑنے لگے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد انہیں شدید فائرنگ کی آواز سنائی دینے لگی آگے طالبان اور فوج میں شدید لڑائی جاری تھی۔ اس وقت ان کی اپنی زندگی بے معنی تھی۔ اگر ان دونوں کی زندگی کا کوئی مقصد تھا تو وہ صرف عائشہ کو بچانا۔۔۔۔ مگر انہیں کیا معلوم کہ عائشہ کو بچاتے بچاتے وہ اسے موت کے حوالے کررہے ہیں۔ پتہ نہیں کہ کب ایک بھٹکی ہوئی گولی آئی اور باپ کے کندھے پر پڑی ننھی معصوم عائشہ کے سر میں پیوست ہوگئی۔ اس کے باپ کو بھی خبر نہ ہوسکی کہ کب اس کی معصوم بیٹی کبھی نہ مننے کے لیے اس سے روٹھ گئی ہے۔ حالانکہ اس کا گرم گرم لہو اس کی پیٹھ پر بہہ رہا تھا۔ جسے وہ اپنا پسینہ سمجھ رہا تھا۔ انہیں تب معلوم ہوا جب بھاگتے بھاگتے ایک دوسرے ویران ویجاڑ گاﺅں میں آگئے۔ (۱۲)

 
نائن الیون کے بعد کے مناظر عام مناظر نہیں اس واقعے نے پوری دنیا کے امن اور سکون کو متاثر کیا بلکہ آج ہی نہیں اس کے اثرات ہماری آئندہ نسلوں پر کئی عشروں تک محسوس کئے جائینگے۔
اس واقعے کے نتیجے میں نہ جانے کتنے گھر لُٹ گئے۔ کتنے مکان ویران کھنڈر بن گئے۔ کتنی بیویاں بیوہ ہوئیں۔ کتنی بہنوں کے آنچل چھن گئے۔ کتنی ماﺅں کی گود خالی ہوگئی۔ کتنے بوڑھوں کی پیری کی عصائیں ٹوٹ گئیں۔ کتنی لاشیں کتوں اور گیدڑوں کی خوراک بنی، کتنی دریابردہوکر مچھلیوں کے نوالے بنیں۔ کتنی عزتوں کے جنازے اٹھے۔ وہ لوگ جو  اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتوں سے معمور تے دانے دانے کو ترس گئے۔ وطن اور علاقوں سے دربہ در کردئیے گئے جو ہمیشہ بانٹا کرتے تھےخود بھکاری بن گئے۔ وہ خواتین جو چادر اور چاردیواری سے کبھی باہر نہیں نکلی تھیں جن کی عمریں تناور سایہ دار چناروں اور بلند وبالا چیڑوں ودیواروں کی چھاﺅں اور پھلوں کے باغات کی خوشبو میں گزری تھیں جلتی دھوپ میں برہنہ سر امداد کے لیے کھڑی نظر آئیں۔ یہاں تک کہ ہجرت کے وقت کیمپوں اور راستوں میں بچوں کو جنم دیا گیا اور نہ جانے 11/9 کے ان فساد میں کتنی بچیاں اپنے والدین سے راستوں اور کیمپوں میں بچھڑ گئیں کتنی خونچکاں ڈراﺅنی کہانیوں نے جنم لیا کتنے قصے سنائے گئے اور کتنی کہانیاں ان کہی رہ گئیں۔ بعض کہانیاں تو شاید ناگفتہ بہ ہیں کہ اس کے سنانے کی طاقت نہ زبان میں ہے اور نہ لکھنے کی نوک قلم میں۔ فرد، معاشرہ، خاندان، ملک، براعظم، کائنات کوئی شے ایسی نہیں جس پر اس کے اثرات نہیں پڑے ہوں۔

 

حوالہ  جات
۱۔        11/9  اور پاکستانی اردو افسانہ۲۰۱۱ پورب اکیڈمی اسلام آباد، ص۳۲
۲۔       محمد جمیل، ”پگلی‘‘ افسانہ مشمولہ’’ نوحہ بے نام“ پشتو ادبی ٹولنہ ما لاکنڈ،۲۰۱۱،ص ۱۴،
۳۔       محمد جمیل، ”پگلی‘‘ افسانہ مشمولہ ’’نوحہ بے نام“، ص ۱۵
۴۔       محمد جمیل ’’ماں‘‘، مشمولہ نوحہ بے نام، ص ۳۰۱
۵۔       مبین مرزادام وحشت، ۱۱/۹ اور پاکستانی اردو افسانہ ،ص ۱۴۱
۶۔       ڈاکٹر الطاف یوسف زئی، اردو نظم اور نائن الیون،۲۰۱۳ءص۱۸۷
۷۔      نیلو فر اقبال، اپریشن مائس، فنون لاہور، شمارہ ۰۹۱۱، ص، ۱۸۱
۸۔       بلقیان کا بت، ۱۱/۹ اور پاکستانی اردو افسانہ ص ۲۱۰-۲۱۱
۹۔       بلقیان کا بت، ۱۱/۹ اور پاکستانی اردو افسانہ ص ۲۱۲
۱۰۔      ڈاکٹر نجیبہ عارف ۱۱/۹ اور پاکستانی اردو افسانہ ص ۳۹
۱۱۔      شناخت، ۱۱/۹ اور پاکستانی اردو افسانہ ، ص ۶۶
۱۲۔      محمد جمیل،  ’’میں کہاں جاوں‘‘ افسانہ ،مشمولہ ’’نوحہ بے نام‘‘، ص۹۹


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com