تحقیق کی تعریف ومنہج اورمنتہائےمقصود
مسرت خان ،سکالرپی ایچ ڈی،اردو
ڈاکٹرمطاہرشاہ، اسسٹنٹ پروفیسر،شعبۂ اردو،ہزارہ یونیورسٹی،مانسہرہ

ABSTRACT :


Research is defined as a careful and important consideration of study having a special concern with knowledge and literature. But this too is an observable fact that in Urdu language, research ideologies are not properly defined. Practically in Urdu language, research is considered as a formal activity so it is implied and predicted as a formality. That’s why in Urdu, research could not touch apex of required standards.
Keeping in view the above concerns and considerations, researcher in the coming passages will try to throw light on systematic definitions, implied methodologies and crucial required objectives of research and to bring in limelight the true understanding of systematic research, so that higher degree standardized research may take place

انسان بنیادی طور پرمتجسّس پیدا ہوا ہے۔انسان جب اس دنیامیں ایک بچے کی حیثیت سے آنکھ کھولتاہے تو وہ اس دنیا کی ہر چیز کو کھوجتی نگاہوں سے ٹٹولتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کا ایک بیکراں سمندر ہوتاہے اور وہ ہر چیز کی اصل کی تلاش کرنے لگتاہے۔ اس کےreceptors اپنے receptionکے بلند ترینstage  پرہوتے ہیں۔ اس کا دماغ مسلسل اس دنیا کے چھپے رازوں پردہ دری میں ہوتا ہے اور انسان کا یہی تجسّس اسے اس دنیا کی آگہی سے نوازتاہےاور یہ آگہی اور تجسّس انسان کو تحقیق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ نوع انسان کی پتھروں سے آگ جلانےکی کوشش سے لے کر "ستاروں پہ کمند"  ڈالنے کے مرحلے تک صرف دو باتیں کارفرما ہیں۔ ایک تحقیق اور دوسرا تجسّس۔ الغرض علم و فن، سا‏ئنس اور ٹیکنالوجی، فلسفہ، شاعری ، معاشیات، معاشرت، نفسیات اور اس سے متعلقہ علم کی تمام شاخیں تحقیق اور تجسّس کی مرہون منت ہیں۔
تحقیق اور ترقی کے باہم تعلق کو تسلیم کرنےکے بعد اب انسانی ذہن میں جوسوال بار بار ابھرتا ہے وہ ہے تحقیق ،منہج اور پھر تحقیق کا منتہائے مقصود کیا ہے؟
لفظی طورپر"تحقیق" 'حق' سے نکلا ہے اور حق کے معنی ہیں 'سچ'۔ سو تحقیق حق کی کھوج لگانا ،کسی چیز کی حقیقت تک پہنچنا یاحقیقت کو ثابت کرنا ہے۔
انگریزی  میں تحقیق کے لیے استعمال ہونے والا لفظResearch ہے  اور مختلف جگہوں پر اس لفظ Researchکی تعریف اور معنی مختلف ہے، یہ فرنچ  لفظ 'Rechercher ' سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیچھے جا کر تلاش کرنےکے ہیں۔ اسی طرح Researchکا لفظ   Chercherسے ماخوذ ہے جو کہ لاطینی  کے Circareسے مشتق ہے اور اس  کے معنی  بھی گھوم پھرکر تلاش کے ہیں۔ شریڈن پیکر کے مطابقResearch کے معنی دوبارہ تلاش کرنا، از سرنوتلاش کرنا یا ایسی کھوج لگانا جو دوسرے نہ لگا پائے ہوں۔
تحقیق کے لغوی معنی اس کے منہج اور منتہائے مقصود تک نہیں پہنچاتے اس لیے اس کے اصطلاحی معنی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے اصطلاحی معنی مختلف ناقدین اور محققین نے مختلف زاویوں سے متعین کیے ہیں۔
  یم سٹیفنسن اور ڈی لیسنگر انسائیکلوپیڈیا میں تحقیق کی تعریف کرتے ہوۓ لکھتے ہیں  (1):
ترجمہ " علم کو بڑھانے،درست کرنے اور اس کی توثیق کرتے ہوئے عام کرنے کے مقصد کے تحت چیزوں، تصورات یا علامتوں کے ساتھ چیڑچھاڑ کرنا، چاہے وہ علمی نظریہ کی تعمیر کرے یا محض متعلقہ فن کو پروان چڑھائے،تحقیق ہے"
اسی طرح سڈنی یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم و تربیت کے مطابق (2):      
  "Research is defined as the creation of new knowledge and/or the use of existing knowledge in a new and creative way so as to generate new concepts, methodologies and understandings. This could include synthesis and analysis of previous research to the extent that it leads to new and creative outcomes.”
تحقیق کی اسی تعریف کو تھوڑا سا آگے لے جاتے ہوئے The Random House Dictionary of English Language  بتاتی ہے کہ تحقیق کسی موضوع سے متعلق ایک ایسی تلاش و تفتیش ہے جس کا مقصد پہلے سے پرکھے ہوئے حقائق، نظریات اور اطلاقیات کی دریافت کرنا ہے۔
اسی طرح تحقیق کی تعریف کرتے ہوئے سی آر کوٹھاری (Kothari) لکھتے ہیں : (3)
 “Research is, thus, an original contribution to the existing knowledge making for its advancement. It is the pursuit of truth with the help of study, observation, comparison and experiment. In short, the search for knowledge through objective and systematic method of finding solution to a problem in research. The systematic approach concerning generalization at the formulation of a theory is also research.”

اردو میں قاضی عبدالودود نے تحقیق کی تعریف میں لکھا کہ تحقیق کسی شے کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے۔اس ضمن میں ڈاکٹر عطش درانی کی کتاب "لسانی و ادبی تحقیق و تدوین متن" کا مطالعہ کیا جائے۔ گیان چند کی کتاب "تحقیق کا فن" کا مطالعہ کیا جائے یا انگریزی کی ترجمہ شدہ کتابوں کو پرکھا جائے تو ساری کتابیں اور مجموعات تحقیق کےارتقا‏ء اور مراحل کو موضوع بناتے ہیں اور تحقیق کی کلی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔
تاہم تمام مطالعات سے یہ اندازہ  ضرورلگایا جا سکتا ہے کہ تحقیق کے منہج اور مقاصد کیا ہیں ۔چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے  کہ تحقیق کابڑا اور حتمی مقصد نظریہ سازی ہے جس کے لیے فرضیے ضروری ہیں۔نیز تحقیق میں منصوبہ بندی اور با ضابطہ طریقے سے کوائف (Data)  کو حصول وتجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کی توجیہ و تعبیر سے نئی جو توجیہ دریافت ہو، اسے سامنے لایا جاتاہے۔ جس کے ذریعے سے مسائل کے قابل اعتماد حل تک پہنچا جاتا ہے اور کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے۔
منہج تحقیق کا اطلاق ان اصولوں اور قواعد و ضوابط پر ہوتا ہے جو ایک محقق تحقیق کے دوران اپنے سامنے رکھتاہے۔ اس لیے ایک محقق کو ان اصولوں سے آگہی رکھنی چاہیے۔ تمام محققین ایسی تحقیق کے خواہشمند ہوتے ہیں جو معیاری اور سودمند ہو جسے پذیرائی اور تحسین ملے۔ اورجس پر اصول تحقیق یامنہج تحقیق کا اطلاق ہو۔
اصول تحقیق کے لیے عربی میں "طرق البحث" اور اردو میں"تحقیقی طریقہ کار" منہج یا رسمیات کی اصطلاحیں بھی مستعمل ہیں۔ "طرق" عربی لفظ "الطریق" کی جمع ہے، جس کے معنی "راستہ کے ہیں۔ اس کے دیگر جمع " اطرق و اطرق و اطرقای" ہے(4)۔ فیروزاللغات کے مطابق "طریق" کے لغوی معنی راستہ، سڑک، طرز، ڈھنگ، روش، مذہب، شریعت، رواج اور دستور کے ہیں(5)۔ اردو دائرہ معارف العلوم کے مطابق عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اہم "طریق" کے ساتھ بطور لاحقہ نسبت لگانے سے "طریقہ" بنا۔ "طریقہ" اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔
طریق کار یا منہاج کے لیے انگریزی میںMethodology کی اصطلاح مستعمل ہے۔ ویکی پیڈیا (Wikipedia)کے مطابق"میتھوڈولوجی" سے مراد : (6)
"A documented process for management of projects that contains procedures, definitions and explanations of techniques used to collect, store, analyze and present information as part of a research process in a given discipline."
طریقہ کار یا منہج سے مراد کسی بھی منصوبے کی تنظیم کے مرحلے کے دوران عمل میں آنے والا کاغذی مرحلہ ہے جس کےاندر علم کی کسی بھی شاخ سے متعلق تحقیقی عمل کے دوران حاصل ہونے والی  ہیں۔Techniques  معلومات کی تعریف اور وضاحت کے لیے استعمال ہونے والی
ایک انگریزمصنف کی مدد سے طریق تحقیق یا میتھڈولوجی کی مزید توضیح کچھ یوں  کی جا سکتی ہے: (7)

محققین کی آسانی کے لیےاس ساری بحث سے درجہ ذیل اصول اخذ ہوتے ہیں: (8)

          عالمی سطح پر انگریزی کے اصول تحقیق کےجو پانچ تحقیقی منہاج گنوائے گئے ہیں۔ان میں سے خاص طور پرتخلیقی تحقیق کا جائزہ ہیئنگ لانگ (Lang) نے کچھ یوں لیا ہے:(9)
                  تخلیق کے طریقہء کار کی تین بنیادی قسمیں(اقسام ہیں):

  ایک چیز جو ان سب میں مشترک ہے اور جس کا کچھ قیاس آرائیون سے تعلق ہے جو کہ ما بعد الطبیعیات اور علم الکلام ہے۔
اعدادی تحقیق میں محقق اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ معاشرتی حقیقت جو کہ ایک انسان کے لیے بیرونی حیثیت رکھتی ہے جو کہ اسے جانتا ہے، ان معلومات پر مبنی ہے جن کو حس کے ذریعے محسوس کی جا سکتا ہے۔ اس لیے محقق کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کے طریقے دریافت کریں جو کہ آفاقی طور پر پہنچانے جاتے ہوں اور ان کا تعلق کچھ خاص حقیقتوں کے ظہور سے ہو۔ اگر ایک طرف معیاری تحقیق کرنے والے ایسی معاشرتی حقائق پر یقین رکھتے ہوں جوباطنی ہیں تو تحقیق ایک اندرونی چیز کے طور پرکام کرتی ہے اور اس کی توجہ ذاتی تجربے پر مرکوز کرتی ہے باوجود اس کے معاشرے میں رہتے ہوئے جہاں تک کہ تیسرے اور مرکب طریقے کا تعلق ہے اس طریقہء کار میں محقق علمیت پسندی کے ذریعے علم جمع کرتا ہے۔ وہ ایسے طریقوں اور نظریے کی تقلید کرتاہے جو کہ عمل پر مبنی ہوتی ہیں اور اس اصول کو مانتے  ہیں کہ عملی نتائج ہی علم کا معیار ہیں۔ مرکب طریقے ایسے معاشرتی پوچھ گچھ ہیں جس میں محقق مصروف  رہتاہے اور اس کی توجہ ذاتی تجربے پر مرکوز کرتی ہے باوجود اس کے معاشرے میں نہتے ہوئے ،جہاں تک کہ تیسرے اور مرکب طریقے کا تعلق ہے اس طریقہء کار میں محقق عملیت پسندی کے ذریعے علم جمع کرتا ہے ۔ وہ ایسے طریقوں اور نظریے کی تقلید کرتے ہیں جو کہ عمل پر مبنی ہوتی  ہیں او راس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ عملی نتائج ہی علم کا معیار ہیں۔ مرکب طریقے ایسے معاشرتی پوچھ گچھ ہیں جن میں محقق بنیادی طور پر عملیت پسندی پر انحصار کرتا ہے۔ وہ معاشرتی اجتماعیت پر ڈٹا رہتا ہے جہاں مختلف طبقات کومہیا کیا جاتا ہے اور یہ مختلف مجموعہ ایسے جائز حالات پیدا کرتا ہے جو کہ فلسفیانہ اور نظریاتی سوچ دیتا ہے۔ اس طریقےسے اس کی معلومات اکٹھی کرنے کی عملیت پسندی اور اس کے انفرادی علم میں فلسفیانہ جواز مرکب طریقوں کو جنم دیتے ہیں۔
تحقیقی طریق کار یا اصولوں کا یہ جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ تحقیق کے فلسفیانہ بنیادوں کے علاوہ متعلقہ قسم کا انتخاب بھی ضروری ہے۔ مزیدبیان ہے:(10)
تحقیق کے طریقہ کار کو لاگو کرنا کثیر الجہتی نقطہء نظر سے اہم ہے۔ ان نقطوں میں پہلی اور سب سے اہم اس کی فطرت رہنمائی ہے۔ تحقیق کا طریقہ کار محقق کے لیے تحقیق کے طریقوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اعدادی طریقوں میں محقق کوشش کرتے ہیں کہ تحقیقی سوالات کو مختلف طریقوں جسے تفتیش کر کے تجربوں کے ذریعے ، ناپ کر معلومات کرنا اور معلومات کا شماریات کے ذریعے پیش کرنے والا معاملہ کریں لیکن  معیاری محقق زیادہ تر معلومات کے تجزیے پر انحصار کرتے ہیں۔ انٹرویو اور مشاہدے کے آلہء کار پر مرکب طریقے ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اعدادی اور معیاری طریقوں میں یہ دونوں طریقوں کا مرکب ہے۔ یہ دونوں طریقوں کا درمیانی راستہ ہے۔ اس لیے اس کا مقصد اور اخذ شدہ نتائج باقی دو سے اضافی ہیں  جس کا مقصد وسیع سمجھ بوجھ اور گہرائی دے کرایک مسودہ کے ثبوت کی مدد سے حقائق کو معلوم کیا جائے۔ ان تینوں میں طریقوں کا استعمال اتنا اہم نہیں ہے جتنا خود طریقہء کار اہم ہے۔مثال کے طور پر کچھ محقق رویوں کی رفتار معلوم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مشاہدے کا طریقہ اور معلومات جمع کرنے کا تجزیہ استعمال کرے گا لیکن عملی بیان کے مقصد کے لیے اور رویوں کے شماریاتی تعارف کے لیے دو گروپوں کے شرکاء کا الگ ردعمل نوٹ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ تحقیق جس میں معیاری اور اعدادی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ معلومات کو جمع کرنے کے لیے لیکن مستقبل میں وہ نتائج دکھانے کے لیے اعداد استعمال کرتا ہے۔ یہ مثال ہوگی اعدادی طریقہء کار کی۔ مرکب طریقے کی نہیں، اس لیے اعدادی طریقہء کار کی مرکب طریقے کی نہیں، اس لیے اوپر یہ کہا گیا ہے کہ طریقہء کار اہم ہے نہ کہ طریقے۔
تحقیق کے مختلف طریقہ ہیں جو ہمارے لیے کار آمد ہیں۔ جب ہم تحقیق کرنا چاہیں، اس کے علاوہ  وہ تخلیقی تحقیق میں بھی کارآمد ہیں۔ اس تحقیق میں ہم نے اعدادی تحقیق کو تین حصوں میں تقسیم کیا:

ان طریقوں کو آکے مزید شماریاتی ذریعے سے جانچا جاتا ہے جیسے کہ MANOVA, ANOVAکم کرنے کا تجزیہ۔ اس سے بڑھ کر ضرورت آنے پر پیچیدہ طریقہء کار بھی اپنایا جاتا ہے۔
طریقِ تحقیق یامنہجِ تحقیق نہ صرف فلسفیانہ مفروضات پیش کرنے میں اہمیت کاحامل ہے بلکہ یہ کسی بھی طریق کے انتخاب میں مدد دیتاہے۔ اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق میں جانچ پرکھ، تجربہ اور سوالات کا اعدادی و شماری تجزیہ شامل ہے۔ جبکہ اس کے متضادQualitative طریق تحقیق ہے جس میں مشاہدات ، سوالات ، وجوہات کی فہرست کی بنیاد پر مواد کا تجزیہ شامل ہے جبکہ آمیختہ طریق تحقیق میں دونوں منہاج تحقیق کا درمیانہ راستہ اختیار کیاجاتا ہے۔
تاہم طریق تحقیق، جو بھی ہو اس کو عمل میں ڈالنے کے لیے استعمال ہونے والے طرا‏ئق اور منہاج پر غور کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ تحقیق کا اصل انحصار اپنی طرائق پر ہوتا ہے ۔محقق کا کسی ایک طریقہ کے اندر رہنا ضروری نہیں بلکہ کامیاب تحقیق اس کا مقصد ہونا چاہیے اور تخلیقی تحقیق پر محقق کو مرکوز ہوناچاہیے۔
تخلیقی تحقیق کے لیے کسی ایک طریق پر انحصار کرنے کے بجائے سارے منہاج پر غور کرتے ہوئے اپنے موضوعِ تحقیق کی ضرورت کے مطابق مختلف النوع طرا‏ئق کو ملاکر تخلیقی تحقیق کو عمل میں لایاجا سکتاہے۔
پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اب تحقیقی اصولوں میں آمیختہ طریق (Mixed Method) استعمال کیا جا رہاہے۔ یہ مقداری، سروے، تجرباتی اور معیاری تحقیق کے اصولوں کا مجموعہ ہے۔ اسے دستاویزی اور سروے تحقیق کے آمیزہ کہاجاسکتاہے۔اگرچہ یہ اردو میں اصول تحقیق کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔
جہاں تک تحقیق کے منتہائے مقصود کا تعلق ہے اردو میں تحقیق کا بنیادی مقصد ابھی تک واضح نہیں۔اصول تحقیق کی کسی بھی کتاب میں ماسوائے ڈاکٹر عطش درانی کے منتہائے مقصود درج نہیں ہوا۔ ڈاکٹر عطش درانی نے اپنی کتاب "لسانی و ادبی تحقیق و تدوین کے اصول" میں ایڈورڈ سعید کےحوالے سے اسے عالمانہ انتقاد (Scholarly Criticism) قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: (11)
"ادبی تحقیق کا مقصود اور منتہابالآخر’’ عالمانہ انتقاد ‘‘ (Scholarly Criticism) ہی ٹھہرتا ہے، جسے معاصر جائزہ (Peer Review) ہی قابلِ قبول بنا سکتا ہے۔ معاصر جائزے کے لیے تحقیقی نتائج کی اشاعت ضروری ہے۔
ہم ادبی تحقیق کی منازل کچھ اس طرح سے مقرر کرسکتے ہیں :
-1 بنیادی تحقیق  یا تشکیلی و توضیحی تحقیق
-2 تاریخی، دستاویزی تحقیق۔ یہ بھی تشکیلی یا توضیحی ہوتی ہے
-3 سائنٹیفک اور معروضی تحقیق۔ یہ بیانیہ، تجرباتی اور تشخیصی ہوتی ہے
- 4 عالمانہ انتقادی تحقیق۔ یہ حقائق اور نظریے (تھیوری) سے متعلق ہوتی ہے
بنیادی تحقیق کا مقصود یہ ہے کہ ادب کے بارے میں پہلے سے موجود علم میں اضافہ ہو سکے اور اس کے نظریات کو سمجھا جا سکے۔ خواہ تعریفات، بیانات اور تجربات کی صورت میں، خواہ اعدادوشمار اور تقابلی مطالعے کے انداز میں۔ اگلی تحقیقات کا انحصار اس کے نتائج پر ہوگا۔ جامعات کے لسانی شعبوں میں عموماً یہی تحقیق انجام دی جاتی ہے۔"
کوٹھاری نے چار مقاصد بیان کیے ہیں: (12)
"کسی عمل میں نئی بصیرت حاصل کرنا۔ اسے ہم تشکیلی تحقیق کہہ سکتے ہیں۔ کسی کردار، فرد یا صورت حال کے خواص واضح کرنا۔ یہ بیانیہ تحقیق ہے۔ کسی عمل کے تعدد کا تعین کرنا جس سے اس صورتحال میں ایسا ہی عمل ہونے کا امکان ہو۔ یہ تشخیصی تحقیق ہے اور آخری بات یہ ہے کہ فرضیے کو جانچنا تاکہ عمل کی با ضابطہ توضیح ہو سکے۔"
یاد رہے کہ فرضیے (Hypothesis) کو ثابت کرناتحقیق کارپر لازم نہیں ہوتا۔ اگر حاصلات بار بار اس کے نتائج کی تائید کریں تو انھیں حقائق (Facts) قرار دے کر نظریے یا تھیوری (Theory) میں اضافہ سمجھ لیا جاتا ہے، وگرنہ متبادل فرضیہ یہی عمل انجام دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ایک خاص وقت میں درست پیش گوئی ہو سکے۔ وگرنہ نیا فرضیہ پیدا ہو گا۔ خواہ یہ فرضیہ کسی دستاویز کی حقیقت ثابت کرنے کے لیے ہو یا اصل تاریخ معلوم کرنے کے لیے ہو، مصنف کے بارے میں ہو یا ادب پارے کی ساکھ، عمدگی اور صحت کو تلاش کرنے کے لیے ہو۔
تحقیق اپنے ہر انجام پر بھی نامکمل رہتی ہے اور یوں نئی تحقیق کا عمل شروع ہوتا ہے، خواہ بنیادی تحقیق انجام دی جائے یا ثانوی تحقیق، اور خواہ مقداری تحقیق ہو یا معیاری۔ تاہم عام طور پر معیاری تحقیق استعمال ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مسائل کی بنیادی معلومات جمع کرنااور ان کا عملی حل پیش کرنا ہوتاہے۔ اس کے لیے معیارات اور اصول مرتب کیے جاتے ہیں تاکہ آئندہ فرضیے بہتر طور پر وضع ہو سکیں۔
کو‏ئی بھی ادبی تحقیق صرف کسی تحقیقی نظریے کی روشنی ہی میں انجام پا سکتی ہے۔ اس پر بھی ڈاکٹر عطش درانی ہی نے کچھ لکھا ہے۔ ان کے نزدیک:(13)
"ادب کی ماہیئت سمجھنے کے بعد اس کے نتائج کو تسلیم کرانا ضروری ہے اور اس کے لیے اس کے کسی ایک پہلو پر اٹھنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنےکے لیے جو تحقیق انجام دی جائے گی، اس کا طریقِ کار اتنا سائنسی اور معروضی ہو کہ وہ ذاتی یا موضوعی رائے معلوم نہ ہو۔ اسی میں تمام طریقے اور طریقِ کار پوشیدہ ہیں۔ اب خواہ تحقیق کسی بھی طریقے یا قسم کے مطابق انجام پائے، اس کا کھلا اور مثبت ہونا ضروری ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ سائنسی اصول طبعی تحقیق کے حوالے سے ہوں گے یا سماجی تحقیق کا دائرہ مختلف ہو گا۔ کیونکہ اُردو میں ابھی تک ادبی تحقیق کی اپنی ماہیئت کا سوال بہت کم اٹھایا گیا ہے اور کوئی تحقیقی نظریہ (Theory) تو کجا ادبی نظریہ بھی قائم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یعنی اُردو میں تحقیقی سوال اپنی معروضی حدود میں قائم ہی نہیں کیا جاتا۔
بالآخر عالمانہ انتقاد کا مرحلہ آتا ہے اور تحقیق کار خود کو عالم یا سکالر کے طور پر پیش کرتا ہے۔ کوئی نئی توجیہ، نیا نظریہ یا نیا پہلو دریافت کر کے سامنے لاتا ہے۔وہ اپنی تحقیق کسی خاص قرطاسِ تحقیق کی وضع میں پیش کرتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کر کر سکتا ہے، ان پہلوؤں کا جاننا ادبی تحقیق میں بنیادی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔
ادبی تحقیق کو جن نئے مسائل ، سوالات او رچیلنجوں سے واسطہ پڑ رہاہے، ان میں سرِ فہرست تو اس کا سائنسی اور معروضی ہونا ہے اور دوم علمِ زبان (Philology)کی طرف اس کی مراجعت اور ثقافتی یلغاروں کا مطالعہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ نیدرلینڈ کے ہارپ مین (Harpman) اور نوننگ (Nunning) نے دوسرے مرحلے کے ان پہلوؤں پروضاحت سے گفتگو کی ہے۔ اس کاخلاصہ یوں ہے کہ کوئی بھی ادبی تحقیق محض جمالیات کی حدود سے وسیع تر ہو کر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور لسانی پہلوؤں کا احاطہ بھی کرتی ہو تو اسے عالمانہ انتقاد میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس بحث کا آغاز استشراق (Orientalism)کے مصنف ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب Humanism and Democratic Criticism (2004) میں کیا تھا۔ ان تمام مقاصد کے حصول کے لیے اب قدیم علمِ زبان کی طرف مراجعت ہو رہی ہے۔ اس لیے ادبی تحقیق کار کو علمِ زبان میں گہرے درک کی ضرورت ہے جو تحقیق کے اصول و مبادی کا گہرا فہم اور ادراک حاصل کرنے کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے۔"
عالمانہ انتقاد کے بارے میں وہ بیٹ سن سے لے کر ایڈورڈ سعید تک ان امور کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (14)
"ادبی تحقیق کی سب سے اعلیٰ منزل عالمانہ انتقاد ہے۔ اس اصطلاح کو علم تنقید کے مغالطے میں نہ لیا جائے۔ یہ علمیت (Scholarships)کی تنقیدی بصیرت (Vision)کا دوسرا نام ہے۔ یہ ایسے اصولوں اور اطلاقات کے طریقے استعمال کرنے کا عمل ہے، جس سے محقق کا نظریہ دنیا میں قابلِ قبول ٹھہرے۔ دوسرے اسے تسلیم کریں اور قابلِ تقلید ٹھہرائیں۔ گویا سکالر ایسی معروضی ، بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تحقیق انجام دیتا ہے اور اپنی تعقلی بصیرت سے ایسے نتائج اخذ کرتاہے جو بادی النظر میں بہت مشکل نظر آتے ہیں یا جس طرف دیگر اہلِ علم کی توجہ نہیں گئی ہوتی۔ آرٹ، موسیقی ، ادب، مذہب، فلسفہ اور ثقافت کے مطالعے کی منزل یہی عالمانہ انتقاد ہے۔
سائنسی علوم میں عالمانہ انتقاد کا چلن عام ہے، زبان و ادب میں بھی   اس طرزِفکر کے تحت  نتائج تک رسائی وہ    واحد ذریعہ ہے جس پر ادبی تحقیق قابلِ اعتبار ٹھہرسکتی ہے۔بالفاظِ دیگر اردو سندی اور غیرسندی محققین جب تک اپنی تحقیقات ُعالمانہ انتقادٗکے درجے تک نہیں پہنچاتے،  اُن کی تحقیق  کا معیار بلند نہیں ہوسکتا۔
                                                                       

حوالہ جات
1. Encyclopedia of social sciences volume 19, Mac Millan 1930
2. Department of Education and Training, Western Sydney University, https://www.westernsydney.edu.au/research/researchers/preparing_a_grant_application/dest_definition_of_research
3. C.R. Kothari, Research Methodology (Methods and Techniques), 2nd Ed., New Age International, New Delhi, 2004, pp:102
4 ۔          فیروز اللغات اردو جامع ، ص 878
5 -       اردو دائرہ معارف العلوم (www.urduencyclopedia.org)
              6.    http://on wikipedia.org.wiki.Methodology
7.    Research Methodology.PartI, M.S Sridhar, ISRO Satellite Centre Bangalore, P: 10
8.    Haying Lang, An empirical review of research methodologies and methods… (2003-2012), p.477
9. Haying Lang, Op.cit.,
10. Ibid
11 ۔       ڈاکٹر عطش درانی ، اردو اور پاکستانی زبانوں میں لسانی و ادبی تحقیق و تدوین کے اصول،نیشنل بک فاونڈیشن، اسلم آباد2006، ص ص: 30، 31
12. Kothari, Op.cit., P.2
13 ۔       ڈاکٹر عطش درانی، "  ، ص ص : 31، 32
14 ۔       ڈاکٹر عطش درانی بالا، ص ص:   36 تا 37

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com