عبدالحمید مومند اور مرزا  اسداللہ خان غالب کی اخلاقی شاعری میں مماثلت
ڈاکٹر نصراللہ خان مجنون۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ پشتو،  اسلامیہ کالج ، پشاور
ڈاکٹر اباسین یوسفزئی۔ چیئرمین، شعبہ پشتو،  اسلامیہ کالج ، پشاور

ABSTRACT :


World is a canvas where every person shade his own colours in his own style. Every person is inspired by every other person in his society. The standard of humanity is ethics. The ethics is the only thing which can change the whole world as we wish to be. Literature is the mirror of life and human. That’s why it focuses and describes all the things which may affect the human behaviour. Our eastern poetry is the treasure of the values which are the back bone of our society. Ethics are also the main subject of our poetry. This paper will discuss the comparison of ethical aspects of the poetry of the well-known Abdul Hameed Baba and Mirza Ghalib.both the poets have their own influence on the poetry. Both are the trend setter in their own languages, Pashto and Urdu

انسانی سماج پر شاعری کے اچھے برے اثرات لازماً پڑتے ہیں اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا  شعر کی تاثیر مسلّم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شعر میں  مضمون مختصر، موزون اور قافیہ ردیف کےا لتزام کی بناء  ایک عجیب غنائیت پیدا ہوجاتی ہے جو اس کے زبان زد ہونے اور حافظہ میں محفوظ رہنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ہم شاعری کو بآسانی  یاد رکھ سکتے ہیں نثر کو نہیں۔ دوسری بات یہ  کہ شاعری سامع میں حزن   و ملال یا احساس راحت ونشاط اور جوش یا افسردگی پیدا کرتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؒ نے اپنی کتاب’’ مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں اس کی کئی مثالیں دی ہیں۔مثلاً :لارڈ بائرن انگلینڈ کا قومی شاعر تھا۔ اس کی شاعری مقبول عام تھی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اس کی ہوبہو نقل کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی ماتھے کی سلوٹوں جیسی سلوٹیں، اپنے ماتھے پر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتےتھے۔ایتھنز اور مگارا کی جنگ میں ایتھنز کی بار بار شکست ہوئی جس سے ایتھنز والوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ ایک قانون داں سولن کو غیرت محسوس ہوئی اور اس نے اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے کچھ اشعار کہے جو اتنے پراثر تھے کہ ایتھنز والے پھر سے لڑنے پر تیار ہوگئے۔ دوبارہ جنگ ہوئی تو پر جوش اہل ایتھنز کی فتح ہوئی۔ یعنی سولن کے اشعار نے نہ صرف لوگوں کو بیدار کیا بلکہ انہیں فتح سے ہمکنار کیا۔انگلینڈ کے کنگ ایڈورڈ نے ویلز پر حملہ کیا۔ انگلینڈ کے آگے Wales کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ لیکن ویلز کے شاعروں نے قوم کو غیرت دلائی جس کے نتیجے میں اہل ویلز نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایڈورڈ کو سخت پریشان کیا۔ میمون بن قیس نابینا تھا۔ اعشٰی اس کا تخلص تھا۔ اس کی شاعری اتنی پراثر تھی کہ شعروں میں جس کی تعریف کرتا وہ مشہور ہوجاتا اورجس کی ہجو کرتا وہ بدنام ہوجاتا۔ ایک بار اس کے پاس ایک عورت آئی جس کی بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن کسی کی شادی نہیں ہورہی تھی۔ اس نے اعشٰی سے کہا کہ اپنے اشعار میں لڑکیوں کی تعریف کردے تو ان کی شادیاں ہوجائیں گی اور انہیں بر مِل جائیں گے۔ چنانچہ اعشیٰ نے ایک قصیدہ لکھا جس میں ان لڑکیوں کے حسن و جمال اور اخلاق و عادات کی زبردست تعریف و توصیف کی گئی تھی۔ جب یہ قصیدہ لوگوں تک پہنچا تو نتیجے میں عرب امراء سےان لڑکیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ رودکی معروف و مشہور ایرانی شاعر تھا۔ خراسان فتح کرکے امیر نصربن احمد سامانی ہرات میں طویل عرصہ ٹھہرا اور سیر و شکار میں مصروف رہا۔ طویلِ قیام سے فوج اور امراء بیزار ہوگئے۔ انہوں نے لاکھ کوششیں کیں کہ امیر بخارا کی طرف کوچ کرے لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر انہوں نے رودکی کو آمادہ کیا کہ وہ امیر کا مزاج دیکھ کر اسے بخارا کی تعریف میں کوئی قصیدہ سنادے۔ رودکی نے بخارا کا قصیدہ لکھا۔ امیر قصیدہ سن کر ایسا بے قرار ہوا کہ فوراً بخارا کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔یہ بات عرب تاریخ میں درج ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں شعراء کے کلام کی وجہ سے جنگیں ہوجایا کرتی تھیں۔
شعر کی اسی تاثیر کی وجہ سے حضورؐ کافروں اور مشرکوں کی ہجو کا جواب حسّانؓ بن ثابت، عبداللہؓ بن رواحہ وغیرہ سے دلاتے تھے۔ہماری شاعری کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں بھی انتہائی پراثر شاعری کی گئی ہے۔ ہمارے ادب کے ابتدائی دور کی شاعری تو تقریباً مذہبی مواعظ اور پندو نصائح پر مبنی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی شاعری سے سماجی اصلاح اور دینی شعائر عام کرنے کی خدمت لی جاتی رہی ہے۔ خصوصاً خانوادۂ حضرت حسینؓ کی شہادتوں اور واقعات کربلا کے پراثر اظہارکے لیے مرثیہ نگاری کی صنف سے بڑی خدمات لی گئی ہیں۔مولانا شبلی نعمانیؒ ، علامہ اقبالؒ اور مولانا حالی نے بھی اپنے کلام کے ذریعہ ملت اسلامیہ ہند میں بیداری کی روح پھونک دی تھی۔اکبر الہٰ آبادی کے طنز و مزاح سے بھرپور اشعار نے انگریزی تہذیب و تمدن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جو ہندوستانی مشرقی تہذیب پر غالب ہوتی جارہی تھی، انہوں نے اس پر ضرب کاری لگائی نیز اہل ہند خصوصاً مسلمانوں کو اس تہذیب کےمضراثرات سے بچانے میں نمایاں رول ادا کیا۔شاعری سے سماج پر جو مثبت اثرات پڑتے ہیں ان کے پیش نظر ہمیشہ ہی بہتر انسانی جذبات مثلاً جدوجہد، قربانی، اخوت و بھائی چارہ حب وطن، آزادی، ظلم و غلامی سے نجات، دشمن پر فتح ، کمزوروں کی مدد و حمایت وغیرہ پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے شاعری سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے۔ نظموں، نغموں، ترانوں، گیتوں وغیرہ سے سامع میں ایک قسم کا جوش وخروش، پیش قدمی اور عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔(۱)
اللہ تعالیٰ نے اس وسیع کائنات میں انتہائی حسنِ عدل و توازن سے کام لیا ہے. سورہ یاسین میں ارشادِ خدا وندی ہے کہ


" نہ سورج کو یہ اختیار حاصل ہے کہ چاند کو جا ملے اور نہ ہی رات دن سے سبقت لے جانی والی ہے ہر چیز اپنے مدار میں تیر رہی ہے"  (ترجمہ   ایت.۴۰)

اس سارے کارخانۂ حیات کا مالک، رازق اور خالق اللہ ہی ہے. اللہ نے سارے کائنات کو عدم سے وجود بخشا ہے وہی اللہ سارے جہانوں کا ربِّ حقیقی ہے. سورہ بقرہ میں اللہ پاک خود فرماتے ہیں کہ
(ترجمہ)" اور تمہارا خدا ایک ہے اور اس کا کوئی خدا نہیں ہے انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے بار بار رحم کرنے والا " ایت:۱۶۳
اسی طرح اللہ پاک پر ایمان لانا، اللہ کو رازِق، مالک اور خالق ماننا عقیدۂ توحید ہے جو بھی اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے ہیں وہ ختمِ رسالت پر بھی ایمان رکھتے ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے ہر وقت، قوم اور زمانے میں رسول بھی بھیجے ہیں اور اس کی اطاعت و اتباع کا حکم بھی دیا ہے.
رسولوں کا یہ سلسلہ خاتم النبیین و خاتم المرسلین حضرت محمد‍‌ پر ختم ہوا. پس آپ کی رسالت عام ہے سارے لوگوں کے لیے آپ رسول ہیں سارے لوگ آپ کے اُمتی ہیں. جس نے آپ کی اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے نافرمانی کی وہ آگ میں داخل کیا جائے گا.اللہ پاک خود آپ کے متعلق فرماتے ہیں کہ (ترجمہ)" محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، اللہ. کا رسول ہے اور نبییوں کے ختم کرنے والے ہیں اور اللہ. ہر چیز کو خوب جانتا ہے" سورہ احزاب ایت:۴۰
اور سورہ انبیاء میں ارشاد ہے کہ
 (ترجمہ)" ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے" ایت:۱۰۷
غرض یہ کہ اللہ تعالٰی ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور حضرت محمد اللہ کا سچّا اور آخری رسول ہے آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ائے گا.اللہ نے اپنے پیغام کے لیے آپ کو چن لیا ہے. آپ کی اطاعت میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے اسلیے اللہ نے آپ کو ایسی جامع الکمالات شخصیت بنایا  کہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے لوگوں کے لیے آپ کی زندگی کامل نمونہ بن سکے. تاریخ عالم میں ایسے ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں اشخاص نمایاں ہیں جنہوں نےآنے والوں کے لیے اپنی زندگیوں کو نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے، جن میں باشکوہ شہنشاہ، زبردست سپہ سالار، بے مثال فلسفی و ادباء، دانشور وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے میدانِ عمل میں  حیرت انگیز نقوش چھوڑے ہیں. ہر ایک کا اپنا اپنا کام اور طریق تھا. ان بےشمار انسانوں میں پشتو زبان و ادب کی نازکخیالی کے بابائے آدم عبدالحمید مومند(جو بزبانِ عام حمید بابا کے نام سے مشہور ہیں) اور اردو زبان و ادب کے سب سے مقبول و مشہور شاعر اور ادیب مرزا اسداللہ خان غالب( جو مرزاغالب کے نام سے جانے جاتے ہیں) بھی شاملِ عمل ہیں.
ایک اندازے کے مطابق حمید بابا آج سے تقریباً تین سو ستّر سال پہلے۱۰۷۰ اور ۱۰۸۰ھ کے وسط میں ماشو گگر گاؤں میں، قوم مومند کے دویزی، شاخ خُدریزی میں پیدا ہوئے. داکٹر زبیر حسرت حمید بابا کے متعلق رقمطراز ہوتے ہے ۔


" ترجمہ: عبدالحمید مومند (غوریا خیل، دویزے، خدریزے)جو عبدالحمید، حمید خان، حمید موشگاف اور حمید ماشووال کے ناموں سے مشہور ہے، ماشو گگر کا رہنے والا ہے، وہی پیدا اور وفات پایا ہے. ماشو گگر کے قبرستان میں دفن ہے.ان کے پیدائش اور وفات کی تاریخ صحیح معلوم نہیں ہے مگر محققوں نے بعض روایات اور حوالو کی مدد سے ان کے پیدائش کا سال ۱۰۷۵ھ اور ۱۰۸۰ھ کے درمیان بتایا ہے ـ"(۲)

حمید بابا کی زندگی کے حالات پر کالی گھٹا چائی ہوئی ہے البتہ ۱۱۴۸ھ تک زندہ تھے کیونکہ اس نے اسی سال ایک مثنوی شرعتہ الاسلام کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا تھا جس کے خاتمے میں لکھتے ہیں کہ:


خاتمه مې کړه پۀ خېر

 چې لۀ  خېره  نۀ شم  غېر
 
وکړه ما خدائې ته دا تېښته

پۀ زر سل اتۀ   څلوېښتۀ (۳)

(ترجمہ)"اے اللہ میرا میرا خاتمہ بخیر و عافیت کر دے تا کہ میں خیر سے غیر نہ ہو جاؤں. ۱۰۴۸ھ میں میں نے اللہ کی جانب رجوع کیا ہے"
اسی طرح مرزا غالب آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دورِ حکومت میں حمید بابا سے تقریباً ۱۵۰ سال بعد ۲۷  دسمبر ۱۷۹۷ء ۸ رجب ۱۲۱۲ھ کو اگرہ میں عبداللہ بیگ خان کے گھر میں پیدا ہوئے. آقائے رازی مرزا غالب کے بارے میں لکھتے ہیں
"اسداللہ بیگ خاں نام،میرزا نوشہ عرف،نجم الدولہ وبیرالملک نظام جنگ خطاب، ۸ رجب ۱۲۱۲ھ(۲۷ دسمبر ۱۷۹۷ء) کو اکبرآباد (آگرہ) میں زینت آرائے عالم ہوئےـ"(۴)
مرزا قوقان بیگ خان جو غالب کے دادا تھے ثمرقند سے مستقیل  ہندوستان آئے تھے اور نسلاً ایبک ترک تھے.غالب کی والدہ عزت النساء اگرہ کے رئیس غلام حسین خان کی بیٹی تھی. بڑی بہن کا نام چھوٹی خانم اور چھوٹے بھائی کا نام یوسف خان تھا جو تیس سال کی عمر میں دماغی عارضے سے وفات پاگئے تھے. غالب کی شادی ۱۳ سال کی عمر میں مرزا الٰہی بخش کی بیٹی امراؤبیگم سے ہوئی تھی جو غالب سے دو سال چھوٹی تھی.غالب کے ۷ سات بچے پیدا ہوئے، جو بچپن میں وفات پائے. غالب فروری ۱۸۶۹ء کو بہتر سال اور چار مہینے کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے.
حمید بابا اور مرزا غالب ویسے حسن و عشق کے شاعر تھے لیکن حسن و عشق کے علاوہ دونوں کے کلام میں تصوّف و سلوک، مزہبی و اخلاقی بلکہ روزمرہ زندگی کے ہر پہلو پر اچھے اچھے نصیحت اموز اشعار موجود ہیں. مذہبی یا اخلاقی شاعری مشرق کے تمام شعراء کے کلام میں باعث زینت ہوتی ہے. حمید بابا اور غالب کے کلام میں مذہبی یا اخلاقی شاعری اپنی مثال آپ ہے. دونوں کی تعلیمات کی اہمیت اور ضرورت جس قدر اس زمانے میں تھی اسی قدر آج بھی ہے.اسلیے کہ اخلاقی تعلیمات ہر وقت اور ہر دور میں ایک جیسے ہوتے ہیں.
دونوں شاعروں کا وحدانیت اور ختمِ رسالت پر پکّا ایمان تھا.ان کے علاوہ دونوں کی کلام میں وعظ و نصیحت، ترکِ دنیا، قناعت، انسان دوستی، توکل، اللہ پر بھروسہ، صداقت وغیرہ ایک جیسے مشترک موضوعات ہیں. قرآن پاک اور احادیث میں سب سے زیادہ زور اخلاق پر دیا گیا ہے اس لیے اللہ پاک نے ہر قوم کے لیے ان کی زبان میں نبی بھیجا ہے تاکہ ان کے اخلاق کو سنوارے.اللہ پاک فرماتا ہے کہ" و قولو لناس حسناً"سورہ  بقرہ ایت ۸۳
 (ترجمہ)"ایک دوسرے سے اچھے اچھے باتیں کیا کرو"
اللہ نے نبوت کا سلسلہ حضرت محمد پر ختم کردیا اور اپ کو سارے انسانوں کے لیے معلّم بنا کر اخلاق کی تکمیل کر دی.آپ نے اپنے خطبۂ الوداع میں قرآن کی یہ آیتیں پڑھ کر رہی سہی کسر پوری کر دی کہ" الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً.. سورہ المائدہ ایت.۳
(ترجمہ)" آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کی تکمیل کی. اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کیا.اور اسلام بطورِ دین تمہارے لئے پسند کیا"
پس ایک دوسرے کو اچھی بات کرنا، غم و خوشی میں شریک ہونا، خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے پیش آنا اچھے اخلاق کے زمرے میں آتا ہے مرزا غالب کے بارے میں الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ
"مرزا کے اخلاق نہایت وسیع تھے.وہ ہر ایک شخص سے جو ان سے ملنے آتا تھا بہت کشادہ پیشانی سے ملتے تھے.جو شخص ایک دفعہ ان سے مل آتا تو اس کو ہمیشہ ان سے ملنے کا اشتیاق رہتا تھا. دوستوں کو دیکھ کر وہ باغ باغ ہو جاتے تھے اور ان کی خوشی سے خوش اور ان کے غم سے غمگین ہوتے تھے.اس لیے ان کے دوست ہر ملت اور ہر مذہب کے نہ صرف دہلی میں بلکہ تمام ہندوستان میں بے شمار تھے."(۵)
ہر ملک و قوم میں ایک نہ ایک عالم، فلسفی، ادیب، نقاد اور شاعر پیدا ہوتا ہے جو اپنے معاشرے کو صحیح سمت پر لانے کی سعی کرتا ہے. ہر ایک کے درس و تدریس کا جدا جدا طریقہ ہوتا ہے. حمید بابا اور غالب نے اپنے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے شاعری کی زبان سے اسلامی تعلیمات کو مؤثر انداز میں بیان کیا ہے. حمید بابا کے بارے میں حامد علی لکھتے ہیں کہ
ترجمہ" عشق کے بعد جو دوسرا بڑا موضوع ہمیں حمید بابا کے کلام میں نظر آتا ہے وہ اخلاقیات کا ہے....حمید بابا کے کلام سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ وہ اچھے خاصے عالم و فاضل تھے اور پشتو کے علاوہ عربی اور فارسی پر بھی دسترس رکھتے تھے-"
دونوں نے اپنے اپنے کلام کی شروعات اللہ تعالٰی کے بابرکت نام سے کی ہیں دونوں اللہ کی وحدانیت پر کامل یقین رکھتے ہیں حمید بابا کے توحیدی اشعار ہیں کہ:


دلالت دغه نامه پۀ هغه ذات کا
چې یوازې بادشاهي دَ کائنات کا
نۀ ئې مثل پۀ جهان کښې نۀ مثال شته
نۀ ئې څوک پۀ کاروبار کښې سمو سيال شته  (۶)

 (ترجمہ)"باری تعالٰی کا نام اُس ذات پر دلالت کرتا ہے جو تن تنہا وجود واحد کے ساتھ کائنات کا مالک ہے.
نہ دنیا میں اس کا ہم سنگ اور نہ کوئی ثانی ہے.نہ کاروبار حیات و کائنات
کو چلانے میں کوئی اس کی ہم سری کر سکتا ہے"


پۀ خدايۍ کښې قل هوالله احد دے
پۀ هستۍ کښې لم يلِد وَ لو يولَد دے(۷)

ترجمہ)"خدائی میں یکتا ہے اور ہستی میں نہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا"
غالب لکھتے ہیں:


سب کو مقبول ہے دعوٰی تیری یکتائی کا
رُو بُرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہُوا

دوسری جگہ لکھتے ہیں :


اسے کون دیکھ سکتا؟ کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا (۸)

دونوں اپنے اپنے دور کے عالم و فاضل شاعر تھے، قرآن و حدیث سے با خبر تھے، جس طرح اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے اسی طرح ختمِ رسالت پر بھی ایمان رکھتے تھے اور حضرت محمدﷺ کو خاتم النبیین مانتے تھے. حمید بابا فرماتے ہیں.


چې منشا دَ پېدائش دے محمد دے
چې مايه دَ زېبائش دے محمد دے
مالکي اؤ ملوکي پۀ ظهور راغله
خالقي اؤ مخلوقي پۀ ظهور راغله(۹)

 (ترجمہ)"محمد کی پیدائش انسانیت کے ظہور کی بنیاد بنی حضور پُرنُور ہی حُسن و  جمال کا کامل نمونہ ہے. انہوں نے مالک اور مملوک، خالق اور مخلوق کے اسرار و رموز سے آگاہ کیا.

غالب کا شعر ہے.


منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ کے ظہور کی(۱۰)

جو حضرت محمد کو اللہ پاک کا اخری نبی مانتے ہیں وہ اصحابِ رسول سے بھی عقیدت رکھتے ہیں حمید بابا اور غالب دونوں اصحاب سے بھی عقیدت رکھتے ہیں. حمید بابا فرماتے ہیں:


اصحاب واړه نجوم دَ اقتدا دي
پيروان ئې مشرف پۀ اهتدا دي
چې تر واړو مکرم رکن افضل دے
ابوبکر پۀ دا فضل مقدم دے
پۀ صدیق پسې آحق هسې عمر دے
چې دَ عدل پۀ جهان ختلے نمر دے
پۀ فاروق پسې لائق هسې عثمان دے
چې پۀ جمع دَ قرآن خان و سامان دے
بیا بهتر پۀ ذي النورېن پسې علي دے
چې ئې هر مشکل لۀ مخه منجلی دے
پۀ حېدر پسې اکرم حسَن حسېن دي
چې نومړي محمد قرة العېن دي
چې لیدلے ئې پۀ دا سترګو نبي دے
هغۀ کس پۀ مرتبه کښې صحابي دے (۱۱)

 (ترجمہ)" تمام اصحاب اقتدا کے نجوم ہیں. اُن کی پیروی کرنے والے بھٹکتے نہیں. تمام اصحاب میں سب سے مکرم رکن ابو بکر پہلے نمبر پر ہیں.ابو بکر صدیق کے بعد حضرت عمر ہیں، جو عدل کے آکاش پر چمکتے سورج کی مانند ہیں. حضرت عمر فاروق سے ملحقہ عثمان ہیں.ذی النورین کے بعد علی کی باری ہے. جن کے آگے ہر مشکل ہیچ ہے. حیدر کے بعد حسن و حسین مکرم ہیں.جو محمد کے قرة العین کے نام سے مشہور ہیں.جس نے اپنی انکھوں سے نبی کو دیکھا وہ مرتبے میں صحابی ہے"
غالب نے بھی اپنے کلام میں جگہ جگہ منقبت میں حضرت علیؓ، حَسؑن اور حُسؑین کا ذکر کیا ہے، جیسے کہ یہ اشعار ہیں:


نقشِ لاحول لکھ اے خامۂ ہزیاں تحریر
یا علی کر اے فطرتِ وسواس قریں؟(۱۲)
مظہرِ فیضِ خدا جان و دلِ ختم رسل
قبلۂ آلِ نبی کعبۂ ایجادِ یقین  (۱۳)

ایک اور جگہ حسن اور حسین سے محبت کا اظہار کرتے ہے:


علؓی کے بعد حَسن اور حَسن کے بعد حُسین
کرے جو ان سے برائی بھلا کہیں اس کو؟
نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اس کو؟  (۱۴)

اسلام امن و سلامتی کے اعتبار سے دین و دنیا دونوں کا ایک جامع تصور رکھتا ہے. جو بھی اسلامی روایات سے منہ موڑتا ہے وہ اس کائنات میں بے قرار و غمگسار، بے چین، بے سکون و مضطرب اور غیر مطمئن ہوتا ہے.انسان کو چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو اپنائے تا کہ یہ جہان ان کے لیے جنت بن جائے. یہ زندگی تب جنت ہوگی حمید بابا لکھتے ہیں:


هغه مۀ پسنده پۀ بل باندې انصاف کړه
چې ئې نۀ پسندې پۀ ځان باندې ماتم  (۱۵)

 (ترجمہ) ہر وہ تکلیف، مصیبت اور ماتم جو تمہیں پسند نہیں وہ دوسروں کے لیے بھی پسند نہ کرو"
غالب کا شعر ہے۔


جو مدّعی بنے، اس کی نہ مدّعی بنیے
جو نا سزا کہے، اس کو نہ نا سزا کہیے  ۱۶

اس کائنات میں صبر سے کام لینا چاہیے جس نے صبر کیا وہ کامیاب پایا حمید بابا اور غالب صدف اور گُہر کی مثال دیتے ہیں حمید بابا کا شعر ہے۔


کۀ لۀ څاڅکي صبر ذده کړې تۀ صدفه
پۀ ګوهر به دې سینه شي مشرفه  (۱۷)

 

 (ترجمہ)" اے صدف اگر تم قطرے صبر کا سبق سیکھ لو تو تیرا سینہ گوہر سے مشرف ہو جائے گا"
 غالب فرماتے ہیں۔


دام ہر موج میں ہے، حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرے پہ، گُہر ہونے تک  (۱۸)

دونوں بہت راست گو تھے. دروغ گو سے نفرت کرتے تھے. غالب کے بارے میں امتیاز علی عرشی رقمطراز ہوتے ہیں
   " مرزا غالب کے اخلاق و عادات اس عہد کے دنیا دار اور زمانہ فہم شرفاء کے اخلاق و عادات کا نمونہ تھے لغو گوئی سے پرہیز، بیمزۂ جھوٹ سے نفرت، احباب کی تکلیف سے رنج، خوشی سے راحت، چھوٹوں پر مہربان اور بزرگوں کی خیر خواہی کا ثبوت ان کے زیرِ نظر تحریروں میں بھی ملتا ہےـ"(۱۹)
حمید بابا اور غالب پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرتے ہیں  بعد میں دوسروں سے مخاطب ہوتے ہیں. اپنے بارے میں حمید بابا لکھتے ہیں.


ډېر وَ زهد ته حمید راکېښ شېخانو
چې داخل پۀ دا قطار کښې نۀ ؤ نۀ شو (۲۰)

(ترجمہ)" شیوخ نے حمید کو زُہد کی جانب بہت کھینچا مگر وہ زاہدوں کی قطار میں نہ تھا اور نہ شامل ہوسکا"
غالب بھی اس مضمون کو اس طرح باندھتے ہیں :


جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی(۲۱)

دونوں نے جس طرح اپنی خامیاں صداقت سے بیان کی ہیں اس طرح معاشرے کے حالات کو بھی شعر میں پیش کرتے ہیں.حمید بابا کے متعلق سید انورالحق جیلانی لکھتے  ہیں
 " ترجمہ( حمید نے زندگی کے خاص خاص اہم واقعات و معاشرتی عیوب و خرابی،سیاسی کشمکش، حکومت وقت کی بے اعتدالیوں اور ظلم و جبر کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ لکھا ہے....اور جب ہجر و فراق، سوز و گدازاور اہ و فریاد سے قرار پایا ہے تو پھر اخلاق کی اصلاح کی خاطر پند و مو عظت اور وعظ و نصیحت بھی کیا ہےـ" (۲۲)
اس فانی اور عارضی دنیا میں جس نے عاجزی اختیار کی اس نے فلاح پائی. جس طرح اس شعر میں ( جو ڈاکٹر علام محمد اقبال سے منسوب ہے) سید محمد مست کلکتوی فرماتے ہے:


مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے  (۲۳)

پشتو کے مقبول صوفی شاعر عبدالرحمان بابا نے سید محمد مست کلکتوی سے سینکڑوں سال پہلے اس مضمون کو ایسا بیان کیا ہے:


ژوندے ځان پۀ زمکه ښخ کړه لکه تخم
کۀ لوئي غواړې دَ خاؤرو پۀ مقام شه  (۲۴)

(ترجمہ)" اپنے آپ کو دانے کی طرح زندہ دفن کرلو،اگر بڑھائی چاہتے ہو تو خاک کی طرح خاکساری اختیار کرو"حمید بابا لکهتے ہے:


سرکوزي دَ عاجزۍ راڅخه نۀ ځي
کۀ آسمان غوندې دَ خلقو پۀ سر پاس شُوم
چې مې مات دَ دُر پۀ څېر دَ تن صدف کړه
هله پورته شُوم لۀ خاؤرو لاس پۀ لاس شُوم  (۲۵)

ترجمہ)" عاجزی سے سر جھکانا نہیں گیا. ہر سو اگر میں آسمان کی طرح سب کے سروں کے اوپر ہوں.
جب میں نے اپنے تن کے صدف کو دُر کی طرح توڑ دیا تو تب میں ہاتھوں ہاتھ مٹی سے دور چلتا رہا.
اسی طرح غالب بهی عاجزي اور خاک نشینی کا درس دیتے ہے:


عجز ہی اصل میں تھا حامل صد رنگ عروج
ذوقِ پستیِ مصیبت نے ابھارا ہم کو  (۲۶)

ایک اور شعر ہے۔


نازشِ ایّام خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا  (۲۷)

اور اس شعر میں رحمان بابا کی طرح تعلیم دیتے ہیں:


فنا کو سونپ، گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گُلخن پر  (۲۸)

یہ سارا کائنات، یہ جاہ و جلال، دولت، جوانی اور یہ عظیم الشان محلّات ایک نہ ایک دن فنا ہو جائینگے. اس کارخانۂ حیات میں اکثر لوگ اپنی ذات پات، قوم قبیلے اور مال و دولت پر فخر کرتے ہیں. ایسے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے. دونوں شاعر محرابو منبر پر کھڑے ایک جیَّد عالم کی طرح فرماتے ہیں.
حمید بابا فرماتے ہیں:


څۀ غلط دے پوهېدلے دروهېدلے
دا غرّه تللے پۀ اصل پۀ نسب.(۲۹)

 

 (ترجمہ)" اصل نسل اور نسب پر فخر کرنے والا مغرور غلط اور خطا ہے"


دَ نمرود ماشي قیصه کړه در پۀ یاده
کۀ هر څو ئې پۀ خپل ځان باندې غرّه  (۳۰)

  ( ترجمہ)"نمرود اور مچھر کی کہانی یاد کرو، ہر چند اگر تمہیں اپنے پر غرور کا مرض لاحق ہو"
ایک اور شعر ہے:


دَ دنیا پۀ مال نادان سړے هوس کا
کاندي طفل دَ درمو پۀ آس تېزنه(۳۱)

ترجمہ)" دنیا کے مال و متاع اِترانے والے نادان ہیں جیسے بچہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہو"
غالب بھی حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے:


غرّۂ اوجِ بنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن
نغمہ  ہائے غم کو بھی اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی، ایک دن  (۳۲)

کیونکہ اس دنیا کی مثال ٹپکتے ہوئے انسو اور پا بہ رکاب وقت جیسے ہے حمید بابا کا شعر ہے۔


هسې ځان ګڼه روان لۀ دې جهانه
لکه اوښکې دَ بڼو پښه پۀ رکاب(۳۳)

ترجمہ)" اپنے آپ کو اس دنیا سے ایسے جاتا ہوا تصور کرو جیسے انسو پا بہ رکاب ہوتے ہیں"
غالب کا شعر ہے۔


رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں  (۳۴)

اس عظیم کارخانے میں اللہ تعالٰی کے حکم سے ایک متوازن نظام چل رہا ہے. یہاں غم و خوشی، جینا و مرنا، ہنسنا و رونا، دن و رات، وفا و جفا اور سردی و گرمی وغیرہ ایک دوسرے کی ضد پر چلی آرہی ہیں تا کہ زندگی میں مزہ اور امید پیدا ہو جائے اگر اس میں ایک نہ ہو تو دوسرے کا کیا فائدہ اورمزه . حمید بابا کا شعر ہے۔


دَ وفا دَ طعام خوند به پۀ ځائې نۀ ؤ
کۀ نمک ورسره نۀ وے دَ جفا ګډ(۳۵)

ترجمہ)" وفا کے طعام کا ذائقہ اتنا لزیز کہاں، یہ تو جفا کے نمک سے ذائقہ بن گیا"
غالب کا شعر ہے


ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا؟
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا؟(۳۶)

اسی طرح دنیا میں قِسم قِسم کی مشکلات پیش آتی ہیں ان کا حل صرف اچھے اخلاق سے ممکن ہے اللہ کے نزدیک  سب سے اعلٰی اور مکمل انسان وہ ہے جو ایک دوسرے کے لیے ایک بدن کی مانند ہو، جس طرح بدن کے کسی بھی حصے میں تکلیف ہو سارے بدن میں محسوس ہوتی ہیں. حمید بابا کا شعر ہے


وَ خپل خدائې ته لۀ سړیو سړے ښۀ ئې
نۀ وَ خلقو ته خوبرو شېخ وَ مُلا(۳۷)

ترجمہ)" لوگوں کی نظروں میں شیخ و مُلّا بننے سے اللہ کی نظروں میں انسانوں کا انسان بننا بہتر ہے"
غالب کا شعر ہے


بسکہ دشوار ہے ہر کام کا اسان ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انسان ہونا(۳۸)

اس دنیا میں اس نے فلاح پائی جس نے اپنا دامن اس دنیا سے کھینچا اور جس نے دنیا کی عارضی زندگی کو سینے سے لگا لیا تو ان کے لیے قرآن پاک میں واضح ارشادات موجود ہیں.سورۂ واقعہ میں ہے"اذا وقعت الواقعة۰ لیس لوقعتها کاذبة" ترجمہ( جب قیامت واقع ہوگی. جس کے واقع ہونے میں کوئی خلاف نہیں)ایت ۱،۲
سورہ حج میں ارشاد ہے" یومہ ترونھا تذھل کل مرضیعۃ عما ارضعت"ایت ۲ ترجمہ( جس روز تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنی دودھ پینے والے(بچہ) کو  بھول جائے گی)
وہ دن عجیب دن ہوگا جب انسان کو ایک نیا معاملہ پیش ائے گا.اس کا نام ہے، دلوں کو دہلا دینے والا دن، روزِ برحق، ہنگامے کا دن، ایسا دن جس میں کوئی شک نہیں، چیخ و پکار کا دن، ملاقات کا دن، بدلے کا دن، باہم پکارنے کا دن، رسوائی کا دن، پیشی کا دن اور انصاف کا دن جو ہر حال میں آئے گا. تو پھر انسان کو یہاں محتاط رہنا چاہیے. حضرت محمد کی بتائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا  اس دنیا میں ابدی زندگی کی بہترین تیاری ہے کیونکہ:


مناسب نۀ دي ورتله دَ لویو خلقو
دَ هلکو تماشا ده دا دنیا ۳۹

ترجمہ)" بڑوں کا اس میں کیا کام دنیا تو بچوں کا کھیل ہے
غالب کا شعر ہے :


بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے  (۴۰) 

اس عارضی زندگی پر کوئی اعتماد نہیں کرنا چاہیے یہاں جو بھی آئے گا ان کو ضرور مرنا ہوگا. اگر دولت اور طاقت کے بل بوتے پر زندگی ہمیشہ قائم ہوتی تو آج نمرود، قارون، فرعون، چنگیز خان، قیصر و فغفور اور دارا و سکندر زندہ ہوتے. اس دنیا میں وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جس نے دنیاوی زندگی پر اخروی زندگی کو ترجیح دی ہو.  حمید بابا کا شعر ہے


کۀ هر څو ئې جنګ جدل پۀ دنیا وکړه
ځنې یؤ نۀ وړو سکندر اؤ دارا هیڅ (۴۱)

ترجمہ)" سکندر اور دارا نے لاکھ جنگ و جدل کے باوجود دنیا سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا"

 

غالب کا شعر ہے :


زندگانی پر اعتمادِ غلط
ہے کہاں قیصر اور کہاں فغفور(۴۲)

دونوں نے معاشرے کی حالات کو بڑے متجسس اور بلا تردد لہجے میں بیان کیا ہے دونوں نے معاشرے کی ہر چیز پر نظریں جمائیں. مختار احمد غالب کے متعلق لکھتے ہیں
"غالب نے عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اُسی کے اندر انسان اور کائنات، فنا و بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلامِ روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسّرت، ارزوئے زیست اور تمنائے مرگ،  کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت اور ریاکاری غرض یہ کہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہار خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہےـ"(۴۳)
دونوں نے دنیا کی حقیقت کو بڑی ہنرمندی سے پیش کیا ہے. دونوں معاشرتی برائیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں مگر دونوں کی تنقید میں مساوات بھی پائی جاتی ہیں. دونوں نے دنیا کی عارضی زندگی کی مثال اسمانی بجلی اور چنگاری سے مماثل کیا ہے. حمید بابا کا شعر ہے :


پۀ رڼا ئې دَ چا کار نۀ پوره کېږي
دَ آسمان برق اؤ برېښنا ده دا دنیا(۴۴) 

ترجمہ)" اس کی روشنی سے کسی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا دنیا کی مثال آسمانی بجلی جیسی ہے"
غالب کا شعر ہے :


یک نظر بیش نہیں فرصتِ ہستی، غافل!
گرمیِ بزم ہے ایک رقصِ شرر ہونے تک  (۴۵)

ایک اور شعر ہے :


تیری فرست کے مقابل، اے عمر!
برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں(۴۶)

انسان کو شمع کی طرح صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے جو خود جلتی ہے پر دوسروں کو روشنی دیتی ہے.حمید بابا کا شعر ہے


دلجوئي دَ خلقو کړه دَ ځان پۀ سوَلو
کۀ دَ شمعې پۀ څېر بل اؤ روئیدار کښیني(۴۷) 

ترجمہ)" لوگوں کی دلجوئی خود کو جلا کر کیا کرو. یہ تب ممکن ہے جب تم شمع کی طرح روشنی اور روئیدار بنو"
غالب کا شعر ہے:


خود شمع، آغازِ فروغِ شع ہے
سوزشِ غم در پئے ذوقِ شکیبائی نہ ہو (۴۸)

دونوں نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بڑی ہنرمندی سے بیان کیا ہے. دونوں کا کلام وعظ و نصیحت سے بھرا پڑا ہے حمید بابا کی اس طرح کی شاعری کے بارے میں محمد نواز طائر لکھتے ہیں
" اس دور کی شاعری کے تین بڑے موضوعات عشق، تصوف اور اخلاق تھے. رحمان بابا اور خوشحال خان کے علاوہ اس قسم کی شاعری اس دور میں اکثر شعراء نے کی ہے ان میں سے ہر ایک کا طرز اور اپنا انداز ہے لیکن جو لطف اور جو مزہ عبدالحمید بابا ماشو خیل کے کلام میں موجود ہے وہ یقیناً ان کا حصہ ہےـ"(۴۹)
دونوں نے بار بار دنیاوی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دی ہے.کیونکہ حمید بابا لکھتے ہیں


دَ دنیا مئن چې دین غواړي پُوچ وائي
بېهوده غلبېلوي سره تش بُوس(۵۰)

ترجمہ)" دنیا کے عاشق اگر دین مانگتے ہیں تو فضول ہے، کیونکہ ایسا کرنا بھوسا چھاننے کے مترادف ہے"


پۀ دنیا مئن لۀ څېرمې بې وقوف دي
لکه وړوکي وَ سرۀ اور ته کړي هوَس(۵۱)

ترجمہ)" دنیا کے شیدائی تمام بے وقوف ہیں جیسے بچہ جلتے ہوئے انگاروں اور شعلوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے"
غالب لکهتے ہیں :


ہستی کا مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے(۵۲)

اور اس شعر میں اللہ سے دعا مانگتے ہے کہ:


یا رب! ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشرِ خیال کہ دنیا کہیں جسے(۵۳)

دونوں نے کائنات کا گہرا مطالعہ کیا تھا. دونوں نے جس ظالمانہ و جابرانہ وقت میں زندگی گزاری تھی اس وقت معاشرہ زوال کی طرف گامزن تھا سارے لوگ غفلت کے خواب میں مبتلا تھے. ہر طرف لڑائی جگڑے تھے، ہر انسان دوسرے کا جانی دشمن بن گیا تھا. عام لوگ تو کیا بادشاہانِ وقت بھی ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار تھے. غریب و بے کس ظلم و جبر کی چکّی میں پِس رہے تھے. دونوں شاعروں نے یہ سب واقعات اپنی انکھوں سے دیکھے ہیں اور ان حالات کو قلمبند بھی کیا ہے. انہوں نے بادشاہِ وقت سے لیکر عام انسانوں اور لباسی اور ریاکار شیخ و زاہد پر بھی طنز و تشنع کے تیر برسائے ہیں جیسا کہ حمید بابا کا شعر ہے


دَ ریا پۀ زهد مۀ غوَلېږه ذاهده
پۀ کار نۀ راځي دَ وینځې زوے اؤ لُور (۵۴)

ترجمہ)" اے زاہد! ریا کی زاہدی کا دھوکہ مت کھاؤ کنیز کے بچے کنیز کے کام نہیں آسکتے"
غالب کا شعرہے :


کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گر چہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمعِ خام بہت ہے  (۵۵)

غرض یہ کہ: ۱- حمید بابا اور مرزا غالب دونوں اپنی اپنی زبان و ادب کے اعلٰی شاعر ہیں.
۲- دونوں کے اظہار کی زبانیں جدا جدا ہیں جبکہ ہر زبان اپنے اپنے امتیازی خصوصیات رکھتی ہے مگر اسکے باوجود دونوں کے کلام میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے، جسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں.
 ا. دونوں  مغل دورِ حکومت میں پیدا ہوئے تھے.
ب. دونوں کے زمانے میں معاشرہ ایک جیسے حالات سے دو چار تھا.
ج. اگر غالب دہلی اور لکھنؤ کی خراب معاشرتی حالات کا ذکر کرتے ہیں تو حمید بابا بھی ہندوستان اور پشاور کی حالات بیان کرتے ہیں.
د.  اگر غالب کے وقت میں مغل حکومت اخری سسکیاں لے رہی تھی تو حمید بابا کے دور میں شاہجہان کی موت کے بعد ان کے بیٹوں میں حکومت حاصل کرنے کی رسہ کشی جاری تھی جس میں سارے ہندوستان کے عام و خاص لوگ متائثر ہو رہے تھے ، یہ اثرات دونوں شاعروں  کے کلام میں نمایاں نظر آرہے ہیں.
۳- آگر غالب اردو کے علاوہ فارسی زبان و ادب کا بہترین شاعر تھے تو حمید بابا بھی فارسی پر دسترس رکھتے تھے کیونکہ اس نے فارسی سے تین مثنویاں شاہ و گدا، نیرنگ عشق اور شرعتہ الاسلام کا پشتو میں منظوم ترجمہ کیا ہے.
۴- اگر چہ دونوں حسن و عشق کے شاعر ہیں لیکن اس کے علاوہ دونوں کی کلام میں تصوف کے باریک مسائل، عشقِ حقیقی کے نظارے، اپنے اپنے معاشرتی حالات کی نمائیدگی، ترقی پسند سوچ اور اعلٰی مذہبی و اخلاقی افکار مشترک خصوصیات ہیں.
 دونوں کی مقبولیت کا اندازہ ان اشعار سے لگتا ہے حمید بابا کا شعر ہے:


چې حمید غوندې بلبل ئې سر پۀ ګور کړه
هغه ورځ به دَ باګرام پۀ ګُلو هے وي(۵۶)

ترجمہ)" حمید جیسے خوشنوا بُلبل کی موت پر باگرام کے پھول ماتم کریں گے"
اور غالب کا شعر ہے کہ:


یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جان کی ہے
حق مغفرت کرے عجیب آزاد مرد تھا!  (۵۷)

 

حوالہ جات
1.http://sagheernehal.blogspot.com/2011/02/blog-post_03.html 22-08-2020 ,5:30

۲ ۔       تاترہ،پشتو ادنی بورڈ، پشاور،مجمولہ مشمولہ عبدالحمید مومند زندگی اور فن از دڈاکٹر محمد زبیر حسرت،حمید بابا نمبر،جولائی دسمبر ۲۰۱۱ء ص ۸۱
۳۔       خواجہ محمد سائل، عبدالحمید بابا، عظیم پبلشنگ ہاؤس،خیبر بازار، پشاور،۱۹۸۵ء ص۸۶
۴۔       آقائے راضی، سرگزشتِ غالب، گوہر پبلیکشنز، اردو بازار، لاہور، س ن، ص ۱۶
۵۔       مولانا الطاف حسین حالی، یادگارِغالب،زاہد بشیر پرنٹرز، لاہور، ۲۰۰۲ء ص ۶۱
۶۔          تاترہ،حمید نمبر، مجمولہ مشمولہ، حامد علی، د حمید بابا اخلاقی شاعری، پشتو ادبی بورڈ ،پشاور،جولائی دسمبر ۲۹۱۱ء ص۹۵  
۷۔      محمد اصف صمیم، عبدالحمید مومند کی کلیات،مجمولہ مشمولہ قصہ شاہ و گدا،دانش خپروندویہ ٹولنہ،پشاور، چاپ دوم ۲۰۰۷ء ص۴۴۳
۸۔       ایضاً ص ۴۴۶
۹۔       مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، غلام علی، پرنٹرز،لاہور، س ن، ص۹۵
۱۰۔      ایضاً ص ۸۳
۱۱۔        محمد اصف صمیم، عبدالحمید مومند کی کلیات،ص ۴۶۶
  ۱۲۔     مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش،  ص ۷۵۸
 ۱۳۔     ایضاً ص ۷۵۹
  ۱۴۔     ایضاً ص ۱۰۰۳
  ۱۵۔     ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، یونیورسٹی بک ایجنسی، خیبر بازار، پشاور،  جنوری ۱۹۵۸ء ص ۶۰
  ۱۶۔     مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص۶۷۰
  ۱۷۔     محمد اصف صمیم، عبدالحمید مومند کی کلیات، ص ۱۹۳
  ۱۸۔     مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۲۶۲ 
  ۱۹۔      امتیاز علی عرشی، سرگزشتِ غالب،(مرتب) ناظم کتاب خانہ رامپور، بار پنجم ۱۹۴۷ء ص۱۹
   ۲۰۔     ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص۷۰
  ۲۱۔     مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۵۳۰  
  ۲۲۔     ڈاکٹر سید انورالحق جیلانی، (مقدمہ) در اؤ مرجان، ص ط ، ی
   ۲۳۔    خلیق الزمان نصرت،مشہور اشعار، گمنام شاعر، کائنات پبلکیشن،  14/  15  سائی نگر کالونی، بھیونڈی، ۲۰۱۵ء ص ۴۲
۲۴  ۔    سید رسول رسا،دَ رحمان بابا دیوان،یونیورسٹی بک ایجنسی، خیبر بازار، پشاور، ۳۰ اپریل ۱۹۷۶ء ص ۱۵۸
  ۲۵۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۶۳
  ۲۶۔     مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۹۳۰
  ۲۷۔    ایضاً ۶۴
  ۲۸۔    ایضاً ۲۳۰
  ۲۹۔     ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص  ۱۱
  ۳۰۔      ایضاً ص ۸۶
  ۳۱۔     ایضاً ص ۱۰۲
  ۳۲۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۲۹۵
  ۳۳۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۱۱ 
  ۳۴۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۳۲۴
۳۵۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۲۷
  ۳۶۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۸۸
  ۳۷۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۱ 
  ۳۸۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۶۹
  ۳۹۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۲ 
 ۴۰۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص۶۶۲
  ۴۱۔     ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۲۴
  ۴۲۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۱۰۵۲
  ۴۳۔    مختارالدین احمد، نقدِ غالب،مشمولہ غالب کی عشقہ شاعری از عبادت بریلوی،دی پرنٹنگ ورکس، دہلی، جون ۱۹۵۶ء ص ۲۴،۲۵
۴۴  ۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۲
  ۴۵۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۲۶۳
   ۴۶۔    ایضاً ۳۶۰
  ۴۷۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص۱۲۴
  ۴۸۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۹۳۳
  ۴۹۔    پروفسر محمد نواز طائر، روھی ادب، جدون پرنٹنگ پریس، پشاور، بار دوم ۲۰۰۵ء ص ۳۲۷
  ۵۰۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۳۶
  ۵۱۔     ایضاً ۳۸
  ۵۲۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۴۷۵
  ۵۳۔    ایضاً ص ۱۰۷۴
  ۵۴۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص ۲۹   
  ۵۵۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۷۲۴   
  ۵۶۔    ڈاکٹر سید انوارالحق  جیلانی، دُر اؤ مرجان، ص۱۱۸
  ۵۷۔    مولانا غلام رسول مہر، نوائے سروش، ص ۳۵

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com