ولیؔ دکنی۔ہندوستانی ذہن و احساس کا نقطۂ آغاز
ڈاکٹرفرحانہ قاضی۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور
عقیل احمد  شاہ ۔ بی ایس  میقات ہشتم  شعبہ اردو ، جامعہ پشاور

ABSTRACT :


. According to Muhammad Hussain Azaad, Wali Dakkani is the founding father of Urdu poetry. Syed Abdullah appreciates and commemorates him as an aesthete and a stylistician. And most of the critics imitate this analysis. In the following thesis/dissertation the fore mentioned view points and an analysis of Wali's writings clarify that his poetical works reflect/ opens up broad thoughts and ideas due to the creation of Indo-Iranian combination. In the light of this analysis we can come up with this reality check/conclusion that the Indian style of composing Ghazal is is actually, Wali's artistic work. Which may be called beauty admiration, the impact of lyric or can be named as the distraction of passionate love. This is Wali's peculiar and distinguished style of perception and exposition. Before him, this was never the legend of Ghazal history. And this is what makes Wali Dakkani the pioneer of Indian mindset, sensibility, narration and style of expression

ولی دکنی جو آزاد کے مطابق اُردو شاعری کے باوا آدم ہیں، سید عبداللہ نے ان کوجمال دوست اور اسلوب پرست قرار دیا ہے انکے تتبع میں دیگر ناقدین نے بھی یہ رائے اختیار کی ہے۔درج زیل مقالے میں ان آراء کی روشنی میں ولی کے کلام کے تجزیےکے بعدیہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ ولی کے کلام میں ہند ایرانی امتزاج کے نتیجے کے طور پر ایک نیا طرزِ ذہن واحساس پیدا ہوتا ہے جسے موجودہ اُردو  غزل کا نقطہ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔
کلیدی الفاظ: ولی دکنی، جمال دوستی اوع وارفتکئ عشق، روایتی فارسی غزل ہند ایرانی امتزاج، خارجیت و ظاہری طرز احساس، ہندوستانی ذہن و احساس نقطۂ آغاز۔            
شاعری کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنی خود انسان کی زندگی۔ کہتے ہیں پہلا شعر آدم ؑ نے اُس وقت کہا جب ہابیل نے قابیل کو قتل کیا۔ اگر اُسے دُرست مان لیا جائے تو ثابت ہوجاتا ہے کہ واقعی شاعری جذبات کے اظہار کا نام ہے۔ جب کبھی انسان کسی سانحے /واقعے سے گزرا اور اُس نے کچھ محسوس کیا تو اُس نے اپنے احساس اور جذبے کا اظہار کرنا چاہا اور یوں شاعری نے جنم لیا۔
انسانی زندگی میں ہر طرح کےواقعات ہوتے ہیں۔ کوئی واقعہ خوشی سے متعلق ہوتا ہے تو کوئی غم اور دُکھ سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس طرح شاعری میں غم اور خوشی دونوں طرح کے جذبات در آتے ہیں۔ شاعری انسان پر گزرنے والے دُکھ، الم اور رنج پر نوحہ گری بھی کرتی ہے اور انسان کی خوشی، انبساط، فرحت اور سرمستی کو بھی بیان کرتی ہے۔
شاعری دنیا کے ہر خطے کے انسان کی زبان ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ کوئی خطہ ،کوئی علاقہ،کوئی ماحول اور کوئی معاشرہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ اس زاوئے سے دیکھا جائے تو ہندوستان کا علاقہ ہمیشہ سے شاعری کے لیے موزوں رہا ہے اور اس خطے میں شاعری ہمیشہ سے خوبصورت ترین رنگ میں سامنے آتی رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس خطۂ زمین کی تہذیب میں شاعری کو ہمیشہ اہمیت ملتی رہی ہےاور یہاں کی مٹی بے شمار لازوال شاعروں کو جنم دیتی رہی ہے اور بدستور دے رہی ہے۔ غواصیؔ، فتاحیؔ، ولیؔ، میرؔ، دردؔ، مومنؔ، سوداؔ، ذوقؔ، مصحفیؔ، غالبؔ، اقبالؔ، میراجی، ن۔م راشد، فیضؔ، فرازؔ اور اس قبیل کے بہت سے دوسر ے نام شاعری کی تاریخ میں نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ اُردو شعرا کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ہر رنگ اور ہر طرز کے حوالے سے ایک سے بڑھ کر ایک نام موجود ہے۔ بالخصوص غزل جو اُردو شاعری کا فخر و سرمایہ ہے اسے ہم دنیا کی شاعری میں ایک اہم صنف کے طور پربصد افتخار پیش کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ”ولیؔ“ جسے ”آزادؔ“ نے ”اردو شاعری کا باوا آدم“ کہا ہے ہمارے سامنے ایک ایسے شاعر کی حیثیت سے آتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ ولیؔ کی اہمیت و حیثیت کئی حوالوں سے ثابت ہے ۔ ان کا کلام بے شمار محاسن کا حامل ہے۔
ولیؔ کی زندگی میں سب سے زیادہ شہرت جس واقعے کو حاصل ہے وہ شاہ سعداللہ گلشنؔ سے اُن کی ملاقات ہے۔ ولیؔ ۱۱۲۰ھ بمطابق ۱۷۰۰ء؁ میں اپنے دوست ابوالمعالی کی معیت میں دہلی گئے اور یہاں اُن کی ملاقات شاہ سعداللہ گلشنؔ سے ہوئی۔ جنہوں نے ولیؔ کا کلام سُن کر مشورہ دیا۔


این ہمہ مضامین فارسی کہ بیکار افتادہ انددر
ریختہ خود بکار ببرار توکہ محاسبہ خواہد گرفت (۱)

 

اس ملاقات کے حوالے سے ولیؔ کے کلام میں ایک شعر بھی ملتا ہے۔ کہتے ہیں :


شاگرد ہو کے گلشن نامی کا اے ولیؔ
سب شاعروں میں دھوم مچاؤں تو نام ہے (۲)

معروف  قول کے مطابق ولیؔ نے گلشنؔ کے مشورے کو قبول کرکے ان کی ہدایت کے مطابق فارسی مضامین کو اُردو غزل میں سمویا۔ ولیؔ کے اس عمل نے اُن کے ساتھ ساتھ اُردو شاعری کی دنیا بھی بدل دی۔ لیکن یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صرف ایک مشورے کے نتیجے میں اپنی شاعری کی طرز بدل دینا ممکن نہیں بلکہ درحقیقت ولیؔ میں فطری طور پر یہ صلاحیت موجود تھی۔ البتہ اس کا احساس انہیں شاہ گلشنؔ نے دِلایا۔
بعض روایات سے واضح ہوتا ہے کہ ولیؔ دوسری مرتبہ بھی دہلی تشریف لے گئے تھے اور اس سفر میں ان کا دیوان بھی ساتھ تھا۔ یہ سفر دہلی کے پہلے سفر کے بیس سال بعد ۱۱۳۳ھ بمطابق ۱۷۲۰ء ؁ میں اختیار کیا گیا۔ (۳)
دلی میں ولیؔ کے دیوان کی بے حد قدر و منزلت ہوئی اور اسے قبول عام ملا اور اس حد تک شہرت ہوئی کہ ولیؔ خود کہہ اُٹھے :


ولیؔ تجھ طبع کے گلشن میں جوکوئی سیر کرتے ہیں
وہ تحفہ لے کے جاتے ہیں میری گفتار ہر جانب(۴)

ولیؔ کے دیوان کے دہلی میں آنے سے شمالی ہند کی شاعری پر ولیؔ کی شاعری کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور بے شمار شاعروں نے اس سے استفادہ کیا۔
ولیؔ بنیادی طور پر انسان کے حسن، فطرت کے جمال اور خوشی و سرمستی کے جذبے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے انسان اور انسانی زندگی کے غم و الم پر نوحہ گری کرنے کی بجائے انسان کے حسن، اس کی خوبصورتی، اس سے پید اہونے والی کیفیت، حسن فطرت اور اس سے ملنے والی سرخوشی کی قصیدہ خوانی کی ہے۔ ولیؔ نے انسان اور فطرت کے جمال کے امتزاج سے پیدا ہونے والے تاثر کو اپنی شاعری میں برتا ہے۔ ان کی شاعری خارج کی شاعری ہے اور اس میں انسان کے داخل کی کیفیات کا بیان کچھ کم ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ ولیؔ صرف اُس کیفیت کی بات کرتے ہیں جو حسن اور جمال کو دیکھ کر خارجی سطح پر انسان کے ذہن پر طاری ہوتی ہے۔ اُس کیفیت اوراحساس کو ولیؔ نے اپنی شاعری میں کچھ زیادہ جگہ نہیں دی جو حسن اور جمال سے انسان کے داخل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ولیؔ کی شاعری کا تعلق نگاہ سے ہے۔
سید عبداللہ اپنے مقالے ”جمال دوست اسلوب پرست ولیؔ“ میں لکھتے ہیں :
ولیؔ زندگی کے جمال اور کائنات کے حسن سے سرور و مسّرت حاصل کرنے اور نگاہ کی لذتوں سے سیراب و شادکام ہونے کو بہتر سمجھتے ہیں۔۔۔ ولیؔ نے زندگی کے جمال پر نظر ڈالی ہے اور اس کے ان پہلوؤں کو دیکھا ہی نہیں جن سے نظر میں تلخی اور نظریے میں پژمردگی بیدار ہوتی ہے۔“(۵)
ولیؔ نے اپنی شاعری کے لیے خوشی اور سرمستی، کیف و سرور کے موضوعات چُنے ہیں۔ وہ حسن کی تعریف کرتے ہیں اس سے حظ اُٹھاتے ہیں اور اس کو محسوس کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ولی   مابعدکے  دیگر  اردو شعرا کی طرح  حسن کو دل  کا روگ نہیں   بناتے  بلکہ  وہ حسن  کو دیکھ کر اسے محسوس کر کے حظ حاصل کر لیتے ہیں  ان کے ہاں  کہیں بھی  حسن کا حصول  مسئلہ نہیں ہے بلکہ  ان کا واحد مقصد  اس کا دیدار  اور اس دیدار  کے نتیجے میں   پیدا ہونے  والی انبساط کی کیفیت ہے۔ اردو شاعری  میں  ولی  کو یہ اختصاص  حاصل ہے کہ وہ  کسی ایک  انسان  تک یا کسی ایک حسین  شے تک خود کو محدود نہیں کرتے     ان کے کلام کے مطالعہ  سے ایک ایسی  شخصیت  کا خاکہ  ذہن میں  ابھرتا  ہے جو صرف  حسن کا  پرستار  ہے اور اسے  اس بات سے کوئی  غرض نہیں  کہ آیا وہ حسن  شبِ چاردہ کے پورے چاند کا ہے  یا کسی حسین  چہرے پر موجود  کسی دلآویز خال  کا  یا کسی باغ  میں کھلے کسی تروتازہ خوش رنگ پھول  کا وہ  حسن  کے پجاری  ہیں۔   یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں ایک سرمستی کی فضا پیدا ہوگئی ہے اور ایک نشاطیہ انداز اُبھر آیا ہے۔ چونکہ ان کا موضوع حسن اور اس سے ملنے والی خوشی ہے، اس لیے ان کا لہجہ اور الفاظ کو برتنے کا انداز بھی سرخوشی اور سرمستی والا ہے اوریہ اندازخالص ہندوستانی ذہن و احساس کی پیداوار ہے۔
ولیؔ کی شاعری کا ایک اورامتیازی وصف بُت پرستی و سراپا نگاری کا وہ رُجحان ہے جسے بعض نقّادوں نے ولیؔ کے رُجحانِ جمال پرستی کا نام دیا ہے۔ درحقیقت ولیؔ کی شاعری مشاہدے پر مشتمل ہے۔ محسوسات ان کی شاعری کی بنیاد ہیں اور ان کے کلام کا بیشتر حصہ حسن کے بیانات پر مبنی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ جمال پرستی انسانی حسن کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی تک ہی محدود ہے اور اس میں ابتدال نہیں ملتا۔
تلاش و جستجو کے دوران ولیؔ کے حواس جن کیفیتوں سے دو چار ہوتے ہیں ان کی شاعری ان کیفیات کا رنگین ودلآویز اظہار ہے۔ ولیؔ کی غزل دل و نگاہ کے بوقلموں مشاہدات و احساسات کی خوبصورت عکاسی ہے۔ ولیؔ کائناتِ رنگ و بُو کو دیکھتے اور شعر میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ جمالِ فطرت اور حسنِ انسان دونوں ان کے نزدیک فردوسِ نظر اور جنتِ نگاہ ہیں۔ ولیؔ محبوب کے اعضاء کی دلفریبیاں بیان کرتے ہیں۔ اس کے عارض و رُخسار،اس کی زلف و دہن کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کے قد کی مدح کرتے ہیں اور اس کی چال پر تصدق ہوتے ہیں۔ ولیؔ ہر حسین شے ہر حسین چہرے سے لطف حاصل کرتے ہیں  اور اس کی تعریف کرتے ہیں مگر یہ سراپا نگاری اور پیکر تراشی اُن کے انداز میں ابتذال پیدا ہونے نہیں دیتی۔
ولیؔ کی غزل میں عقیدت حسن اور وارفتگی ئ عشق کا رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری نشاطیہ ہے مگر بازاری نہیں۔ کیونکہ اس میں ہوسناکی نہیں بلکہ تقدس اور وقار ہے اور اس میں وہ بات موجود نہیں جو اکثر معاملہ بند شعرا ء کی شاعری میں ملتی ہے۔ مختصر یہ کہ ولیؔ ایک ناظرِ خوش نظر ہیں۔ وہ حسن کو دیکھتے، لطف اُٹھاتے اور انبساط کی ان کیفیات کو غزل بناتے چلے جاتے ہیں۔ یہ حسن انہیں کبھی محبوب کے جسم میں اور کبھی مظاہرِ فطرت میں نظر آتا ہے اور اس حسن سے ولیؔ کی روح کو شگفتگی، دل کو کیف اور نظر کو فرحت ملتی ہے۔
دراصل ان کی شاعری میں یہ رنگ ہندوستان کی مٹی کی تاثیر کی وجہ سے آیا ہے۔ ہندوستان بنیادی طور پر جنگل ہے اور جنگل میں بصارت کی بجائے لمس، سماعت اور شامہ کی حسیات کارفرما ہوتی ہیں۔ اس میں بصارت کے لیے وسیع میدان نہیں ہوتے۔ بلکہ سُننے، چھونے اور سونگھنے کے ذریعے اشیاء کو محسوس کیا جاتا ہے اور ولی ؔ کی شاعری میں یہی چیز ملتی ہے۔ دوسری طرف ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ ولیؔ ایک طرح سے شاعری کے عراقی طرز سے بھی متاثر ہیں۔ جس میں بصارت کو اہمیت حاصل ہوتی ہے وہاں اشیاء کے ساتھ چمٹ جانے اور لپٹنے کا عنصر نہیں ہوتا بلکہ محض باصرہ کو تحریک دی جاتی ہے۔ حسن کو صرف دور سے دیکھ کر اس سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ دونوں رنگ مل کر ولیؔ کی غزل کو ایک اچھوتا انداز دیتے ہیں۔ ان دو خاصیتوں کی وجہ سے ولیؔ کی شاعری میں ایک طرف اگر گیت کا مزہ ملتا ہے تو دوسری طرف فارسی مضامین کا لطف بھی موجود ہے جس کے باعث ان کے ہاں لمحے سے لطف اُٹھانے اور رَس نچوڑنے کا انداز، سراپا نگاری، جمال پسندی اور زمین کے ساتھ وابستگی کے زاویے نظر آتے ہیں۔گیت میں موجود ہندوستانی کیفیت اور غزل میں پائی جانے والی سرخوشی کی خاصیت جب باہم آمیز ہوتی ہےتو روایتی فارسی زدہ غزل سے ہٹ کرایک اچھوتی طرزِ شاعری جنم لیتی ہے جسےناقدین غزل اُردو ولی کی غزل کا نام دیتے ہیں اور یہی دراصل وہ نقطۂ اغاز ہے جسےہندوستانی تغزل کا نام دیا جاتا ہے۔
ولیؔ کا تصورِ عشق کائناتی ہے۔ اُنہیں ہر حسین شے سے محبت ہے۔ انہیں ہر وقت کسی  غنچۂ دہن کسی شمع انجمن اور کسی رشکِ  ماہتاب کی تلاش رہتی ہے۔ وہ تلاش و جستجو میں مصروف رہتے ہیں مگر ناکام ہونے کے باوجود مایوس نہیں ہوتے۔ ولیؔ کا تصور عشق متوازن اور صحت مندانہ ہے۔ ان کے خیال میں عشق سے نگاہ میں رفعت آتی ہے اور دل میں ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ عشق کےبغیر زندگی کی تکمیل نہیں ہوتی اور زندگی اس بلند مقا م کو حاصل نہیں کرسکتی جو اس کا منتہائے مقصود ہے۔ ولیؔ کے خیال میں عشق میں مسلسل سعی و جہد سے بالآخر منزل مقصود مل جاتی ہے۔ان کے مطابق عشق کے بغیر زندگی میں کوئی کیف،کوئی لطف، کوئی رنگینی موجود نہیں ہے۔ ان کے خیال میں فرہاد و مجنوں کا ٹھکانہ شہر نہیں صحرا ہے۔ کہتے ہیں:


نہ ڈھونڈو شہر میں فرہاد و مجنوں کا ٹھکانہ
کہ ہے عشاق کا مسکن کبھو صحرا کبھو پربت (۶) 

ولیؔ عشق کو ہادی و رہبر سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عشق کے ذریعے ہی انسان رفعت و بلندی اور کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ کہتے ہیں:


ان نے پایا ہے منزل ِ مقصود
عشق جن کا ہے ہادی و رہبر (۷) 

عشق کا تیر اُن کے خیال میں شاہ و گدا میں کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ عشق کے زخم راحت دیتے ہیں اس لیے اُن کا خیال ہے کہ عشق انسان کے لیے ضروری ہے؛


شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا (۸) 

جذبۂ عشق کے بارے میں ولیؔ کا نقطہئ نظر فلسفیانہ نہیں ہے کیونکہ ولیؔ معاملاتِ عشق کے مزاج دان ہیں مگر اس کے مفکر نہیں ہیں۔ بہرحال ولیؔ عشق میں صبرو رضا کو لازمی خیال کرتے ہیں اور یہ چیز اُن کے امتزاجی طرز احساس کی بدولت اُن کے ہاں آئی ہےجس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔


عشق میں صبر و رضا درکار ہے
فکرِ اسبابِ وفا درکار ہے (۹) 

ولیؔ کے خیال میں عشق کی پہلی منزل مجازی ہے ۔ اُن کے مطابق میں حیاتِ انسانی کا حسن عشقِ حقیقی کے لیے محرک کا درجہ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ولی عشق کی راہوں کی صعوبتوں اور تکلیفوں کو ہی زندگی سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے زندگی کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور انسان عشقِ حقیقی تک پہنچتا ہے۔
ولیؔ کے تصورِ عشق میں کافی عمل دخل تصوف کا بھی ہے۔ اُن کے تصور عشق میں جو اعلیٰ معیار ہے اور ارفع اقدار ہیں نیز جو پاکیزگی و پاکبازی ہے وہ تصوف ہی کی رہین ِ منت ہے۔ ولیؔ کے تصور ِ عشق اور نظام ِعاشقی میں تہذیب ہے، رکھ رکھاؤ ہے اور یہ تصوف سے گہری وابستگی کی بدولت ہے۔ اُن کے تصورِ عشق کی گہرائی میں اُترا جائے تو ان کے عشق کی تہہ میں عشقِ حقیقی کا جلوہ نظر آتا ہے۔ ولیؔ قدرت کے مظاہر کے حوالے سے ہی عشقِ حقیقی سے لو لگاتے ہیں ۔
سید عبداللہ ولیؔ کے تصورِ عشق کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
”حسن و عشق کے موضوع پر بھی ولیؔ کو ہم ظاہر پرست دیکھتے ہیں۔ ولیؔ کا عشق دل سے زیادہ آنکھ سے متعلق ہے۔“(۱۰)
ولیؔ کے عشق کی نوعیت نشاطیہ ہے اور اس میں بے پناہ شدت موجود ہے۔ اِن سب باتوں کے باوجود ولیؔ کے عشق کی بنیاد محض خارج پر نہیں رکھی جاسکتی کیونکہ اس میں داخلیت کا ہلکا سا رنگ نظر آتا ہے۔ ولیؔ کا عشق ایک انسان کا عشق ہے، ایک گوشت پوست کے انسان کا، جو عشق کی گوں نا گوں کیفیات سے گزرتا ہے۔ نیز اس راہ کی صعوبتیں اسے تکلیف تو دیتی ہیں مگر وہ انہیں ہی حاصل زندگی سمجھتا ہے اور عشق کی تباہ کاری کے باوجود اسے زندگی کے لیے ضروری سمجھتا ہے اس عشق سے پیدا ہونے والا ردِ عمل بھی انسانی ردِ عمل ہے۔ عاشق محبوب سے محبت کرتا ہے اس کو پوجتا ہے اور اس کی ہر ہر ادا پر قربان ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کی جفاکاری اسے دُکھ دیتی ہے مگر وہ اسے بھی ایک ادا ہی تصور کرتا ہے۔ وہ عشق کی تکلیفوں کا احساس رکھتا ہے مگر اس کے باوجود اس سے دامن چھڑانا نہیں چاہتا۔ اس کے خیال میں یہی زندگی اور اس کا حسن ہے۔
ولیؔ کی شاعری میں محبوب کا تصور اصلی اور حقیقی ہے۔ ان کا محبوب بعد کے اکثرشعراء کے محبوب کی طرح نہیں جس کی اگر تصویر بنائی جائے تو اچھے خاصے کارٹون کی شکل بن جائے۔ ہمارے اکثر شعراء محبوب کی تعریف میں مبالغے کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ محبوب اس دنیا کی مخلوق لگتا ہی نہیں۔ لیکن ولیؔ کا محبوب ایسا نہیں ہے بلکہ اُن کا محبوب انسانی شکل میں نظر آتا ہے اور وہ محبوب کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ سُننے والے کو یقین آجاتا ہے کہ ضرور ولیؔ کا محبوب کوئی بہت ہی حسین اور متناسب اعضاء والا انسان ہے۔ اپنے اس محبوب کو ولیؔ اس طرح مخاطب کرتے ہیں:


مت غصے کے شعلے سوں جلتے کو جلاتی جا
ٹک مہر کے پانی سوں توں آگ بجھاتی جا
تجھ چال کی قیمت سوں دل نئیں ہے مراواقف
اے مان بھری چنچل ٹک بھاؤ بتاتی جا
مجھ دل کے کبوتر کوں پکڑا ہے تری لٹ نے
یہ کام دھرم کا ہے ٹک اس کو چھڑاتی جا (۱۱)

اس محبوب کے حسن ظاہری کی تصویر کشی میں ولیؔ نے قلم توڑ دیا ہے۔ انہوں نے حسنِ محبوب کے ان گِنت زاویوں کی مصوری کی ہے۔ ولیؔ محبوب کی ادا کو اعجاز قرار دیتے ہیں اور محبوب کو تمام دنیا کے خوباں سے ممتاز سمجھتے ہیں۔


وہ نازنیں ادا میں اعجاز ہے سراپا
خوبی میں گل رخاں سو ممتاز ہے سراپا
کیوں ہوسکیں جگت کے دلبر تیرے برابر
تو حسن ہور ادا میں اعجاز ہے سراپا (۱۲)

یا


بے جاہے بادشاہی ہر خوب رو کوں دینا
خوبی کے تخت اوپر اک بادشاہ بس ہے (۱۳) 

ان اشعار کے ذریعے اُن کے محبوب کی انفرادیت واضح ہوجاتی ہے۔ محبوب ولیؔ کے لیے ایک معیار ہے۔ وہ محبوب کی ذات کو انجمن سمجھتے ہیں۔ ولیؔ کے خیال میں دنیا کا سارا حسن محبوب کے حسن میں سمٹا ہوا ہے اس لیے اُن کی غزل میں محبوب کے ساتھ حسن اور حسن کے ساتھ محبوب کا ذکر ملتا ہے۔ اس چیز کو ہندوستانی طرزِ احساس کا اثر مانا جاسکتا ہے جس کے لئے ولی کی شاعری مشہور ہے۔
ولیؔ کا محبوب حسین ہے۔ عشو ہ و ادا دِکھاتا ہے۔ بظاہر ستم گر ہے مگر اس کے دل میں بھی عاشق کی محبت موجزن ہے اور وہ اس پر بہرکیف مہربان ہے؛


مجھ پر ولیؔ ہمیشہ دلدار مہرباں ہے
ہر چند حسب ظاہر طناز ہے سراپا (۱۴)

علاوہئ ازیں ولیؔ کے محبوب کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہندی ہے، اس کا رنگ روپ، چال ڈھال، ناز و انداز، عشوہ و ادا، طور طریقے اور مزاج و افتادِ طبع سب مقامی ہیں۔ وہ دکنی و گجراتی حسن کا مجسمہ ہے۔ اس کے انداز دلبرانہ ہیں اور اس میں دلربائی ہے۔ یوں ولیؔ کی غزل میں غزل کی روایت سے انحراف تو ہے مگر مقامی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ جس سے ایک طرح کی دلکشی و دلچسپی پیدا ہوگئی ہے۔
اس محبوب کے ساتھ جو سرتا پاحسن اور خوبی کا معیار ہے، ولیؔ کو والہانہ عشق ہے۔ وہ اس کی ہر ہر ادا پر عش عش کر اُٹھتے ہیں۔ اس کی ہر حرکت پر ولیؔ کو پیار آتا ہے۔ کیونکہ ان کے محبوب میں جلادیت نہیں پائی جاتی۔
ولیؔ دراصل ہر حسین چہرے کے عاشق ہیں کیونکہ وہ ہر حسین چہرے میں محبوب کی شبیہ تلاش کرتے ہیں اُن کو محبوب کے قرب کی خواہش تو ہے مگر اس کے لیے اُن کے پاس کوئی جو از موجود نہیں ہے۔ اس لیے کہتے ہیں:


مجلسِ شوخ میں مجھے کچھ بھی
حجتِ وصل کوں جواب نہ تھا  (۱۵)

ولیؔ محبوب سے شکایت کرنے کو روا نہیں سمجھتے کیونکہ اُن کے خیال میں محبوب کا وصف ہی ناز و ادا دِکھانا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں؛


گلۂ شوخ اے ولیؔ کرنا
ہر کسی کن تجھےصواب نہ تھا (۱۶)
 

ولیؔ کے محبوب کی خصوصیات انسانی خصوصیات ہیں۔ اُن کا محبوب اپنے حسن اپنی خوبی کی وجہ سے ناز و ادا دِکھاتا ہے اور ستم گر بھی ہے مگر ولیؔ کی محبت اُسے مہربانی کرنے پر مائل بھی کرتی ہے۔ جس طرح آنچ گلاب سے عرق کشید کراتی ہے۔


کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ
کہ آتش گل کوں کرتی ہے گلاب آہستہ آہستہ(۱۷)

ولیؔ کا ایمان ہے کہ اُن کی زندگی محبوب کے لیے ہے۔ جبکہ محبوب کا التفات لازمی نہیں ہے۔  انہیں محبوب ہر چیز سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اپنا تن من دھن اُس پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔  
غرض ولیؔ کا محبوب ایسامحبوب ہے جو اُن کی محبت کی قدر کرتا ہے لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کرے تو بھی ولیؔ اُس سے والہانہ عشق کرتے ہیں۔
ولیؔ کی شاعری کا نمایاں وصف اُن کی حسن پرستی اور جمال پسندی ہی ہے۔ درحقیقت ان کی شاعری کا بیشتر حصہ حسن و جمال اور خصوصاً نسوانی حسن و جمال کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی پر ہی مشتمل ہے۔ نیز حسن کے اس بیان میں ولیؔ کے ہاں مشاہدہ اور محسوسات دونوں نے رنگینی اور رعنائی پیدا کردی ہے اور یہی ان کی انفرادیت ہے۔ مگر حسن و جمال کے بیان کی سرخوشی اور سرمستی ولیؔ کی شاعری کو حواس کی شاعری بنا دیتی ہےاور حِسی کیفیات کے اَن گِنت پہلوؤں کو آشکار کردیتی ہے۔
ولیؔ کی شاعری میں حسن کے مختلف پہلوؤں کا بیان شدید انداز میں ملتا ہے۔ انھوں نے پوری پوری غزلیں حسن کی مدح میں لکھیں۔ انھوں نے جسم کو سراہا، قد کی تعریف کی، رخساروں کی جھلکار کا تماشا دیکھا، زلفِ عنبریں کے اسیر ہوئے، رفتار نے انہیں لبھایا، شوخ و چیچل آنکھوں نے انہیں بے قرار کیا۔ لبوں کی سرخی نے حواس میں رنگ بکھیرے، رنگ و بوئے حیا نے انہیں آسودگی دی اور ان سب کیفیات کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے جو تصویریں پیش کیں وہ قابلِ دید ہیں۔ مثلاً:


اے رشکِ ماہتاب تو دل کے چمن میں آ
فرصت نہیں ہے دن کو اگر توں رین میں آ(۱۸) 

جگ کے ادا شناساں ہے جن کی فکر عالی
تجھ قد کوں دیکھ بولے یو ناز ہے سراپا(۱۹)

 گاہے اے عیسوی دم یک بات لطف سوں کر
جاں بخش مجھکوں تیری آواز ہے سراپا
تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں تیرے نین غزالاں سو کہوں گا(۲۰)

ترا لب دیکھ حیواں یاد آوے
ترا مکھ دیکھ کنعاں یاد آوے
تیرے دو نین جب دیکھوں نظر بھر
مجھے تب نرگستاں یاد آوے
تری زلفاں کی طولانی کوں دیکھے
مجھے لیلِ زمستاں یاد آوے
تیرے  مکھ کے چمن کے دیکھنے کوں
مجھے فردوسِ رضواں یاد آوے(۲۱)

اِن اشعار سے ولیؔ کے تصورِ حسن و جمال پر روشنی پڑتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے حسن و جمال کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور اس سے مسرت حاصل کی۔ لیکن وہ حسن کو دیکھ کر اس کی بے اعتنائی کا شکوہ نہیں کرتے اور انہیں حسن کے مظالم کا خیال بھی نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن انہیں نظر انداز نہیں کرتا۔ دُکھ نہیں پہنچاتا اور انہیں محروم و ناکام نہیں چھوڑتا۔ گویا حسن ولیؔ کے ہاں ایک نظامِ حیات ہے جسے انہوں نے اپنایا ہے۔ ولیؔ حسن و جمال کے بیان کے لیے ایک پس منظر بناتے ہیں، اس میں اپنے تخیل سے رنگ بھرتے ہیں پھر جو منظر سامنے آتا ہے، اُس سے خط اُٹھاتے ہیں، سرخوشی حاصل کرتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس انداز سے ایک فضا بنا لیتے ہیں۔ جس میں رنگینی ہی رنگینی ہے اور جو حواس پر چھا جاتی ہے نیز ذہن و دل کو خوشبو کے جھونکے کی طرح معطر کردیتی ہے۔ ولیؔ کے بیسیوں اشعار اس کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔
ولیؔ  حسین و دلآویز فضا کے شیدائی ہیں۔ انہیں ہر خوبصورت شے کو دیکھنے میں اور محسوس کرنے میں لطف آتا ہے اور وہ یہ لطف حاصل کرتے رہتے ہیں نیز قاری کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیتے ہیں۔ حسن و جمال کے بیان میں ولیؔ نے اپنے تخیل کا استعمال کیا ہے ۔ یہی وہ موقع ہے جب ہمیں ان کے رومانی ہونے کا تاثر ملتا ہے لیکن ان کی رومانیت میں ناآسودگی کا عنصر نہیں ہے۔
ولیؔ کی جمال دوستی کے عوامل اور محرکات بے شمار ہیں، اس کی جڑیں ان کی مخصوص افتادِ طبع اور اس افتادِ طبع کے پیدا کرنے والے اس تہذیبی ماحول میں پیوست ہیں۔جسے ہم ہندوستانی تہذیب کہتے ہیں جس نے حسن دوستی اور جمال پرستی کو ایک فن کا روپ دے دیا ہے۔ ولیؔ کے اس فن نے ان کی غزل میں محبوب کو بہت نمایاں کردیا ہے اس لیے ہمیں ولیؔ کے محبوب کی ایک واضح صورت اُن کی غزلوں میں نظر آتی ہے۔
بحیثیت شاعر ولیؔ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔  انہوں نے اپنے دور کے ادبی اور فکری معیاروں کو اپنی شاعری میں سمویا اور ساتھ ساتھ بیان کی لذت کا اعجاز دکھایا۔ ولیؔ کو ولیؔ ان کے اسلوب نے ہی بنایا ہے۔ موضوع ان کا بہت وسیع نہیں اور نیا بھی نہیں بلکہ اس موضوع پر ولیؔ سے پہلے بھی لکھا جاچکا ہے مگر ولیؔ نے جس انداز میں اور جس لہجے میں شاعری کی ہے وہ ان کو انفرادی حیثیت و مرتبہ اور شہرت عطا کرتا ہے۔ ولیؔ بے پناہ لسانی شعور کے مالک ہیں۔ ولیؔ نے غزل کا رابطہ عوام سے پیدا کیا اور اُردو شاعری اور خاص طور پر اُردو غزل کو نیا لہجہ دیا، نئی زبان دی اور نیا اسلوب دیا۔سب سے بڑھ کر نیا طرزِ احساس دیا۔ولیؔ نے نہ صرف زبان کو صاف کیا بلکہ غزل کی صحیح معنوں میں ابتداء کی۔ اسے فارسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی لیکن ساتھ ساتھ اسے ہندوستانی رنگ بھی عطا کیا۔ اُن سے پہلے بھی اگرچہ دکن کی شاعری میں غزل کی صنف رائج تھی اور غواصی، وجہی اور نصرتی جیسے غزل گو موجود تھے لیکن ان کی شاعری میں روایتی فارسی غزل کا رجحان ملتا ہے۔       ان کے برعکس ولیؔ نے فارسی شاعری کی علامتوں اور اشاروں سے کام تو لیا لیکن اسے مقامی رنگ کے ساتھ ملا دیا لہٰذا فارسی زبان کی روایت نے ان کی غزل کو تیکھا پن دیا اور ہندی کی روایت نے سادگی و حلاوت عطا کی اور ان دونوں چیزوں کے امتزاج سے جو فضا پیدا ہوتی ہے اسے ہندوستانیت کا نام دیا جاتا ہےجو آج ہماری شاعری پر چھائی ہوئی ہے۔ ولیؔ نے اُردو غزل کے لیے زمین اور بنیاد فراہم کی جس پر ہمارے شعراء نے غزل کی عمارت تعمیر کی۔ ولیؔ کا دیوان جب دہلی پہنچا تو عوام و خواص میں یکساں شہرت ہوئی اور شاعروں نے ان کے طرز میں شاعری شروع کردی۔”مراۃ الشعراء“ کے مرتب محمد یحییٰ تنہاؔ لکھتے ہیں:
”آج شاہ جہان آباد کے گوشے گوشے میں ولیؔ کا نام سنا جاتا ہے۔ سعداللہ گلشنؔ کے یہاں ولیؔ کی غزلیں گائی جاتی ہیں اور لوگ جو ق درجوق آتے ہیں۔ گلی گلی میں بچوں کی زبان پر ولیؔ کے اشعار ہیں اور صاحبِ ذوق ولیؔ کے تتبع میں خود بھی اس طرف مائل ہوگئے۔ فارسی کو چھوڑ کر خود اپنی زبان میں شعر کہنے لگے۔۔۔ اس کے کلام کی پختگی اور دلآویزی نے سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔۔۔ اس لیے اگر اولیت کا تاج اس کے سر پر رکھ دیا جائے تو بے جا نہیں ہے۔“(۲۲)
دراصل غزل کی صنف ولیؔ کے ہاتھوں تقلید سے آزاد ہوئی اور اس میں اصلیت اور واقفیت کا رنگ و آہنگ پیدا ہوا۔ الغرض ولیؔ نے حقیقی ہندوستانی غزل کو متعارف کرایا۔ اس لیے تو محمد حسین آزادؔ نے ”آب حیات“ میں ولیؔ کو اردو شاعری کا ”باوا آدم“ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”یہ نظم اُردو کی نسل کا آدم جب ملک ِ عدم سے چلا تو اس کے سر پر اولیت کا تاج رکھا گیا جس میں وقت کے محاورے نے اپنے جواہرات خرچ کیے اور مضامین کی رائج الوقت دستکاری نے مینا کاری کی جب کشورِ وجود میں پہنچا تو ایوانِ مشاعرہ کے صدر میں اس کا تخت سجایا گیا۔“(۲۳)
آزادؔ کا یہ دعویٰ اگرچہ تاریخی حیثیت سے قابلِ قبول نہیں کیونکہ ولیؔ سے بہت پہلے شاعری کی بنیاد رکھی جاچکی تھی اور کئی شعراء گزر چکے تھے۔ مثلاً امیر خسروؔ، غواصیؔ، وجہیؔ، نصرتیؔ اور پھر صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ ہیں۔ لیکن ایک عرصے تک یہ بات درست تصور کی گئی اور ولیؔ کو پہلا صاحبِ دیوان شاعر مانا گیا مگر پھر تحقیق نے ثابت کیا کہ ولیؔ سے پہلے قلی قطبؔ شاہ کا دیوان شائع ہوچکا تھا۔ اس لیے ولیؔ پہلا صاحبِ دیوان شاعر نہیں ہوسکتا۔         
یہی وجہ ہے کہ آزادؔ کے اس بیان سے اکثر لوگ انکار کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ غزل کو غزل بنانے والے ولیؔ ہی ہیں۔ انہوں نے غزل میں زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا کردی۔ اسے ایک باقاعدہ صنف بنا دیا۔ مختصر یہ  کہ غزل کو اصل معنوں میں ہندوستانی شناخت دی۔یہی وجہ ہے کہ ولیؔ کی اہمیت و حیثیت کا اعتراف ہمارے تمام ادیب محقق اور نقاد کرتے ہیں مثلاً آبروؔ کہتے ہیں:


آبروؔ شعر ہے ترا اعجاز
پر ولیؔ کا سخن کرامت ہے(۲۴)

سراجؔ ولیؔ کے بارے میں کہتے ہیں:


تجھ مثل اے سراجؔ بعد ولیؔ
کوئی صاحب سخن نہیں دیکھا(۲۵)

ولیؔ کے بارے میں محمد حسین آزادؔ یوں رقم طراز ہیں۔ ”اُردو کے سب سے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ولیؔ ہیں“ (۲۶)۔  رام بابو سکسینہ کے خیال میں ”جب ولیؔ کا نیر اقبال چمکا تو چھوٹے چھوٹے تارے جو اُفق شاعری پر اس وقت ضیافگن تھے سب مانند پڑگئے“ (۲۷)۔ نورالحسن ہاشمی کے الفاظ میں ”ولیؔ نے شمالی ہند کے شعر و ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا“ (۲۸)۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:
”ولیؔ کی عظمت ان کے منفرد اور عمیق تجربات میں نہیں بلکہ اس میں ہے کہ انہوں نے تجربات کو ایک پیرا یہئ بیان میں ظاہر کیا ہے جو بذاتِ خود حسن اور لطف کا بے نظیر پیکر اور نمونہ بن گئے ہیں۔“ (۲۹)

 

عبادت بریلوی کی نظر میں:
”ولیؔ تغزل کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔۔۔ ان کی ہر بات تغزل کے رنگ میں رنگی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔ حسن و عشق کا رنگ ان کے یہاں رچا ہوا ہے۔۔۔ فن اور جمالیاتی اعتبار سے اُن کے تغزل میں ایک نئی زندگی نظر آتی ہے۔۔۔ ان سب باتوں نے مل کر جہاں تک غزل اور تغزل کا تعلق ہے، انہیں ایک بہت بڑا خالقِ جمال بنا دیا ہے۔“ (۳۰)
ڈاکٹر وزیر آغا ولیؔ کے بارے میں لکھتے ہیں:
”سعد اللہ گلشنؔ نے ایک تاریخی فقرہ کہا تھا جو تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ دراصل وہ سمجھتے تھے کہ ولیؔ ہی اردو شاعری کے پہلے نمائندے ہیں۔“ (۳۱)
حامد اللہ افسرؔ کے الفاظ میں ”ولیؔ حقیقی شاعر تھے انہوں نے غزل گوئی کا حق ادا کردیا۔“ (۳۲) نصیر الدین ہاشمی ولیؔ کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں”اس کے کلام میں سلاست اور متانت پائی جاتی ہے۔ اس کا دیوان اس عہد کی بولتی تصویر ہے۔“ (۳۳)
ان تمام آراء کے نتیجے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہےکہ ہندوستانی طرزِتغزل ولی کے ہاں اپنی صورت گری کرتا ہے۔جسےخواہ، جمال دوستی کہا جائے، خواہ حسن پرستی، چاہےگیت کا اثرکہا جائے یا وارفتگئ عشق کا نام دیا جائے۔ یہ ولی کا مخصوص طرز احساس و بیان ہے۔جو اِن سے پہلے غزل کی کلاسیکی روایت مو جود نہیں۔ اسی بنیاد پر ولی دکنی کو ہندوستانی ذہن و احساس اور بیان واظہار کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے۔

حوالہ جات
۱۔        دیوان ولی
۲۔       سلیم اختر، ڈاکٹر، اُردو کی مختصر ترین تاریخ،
۳۔       دیواَنِ ولی
۴۔       عبداللہ، سید، ولی سے اقبال تک، لاہور، لاہور اکیڈیمی، س ن۔
۵۔       دیوانِ ولی
۶ ۔       ایضا "
۷۔      ایضا "
۸۔       ایضا "
۹۔       ایضا "
۱۰۔      ایضا "
۱۱۔      ایضا "
۱۲۔      ایضا "
۱۳۔     ایضا "
۱۴ ۔     ایضا "
۱۵۔     ایضا "
۱۶۔      ایضا "
۱۷۔     ایضا "
۱۸۔     ایضا "
۱۹۔      ایضا "
۲۰۔     ایضا "
۲۱۔      ایضا"
۲۲۔     محمد یحییٰ تنہا، میراۂ الشعرا ء، لاہور، غلام علی، س ن، ص  ۱۶۰۔
۲۳۔    محمد حسن آزاد، آبِ حیات۔
۲۴ ۔    دیوانِ آبرو
۲۵۔     بحوالۂ محمد اقبال جاوید، اُردو کے دس عظیم شاعر، لاہور، علمی کتاب خانہ، س ن، ص ۱۵۸۔
۲۶ ۔     محمد حسین آزاد، آبِ حیات،
۲۷۔    رام بابو سکینہ،
۲۸۔    نورالحسن ہاشمی، مضمون، ولی کی شاعری، مشمولہ کلیاتِ ولی
۲۹ ۔     عبداللہ سید، ولی سے اقبال تک، لاہور، لاہور اکیڈیمی، س ن
۳۰۔    عبادت بریلوی، شاعر اور شاعری کی تنقید، کراچی، لاہور، اُردو دنیا
۳۱۔     وزیر آغا، ڈاکٹر،
۳۲۔    بحوالۂ محمد اقبال جاوید، اُردو کے دس عظیم شاعر، لاہور، علمی کتاب خانہ، س ن، ص ۱۶۰
۳۳۔    نصیرالدین ہاشمی،

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com