فکر اقبال میں اندلسیت
شہزاد خان۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو جامعہ پشاور
ڈاکٹر سلمان علی ۔ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور

ABSTRACT:


   Andalusia of the past (Modern Spain) has a permanent mark on the poetry of Iqbal. The scholarly deeds and socio political adventures of the Muslim Arabs of the Middle Ages in Spain is a source of vital force in Iqbal’s thoughts. In almost all his verses a reader feels the aesthetics and grandeur of Andalusian portraits which are valued highly by Iqbal and which are considered as the marvel of the past .Ins this article these jewels of Iqbal’s thoughts are discussed and analyzed with reference to specific Iqbal’s verses, so to grasp the importance and value of the past Andalusia (Undlasiyyat) in the thoughts and poetry of Iqbal.

عمومی معنو ں میں اندلسی ملک اندلس (Andalusia) کے بانشندوں کےلئے بولا جاتا ہے لیکن کلام اقبال میں اندلسی مراد وہ اندلسی مسلمان خصوصاعرب ہیں۔جنہوں نے آٹھویں صدی عیسوی  کے ابتدا میں اندلس کو فتح کرکے ایک شاندار اسلامی تہذیب کی بنیاد ڈالی ۔عربوں نے اندلس میں جس عظیم الشان تمدن کو پروان چڑھایااس کے اثرات نہ صرف خطہ اندلس کے باقی اقوام کےلئے انقلاب انگیز ثابت ہوا بلکہ یورپ اور بحیر روم کی اقوام ا س سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔یہ اثرات اتنی دیر پا ثابت ہوئیں کہ آج بھی اس کے نقوش پر انسانی تخیل ناز کرتی ہے ۔یہ وجہ ہے کہ اقبال جیسے رومانی مفکر اور شاعر کے افکار پر اس تمد ن کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ کلام اقبال میں نہ صرف اندلسی تہذیب اور کرداروں پر الگ الگ نظمیں موجو دہیں بلکہ اندلس سے متعلق مفترق افکار اردو اور فارسی کلام دونوں میں جگہ جگہ ملتی ہیں ۔ اندلسی تہذیب کیلئے اقبال کے والہا نہ عشق کو سمجھنے کے لئے  ضروری ہے کہ اس تہذیب کا نا صرف تاریخی حوالے سے تحقیق کی جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے اس سرزمین پر پنپنے والے ان مثالی کرداروں کا بھی جائزہ لیا جائے جنہوں نے انسانیت کو حسن و جمال اور تمد ن مثالی چہرہ دکھایا۔
رومی سلطنت کی ابتدائی آیام سے بھی پہلے سپین کا علاقہ بحیرہ روم کے مختلف اقوام کے  لئے پرکشش خطہ رہاہے ۔نہ صرف مغربی یورپ کی مختلف اقوام بلکہ افریقیوں نے بھی اکثر و بیشتر یہاں کا روح کیا اور مستقلاً یہاں آباد ہوتے رہے۔ان قدیم اقوام میں باسک (Basque)جوآج بھی اپنی منفرد حیثیت باقی رکھے ہوئے ہیں،کلٹ (Celt)اور آئبیرین (Iberians)زیادہ مشہورہیں۔ انسائیکلوپیڈیابرٹانیکاورژن2012نے لکھا ہے کہ اندلس میں داخل ہونے والی قدیم ترین بیرونی اقوام میں فونیقی (Phoenesians)اور قرطاجنہ (Carthagenians)زیاد ہ اہم ہیں


'' ۱۱۰۰ ق م کے بعد فنیقی ( Phoenicians )  ، یو نانی اور قرطاجنہ نے یہاں آکر آباد ہو نا شروع کیا۔ ان بیرونی آباد کاروں کو مجموعی طور پر آئی بیری کہا جاتا ہے ۔ ۹۱ ق م میں رو میوں نے آکر تمام گروپوں کو یکے بعد دیگرے شکستیں دے کر پورے خطے کو ایک سیاسی حکومت کے زیر اثر لا یا ۔ پانچویں صدی عیسوی میں رو می حکومت اس وقت ختم ہو گئی جب جرمنی النسل اقوام سوبی        ( Seubi )  ، الانی (Alani )  اور ونڈال (Vandal ) اور آخر میں وزی گا تھ (Visigoth )  نے اس علاقے پر حملہ کیا ’’۔ (۱)

مشہور تاریخی روایات کے مطابق گاتھ بادشاہوں کے آخری فرمانرواں غطشہ(Vetiza ) کو اس کے فوجی کمانڈر راڈرک نے کلیسا کے سازش سے قتل کرکے حکومت پر قبضہ کیا ۔ یہ فوجی حکمران شاہی خاندان کا فرد نہیں تھا لیکن اپنی فوجی قابلیت کے بل بوتے پر بہت جلد ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا ۔ طارق بن زیا دکے حملے کے دوران راڈرک کا اہم ترین گورنر جو سبتہ (Ceuta)اور طنجہ (Tangier)پر حکمران تھا ،کا تعلق سابقہ شاہی خاندان سے تھا ۔اس گورنر کا نام کاونٹ جولئین تھا۔سپین پر عرب اور بربر افریقی مسلمانوں کے کامیاب حملے اور قبضے میں کاونٹ جولیئن کا کردار سب سے اہم ہے ۔مصنف ابن الاثیراپنی کتاب "مسلمان یورپ میں"میں لکھتے ہیں۔۔۔


"کا ونٹ جو لین کو عرب تاریخ نو یسوں نے مختلف ناموں سے یاد رکھا ہے ، البان (بلا ذری )، ایلیان (ابن عذاری ) اور یولبان ۔ دو رِ حاضر کے بعض مو رخین نے اسے البان ( OLBAN ) اور بعض نے اسے اربن ( URBAN ) کے نام سے بھی یا د کیا ہے ۔ وہ غیطشہ کا داماد اور سبتہ ( CEUTA )  اور طنجہ (Tangier ) کا حکمران تھا ۔ جو لین نے نہ صرف مسلمانوں  کی خدمت میں تحفے تحائف پیش کیے بلکہ طا رق کی افواج کو دوسرے کنارے تک لے جانے کے لیے اپنا بحری بیڑہ ان کے حوالے کر دیا تھا۔ قرموعہ کے مشہور محاصرے میں وہ مو سیٰ بن نصیر کے ساتھ شریک تھا۔ اس فتح کے بعد ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ اس کا حشر کیا ہوا اور وہ کس ڈرامائی انداز سے تاریخ کے صفحات سے روپوش ہو گیا ۔ اس کی اولاد میں ابو سلیمان ایوب بن الحکم  بن یلیان کا وجود ، جو اپنے عہد کےعظیم مفکر اور فقیہہ تھے غنیمت ہے ۔ابو سلیمان ایوب کا انتقال ۹۲۲ھ میں ہوا۔ "(۲)

ویسے تو اندلس کی فتح کے حوالے سے طارق بن زیاد اور افریقی گورنر موسیٰ بن نصیر زیادہ مشہور ہیں لیکن تاریخی حقیقت یہ ہے کہ موسی ٰ نے  عام حملہ کرنے سے پہلے طریف نامی کمانڈ ر کو اپنے مختصر دستے کے ساتھ ہراول کے طور پر بھیجا تھا۔ کمانڈر طریف بن ابی زرعہ النخعی نے پانچ سو مجاہدین کا دستہ لیکر سن 91ہجری میںسیرا ڈی لا لونا (Seirra De La Luna)نامی مقام پر یلغار کیا ۔ یہ حملہ فقط دشمن کی طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے تھا ۔کیونکہ بن نصیر جیسا زیرک گورنر ایک اجنبی ملک پر بغیر معقول معلومات کے حملہ کے لئے تیار نہیں تھا۔طریف نے چند ساحلی مقامات پر عارضی طور پر قبضہ کیا اور ضروری معلومات اکٹھی کرکے چند دن بعد واپس افریقہ لوٹا۔طریف جس مقام پر اترا تھا بعد میں اس کا نام جزیر ہ طریف مشہور ہوا ۔
طریف کے کامیاب حملے کے بعد موسیٰ نے باقاعدہ حملے کے لئے سات ہزار مجاہدین پر مشتمل ایک فوج ترتیب دے کراپنے آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد کی سپہ سالاری میں سپین روانہ کیا۔فوج کو سپین کے ساحلوں پر پہنچانے کے لئے زیادہ تر بحری جہاز سبتہ کے گور نر کاونٹ جولین نے مہیا کردیے۔یہ فو ج جس مقام پر اتری اس کا نام بعد میں جبل الطارق مشہور ہوا ۔اس سے پہلے اس پہاڑی ساحل کا نام کیلپے (Calpe)تھا۔اس مقام پر دنیا کے جنگی تاریخ کا مشہور ترین واقعہ پیش آیاجب طارق بن زیاد نے اپنے ہی جہازوں کو جلانے کا حکم دیا ۔اسی واقعے کو اقبال نے "پیام مشرق"میں بہترین طریقے سے چند اشعار میں سمویا ہے ۔عام سپاہی جہازوں کو جلتے دیکھ کر پریشان ہونے لگے ۔ اور اسی عالم میں اپنے کمانڈر سے بددل ہوکراعتراض کرنے لگے:


دوریم  از سواد وطن  با ز  چوں  رسیم
ترک سبب  ز روئے شریعت کجا  روا ست

پیام مشرق، ص:۱۵۰
طارق کا جواب حیران کن تھا۔جنگ کے ماہرین جو تدبیر اور عقلی حکمت عملیوں پر انحصار کرتے ہیں اس قسم کے جواب یا حکمت عملی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔طارق نے کہا:


خندید و دست خویش بہ شمشیر برد و گفت
ہر ملک ملک  ما ست کہ ملک خدائے ما ست

پیام مشرق ، ص: ۱۵۰
اس واقعے کے بعد طارق کے سپاہی ساحلی علاقوں سے اندرون ملک کی طرف بڑھےزرا آگے ایک اور ریاستی گورنر تدمیر (Theodomir)کی فوجوں سے مڈبھیڑہوئی۔لیکن وہ جم نہ سکا اور سراسیمہ ہوکر راڈرک کی بھاگ نکلا۔راڈرک کے دربار میں جو الفاظ اس نے بولے وہ کئی تاریخ دانوں نے نقل کئے ہیں:
"انہ قد نزل باارضنا قوم لا ندری امن السماءھم ام من الارض"۔ (۳)
"ترجمہ : ہماری زمین پر ایک نئی قوم نے نزول کیا ہے ہم نہیں جا نتے کہ وہ آسمان سے اتری ہے یا زمین سے نکل آئی ہے "
تدمیر کے اس خوفناک خبر کو سن کر راڈرک نے بھر پور تیاری شروع کی ۔ملک کے تمام صوبوں سے فوجی دستے ایک مقام پر جمع کرنے شروع کیے ۔ہتھیاروں اور دوسری ساز و سامان کے ذخیر ے میں اضافہ کرنے لگا ۔چند دنوں کے اندر اندر ایک عظیم الشان فوج کھڑی کردی ۔بعض مورخین اس فوج کی تعداد اسی ہزار بتاتے ہیں۔جب کہ بعض کے ہاں اس کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی ۔طارق کو جب راڈرک کی اس عظیم فوج کا پتہ چلاتو موسیٰ کو مزید کمک بھیجنے کی درخواست کی لیکن کوششوں کے باوجود موسیٰ پانچ ہزار سے زیادہ سپاہی نہ بھیج سکا ۔دونوں فوجیں لاجند (La Junda)جھیل کے کنارے ایک دوسرے سے ٹھکرانے لگیں۔میدان کار زار19جولائی سے 26جولائی تک گرم رہا  ان سات دنوں میں فوجیں شکست و فتح سے بے نیاز ہوکر بے جگری سے ایک دوسری پر ٹوٹ پڑیں ۔کبھی ایک فوج کا پلڑا بھاری رہا اور دوسری کا۔26جولائی کی رات طارق نے فیصلہ کن حملہ کرنے کا اردہ کیا ۔ 27جولائی کی صبح چند آزمودہ سپایہوں کو لیکر خودآگے بڑھا۔اور دشمن لشکر کےقلب پر حملہ کیا۔بڑی جان کاہی کے بعد یہ شیر دل کمانڈر راڈرک تک پہنچا۔راڈرک نے خود کو لاچار پاکر بھاگنے کی کوشش کی لیکن سامنے ناقابل عبور جھیل کو پایا۔مایوسی کی عالم میں وہ جھیل میں کودنے لگا۔ اور اسی جھیل کا پانی راڈرک کا آخری آرام گاہ ثابت ہوا۔ اپنے سپہ سالارکی یہ حالت دیکھ کر باقی لشکر متشر ہوا اور میدا ن عربی شہسواروں کے ہاتھ رہا۔اس کے بعد ایک لمحہ ضائع کیے بغیر طارق آگے بڑھا ۔بہت کم مدت میں سپین کے تمام بڑے مراکز اور شہر طارق کے آگے سرنگوںہوگئی ۔اس عظیم الشان کامیابی کو اقبال نے بڑے دل نشیں انداز میں پیش کیا ہے:


یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نیم ان کی ٹھو کر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلو ب و مقصود مو من
نہ  ما ل  غنیمت  نہ کشور   کشائی
خیا باں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قباچا ہیے اس کو خون عرب سے

کیا  تو  نے  صحرا نشینوں کو  یکتا
خبر میں ، نظر میں ، اذان ِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انٰہی  کے  جگر  میں

با ل جبریل ، ص: ۱۰۵
اس عظیم فتح کے بعد طارق اور اس کے جانشینوں کی اوالاد میں وہ مثالی کردار پیداہوے۔جنہوں نے اندلس کو باقی دنیا کے لیے تہذیب و تمدن اور انسانی معراج کا ایک اعلیٰ نمونہ بنادیا ۔خوش قسمتی بعد کے ادوار میں اندلس کو عبدالرحمن الداخل ،ہشام بن عبدالرحمن ،الحکم ،ابن ابی عامر اور خلیفہ المنصورجیسے عظیم حکمران اور مدبر نصیب ہوئے۔انہوں نے اندلس کو علوم و فنون ،تجارت اور ہنرمندیوں کا مرکز بنادیا۔یہی وہ کردار تھے جن کو اقبال نے "حامل خلق عظیم"قرار دیا۔یہ وہ صحرا نشین تھے جنہوں نے یورپ کی تاریکیوں میں روشنی کی قندیلیں روشن کیں۔
پھر یہی لو گ تھے جنہوں نے مشرق و مغرب اور خصوصا ً یو رپ کو علم و فضل سے روشناس کرایا اور تمدنی آداب سکھائے ۔ ہسپانیہ کا مسلم دور حکومت حکمت و روشنی کا ایسا مینار تھا جس سے یورپ نے اپنی تاریکیوں کو منور کیا ۔ یو رپ پر اندلسی مسلمانوں کے احسانات سے تاریخیں بھری پڑی ہیں ۔ یو رپ کے عیسائی سپین کی مسلم درسگاہوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وظیفوں پر آیا کرتے تھے ۔ مو رخ ڈوزی کا بیان ہے کہ الحکم کے زمانے میں اندلس میں شاید ہی کوئی شخص ہو جو لکھ پڑھ نہ سکتا ہو جبکہ یو رپ میں ایک خاص طبقے کے چند لو گوں کے سوا تمام آدمی ان پڑھ تھے۔     (۴)
یورپی مورخین اندلس کی ترقی اور عروج پر استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔ایک مشہور مغربی مورخ اس طرح رقم طراز ہے:


“The moors organized the wonderful kingdom of Cordova which was the marvel of the middle ages and which while all Europe was plunged into barbaric ignorance and strife, alone held the torch of learning and civilization bright….and shining before the western world . Where they got their talent for administration, it is hard to say, for they came almost direct from the Arabian Desert, and rapid tide of victories had left the little Leisure to acquire the art of managing foreign nations.”

ترجمہ :" مسلمانوں نے قرطبہ کی حیران کن سلطنت منظم کی جو قرون وسطیٰ میں ایک عجوبے سے کم نہ تھی ۔ اس زمانے میں جبکہ یو رپ و حشت و جہالت اور نزاعات میں گِرا ہو ا تھا صرف ان کے پاس علم اور تہذیب کی قندیل تھی اور پو رے مغرب کے مقابل روشن تھی ۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ انہو ں نے حکومت چلانے کی یہ صلاحیت کہاں سے سیکھی تھی کیونکہ وہ براہ راست عرب ریگستان سے تعلق رکھتے تھے اور فتو حات کی بڑی تیز رو نے ان کے لیےفراغت کا بہت کم وقت چھو ڑا تھا ۔ جس  میں وہ باہر کی اقوام کے انتظام و انصرام کے طریقے سو چ سکیں ۔" (۵)
ممتاز منگلوری ایک اور مغربی مورخ اور مفکر فلپ ہٹی کی تحریرکو یوں نقل کرتاہے:


“Moslem Spain wrote the brightest chapters in the intellectual history of the medieval Europe. Between the middle of the eighth and beginning of the thirteenth centuries the Arabic speaking were the main bearers of the torch of culture and civilization throughout the world.  (6)

ترجمہ: "مسلم سپین نے قرون وسطیٰ کے یورپ کے عقلی علوم کی تاریخ میں رو شن ترین باب کا اضافہ کیا۔ آٹھویں صدی کے وسط اور تیرھویں صدی کی ابتداء کے درمیان عربی بولنے والے پوری دنیا میں تہذیب و ثقافت کے سب سے بڑے علم بردار تھے ۔ "
یہی مضمون نگار ایک اور مشہور مصنف اور تاریخ دان سکاٹ کے حوالے سے اندلس میں مسلمانوں کے کارناموں کو ایک ایک کرکے گنواتا ہے ۔کوئی معلوم میدان عمل ایسا نہیں جس میں طارق کے جانشینوں نے نمایاں کامیابیاں حاصل نہیں کیں۔سکاٹ کے مطابق اس زمانے کے معلوم علوم اور مہارتوں مثلاً طب ،سائنس ،علم جغرافیہ،فلکیات ،تعلیم ،جہازرانی ، فنون جنگ ،زراعت ،تجارت،ریاضی ،فلسفہ،قانون اور دوسرے میدانوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ آج کا جدید عقل بھی اس کا احاطہ کرنے میں ناکام ہے ۔ سکاٹ کے مطابق :


'' صرف قرطبہ شہر میں آٹھ سو مدارس تھے جن  میں اساتذہ تدریس کے ذریعے مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کو بلا تعریف مذہب و ملت تعلیم دیتے تھے ۔ قرطبہ یو نیورسٹی میں تمام جماعتوں میں اوسطا حاضری روزانہ تقریباً گیارہ ہزار طلبہ کی تھی کالجوں کے نصاب ، یو نیورسٹی کے داخلے کے امتحان ، ڈگریاں ، انعامات ، وظائف ، مشاعرہ ، مخاطبہ  کے مقابلے وہی تھے جو آج کل کے ہیں ۔ سب سے پہلے  عربوں نے ہی مدت سال کا صحیح حساب لگایا ۔ ان ہی نے ستاروں کی رفتار کا جدول تیار کیا ۔ کسورا عشاریہ کے قواعد کے مخترع عرب ہی ہیں ۔ الجبرا کے مطالعہ کو ان ہی نے ترقی دی ۔ مو جودہ علم مساحت المثلثات ( Trigonometry )    ان ہی کی ایجاد ہے ۔ وہ حساب التمام و التفا ضل ( Calculus )  کے اصول سمجھتے تھے ۔ اشبیلی نے مساحت کر دی المثلث ( Spherical Trigonometry )  کے قاعدوں میں سے ایک اہم قاعدہ شائع کیا۔ زرقلی طلیطلی سب سے پہلے شخص ہیں جس نے مدارالنجوم کے لیے بیضوی راستہ ( Elliptical orbit )  تجویز کیا ۔ ایک قابل ذکر شخص (ابن الخطیب قرطبی ) کی علم ما بعد الطبیعات ، تاریخ اور طب پر گیارہ سو تصانیف ہیں ۔ ابن حسن فلسفے اور فقہ کی چار سو کتابوں کے مصنف ہیں۔ علم کیمیا و دوا سازی کے وہی مو جد ہیں ۔ جو چیز ان کی شہرت کو خلعت بقائے دوام عطا کرنے کے لیے کافی ہے وہ ان کی نمک اور شورے کا مرکب تیزاب ہے جس کا ذکر ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا ۔ الحکم کا کتب خانہ کم از کم چار لاکھ کتب پر مشتمل تھا جس کا کیٹلا گ ۴۴ جلدوں میں تھا ۔ وادی الکبیر کے دونوں کناروں پر برابر تیس میل تک میوہ دار درختوں کی قطاریں تھیں ۔ اندلس کے تجارتی جہازوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔ ملک میں اسی  (۸۰) میونسپلٹیاں  اول درجے کی اور تین سو دوم درجہ کی تھیں ۔ قرطبہ میں  تیرہ ہزار پارچہ باف، ایمیریا میں چار ہزار آٹھ سو کپڑے کی کھڈیا ں تھیں ۔ اشبیلیہ کے کپڑے کے کارخانوں میں ایک لاکھ تیس ہزار کا ریگر  تھے  "۔(۷)

ویسے تو اقبال کے پورے کلام میں اندلس اور اندلسی مسلمانوں سے متعلق بہت سارے اہم اشعار ملتے ہیں ۔لیکن "بال جبریل " میں چھ بہترین نظمیں یعنی  دعا،مسجد قرطبہ، قیدخانے میں معتمد کی فریاد،عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجورکا پہلا درخت،ہسپانیہ اور طارق کی دعاایک ہی فکری سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ان نظموں میں ذکر کردہ مثالی کرداروں اور ان کےکارناموں سے اقبال کی والہانہ محبت کے بارے میں غلام رسول ملک لکھتے ہیں:


'' شاعرِاقبال ہے جسے اسلام کے ذرے ذرے سے بے انتہا عقیدت و محبت ہے ۔ یہ محبت و عقیدت ان کے قلب و روح کے مسکن یثرب تک محدود نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی تاجدار مدینہ ﷺ کے نام لیوا ہیں یا ماضی میں رہے ہیں ، وہاں وہاں تک اس کی پہنچ ہے ۔ صقلیہ انہیں تہذیب حجازی کا مزار نظر آتا ہے اور سر زمین دلی سجود دل  غم دیدہ ہے ، ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا پو شیدہ ہے ۔'' (۸)

فکر اقبال میں جو مرتبہ اندلس اور اندلسی مسلمانوں کے بے مثال کارناموں کو حاصل وہ حجاز اور مدینۃ النبی ﷺ کے بعد کسی بھی ملک یاقوم کو حاصل نہیں ۔قرطبہ اور قرطبی مسلمانوں کا ذکروہ جن پاکیزہ الفاظ میں کرتاہے ۔وہ پورے کلام اقبال میں ایک منفرد خلوص اور اقبالی عشق کا مرقع ہے ۔اقبال نے جب 1933میں اندلس کےشاندار اسلامی تہذیب کے آثار و نقوش کو دیکھا تو ان پر بیم ورجاکی ایک ملی جلی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس روحانی اور وجدانی تجربے کے نتیجے میں "مسجد قرطبہ"جیسی شاہکار اور لازوال نظم کی تخلیق ہوئی ۔اس نظم کی بابت جگن ناتھ آزاد کا بے ساختہ تبصرہ انتہائی دلچسپ اور اردو ادب کا بہترین مرقع ہے:


" مجھے اپنی زندگی میں دو لاکھ بیاسی ہزار نو سو بیس مربع فٹ کے رقبے میں بنی ہوئی اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا اور تصور کو اس مسجد کے جلال و جمال کا اندازہ کرنا آسان بھی نہیں۔ اگر مجھے  ہسپانیہ کی اس مسجد کو دیکھنے کا مو قع ملے تو شاید اس وقت بھی میں یہ فیصلہ نہ کر سکوں کہ ہسپانیہ کی مسجد قرطبہ زیادہ جلیل و جمیل ہے یا بال جبریل کی مسجد قرطبہ "۔  (۹)

ماضی سے محبت یعنی رومانی انداز نظر اقبال کا خاصہ ہے لیکن اندلس سے متعلق اقبال کے افکار انتہائی عروج پر پہنچتے ہیں۔اسلامی تمدن کے یہ نقوش جو شہروں ،قصبوں اور کھنڈروں کی صورت میں پائے جاتے ہیں محض سنگ وخشت کے ڈھانچے نہیں بلکہ فکر اقبال میں وہ انتہائی دلاویز اور اعلیٰ نمونے ہیں ۔مزید یہ کہ ان نقوش کا تعلق دیکھنے اور سننے سے زیادہ محسوس کرنے سے ہے ۔مثال کے طور پر ایک عام قاری جب مسجد قرطبہ کا نام سنتا ہے تو اس کے ذہن میں مسجد کے میناروں ،صحن ،گنبدوں ،محرابوں یازیادہ سے زیادہ اس کی بہترین فن تعمیر کے حوالے سے تصور کرسکتا ہے ۔لیکن حقیقت میں نظم "مسجد قرطبہ"کا مرتبہ ان مادی تصورات سے بہت بلند ہے ۔فکر اقبال نے جو مسجد تخلیق کی ہے وہ محض عالیشان عمارت کی تعریف و توصیف نہیں بلکہ ایک مثالی (Ideal)عشقیہ داستان ہے،جس میں بندہ فطری طور پر خود کو کھونا چاہتاہے ۔ایک عامی بھی یہ آرزو رکھتاہے کہ زمان و مکان کی طنابیں سکڑ کر وہ اس دور اور اس عشقیہ داستان کا ایک کردار بن پائے ۔
بال جبریل کی ان نظموں اور خصوصاً "مسجد قرطبہ"میں جس عشق کو دریافت کیا گیا ہے اس کی بدولت نہ صرف اندلسی مسلمانوں کے کردار کو بقائے دوام حاصل ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں وہ شاہکار فکر تخلیق ہوئی جس نے اقبال کے فن کو بھی لازوال اور زندہ جاوید بنادیا:


اے    حرم  قرطبہ !  عشق  سے  تیرا   وجود
رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت           
تیری  فضا دلفروز ،  میری     نو ا سینہ     سو ز
کا فر ہندی ہو ں میں ، دیکھ میرا ذوق و شوق
تیرا  جمال  و  جلال ،    مرد خدا کی   دلیل
تیری  بنا پا یدار، تیرے ستوں بے شمار
مٹ نہیں سکتا کبھی مر د مسلمان کہ ہے
اس کی زمین بے حدود، اس کا افق بے ثغور
اس کے زمانے عجیب ، اس کے فسانے غریب
ساقی ارباب ذوق ، فارس  میدان      شو ق
کعبہ اربابِ فن ! سطوت     دین     مبین
آہ ! وہ مردان حق ،   وہ   عربی      شہسوار
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
جن کے لہو کے طفیل آج بھی ہیں اندلسی
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشم غزال
بو ئے یمن آج بھی اس کی ہواوں میں ہے

 

عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
معجزہ  فن  کی  ہے  خون  جگر  سے  نمو د
تجھ سے دلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کو کشود
دل میں صلوٰۃ و درود، لب پہ صلوٰۃ و درود
وہ بھی جلیل و جمیل ، تو بھی جلیل و جمیل
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
اس کی اذانوں سے فاش ، سر کلیم و خلیل
اس کے سمندر کی مو ج ، دجلہ و دنیوب و نیل
عہد کہن کو دیا    اس    نے    پیام     رحیل
بادہ ہے اس کا رحیق ، تیغ ہے اس کی اصیل
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
حاملِ خلق عظیم ، صاحب صد ق و یقیں
ظلمت یو رپ میں تھی جن کی خردِ راہ بیں
خو ش دل و گرم اختلاط ، سادہ و روشن جبیں
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے ۔

                                                                                                                 بال جبریل ، ص: ۹۵،۹۸،۹۹
"مسجد قرطبہ "ایک جذباتی سیلان ہے ۔درجہ بدرجہ اس کے اشعار کی گہرائی،معنویت ،دردمندی ،اور روحانی کشش اپنی انتہا (Perfection)کی طرف جارہی ہے ۔ افکارکی تیزی اور عمق اس عمارت کو مادے سے اٹھا کر ایک افسانوی دنیا میں تبدیل کردیتاہے اور جب یہ افکار اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔تو دردوداغ و جستجوکی لہروں میں ڈوب اقبال اپنے آپ سے اور ملت مرحوم سے استفسار کرنے لگتاہے:


کو ن سی وادی میں ہے کو ن سی منزل میں ہے
عشق   بلا   خیز    کا    قافلہ     سخت      جاں !

بال جبریل، ص:۹۹
اس ایک شعر پر غور کرنے سے پتہ چلتاہے کہ شاید درجن بھر کتابیں بھی اس کی معنوی گہرائی کا احاطہ نہ کرسکے۔
اندلس سے متعلق اقبال کے افکار کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی شعر میں صدیوں پر پھیلے ہوئے عظیم الشان تہذیب کے کرداروں اور کارناموں کو بڑے دلنشیں انداز میں پیش کیا ہے۔ " عشق   بلا   خیز    کا    قافلہ     سخت      جاں !""کا تو اقبال کی شخصیت پر ایک لازمی وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اندلس اور اندلیسوں سے ہمارا تعلق محض ماضی کے حوالے سے اوریہ موضوع بھی غم انگیز اور پر درد ہے لیکن فکر اقبال کا طلسم یہ ہے کہ اسے بھر پوررجائی انداز (Optimistic)سے ایسے نغمے کی صورت میں الاپتا ہے جس کی لے میں خون جگر کی آویزش صاف نظر آتی ہے :


نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سو دائے خام خون جگر کے بغیر

بال جبریل ، ص: ۱۰۱
اقبال کی نظموں میں خصوصاً اور دوسرے اشعار میں عموماً اگر ہم اندلس اور اندلسی کرداروں کا دوسرے کرداروں اور مقامات سے موازنہ کریں تو ہمیں یہ اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے کہ فکر اقبال اور فن اقبال میں اندلس کو ایک حیاتیاتی قوت محرکہ (Vitlal Force)کی حیثیت حاصل ہے اور یہی وہ خاص وجہ ہے کہ ان کے افکار پر اندلس اور ہسپانیہ مانند حرم طاری ہے :


ہسپانیہ    تو   خون   مسلماں   کا امیں ہے
مانند   حرم   پاک   ہے   تو    میری نظر میں
پو شیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خامو ش   اذانیں   ہیں    تری     با د سحر میں
پھر  تیرے حسینوں  کو ضرورت    ہے حنا کی
باقی ہے   ابھی  رنگ   میرے  خون جگر میں

بال جبریل ، ص:۳۰۱

حوا لہ جات
1.Encyclopedia Britannica Reference suite 2012, subject: Andalusia
۲۔ محمد احسان الحق سلیمانی ، مسلمان یو رپ میں ، ص: ۱۸، مقبول اکیڈمی لاہور طبع سوم ۱۹۸۳
۳۔المرقی ، الاخبار الاندلس ، ج : ۱، ص: ۲۱۷
۴۔ڈاکٹر رفیع الدین ہا شمی ، اقبال کی طویل نظمیں ، ص: ۱۸۳، سنگ میل پبلی کیشنز لا ہور ، ۱۹۹۸
۵۔ممتاز منگلوری ، بحوالہ صحیفہ اقبال نمبر (اول) اکتوبر ۱۹۷۳، ص: ۳۱۷
۶۔ایضا ً، ص: ۳۱۳
۷۔ایضا ً، ص: ۳۱۴ تا ۳۱۹
۸۔ارمغان ِ رفیع الدین ہا شمی ، مرتبہ : ڈاکٹر خالد ندیم ، ص: ۱۹، الفتح پبلی کیشنز راولپنڈی ۱۹۱۳
۹۔جگن نا تھ آزاد بحوالہ رفیع الدین ہا شمی ، اقبال کی طویل نظمین ، ص: ۱۹۵

 

کتابیات
اقبال،محمد                              کلیات اقبال اردو                     شیح غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۹۶
اقبال،محمد                              کلیات اقبال فارسی                   شیح غلام علی اینڈ سنز لاہور۱۹۷۳
احسان الحق، محمد، سلیمانی            مسلمان یورپ میں                   مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۸۳
خالد ندیم، ڈاکٹر                       ارمغان رفیع الدین ہاشمی             الفتح پبلیکیشنز راولپنڈی ۲۰۱۳
ریاست علی ندوی                     تاریخ اندلس                          دارلمصنفین اعظم گڑھ۱۹۶۴
رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر               اقبال کی طویل نظمیں،               سنگ میل پبلیکیشنز لاہور ۱۹۹۸
صحیفہ اقبال نمبر ۱۹۷۳ لاہور        فنون اقبال نمبر  ۱۹۷۸ لاہور
Dozy, Reinhard Spanish Islam Translated by E.G.Stokes Chatto & windus London 1913
Encyclopedia Britannica Ultimate reference suite 2012

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com