ن۔ م راشؔد کی شاعری میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمتی رویے
("ماورا" اور "ایران میں اجنبی" کے تناظر میں)
ڈاکٹر انتل ضیاء  شعبہء  اُردو، جامعہء شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی  برائے خواتین، پشاور
ڈاکٹر شیر علی ۔ الحمد   یونیورسٹی اسلام آباد

ABSTRACT :


The extension or retention of authorities by the ruler country over colonial nation and their authorities for its profits is called as Colonialism. It is a kind of intellectual response to the subjugation of natives that was not only limited to the geographical or political tracts of lands, but also had influence over the social, cultural and literary lives of the nations colonized in the name of civilization. The British Sovereigns during ruling over India socially, economically and politically destabilized the people of India. Every individual especially the poets of this colonial nation were more influenced by this Colonialism. Such resistance is present in different behaviors in the poetry of Urdu Poets regarding Colonialism. In Urdu “Nazam”N.M. Rashid is the leading voice against the Colonialism. Especially his poetry books “Mawra” and “Iran Mae Ajnabi” will be highlighted being rich and a strong reference of Colonialism concept.

کلیدی الفاظ:نوآبادیات،  استعمار، طوق، غلامی، استحصال، شامراج، نظام ذبوحالی، ذوال، زندگی، محرکات، اقتصادی اجارہ داری
ن۔ م راشؔد کی شاعری کا سفر رومانیت سے حقیقت نگاری کی طرف رواں دواں ملتا ہے۔ ہر رومانی شاعر کی طرح راشؔد بھی موجودہ نظام سے مطمئن نہیں تھے۔ وہ اس خاک دا کو حسن و خوبی گا کا گہوارہ بنانا چاہتا تھامگر اُس کا خاک دا تو غلامی کا طوق پہنے ہوئے تھا۔ راشؔد کی شاعری کا ایک اہم حصہ مشرق کی غلامی پر نوحہ خوانی اور مغرب کی سامراجی عوامل کے بیان پر مبنی ہے۔ راشؔد کی شاعری مشرق اور مغرب کے سیاسی اور سماجی و تہذیبی ضد سے پیدا شدہ ذہنی و فکری تصادم کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ راشؔد نے جس دور میں جنم لیا وہ ایک غلام ہندوستان کا دور تھا۔ جس میں ہر حکم، ہر اصول انگریز سامراج کا چلتا تھا، یعنی ہندوستان، تاجِ برطانیہ کے ذیرِ اثر تھا اور آقا اپنے نوآبادیات کا استحصال اپنے مفاد اور ترقی کے لئے جاری و ساری رکھے ہوئے تھا۔
نوآبادیات کے خلاف احساس شدت کے بیان سے پہلے اس اصطلاح کا مختصرتعارف یہاں ضروری سمجھتی ہوں۔ نوآبادیات میں سامراجی  قوتیں دور دراز علاقوں میں بستیاں بساتے ہیں اور مقامی سیاسی کنٹرول کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ حکمرانِ ریاست ، نوآبادی کے افراد کی خودمختاری، سیاسی آزادی سلب کر لیتی ہے۔ ان کا مقصد نوآبادیات کو اپنا مطیع بنانا ہوتا ہے اور سامراجی دولت میں اضافہ اور نوآبادیات کا معاشی و سیاسی استحصال ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی نظام کے قیام کا اہم جواز نسلی اور تہذیبی برتری ہے۔ طاقتور  اقوام کمزور اقوام کو طاقت کے بل بوتے پر اپنا غلام بنا لیتی ہے۔  سامراجی علم برداروں کے نزدیک مشرق جہالت میں گھرا ہوا پس ماندہ خطہ تھا۔ جہاں رہنے  والے لوگ جو اس خطے کے باسی تھےسست، کاہل اور عقل و دانش سے دور تھے۔جبکہ اہل مغرب، صاحبِ علم و فراست، تیز و تند اور سائنسی اور منتقی سوچ رکھنے والے تھے۔ انہیں وجوہات کی بنا پر یہ بہتر تھا کہ وہ سامراج کے لئے ایک نوآبادی کی حیثیت سے رہے، تاکہ ترقی کی راہیں ان کے لئے ہموار ہوں۔ یہ ترقی اصل میں سامراج کی ہی ترقی تھی لیکن بظاہر وہ نوآبادیات کے مفاد کی بات کرتے تھے ۔
نوآبادیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں استعمار اپنی زبان، تہذیب اور معاشرت کو محکوم اقوام پر مسلط کراتے ہیں اور ایسی فضا تخلیق  کرتے ہیں کہ محکوم اقوام یہ سمجھے کے یہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے۔ نوآبادیاتی نظام میں دونفسیاتی محرکات کا بنیادی کردار رہا ہے۔ایک تو یورپ کا احساسِ تفاخر بحوالہ مذہب ہے جبکہ دوسرا نسلی برتری کا احساس۔ اور انہی کی بدولت وہ باقی تمام اقوام کو انسانی ارتقا کے حوالے سے دوسرے درجے کی مخلوق سمجھتے ہیں۔ ان خیالات کی بنیاد پر سامراج نے اپنی نوآبادیات کو مغلوب و مقصور قرار دیا۔
راشؔد کی شاعری میں مشرق کی زبوحالی، زوال پذیری اور بدحالی کا ذکر جہاں ملتا ہے وہاں اس کے اسباب کے طور پر اس کے ذہن میں سامراج اور نوآبادیاتی نظام قرار پاتے ہیں۔ وہ سامراج کے خلاف شدید ردِعمل پیش کرتے ہیں۔ اس کے خیال میں انگریز سامراج مشرق کی ذلت اور زبوں حالی کا محرک ہے، جس نے پورے مشرق پر اپنا تسلط قائم کرکہ انھیں  ذلت اور بے بس زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ راشؔد کی شاعری کے آغاز سے لے کر ان کی تخلیقی عروج تک کے زمانے میں ہندوستان میں انگریز سامراج اور مقامی قوتوں کے درمیان کشمکش کا سلسلہ شدید تر ہو چکا تھا۔ سامراج کی معاشی غاصبانہ پالیسیوں اور سماجی و سیاسی لوٹ کھسوٹ کی پالیسیوں نے ہندوستان میں شدید سیاسی و سماجی اور اقتصادی بحرانوں کو جنم دیا۔ راشؔد نے مشرق کی پس ماندگی، بےبسی اور ذلت کا ایک سبب انگریز سامراج کے جبر و استبداد کو قرار دیا۔ اس کے ساتھ وہ مشرق کی پس ماندگی کا دوسرا سبب مشرق کی روایات جیسا کہ توہم پرستی، قدامت پسندیدی، تصوف، درویشی وغیرہ کو سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے مشرق کے ذوال کے لئے انگریز سامراج کو قصوروار قرار دیتے تھے۔ راشؔد نے ہندوستان کے آئینے میں پورے مشرقی ممالک کو دیکھااور ان کی زبوں حالی کے لئے مغرب کی استحصال پسند فطرت اور ستم پروری کو سمجھا۔ ان کے اولین مجموعہ کلام "ماورا" میں یہ احساس ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے کہ ہندوستان غلامی کے پنجے سے نکلنے کے لئے کوشاں ہے۔ ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری ،  راشؔد ہی کی زبانی ایک حوالہ دیتے ہیں۔
" جس زمانے میں میَں نے پرورش پائی ہندوستان اجنبی حکومت کے پنجوں سے نکلنے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا۔ شروع ہی سے میرے نذدیک اس آزادی کی جدوجہد فرد کی آزادی تھی کیونکہ غلامی نے فرد کی اخلاقی اور نفسیاتی زندگی میں ایک خلاء پیدا کر رکھا تھا۔۔۔۔۔ غلامی درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔"   (۱)
"ماورا" کی نظموں میں ن۔م راشؔد نے ایک ایسی فضاکا بیان کیا ہے جس میں فرد  دو دنیاؤں میں معلق تھا۔ اس کے مسائل اپنے وطن میں ایک مخصوص فضا کی پیداوار تھے اور یہ فضا غلامی میں جکڑے ہوئے افراد کی خستہ حالی کی عکاس تھی۔ اس خستہ حالی میں ایک عنصر اگر سامراج کا ظلم و ستم تھا ، تو دوسرا مشرق کے لوگوں کا وہ عقیدہ جس کی بنیاد پر وہ تما م افعال و واقعات کے ظہور کی وجہ، خدا کی مرضی کو قرار دیتے ہیں۔ ن۔م راشؔد نے مغرب کی مخالفت میں مشرق کی نجات کی راہ تلاش کرنے کی سعی کی۔ راشؔد کو تہذیبی یا مذہبی لحاظ سے مغرب سے کوئی تضاد نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر غلامی کی مخالفت اس نے بھرپور کی۔ نظم "شاعرِ درماندہ" میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔
زندگی تیرے لئے بسترِ سنجاب و سمور
اور میرے لئے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشئی آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہء فکرِ معاش!
پارہ نانِ جویں کے لئے محتاج ہیں ہم
میں، مرِے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن   (۲)
ن۔ م راشؔد نے اس نظم میں مشرق کے ذوال کی وجہ ان کی بےعملی اور پرانی روایات سے وابستگی کو قرار دیا۔ ان کے خیال میں اس ظلم سے نجات کا ذریعہ نئی سوچ اور بصیرت پیدا کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ معاشی استحصال کا سبب یہاں بھی مغرب کی اقتصادی اجارہ داری ہے جس نے راشؔد کے ہم وطنوں کو غربت اور افلاس میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ اس طرح "دریچے کے قریب" میں جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ بھی مشرق کے ذوال کا سبب اور مغرب کے ظلم و جبر کی بنیاد ہے۔ مذہب کا غیر متحرک اور جامد تصور  بھی نوآبادیات کے لئے سامراج کے عفریت کو مستحکم کرنے کا سبب بنا۔ اس لئے وہ مشرق کو اس سے نکالنے کا سوچتا ہے اور کہتا ہے۔
جاگ اے شمعِ شبستانِ وصال
محفلِ خواب کے اس فرشِ طربناک سے جاگ!
لذّتِ شب سے میراجسم ابھی چور سہی
آمری جان، مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں
مسجد شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے
اپنی برسوں کی تمنّا کا خیال آتا ہے!   (۳)
آزادی اور عروج کی تمنا ہر اس دل میں جنم لیتی ہے جو موجود کی غلامی سے بیزار ہوتا ہے۔ راشؔد بھی اسی برسوں پرانی تمنا کے حصول کے لئے بے قرار ہے، جو اس سے اور اس کے ہم وطنوں سے انگریز سامراج نے چھین لی تھی۔ برسوں کی تمنا مسلمانوں کی آزادی اور اسلام کی حیات نو کی تمنا ہے ۔ اس نظم میں شاعر درِافرنگ کے ایک انبوہ کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ بیمار بھی ہے، مفلس بھی ہے، کمزور بھی ہےمگر ظلم سہے جاتے ہیں۔
دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پناہ سیل کے مانند رواں!
جیسے جناّت بیابانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں
زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں۔   (۴)
ر اشؔد نے اپنی نظم میں مشرق اور مغرب میں پائی جانے والی رنگ و نسل کی اویزش کو بھی پیش کیا۔ رنگ و نسل کی برتری بھی نوآبادیات کی تخلیق اور سامراج کی احساسِ برتری کا ایک اہم سبب  رہاہے۔ ماورا کی نظم "اجنبی عورت" میں راشؔد نے اسی رویے کو پیش کیا ہے، جو مزاحمت کا ایک حوالہ ہے۔ راشؔد نے دیوارِ ظلم  اور دیوارِ رنگ کی علامتوں کے ذریعے انگریزوں کے نسلی امتیاز کے احساس اور ظلم و ستم کو بیان کیا ہے۔
ایشیا کے دُور افتادہ شبستانوں میں بھی
میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!
کاش اِک دیوارِ ظلم
میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!
یہ عماراتِ قدیم
یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار،
چاندنی میں نوحہ خواں
اجنبی کے دستِ غار تگر سے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارضِ مشرق ، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے   (۵)
راشؔد کی ابتدائی شاعری سے لے کر آنے والے ارتقائی مراحل میں ایک تسلسل کے ساتھ غیروں کے تسلط سے آزادی کی کوشش مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔ جس میں نظام کے خلاف مزاحمت، اجنبی عورت کے جسم سے انتقام کی ایک شکست خوردہ  صورت میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے راشؔد کی شاعری کو نئے انداز کی شاعری قراردیا ہے۔ نظم میں فضافرنگی شبستاں کو پیش کر رہی ہےمگر بہ  باطن انتقام لینے کا جذبہ موجود ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"راشد کے ہاں گردوپیش کے معاشرتی اور سیاسی حالات کا نہایت گہرا اور شدید احساس ملتا ہے۔ لیکن ان حقائق کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔ ماضی و حال ایک تسلسل کا نام ہے چنانچہ ماضی کا احساس بھی راشد کے شعور کا ایک حصہ ہے۔ کبھی وہ عافیت کوشی آبا کی یاد بن کر اُبھرتا ہے (شاعرِ درماندہ)  اور کبھی وہ تین سو سال کی ذلت کا نشان۔۔۔۔۔ ایک ملائے حزیں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ (دریچے کے قریب) " ایران میں اجنبی " کی نظموں میں یہ احساس زیادہ نمایاں ہے۔۔۔۔۔  فرنگ کی شام جاں ستاں تک پھیلا ہوا یہ درد لادوا مختلف عنوانات سے ظاہر ہوا ہے۔   (۶)
"ایران میں اجنبی" کی نظموں میں راشؔد کا سیاسی شعور اور معاصر عالمی صورتِ حال کی عکاسی بھرپور انداز میں کی گئی ہے۔ اس مجموعہ کلام میں عالمی استعمارکے خلاف فکری لے زیادہ تیز اور بلند ہوکر سامنے آتی ہے۔ نظم "تیل کے سوداگر" میں استعماری صورتِ حال کے خلاف بھرپور مزاحمت ملتی ہے۔
تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر۔
وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں،
چلیں آئیں گے بن کے مہماں
تمھارے گھروں میں،
وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے
ناچیں گے،  گائیں گے،
بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے
وہ گرمائیں گے خون محفل!
مگر پوَپھٹے گی
تو پلکوں سے کھو دو گےخود اپنے مرُدوں کی قبریں
بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے
بہاؤ گے آنسو!   (۷)
نظم "ذنجیر" میں راشؔد برطانوی سامراج کے خلاف صدائے بغاوت بلند کرتے ہیں۔ وہ سیاسی بیداری کے ذریعے عوام کو بغاوت اور احتجاج کی راہ پر ڈال کر غلامی کی زنجیریں کاٹ ڈالنے کا درس دیتے ہیں اور کہتے ہیں۔
ظلم پروردہ غلامو! بھاگ جاؤ
پردہ شبگیر میں اپنے سلاسل توڑ کر،
چار سوُ چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ
اور اس ہنگامِ باد آورد کو
حیاء شب خون بناؤ!   (۸)
"ایران میں اجنبی" کی شروع کی نظموں میں ایران کی صورت حال بیان کی گئی ہے، جب امریکہ، روس اور برطانیہ کی افواج ایران کے شمال جنوب اور مغرب کی طرف بیک وقت داخل ہوئی۔ راشؔد چونکہ ہندوستانی دستے کے ساتھ ایران گیا تھا، وہاں یہ احساس کہ وہ جنگ آزادی کا سرفروش سپاہی نہیں بلکہ سامراج کا ایک ادنٰی غلام بن کر لڑ رہا ہے۔ اس طرح راشؔد کے ہاں جنگ دو محاذوں پر لڑی جارہی تھی ایک سامراج کے خلاف اور ایک اپنی ذات کے خلاف۔ یہ کشمکش ان کی شاعری میں آخر تک نظر آتی ہے، لیکن سامراج کے خلاف مزاحمت کے رویے پاکستان بننے کے بعد ایک نئی صورت اختیار  کر لیتی ہے جو " سبا ویراں" میں ایک الگ دائرے کے گرد گھومتے ہیں۔ یہاں پر راشؔد اُن اربابِ سبت و کشاد کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں جو بظاہر تو اسی دیس سے تعلق رکھتے ہیں، مگر غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر عمل پیرا ہو کر اس غلامی کے طوق کو ایک نئی صورت عطا کئے ہوئے ہیں۔
جب انسان ظلم سہتا ہے تو ظالم کو اپنا حق سمجھ کر کرتا ہے، مگر جب وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو آزادی کی راہیں ہموار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ن م راشؔد نے اپنی شاعری میں مشرق و مغرب کے سیاسی اور تہذیبی تصادم کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ راشؔد کا دور مشرق میں سیاسی بیداری کا دور تھا۔ راشؔد اپنی شاعری میں اندرونی و بیرونی استبداد کے خلاف جنگ لڑتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ علامتوں کے ذریعے انگریز استعمار کو مشرق کی غلامی کا قصوروار قرار دیتا ہے۔ راشؔد کے حوالے سے ڈاکٹر تبسم کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں۔
"راشؔد کا زمانہ رہ ہے جب نوآبادیاتی نظام کے خلاف نفرت کا ردِعمل پیدا ہو چکا تھا اور نوجوان اس کے خلاف جدوجہد کرنے لگے تھے۔ راشؔد کے پہلے دو مجموعوں کو کردار یہ تھا کہ ان کی نظمیں ایک نفسیاتی، جذباتی اور سیاسی ردِعمل کا اظہار تھیں"   (۹)
راشؔد کی نظم میں استبداد کے خلاف احتجاج ہمیں مختلف استعاروں، علامتوں میں ملتا ہے جو اس غلامی، بے بسی اور سامراجی جبر کو بیان کرتے ہیں جس کا سامنا اس دور کے فرد کو تھا۔ ضیاالحسن اس حوالے سے لکھتے ہیں۔
"راشدؔ نے سیاسی موضوعات کو کہیں جنسی تلازمات کے ذریعے اور کہیں داستانوں اور تاریخی کرداروں اور واقعات کو علامت بنا کر پیش کیا ہے۔ راشؔد جس دور میں شاعری کر رہے تھے وہ برصغیر کی غلامی کا آخری دور تھا۔ انگریز سامراج سے آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں لیکن ابھی آزادی کی منزل بہت دور تھی۔ ہر طرف پھیلی ہوئی غربت اور جہالت نے زندگی کو بے بس اور ناتواں کر دیا تھا۔ اگرچہ کی ابتدائی نظمیں رومانی انداز کی ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں سیاسی بے بسی کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ وہ انسان کی اس ذلت اور بربادی پر نوحہ خواں نظر آتے ہیں۔
الہٰی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں
غریبوں جاہلوں مردوں کی بیماروں کی دنیا ہے
یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے
ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں
ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی
(انسان)
اس بے بس اور لاچاری میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے کہ وہ سب چیزیں جن پر اب ایک اجنبی قوم کو تصرف حاصل ہے کبھی ہماری ملکیت تھیں۔
میں اکثرچیخ اٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلت پر
جنوں سا ہوگیا ہے مجھ کو احساس بضاعت پر
ہماری بھی نہیں افسوس جو چیزیں "ہماری" ہیں
(انسان)(۱۰)
راشؔد انسانی آزادی کا حامی ہے۔ اسے اس بات کا اندازہ ہے کہ انسانی آزادی کے دشمن نہ صرف اس کے منفی رومانی فلسفے ہیں بلکہ ماضی کے جابر اور آمر بادشاہ اور سامراجی لٹیرے بھی اس کے آزادی کے قاتل ہیں۔ راشؔد مشرق کی رومانیت سے بیزار ہے اور اس کے مادی افلاس اور معاشرتی انحطاط کا حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اس تہذیبی انحطاط کے اسباب میں سامراج بھی ایک وجہ قرار پاتی ہے اور وہ اس کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وارث علوی لکھتے ہیں۔
"راشؔد کی شاعری مشرق و مغرب کے سیاسی اور تہذیبی تصادم سے پیدا شدہ فکری اور جذباتی پیچیدگیوں کی پوری شدت سے عکاسی کرتی ہے۔ راشؔد کی شاعری میں جو مشرق ابھرتا ہے وہ سیاسی بیداری کا مشرق ہے۔"   (۱۱)
یہی سیاسی بیداری مشرق کے فرد میں نوآبادیات کے خلاف مزاحمت کا رویہ پیدا کرتا ہے۔ جس کا اظہار راشؔد نے اپنی شاعری میں کہیں علامت کے ذریعے کیا ہے اور کہیں کھلے الفاظ میں۔اور اسی طرح  تہذیبی، معاشرتی اور معاشی رویوں کو مختلف کرداروں کی صورت میں اجاگر کیا۔ خود اپنی ذات میں موجود غلامی کی خصلتوں کو بھی وہ بے دھڑک پیش کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر ثمینہ شکیل لکھتی ہیں۔
"راشد اپنی شاعری میں اندرونی اور بیرونی استبداد کے کے مدِمقابل جنگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنی نظم "سپاہی" میں اپنے وطن کے دفاع کے لئے تشویش بھی کرتا ہے۔
تو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟
موت کا لمحہء مایوس نہیں
قوم ابھی نیند میں ہے!
مصلح قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں
اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے
میں تو اک عام سپاہی ہوں مجھے
حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا
اور اسی سعیِ جگر دوز میں جاں دینے کا
تو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟
عمر گذری ہے غلامی میں مری
اس اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!"   (۱۲)
ن۔م راشؔد نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف  مزاحمت کا جو رویہ "ماورا" میں پیش کیا تھا، "ایران میں اجنبی" میں وہ مزید وسیع ہوگیا۔ اس کتاب کی نظموں میں ایشیاء کی بدحالی کا نقشہ مرتب کرتے ہوئے، مشرق کی خامیوں کے بیان کے ساتھ ساتھ استعمار کی چیرہ دستیوں کو بھی بےنقاب کیا ہے۔ یوں وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف بھرپور آواز بن کر ابھرتے ہیں۔

حوالہ جات
۱۔             محمد فخرالحق نوری (ڈاکٹر)  مطالعہ راشد (چند زاویے) ص ۱۹۰
۲۔                ن ۔ م راشؔد                    کلیاتِ راشؔد  (ماورا)         ص ۹۳ تا ۹۴
۳۔                ایضاً                               ایضاً                               ص ۹۶ تا ۹۷
۴۔                ایضاً                               ایضاً                               ص ۹۷ تا ۹۸
۵۔                ایضاً                               ایضاً                               ص ۱۰۹ تا ۱۱۰
۶۔                 افتاب احمد (ڈاکٹر)           ن م راشد شاعر و شخص      ص ۶۷
۷۔                ن ۔ م راشؔد                    کلیاتِ راشؔد  (ایران میں اجنبی) ص ۲۳۶ تا ۲۳۷
۸۔                ایضاً                               ایضاً                               ص ۱۴۴
۹۔                 تبسم کاشمیری (ڈاکٹر)       لا=راشد                       ص ۴۹
۱۰۔               ضیاالحسن                        نئے آدمی کا خواب            ص ۵۴ تا ۵۵
۱۱۔                جمیل جالبی (ڈاکٹر)مرتب ن م راشؔد ایک مطالعہ      ص ۱۵۲
۱۲۔               تحسین فراقی(ڈاکٹر) ضیاء الحسن (ڈاکٹر) مرتبین : کس دھنک سے مرے رنگ آئےص ۲۴۹

کتابیات
محمد فخرالحق نوری (ڈاکٹر)،    مطالعہ راشد (چند زاویے) ،                  مثال ببلشرز، فیصل آباد، ستمبر ۲۰۱۰ء اشاعتِ اول
ن ۔ م راشؔد                       کلیاتِ راشؔد                                      ماورا پبلشرز، لاہور           س ن م
افتاب احمد (ڈاکٹر)              ن م راشد شاعر و شخص                        ذکی سنز پرنٹرا، کراچی                         س ن م
تبسم کاشمیری (ڈاکٹر)          لا=راشد                                         بک پرنٹرز نگارشات، لاہور۱۹۹۴ءبار اول
ضیاالحسن                           نئے آدمی کا خواب                              اظہار سنز، لاہور              ۲۰۰۲ء
جمیل جالبی (ڈاکٹر)مرتب   ن م راشؔد ایک مطالعہ                        مکتبہ اسلوب، کراچی، ۱۹۸۶ء
تحسین فراقی(ڈاکٹر) ضیاء الحسن (ڈاکٹر)،   کس دھنک سے مرے رنگ آئی،         آر آر پرنٹرز، لاہور، اگست ۲۰۱۰ء


اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com