فکر اقبال کی آبیاری میں مقبوضہ کشمیر کی مسا عی
منیر حسین پی ایچ ڈی اقبالیات سکالر '' علامہ ا قبال اوپن یو نیو رسٹی اسلام آباد
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران پروفیسر ،صدر شعبہ اقبالیات ''علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی اسلام آ باد

ABSTRACT:


Kashmir is Heaven on Earth. Kashmiri has famous for their erudition and luminaries past. World first Iqbal Chair was installed in Kashmir university Srinagar in Indian Occupied Kashmir in 1977, Aali Ahmad Saroor was appointed first Iqbal professor in it. After two years in 1979 this Iqbal Chair was designated as Iqbal Instituate and its started Academic and research activities. Apart from this Iqbal Institute Jammu University, Jammu and Kashmir Academy of Art and Cullture and Iqbal Academy Srinagar also promoting the light of Iqbal philosophy in Indian Occupied Kashmir. These Institutes also translated the poetry of Iqbal into many languages i-e, Doghri, Hindi, Kashmiri, Sunskrit, Punjabi and Urdu. More-ever these Institutes organised seminars, extension lectures, conducted infinite conferences and published scores of books over poetry and philosophy of poet of East. Universities of Indian Occupied Kashmir producing dissertations and thesis from Master to PhD in Iqbal political, religious, economic, social and spiritual aspects.

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر                   کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر(۱)
ریاست جموں وکشمیر ایک مردم خیز خطہ ہے ۔ اس خطے سے ہی اقبال کے آباؤ اجداد ہجرت کر کے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں سکونت پزید ہوئے تھے ۔ اقبال کو وادی گل پوش سے والہانہ محبت تھی اور وہ اپنے آ پ کو '' تنم گلے زخیابان جنت کشمیر '' سمجھتے تھے ۔ آپ نے ۱۹۲۱ء میں اس ریاست کا سفر بھی کیا تھا ۔ کشمیری قوم میں بھی تفکر اورتدبر کے خصائص موجود ہیں اس لیے اقبال شناسی کےحوالے سے جو کاوشیں اقبال کی زندگی میں ہوئی ان میں یہ قوم پیش پیش تھی ۔ سب سے پہلے اقبال کے سوانح حالات معہ تصاویر شائع ہوئے۔ وہ ایک کشمیری نژاد محمد دین فوق نے ''کشمیری میگزین '' میں(۱۹۰۹ء)میں شائع کیے ۔ اقبال پر سب سے پہلی کتاب مولوی احمد دین نے بعنوان '' اقبال '' ۱۹۲۳ء میں شائع کی ۔ ریاست میں پہلا یوم اقبال جو منایا گیا اس کے متعلق ڈاکٹر محمد اسد اللہ وانی رقم طراز ہیں :


۔'' ریاست میں پہلا '' یومِ اقبال '' ۱۹۳۸ء میں منایا گیا ۔ یوم اقبال کے مشاعرے کی صدارت منشی سراج الدین احمد نے کی تھی ۔ اس مشاعرے میں روش صدیقی ، عبدالمجید سالک اور حفیظ جالندھری بھی شریک ہوئے ۔ ریاستی شعراء میں قیس شیروانی ، دےنا ناتھ مست ، لاگت جموی اور فاضل کشمیری شامل تھے۔'' (۲)

ریاست کشمیر سے تعلق رکھنے والے  حسن حسرت نے حیات اقبال (۱۹۳۸ء) اور اقبال نامہ (۱۹۴۱ء ) شائع کیں ۔ فکر اقبال کی تراویج میں اس وقت رخنہ پڑا جب ۱۹۴۷ء میں ہندوستان نے عسکری قوت کے بل بوتے پر ریاست کے ایک بڑے حصے پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور مقبوضہ کشمیر میں اقبال کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا ۔ ہندوستا ن کی یہ ہٹ دھرمی مقبوضہ کشمیر کے عوام کو اپنے مربی اور محسن سے ناطہ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ شیخ عبداللہ کے دور اقتدار میں آل احمد سرور نے ۱۹۵۳ء میں کشمیر یونیورسٹی سری نگر میں اقبال پر توسیعی خطبہ دیا۔ کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اصغر فیضی کی فرمائش پر جگن ناتھ آزادنے اقبال پر تین توسیعی خطبات دینے کی حامی بھر لی لیکن حکومت ہند وستان نے جگن ناتھ آزاد کو مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو نے سے روک دیا ۔ یہ تینو ں خطبا ت بعد میں'' ہند وستا ن میں اقبالیا ت آزادی کے بعد '' کے عنوان سے کتا بی صورت میں شا ئع ہو ئے ۔ مقبو ضہ کشمیر میں اقبال کے حوالے سے جو پہلی تصنیف منظر عام پر آئی اس کے متعلق ڈاکٹر اسد اللہ وانی تحر یر کر تے ہیں کہ 


 '' شہزادی کلثوم کو اس ضمن میں اولیت حاصل ہے جنہو ں نے ''شا عرات اور اقبال ''کے عنو ان سے اقبال کے بارے میں ایک کتاب تحر یر کی جسے اس کے بھا ئی اکبر جے پوری نے تر تیب دے کر ۱۹۵۵ء میں منظر عام پرلایا'' ۔ (۳)

مقبوضہ کشمیر کے غیر معمولی حالات کی بد ولت اقبالیا تی سر گر میو ں کو مز ید مہینر نہ مل سکی لیکن ما رچ ۱۹۶۸ء کو جب جگن نا تھ آزاد کو حکومت ہند کی طر ف سے ڈپٹی پر نسپل انفا رمیشن بیو روکی حیثیت سے مقبو ضہ کشمیر میں متعین کیا گیا تو انھو ں نے ریا ست میں اقبالیا تی سر گر میو ں کو تیز کر دیا ۔ اور ۱۹۷۱ء میں کشمیریو نیو رسٹی سر ی نگر میں تین تو سیع خطبا ت بعنوان '' اقبا ل اور جد ید مغربی مفکر ین '' اقبال اور بر گساں '' اور اقبال اور نطشے دئیے ۔ اگست ۱۹۷۱ء میں ظفر اقبال کی تصنیف بعنوان'' اقبال ادیبو ں کی نظر میں '' سر ی نگر سے شا ئع ہو ئی یہ کتا ب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ جگن ناتھ آزاد نے  ۲۷ اکتوبر  ۱۹۷۳ء کو سری نگر میں اقبال نمائش کا بندوبست کیا اس نمائش میں اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں اور اقبال کی مختلف تصاویر کو شامل کیا گیا ۔ اس نمائش میں مقبوضہ کشمیر کے اداروں جامعہ کشمیرسری نگر ،جامعہ جموں ، ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن جموں وکشمیر اور جموں وکشمیر کلچر اکیڈیمی سری نگر نے اہم کردار ادا کیا ۔اس نما ئش کے افتتا ح کے متعلق جگن نا تھ آزاد تحر یر کر تے ہیں کہ


''اس نمائش کا افتتاح حکومت ہند کے وزیر اطلاعات و نشریات جناب اندر کمار گجرال نے کیا تھا۔ جناب شیخ محمد عبداللہ اس میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے ۔''(۴)

اس اقبال نمائش کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اقبال فہمی کی فضا میں نکھار آیا اور سری نگر سے پیر غیاث الدین نے اپنے مجلے '' علم و دانش '' کا اقبال نمبر  ۱۹۷۳ ء میں شائع کیا۔ سری نگر میں بذم یاد گار اقبال نے  ۱۹۷۵ء میں یوم اقبال منایا اس تقریب میں شیخ عبداللہ اور مولوی محمد فاروق دونوں سیاسی حریف اکٹھے شریک ہوئے۔ اور بزم کے جریدے '' دھنک '' نے  ۱۹۷۵ء میں اقبال نمبر بھی شائع کیا ۔ اس یوم اقبال کے موقع پر مقبوضہ کشمیر میں دنیا کی پہلی اقبال چیئر قائم کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلی ٰشیخ عبداللہ سے مطالبہ کیا گیا اس طرح مقبوضہ کشمیر میں  ۱۹۷۷ ء میں دنیا کی پہلی اقبال چیئر قائم کی گئی اس کے متعلق شیخ عبداللہ اپنی کتاب'' آتش چنار '' میں تحریر کرتے ہیں کہ


  '' مجھے ساری عمر قلق رہا کہ علامہ نے میری درخواست پر کشمیر آنا مان لیا تھا لیکن پہلے ڈوگرہ حکومت نے اس کی راہ میں مشکلات پیدا کیں اور بعد میں موت کا بے رحم ہاتھ ان کی راہ میں ہمیشہ کے لئے حائل ہو گیا اور ہم نے ان کی یاد میں کشمیر یونیورسٹی میں دنیا کی پہلی مسند اقبال قائم کی ہے۔ '' (۵)

مقبوضہ کشمیر میں اقبال صدی تقریبات کے انعقاد کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے چیئرمین مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ تھے ۔ اقبال صدی کی تقریبات میں کلام اقبال پر مبنی موسیقی ، مشاعرے ، سیمینار ، تراجم ، مصوری اور اقبال مباحث شامل تھے۔ اقبال صدی تقریبات مقبوضہ کشمیر میں ایک سال تک جاری رہیں جن کی بدولت اقبال شناسی کے متعلق کئی سنگ میل عبور ہوئے ۔ مقبوضہ کشمیر کے مختلف اخبارات ، جرائد اور رسائل نے اقبال کے حوالے سے مختلف خصوصی ایڈیشن شائع کیے ۔ العطش ، بازیافت ، شیرازہ جیسے رسائل نے خصوصی اقبال نمبر شائع کیے ۔ مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام نے اقبال چیئر کو مزید ترقی کا مطالبہ کر دیا جس کے متعلق ڈاکٹر ریاض توحید ی تحریر کرتے ہیں کہ


'' ۱۹۷۹ء میں اس چیئر کو توسیع دے کر اقبال انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کیا گیا ۔ علامہ اقبال کے نور بصیرت کو عام کرنے کے سلسلے میں اقبال انسٹی ٹیو ٹ نہ صرف وادی بلکہ ہندوستان کے دوسرے اقبالیاتی اداروں میں بقعہ نور کی حیثیت رکھتا ہے ۔''(۶)

اقبال انسٹی ٹیوٹ کا اپنا تحقیقی مجلہ '' اقبالیات '' ۱۹۸۱ء سے سالانہ بنیادوں پر شائع ہورہا ہے ۔ اس مجلے میں اقبال کےفکر و فن کے حوالے سے دنیا کے اہم اقبال شناسوں کے مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ یہ ادارہ مختلف سیمینارز بھی منعقد کرواتا رہتا ہے۔ ان سیمینارز میں مقبوضہ کشمیر کے علاوہ ہندوستان اور دنیا کے مختلف اقبال شناسوں کو دعوت دی جاتی ہے تاکہ فکر اقبال کو عام کیا جا سکے ۔ اس ادارے میں جو مختلف سیمینارز منعقد ہوئے ہیں ان میں اقبال اور تصوف(۱۹۷۷ء ) اقبال اور مغر ب (۱۹۷۸ء)جدیدیت اوراقبال ( ۱۹۸۱ء)اقبال اور اُردو نظم (۱۹۸۴) اقبال کی شاعری کا استعاراتی نظام ( ۱۹۸۷ء ) اقبال کی فارسی شاعری ( ۱۹۸۷ء) ، اقبال ۔۔ خطابت اور شاعری ( ۱۹۸۹ء ) ، اقبال اور قرآن ( ۱۹۹۲ء ) اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ، ( ۱۹۹۵ء) ، اقبال کا فن ( ۱۹۹۷ء ) ، وہ دانائے سبل ختم الرسل ؐ ( ۱۹۹۹ء) ، اقبال اور معاصر نظام تعلیم ( ۲۰۰۰ء)، اقبال اور تعمیر آدمیت ( ۲۰۰۱ء) ، اقبالیات گذشتہ دس سال ( ۲۰۰۳ء) عہد جدید میں دانش ور اقبال کی معنویت ( ۲۰۰۹ء) فکر و فن اقبال کے چند پہلو ( ۲۰۱۲ء) ، اقبال اور عظمت آدم (۲۰۱۲ء) ، قرآن حکیم اور فکر اقبال (۲۰۱۶ء )۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ میں سیمنارز کے علاوہ توسیعی خطبات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ۔ تا کہ فکر اقبال کو سہل اور عام فہم انداز میں سمجھایا جا سکے ۔ مقبوضہ کشمیر کے اقبال شناسوں کے علاوہ ہندوستان کے اقبال شناسوں میں ایس کے گھوش ، پروفیسر دیا کرشن، خشونت سنگھ ، پروفیسر سید وحید الدین ، ابوالحسن علی ندوی ، پروفیسر سعید احمد اکبر آبادی ، ڈاکٹر مسعود حسین ، ڈاکٹر شکیل الرحمن ، کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اے ٹی ایمبری ،پریگا رینا نتاشااور جرمن مستشرقہ پروفیسر اناماری شمل بھی مقبوضہ کشمیر میں توسیع خطبات دئیے ہیں ۔  
اقبال انسٹی ٹیوٹ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی اقبالیات کی سطح پر تعلیم بھی دی جاتی ہے اب تک اس ادارے سے سو سکالرز نے ایم فل اور تیس سکالرز نے ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے (۸۰) کتب اقبال فہمی کے حوالے سے شائع کی ہیں ۔ جگن ناتھ آزاد اقبال انسٹی ٹیوٹ کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ


 '' تاریخ اقبالیات میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی سری نگر کی ادبی خدمات سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ اس ادارے نے معیاری سیمناروں کے انعقاد ، توسیعی لیکچروں اور بلند پایہ کتب اور اپنے جریدے کی اشاعت سے جس طرح اقبالیات کو فروغ دیا ہے اس کی نظیر ملک بھر میں نہیں ملتی ۔'' (۷)

مقبوضہ کشمیر کے سرمائی دارالحکومت میں قائم جامعہ جموں فکر اقبال کی ترویج میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ اس جامعہ میں جگن ناتھ آزاد اور گیان چند جین جیسے اقبال شناسوں کی بدولت اس علاقے میں فکر اقبال کی تفہیم کو سہل کر دیا ہے ۔ یہاں ڈاکٹر عبدالحق، جگن ناتھ آزاد اور پروفیسر عبدالمغنی جیسے اقبال شناس توسیع خطبات دیتے رہے ہیں ۔ اقبال صدی تقریبات کے دوران محفل مشاعرہ اقبال نمائش اور مختلف سیمنارز بھی منعقد کیے جاتے رہے ہیں جامعہ جموں کا تحقیقی مجلہ '' تسلسل '' بھی فکر اقبال کی تفہیم میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ اس یونیورسٹی میں ایم فل اقبالیات کے دومقالات اور پی ایچ ڈی اقبالیات کے حوالے سے بھی دو مقالات لکھے جا چکے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں جموں و کشمیر کلچر اکیڈیمی بھی اقبالیاتی سرگرمیوں کا ایک محور ہے ۔ اقبال صدی کی تقریبات اس ادارے کے تعاون سے مقبوضہ کشمیر میں منعقد کی گئی ۔ اس ادارے نے دو سیمنارز بھی منعقد کیے ۔ پہلا سیمنارز ۲۵ اکتوبر  ۱۹۷۵ ء سری نگر کے ٹیگور ہال میں منعقد ہوا س کی صدارت شیخ عبداللہ نے کی اور کل چھتیس مقالات پیش کئے گئے ۔ اقبال صدی کا دوسرا سیمنار جموں میں منعقد کیا گیا جس میں کل چودہ مقالات پیش کیے گئے ۔ ان مقالات کو مرتب کر کے اسد اللہ وانی نے '' محفل اقبال '' (۱۹۷۸ء)کے عنوان سے شائع کیا ۔ اس ادارے کا مستقل مجلہ '' شیرازہ ''  جو مقبوضہ کشمیر کی مختلف علاقائی زبانوں میں شائع ہوتا ہے ۔ اس مجلے میں اقبال کے متعلق خاطر خواہ مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ۱۹۷۷ء میں اس مجلے کا اقبال نمبر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا تھا ''شیرازہ'' کا ارد و اقبال نمبر رشید نازکی ، ہندی کا اقبال نمبر رمیش مہتہ نے ، ڈوگری زبان میں اوم گو سوامی نے اور کشمیری زبان میں اقبال نمبر محمد امین کامل نے مرتب کیا یہ ادارہ مقبوضہ کشمیر میں فکر اقبال کو مختلف زبانوں میں عام کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ یہ ادارہ اقبالیاتی مطبوعات کو شائع کرنے اور شائع کروانے میں مالی مدد بھی فراہم کرتا ہے ۔ کلام اقبال کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کروانے کا بندوبست بھی کرتا ہے ۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی اس ادارے کی اقبالیاتی سرگرمیوں کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ


   ''کلچر اکیڈیمی نے ریاست بھر میں اقبالیاتی سرگرمیوں کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے ۔ اکیڈیمی نے کلام اقبال کو ریاست کی بڑی زبانوں میں ترجمہ کروایا ۔ اقبال نمبر بھی شائع ہوا جس میں ریاست کے ماہرین اقبالیات کے مضامین شائع کئے گئے ۔''(۸)

مقبوضہ کشمیر کے اقبال شناس اور ان کی اقبالیاتی تصانیف
۱۔    ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری :۔
 آپ ۱۹۲۹ء کو سری نگر میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۶۰ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ نے پرانے رسائل و جرائد میں موجود اقبالیاتی آثار کو منظر عام پر لایا ۔ آپ نے ماہنامہ رسالہ '' حکیم الامت '' ۲۰۰۶ء میں بڈگام سے اور ۲۰۰۹ء میں اس رسالے کو سری نگر سے شائع کرنا شروع کیا آپ کی وفات کے بعد اب یہ رسالہ ڈاکٹر ظفر حیدری سری نگر سے شائع کر رہے ہیں یہ رسالہ مقبوضہ کشمیر میں فکر اقبال کی آبیاری میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے ۔ آپ کی مندرجہ ذیل اقبالیاتی تصانیف ہیں ۔ اقبال کی صحت زبان (۱۹۹۸ء) اقبال اور علامہ شیخ زنجانی (۲۰۰۲ء ) معرکہ اسرار خودی (۲۰۰۴ء) اقبال نادرمعلومات (۲۰۰۶ء ) اقبالیات کے نئے گوشے (٢٠٠٩ء ) اور کلام اقبال ناد رو نایاب رسالوں میں (۲۰۰۹ء )
۲۔    ڈاکٹر بشیر احمد نحوی :۔    
 آپ مقبوضہ کشمیر کے ضلع اسلام آباد میں ۱۹۵۵ء میں پیدا ہوئے ۔ پی ایچ ڈی کا مقالہ آل احمد سرور اور ضیا الحسن فاروقی کی زیر نگرانی لکھا ۔آپ کو اقبال کا بیشتر اردو اور فارسی کلام زبانی یا دہے اس لئے آپ کو حافظ اقبال کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر کے ڈائریکٹر بھی رہے ہیں ۔ آپ کی مندرجہ ذیل اقبالیاتی تصانیف شا ئع ہو ئیں ۔ اقبال افکار و احوال (۱۹۸۹ء) وحدۃ الوجود اور اقبال (۱۹۹۲ء) حکیم مشرق (۱۹۸۹ء) چشمہ آفتاب (۱۹۹۶ء) مسائل تصوف اور اقبال (۲۰۰۰ء) ، اقبال اور تجزیہ (۲۰۰۰ء) اقبال عرفان کی آواز (۲۰۰۱ء) اقبال کی تجلیات (۲۰۰۱ء)نفحات اقبال (۲۰۰۰ء) وہ دانائے سبل ختم الرسل ؐ (۲۰۰۱ء ) ، اقبالیا ت گزشتہ دس سال (۲۰۰۴ء) اقبال بحر خیال (۲۰۰۷ء ) ۔ آپ نے بائیس ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالات کے نگران بھی رہے ہیں ۔
۳۔    ڈاکٹر بد ر الدین :۔
 آپ اسلامیہ کالج سری نگر میں صدر شعبہ عربی واسلامیات کے علاوہ اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر میں وزٹنگ فیلو بھی رہے ہیں ۔ آپ کی دو اقبالیاتی تصانیف اقبال اور عالم عرب (۲۰۰۷ء ) اور جامہ کشمیر اور اقبالیات (۲۰۰۹ء ) منظر عام پر آ چکی ہیں۔
۴۔    ڈاکٹر تسکینہ فاضل :۔
آپ ۱۹۵۵ء میں مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئیں آپ کے والد فاضل کشمیری ایک نامور شاعر تھے جنہوں نے ۱۹۳۸ء کے منعقدہ یوم اقبال سری نگر کے مشاعرے میں بھی شرکت کی تھی ۔ آپ نے آل احمد سرور کی زیر نگرانی ڈاکٹر یٹ کا مقالہ لکھا ۔ آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر میں ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئیں ۔ آپ کی زیر نگرانی تیرہ ایم فل اورپی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے ۔ آپ کی اقبالیاتی تصانیف میں مطالعہ اسرار خوری(۲۰۰۰ء) اقبال اور ان کے معاصر شعراء و ادباء (۲۰۰۳ء ) اقبال نقش ہائے رنگ رنگ (۲۰۰۴ء) اقبال اور مطالعات اقبال (۲۰۰۸ء) اقبال اور عظمت آدم (۲۰۱۳ء ) جادو نوا اقبال (۲۰۱۴ء) فکر وفن اقبال کے چند پہلو (۲۰۱۴ء ) شا مل ہیں۔
۵۔    ڈاکٹر حامد کاشمیری:۔
آپ ۱۹۳۲ء میں سری نگر میں پیداہوئے ۔ آپ ایک نقاد اور اقبال شناس ہیں ۔ اکتشافی تنقید کے بانی تصور کیے جاتے ہیں ۔ کشمیر یونیورسٹی سری نگر شعبہ اردو کے صدربھی رہے ہیں ۔ آپ کی اقبالیاتی تصانیف میں آئینہ ادراک (۱۹۹۳ء) اقبال اور غالب کا تخلیقی عمل کا مطالعہ (۱۹۷۸ء ) حرف راز اقبال کا مطالعہ (۱۹۸۳ء )اور اقبال کا تخلیقی شعور (۲۰۰۶ء ) منظر عام پر آ چکی ہیں۔
۶۔    حکیم منظور :۔
آپ ۱۹۳۷ء کو سری نگر میں پید ا ہوئے ۔ آپ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے عہدوں پر فائز رہے آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عامر پر آ چکے ہیں ۔آپ کی ایک اقبالیاتی تصنیف '' اقبال ایک تذکرہ (۲۰۰۰ء) میں شائع ۔ ۲۰۰۶ء میں سری نگر میں آپ کا انتقال ہوا۔
۷۔    ڈاکٹر ریاض توحیدی:۔
 آپ مقبوضہ کشمیر کے ایک ابھرتے ہوئے اقبال شناس ہیں ۔ آپ نے اقبال ا نسٹی ٹیوٹ سری نگر سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ اس وقت تک آپ کی دو اقبالیاتی تصا نیف "جہا ن ا قبال (۲۰۱۰ء) اور خلیفہ عبد ا لحکیم بطور اقبا ل شناس (۲۰۱۳ء)منظر عا م پر آ چکی ہیں۔
۸۔     عبد اللہ خا ور :۔
آ پ کشمیر یو نیو رسٹی سر ی نگر کے لایبئر یرین کے فر ا ئض سر انجا م دیتے رہے ہیں ۔آ پ کا اقبال کے سا تھ قلبی لگا ؤ اس قدر تھا کہ لا ئبر یر ی میں مو جو د رسا ئل و جرائداو ر کتب کے اشارئیے مر تب کرکے مقبو ضہ کشمیر سے شا ئع کیے ۔ آ پ کا پہلی مر تبہ اشا ریہ بعنوان مطبو عا ت اقبا ل انسٹی ٹیو ٹ( ۱۹۹۹ء) اور ـ"مفتائے اقبال ــ" کی تین جلدیں شا ئع ہو ئیں ۔ آ پ کے مر تب کر دہ اشارئیے مقبو ضہ کشمیر میں اقبال شنا سی میں اہم مقا م رکھتے ہیں ۔
۹۔    ڈاکٹر غلام رسول ملک :۔
آپ نے ۱۹۸۴ء میں جامعہ کشمیر سری نگر کے شعبہ انگریزی سے پی ایچ ڈی کی ڈگر ی حا صل کی ۔اس جا معہ میں ہی آپ ڈین فیکلٹی آف سو شل سا ئنسز رہے ۔ اقبالیا ت کے حو الے سے آ پ کی اُردو تصنیف سر ود سحر آفر ین (۱۹۹۲ء) او راقبال کا فکر وفن ایک مطالعہ (۲۰۱۴ء) آپ کی کتاب "سر ودسحر آفرین "اقبال اکادمی لا ہو ر سے بھی شا ئع ہوئی ۔ آ پ کی انگریز ی میں دو اقبالیاتی کتب (۱۹۹۰ء) The Bloody Horizonاور                                       ( English Romantics(2014 Iqbal and )شا ئع ہوئی ہیں۔
۱۰۔    ڈاکٹر محمد امین اندرابی:۔
آپ ۱۹۴۰ءکو ملارٹہ سر ی نگر میں پید ا ہو ئے ۔ آپ نے ڈاکٹر یٹ کا مقا لہ آل احمد سر ور کی زیر نگرانی لکھا ۔ آپ نے جا معہ کشمیر سر ی نگر میں تدریسی خد ما ت سر انجا م دیں۔ آپ مقبو ضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے اقبال انسٹی ٹیو ٹ سر ی نگر کے پہلے ڈائر یکڑ تھے ۔آپ کی ادارت میں انسٹی ٹیوٹ کے مجلہ "اقبالیا ت"کے سات شمارے شائع ہو ئے ۔آپ کی اقبالیا تی تصا نیف میں اقبال کی فارسی شاعری (۱۹۸۹ء)، اقبال اور غزل (۱۹۸۹ء) مطالعہ مکاتیب اقبال (۱۹۹۱ء) اقبال اور قر آن (۱۹۹۴ء) اقبال کا فن (۱۹۹۸ء) اقبالیات کا تنقید ی جا ئزہ شامل ہیں۔آپ کا انتقال ۲۰۰۱ء میں سر ی نگر میں ہو ا ۔

 

۱۱۔         مرغو ب بانہا لی:۔
آ پ جامعہ کشمیر کے شعبہ فارسی ،کشمیری اور وسط ایشا ئی مطالعا ت میں تددیسی خد ما ت سر انجا م دیتے رہے ہیں ۔ آپ اقبال انسٹی ٹیو ٹ میں اقبال کے فارسی کلام پڑھا نے پر ما مو ر رہے ہیں ۔ آ پ کی دو تصا نیف آدم گری اقبال(۲۰۰۴ء) اور کلا م اقبال کے روحا نی ،فکر ی اور فنی سر چشمے (۲۰۰۴ء) شا ئع ہو چکی ہیں ۔
۱۲۔    ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی :۔
اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ۱۹۶۳ء میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع سوپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ۲۰۰۲ء میں ڈاکٹر یٹ کا مقالہ ڈاکٹر بشیر احمد نحوی کی زیر نگرانی لکھا ۔ اقبالیات کے حوالے سے اس وقت تک آپ کی چار تصانیف بعنوان '' تشکیل جدید الہیات کے مسلم اعلام (۲۰۰۲ء ) ، اقبال عشق رسول ؐکے آئینے میں (۲۰۰۴ء ) نالہ نیم شب (۲۰۰۸ء ) اور نظریہ اجتہاد اور اقبال (۲۰۰۸ء) شائع ہو چکی ہیں۔
۱۳۔    غلام نبی خیال :۔
آپ مقبوضہ کشمیر کے ایک نامور صحافی اور محقق ہیں ۔ آپ کی تصنیف '' اقبال اور تحریک آزادی کشمیر '' بیک وقت سری نگر اور اقبال اکادمی لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اقبال اور تحریک آزادی کشمیر کے متعلق بعض غلط فہمیوں کو حقائق کی روشنی میں رد کیا ہے۔
۱۴۔    سید علی گیلانی :۔
مقبوضہ کشمیر کی تحریک حریت کے ایک اہم رہنما آپ کی تصنیف '' اقبال روح دین کا شناسا '' سری نگر سے ۲۰۰۰ءمیں اور ۲۰۰۹ ء میں یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی ۔ اس کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر جاوید اقبال تحریر کرتے ہیں کہ '' آزاد ی کشمیر کی تحریک میں علی گیلانی کے لئے کلام اقبال ایک بڑا سرچشمہ ثابت ہوا ان کی زیر نظر کتاب اقبال روح دین کا شناسا اسی تعلق کی داستان اور شہادت پیش کرتی ہے۔''(۹)

۱۵۔   ڈاکٹر مدثر ماجد :۔
آپ اس وقت جو ہر نگر کے کالج میں تدریس خدمات سر انجام دے رہے ہیں آپ نے اقبال انسٹی ٹیوٹ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ آپ کی ایک اقبالیاتی تصنیف کلام اقبال کی شرحیں تحقیقی جائزہ (۲۰۱۱ء ) شائع ہو چکی ہے۔
۱۶۔    معید الظفر :۔
اس وقت آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ میں تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کی تخلیق تہذیبی تصادم اور فکر اقبال (٢٠٠٤ء ) موجودہ دور کے عالمی حالات کے تناظر میں ایک اچھی کاوش ہے۔
۱۷۔    ڈاکٹر فیض احمد :۔
آپ نے جامعہ کشمیر کے شعبہ اردو میں ''اقبال ، انسان اور خدا ''کے عنوان سے ڈاکٹر قدوس جاوید کی زیر نگرانی ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا ۔ آپ کی تصنیف '' صحبت صالحین فکر اقبال کی روشنی میں '' (۱۹۹۸ء) شائع ہو چکی ہے۔
۱۸۔    عرفان ترابی :۔
آپ کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے کا وہ پورہ سے ہے۔ آپ نے کشمیری زبان میں '' اقبال تہ فلسفہ خودی''(۲۰۱۱ء ) میں تحریر کی ۔ اور ۲۰۱۴ء میں '' اقبال کا فلسفہ خوری '' ایک ضخیم کتاب لکھی ۔
۱۹۔    ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اصلاحی :۔
آپ نے عربی میں ڈاکٹریٹ کی ہوئی ہے اور اقبال انسٹی ٹیوٹ میں تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ آپ کی کتاب ـ"شو قی اور اقبا ل "(۲۰۱۷ء) دو نوں مشاہیر کے درمیان مما ثلتو ں کو سمجھنے کی ایک عمد ہ کو شش ہے ۔مند رجہ بالا اقبالیا تی تخلیقا ت کے علاوہ مقبو ضہ کشمیر سے وہ کتب بھی منظر عا م پر آئی جن کے تخلیق کا ر مقبو ضہ کشمیر کے رہا ئشی نہیں تھے بلکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں در س و تدریس کے سلسلہ میں تعینات رہے۔
۲۰۔    پروفیسر آ ل احمد سر ور :۔
مقبو ضہ کشمیر میں دنیا کی سب سے پہلی اقبال چیئر کا قیا م عمل میں لایا گیا تو عا لمی شہرت یا فتہ اقبال شناس آل احمد سرور (۱۹۱۱ء-۲۰۰۲ء) کو تعینات کیا گیا اور جب اقبال چیئر کو اقبال انسٹی ٹیو ٹ کا در جہ دیا گیا آپ کو اس کے پہلے ڈا ئر یکٹر ہو نے کا شر ف حا صل ہے ۔ قیا م مقبو ضہ کشمیر کے دوران آ پ کی مند رجہ ذیل کتب مقبوضہ کشمیر سے منظر عا م پر آئیں ۔ اقبال او ر تصوف،(۱۹۸۰ء) اقبال اور مغر ب (۱۹۸۱ء) تشخص کی تلاش اور اقبال (۱۹۸۴ء) جد ید یت اور اقبال (۱۹۸۵ء) اقبال اور اُردو نظم (۱۹۸۵ء) Modernity and Iqbal ,اقبال انسٹی ٹیوٹ میں آپ کی نگرانی میں چو دہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقاما ت لکھے گئے ۔ آ پ کی ادارت میں ہی رسالہ ـ"اقبالیا ت "کا آغا ز ہو ا ۔
۲۱۔    ڈاکٹر شکیل الر حمن :۔
  آ پ کا تعلق حید رآ با د سے تھا ۔۱۹۶۱ء میں آ پ نے ڈی لٹ کی ڈگر ی حا صل کی ۔ آپ اپنی ملازمت کے دوران مقبو ضہ کشمیر کی جا معہ کشمیر میں لیکچرر ، ڈین فیکلٹی آف آرٹ اور وائس چانسلر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ مقبوضہ کشمیر سے آ پ کی دو اقبالیات تصا نیف"اقبال کی جما لیا ت چند بنیا دی اشارے "(۱۹۷۳ء) اور اقبال اور فنو ن لطیفہ (۱۹۷۳ء) منظر عام پر آچکی ہیں۔ آ پ کا انتقال ۱۱مئی ۲۰۱۶ء کو ہو ا ۔
۲۲ ۔  جگن نا تھ آ زاد :۔
آ پ نے مقبو ضہ کشمیر میں اقبال شنا سی کے حو الے سے بہت اہم کر دار ادا کیا ۔ سر ی نگرمیں اقبال نما ئش آپ ہی کاکا ر نا مہ ہے ۔اس کے علاوہ آپ نے مختلف جگہو ں پر اقبال پر تو سیعی خطبات بھی د یئے ۔ اقبالیات کے حو الے سے آ پ کا ذخیر ہ مقبو ضہ کشمیر کے قیا م کے دوران ہی معر ض وجو د میں آ یا ۔   اقبال اور کشمیر (۱۹۷۷ء)، فکر اقبال کے بعض پہلو(۱۹۸۲ء) اقبال کی کہانی (۱۹۸۴ء) محمد اقبال ایک ادبی سوانح (۱۹۸۴ء) مر قع اقبال (۱۹۹۶ء) روداد اقبال جلد اول (۲۰۰۵ء) مر تبہ امین بنجارا شامل ہیں۔

 

۲۳۔    سید وحید الد ین:۔
  آ پ ۱۹۰۹ءمیں حید ر آ با د دکن میں پید ا ہو ئے آ پ عثما نیہ یو نیو ر سٹی میں فلسفے کے استا د رہے ہیں۔ پرو فیسر آ ل احمد سر ور آ پ کو تو سیعی خطبا ت کے لیے مقبو ضہ کشمیر میں بلاتے رہے ہیں۔ یہ تو سیعی خطبا ت بعض میں کتا بی صو ر ت میں مقبو ضہ کشمیر سے شا ئع ہو ئے ۔ ان کتب میں حکمت گو ئٹے اور اقبال (۱۹۸۴ء) ،تفکر اقبال (۱۹۸۷ء) فلسفہ اقبال (۱۹۸۷ء) اور اقبال اور مغربی فکر (۱۹۸۷ء) شامل ہیں ۔ آپ ۱۹۹۸ءمیں اس دار فانی سے کو چ کر گئے ۔
۲۴۔    سعید احمد اکبر آبادی :۔
اقبال چیئر کے قیام کے بعد جب پہلا سیمنار منعقد ہو ا تو اس میں سعید احمد اکبر آ با دی نے اپنا مقالہ "اقبال اورتصو ف"کے عنو ان سے پیش کیا ۔ اس کے علاوہ خطبا ت اقبال کے حوالے سے کئی تو سیعی خطبا ت دیئے یہ خطبا ت کتا بی صو ر ت میں مقبو ضہ کشمیر سے "خطبا ت اقبال پر ایک نظر "(۱۹۸۳ء) کے عنوان سے شا ئع ہو ئے ۔ آ پ کی یہ کتا ب اقبال اکادمی لا ہو ر سے بھی شا ئع ہو چکی ہے ۔
۲۵ ۔    ڈا کٹر عبد الحق :۔
ہندوستا ن کے انتہا ئی معتبر اقبال شنا س ڈا کٹر عبد الحق مقبو ضہ کشمیر میں مختلف اقبالیا تی سر گر میو ں میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ آ پ کی کتا ب "اقبال اور اقبالیا ت (۲۰۰۹ء) سر ی نگر سے شا ئع ہو ئی ۔ آ پ نے جا معہ جمو ں میں اقبال پر تو سیعی خطبا ت بھی دیئے ہیں۔
تر اجم اقبال
مقبو ضہ کشمیر میں افکا ر اقبال کو عام فہم بنا نے کے لیے اقبال کے کلام کو مقامی زبانو ں میں تر جمہ کر نے کا ر جحا ن بھی بہت ذیا دہ پا یا جا تا ہے ۔ ان تر اجم کی بدولت افکا ر اقبال تک عام آدمی کی رسائی آ سان ہو جا تی ہے ۔مقبو ضہ کشمیر میں مندرجہ ذیل افر اد نے تر اجم اقبا ل میں اہم کر دار ادا کیا ہے ۔ غلام احمد نا ز کل گامی نے "اسرار خو ری ـ" کا تر جمہ کشمیر ی زبا ن میں کیا ۔سید غلام قا دراندرابی نے با ل جبریئل، -پس چہ با ید کر داے اقوام شر قــ، ضر ب کلیم ،جا و ید نامہ اور گلشن رازِ جدیدکا تر جمہ کشمیر ی زبا ن میں کیا۔سلطان الحق شہید ی نے پیا م مشر ق کا تر جمہ کشمیر ی زبا ن میں کیا ۔محمد امین کا مل نے اقبال کے اردو کلام کے منتخب حصو ں کا تر جمہ کشمیر ی زبا ن میں ــ"زژہلم" کے نا م سے کیا ۔مو تی لال پشکر نے کلام اقبال کے منتخب حصو ں کو سنسکر ت زبا ن میں تر جمہ کر کے "اقبال کا دیہ درشتم "کےعنو ان سے شا ئع کیا۔ڈاکٹر چمن لال رینا نے کلام اقبال کے منتخب حصوں کو ہندی کا رو پ دے کر "اقبال کا ودرش " کے عنو ان سےشا ئع کیا۔سر دار امر یک سنگھ نے شکو ہ اور جو اب شکوہ کا پہا ڑی زبا ن میں ترجمہ کر کے شا ئع کیا ۔ مجا ز جے پو ری نے کلام اقبال کی تفمین کر کے "دوآبہ ـ"کے نام سے شا ئع کیا ۔ مقبو ضہ کشمیر میں تراجم اقبال کی افا دیت کے متعلق کلیم اختر لکھتے ہیں کہ


 "کلام اقبال کے کشمیر ی اور دیگر زبانو ں میں تر اجم اس دور میں بے حد ضر وری ہیں۔ کیو نکہ علامہ اقبال نے کشمیر ی عوام کی جس مظلومی اور محکو می کے خلاف آواز بلند کی تھی وہ حالت آج بھی مقبوضہ کشمیر میں جا ری ہے"۔(۱۰)

ٍ            مقبوضہ کشمیر میں ان اقبالیاتی تصانیف اور تراجم اقبال کے علاوہ ایسی تخلیقات کی کثیر تعداد موجود ہے جن میں اقبال کے حوالے سے جزوی مقالات اور مضامین موجودہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں اقبال شناسی کے اتنے بڑے ذخیرے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ڈائریکٹر اقبال انسٹی ٹیوٹ سری نگر ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی تحریر کرتے ہیں کہ


 '' کشمیر میں علامہ اقبال کی مقبولیت کا سبب صرف ان کا فکر و فن ہی نہیں بلکہ اقبال اصل میں تو فرزند کشمیر ہی ہیں ۔ لہذا برصغیر کے ہر حصے بلکہ تمام دنیا سے زیادہ اہل کشمیر کو قبال پر فخر و ناز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اقبال کی شاعری اور فکر و عمل کے اثرات قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال شناسی اور اقبال فہمی کا آغاز ان کی زندگی میں ہوا۔ ''(۱۱)

''فردوس بروئے زمین است'' کو آج جس طرح ہندوستان نے گولے بارود کا ڈھیر بنایا ہوا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان مجاہد سروں پر کفن باندھ کر بے سروسامانی کے عالم میں دس لاکھ بھارتی افواج کا مقابلہ جس بے جگری سے کر رہے ہیں تو یہ فکر اقبال کا یہ دیا ہوا درس حریت ہے جس کی بدولت وہ اپنا پیدائشی حق مانگ رہے ہیں ۔ پروفیسر مسر ت صبوحی اس کے متعلق تحریر کرتی ہیں کہ


 '' آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر آتش چنار بھڑک اٹھی ہے اور اس کے شعلے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں اور علامہ اقبال کی شاعری نے کشمیریوں کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دی ہے ۔ اقبال کے فلسفہ انقلاب نے کشمیر ی رہنماؤں ، عوام اور دانش وروں کو متاثر کیا تو وہ آزادی کا علم تھامے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔'' (۱۲)

ڈاکٹر عبدالحق جو مقبوضہ کشمیر میں توسیعی خطبات اور لیکچرز کے لئے اکثر تشریف لاتے رہتے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب '' اقبال شاعر رنگین نوا '' میں مقبوضہ کشمیر میں اقبال شناسی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ


 '' کشمیر سے ا قبال کو جذباتی تعلق ہے وہاں کی تحریک آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کی شرو ع سے ہی بڑا دخل رہا ہے ۔ ان کی حیات میں ہی داعیان تحریک رہنمائی حاصل کرتے تھے ۔ مختصر عرض کروں اقبال کے اثرات نے نئی جنبش پیدا کی ۔''(۱۳)

مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارتی مظالم کے باوجود بھی فکر اقبال سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنا پیدائشی حق مانگ رہے ہیں ۔ بھارتی توپوں کی گن گرج بھی ان کے آہنی عزم کو متزلزل نہیں کر سکی ۔ ان حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر حسین ظفرتحریر کرتے ہیں کہ


'' حالا ت کے نشیب و فراز کے باوجود اقبال اور اقبال کی فکر سے آگاہی اور محنت کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر میں ہر مقرر اپنی تقریر ، ہر خطیب اپنے خطبے اور ہر مدرس اپنی تدریس کو کلام اقبال کے ذریعے موثر بناتا ہے آج بھی شعر اقبال کشمیر میں ابلاغ کا عمدہ ذریعہ ہیں ۔''(۱۴)

   آج کشمیریوں کی تیسری نسل آتش چنار میں سانس لے رہی ہے ۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہوگا ۔ کیونکہ اقبال نے اپنی دورس نگاہ سے اس قوم کی خصوصیات کو پرکھتے ہوئے کہا تھا کہ
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار             ممکن نہیں کہ سر د ہو وہ خا ک ارجمند (۱۵)
حوالہ جات :
۱۔           محمد اقبال ، کلیات اقبال ، اردو ، لاہور ، شیخ غلام علی اینڈ سنز ، ۱۹۷۹ء ، ص۶۷۸
۲۔          بشیر احمد نحوی ، ڈاکٹر ، (مرتبہ ) اقبالیات گذشتہ دس سال ، سری نگر ، اقبال انسٹی ٹیوٹ ، ۲۰۰۴ء ، ص ۱۱۳              
۳۔          محمد امین اندرابی ، ڈاکٹر ، (مرتبہ ) اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ، سری نگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ، ۱۹۹۷ء ، ص۱۶۹   
۴۔             جگن ناتھ آزاد ، ہندوستان میں اقبالیات آزادی کے بعد، لاہور ، مکتبہ علم و دانش ، اشاعت اول ،۱۹۹۱ء ، ص۳۶                       
۵۔          محمد عبداللہ ، شیخ ، آتش چنار ، راولپنڈی ، رائل پبلشنگ کمپنی ، ۲۰۱۲ء ، ص ۱۹۶
۶۔          ریاض توحیدی ، ڈاکٹر ، جہان اقبال ، سری نگر ، میزان پبلشرز ، ۲۰۱۰ء ، ص ۱۶۵
۷۔         جگن ناتھ آزاد ، تعمیر فکر ، جموں کریسنٹ ہاؤس ،۲۰۰۳ء ، ص ۴۵
۸۔          ریاض توحیدی ، ڈاکٹر ، جہان اقبال ، ص ۱۶۵
۹۔          علی گیلانی ،سید، اقبال روح دین کا شناسا ، لاہور ، منشورات ، ۲۰۰۹ء ص ۸

۱۰۔           کلیم اختر ، اقبال اور مشاہیر کشمیر ، سری نگر ، گلشن پبلشرز ، ۲۰۰۲ص ۳۴۵
۱۱۔         بشیر احمد نحوی ، ڈاکٹر ، اقبالیات گزشتہ دس سال ، ص ۱۵۳
۱۲۔         مسرت صبوحی ، پروفیسر ، کشمیر میں مذاحمتی ادب ، میرپور ،علی پرنٹر،  ۳۰۱۴ء ، ص ۲۵
۱۳۔        عبدالحق ، ڈاکٹر ، اقبال شاعر رنگین نوا، نئی دہلی ، دریائے گنج ، ۲۰۰۹ء ، ص ۲۵
۱۴۔        ظفر حسین ظفر ، وادی گل پوش ، لاہور ، منشورات ، ۲۰۱۲ء ، ص ۱۰۹
۱۵۔        محمد اقبال ، کلیات اقبال (اردو ) ، ص ۶۸۱
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com