اکیسویں صدی کی اُردو غزل میں امریکی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کا تحقیقی جائزہ
طارق ودود    پی ایچ ڈی  ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو جامعہ پشاور
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری شعبہ اُردو ، جامعہ پشاور

ABSTRACT :


This literary and critical study is about the resistance in Urdu Ghazal to American State terrorism. The scholars, analysts and poets have expressed their doubts about the war on terrorism throughout the world especially in Muslim countries and termed this war as a novel way of neo-colonialism

.
اکیسویں صدی کی دہلیز پر نائن الیون واقعے کے ردعمل میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پورے خطے بالخصوص افغانستان ، عراق اور پاکستان کو اپنی ریاستی دہشت گردی کی آگ میں  جھونک دیا۔ یہ سوال ابھی حل طلب ہے کہ کیا حملہ طالبان نے کیا خطے میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل اور نیو ورلڈ آرڈر کی تنقید کی خاطر امریکا نے یہ ڈرامہ خود رچایا۔ کیونکہ پوری دنیا سمیت خود امریکا کے قلم کاروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے بھی اس واقعہ پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکا کا سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا ہے۔ ان محقیقین اور تجزیہ کاروں میں امریکا کے سابق نائب صدر وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹ کی تحقیق و تحزیہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے نائن الیون کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں۔
"آپ کیسے جانتے ہیں کہ نائن الیون مسلمانوں کا بنایا ہوا دہشت گردی کا منصوبہ تھا؟ آپ کیسے جانتے ہیں کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تین عمارتیں تباہ ہوئیں ، کیونکہ اُن میں سے صرف دو عمارتوں سے جہاز ٹکرائے تھے۔ یہ  سب آپ اس لئے جانتے ہیں کیونکہ آپ نے جو ٹی وی پر دیکھایا، حکومت نے آپ کو اس کی یہی وضاحت مہیا کی ہے۔(کیا آپ کو کبھی یہ پتہ بھی چلا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تین عمارتیں تباہ ہوئی تھیں)(۱)
ایک اور بڑے محقق پروفیسر اسٹینون جونز نے امریکی سائنسدانوں کی ایک بڑی ٹیم کے ساتھ نائن الیون پر تحقیق کی  وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ محض دو جہازوں کے ٹکرانے سے اتنی زیادہ حرارت پیدا نہیں ہوسکتی جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر جیسی فولادی عمارت کو راکھ کا ڈھیربناسکے بلکہ ان عمارتوں کو گرانے کے لئے "کنڑ ولڈ ڈیمالش" کی تکنیک استعمال کی گئی اور آتش گیر مادہء پہلے سے عمارتوں کی مختلف منزلوں میں پہنچایا گیا تھا (۲)
کے مطالعہ سے حتمی نتیجہ لکالتے ہوئے یوں نائن الیون سے متعلق کی گئی تحقیق (Joseph P Firmage) جوزف پی فرمیچ  لکھتے ہیں۔
"اس واقعے کی تحقیق کے حوالے سے زیادہ تر محققین ایک بہت ہی پریشان کن نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ اُن کے مطابق نائن الیون کا واقعہ یا تو بش انتظامیہ کی دہشت گردوں سے مجرمانہ غفلت کا نتیجہ تھا یا غالبا ان دہشت گرد عناصر کی مدد سے ریاست پر خود ساختہ زخم لگانا مقصود تھا تاکہ جغرافیائی سیاسی حقائق پیدا کئے جاسکے" (۳)
یوں گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کی صبح سپر پاور امریکا کی سرزمین پر پیش آنے والے اس واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ، بالخصوص افغانستان اور پاکستان کے لئے  یہ واقعہ ایک ڈراونا خواب ثابت ہوا۔ چونکہ نائن الیون سیاسی جغرافیائی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لئے امریکی حکومت اور سی آئی اے کا اپنی ہی ریاست کے خلاف دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا۔ لہذا اکیسویں صدی کی اُردو غزل میں امریکی ریاستی دہشت کے خلاف مزاحمت پر مبنی اس مقالے میں اس واقعے پر غزل گو شعراء کے تاثرات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
انور سدید اُردو ادب کے بہت بڑے محقق اور شاعر ہیں۔ ایک محقق ہونے کے ناطے انہوں نے اپنی شاعری میں نائن الیون کو امریکہ کا سوچا سمجھا منصوبہ قرار دیا ہے اور اس بات پر دُکھ کا اظہار کیا ہے۔ کہ محض طیاروں کے ٹکرانے سے عمارت کی زمین بوسی کو کیسے ایک عالمی سانحہ قرار دے کر اس بہانے دوسرے ممالک بالخصوص پاکستان اور افغانستان کو ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ انور سدید اس واقعہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔


بم دھماکہ گھر کے اندر سے ہوا چھت گری گئی
چاروں جانب سے ہے ملبہ آگرا دیور پر
ایک عمارت سے پرندہ اُڑ کے جب ٹکرا گیا
لکھا گیا ہے عالمی اک حادثہ  دیوار پر(۴)

ہزاروں میل دور رونما ہونے والے اس واقعے نے ہ پاکستان کو شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا۔ نائن الیون کا واقعہ تو گزر گیا لیکن اس کے اثرات آج  بھی دہشت گردی کی صورت میں ہمارا پیچھا کر رہے ہیں ہماری زمین آج تک بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے لرز رہی ہے۔ انور شعور نے ان خیالات کا اظہار یوں کیا ہے۔


لگی تھی آگ میلوں دور لیکن
جو تھا  وہ جل بجھا اپنی طرف بھی(۵)

عاصی رضوی نے نو گیارہ کے رد عمل میں امریکی ریاستی دہشت گردی پر یوں دکھ و افسوس کا اظہار کیا ہے۔


نوگیارہ کے صدمے سے ہی بے حال ہے دینا
اب اور دھماکوں و افسوس کا اظہار کیاہے۔(۶)

نائن الیون واقعے کے فورا ََبعد امریکا نے اس کا الزام بغیر کسی تحقیق و شواہد کے القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن اور طالبان حکومت پر لگا کر القاعدہ اور طالبان حکومت کو ختم کرنے کے لئے افغانستان پر حملے کا فیصلہ سنا دیا اور ریاستی دہشت گردی کے روپ میں اپنے اس سفاک مہم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقدس فریضہ قرار دیا۔ محققین کے مطابق امریکا کی اس مہم جوئی کا نائن الیون واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا۔ باب ووڈ ورڈ کی کتاب "پلان آف اٹیک " کے مطابق افغانستان پر حملے کا منصوبہ نائن الیون واقعہ سے پہلے بنایا گیا تھا۔         (۷)        بحیرہ کیسپین کی تیل تک رسائی میں طالبان حکومت کی رکاوٹ بھی امریکہ کا افغانستان پر حملے کی بڑی وجہ بنی ۔اگست ۲۰۰۱ء تک انتظامیہ طالبان سے مذاکرات کرتی رہی مگر جب وہ گیس پائپ لائن کے سلسلے میں امریکا کو اجارہ دارانہ اختیارات دینے کے معاملے میں مزاحمت پر قائم رہے تو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ہونے والے ایک اجلاس میں ان  سےصاف الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ:
“Either you accept our offer of a carpet of gold or we bury you under a carpet of bombs” (۸)
اور بالآخر امریکا نے افغانستان کی سر زمین پر کلسڑ اور ڈیزی کٹر بموں کی برسات کردی۔
خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے ، مسلم ممالک کو کمزور کر نے کے ساتھ ساتھ ان کے و سائل پر قبضہ جمانے اور نیو ورلڈ آرڈر کو عملی جامہ  پہنانے کی خاطر امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔
منفرد لب ولہجے کے شاعری شاکر کنڑان نے نہ صرف امریکا کے نئی عالمی ترتیب کے منصوبے کو اپنی غزل میں میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے،  بلکہ دہشت گردی کا آفاقی نظریہ پیش کرتے ہوئے  حالیہ دہشت گردی کو قابیل سے جوڑا ہے۔ ساتھ ہی امریکہ کی ریاستی دہشت گردی اور ظلم وبربریت کی مذمت کرتے ہوئے اسے قیامت کی نشانی سے تعبیر کیا ہے۔


کہہ گئی مجھ سے یہ الفاظ کی تنزیل ابھی
تونے لکھی ہے نئے دور کی انجیل ابھی
سرخ آندھی نے فلک کو بھی لہو کر ڈالا
دند ناتا ہے زمین پر کہیں قابیل ابھی
دیکھ ظلمت مین بہت حد سے زیادہ نہ گزر
یہ نہ ہو گونج اٹھے صور سرافیل ابھی(۹)

افغانستان کے خلاف امریکی جارحیت  نےدوسرے مکتبہ ہائے فکر کے ساتھ ساتھ ہمارے اردو غزل گو شعراء کو بھی سخت تشویش میں مبتلا کیے رکھا ۔ اس لیے ان کے ہاں امریکی ریاستی دہشت گردی کے خلاف مزاحمتی رویہ نظر آتا ہے۔ انہوں نے اس جنگ کو حق وباطل کا معرکہ قرار دیاہے۔ رانا سعید دوشی اپنی غزل میں اس امید کا اظہار کیا کہ حق وباطل کے اس معرکے میں فتح با لآ خر حق ہی کی ہوگی ،  امریکا اور اس کے اتحادیوں کی صورت میں اسعماری اور فسنطائی قوتوں کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کی ہے  انہیں ابرہہ کے ہاتھیوں سے تشبیہ دی ہے۔


کچلتے جارہے ہیں روزمجھ کو ہاتھیوں والے
میں تنگ آکر ابا بیلو ںکا پھر لشکر نکالوں گا(۱۰) 

امریکی بربریت کے نتیجے میں افغا نستان کی تباہی وبربادی کا نوحہ اکثر شعراء کے ہاں کہیں نمایاں اور کہیں دھیمے لہجے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ گابل وقند ھار کی سر زمین جو کبھی پھلوں اور پھولوں کے لئے مشہور تھی اب وہاں چہارسو خون ہی خون نظر آتا   ہے ۔


واجد  امین نے اس کی عکاسی یوں کی ہے۔
کبھی اس راہ میں پھل پھول لگا کرتے تھے
اب لہو کا ٹتے ہیں کا بل وقند ھارکے بیچ(۱۱) 

بشر احمد بشیر نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذکے لیے امریکی ریاستی دہشت گردی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں


لازما آتش تخریب میں کودا ہوگا
جس نے بھی قصہ تعمیر تمنا لکھا(۱۲)

غلام رسول زاہد نے اپنی غزل میں امریکا کو  دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ملک قرار دیا  ہےجس کا ایجنڈا یہی ہے کہ مختلف ممالک میں دہشت گردی اور فساد پھیلا کر پہلے انہیں کمزور کرکے عدم استحکام و انتشار سے دو چار کرو اور بعد میں ان کے رہنماوَں کو خرید کر ان کے وسائل پر قبضہ کرلو۔غلام رسول زاہد اس مذموم امریکی ایجنڈے کا پردہ یوں چاک کرتا ہے۔


یہی ہے رمِزجہانبانی و جہانگیری
جہاں فساد نہیں ہے وہاں فساد کریں
جلا کے راکھ بنادیں لہوسے تر کریں
پھر اس زمین پہ ماتم کا انعقاد کریں(۱۳)

شبنم شکیل نے افغان امریکا جنگ کے بارے میں بہت ہی منفرد موقف اختیار کیا ہے۔ یہ موقف اس جنگ کے پس منظر میں زمینی حقائق کے عین مطابق ہے۔ کہ محض اُسامہ بن لادن کی صورت میں ایک شخص کی حوالگی کے مسلے پر اتنی طویل  اور بڑی جنگ لڑی گئی جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ شبنم شکیل نے امریکہ اور طالبان کی انا پرستی اور نر گسیت کا پردہ چاک کر تے ہوئے اس جنگ کو خیر و شر کے اصولوں کے بر عکس انا پرستی پر مبنی قرار دیا ہے۔


یہ خیر و شر کی جنگ نہیں ہے یہاں تو بس
ٹکر اوَ ہوگیا ہےانا کا انا کے ساتھ(۱۴)

تنویر سپرانے بھی طالبان اور امریکا کی اس انا نیت اور نر گسیت کو یو ںتنقید کا نشانہ بنایاہے۔


اس بے ثمر فساد سے مخلوق تنگ ہے
یہ جنگ فقط بانجھ اناوَں کی جنگ ہے۔(۱۵) 

امریکا کا یہ و طیرہ ہے کہ وہ ہمیشہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے حکمرانوں کو خرید کر انہیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے  وہ مختلف ممالک کی حکومتیں گرانے اور بنانے کے فن میں ماہر ہے ۔ اپنی مرضی کی حکومتیں بنا کر ان سے اپنا کام نکلوانا امریکا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ وہ ڈالروں میں سودا طے کرتا ہے لیکن دہشت گرد ی ، قتل و غارت اور وسائل پر قبضے کی صورت میں ان سے بھاری قیمت بھی وصول کرتا ہے۔ناصر بشیرنےاپنی غزل میں امریکا کے اس شاطرانہ چال اور گھناونی سودےبازی کوسخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے عالم کے لیے زہر قاتل قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا دوسرے ممالک کے وسائل پر قبضے اور نیوورلڈ آرڈر کو عمل جامہ پہنانے کے لیے امن کے نام پر دنیا میں بدامنی ، دہشتگردی اور عدم استحکام پھیلا رہاہے۔ وہ اپنی غزل میں ان خیالات کا اظہال کچھ یوں کرتے ہیں۔


وہ مہربان بھی لگتا ہے اور ستمگر بھی
کہ اس کے ہاتھ میں ایک پھول بھی ہےپتھر بھی
یہ کیسی امن کی خواہش ہے میرے دشمن کی
کہ فاختہ کے گلے میں بندھا ہے خنجربھی(۱۶) 

اپنی ایک غزل میں صادق باجوہ امریکی ریاست کی اس عیاری کا پردہ چاک کرتے ہوئےکہتےہیں  کہ امریکاکی فطرت و خصلت میں کوٰئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔جس طرح کل اس کا تعارف ایک دہشت گرد ملک کے طور پر کیا جاتا تھا۔ آج بھی اسی جگہ کھڑا ہے۔ وہ آج بھی دہشت گردی کو اسپانسر کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔وہ کھبی بھی اپنی دہشت گردانہ خصلت نہیں بدلتا بلکہ صرف اپنا بہروپ بدلتا رہتا ہے۔ اکیسویں صدی میں دہشت گردی کا یہ مکروہ چہرہ اور بھی واضح ہو کر سامنے آیا ہے۔صادق باجوہ کی غزل کے چند آشعار ملاحظہ ہوں:


امن کی خاطر روا ظلم و ستم
عصر حاضر کی سیاست الحذر
ظلم کا خو گر نئے بہروپ میں
دندناتا پھر رہا ہے بے خطر
کیا کہیں صادق کو ئی کام آگیا
بزم ہستی پھر ہو ئی ہے منتشر(۱۷)

معروف شاعر سلیم کوثر نے بھی امریکا کی طرف سے قیام امن کے نام پر افغانستان اورعراق میں بدترین ریاستی دہشتگردی کے خلاف مزاحمتی لحن اپنا یا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برپا کی گئی اس قیامت نے ہمارے ملک کو جس طرح عدم استحکام سے دو چار کر دیا اکیسویں صدی کے ابتدائی دو عشروں میں ہم نے جو ہزاروں لاشیں اُٹھائیں ۔اس افسوسناک صورتحال پر سلیم اختر یو ںنوحہ کناں نظر آتے ہیں:


کیا کہوں کیسی اذیت سے گزاراگیا میں
امن کے گیت سناتے ہوئے مارا گیا میں(۱۸) 

حقائق اور واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا کو دنیا(بالخصوص ایشیاء،وسط ایشیاء اورآفریقہ)کے امن وامان سے کوئی غرض نہیں۔بلکہ وہ مستقبل میں خود کومحفوظ تربنانے کے کئے لیےکئی غیر ضروری اقدامات اُٹھاتے ہوئے ہمارے خطے سمیت پوری دنیا کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک رہا ہے۔ اس نے خود کو محفوظ بنانے کے لئے ساری دنیا کے امن و امان کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی ملک کے پاس دنیا کی آدھی دولت موجود ہو اور وہ حرص و لالچ کے مرض میں بھی مبتلا ہو تو اُسے اپنی دولت اور معیشت کووسیع تر کرنے کے لئے ناجائز منصوبوں میں مشغول رہنے کے ساتھ ساتھ موجودہ دولت کے چھن جانے کا بھی  دھڑکا لگا رہے گا۔ا ور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے محض ذرا سی شک کی بناء پر دوسروں کو تہہ تیغ لانے سے نہیں کترائے گا۔ جلیل عالی نے اس تلخ حقیقت کو غزل کے حسن و خوبی اور ایجازواختصار کے ساتھ بڑے فنکارانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے۔


خود اپنے دل میں چھپے وسوسوں کی دہشت سے
وہ تیغ غیظ و غضب ہم پہ تولتا رہےگا
یہ شہر امن ومحبت اب اُس کی زد پر ہے
فساد وفتنہ کے سو باب کھولتا ہے گا
ہم ایک دوسرے کا حشر دیکھتے رہیں گے
وہ فیل مست سبھی کو مدھو لتارہے گا (۱۹)

فقیر اخان فقری جہاں عراق میں امریکا  کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں ہزاروں لاکھوں بے گناہ شہریوں کی شہادت پر نوحہ کناں  ہیں، وہاں امریکی فوج سے اپنے مظلوم عراقی بھائیوں کا بدلہ لینے کی خاطر لڑنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔


انسان تو نہیں کوئی پر لاش لاش پر
روتے ہیں پھوٹ پھوٹ کے پتھر قریب کے
امریکیوں کو روندنے فقری عراق میں
میدان کر بلا چلوں صدقے حبیب کے(۲۰)

عبداللہ جاوید  نےامریکی استعماریت اور عراق میں معصوم شہریوں کے قتل عام پر امریکا کو ہلاکوخان کا خطاب دیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا کی فطرت میں استعماریت اور دہشتگردی رچی بسی ہے ۔ دنیا کی تاریخ امریکی مظالم سے بھری پڑی ہے۔ امریکا نے ہمیشہ ترقی پذیر ممالک بالخصوص مسلم دنیا کو تہہ تیغ کرکے ان کے وسائل پر ناجائز قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے۔ ماضی میں امریکا کی مختلف ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے نا قابل تردید اور ٹھوس ثبوتوں کے باوجود امریکا کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بیڑا اُٹھانا بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں عبداللہ جاوید کہتے ہیں:


مرے بغداد کو تاراج کرکے
ہلاکو امن پرور ہوگیا ہے (۲۱)

غرض اکیسویں صدی کے غزل گو شعراء نے بڑے فنکارانہ انداز میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکی ریاستی دہشتگردی کو بے نقاب کرتے ہوئے اس کے خلاف مزاحمتی رویہ اپنایا ہے۔ یہ مزاحمتی رویہ کہیں واضح اور زوردار تو کہیں دبے ہوئے یا دھیمے لب و لہجے میں نظر آتا ہے۔ یوں غزل گو شعراء نے انگریز استعماریت اور آمریت کے بعد مزاحمت کی ایک نئی جہت  سے روشناس کرایاہے۔ نیز امریکی ریاستی دہشت گردی جیسے کھردرے موضوع کو برتتے ہوئے غزل کے  رمزوایما ، ایجاد واختصار اور دیگر فنی خوبیوں کو ملحوظ خاطر رکھا  گیاہے۔ یوں مزاحمت پر مبنی اکیسویں صدی کی اُردو غزل کا یہ سرمایہ مزاحمتی شاعر ی کے ذخیرہ میں قیمتی اضافہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

 

حوالاجات

1. https/www.vdacve.com/Reberts/060914gullible.html
2.https/www.prisomplanet.com/aricals/november2005/12/05twintowers.html
3. Josep P Fermage, interesting  Facts and Theories  on 9/11, frimag.org 2006-08-08 updated 2006-09-12, page 01
۴ ۔         انور سدید ، مشمولہ: ماہنامہ چہارسو، راولپنڈی،جلد ۱۹، شمارہ ستمبر اکتوبر ۲۰۱۰
۵۔         انور شعور، مشمولہ: سہ ماہی"دنیازاد"کتابی سلسلسہ ۳۴ ،مولف : آصف فرخی ، جولائی ۲۰۱۴،شہرزار کراچی،ص ۲۱۵
۶۔          عاصی رضوی، "گل صدبرگ" (شعری مجموعہ)، ۲۰۰۵، برکت پر یسں کراچی، س ۲۰۰۸ء       ص ۱۴۵
۷۔         زبیح اللہ بلگن، "پاکستان میں بین الاقوامی  مداخلتیں، نگارشات پبلیشرز لاہور، س ۲۰۱۵ ء  ص ۱۷۷
۸۔         ثروت جمال اصمعی،دہشت گردی اور  مسلمان ، عالم اسلام کا مقدمہ عالمی ضمیر  کی عدالت میں"، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، جولائی ۲۰۱۰ ، ص ۱۲۳ تا ۱۳۰
۹۔          تاج الدّین تاجور،"  اردو نظم پر۱۱/ ۹کے اثرات" مشمولہ :پاکستانی زبان وادب پر ۱۱/۹ کے اثرات، ادارہ ادبیات اردو فارسی ولسانیات جامعہ پشاور،س ۲۰۱۰ء ، ص ۳۴
۱۰۔        رانا سعید دوشی ،" ۲۰۱۲ کی بہترین شاعری کا انتخاب "مرتب :محمد عاصم بٹ،  تخلیقات  پبلشرز لاہور
۱۱۔         واجد امیر ،مشمولہ:  ماہنامہ بیاض لاہور، ستمبر ۲۰۰۹ ،ص ۲۸
۱۲۔        بشیر احمد بشیرپروفیسر ،" برف کی کشتی "( شعری مجموعہ) اظہار سنز اردو بازار لا ہور، ۲۰۱۱ ء،ص ۱۳۵
۱۳۔        غلام رسول زاہد ، "حرف شوق" ( شعر مجموعہ) پرائم  پبلشرز لاہور، جولائی ۲۰۰۴ء،ص ۱۵
۱۴۔        شبنم شکیل ، مشمولہ :،قلم قبیلہ (کوئٹہ) جلد ۲۰جنوری تا جون ۲۰۱۴ نگران ۔ بیگم ثاقبہ رحم الدین ص ۱۰۰
۱۵۔        تنویر سپرا، "لفظ کھردرے "( شعری مجموعہ) سانجھء پبلکیشنز ٹیمپل روڈ لا ہور  ،فروری ۲۰۱۱ ء،ص ۴۹
۱۶۔        ناصر بشیر ،"اب کس کی باری ہے" تحریر انتخاب :محمد اسلم لودھی،حیدر پبلیکیشنز لا ہور ۲۰۰۳ ءص ۱۸۹
۱۷۔        صادق باجوہ ، "میزان شناسائی "( شعری مجموعہ) پور پ پبلیکیشنز لا ہور کورل باغ انڈیا ۲۰۰۸ ءص ۴۹
۱۸۔        وسیم کوثر ، مشمولہ :سہ ماہی" اجراء" کراچی ،کتابی سلسلہ ۶اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۰ ء ،مدیر احسن سلیم ،ص ۱۰۹
۱۹۔         جلیل عالی،مشمولہ :"نقاط "فیصل آباد ،شمارہ نمبر ۹ ،مدیر :قاسم یعقوب ،جون ۲۰۱۰ ،ادبی ادارہ نقاط ،فیصل آباد ،ص۱۷۴  
۲۰۔       فقیراخان فقری ،ڈاکٹر ،"کشتیاں ہم بھی جلاسکتے ہیں "پاک بک امپائر لاہور
۲۱۔        عبداللہ جاوید ، "حصار امکان "(شعری مجموعہ) اکادمی باز یافت ،اردو بازار لاہور ،مارچ ۲۰۰۳ ء،ص ۸۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com