اردو ادب کے ابتدائی نقوش اور پشتون اہل قلم
ڈاکٹر  محمد   حنیف خلیل  ۔ ایسوسی ایٹ  پروفیسر  ، نیشنل  انسٹی ٹیوٹ  آف  پاکستان  سٹڈیز 
قائد اعظم  یونیورسٹی  اسلام  آباد

ABSTRACT:


The prevailing Urdu is a rich language having very vast literary backround since very long. About the birth and becoming the literary language few regional concepts come into force in Indian sub-continent that were determined by geographical and historical factors in addition to linguistic structure and literary backround. Different scholars have broght forward their own concepts about the birth and initial writings of Urdu. Keeping in mind the Punjab’s concept, it is historically described that Muslims in the shape of different mobs came into Punjab from Afhanistan through Khyber Pass and after their arrival Urdu has been emerged as a literary language as a result of their interaction with local people. They were the Khilgi Pathans and other Pashtoon tribes who gave literary status to this language.
When Urdu was called Hindi, Hndvi, or Hindustani, Afghans have played a prominent role in its initial formation and when the language was called Urdu, Deccani and Gujarati etc.They where the Pashtoons who distinguished themselves as its writers. The reason is that during the formation and becoming into a literary language most parts of Indian sub-continent were ruled by Afghans and they had reached to every corner of the country. This is the very Hindvi or Hindustani language in the formation and becoming a literary language of which Iranians, Turks and Mangols had taken part along-with Afghans, therefore a number of initial literary writings are available, produced by the Pashtoon. This articule deals with the said initial writing which may call literary beginning of Urdu Language.

 
اردو زبان کی تشکیل و تعمیر میں پشتونوں کے ناقابل فراموش کردار کو واضح کرنے کے لئے میں نے"اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار"  کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جو مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے  ۲۰۰۵ء میں شائع کی ہے ۔ اس کتاب میں ضمنی طور پر اردو ادب کی ترویج و ترقی میں پشتون اہل قلم کا کردار بھی اُجاگر کیا گیا ہے جو بذات خود بہت تفصیلی کام کا متقاضی ہے ۔ اس تفصیلی کام کے ابتدائی  حصہ کے طور پر اس تحریر میں اردو ادب کے ابتدائی نقوش ثبت  کرنے میں پشتون اہل قلم کے کردار پر روشنی ڈالی جاتی ہے جس کو مندرجہ ذیل اجزاء میں منقسم کیا جاسکتا ہے ۔
الفاظ کی تحقیق
جملہ او مکالمہ
ابتدائی منظوم نمونے
نثر کے ابتدائی نمونے
باقاعدہ تصنیفات کی ابتدائی مثالیں
مذکورہ عنوانات پر بحث و تحقیق کرتے ہوئے صرف پشتون اہل قلم کی کاوشوں کو مد نظر رکھا جائے۔ اس سلسلے میں پشتون اہل قلم کے بھی مختلف گروہ ہیں جن میں سے ایک گروہ ایسا ہے  جو نسلی طور پر پشتون ہیں مگر ان کا تعارف ہی اردو ادب سے ہے ۔ دوسرا وہ گروہ ہے جو نسلی طور پر پشتون ہیں اور اُن کا تعارف بھی پشتو ادب سے ہے مگر ساتھ ہی اردو ادب میں بھی اُن کا نمایاں حصہ رہا ہے ۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو نسلی طور پر تو پشتون نہیں ہیں مگر پشتونوں کی سرزمین میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے اُن کو بین الاقوامی منظرنامہ میں پشتونوں کی شناخت حاصل ہے اور اُن کا تعارف پشتو، ہندکو اور اردو تینوں زبانوں کے ادب سے ہے ۔ اس بحث میں چونکہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش کا جائزہ لیا جا رہا ہے لہذا عمومی طور پر ان مختلف گروہوں میں امتیاز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش ثبت کرتے وقت کسی اہل قلم کا کوئی ادبی تعارف اور پس منظر نہیں ہوتا ۔ یہیں سے اُن کا علمی اور ادبی پس منظر بننا شروع ہوتا ہے ۔ اور بعد میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے ۔ لہذا نسلی طور پر پشتون اہل قلم اور اردو ادب کے ابتدائی آثار ہی ہمارے مدنظر ہوں گے ۔

الفاظ کی تحقیق:
الفاظ کا تعلق براہ راست زبان  ہی سے ہوتا ہے ۔ مگر یہاں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اردو جس دور میں ادب اور تحریر کی زبان بننے کے ابتدائی مراحل میں تھی تو اُس وقت کون سے الفاظ اس زبان کی ادب میں استعمال ہورہے تھے ۔ ان الفاظ کے استعمال میں پشتونوں کا کتنا حصہ ہے ۔ ان الفاظ میں کتنے الفاظ کی جڑیں پشتو میں پیوست  ہیں ۔ ان الفاظ کا تعلق اگر پشتو کے علاوہ فارسی ، عربی ، سنسکرت ، ترکی ، کردی یا دیگر زبانوں سے ہے تو اردو میں ان الفاظ کے داخل کرنے میں پشتون اہل قلم کا کیا کردار رہا ہے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ اردو کئی زبانوں کے اشتراک سے وجود پذیر ہوئی ہے جن میں عربی، فارسی ، ترکی ، کردی ، سندھی ، بلوچی ، براھوی اور کئی دیگر زبانوں کا لغوی ذخیرہ موجود ہے مگر  ان سب زبانوں کے لغوی ذخیرے کا اردو میں داخلہ پشتونوں کی وساطت سے ہوا ہے اور براہ راست پشتو زبان کا ایک معتدبہ  ذخیرہ الفاظ بھی اردو کا حصہ ہے ۔ اردو کو اسی لحاظ سے ایک مخلوط زبان کا نام دیا گیا ہے اور اسی تناظر میں ریختہ کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے ۔جس کی طرف نامور ماہر لسانیات پروفیسر مسعود حسین خان نے بہت سلیس اور بلیغ انداز میں یوں اشارہ کیا ہے۔
"اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط  زبان ہے ،جیسا کہ اس کے تاریخی نام ، ریختہ، سے بھی ظاہر ہے ، یوں تو دنیا کی اکثر زبانیں دخیل الفاظ کی موجودگی کی وجہ سے مخلوط کہی جاسکتی ہیں، لیکن جب کسی لسانی بنیاد  پر غیر زبانوں کے اثرات اس درجہ نفوذ کرجاتے ہیں کہ اس کی ہیئت کذائی ہی بدل جائے تو وہ لسانیاتی اصطلاح میں ایک مخلوط یا ملواں زبان کہلائی جاتی ہے ۔ اس اعتبار سے اردو  کی نظیر کہیں ملتی ہے تو فارسی زبان میں جس کی ہند ایرانی بنیاد پر سامی النسل عربی کی کشیدہ کاری نے کلاسیکی فارسی کو جنم دیا ۔ عربی کے اس عمل کی توسیع جب فارسی کے وسیلے سے تیرہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی ایک ہند آریائی بولی، امیر خسرو کی " زبان دہلی وپیرامنش" پر ہوتی  ہے تو اردو وجود میں آتی ہے۔ اس لسانی  عمل کی توسیع کی دیگر مثالیں کشمیری ، سندھی اور پنجابی ہیں ، لیکن زبانِ دہلی کی طرح پر کبھی بھی کُل ہند حیثیت اختیار نہ کرسکیں۔(۱)
اس مخلوط زبان میں جب پشتو کے ذخیرہ الفاظ کا کھوج لگایا جاتا ہے تو ان گنت ایسے الفاظ کا سراغ بھی ملتا ہے جن کے دیگر قدیم زبانوں سنسکرت، ژند  وغیرہ میں ریشہ نہیں ملتا مگر وہ الفاظ اردو میں مستعمل بھی ہیں اور پشتو زبان میں اس کی جڑیں بھی ملتی ہیں ۔ نامور مستشرق راورٹی نے اس سلسلے میں پشتو لغت کے مقدمہ میں ہی کہا ہے  جس پر ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی تاریخ ادب اردو کی پہلی جلد میں تبصرہ کیا ہے اور لکھا  ہے :
"کرنل  راورٹی بھی پشتو لغت کے مقدمے میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے لفظ ایسے ملتے ہیں جو اردو میں بھی نظر آتے ہیں ۔ مگر ان سب کا سراغ واضح طور پر سنسکرت میں نہیں ملتا۔ کم از کم اس وقت تک کہ انہیں کسی اور اصلی زبان کا ثابت کیا جائے خالص پشتو اصطلاحیں سمجھنے کی طرف مائل ہوں جو بالکل اسی طرح ریختہ میں شامل ہوکر گھل مل گئے ہیں جیسے سنسکرت، عربی ، فارسی بلکہ پرتگالی اور ملیالم کے لفظ ۔ محمود غزنوی کے حملے کے بعد سے یہاں (ہندوستان) ان کی مستقل بستیاں آباد ہیں اور ان کی اولاد ہندوستانی پٹھان کہلاتی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ہوتے ہیں اور تقریباًسب کے سب اردو بولتے ہیں۔(۲)
قدیم اردو  میں پشتو الفاظ کے در آنے کے ضمن میں جمیل جالبی نے وہ تہذیبی  پس منظر بھی اجاگر کیا ہے جس کے بموجب پشتو الفاظ کا قدیم ہندوی یا اردو میں داخلہ ایک فطری امر تھا ۔ انہوں نے مزید صرات ان الفاظ میں کی ہے ۔
"پٹھانوں نے اردو زبان کو اور اردو زبان نے پٹھانوں کو اتنا کچھ دیا ہے کہ ایک کی شخصیت دوسرے میں جھلکنے لگی ہے ۔ تاریخ کے صفحات کی سرسری ورق گردانی سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملکی ، فوجی و انتظامی خدمات پر یہ لوگ کتنی کثیر تعداد میں مامور تھے ۔ مغلوں نے چونکہ سلطنت لودھیوں سے لی تھی ، جو پٹھان تھے ، اسی لئے مغلوں کی سیاسی طور پر یہ کوشش رہی کہ انہیں اس طرح دباکر رکھا جائے کہ یہ سرنہ اٹھاسکیں۔ مغلوں کی راجپوت دوستی اسی پالیسی کا نتیجہ تھی ۔ مغلیہ تاریخیوں میں قدیم قدم پر پٹھان دشمنی کا احساس ہوتا ہے ۔ اسی لئے آج ہم اردو زبان و ادب کی تاریخ لکھتے ہیں تو پٹھانوں کی خدمات کو فراموش کردیتے ہیں ۔ اگر محمد بن قاسم کی فتوحات کے ساتھ وادئ سندھ میں اتنے گہرے لسانی تغیرات ہوئے اور آل غزنہ کے دور حکومت میں پنجاب کی زبان میں غیر معمولی تبدیلیاں آئیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان تبدیلیوں میں پٹھانوں کی زبان و معاشرت نے حصہ لیا ہو۔(۳)
اردو کے تذکرہ نگاروں اور محقیقین میں محمد حسین آزاد اس رائے کے موئد ہیں کہ اردو میں معتدبہ ذخیرہ بنیادی طور پر فارسی اور عربی کا ہے ۔ انہوں نے ایسے الفاظ کے ہندوستان کی زبانوں اور بطور خاص ہندوی یا اردو میں استعمال کی مثالیں قدیم دور کے اردو ادب سے پیش کئے ہیں محمد حسین آزاد نے نے "آب حیات" میں یوں وضاحت کی ہے ۔
"اس زمانے کی عہد بعہد کی ہندی تصنیفیں آج نہیں ملتیں ، جن سے وقت بوقت اس کی تبدیلیوں کا حال معلوم ہو۔ البتہ جب  ۱۱۹۳ء میں شہاب الدین غوری نے رائے پتھورا پر فتح پائی تو چند کوئی ایک نامی شاعر نے پرتھی راج راسا لکھا اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زبان مذکور نے کتنا جلد عربی، فارسی کے اثر کو قبول کر لیا ہر صفحے میں کئی کئی الفاظ نظر آتے ہیں ساتھ ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت میں یہاں کی بھاشا بھی کچھ اور بھاشا تھی ۔(۴)
حافظ محمود شیرانی نے ہندوستانی بھاشاؤں کے لغوی ذخیرے کو عربی اور فارسی زبانوں میں ڈھونڈ نکالا ہے  اور یوں محمد حسین آزاد کے دعویٰ کے برعکس بات کی ہے ۔ انہوں نے مختلف عربی و فارسی تصنیفات سے ہندی الفاظ کی مثالیں پیش کی ہیں اور یوں وضاحت کی  ہے۔
"ہندی الفاظ کا استعمال سب سے پہلے عرب مؤرخین و سیاحین ہند کے ہاں ملتا ہے ۔ مثلاً مسعودی ہندوستان کے مشہور میوے آم کو "رنبج" کے نام سے یاد کرتا ہے اور اصطخری  نیبو کے ذکر میں لکھتا ہے کہ سندھی زبان میں اسے لیموں کہتے ہیں ۔
غزنوی دور میں ابو ریحان البیرونی اپنی مشہور تالیف "کتاب الہند" میں جو ہندوؤں کے علوم و فنون پر لکھی گئی ہے، سنسکرت کے علاوہ سینکڑوں ہندی الفاظ کا استعمال کرتا ہے ۔ ان میں ایک موقع ایسا آگیا ہے جہاں ہندوؤں کے نصف ماہی ناموں کے ذکر میں اس نے ایک سے لیکر پندرہ تک گنتی گنائی ہے ۔ مثلاً
اوماس          برقہ (کذا) پڑوہ          بیہ            تریہ          چوت        پنجے           ست (کذا)  چھٹہ
ا       بجدہوز
ستیں اتیں نون دھیں    یاھے       دواھے     ترھے      چودھے    پنجاھے
حطی           یا             یب         یج          ید           یہ            بو

مذکورہ بالا اعداد، "کتاب الہند"  کے مرتب کا خیال ہے ایسی زبان سے علاقہ رکھتے ہیں جو بہت کچھ موجودہ سندھی کے قریب ہے ۔ فارسی کے میدان میں غزنوی دور سے ہندی الفاظ استعمال میں آرہے ہیں ۔ فردوسی، عنصری، فرخی، منوچہری، اسدی، بیہقی اور سنائی کے ہاں ذیل کے الفاظ ملتے ہیں۔ (۵)
اسی طرح سید قدرت نقوی نے فارسی ، عربی جیسی قدیم زبانوں کے علاوہ پاکستان کی قدیم زبانوں کا تذکرہ کیا ہے اور ان زبانوں میں بھی اردو زبان میں داخل ہونے والے الفاظ کے سلسلے میں زیادہ مؤثر زبانوں میں سے پشتو  اور پنجابی کا نام لیا ہے وہ لکھتے ہیں:
"حقیقت یہ ہے کہ ان علاقائی زبانوں سے تو اردو زبان کے ذخیرے میں اضافہ ہورہا ہے ۔ پنجابی ، سندھی، پشتو، بلوچی، بروہی وغیرہ کے بہت سے الفاظ اردو میں داخل ہوچکے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ بلکہ پنجابی اور پشتو کے الفاظ تو عہد قدیم ہی سے شامل ہیں ۔ (۶)
ان حوالہ جات سے یہ بات تو سامنے آجاتی ہے کہ اردو ادب کے قدیم تحریری سرمایہ کے مختلف نمونوں میں مذکورہ تمام زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں اور یہ بھی واضح ہوتاہے کہ فارسی ، عربی اور دیگر زبانوں میں ہند کی قدیم بھاشاؤں کے الفاظ بھی ملتے ہیں مگر ہم یہاں اردو کے ابتدائی نقوش کے سلسلے میں پشتو الفاظ کے براہِ راست در آنے اور پشتونوں کی وساطت سے دیگر زبانوں کے الفاظ کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں پہلے عربی اور فارسی کے اُن الفاظ کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جو پشتون اہل قلم کی وساطت سے اردو میں داخل ہوئے ہیں  ۔ سید امتیاز علی خان عرشی ان فارسی اور عربی الفاظ کے ساتھ ترکی ذخیرہ الفاظ کو بھی شامل کردیتے ہیں اور یہ سب کا سب پشتونوں یا افغانوں کا دین سمجھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
"میرے اس دعوے کا  ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ ہماری زبان میں بہت سے عربی، فارسی اور ترکی لفظ اپنے اصلی تلفّظ سے ہٹ گئے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ یہ سب تغیرات ہندی لہجے کا نتیجہ ہوں لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ افغانی بھی ان لفظوں کو بالکل ہمارے مطابق بولتے ہیں تو فوراً یہ سوال دماغ میں پیدا ہوجاتا ہے کہ کیا ہم نے پہلے ان سکوں کو ڈھالا اور یہاں سے افغانستان بھیجا وہاں سے ڈھلے ڈھلائے ہم تک پہنچے یا دونوں ملکوں میں بیک وقت ایک ہی قسم کے حالات کے تحت یہ سب تغیرات واقع ہوئے ۔ جہاں تک امکان عقلی کا تعلق ہے ان میں سے ہر شق ممکن ہے ۔ لیکن گزشتہ تاریخی پس منظر کے پیش نظر قرین قیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں افغانی لباس میں ملبوس قرار دیا جائے۔ اس لئے کہ اسلامی عہد میں ہندوستانی اس تعداد میں افغانستان جاکر آباد نہیں ہوئے کہ ان کی زبان وہاں کے عوام میں بار پاسکتی ۔ نہ خود افغانی یہاں سے ہماری زبان سیکھ کر اس کثرت سے اپنے وطن واپس گئے کہ ان کے واسطہ سے یہ تغیر و تبدّل افغانستان میں سرایت کرتا ۔ رہا دونوں جگہ ایک ہی قسم کے حالات میں یکساں تغیر ہونا، تو اسے مانا جاسکتا  تھا ۔ اگر یہ حقیقت پیش نظر نہ ہوتی کہ افغانی ایک ہزار برس سے یہاں کے ایک ایک گوشے میں آجا اور رہ رہے ہیں اور ہم ان سے سینکڑوں برس تک حاکم اور استاد کی حیثیت سے بہت کچھ سیکھتے رہے ہیں۔ چونکہ یہ بگڑے تلفظ ہمارے عوام کی زبان پر زیادہ تر چڑھے ہوئے ہیں اس لئے اور بھی یقین ہوتا ہے کہ افغانیوں ہی کی وساطت سے ان تک یہ لفظ پہنچے جو ہمیشہ سے ہندی عوام کے دوش بدوش یہاں اپنی زندگیاں گزارتے رہے ہیں۔(۷)
یہاں تک ہم نے زبانوں کے لغوی لین دین اور پشتو الفاظ یا پشتونوں کی وساطت سے اردو میں داخل ہونے والے الفاظ کا تذکرہ کیا ہے ۔ مگر ہمارا اصل ہدف اردو ادب میں پشتو کے الفاظ کی تحقیق ہے اور بطور خاص اردو کے ابتدائی نقوش میں پشتو الفاظ کے سراغ لگانا بنیادی ہدف ہے ۔ اس لئے اب ہم اردو کے اُس دور کا ادبی سرمایہ مدنظر رکھیں گے جب اردو ادب و تحریر کی زبان بننے کے ابتدائی مراحل میں تھی ۔ اردو کے نظم و نثر کے ابتدائی نمونوں  میں پشتو اور پشتونوں کے کردار پر ہم بعد میں تبصرہ کریں گے ۔ سردست اردو کے ابتدائی  دور کے شاعر حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر کا ایک شعری نمونہ اس مقصد کے لئے پیش کرنا چاہتے ہیں جس میں نہ صرف پشتو کے الفاظ کا استعمال ہوا ہے بلکہ پشتو محاورہ کا بھی استعمال ہوا ہے ۔ خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کی زبان کو سرائیکی ، ہندوی اور پنجابی کے ناموں سے بھی یاد کیا گیا ہے مگر حقیقت میں یہ وہی زبان ہے جس کو اس  دور میں ہندوی اور آج اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ وہ فرماتے ہیں:


"فرید ! جے توں عقل لطیف ہیں کالے لکھ نہ لیکھ
 آنپڑے گریوان میں سرنیواں کرکے دیکھ۔(۸)

اس شعر  میں "گریوان" کا تلفظ ٹھیٹ پشتو کا ہے ۔ اور ساتھ ہی محاورہ "گریوان میں سر نیواں" اپنے گریبان میں جھانکنے یعنی خود انصاف کرنے کے معنوں میں آیا ہے ۔ جو قدیم دور سے لے کر آج تک پشتو زبان میں موجود ہے۔ الفاظ و محاورات کی اس قسم کے مثالیں بہت ہیں جس کی جڑیں پشتو میں پیوست ہوں اور ان کا استعمال اردو میں قدیم سے جدید دور تک ہورہا ہو مگر اس وقت اردو ادب کے ابتدائی نقوش اور پشتون اہل قلم ہمارے مدنظر ہیں اس لئے اردو کے ابتدائی دور کے شاعر خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کے ایک بیت میں پشتو الفاظ اور محاورہ کا استعمال بطور نمونہ پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔ چونکہ خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر اور اسی نام سے اردو کے ایک اور شاعر بابا فرید کے کلام پر ناقدین و محققین میں اختلافی مباحث بھی موجود ہیں اور خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کا زمانہ بھی اتنا پرانا ہے کہ اُس دور میں اردو  تحریر و ادب کی باقاعدہ زبان بنی بھی نہیں تھی اس لئے خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کے دور اور مذکورہ اختلاف کا تذکرہ  بھی ضروری ہے جو ڈاکٹر تبسم کا شمیری کے بقول اس طرح ہے:
"حضرت بابا فرید گنج شکر ، چشتیہ سلسلہ کے صوفیائے کبار میں تھے ۔ آپ کی تاریخ پیدائش ۱۱۸۸ء- ۵۸۴ھ ہے ۔ اردو زبان میں آپ کا ذکر خیر ان کی شاعری کے حوالے سے کیا جاتا ہے ۔ بابا صاحب کا جو کلام ہم تک پہنچا ہے وہ کئی صدیوں کی زمانی تبدیلیوں کے باعث کچھ کا کچھ ہوچکا ہے ۔ اس لئے لسانی طور پر وہ اس قدامت سے محروم ہے کہ جس کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ ان کے کلام کے بارے میں اختلاف یہ بھی ہے کہ کیا یہ کلام ان کا ہے یا فرید ثانی کے ہے ۔ ان مباحث کے لئے ڈاکٹر  گیان چند کی تاریخ ادبِ اردو ، جلد اول سے رجوع  کیا جاسکتا ہے ۔ ان کی رائے یہ ہے کہ گرنتھ صاحب میں موجود بعض اشلوک بابا فرید، ہوسکتے ہیں مگر وہ کون سے ہیں یہ کہنا مشکل ہے۔(۹)
خط خواجہ فرید الدین کے مذکورہ  بیت کے تناظر میں ، میں نے اپنی کتاب "اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار" میں تبصرہ کیا تھا جس میں خواجہ فریدالدین مسعود  گنج شکر کے پشتون پس منظر اور  اُن کی شاعری میں سرائیکی زبان کے اثرات کا جائزہ بھی لیا تھا۔ اور  ساتھ یہ بھی وضاحت  کر دی گئی تھی کہ یہیں سے اردو ادب کے ابتدائی نقوش کا سراغ ملتا ہے ۔ جس میں بنیادی کردار ہی پشتون اہل قلم خواجہ فریدالدین مسعود  گنج شکر کاہے ۔ وہ تبصرہ یوں ہے :
"شیخ فرید الدین گنج شکر کے کلام کا نہ صرف نمونہ موجود ہے بلکہ آپ بہت اہم شاعروں میں سے ہیں لیکن ان کے کلام کو ہندی یا اردو کی بجائے سرائیکی کا کلام سرائیکی کا کلام سمجھا گیا ہے حالانکہ یہ سرائیکی وہی ہندی یا ابتدائی اردو ہے جو ابتدائی دنوں میں ملتانی کے نام سے یاد کی گئی چونکہ حضرت شیخ فرید الدین کے آباؤ اجداد کابل (افغانستان) سے آکر ملتان میں آباد ہوئے تھے اور ملتان پر اس کے علاوہ بھی پشتون کافی عرصہ تک حکمران رہے تھے لہذا ہندی کے ملتانی لہجہ یا سرائیکی زبان میں پشتونوں کی تہذیبی اقدار اور لسانی عوامل کی موجودگی ایک فطری بات بھی ہے اور یہ اقدار اور عوامل خود بابا فرید کی شاعری میں بھی موجود ہیں ، مثلاً آپ فرماتے ہیں:


؎ فرید اجے  جے توں عقل لطیف  میں کالے لکھ نہ لیکھ
آنپڑے  گریوان میں سرنیواں کر کے دیکھ

اس شعر میں سرنیواں اور "گریوان" نہ صرف ٹھیٹ پشتو ہیں بلکہ "گریوان میں سرنیول" جو اردو میں "گریباں میں جھانکنا" کے مترادف ہے بھی پشتو کا محاورہ  ہے جو سرائیکی یا ملتانی میں  بھی مستعمل ہے ۔ لہذا پشتون اہل قلم کے اردو ادب کے لئے خدمات کا تذکرہ ہم اگر بابا فرید سے باقاعدہ طور پر شروع نہ بھی کریں تو ابتدائی محرکات میں ان کا کلام ضرور شامل کرسکتے ہیں۔(۱۰)
شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر  کے ساتھایک اور نظم بھی منسوب ہے جو اردو کے منظوم ادب کا ابتدائی نقش ہے مگر یہاں بات الفاظ کی تحقیق کی ہور ہی ہے لہذا باقاعدہ منظومات پر تبصرہ اپنے مقام پر کیا جائے گا۔ اس موقع پر الفاظ کی تحقیق کے اس مرحلے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں اور اردو  زبان میں باقاعدہ جملہ و مکالمہ کا سراغ لگاتے ہیں جو اس زبان کے ابتدائی نقوش کا حصہ ہو اور جن میں بنیادی کردار پشتون اہل قلم کا رہا ہو۔
جملہ مکالمہ :۔
اردو کے منظوم و منثور ادب پاروں کے دستیاب نمونوں سے پہلے کچھ جملے اور مکالمے ایسے ملتے ہیں جو تحریری طور پر محفوظ ہیں اور جن کو ہم اردو کے تحریری ادب کے ابتدائی نقوش میں زیر بحث لاسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کچھ مربوط اردو کے جملے فارسی تصانیف سے دستیاب ہیں جو پشتون اہل قلم کے مرہون منت ہیں۔ ڈاکٹر رفعیہ سلطانہ جب اردو نثر کا آغاز و ارتقاء لکھ رہی تھی تو اردو کے ابتدائی جملوں کے حوالے سے انہوں نے خواجہ معین الدین اجمیری (ولادت 530 ھ) کے اردو جملوں کا تذکرہ کیا تھا ۔ مگر اُن کا کوئی جملہ بطور نمونہ پیش  نہ کرسکی تھی۔ البتہ خواجہ معین الدین اجمیری کے مرید خاص خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے کئی مقولے نقل کئے تھے جو اردو کے دستیاب جملوں میں پہلے جملے ہوسکتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خواجہ بختیار کاکی نہ صرف یہ کہ پشتون تھے بلکہ اُن کی پشتو شاعری بھی دستیاب ہے ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اس  ضمن میں یوں لکھا ہے :
"خواجہ صاحب 556ھ   میں شہاب الدین محمد غوری کی فتح سے تقریباً تیس تینتیس سال پہلے اجمیر آئے ان کا مؤلد اصفہان تھا ۔ اجمیر میں تصوف  کی تعلیم کے لئے ایک مدرسہ بھی کھولا تھا ۔ وہ اپنے پیشے طب کی وجہ سے عوام میں بہت مقبول تھے۔ اسی مقبولیت کے باعث ایک ہندو خاتون نے ان سے عقد کرلیا تھا ۔ خواجہ صاحب فارسی کے بڑے اچھے شاعر اور فارسی میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ پیشے کے علاوہ ان کا نجی مشغلہ ارشاد و ہدایت تھا ۔ اس کی وجہ سے بھی ان کا ہندوستانی زبان اختیار کرنا ناگزیر معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن خواجہ صاحب کے ملفوظات کسی تاریخ یا تذکرہ میں دستیاب نہیں ہوتے۔ البتہ ان کے خلیفہ قطب الدین بختیار کاکی کے کئی مقولے دستیاب ہوئے ہیں۔(۱۱)
خواجہ بختیار کاکی کے مرید بابا  فرید شکر گنج ایک اور پشتون صوفی بزرگ ہیں جو فارسی کے مصنف ہیں اور جن کے اردو جملے دستیاب ہیں ۔ مذکورہ دونوں صوفی بزرگوں اور فارسی و پشتو زبان کے ادیبوں کے نہ صرف اردو جملے دستیاب ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان اردو زبان میں مکالمہ بھی موجود ہے جو اردو زبان میں پہلا دستیاب مکالمہ   ہوکستا ہے گویا اس دور کے اردو کا پہلا دستیاب مکالمہ بھی دو پشتونوں کے مابین ہوا ہے جو اردو ادب کے نقوش اولین کا نادر نمونہ ہے ۔ مذکورہ مکالمہ اور خواجہ الدین مسعود گنج شکر کے ابتدائی اردو جملے سب سے پہلے حافظ محمود شیرانی نے دریافت کئے ہیں جن کو انہوں نے اپنی کتاب "پنجاب میں اردو" مطبوعہ ۱۹۲۸ء میں خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کے جواہر فریدی کے حوالے سے نقل کئے ہیں ۔ مذکورہ دو پشتون صوفیاء کے مابین پہلا اردو مکالمہ حافظ محمود شیرانی نے اپنے تبصرہ کے ساتھ یوں نقل کیا ہے ۔
"ایک روز شیخ فریدالدین اپنے پیر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو وضو کرا رہے تھے ۔ اتنے میں حضرت کی نگاہ ان کے چہرے پر پڑی ، دیکھا کہ آنکھ پر پٹی بندھ رہی ہے۔ آپ نے دریافت کیا ۔ بابا آنکھ پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے ۔ بابا فرید نے ہندی زبان میں جواب دیا ۔
"آنکھ آئی" ہے
شیخ نے جواب دیا ۔
اگر آٹی ہے ایں راچرابستہ آید۔(۱۲)
اس طرح کا ایک اور مکالمہ  حافظ محمود شیرانی نے نقل کیا ہے جو خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر اور ان کے ایک مرید شیخ جمال الدین ہانسوی کی بیوی مادر مؤمنان کے مابین ہوا تھا ۔ مذکورہ مکالمہ حافظ شیرانی صاحب نے اپنے تبصرہ کے ساتھ یوں نقل کیا ہے ۔
"مولانا برہان الدین صوفی ابھی خوروسال ہی تھے کہ ان کے والد شیخ جمال الدین ہانسوی مرید شیخ فرید الدین کا انتقال ہوگیا ۔ مرحوم کی بیوی مادر مؤمنان شوہر کی وصیت کے مطابق اپنے فرزند خواجہ برہان الدین صوفی کر لے کر حضرت گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ شیخ نے خواجہ برہان الدین کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی خوروسال کا لحاظ نہ کرکے اپنی بیعت میں لے لیا۔ اس پر مادر مؤمنان معترض ہوئیں  اور ہندوی زبان میں بولیں:
"خوجا برہان الدین بالا ہے"
یعنی کم عمر  میں ہیں" شیخ فرید الدین نے ہندوی زبان میں جواب دیتے ہوئے کہا:
"مادر مؤمناں ! پونو کا چاند بالا  ہوتا ہے"
یہ واقعہ میں نے سید محمد بن سید مبارک کرمانی متوفی ۷۷۰ ھ کی تصنیف "سیرالاولیاء" سے نقل کیا ہے ۔ جس میں مذکورہ  بالا ہندوی فقرات بلفظ درج ہیں۔(۱۳)
ان جملوں پر حافظ محمود شیرانی کا مجموعی تبصرہ یوں ہے ۔
"ان فقرات سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان ساتویں صدی  ہی میں اپنے امتیازی خط و خال نمایاں کر چکی ہے یعنی اس میں وہ خصوصیات موجود ہیں جو اس کو ایک  طرف برج سے اور دوسری طرف پنجابی سے ممیز کرتی ہیں ہوتا ہے نہ پنجابی ہے ، نہ برجی ، اس سے اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ اہل پنجاب ان ایام میں اردو بول اور سمجھ سکتے ہیں۔(۱۴)
ہم نے دیکھا ہے کہ حافظ شیرانی جواہر  فریدی کے حوالے سے ساتویں صدی ہجری کے اردو زبان کے جن جملوں اور مکالمہ کا تذکرہ کرتے ہیں  وہ پشتونوں کے مرہون منت ہیں ۔ اگر چہ اس دور میں اردو کے ان ابتدائی جملوں اور مکالمہ کا وجود  اردو ادب کا نہیں بلکہ اردو  زبان کے ابتدائی مراحل کا جواز فراہم کرتا ہے  مگر مذکورہ جملے اور مکالمہ چونکہ تحریری طور پر محفوظ ہے اس لئے ہم ان کو اردو ادب کے تحریری نمونوں کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ اس موقع پر اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ خواجہ بختیار کاکی اور خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر کے مابین مکالمہ اور دیگر جملے نہ برج بھاشا سے ماخوذ ہیں اور نہ پنجابی سے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مزکورہ مصنفین اور صوفیائے کرام فارسی میں بھی لکھتے تھے اور نسلی طور پر پشتون تھے مگر اس کے باوجود ان جملوں کا تعلق نہ فارسی سے ہے اور نہ پشتو سے ۔ گویا خالص اور منفرد انداز  کی اردو یا اُس دور کی ہندوی کی ادبی و تحریری داغ ہی پشتون اہل قلم نے ڈالی ہے ۔ اردو زبان و ادب کے ان ابتدائی نقوش میں پشتونوں کے کردار کا جواز بھی حافظ محمود شیرانی نے پیش کیا ہے  جس میں ہندوستان کی اُس دور  کی مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ افغانیوں کے مستقل رہائش اور ان کی زبان پشتو کا رواج نمایاں طور پر ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ افغانوں کی سکونت پذیری کے بارے میں شیرانی صاحب نے لکھا ہے:
"افغان ہندوستان کے مغربی پہاڑوں میں دریائے سندھ تک آباد تھے۔ البیرونی ایک مقام پر ان کو افغانوں کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ دوسرے مقام پر ہندو لکھتا ہے ابو الفرج رونی افغانوں اور  جائوں کو مشرک کہہ رہا  ہے ۔ اس سے ظاہر ہے افغان اُن ایام میں تابع اسلام نہیں تھے ۔ سیاسی اعتبار سے افغان ہر زمانہ میں اہمیت رکھتے تھے ۔ سلطان محمود نے دو مرتبہ ان کی گوشمالی کی ہے ۔ مسعود شہید نے ان کے خلاف فوج بھیجی ہے ۔ مسعود و ثالث نے بھی ان کو سزا دی ہے ۔ لیکن ہندوستان میں اگر چہ فوجوں میں ہمیشہ بھرتی ہوتے تھے تغلقوں کے عہد میں وقعت حاصل کرتے ہیں ۔ اگر چہ خلجیوں کی طرح افغان بڑی تعداد میں ہندوستان کی طرف ہجرت نہیں کرتے تا ہم ایک معتد بہ تعداد ان کی ہر زمانہ میں یہاں موجود رہتی ہے ۔ دہلی سے چارکوس کے فاصلہ پر افغان پورا ایک قصبہ تھا جو غلاموں کے زمانہ میں آباد ہوا تھا اور اس میں افغان ہی آباد تھے ۔ (۱۵)
اور پھر ہندوستانی زبانوں میں تحریر و ادب کے سلسلے میں سب سے پہلے پشتو کی موجودگی کا تذکرہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں :
"ہندوستان کے شمال و مغرب کی زبانیں جن میں پشتو، کشمیری، سندھی اور  پنجابی شامل ہیں اکثر مسلمان شعراء کی مرہونِ منت  ہیں ۔ برج اودھی، گجراتی اور بنگالی زبانوں میں ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بھی ایک معقول حصہ لیا ہے ۔ (۱۶)
یہ اُس دور کا تذکرہ ہے جب اردو تحریر کی زبان بننے کے ابتدائی مراحل طے کر  رہی تھی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں سے ممیز و منفرد حیثیت سے نمودار ہورہی تھی ۔ اس ابتدائی دور سے لیکر آج تک اس زبان کی تشکیل و تعمیر اور ادبی ترویج و  ترقی میں پشتون اہل قلم کا حصہ رہا ہے ۔ جس کا سلسلہ جملہ و مکالمہ سے نظم و نثر تک پہنچتا ہے ۔ نہ صرف ہندوستان کے علمی و ادبی مراکز میں بلکہ ہندوستان کے اطراف و اکناف میں بھی پشتون اہل قلم اس زبان میں ادب تخلیق کرتے ہیں اور اس زبان سے اپنی تخلیقی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔
بکھرے اوراق:۔
بکھرے اوراق سے مراد اردو کے نظم و نثر کے بکھرے نمونے ہیں جو ہماری ادبی تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کئے ہیں ۔ گویا اردو ادب کے ابتدائی نقوش کے ضمن میں ہم الفاظ کی تحقیق اور پھر جملہ  و مکالمہ کے بعد باقاعدہ اردو ادب کے دستیاب ابتدائی نظم و نثر کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر باقاعدہ ادبی فنپاروں کی شکل میں ادبی نقوش کو واضح کرتے ہوئے پشتون اہل قلم کے کردار کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اردو نظم و نثر کے ان ابتدائی نقوش  کو ثبت کرنے میں پشتونوں کے لازوال کردار کا سراغ لگانے سے پہلے مجموعی طور پر اردو ادب کے ابتدائی نقوش کا تاریخی پس منظر اُجاگر کرنا بھی ضروری ہے ۔ اردو کے بول چال کی زبان سے ادب کی زبان بننے کے ابتدائی مراحل کا زمانہ کیا تھا  اور اس کو علم و ادب کی زبان بنانے میں دیگر مقامی زبانوں اور ہندوستان کی متنوع قومیتوں کا کردار  کیا  رہا ہے؟  اس سلسلے میں ڈاکٹر سید ظہیر الدین مدنی نے یوں وضاحت  کی ہے:
"اردو کی ادبی تشکیل صوفیوں کے ہاتھوں ہوئی ، اگر چہ مستقل تصانیف کا  دور تو نویں صدی ہجری میں گجرات و دکن کے نفوسِ قدسیہ کی ادبی کاوشوں سے شروع ہوا لیکن ساتویں صدی ہی میں اس زبان کا خمیر تیار ہوچکا تھا ۔ بلکہ بول چال کی منزل سے آگے بڑھ کر ایوانِ ادب میں بھی  جھلکیاں دکھانا  شروع کر دیا تھا ۔ اس ابتدائی دور  کےجو  کارنامے منظر عام پر آچکے ہیں ان چند مقامی زبانوں میں چند ایسے ہیں جن میں محض الفاظ کی ملاوٹ ہے اور بعض ایسے ہیں جن میں ابھرتی ہوئی، زبان اُردو  کے آثار نمایاں ہیں۔(۱۷)
گویا مستقل اور باقاعدہ  تصانیف سے پہلے اس زبان میں علم و ادب کا اظہار بکھرے اوراق کے ذریعے ہی ہوا ہے جو ابتدائی نقوش کی نقاب کشائی کرتا ہے اور جن کے ابتدائی مراکز گجرات و دکن کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔زبا کی حیثیت سے تو اردو گجرات و دکن پہنچنے سے پہلے دہلی میں مقامی بولی گئی حیثیت سے موجود  تھی مگر گجرات و  دکن پہنچ کر یہ زبان علمی و ادبی اظہار کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے ۔ یوں اس زبان میں ادبی اصناف کا تعارف بھی ہوجاتا ہے اور پہلے نظم کے چند اصناف جیسے دوھرے، ریختہ اور مثنوی  کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور بعد میں غزل کے ساتھ ساتھ نظم کی متنوع شکلیں بھی نمودار ہوجاتی ہیں ۔ حافظ محمود شیرانی اردو کے ابتدائی ادبی نقوش کو گجرات ہی میں دیکھتے ہیں اور کچھ سیاسی و سماجی عوامل کا تذکرہ کرتے ہوئے گجرات میں مسلمانوں کی سکونت پذیری اور  اردو کے ادبی زبان بننے کے ابتدائی مراحل کا ذکر ان الفاط میں کرتے ہیں ۔
"موجودہ معلومات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو  زبان کو ادبی شکل سب سے پہلے صوبہ گجرات میں ملتی ہے ۔ یہ صوبہ ۶۹۶ھ میں سلطنت  دہلی کے زیر نگین آتا ہے اور مسلمان آبادکار اس میں داخل ہوتے ہیں ۔ تقریباً ایک صدی تک گجرات دہلی کے تابع رہا، بعد میں آزاد  ہوگیا، ہم اور واقعات سے اعراض کر کے امیر تیمور کے حملہ ہند کا  ذکر  کرتے ہیں جس سے سرزمین گجرات میں اردو کو بالواسطہ تقویت پہنچتی ہے ۔ تیموری تاخت کی بنا پر لوگوں کی ایک کثیر تعداد صوبہ دہلی سے ہجرت کرکے گجرات میں جاکر آباد ہوجاتی ہے ۔ (۱۸)
اگر چہ گجرات میں اردو نظم و نثر کے ان ابتدائی نقوش میں پشتون لکھنے والوں کے واضح نمونے نہیں ملتیں مگر تاریخی عوامل اور  اُس دور  کے علمی و ادبی پس منظر سے یہ تأ ثر ضرور ملتا ہے کہ گجرات میں اردو ادب کے ابتدائی نقوش کا ماحول ہندوستان میں سکونت پذیر پشتونوں نے فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادار کیا ہے ۔ فارغ  بخاری  مرحوم نے اپنی کتاب ادبیات سرحد کے جلد سوم میں اس پس منظر کی وضاحت یوں کی ہے ۔
"ابتداء میں جب بھارت قبائل نے ہندوستان کا رُخ  کیا تو کچھ پہاڑی پختون قبائل بھی جو میدانی زندگی سے مانوس نہ تھے ، کاغان، کشمیر اور تبت کے پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے اور آہستہ آہستہ ہندوستان کے کہستانی سلسلوں میں پھیلتے گئے ۔ خصوصاً  دلی کے نواح اور گجرات کو ان کی بھاری جمعیت نے اپنا مسکن بنالیا۔ یہ لوگ ابتدا ہی سے پہاڑی زندگی کے عادی تھے اور مال مویشی پر گزر کرتے تھے ۔ اسی رعایت سے یہ قوم گجر کہلائی۔ابن گجروں کے آباد ہونے کے بعد ہی ہندوستان کے ایک شہر کا نام گجرات پڑگیا ۔ اکثر  محققین کو اس گجرات سے پنجاب والے گجرات  کا دھوکا ہوا  ہے۔ (ممکن  ہے اس کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہو) یہ پختون قبائل جواب گجر کہلانے لگے تھے ۔ اپنے ساتھ باختر سے پراکت زبان لے کر آئے تھے ۔ یہی  زبان گجر قوم کی مناسبت سے گوجری کہلانے لگی ۔ یہ گجر اب بھی مشرقی افغانستان کے علاقہ لغمان  اور دیگان میں دریائے کونڑ کے دائیں کنارے سے چاردیگار کی حدود تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ان کی بولی وہی پراکرات ہندکو یا گوجری ہے جسے وہاں پشئ اور اس قبیلے کی پشائی کہتے ہیں ۔ اس خالص افغانی علاقے میں یہ زبان سن کر انسان کو رچنھبا ہوتا ہے،،،، یہ لوگ جہاں جہاں بستے ہیں وہاں کی شہری زبان سیکھ گئے ہیں۔ لیکن یہ زبان انہیں صرف شہریوں سے گفتگو کرنے میں کام دیتی ہے ورنہ آپس میں اپنی زبان ہی بولتے ہیں ۔ ان کے نقش و نگار، رہن سہن رسم و رواج اور عادات و خصائل آج بھی افغانوں سے بہت حد تک مطابقت رکھتے ہیں ۔ اپنے جھگڑے جرگہ میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ ایک مردانہ جگہ (حجرہ) میں جمع ہوکر دنیا کے مسائل پر اظہار خیال کرتے ہیں ۔ ڈھیلا ڈالا لباس پہنتے ہیں ۔ یہاں تک کہ افغانوں کے لوک گیتوں کی دھنیں اور ان کے مشہور عوامی ناچ بھی ان میں سب جگہ اسی طرح رائج ہیں ۔ (۱۹)
اردو یا اُس دور کی ہندی کا پہلا شاعر مسعود سعد سلمان (وفات ۱۱۲۱ء/۵۱۵ھ) کو تسلیم کیا جاتا ہے اور اُن کے ہندی دیوان کا تذکرہ  بھی موجود ہے مگر دیوان یا ہندوی کلام کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ۔ مسعود سعد سلمان کی ہندوی زبان میں شعر گوئی اگر چہ مسّلم ہے مگر ہمارے محققین پھر بھی اس سلسلے میں اپنے کچھ خدشات کا اظہار کرتے ہیں جیسے ڈاکٹر تبسم کاشمیری "اردو ادب" کی تاریخ میں لکھتے ہیں:
" مسعود سعد سلمان لاہوری کی وفات (۱۱۲۱ء-۵۱۵ھ) کے بعد شمالی ہند میں  قدیم اردو (ہندوی) کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ طویل مدت تک ادبی منظر نامہ میں کوئی حرکت نظر نہیں آتی ۔ ایک مسلسل خاموشی چھائی رہتی ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اگر مقامی زبان میں اس قدر استطاعت اور قدرت تھی کہ اس میں مسعود سعد محض اشعار ہی نہیں دیوان تک تخلیق کرسکتا تھا تو پھر اس کے بعد خاموشی کے کیا معنی ہیں؟ قیاس یہی کہتا ہے کہ مسعود سعد کی روایت کا سلسلہ آگے ضرور چلا ہوگا۔ نئے شعراء منظر پر آئے ہوں گے لیکن ایام کی گردش سے ان کا کلام ہم تک نہ پہنچ سکا ۔ ممکن ہے اب بھی کسی گوشئہ گم نامی میں ان شعراء کا کلام پڑا ہو اور کسی مھقق کا منتظر ہو اور آنے والے ایام میں یہ کلام دریافت ہوجائے۔(۲۰)
ہندوستان کے ایک اور دانشور  و محقق سدھیشور ورما اس سلسلے میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں :
"حقیقت یہ ہے کہ سولہویں صدی سے پیشتر کی ہندوی کا کوئی بہت وسیع اور معتبر مواد اور نمونہ نہیں ملتا ۔ اگر چہ بنگالی، مراٹھی اور گجراتی زبان کا کافی مواد مل گیا ہے ، ہندوی زبان کا حقیقی آغاز اس طرح ہوا جب مسلم حملہ آور پنجاب سے آکر دہلی کے علاقے میں سکونت پذیر ہوگئے تو وہاں کے باشندوں کے ساتھ ان کا تعلق رفتہ رفتہ بڑھنے لگا۔ اس علاقے کی ادبی زبان برج بھاکھا تھی لیکن چونکہ وہ صرف عالموں کی ایک خاص بولی تھی اس لئے اس کے لئے مسلمانوں کے دل میں کوئی کشش پیدا نہ ہوئی ۔ ان کے لئے زیادہ دلکش وہ زبان تھی جو دہلی کے بازاروں اور ضلع  میرٹھ میں بولی جاتی تھی ۔ (۲۱)
جس طرح مسعود سعد سلمان کی شاعری کی کوئی نمونہ دستیاب نہیں مگر اُن  کی ہندوی شاعری کا تذکرہ ضرور موجود ہے ۔ اس طرح پشتون بزرگ، صوفی اور شاعر قطب الدین بختیار کاکی جن کی پشتو شاعری تو دستیاب ہے مگر اُن  کی ہندی شاعری کا صرف تذکرہ موجود ہے اور ہندی کلام کا کوئی نمونہ دستیاب نہیں ۔ قطب الدین بختیار کاکی ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں گزرتے ہیں جن کا سن وفات محمد قاسم فرشتہ نے تاریخ فرشتہ میں ۶۳۴ھ بتایا ہے ۔ یوں بختیار کاکی کا دور بھی مسعود سعد سلمان کے قریب قریب ہے مگر ان دونوں کا ہندوی کلام دستیاب نہیں لہذا ہم اردو اب کے نقوش اولین میں ان کا تذکرہ تو کرسکتے ہیں مگر اُن کی شاعری کا کوئی نمونہ پیش نہیں کرسکتے ۔ قطب الدین بختیار کاکی پشتون صوفی و بزرگ کی ہندوی شاعری کے بارے میں ، میں نے اپنی کتاب "اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار" میں یہی  لکھا تھا کہ :
"جب ہم پشتونوں کی طرف آتے ہیں تو سب سے پہلے قطب الدین بختیار کاکی ؒ کے بارے میں افغان  دانشور عبدالحئی حبیبی  نے سلیمان ماکو (۶۱۲ھ) کے تذکرۃ الاولیاء  (پشتو) کے حواشی میں لکھا ہے کہ آپ ہندی میں بھی شعر کہتے تھے۔ قطب الدین بختیار کاکی کا سن وفات بقول قاسم فرشتہ ۶۳۴ھ ہے لیکن جب  ان کا ہندی کلام نہیں تو ان کی زبان دانی کے حوالے سے بات بھی نہیں کی جاسکتی ۔(۲۲)
پشتو زبا و ادب کے ممتاز محقق افغان دانشور عبدالحئی حبیبی نے قطب الدین بختیار کی پشتو شاعری پر تبصرہ کیا ہے جس کے نمونے پہلی بار سلیمان  ماکو کی کتاب تذکرۃ الاولیاء (مؤلف ۶۱۲ھ)  میں دستیاب ہوئے ہیں ۔حبیبی صاحب نے اُن کے پشتو اشعار اپنی تالیف پښتانۀ شعراء (پشتون شعراء) میں شامل کرتے وقت اُن کی شاعری اور علم و عرفان پر تبصرہ بھی کیا ہے اور اُن کی ہندوی زبان میں شعر گوئی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ اُن کا تبصرہ پروفیسر افضل رضا صاحب نے اپنی اردو کتاب "اردو  کے قدیم پشتون شعراء" میں بھی شامل کر دیا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے ۔
"آپ کی علمی حیثیت تو بہت بلند تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعرو سخن کا بھی بلند ذوق رکھتے تھے ۔ فارسی اور پشتو دونوں زبانوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے پشتو اشعار سلیمان ماکو نے اپنی کتاب "تذکرۃ الاولیاء" میں نقل کئے ہیں ۔
قرین قیاس ہے کہ آپ نے ہندی یاقدیم اردو میں بھی طبع آزمائی کی ہوگی لیکن تلاش بسیار کےک بعد راقم الحروف کو  نمونہ کلام نہ مل سکا ۔(۲۳)
درجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اردو  یا قدیم ہندوی زبان جس دور میں شعر و ادب کی زبان بننے کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھی ، اُسی دور سے پشتون شعراء اور اہل قلم کا اس زبان کی ادبی پرداخت میں حصہ رہا ہے مگر بدقسمتی سے اُس دور کے پشتون اہل قلم کے اردو شعر گوئی کے نمونے دستیاب نہیں ہیں ۔
ابتدائی منظوم نمونے:۔
اس دور میں اگر کسی شاعر کے شعری نمونے دستیاب ہیں تو وہ پشتون لاصل بزرگ خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر ہیں ۔ جن کا ایک بیت پہلے بھی پیش کیا جاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ حافظ  محمود شیرانی  نے اُن کے چند دھروں کا سراغ لگایا ہے ۔ جو انہوں نے شیخ باجن کی تصنیف اور خود مسعود گنج شکر کے جواہر فرید کے حوالے سے پیر کر دئے ہین ۔ انہوں نے مذکورہ دھرے پیش کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
"شیخ باجن نے آپ کا ایک ہندی دوھرہ اپنی تصنیف میں نقل کیا ہے ۔ وھو ہذا:


سائیں سیوت گل (گھل) گئی ماس نرھیا  دیہہ
تب لک سائیں سیوساں جب لک ہوسوں کیہ

 

جواہر فریدی سے ایک اور دوھرہ درج کیا جاتا ہے:
فریدا دھر سولی پنجرہ تیلیاں تہوکن کاگ
رب اجیون باہورے تو دھن ہمارے بھاگ(۲۴)

ان دھروں کے علاوہ انہوں نے خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر کی ایک نظم ریختہ کے نام سے پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اپنا تبصرہ شامل کرکے یوں لکھا ہے ۔
"شیخ فرید الدین کی طرف ایک ریختہ بھی منسوب ہے ، جس کا پتہ ہم کو دو مختلف بیاضوں سے ملتا ہے ۔ پہلی بیاض دسنہ لائبریری بہار کی مملوک ہے ، دوسری بیاض راقم الحروف کی ملک ہے ۔ وہ ریختہ یہ ہے:
وقت سحر وقت مناجات ہے
خیز در آں وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بیگوید ترا
خسب چہ خیزی کہ ابھی رات ہے
بادم خود ہمرہ احرار باش
صحبت اشرار بری بات ہے
باتن تنہا چہ روی زین جہاں
نیک عمل کن کہ وہی سات ہے
پند شکر گنج بجان گوش کن
ضائع مکن عمر ھیہات ہے(۲۵)

ہم نے دیکھا کہ اردو منظومات کا پہلا دستیاب نمونہ ہی پشتون بزرگ، صوفی اور شاعر خواجہ فرید الدین گنج شکر کے نام منسوب ہے ۔ اگر چہ اُن کے بعد فریدالدین کےنام سے فریدالدین ثانی اور فریدالدین ثالت بھی گزرے ہیں مگر مذکورہ منظومات کا اُن دونوں سے بھی منسوب کرنے کے لئے کوئی حوالہ دستیاب نہیں لہذا اکثر و بیشتر  محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ ہندوی کلام کے یہ دستیاب نمونے خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر ہی کے ہوسکتے ہیں اور یہ ہم تاریخی تناظر میں جانتے ہیں کہ خواکہ فرید الدین مسعودگنج شکر پشتون الاصل تھے۔
سولہویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشروں میں اردو شاعری ابتدائی مراحل ہی میں تھی ۔اس دور  میں محمود دکنی کے نام سے پشتون شاعر اس زبان کو ادبی اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں جو اردو شاعری کے ابتدائی  نقوش پختہ کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں  ۔ محمود کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے شاہ علی متقی ملتانی (وفات ۹۷۵ھ/ ۱۷۶۷ء) کا ہمعصر اور ملا وجہی سے ایک نسل پہلے کے دور کا بتاتے ہیں جس پر خاطر غزنوی ان الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں ۔
"ظاہر ہے کہ ۱۵۲۷ء(وفات پیر شاہ شہباز) میں وہ زندہ تھے اور پیر شہباز کے مرید رہے اور پھر شاہ علی متقی ملتانی کے ہم عصر بھی تھے جو ۱۵۶۷ء میں فوت ہوئے یعنی وہ ۱۵۲۷ء سے ۱۵۲۷ءتک زندہ رہے اور ظاہر ہے کہ پیر شہباز کے مرید ہونے کے ناطے ۱۵۲۷ء  سے پہلے بھی زندہ تھے ہی ۔ گویا ان کا زمانہ حیات سولہویں صدی کا ربع اول و دوم تھا اور وہ بابر بادشاہ کے ہندوستان کی فتح کے وقت شاعری کر رہے تھے ۔ (۲۶)
محمود کا تذکرہ نصیرالدین ہاشمی نے اپنی مشہور تصنیف "دکن میں اردو" میں ان الفاظ میں کیا ہے ۔
"اس دور کا دوسرا مشہور شاعر اور استاد سخن محمود تھا۔ ابن نشاطی کی صراحت سے واضح ہوتا ہے کہ سید محمود ان کا نام تھا ۔ چنانچہ "پھول بن میں" جہاں فیروز کا ذکر ہے ۔ اس کے ساتھ ہی محمود کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ۔
اہے صد  حیف جونیں سید محمودم
کتے پانی کوں پانی دودھ کوں دودھ (۲۷)

خاطر غزنوی مرحوم نے محمود دکنی کے کلام کا مخطوطہ دیکھنے کا انکشاف بھی کیا ہے ۔ جس میں محمود فارسی اور پشتو کلام بھی محفوظ ہے ۔ خاطر صاحب ے لکھا ہے :
"محمود کی بیاض کی دستیابی کا سہرا مولوی عبدالحق کے سر ہے جنہوں نے محمود کا ایک مخطوطہ دکن سے حاصل کیا اور راقم الحروف کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ سید محمود کے خاندان کے ایک فرد ڈاکٹر سید جعفر حسین جو ہاورڈ یونیورسٹی (امریکہ) سے قانون کی ڈاکٹریٹ حاصل کرکے ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کی اسلامی یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم دیتے رہے انہوں نے مجھے ازراہ کرم محمود کا فارسی زبان کا مخطوطہ عطا کیا، جس میں محمود کا صرف فارسی کلام درج ہے ۔ مولوی عبدالحق والے میں محمود کا عربی ، فارسی اور پشتو کلام بھی درج ہے ۔ اس مخطوطے کے مندرجات کے تحت محمود نے اپنی لسانی طاقت اور زباندانی کی صلاحیت کا اظہار کیا ۔(۲۸)
خاطر صاحب اپنی تحقیق میں محمود دکنی کی ہندوی شاعری کا پس منظر نمایاں کرتے ہوئے پشتو کے ساتھ اُن کی ہندکو خوانی کا تذکرہ بھی کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
"محمود پشتون تھے اور جب وہ دکن گئے تو نہ صرف فارسی یا عربی کی روایات اپنے ساتھ لے کر گئے بلکہ پشتو اور ہندکو کی روایات کو بھی دکنی شاعری کا حصہ بنایا ۔ یوں بھی دکنی زبان حیرت انگیز طور پر ہند کو زبان سے مماثل ہے ۔ اس کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ سرحد کے لوگ جو زیادہ تر سپاہی پیشہ تھے، مختلف ادوار میں دکن جاتے رہے  اور اکثر وہاں بس گئے ، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ محمد تغلق کا پایہ تخت دکن منتقل ہوا، لسانی روابط و اثرات کا موجب بنا ، اس کی فوج میں بے شمار سپاہی سرحدی تھے جو پشتو اور ہندکو بولتے تھے۔(۲۹)
اردو زبان و ادب کے ان ابتدائی ادوار میں محمود نہ صرف اس زبان میں شاعری کرتے تھے بلکہ شاعری میں فنی بارکیوں سے آشنا نمائندہ صنف غزل میں اپنی میلان طبع کا اظہار کرتے تھے ۔ یوں اگر اردو کے شعری ادب میں غزل کے ابتدائی نقوش کا سراغ لگانا ہو تو اس صنف کے نقاش اولین بھی پشتون شاعر محمود ہی ثابت ہوں گے ۔ محمود ہی تھے جنہوں نے اردو شاعری کے قدیم نمونوں میں غزل کا اضافہ کردیا اور اُسی فنی نزاکت اور باریکی کا مظاہرہ کیا جس کا غزل کا صنف متقاضی ہے ۔ یوں اگر اردو غزل کا اولین شاعر محمود نہ بھی ہوں مگر اُں کی غزل کی فنی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اردو غزل کو تغزل کی شان سے متعارف کروانے والے شاعر ہی پشتون اہل قلم محمود دکنی ہی تھے جن کی غزل کے بار ے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا یہ تبصرہ نہایت موزوں و مناسب ہے ۔
"محمود دکن میں غزل "نقاش اول" کہلانے کا مستحق ہے ۔ اس نے غزل کو گیت کی روایت کے حصارسے آزاد کرکے اسے پہلی بار اپنے فطری مضامین، خیالات، استعاروں اور تمثالوں سے آباد  کیا۔ وہ پہلا دکنی شاعر تھے جس نے غزل کو صحیح معنوں میں "غزل" بنایا اور اس میں خیال و فکر کی دنیا تخلیق کی۔ دکنی شعراء نے "غزل" کے وسیع افق کو صرف سراپا نگاری اور نشاط و طرب کی کیفیات تک محدود کر رکھا تھا ۔ مگر محمود ایک وسیع ذہن اور شعری تجربے کے پھیلاؤ کا شاعر ہے ۔ غزل اگر چہ اپنی "تنگنا" میں محدود رہی ہے مگر دکنی شعراء نے "تنگنائے غزل" موضوعات کے بہت ہی تنگ دائرے میں مقید کر دیا تھا۔ جب کہ محمود نے اس تنگنا کو وسیع کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن اس کی یہ کوشش مکمل روایت نہ بن سکی۔ اگر دکنی غزل اس کی روایت پر چلتی تو اس کا شعری افق بہت وسیع ہوسکتا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ محمود کے شعری اسلوب اور فکر و خیال سے دکن کے اردو شعراء اپنی شناخت نہ کرسکے ۔ اسی یہ اسلوب اختیار نہیں کیا گیا۔ وہ اسے بڑا شاعر تو کہتے رہے لیکن اس کی شعری بڑائی کی روایت پر نہ چل سکے ۔ محمود کے معنوی پھیلاؤ کی جگہ سراپا اور عیش و نشاط کی لذات سے باہر نہ نکل سکے ۔(۳۰)
خاطر غزنوی صاحب نے محمود دکنی کے کلام کے نمونے بھی دیے ہیں جن سے اُس دور کی ادبی زبان کا اندازہ ہوتا ہے مگر اس موقع پر ہم اردو کے ابتدائی نقوش میں پشتونوں کے کردار کی محض نشان دہی کرتے ہیں اس لئے کلام کے نمونے پیش کرنے اور اُس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں البتہ انتہائی اختصار کے ساتھ اُن کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی کا تبصرہ ضرور پیش کیا جاتا ہے ۔ "محمود کی شاعری  میں یہ رنگ سخن، یہ لہجہ اور یہ آہنگ زیادہ اُبھر کر سامنے آتاہے۔ محمود کے کلام کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ قدیم اردو ادبی اسلوب کی سرحد میں داخل ہوگئی ہے اور فارسی اسلوب و لہجے سے اپنے مزاج کی تربیت کر رہی ہے ۔ فیروز کی طرح محمود بھی شمال سے دکن میں گیا تھا، وہ ایک قادر الکلام شاعر تھا جس نے اردو کے علاوہ فارسی، افغانی اور پنجابی میں بھی شاعری کی تھی لیکن اس کی اصل شہرت اردو کلام کی وجہ سے ہے ۔
شعر شیریں کا تیرا لے ہے رواج دکنی منے
طوطیاں اپنے پراں کے ہند میں دفتر کئے(۳۱)

بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو جس دور میں علم و ادب کے میدان میں ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی تھی عین اُسی دور میں پشتون اہل قلم اس زبان کو وسیلئہ اظہار بناتے ہیں ۔ یہ مغل حکمران بابر کا دور تھا۔ بابر کے دور حکمرانی کے بعد تھوڑے عرصے کے لئے ہمایوں اور پھر پشتون حکمران شیر شاہ سوری کا ہندوستان میں دورِ حکمرانی آتا ہے ۔ شیر شاہ سوری (سن جلوس ۹۳۸ھ تا  ۹۴۳ھ بمطابع  ۱۵۴۰ء تا  ۱۵۴۵ء) کے عہد کا یہ پشتون شاعر اور صوفی بزرگ شیخ عیسیٰ مشوانی فارسی، پشتو اور ہندوی تینوں زبانوں میں طبع آزمائی کرتا تھا ۔ خواجہ نعمت اللہ ہروی نے اپنی تالیف تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی (مؤلفہ  ۱۰۲۰ھ ) میں شیخ عیسٰی مشوانی کے چند واقعات قلمبند کئے ہیں جن میں ایک واقعہ شیر شاہ سوری سے تعلق رکھتا ہے ۔ واقعہ یوں ہے ۔
"بیان کرتے ہیں کہ ایک دن شیر شاہ سوری کی محفل میں اولیاء اللہ کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی ۔ اس کے قابل اعتماد درباریوں میں سے ایک ( ۸۲۴) نے میاں شیخ عیسیٰ  کی بے حد تعریف کی اور کہا کہ موجودہ اولیاء میں سے بڑے پاکیزہ نفس، صاحبِ حال اور کشف و کرامت کے مالک بزرگ ہیں ۔ کسی دوسرے منہ چڑھے نے بھی اس تعریف کی تائید تو کردی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سنا ہے وہ شراب کے بھی عادی ہیں ۔ شیر شاہ کی طبیعت پر یہ بات بہت گراں گذری ، اپنے قابل اعتبار امراء میں سے ایک کو حکم دیا کہ جاکر اس بات کی تحقیق کرے اور جو کچھ معلوم ہو یا مشاہدے میں آئے، آکر ہمارے حضور بلا کم و کاست بیان کیا جائے۔ شاہی حکم کی تعمیل میں وہ آدمی میاں شیخ عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک صراحی ان کے حجرے کے ایک کونے میں رکھی ہے حال احوال دریافت کرنے اور ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اس شخص نے عرض کی کہ یا حضرت اس صراحی میں کیا رکھا ہے ۔ آپ کو اپنے کشف کے ذریعے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ آدمی کیوں آیا ہے ۔ فرمانے لگے صراحی کو خود اُٹھا کر دیکھ لو بلکہ جو کچھ اُس میں ہے اسے کسی پیالے میں ڈالو تمہیں خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ اس کے اندر کیا ہے ۔ ان کے ایسا فرمانے پر اُس شخص نے صراحی ہاتھ میں لی اور اُسے کسی پیالے پر اُلٹا تو اُس میں سے صاف شفاف سفید دودھ پیالے میں گرا۔ یہ شاہی آدمی شیخ عیسیٰ کے پاؤں پر گر پڑا اور بڑی معذرت کے ساتھ آپ سے اجازت چاہی ۔ فرمانے لگے کہ شیر شاہ کو ہمارا سلام دینا اور کہنا کہ معمولی سی بات پر ہم فقیروں کا امتحان کرنا بادشاہوں کو زیب نہیں دیتا ۔ ہم نے اس میدان میں قرب الہٰی کو حاصل کرنے کے لئے قدم رکھا ہے اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں ہے اور پھر فی البدیہہ طور خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر پڑھا:
وفا کنیم و ملامت کشیم و خوش باشیم
کہ در طریقت مسا کافریست رنجیدن

(ہم اپنے محبوب سے ہمیشہ وفا کرتے ہیں اس کے باوجود بھی اگر وہ ہمیں لعنت ملامت کرے تو خوش رہتے ہیں اس لئے کہ ہمارے مذہب میں محبوب سے ناراض ہونا کفر ہے )(۳۲)
اس آدمی نے واپس جاکر سارا ماجرا من و عن شیر شاہ کی خدمت میں عرض کر دیا۔ اس روز سے شیر شاہ اور اس کے تمام وزراء امراء اور درباریوں نے حضرت شیخ عیسیٰ کی بزرگی کو تسلیم کرلیا واللہ اعلم (حقیقت اس امر کو اللہ ہی بہتر جانتاہے)نعمت اللہ ہروی نے شیخ عیسیٰ کی شاعری کے ایک رسالہ کا تذکرہ بھی کیا ہے جس میں فارسی، پشتو اور ہندوی تینوں زبانوں کی شاعری محفوظ تھی ۔ انہوں نے لکھا ہے۔
"( ۸۲۵) کہتے ہیں کہ میاں شیخ عیسیٰ مشوانی نے توحید کے موضوع پر تین زبانوں، پشتو ، فارسی اور ہندوی میں ایک تصنیف کیا تھا ۔ ذیل میں اس رسالے سے چند شعر اور جملے نقل کئے جاتے ہیں۔ (۳۳)
نعمت اللہ ہروی نے مذکورہ رسالہ سے تینوں زبانوں کے اشعار کے چند نمونے دئے ہیں جن میں اُس دور کی ہندوی زبان کے اشعاریہ ہیں:
"کلمی ازلی جو گیا لکھ
اس کارن نکیجو اتا دوکھ
گھر بیٹھی دہ دیسی دام
جو لکھیو (سی) تیری لسام
جو تو کرسی الٰہ یقین
کامل ہوسی تیرا دین
روی عیسیٰ جو تو رہ نہ نسنکہ
حیوانیاں توں اوس دھر رکھ(۳۴)

شیر شاہ سوری کے عہد کے اس پشتون شاعر کی ہندوی شاعری پر تبصرہ کرنے کی بجائے خاطر غزنوی صاحب کی اس مختصر رائے پر اکتفا کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں:
"میاں شیخ عیسیٰ مشوانی سے جو ہندوی اشعار منسوب کئے گئے ہیں ، ایک پشتون کی حیثیت سے ان کی ہندوی دانی اور ہندوی شاعری ایک تعجب کی بات ہے لیکن بنظر دقیق دیکھا جائے تو یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ ان کا ڈیرھ اسماعیل خان کے لوگوں سے بچپن میں میل جول، ان کی ہندوی زبان دانی اور پھر بعد میں داملہ میں اپنے مریدوں کے ساتھ گفتگو کے سبب نکھر کر سامنے آیا۔(۳۵)
یہ ہیں اردو شاعری کے وہ ابتدائی نمونے جو پشتون اہل قلم کے ذوق ادب کے مرہون منت ہیں اور جن سے واضح طور پر اندازہ ہوتاہے ۔ کہ اردو شاعری یا منظوم ادب کے ابتدائی نقوش ثبت کرنے میں پشتون اہل قلم کا کردار انمٹ اور ناقابل فراموش ہے ۔
نثر کے ابتدائی نمونے:۔
اردو نثر کے ابتدائی نقوش کو واضح کرتے وقت اس زبان میں باقاعدہ تصانیف سے پہلے فارسی مصنفین کی کتابوں میں ہندوی زبان کے چند جملے ، فقرے اور مکالمے ملتے ہیں اور ہم نے اس بحث میں اشارہ کیا ہے کہ ان جملوں کے ابتدائی نمونے بھی پشتون صوفیاء کی تحریروں میں ملتے ہیں جن میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر کے چند ہندوی زبان میں کہے گئے جملے اور مکالمہ کا حوالہ دیا جاچکا ہے ۔ ان صوفیائے کرام کا تخاطب جب ہند کے لوگوں سے ہوا تھا  اُن کی زبان ہندوی میں بھی فقرے ادا کرنے پڑے۔ مختلف تاریخی حوالہ جات سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سلسلہ رشد و ہدایت  اور تبلیغ دین کے سلسلے میں یہ صوفیاء عرب و ایران کے علاوہ افغانستان سے بھی داخل ہوئے تھے ۔ بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ عرب و ایران کے صوفیاء بھی افغانستان کے راستے سے ہندوستان میں داخل ہوتے ہوئے افغانی اثرات بھی ساتھ لائے تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ ہندوستان میں غلبہ و تسلط اور حکمرانی بھی غوری خاندان کر رہی تھی جو بنیادی طور پر افغان تھے ۔ اسی دور میں ہندوی نثر کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ جب عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن سے "اردو نثر کا آغاز و ارتقاء" کے عنوان سے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہی تھی تو انہوں نے ہندوستان میں غوری سلطنت اور ہندوستان میں عرب و ایران کے علاوہ افغانستان سے وارد ہونے والے صوفیاء کا تذکرہ ہندوی زبان کی نثری پس منظر کے تناظر میں ان الفاظ میں کیا تھا ۔
"ہندوستان میں ساتویں صدی ہجری کا آغاز دہ زمانہ ہے جبکہ دہلی میں محمد غوری کی قائم کی ہوئی مملوک بادشاہت اپنی ابتدائی کش مکش کے دور سے گزر کر کسی حد تک استقلال کی صورت اختیار کرچکی تھی ۔ یہ اگلے دور کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ امن و امن کا دور تھا ۔ بڑے بڑے اہل قلم ، صوفی، شاعر، تاجر اور صناع، ایران و عرب سے ہندوستان آرہے تھے اور نئی شائستگی اور نئی زبانیں رکھنے والی قوموں کے ربط سے جس لسانی نتائج فطرتاً پیدا ہونے چاہیں تھے وہ نشو و نما پارہے تھے ۔ اس زمانے میں ایرانی ادب پر تصوف کا بہت گہرا اثر تھا ۔ اور نئی قوم اور  نئے مذہب کے لوگوں سے ہندوستان میں ربط پیدا ہونے کے بعد ان علماء کو اس کی ضرورت سختی سے محسوس ہوئی کہ ہندوستانی عوام  کو اپنے مذہب کے حقائق ، تصوف یعنی ہمہ گیر محبت کی زبان میں سمجھائیں ۔ اس زمانے میں جتنے علماء ہندوستان آئے انہوں نے تصوف ہی کی اصطلاحوں میں مذہب اسلام کو پیش کیا ۔ تاکہ محبت اور پریم کی مفاہمت کے ذریعہ نئے تصورات رکھنے والے عوام کے درمیان زیادہ مستحکم تعلقات پیدا ہوسکیں ۔ ان بزرگوں کے بہت سے سلسلے تھے ۔ جیسے چشتی، قادری، نقشبندی ، سہروردی وغیرہ ان میں سے کوئی عرب سے کوئی ایران سے اور کوئی افغانستان سے آئے تھے۔ ان کی اپنی زبانیں بھی مختلف تھیں ۔ لیکن انہوں نے یہاں کے لوگوں کو ان کی زبان میں جس کو وہ ہندکی مناسبت سے "ہندی" کہتے تھے اسی میں مخاطب کیا تاکہ ان کا پیام گھر گھر پہنچ سکے۔(۳۶)
یہ وہ پس منظر تھا جس میں صوفیائے کرام کو ہندوی زبان میں کلام کرنا پڑا اور اپنی فارسی تصنیفات میں ہندوی کے فقرے داخل کرنے پڑے۔ اسی پس منظر میں ہم نے دیکھا کہ ان صوفیاء میں سے قطب الدین بختیار کاکی اور خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر جیسے پشتون الاصل بزرگ بھی شامل تھے اور اسی پس منظر میں ہم نے ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ بھی دیکھا کہ یہاں غلبہ و تسلط اور حکمرانی بھی پشتون الاصل حکمرانوں خصوصی طور پر شہاب الدین محمد غوری کی رہی جن کو اپنی زبان اور ثقافتی پس منظر کے ساتھ ساتھ ہندوی زبان کی سرپرستی یا کم از کم اس نئی اُبھرنے والی زبان کی طرف متوجہ ہونا بھی ایک فطری امر تھا ۔ لہٰذا اردو نثر کے ابتدائی نقوش کا آغاز اگر ہم ہندوی کے بکھرے فقرات سے کریں گے تب بھی آغاز کا سہرہ پشتونوں کے سرہی سجے گا اور اگر باقاعدہ تصانیف کی طرف آئیں گے تب بھی ہمیں پشتون صوفیائے کرام کا کردار نمایاں طور پر سامنے آتا ہے ۔

 

باقاعدہ تصانیف:۔
اردو میں نثر کا باقاعدہ آغاز بھی باقاعدہ تصانیف سے ہوتا ہے ۔ اردو کی باقاعدہ تصانیف سے پہلے فارسی تصانیف میں اردو نثر کے کچھ نمونے ملتے ہیں مگر باقاعدہ طور پر اردو کی نثری تصنیف کے بارے میں محققین کے آراء مختلف ہیں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اس اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
"بعد میں پروفیسر احسن مار ہروی نے "منشورات" ( ۲)(تاریخ نثر اردو) میں مولوی عبدالحق کی تحقیق پر اکتفا کرتے ہوئے ان کی ہنموائی کی ہے ۔ اردو کے ایک اور محقق حکیم شمس اللہ قادری نے "اردوئے قدیم" میں شیخ عین الدین گنج العلم ، متوفی  ۷۹۵ء کے رسالوں  کو اردو نثر کا سب سے پہلا کارنامہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور نے بھی "اردو شہ پارے" حصہ اول می حکیم شمس الدین قادری کی رائے سے اتفاق کیا ہے لیکن پروفیسر حامد حسین قادری نے "تاریخ داستان" اردو میں حضرت اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ تصوف کو جو  ( ۷۰ھ)  کی تصنیف ہے ۔ اردو نثر کا پہلا کارنامہ قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں(۳۷)
نامور محقق و نقاد ڈاکٹر سلیم اختر نے اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں اردو کی پہلی نثری تصنیف کے زیر عنوان اس اختلاف کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اُس میں ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کے حوالے سے اردو نثر کی قدیم ترین تصنیف رسالہ جنونیہ کا تذکرہ بھی کیا ہے ۔ انہوں نے لکھا !
"ویسے محققین میں اس امر پر بھی اختلاف رائے ملتا ہے کہ سب سے پہلی نثری تصنیف کس کی ہے۔ محمد حسین آزاد (آب حیات) اور بعد ازاں ان کی پیروی میں محمد یحیی تنہا (سیرالمصنفین) اور عبدالحئی (گل رعنا) نے فضلی کی وہ مجلس یا کربل کتھا کو اردو کی پہلی نثری تصنیف قراردیا ۔ فضلی محمد شاہ کے عہد  ( ۱۱۴۵ھ)  میں تھا ۔ ان کے بعد مولوی عبدالحق اور ان کے ہمنوائی میں پروفیسر احسن مار ہروی (منشورات) نے خواجہ بندہ نواز (وفات  ۸۲۵ھ ) کی "معراج العاشقین" کو پہلی نثری تالیف ثابت کیا ۔ حکیم شمس اللہ قادری (اردوئے قدیم) اور ڈاکٹر محی الدین قادری  زور شیخ عین الدین گنج عالم (متوفی  ۷۹۹ء) کے رسالوں کو اولیت دیتے ہیں ۔ ان کے بعد مولانا حامد حسین قادری آتے ہیں ۔
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے اپنے تحقیقی مقالہ "اردو نثر کا آغاز  و ارتقاء" میں مزید شواہد کی بنا پر اس بحث میں ایک نئے نام کا اضافہ کیا ہے ۔ ان کے بموجب رسالہ "جنونیہ" نثر کی قدیم ترین کتاب ہے ۔ یہ بیجاپور کے سرکاری عجائب گھر میں محفوظ ہے ۔ اس کے ساتھ دواردو منظو رسالے "پندنامہ" اور "چگی نامہ"  بھی منسلک ہیں ۔ رسالہ "جنونیہ" میں اردو مقولوں کی تشریح فارسی میں کی گئی ہے۔(۳۸)
ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے رسالہ جنونیہ کے ساتھ ایک اور نثری تصنیف ہفت اسرار کا تذکرہ بھی کیا ہے مگر ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ ان تصانیف میں کچھ تشریحات فارسی میں بھی شامل ہوتی تھیں نیز یہ کہ مذکورہ رسالے یا تصنیف کے مصنف کے بارے میں خود ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ کو بھی کچھ مواد و معلومات نہ مل سکیں ۔ وہ لکھتی ہیں:
"ان شہادتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "جنونیہ"مربوط نثر کا اولین نمونہ ہے اور  ۷۹۵ء کے قریبی زمانے کی تصنیف ہے ۔ "ہفت اسرار" کے تذکرے سے ایک بات ضرور متعین ہوجاتی ہے وہ یہ کہ اردو کی نشونما کے اس دورمیں ایسے رسالے عام طور پر لکھے جاتے تھے ۔جن میں اردو مقولوں کی تشریح فارسی میں کی جاتی تھی ۔ یہ رسالے ابتداءً ہندوستانی عوام کے لئے لکھے جاتے ہوں گے ۔ بعد میں فارسی داں لوگوں کو سمجھانے کے لئے ان کی فارسی میں تشریح کردی جاتی ہوگی ۔ اس طرح یہ رسالہ عین الدین گنج العلم (متوفی  ۷۹۹ھ)  کے رسالوں اور رسالہ اشرف جہانگیر سمتانی (متوفی  ۸۰۸ھ) نیز دوسرے تمام رسالوں کے مقابلے میں جن کا اب تک علم ہوا ہے ، قدیم تر ثابت ہوتا ہے ۔ افسوس ہے کہ رسالے کے مصنف کے بارے میں مرتب کو باوجود تلاش کے کچھ مواد دستیاب نہ ہوسکا ۔ (۳۹)
لہذا جب ہم فارسی و عربی کے اثرات سے پاک جس اردو تصنیف کو اردو نثر کے نقش اولین کا درجہ دے سکتے ہیں وہ بھی اُسی عظیم روحانی ہستی کا ہے جو پشتونوں کے وطن ہرات سے ہندوستانی کے پشتون حکمران محمد غوری کے ساتھ ہندوستان میں آئے تھے اور ہندوی زبان میں رسالے تصنیف کئے تھے ۔ یہ عظیم ہستی سید زادہ حضرت خواجہ بندہ نواز تھے جن کا سلسلہ نسب تو حضرت امام حسین اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک جا ملتا ہے مگر اُن کا آبائی وطن بھی افغان سرزمین کا ہرات تھا اور ہندوستان میں بھی اُن کا آنا پشتون حکمران محمد غوری کے ساتھ ہوا تھا ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ ہی نے اُن کے بارے میں لکھا ہے:
"خواجہ صاحب کا اصلی وطن دہلی تھا۔ جہاں ان کے بزرگ پانچویں صدی ہجری میں ہرات سے آکر بس گئے تھے ۔ خواجہ صاحب صحیح النسب سید تھے ۔ ان کا سلسلہ اٹھارہ واسطوں مظلوم بن زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ملتا ہے ۔
خواجہ صاحب کے دادا حضرت ابھی الحسن الجندی، محمد غوری کے ساتھ ہرات سے دہلی فتح کرنے کے لئے آئے تھے ۔ اسی جنگ میں شہید ہوگئے ۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی اولاد دہلی ہیں میں بس گئی ۔ ان کی اولاد میں سے سید یوسف عرف سید راجو قتال کے دو فرزند سید چندن اور سید محمد حسینی تھے ۔(۴۰)
حضرت خواجہ صاحب کا رسالہ "معراج العاشقین" کے نام سے شائع ہوا ہے جو بابائے اردو و مولوی عبدالحق نے دریافت کیا ہے اور اردو کے اکثر و بیشتر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ معراج العاشقین ہی اردو کی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے یوں وضاحت کی ہے ۔
"ان رسالوں میں جو اب تک شائع ہوچکے ہیں سب سے پہلا رسالہ "معراج العاشقین" ہے ۔ جسے مولوی عبدالحق نے اپنے عالمانہ مقدمہ کے ساتھ مرتب فرمایا تھا یہ رسالہ تاج پریس ،حید آباد دکن سے شائع ہوچکا تھا اس لئے اس کے بارے میں کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔
اس رسالے کی تصنیف کا سنہ متعین طور پر معلوم نہ ہوسکا لیکن مولوی عبدالحق صاحب کا خیال یہ ہے کہ یہ  ۸۰۱ھ یا س کے لگ بھگ کی تصنیف ہے ۔ اسی سنہ کو احسن مارہروی نے بھی صحیح مان لیا ہے لیکن نصیرالدین صاحب ہاشمی نے معراج العاشقین سہ بارہ اور ہدایت نامہ کا  ۸۱۵ھ تا  ۸۲۵ھ کا درمیانی زمانہ بتایا ہے لیکن میرے خیال میں  ۸۰۱ھ قبل کی یعنی آپ کے قیام دھلی کے زمانہ کی تصنیف ہے ۔(۴۱)
اردو نثر کے ابتدائی نقوش کو واضح کرتے ہوئے باقاعدہ تصنیفات میں فارغ بخاری صاحب نے ایک تفسیر ہندی کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس تفسیر کو وہ اردو زبان میں پہلی تفسیر بھی گردانتے ہیں مگر اس کے مصنف  اور سن تصنیف کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا گیا  بلکہ اندازہ لگا کر اس تفسیر کو آج سے چھ سو سال قدیم بتایا گیا ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے:
"سرحد میں اب تک جوار دو کا قدیم ترین مسودہ میسر آسکا ہے وہ "تفسیر ہندی"  کا وہ کرم خوردہ نسخہ  ہے جو سنٹرل ریکارڈ آفس پشاور میں محفوظ ہے لیکن بدقسمتی سے اس نسخے کے ابتدائی اوراق نہ ہونے سے اس کے سن تصنیف اور  مصنف پر کوئی روشنی نہیں پڑ سکتی اس آفس کے منتظم جناب ایس ایم جعفر کا کہنا ہے کہ کاغذ ، کتابت اور رسم الخط کے اعتبار سے یہ نسخہ کم از کم چھ سو سال یا اس سے بھی زیادہ پرانا معلوم ہوتا ہے ۔ اس اعتبار سے یہ قرآن حکیم کی پہلی اردو تفسیر بھی ہے ۔ اور سب سے پہلی اردو کتاب بھی   ــــــــــــتحریر کسی خالص افغان مولوی کی معلوم ہوتی ہے  ـــــــــــــــــ  اس کا اندازِ تحریر اور رسم الخط دونوں اس کی قدامت اور افغانیت کے شاہد ہیں ۔ لیکن جہاں تک علمی تحقیق کا تعلق ہے اس کے لئے محض قیاس آرائی سے کام نہیں چلتا بلکہ ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔(۴۲)
اردو یا اُس دور کی ہندوی زبان میں ان تصنیفات  کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ہے کہ معراج العاشقین کے مصنف حضرت خواجہ بندہ نواز کا تعلق اگر چہ پشتون جغرافیہ ہرات اور پشتون حکمران ہند محمد غوری سے ہے مگر اُن کی شناخت پشتو ادب سے نہیں  یا اُن کے پشتو میں تحریر ی ادب کے نمونے دستیاب نہیں۔ اسی طرح تفسیر ہندی کا مصنف کوئی افغان ہوسکتا۔ مگر واضح  طور پر نہ تو سن تصنیف معلوم ہے اور نہ ہی مصنف کا نام ۔ مگر جب ہم مغل حکمران
جلال الدین اکبر کے دور میں پشتو کے ممتاز ادیب صوفی بزرگ اور روشنیہ تحریک کے بانی بایزید انصاری پیر روشن کی تصنیفات کا مطالعہ کرتے ہیں تو دسویں  صدی ہجری کے اوائل ہی میں چار زبانوں عربی، فارسی، پشتو اور ہندوی میں اُن کی تصنیف خیرالبیان اپنی غیر معمولی اہمیت کے ساتھ سامنے آتی ہے جو ہندوی زبان میں باقاعدہ تصانیف کے ضمن میں ابتدائی نقوش کا پتہ دیتی ہے ۔ خیر البیان کی غیر معمولی حیثیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی نے یوں لکھا ہے :
"اردو نثر کا قدیم ترین نمونہ" ، "خیر البیان" مصنفہ بایزید انصاری ( ۹۰ھ/ ۱۵۷۲ء)  میں ملتا ہے ۔ "خیر البیان" میں پیر روشان بایزید انصاری نے مخصوص نقطہ نظر سے اسلامی عقائد کو پیش کیا ہے اور اپنی اس تصنیف میں ایک ہی بات کو چار زبانوں میں لکھا ہے ۔ پہلے عربی میں ، پھر فارسی میں، پھر پشتو میں اور اس کے بعد اردو میں ۔ بیک وقت یہ چار زبانیں اس لئے استعمال کی گئی ہیں تاکہ پیر روشان کے عقائد و خیالات ساری دنیائے اسلام ، صوبہ سرحد اور براعظم میں پھیل سکیں۔ یہ نثر اپنی قدامت کی وجہ سے آج بھی لسانی نقطئہ نظر سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے ۔ ساڑھے چار سو سال سے زیادہ کا عرصہ کسی زبان کی تاریخ میں ایک بہت طویل عرصہ ہوتا ہے ۔ بایزید انصاری کے، عربی ، فارسی ، پشتو کے ساتھ ، اردو زبان میں اپنے خیالات کے اظہار سے اس بات کی مزید تصدیق ہوجاتی ہے کہ اس زمانے میں بھی یہی وہ زبان تھی جس سے سارے برعظیم کے لوگوں کو مخاطب کیا جاسکتا تھا ۔(۴۳)
ڈاکٹر انور سدید نے پیر روشن کے خیر البیان کو شمالی ہند میں اردو  نثر کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے اور لکھا ہے :
"یہ شمالی ہند میں اس دور کی نثر کا واحد نمونہ ہے جو دسویں صدی ہجری میں لکھی گئی ۔ چنانچہ اسے بجا طور پر شمالی ہند میں اردو نثر کی پہلی تصنیف قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اردو زبان اظہار مطالب کے لئے اگر چہ ڈگمگار ہی تھی لیکن اس کا عام کینڈا مضبوط ہورہا تھا مقامی زبانوں کے مزاج کو اس زبان نے اپنے خون میں بڑی خوبی سے جذب کر لیا تھا اور ہم زبانی محض ہم خیالی تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اب یہ نظم و نثر کی ادبی زبان بھی بن رہی تھی ۔ (۴۴)
یہ وہ پس منظر ہے جو ہمیں اردو زبان و ادب میں باقاعدہ نثری تصنیفات کا اُس دور میں پتہ دیتی ہے جس دور میں اردو نثر کے ابتدائی نقوش ثبت ہورہے تھے ۔ اردو ادب کی زبان بننے کے ابتدائی مراحل میں تھی اور یوں اردو میں باقاعدہ تصنیفات کا آغاز ہورہا تھا ۔ ہم نے دیکھا کہ اردو ادب کے اس ابتدائی داغ بیل میں اور پھر باقاعدہ نثری تصنیفات میں پشتون ادیب کس انہماک سے حصہ لے رہے تھے اور کس درجہ کا لازوال کردار ادا کر رہے تھے ۔ اس دور کے منظوم ادب میں پشتون اہل قلم کی کوئی باقاعدہ تصنیف نظر نہیں آئی جو اردو کی اولین مثنوی "کدم راؤ پدم راؤ" کے زمانے کی ہو یا اس سے پہلے دور کی ہو البتہ منظوم بکھرے اوراق ضرور ملتے ہیں جن سے اردو ادب کے ابتدائی نقوش ثبت کرنے میں پشتونوں کے ناقابل فراموش کردار  کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔
اس بحث میں ہم نے اردو ادب کے محض ابتدائی نقوش واضح کرنے میں پشتون اہل قلم کے کردار کا جائزہ لیا مگر پشتون اہل قلم کے اردو ادب کا فنی و فکری جائزہ پھر بھی نہیں لیا ۔ نہ اس بحث میں پشتون اہل قلم کی ہندوی تحریروں کی لسانی خصوصیات پر تبصرہ کیا اور نہ ہی اُس دور کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور ادبی حالات کے تناظر میں ان کی تحریروں کا جائزہ پیش کیا ۔ لہذا یہ تبصرہ جائزہ اور دیگر تفصیلات بھی پیش کی جائیں گی فی الحال مذکورہ ابتدائی نقوش اور پشتون اہل قلم کے کردار اُجاگر کرنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ۔

حوالہ جات
۱۔           خان مسعود  حسین  ، پروفیسر  ، مضامین مسعود  ایجوکیشنل  بک ہاؤس  علی گڑھ  ، ۱۹۹۷ء ،  ص ۱۱۰
۲۔            جالبی ، جمیل  ڈاکٹر ، تاریخ ادب اردو  ( جلد اول ) ، مجلس ترقی ادب لاہور ، جولائی  ۱۹۷۵ء ،  ص  ۷۰۱
۳۔            ایضاً ، ص  ۷۰۱ تا ۷۰۲
۴۔          آزاد  محمد  حسین  شمس العلما ء ،  آب حیات  سنگ میل  پبلی کیشنز  لاہور ، س۔ن، ص ۱۶ تا  ۱۷
۵۔          شیرانی، حافظ محمود، مقالات حافظ محمود شیرانی، (جلد اول) مرتبہ مظہر محمود شیرانی، مجلس ترقی ادب لاہور، فروری ، ۱۹۹۷ء ، صفحہ ۱۵۷-۱۵۶
۶۔          نقوی ، سید قدرت ، لسانی مقالات (حصہ دوم) ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، اگست  ۱۹۸۸ء ، صفحہ  ۱۲۸
۷۔         عرشی ، امتیاز علی، حاجی خیل ، اردو میں پشتو کا حصہ ، پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی ،  ۱۹۶۰ء صفحہ  ۴۵- ۴۴
۸۔          گنج شکر ،فرید الدین، شیخ، مشمولہ لسانیات پاکستان (ڈاکٹر عبدالحمید سندھی) ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد ،  ۱۹۹۲ء ، صفحہ  ۱۵۴
۹۔          کاشمیری، تبسم، ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،  ۲۰۰۳ء ، صفحہ  ۲۹
۱۰۔         خلیل حنیف، اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،  ۲۰۰۵ء ، صفحہ  ۳۱۵- ۳۱۴
۱۱۔         رفیعہ سلطانہ، ڈاکٹر، اردو نثر کا آغاز و ارتقاء، کریم سنز پبلشرز پاکستان ،  ۱۹۷۸ء ، صفحہ  ۲۵
۱۲۔         شیرانی ، حافظ محمود، پنجاب میں اردو ، کتاب نما لاہور، طبع چہارم ،  ۱۹۷۴ء ، صفحہ  ۲۵۳
۱۳۔        ایضاً صفحہ ،  ۲۵۳- ۲۵۲
۱۴۔        ایضاً صفحہ  ۲۵۳
۱۵۔        ایضاً صفحہ  ۶۶- ۶۵
۱۶۔         ایضاً  صفحہ  ۱۳۲
۱۷۔        مدنی ، سید طہور الدین ، ڈاکٹر ، اردو غزل ولی تک، بزم اشاعت جو گیشوری بمبئی،  ۱۹۶۱ء ، صفحہ  ۲۱
۱۸۔        شیرانی ، حافظ محمود، مقالات حافظ محمود شیرانی (مرتبہ مظہر محمود شیرانی)، صفحہ  ۲۶۱- ۲۶۰
۱۹۔         بخاری ، فارغ ، ادبیات سرحد (جلد سوم) ، صفحہ  ۲۵- ۲۴
۲۰۔        کاشمیری، تبسم ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تاریخ ، صفحہ  ۲۹- ۲۸
۲۱۔         ورما، سدھیشور، آریائی زبانیں، مکتبہ معین الادب لاہور، طبع دوم ، نومبر  ۱۹۶۰ء صفحہ  ۱۳- ۲۳، حنیف، اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کرار، صفحہ  ۲۹۸
۲۲۔        خلیل ، حنیف  اردو کی تشکیل  میں پشتونوں  کا کردار ،  ص ۲۹۸
۲۳۔       رضا، محمد افضل ، پروفیسر ، اردو کے قدیم پشتون شعراء، پشتو اکیڈیمی پشاور یونیورسٹی ،  ۱۹۹۸ء ، صفحہ  ۵۱- ۵۰
۲۴۔       شیرانی، حافظ محمود، مقالات حافظ محمود شیرانی ، (مرتبہ مظہر محمود شیرانی) صفحہ  ۲۴۰
۲۵۔        ایضاً صفحہ   ۲۴۱- ۲۴۰
۲۶۔        غزنوی ، خاطر ، اردو کا ماخذ ہندکو، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،  ۲۰۰۳ء ، صفحہ  ۲۰۳
۲۷۔       ہاشمی ، نصیرالدین ، دکن میں اردو، ترقئی ارو بیورو نئی دہلی،  ۱۹۸۵ء ، صفحہ  ۸۴
۲۸۔       غزنوی ، خاطر، اردو کا ماخذ ہندکو ، صفحہ  ۲۰۶
۲۹۔        ایضاً صفحہ  ۲۰۴
۳۰۔       کاشمیری ، تبسم ، ڈاکٹر ، اردو ادب کی تاریخ صفحہ  ۱۵۱
۳۱۔          غزنوی   ، خاطر ، اردو کا مآخذ  ہندکو،  ص  ۲۰۸
۳۲۔        ہروی ،  خواجہ  نعمت اللہ ، تاریخ  خان  جہانی  و مخزن  افغانی  ( اردو  ترجمہ  ڈاکٹر  محمد  بشیر)  مرکزی  اردو  بورڈ  لاہور ،  اگست  ۱۹۷۸ء ،  ص ۶۳۴/۶۳۳
۳۳۔         ایضا ً، ص  ۶۳۴
۳۴۔         ایضاً، ص  ۶۳۶
۳۵۔        غزنوی   ، خاطر ، اردو کا مآخذ  ہندکو،  ص  ۲۱۳
۳۶۔        رفیعہ  سلطانہ  ، ڈاکٹر ،  اردو نثر کا ارتقا،  ص  ۲۳۔۲۲
۳۷۔        ایضاً، ص،  ۴۹
۳۸۔        اختر  ، سلیم   ڈاکٹر ،  اردو ادب کی  مختصر ترین تاریخ ،  سنگ میل  پبلی کیشنز  لاہور،  ۲۰۰۵ء ،  ص ، ۶۰۔ ۶۱
۳۹۔           رفیعہ  سلطانہ  ، ڈاکٹر ،  اردو نثر کا ارتقا،  ص  ۵۵۔۵۶
۴۰۔         ایضاً ، ص ، ۷۴۔ ۷۵
۴۱۔         ایضاً ،ص، ۷۶
۴۲۔ ٍ       بخاری  ، فارغ  ، ادبیات  سرحد ،  (جلدسوم )  ص ۵۶
۴۳۔         جالبی ،  جمیل  ، ڈاکٹر ،  تاریخ ادب  اردو  ( جلد  اول )  ص ۷۰۳

۴۴۔           سدید ، انور ، ڈاکٹر ،  اردو ادب کی مختصر  ترین تاریخ  ، عزیز بک ڈپو لاہور،  طبع  سوم ، ۱۹۹۸ء ، ص  ۹۳
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com