رومانویت اور کلاسیکیت ۔۔۔تقابل اور تجزیہ
ڈاکٹر ولی محمد۔ لیکچرار شعبہ اردو جامعہ پشاور
ڈاکٹر محمد اویس قرنی۔ لیکچرار یونیورسٹی کالج فار بوائز، جامعہ پشاور

ABSTRACT:


The discourse about the difference between classicism and romanticism is an important and inevitable part of both English and Urdu literatures. The discourse gave new ideas about the mechanism and creation of poetry and prose. These both school of thoughts influenced the writers and gave them new directions, set new literary standards and norms and created new values of literature. In this research paper the researchers has done a detail comparative analysis of these two literary terms. 
Key words: classicism, new classicism, romanticism, comparative analysis, background, difference

کلیدی الفاظ: کلاسیکیت، رومانویت ، تقابل ، تجزیہ ، پس منظر، نوکلاسیکیت ، فرق

سانت بیو کے خیال میں کلاسیک لغوی اعتبار سے جن معنوی جہتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ان میں آمدنی کا ایک خاص حدسے متجاوز ہوکر معاشی حوالے سے طبقہ اشرافیہ میں شامل ہوجانا ہے ۔(۱) ادب کی دنیا پر اس معنی کو لاگوکیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی فن پارہ فنی اور فکری اعتبار سے اتنا باصلاحیت اور ثروت مند بن جائے کہ وہ ادب کے ہراول دستے میں شامل ہو جائے  تو ایسا فن پارہ کلاسیک کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے ۔اعلی اور غیر معمولی فن پارہ ہونے کے باعث کلاسیک اپنے قارئین سے بھی ذوق سلیم کا تقاضا کرتی ہے ۔لہٰذا کلاسیک سے مراد بھی وہ ادب ہوگا جس میں ایک مخصوص طبقے کے ذوق کا خیال رکھا گیا ہواورجو  عوام کی بجائے خواص کے ذوق کی نمائندہ ہو ۔(۲) یا بعض صورتوں میں دونوں کی نمائندہ ہو ۔  جس میں طبقہ اشرافیہ کی طرح کا وقار ، شان و شکوہ، طمطراق اور رکھ کھاو موجود ہو۔یہ وقار ، شان و شکوہ ، طمطراق اور رکھ رکھاو کچھ اصول و ضوابط اور اقدار و مقررات کے نفاذ اور لزوم کے نتیجے میں وجود میں آتاہے ۔جسے روایت کی جامع اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔لہٰذا کلاسیکی ادب روایت کی امین ہوتی ہے اور ممکنہ حد تک مقررہ معیارات اور اصول و ضوابط کے دائرے میں  رہتے ہوئے تخلیق حسن کا فریضہ سرانجام دیتی ہے ۔آئیے کلاسیک کے حوالے سے کیے گئے مباحث کی روشنی میں اس کے خط و خال کا احاطہ کرنے کی کوشش کریں ۔
کلاسیک ایسی اد بی تحریر کو کہیں گے:
۱۔جوخواص کے  ذوق کی آبیاری کرتی ہو اور ان کی جذباتی  تسکین کا باعث بنتی ہو۔
۲۔جس میں  روایت کو زندہ رکھنے یا روایت سازی کی صلاحیت موجود ہو۔لیکن روایت کو زندہ رکھنےسے مرادروایت کی کورانہ تقلیدیا نقل محض  نہیں بلکہ تخلیقی تقلید ہے۔
۳۔جو سند کا درجہ رکھے اور اسے بطور مثال یا نمونہ پیش کیا جاسکے ۔(۳)
۴۔جو انسان کے فکری سرمائے میں وسعت کا باعث بنے ۔(۴)
۵۔ جو اخلاقی صداقت دریافت کرے اور دائمی جوش و جذبے کا باعث بنے ۔(۵)
۶۔جس میں جدت کی بدعت کے بٖغیر بھی  نیاپن موجود ہو۔جس میں نئے اور پرانے کا حسین امتزاج موجود ہو۔(۶)جس میں عالمگیریت اور ہمہ گیریت ہو ۔لہٰذا یہ ایک قوم کی ذہنی  توانائیوں ، نفسیاتی پیچیدگیوں اور ثقافتی ورثے کا ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ تمام عالم انسانیت کی ترجمانی کا حق بھی ادا کرتی ہے۔
۷۔ جودائمی اور آفاقی قدرو قیمت کی حامل ہو اوربلا امتیاز زمانہ و جغرافیہ ہر کسی کے لیے ہو اور ہر کسی سے مخاطب ہو۔(۷)
۸۔ جو  بقول ٹی ایس ایلیٹ کاملیت یا پختگی کی حامل ہو اور ایسی تحریریں ان کے خیال میں کامل تہذیب ، کامل ز بان و ادب اور کامل دماغ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہیں  ۔(۸)
۹۔جو اسلوب کی جامعیت کی حامل ہو ۔جس میں خیال کا لطیف اظہار ، موسیقی کا تنوع، آمد، سادگی و پرکاری اور اظہار و بیان کے حوالے سے متنوع  رنگ موجود ہوں ۔(۹)
۱۰۔ جس میں اپنی زبان اور متعلقہ صنف کے تمام امکانات نچوڑنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ٹی ایس ایلیٹ کے خیال میں ورجل نے اینیڈ میں لاطینی زبان کے تمام رس کو نچوڑ رکھا ہے اس کے بعد لاطینی زبان میں ادبی اعتبار سے  مزید ترقی ناممکن ہے جب تک کہ یہ زبان ہی نہ بدل جائے ۔(۱۰)
۱۱۔جو متعلقہ قوم کے مزاج اور کردار کی حامل زیادہ سے زیادہ احساسات کی وسعتیں  لفظوں کےدامن میں محفوظ کرسکے ۔(۱۱)
۱۲۔ جو قوا نین عقل کے تابع اور  توازن بدوش ہو۔ افراط و تفریط سے بھی پاک ہو   اس لیے کہ افراط و تفریط عقل کے دشمن ہیں ۔(۱۲) اور عقل کی پیروی  میں کلاسیک کی روح پوشیدہ ہے ۔ایک ایسی تحریر جس  کی عظمت کا راز زبان و بیان کی صحت، سادگی اور اصولوں کی پیروی میں مضمر ہو ۔(۱۳)
۱۳۔ جوابتذال اور پستی کی حامل نہ ہو۔(۱۴)
۱۴۔ جس  میں تخیل پابہ زنجیر معلوم ہوتا ہو ۔
اس کے برعکس رومانویت میں کلاسیکیت کے مقابلے میں کچھ متضاد اور مختلف حوالے موجود ہوتے ہیں ۔رومانویت کے ضمن میں کیے جانے والے مباحث کی روشنی میں رومانویت کے خط و خال  بھی کچھ نکات کی صورت میں سامنے لانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
کلاسیکیت کے برعکس رومانویت ایک ایسی ادبی تحریر کو کہیں گے :
۱۔ جو شاہانہ مزاج کی حامل نہ ہو  بلکہ عوامی مزاج کی نقیب ہو ۔جو ایک مخصوص طبقے کے ذوق کا خیال رکھنے کی بجائے عوامی جذبات کی عوامی زبان میں  ترجمانی کرنے کا حق ادا کرنے کو ترجیح دے۔
۲۔جس میں  روایت کی پاسداری کی بجائے روایت سے بغاوت موجو د ہو۔
۳۔ جسے اصول پرستی اور روایت پرستی سے کوئی سرو کار نہ ہو۔اورجو اپنی اس خصوصیت کی بنیاد پر اصول پسند اور روایت پسند ناقدین کی شدید تنقید کا نشانہ بنے۔اگر اس میں اپنے وجود کو منوالینے کی قوت اور توانائی موجود ہو اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ پرانے ادبی عقائد کا قلع قمع کرسکے ، یا نئے ادبی اقدار کے لیے جگہ پیدا کرسکے تو زمانہ اسے بھی سند کی حیثیت دینے لگتا ہے ۔البتہ رومانوی فن پارہ کے تخلیقی عمل میں سند کو اہمیت دینے کی بجائے ذہنی اپج اور تخلیقی جست  کو اولیت ملتی ہے ۔
۴۔ جس میں فکر ثانوی حیثیت کی حامل ہو جبکہ مسرت  کو اولین قدر کی حیثیت حاصل ہو  ۔رومانوی فن پارہ فکر پر تکیہ کرنے کی بجائے جذبے پر تکیہ کرنے کو اپنا شعار بنا لیتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عظیم رومانوی فن پارے بھی فکر انسانی کے سرمائے میں اضافے کا باعث بنتے ہیں لیکن اس معیار پر پورا نہ اترنے والے فن پارے رومانوی قطار سے باہر نہیں نکل جاتے ۔
۵۔ جو  مسلمہ پابندیوں اور معیارات (یونان  و روم کی تقلید) کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔رومانوی فن پاروں میں اخلاقی صداقتوں کی دریافت بھی  کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔
۶۔ جس  میں جدت بنیادی ادبی قدر کے طورپر موجود ہو ۔وہی جدت جو کسی دور میں ادبی بدعت  بھی شمار کی جاسکتی ہے ، لیکن بعد میں  ادبی روایت کے درجے پر فائز ہونے کا بھی امکان  بھی رکھ سکتی ہے ۔
۷۔ جس کے تخلیقی عمل کے بنیادی جذبہ محرکہ  میں اجتماعیت کی بجائے انفرادیت کی روح کوٹ کر بھری ہوئی ہو ۔جوہر ایک انسان سے مخاطب ہونے کے جذبے کی بجائے اپنے آپ سے مخاطب ہونے کا جذبہ رکھتی ہو ۔مٹی سے قرب میں رومانویت کی جان ہوتی ہے ۔جو مختلف روپ میں جلوہ گر ہوسکتی ہے۔فطرت کے ساتھ محبت مٹی کے ساتھ  اسی قرب کا نتیجہ ہوتا ہے۔رومانوی ادیب ساری عصری بے چینیاں معصومانہ انداز سے فطرت کے سامنے رکھتا ہےاور انہیں گردن کا طوق سمجھ کر فطرت سے استدعا کرتا ہے کہ وہ اس کرب کو ختم کرنے میں اس کا رفیق اور معاون بنے یوں جذبے اور احساس  کی دنیا میں پیدا ہونے والے مخصوص عصری ارتعاشات رومانوی فن پارے میں بآسانی مخصوص کیے جاسکتے ہیں۔رومانوی فن پارہ ادبی جمود کو توڑتا ہے اس وجہ سے وہ دوامی اقدار کی تلاش اور پیشکش سے عدم شناسائی کا اعلان کرتا ہے ۔
۸۔جو کاملیت اور پختگی کے خبط میں مبتلا نہ ہو بلکہ  اس میں استقلالی روح کی بجائے ہنگامی روح کی کارفرمائی ملتی ہو ۔
۹۔ جس کے لیے اسلوب کی جامعیت کوئی شرط تو نہ ہو لیکن یہ بھی  اسلوب و اظہار کے موثر ترین اور بعض صورتوں میں  جدت بداماں پیرایوں کی تلاش میں رہتا ہو ۔
۱۰۔جو نئے امکانات کے در کو معصومانہ انداز سے  ٹھوکر مار کر کھولے ۔یہ عمل  شوخ بھی ہے اور آداب کے خلاف بھی ، لیکن اس  سے بعض صورتوں میں فطری طورپر پیدا ہونے والی تبدیلی ( جو سست روی کا شکار ہوتی ہے)کی رفتار تیز ہوجاتی ہے ۔
۱۱۔جو شعور کی بجائے خالص وجدان کی بنیاد پر فن کے قصر کی تعمیر میں مصروف ہو۔جو ایک رشی کی مانند اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پائے۔بجلی کی مانند چمکے ۔چونکا دینے کا باعث بنے ۔یوں رومانوی فن پارہ ثقہ ادیبوں اور کلاسیکی ناقدین کی شدید تنقید کی زد میں آنے کے لیے تو تیار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود روایت سے سند لینے کی زحمت گوارا نہیں کرتااور نہ ہی اسے زیادہ سے زیادہ انسانوں کے جذبات کو آفاقی روح کے ساتھ سمیٹنے اور پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔وہ ایک ایسے مجسمے کی مانند ہوتا ہے جس کے خط و خال سنگ تراشی کے سند یافتہ مجسموں کے مقابلے میں  نئے اور اچھوتے ہوتے ہیں۔اس لیے اس میں عالمگیری روح کی موجودگی کی  بجائے انفرادی روح چھلک رہی ہوتی ہے ۔اسے روداد جہاں سنانے کاکوئی شوق نہیں ہوتا البتہ اس کا اپنا کہا ہوا روداد جہاں بن جائے تو اور بات ہے ۔سیماب اکبر آبادی کا ایک اس کیفیت کو بڑے موثر انداز سے بیان کرتا ہے۔
کہانی میری  روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی  کی داستان معلوم ہوتی ہے(۱۵)
رومانوی فن پارہ سماجی شعور کا ترجمان ہونے کی بجائے فرد کے شعور کا ترجمان ہوتا ہے ۔
۱۲۔جس  میں قوانین عقل کی بجائے جذبات کی فراوانی دیکھنے کو ملے ۔ورڈزورتھ نے اس تخلیقی کیفیت کو (شاعری میں )جذبات کے بے ساختہ چھلک جانے کا نام دیاہے ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ رومانوی فن پارے میں عقلی روح مکمل طورپر ناپید ہوتی ہے ۔البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس کی بنیادعقل کی بجائے جذبے کے خام مواد سے اٹھی ہوتی ہے ۔یا اس عمارت کی تعمیر میں عقل کی بجائے جذبے اور احساس کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ۔رومانوی فن پارہ  نوکلاسیکی فن پاروں کی طرح عقل کا غلام نہیں ہوتا ،بلکہ یہ  مستند اصول و ضوابط کے خول کو توڑ کر اپنے اصول آپ وضع کرتا ہے جس میں سند روایت کی  بجائے  فن کار کی تخلیقی جست  ہوا کرتی ہے ۔
۱۳۔جو اخلاق شکن نہ ہو البتہ ابتذال اور پستی کے حوالے سے کلاسیکی اور بالخصوص نوکلاسیکی ناقدین کے قائم کردہ تصورات کی من و عن پیروی بھی نہ کرتا ہو۔جذبات کی بنیادپر فن استوار کرنے کی وجہ سے رومانوی فن پارے تہذیبی معیار سے گر بھی سکتے ہیں ۔لیکن کیا کلاسیکی فن پارہ ابتذال سے مکمل طورپر پاک ہوتا ہے ؟اس کا جواب بھی ممکن ہے کہ نفی میں آجائے ۔
۱۴۔ جس  میں تخیل کو آزادانہ اڑان کا موقع ملے ۔
  اس کے ساتھ ساتھ رومانویت  میں ماضی کا احیا، فرد کا روایت کے خلاف اعلان جنگ، ہئیت کی طلسم شکنی ، روح آزادی اور فطرت کی طرف مراجعت شامل ہیں ۔(۱۶) داخلیت ، انفرادیت پسندی ،آزادی سے محبت ، وطن پرستی ، خوابوں جیسی ماورائی دنیا کی تعمیر ، ماضی پرستی ، عہد طفلی سے محبت ، وطن پرستی اور حسن آفرینی کا عمل رومانوی فن پارے کے نمایاں نقوش قرار دیے جاسکتے ہیں ۔ رومانویت قدما کی پیروی کی بجائے علم بغاوت بلند کردیتی ہے اور اس کے باطن میں بغاوت کے عناصر آزادی کے ساتھ بے پناہ محبت کی دین ہوا کرتے ہیں ۔روسو کا بڑا مشہور جملہ ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن جہاں کہیں دیکھو پابہ زنجیر نظر آتا ہے(۱۷) ۔یہ دعوی رومانوی ادب کا منشور ٹھہرا اس وجہ سے تمام رومانوی فن پاروں یہ بات حلول کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔رومانویت نے اس سحر کو توڑنے کی کوشش کی جس کا مقصد اصول پرستی کے نام پرادیبوں کو یونانی یا رومی  ادب کاذہنی  غلام بنانا تھا۔یوں یونانی نمونوں کی تقلید جہاں کلاسیکیت کے مبادیات میں شامل ہے رومانویت میں مکمل طورپر غیر اہم بن جاتی ہے ۔اصول اور تقلید عقل کی دین ہوا کرتے ہیں اس وجہ سے رومانوی ادیبوں نے عقل کے مرقد پر جھکنے کی بجائے جذبے کے گداز اور حرارت میں فن کا وجود تلاش کرنے کی کوشش کی ۔
یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ہر عظیم تحریر عقل اور جذبے ، روایت کی پاسداری اور روایت سے تخلیقی انحراف ، اصولوں کی پیروی اور اصول شکنی  سے عبارت ہوتی ہے لیکن روایت ، اصول اور عقل کی مکمل طورپر نفی ایک نوع  کا انتہا پسندانہ رویہ تھا جس کے فروغ پانے کے کئی ایک اسباب  میں سے سب اہم وجہ نوکلاسیکی ادیبوں اور نقادوں کی بے جا  اور غیر تخلیقی پابندیاں تھیں ۔رومانویت گویا ادبی غلامی کے خلاف تخلیقی سطح پر اعلان جنگ تھا ۔جس نے لکیر کے فقیر جیسے نوکلاسیکی ادیبوں اور نقادوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔یہ انتہا پسندانہ اور چونکا دینے والے تخلیقی رویے اس ادبی جمود کا ردعمل تھے جو تخلیقی سوتوں کو ایک ایک کرکے خشک کرنے کا باعث بن رہے تھے ۔
یہ بات تو واضح ہے کہ بے جا اور سخت پابندیاں انتہاپسندانہ  ردعمل کو جنم لینے کا باعث بنتی ہیں ۔نوکلاسیکیوں کے ہاں بھی اصول پرستی اور تعقل پسندی نے سخت شکنجوں جیسی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔حالانکہ آزادی ہی وہ قدر ہے جو کلاسیکی اور رومانوی تخلیق کا روں کا مشترکہ اثاثہ رہا ہے ۔البتہ  یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ  کلاسیکیت اور رومانویت میں آزادی اور پابندی کے حدود کا تعین دونوں کے اپنے اپنے  مزاج کے مطابق ہوتا ہے ۔کلاسیکیت آزادی کی متاع گراں بہا سے اتنی ہی آزادی لیتی ہے جتنی  کی وہ متحمل ہوسکتی ہے ۔اسی طرح رومانویت پابندی کی متاع گراں بہاسے بھی اتنا ہی حصہ لے سکتی ہے جتنی کہ رومانویت کی روح برداشت کرسکتی ہے ۔یہ نکتہ ورطہ حیر ت میں ڈالنے والا ہے کہ آزادی کی مانند پابندی کو بھی متاع گراں بہا کہا گیا ہے ۔لیکن فن کی دنیا میں پابندی کا وجود اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ آزادی اہمیت کی حامل ہے ۔کسی بھی عظیم تخلیق کی عمارت نہ تو خالص آزادی کی بنیاد پر استوار کی جاسکتی ہے اور نہ ہی خالص پابندی اس سلسلے میں معاون بن سکتی ہے ۔بلکہ ان دونوں اقدار کے درمیان توافق ہی فن میں عظمت کے نقوش پیداکرنے کا باعث بنتا ہے ۔میر ، غالب ، فیض ، مجید امجد ، حبیب جالب اور فراز کے ہاں آزادی اور پابندی کے حسین سنگم کی تلاش ممکن ہے جس نے ان شعرا کو عظمت کے سنگھاسن پر بٹھا یا ہے ۔غالب کے بارے میں میر کی نصیحت کہ اگر اس لڑکے کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اسے درست سمت میں ڈال دیا تو عظیم شاعر بنے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔(۱۸) دراصل آزادی اور پابندی کے درمیان توازن پیدا کرنے کا مشورہ تھا۔خود میر کی شاعری آزادی اور پابندی کی چلتی پھرتی تصویر ہے ۔میر نے اپنے اشعار میں زبا ن کے معاملے میں اپنے آپ کو دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانےوالی زبان کا پابند کیا لیکن تخیل کی پرواز میں عوام کی طرف جھکنے کی بجائے خواص کو سند ٹھہرایا تب کہیں  یہ کیفیت پیداہو گئی کہ


شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے (۱۹)

عوام سے گفتگو شعری روایت سے بغاوت کا اعلان ہے جبکہ خواص پسندی اس پابندی کی نقیب ہے جو فن کے لیے مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کا باعث بنتی ہے ۔فنکار کی تخلیقی حس ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کون سی زنجیریں گلے میں ڈالنی اور کون سے طوق گرد  ن سے اتار پھینکنے ہیں ۔اسے پتہ ہوتا ہے کہ آزادی محض ایک سراب سے کم نہیں ہے ۔اسے احساس ہوتا ہے کہ دریا یا ندی کے پانی میں روانی ، تیزی ، شور اور حسن کناروں کی دین ہے ۔لیکن اسے اس بات کا بھی بخوبی احساس ہوتا ہے کہ دریا کے پانی کے سامنے بند باندھنا نقصان دہ عمل ہے ۔اسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کناروں کا وجود کتنا اہم اور بند باندھنا کتنا غیر فطری ہے ۔نوکلاسیکی نقادوں اور ادیبوں سے یہی بنیادی غلطی ہوئی تھی ۔ ا نہوں  نے دریا کے پانی کے سامنے بند باندھنے کی غیر فطری اور غیر عقلی کوشش کی ۔جسے تعقل پسندی اور اصول پسندی اور روایت جیسے خوبصورت الفاظ میں ملفوف کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جس کا نتیجہ یہ  نکلا کہ عظیم کلاسیکی تحریر  معرض وجود میں آنے کی بجائےبچگانہ قسم کی نقالی سامنے آنے لگی ۔فن کا ر کا ذہن تخلیقی بننے کی بجائے فوٹو اسٹیٹ مشین میں تبدیل ہونے لگا۔یونانی نمونوں کی جا و بے جا پیروی بلکہ نقل کے رجحان نے سہولت تو پید اکی لیکن فن ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہونے لگا۔اس کے ردعمل میں رومانوی تخلیق کاروں نے دریا کے کناروں کو بھی غیر فطری پابندی تصور کرنا شروع کیا ،  جس کا لازمی نتیجہ فن کی دنیا میں ایک اور انتہاپسندانہ رویے کی صورت میں سامنے آیا ۔
ادب کی دنیا مجموعہ اضداد  میں فنکارانہ موافقت اور تطابق کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔اس جادوئی دنیا میں سجدہ اور بغاوت ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں بت پرستی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ بت شکنی ۔یہاں یہ مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ تخلیقی اقدار روایت  کے کندھوں پر سوار آتے ہیں  ، تخلیق کارانہیں تولتا پرکھتا ، ناپتا اور جانچتا ہےاور اس کی روشنی میں نئے تخلیقی امکانات کا تعین کرتا ہے ۔جو عظیم ادبی اقدار ہیں ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے ، جو کھوکھلے ہیں انہیں توڑ کر آگے  بڑھتا ہے۔روایت کے تمام بتوں کو توڑنا اتنا ہی غیر مستحسن ہے جتنا کہ روایت کے تمام بتوں کو پوجنا۔یہ دونوں انتہا پسندانہ رویے ہیں اور اسی بنیاد پر شلیگل نے کلاسیکیت کو بت آسا اور رومانویت کو فریب آسا قرار دیا تھا ۔(۲۰) لہٰذا عظیم فن پارہ اسے قرار دیا جاسکتا ہے جوکلاسیکیت اور رومانویت کی تمام اچھی باتوں کا امین ہو۔اس میں تعقل بھی ہو اور جذبات بھی ۔جزوی تقلید بھی ہو اور جزوی بغاوت بھی۔تخیل کی پابہ زنجیری بھی ہو اور مناسب آزادی بھی ۔لکھنے والا سٹیرنگ کا استعمال بھی جانتا ہو ، کلچ کا بھی اور بریک کا بھی اور اسے ایکسیلیٹر کے مناسب استعمال کابھی  پتہ ہو ۔وہ جانے پہچانے راستوں کے پیچ و خم سے بھی واقف ہو اور اس کے دل میں نئے راستوں اور نئی منزلوں کی طرف پہنچنے کی جستجو بھی ہو ۔لیکن محض نئے راستوں اور نئی منزلوں کی دھن میں جانے پہچانے راستوں کو چھوڑنا نادانی ہے ۔بلکہ جانے پہچانے راستوں سے ہوتے ہوئے نئے راستوں کی تلاش اور نئی منزلوں کا تعین کسی بھی  صحت مند ادب کی بنیادی خوبی شمار کی جاسکتی ہے ۔
اس سلسلے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہومر ، سوفوکلیز ، ورجل ، شیکسپئیر ، ملٹن ، حافظ ، سعدی ، رومی ، فردوسی ، والمیکی ، ویدویاس جی ،میر ،  غالب ،چیخوف ، پریم چند ، ٹالسٹائی اور رحمان بابا ۔۔۔ان سب کے سامنے کلاسیکی تحریریں موجود تھیں  ؟جن کی پیروی میں وہ کلاسیک کے مقام و مرتبے تک پہنچے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سے قبل متعلقہ اصناف میں نمونے (بعض کے سامنے روایتی اور معمولی  تو بعض کے سامنے کلاسیکی  )موجود ہوں گے۔رزمیہ ، غزل ،افسانہ ، ناول اور ڈراما وغیرہ ۔لیکن ان میں سے اکثریت کے معاملے میں وہ کون سی ایسی بات تھی جس کی بنیاد پر یہ فن کی وہ دنیا تخلیق کرسکے جو ان کے پیشرو کرنے میں  ناکام رہے ؟ایسا تقلید محض کا نتیجہ نہیں ہوسکتا ۔تقلید محض عقل کے چراغ گل کر دیتی ہے ۔تخلیق حسن کے امکانات ختم کر دیتی ہے ۔ادب کی زندہ روایت میں سکینر ٹائپ تخلیق کار کے لیے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے اور فن کی دنیا میں اصول اور عقل کی سو فی صد پیروی انتہائی درجے کی بے وقوفی ہے ۔جس کا خمیازہ ابدی گمنامی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عظیم فن کارقدامت اور جدت کے سنگم پر موجود ہوتا ہے ۔وہ جتنا پرانا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ نیا بھی ہوتا ہے ۔جتنا کل کے لیے  ہوتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ وہ آج اور آنے والے کل  کے لیے بھی ہوتا  ہے ۔یہ اہم نکتہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ جب اصولوں کی پیروی اختراعی قوت کے درپے ہونے لگے تو تخلیق کار کوسمجھ جانا چاہیے کہ وہ فن کی دنیا میں ہلاکت کے گڑھے کے بالکل قریب کھڑا ہے ۔ایک توانا  جست یا معقول واپسی(اور اس کے بعد اختراعی راستے کا انتخاب)  ہی اس کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتی ہے ۔
یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ رومانویت چند من چلے ادیبوں کی ادبی شرارت کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اٹھارویں صدی کے سماجی ، سیاسی اور ادبی ماحول کی پیدا کردہ تھی۔یہ تحریک راتوں رات پیدا نہیں ہوئی بلکہ حالات ، واقعات ، عصری تقاضوں اور سیاسی اور فلسفیانہ نظام فکر میں پیدا ہونے والی بدلاو کا نتیجہ تھی ۔شہنشاہانہ نظام مملکت نے فرد کی حقیقی آزادی سلب کر لی تھی ۔فلسفے اور سیاست کی دنیا میں روسو نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت محسوس کرا چکے تھے ۔غلامی ہر صورت میں قابل نفرت بن چکی تھی ۔مشینی زندگی فرد سے اس کی انسانیت ، طمانیت اورمسرت چھین لینے کے درپے تھی۔نوکلاسیکی ادیب ادب کو بھی مشینی قالب میں ڈھالنے پر تلے ہوئے تھے ۔فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا دھواں زندگی کے چہرے پر کالک مل رہا تھا۔دیہات اور فطرت  کی گود انسانوں سے خالی ہو رہی تھی اورانسان  شہروں  اور کارخانوں کو بسالینے پر  مجبور تھے ۔ہر حسین آواز مشینوں کی گڑگڑاہٹ میں گم ہونے پر تلی ہوئی تھی ۔سانچوں اور ڈھانچوں کی اہمیت زیادہ  تھی ۔ہئیت مقدس بن چکی تھی ۔اصول و قواعد زندگی کی چلتی پھرتی صداقتوں کی صورت اختیار کر چکے تھے ۔مصروفیت بڑھ چکی تھی لہٰذا نئے تخلیقی افق دریافت کرنے کی سکت اور توانائی معدوم ہو چکی تھی ۔یونانی اور رومی ادب دل و دماغ پر چھا چکے تھے ۔ان تمام حالات کا نتیجہ تھا کہ ایک ایسے ادب کی ضرورت محسوس ہوئی جو متضاد اقدار کی حامل ہو ۔ایسے میں فطرت کی طرف پلٹاو کا نعرہ   دراصل جدید صنعتی زندگی کے خلاف صدائے احتجاج تھا۔ عہد طفولیت سے بے پناہ انس، قرون وسطی سے دلچسپی ، خیالی دنیا کی تخلیق ، تخیل کے پروں پر آزادانہ اڑان ، عقل کی بجائے جذبے کی طرف جھکاو دراصل اس سماجی جبر کو توڑنے کی کوشش تھی جو صنعتی انقلاب کے نتیجے میں یورپ کی ز ندگی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی ۔
اس مقام پر ایک سوال کی وضاحت بہت زیادہ ضروری ہے ۔ ادب کے لیے خیال کے سرچشمے کون سے ہونے چاہئیں اورادیب و شاعر کے لیے فکر کے کینوس پر کون سے رنگ بھر لینے چاہئیں؟یہ معاملہ بڑا ہی ٹیرھا ہے ۔ ادب اور بالخصوص شاعری کی بدقسمتی رہی ہے کہ معاشرے کی مقتدر قوتیں انہیں  اپنے شکنجے میں کستی رہی ہیں۔موضوع کے حوالے سے ادبی مقررات کا وجود ہی بہت حد تک غیر فطری ہے ۔ ہر ایک دور میں کچھ حلقے ادب سے خوف محسوس کرتے چلے آئے ہیں ۔ان کا خوف بے معنی بھی نہیں ہے اس لیے کہ یہ براہ راست عوام کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیتا ہے ۔مد نظر رہے کہ ادب سے من مانے موضوعات کی توقع محض  استبدادی قوتوں کی خصلت ہی نہیں رہی بلکہ امن ، انصاف اور مذہبی و سیاسی پرچار کے لیے موضوعات کے حدود کا تعین زنددہ حقیقت کے طور پر  موجود رہا ہے ۔کیا ادب کے لیے موضوعاتی سمت کا تعین ضروری بھی ہے ؟اور کیا ادیب بلاخوف و خطر سب کچھ کہہ سکتا ہے؟ادبی تاریخ شاہد ہے کہ کیسے کہنا ہے ؟ کا معاملہ کبھی بھی حساس اور سنگین نہیں رہا البتہ کیا کہنا ہے ؟ کا معاملہ بڑا سنگین اور بعض صورتوں میں پرتشدد بھی رہا ہے ۔مثلاً افلاطون جیسے جہاندیدہ اور فہمیدہ انسان نے بھی  اپنی مثالی ریاست میں شعرا کو صرف ایک شرط پر چھوڑ دینے کا عندیہ دیا تھا کہ وہ اخلاق کا پرچار کریں ۔
یہ  بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ پابندیوں کی نوعیت بھی دو قسم کی ہوتی ہے ۔مرئی اور غیر مرئی ۔مرئی پابندیاں تو مقام انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے البتہ غیر مرئی پابندیوں پر بات ہوسکتی ہے ۔غیر مرئی پابندیوں میں کچھ پابندیاں مثبت اور کچھ منفی ہوتی ہیں ۔مثلا ً یہ بات تو کسی حد تک مثبت ہوسکتی ہے کہ ادیب  کو غیر اخلاقی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جبکہ اس کے سامنے یہ حد مقرر کرنا کہ اسے اخلاق ، مذہب ، یا کسی سیاسی عقیدے وغیرہ کی پرچار کرنی چاہیے غیر مناسب پابندی ہے ۔معاشرے کی روح پیش نظر رکھ کر کچھ باتوں سے گریز قابل برداشت ہے لیکن کچھ باتوں کی مشینی تبلیغ ادیب کی آزادی پر حملہ ہے ۔فن کی آزادی پر اس انداز سے حملہ فن کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ایسا بالکل بھی نہیں ہوتا کہ یہ حملہ کھلے بندوں ہوتا ہے  اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ادیب کو احساس بھی ہو کہ وہ اپنی آزادی گروی رکھنے جارہا ہے ۔لیکن زمانہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اگر ادیب ان پابندیوں کو اپنے اوپر عائد نہ کرتا جو دراصل معاشرے یامعاشرے میں موجود مخصوص قوتوں کے اثر و رسوخ کا نتیجہ تھیں تو وہ عظیم فنکار بن سکتا تھا۔مثلاً مذہب ا نسانی معاشرے کی ایک اہم حقیقت ہے ۔کسی ادیب یا شاعر کے ہاں مذہبی روح کی موجودگی کو معاشرے میں استحسان کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ۔میرانیس، حالی ، اکبر  یا اقبال کی پسندیدگی کی سب سے بڑی وجہ ان کے ہاں مذہبی عناصر کی موجودگی ہے کہ انہوں  نے وہی مضامین اداکیے جو قارئین یا سامعین کے مذہبی جذبات کے مطابق تھے ۔مسدس حالی بلکہ علی گڑھ تحریک کے زیراثر تخلیق پانے والا تمام ادب ،ادب کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود پڑھا گیا اور زیادہ پڑھا گیا۔اسی طرح بعض اوقات کچھ مخصوص نظریات کو ذہن کی دنیا میں بڑی پذیرائی ملتی ہے مثلا فکری اعتبار سے نئی فضا کی موجودگی سے ترقی پسند تخلیق کاروں نے بروقت فائدہ اٹھایا اور لوگوں کے دلوں پر اپنے فن اور بالخصوص فکر کا سکہ بٹھایا ۔لیکن یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ ادب میں منشور چاہےمرئی ہو یا غیر مرئی ، مادی ہو یا روحانی ،  تحریری ہویا غیر تحریری ،مذہبی ہو یا سیاسی ۔موضوعاتی اعتبار سے پابندی کے مترادف ہے ۔اخلاقی باتوں کی پرچار کا فریضہ کو ئی واعظ یا ناصح ادا کرے گا تو درست ہے لیکن جب ادیب بھی اس قسم کی کوشش کرے گا ، تو جس قسم کا ادب جنم لے گا وہ مضامین سرسید کی قسم کا ادب ہوگا جس میں تخلیق حسن کے عناصر ناپید اورنصیحتوں کی بھرمار ہوگی ۔اس قسم کے غیر معیاری ادب کی تخلیق کا خوف ہی تھا جس کی وجہ سے ورڈ زورتھ نے اخلاقی پرچار کو شاعری کے لیے وضع کردہ فارمولے سے خارج کیا اور محض حصول مسرت پر زورڈالنے  کی کوشش کی۔(۲۱)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک کجروی دوسری کجروی کے جنم لینے کا باعث  بنتی ہے ۔بنیاد میں لگی ایک ٹیڑی اینٹ کا خمیازہ پوری دیوار کو بھگتنا پڑتا ہے۔نوکلاسیکیوں نے اخلاق اور عقل پر زیادہ توانائی صرف کی تو رومانوی ادیبوں  نے جذبے اور حصول مسرت پر اپنی تمام تر توجہ صرف کرنے کی کوشش کی ۔ذوق سلیم کا مقام عقل ، اخلاق ، جذبے اور حصول مسرت کے حسین امتزاج میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب ایک ایسے ادب کی ضرورت ہے جس میں ہم اس حسین امتزاج کو پاسکیں ۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارا کلاسیکی ادب ان خوبیوں سے خالی ہے یا رومانوی ادب اس سے مکمل طورپر تہی ہے ۔لیکن اس غیر فطری تقسیم سے ادب کی توانائیوں اور امکانات کو کافی حد تک نقصان پہنچا ہے اور بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں ۔ عقل سے مکمل طورپر تہی کوئی پاگل ہی ہوسکتا ہے اور جذبے سے مکمل طورپر  خالی مشین ہی  ہوسکتی ہےاور فن کار نہ تو پاگل ہوتا ہے اور نہ ہی مشین  ۔ اسی طرح  کسی انسان کی زندگی کی  میں محض حصول مسرت  ہی واحد قدر کے طورپر موجودنہیں ہوتی اورنہ ہی کوئی انسان  حصول مسرت کے جذبے سے مکمل طورپر خالی ہوسکتا  ہے ۔اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ادب جو انسان کی کہانی ہے ، وہ اس عدم توازن کی کیسے متحمل  ہوسکتی ہے ؟یہی وجہ ہے کہ مسرت اور حصول مسرت جسے رومانوی نقاد رومانویت کے ادبی منشور کا لازمی حصہ گردانتے ہیں گوئٹے اسے کلاسیک کا بھی لازمی جزو بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی تحریر کو محض قدامت کی بنیاد پر کلاسیک نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ کلاسیک وہ ہے جو مضبوط و مستحکم ، تازہ ، پرمسرت اور صحت مندانہ ہے ۔(۲۲)یہی وجہ ہے کہ جتنا ہم رومانوی اور نوکلاسیکی نظریہ ادب  کے درمیان فاصلے گھٹاتے چلے جائیں گے ، زیادہ متوازن اور صحت مند ادب کی تخلیق کی طرف آگے بڑھیں گے ۔رومانویت اور کلاسیکیت باہم حریف نہیں ہیں بلکہ کلاسیک نوکلاسیکی نقادوں کے لیے ہتھیار کی مانند ہے جس کا وہ ٖغلط استعمال کرتے ہیں ۔اس عمل کو ٹی ایس ایلیٹ نےادبی سیاست کا شاخسانہ قرار دیا ہے ۔(۲۳)

 حوالہ جات :
۱۔          سانت بیو ، کلاسیک کیا ہے ۔مشمولہ کلاسیکیت اور رومانویت، علی جاوید ،رائٹر گلڈ انڈیا لمیٹڈ،۲۲ غالب اپارٹمنٹس،پیتام پورہ ، دہلی ، انڈیا۔۱۹۹۹ص، ۲۶
۲۔        ایضاً
۳۔       ایضاً۔ص، 29
۴۔       ایضاً
۵۔       ایضاً
۶۔       ایضاً
۷۔      ایضاً
۸۔       ٹی ایس ایلیٹ، کلاسیک کیا ہے ۔مشمولہ ایضاً۔ ص، 35
۹۔       ایضاً۔ ص، 41
۱۰۔      ایضاً۔ ص، 47
۱۱۔      ایضاً۔ ص، 51
۱۲۔      جمیل جالبی ، ڈاکٹر ، کلاسیک ، مشمولہ ایضاً۔ ص، 59
۱۳۔     ایضاً۔ ص، 59
۱۴۔      ایضاً۔ ص، 59
۱۵۔      سیماب اکبر آبادی ، www.rekhta.com.
۱۶۔       محمد ہادی حسن ، رومانیت ، مشمولہ کلاسیکیت اور رومانویت، علی جاوید ، رائٹر گلڈ انڈیا لمیٹڈ،۲۲ غالب اپارٹمنٹس ، پیتام پورہ ، دہلی ، انڈیا،۱۹۹۹۔ص، 102
۱۷۔     JeanJacquesRousseau,Thesocialcontract,ebooks.adelaide.edu.au
۱۸۔     الطاف حسین حالی ، مولانا، یادگار غالب ، غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی ، ۱۹۸۶۔ص، ۱۰۹
۱۹۔      میرتقی میر ، کلیات میر ، مطبع منشی نولکشور لکھنو ، س۔ن ص، ۳۶۷
۲۰۔     محمد حسن ، اردو ادب میں رومانوی تحریک ، مشمولہ کلاسیکیت اور رومانویت، علی جاوید ،رائٹر گلڈ انڈیا لمیٹڈ،۲۲ غالب اپارٹمنٹس ، پیتام پورہ ، دہلی ، انڈیا،۱۹۹۹۔ ص، 372
۲۱۔      سلیم اختر ، رومانوی تنقید ، مشمولہ ایضاً۔ ص، 327
۲۲۔     گوئٹے ،کلاسیکیت اور رومانویت ،مشمولہ ارسطو سے ایلیٹ تک  از ڈاکٹر جمیل جالبی ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس لال کنواں دہلی ، انڈیا ، جون ۱۹۷۷، ص،۳۰۷
۲۳۔    ٹی ایس ایلیٹ ، کلاسیک کیا ہے ، مشمولہ کلاسیکیت اور رومانویت، علی جاوید ،رائٹر گلڈ انڈیا لمیٹڈ،۲۲ غالب اپارٹمنٹس ، پیتام پورہ ، دہلی ، انڈیا،۱۹۹۹۔ص،۳۴

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com