زیتون بانو کے افسانوی مجموعہ شیشم کا پتہ میں پشتون ثقافت کی نمائندگی
شاہین بیگم۔ پرنسپل   سمارٹ  گرلز  کالج  پشاور
جاوید بادشاہ۔ سابق صدر شعبہ اردو  اسلامیہ یونیورسٹی  ، پشاور
اظہار اللہ اظہار۔ پروفیسر  اسلامیہ یونیورسٹی  پشاور

ABSTRACT :


Zaitoon Bano is a prolific Pushto writer. She earned immense repute for her realistic  depictions of life in Khyber Pakhtunkhwa. She is a great exponent of Pushtun mindset and its various sensibilities. Her main focus in short stories is the class struggle among various Pushtun tribes and facilities and the ensuing ills and evils. She cuts through the apparent vanities of Pushtuns to disclose their deeply-rooted customs and rites, traditions and rituals, follies and foibles, likes and dislikes, and above all their stubbornness to uphold their centuries old pride at the altar of universal fraternal sentiment.

.
شیشم کا پتا میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔  موم کے آنسو، تماشہ تمشائی، زندہ دکھ، دو شیزگی کی نشانی، ناتمام آرزو، کرم خوردہ ستون، کانچ کے ٹکڑے، شیشم کا پتا، سردار، بختاور، ایک آنے کا بیٹا، چلمچی۔
یہ افسانوی مجموعہ پہلی بار ۱۹۷۶ میں شاہین پریس پشاور سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کا پیش لفظ اعجاز راہی نے لکھا تھا۔ شیشم کا پتا زیتون بانو کا طبع زاد افسانوی مجموعہ ہے۔ افسانوی کا یہ مجموعہ انہوں نے پشتو زبان میں تخلیق کے مراحل سے گزارا ہے۔ رحیم گل نے اسے اُردو زبان میں منتقل کیا ہے اور ایک مشترقی زبان کو دوسری مشرقی زبان کے قالب میں ڈھالنے کی اچھی کوشش کی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ترجمے نے تخلیقی آہنگ اور تخلیقی روح کو کسی بھی مرحلے پر پائمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بانو چونکہ اصل تخلیق کار ہیں اس لئے ترجمہ کے باوصف اس کی خوبیان اور خامیاں ان ہی کی طرف لوٹتی ہے۔ ترجمے کی مثال لباس کی طرح ہے او رتخلیق کی مثال جسم کی سی ہے تو لباس کی تبدیلی جسم کے خدوخال تبدیل نہیں کر سکتے البتہ بعض لباس جسم کو نکھارنے اور سنوارنے میں اور بعض ملبوسات میں جسم کی اپنی تابناکیاں ماند پڑ جاتی ہے۔ بہرحال ترجمے کا لباس افسانوں کی روح کے عین مطابق ہے لہٰذا ترجمے کے بحث کو یہاں چھوڑ کر افسانوی مجموعہ کے شیشم کا پتا کا سرسری تخلیقی تجزیہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ زیتون بانو نے اپنی اس تخلیق کے وسیلے سے معاشرے کے معلوم علمی، ادبی اور ثقافتی سرمایے میں کس قدر اضافہ کیا ہے ۔ گو ان افسانوں میں بدلتے منازل کے ساتھ ساتھ ثقافتی سرگرمیاں ہجوم کی صورت میں نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر افسانے میں بعض ثقافتی سلسلوں کا تکرار اور اعادہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ جو غیر فطری نہیں ہے۔ کیونکہ جتنے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں ان کا پس منظر جب ایک ہو تو یہ یکسانیتیں مٹاتے نہیں مٹتیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ افسانہ نگار تنوع کے ترنگ میں بعض حوالوں کو شعوری طور پر نکال باہر نہیں کر سکتا کیونکہ اگر وہ مخصوص تناظر نہیں رہے گا تو واقعات کی روح مجروح ہو جائینگی۔ بہر حال ذیل میں بعض ایسے حوالوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو نہ صرف موضوع کے تناظر میں ان افسانوں کو اعتبار بخشتے ہیں بلکہ ادبی حوالے سے بھی توقیر کے سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں یقینا ایک اقتباس میں ثقافتی اور تہذیبی رنگوں کا شمار ایک سے زیادہ ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ بعض حوالے نمایاں ہیں اور بعض حوالوں کو سوچ کر دریافت کیا جا سکتا ہے لیکن ہر جہت سے موضوع کی تکمیل کا سامان ضرور کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر ‘‘شیشم کا پتا’’ کے مختلف افسانوں سے چند منتخب اقتباسات نقل کئے جا رہے ہیں جو موضوع کی تفہیم او رترسیل کے سلسلے میں افادیت اور اہمیت سے عاری نہیں۔
زندہ دکھ
(1)  منہا گلی میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا تو دوڑتی ہوئی آگے نکل گئی۔
‘‘میرا شاہین بیٹا’’                                       ‘‘بیٹا پشتون بیٹا’’
میرا بیٹا میرا کلیجہ                                        تم نے ٹھنڈا کر دیا
تیرے انداز سے پتہ لگتا ہے کہ تو نے میری پشتور پوری کر دی۔ تو نے اپنے باپ کا انتقام لے لیا۔۔۔۔۔ آج میرے صفی بیٹے نے باپ کا بدلہ لے لیا میں تیرے باپ کو یہ خوشخبری سنانے جا رہی ہوں۔۔۔۔ یہ زمین پھٹ نہیں جاتی کہ تم اس میں سما جاؤ، اے ننگے قوم، بزدل، انتقام تو لوگ زندگی سے لیتے ہیں تو نے مردے سے کیا لیا ۔۔۔۔۔ تمہیں اتنی اعلیٰ تعلیم بھی انسان نہ بنا سکی، بھیڑیے ۔۔۔ جواب دو نا ۔۔۔ تم نے یہ کیا کیا ؟؟؟ عادل نے غصے میں صفی کو دونوں شانوں سے پکڑ رکھا تھا صفی کا حلق خشک ہو چکا تھا ۔۔۔ اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اس نے آہستہ آہستہ لب کھولے۔۔۔۔ ’’لا ۔۔۔ لہ ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ نے ماں کی پشتو کو ماں ۔۔۔  تک ہی رہنے دیا۔ میری ماں کی محبت ڈاکٹری کے پیشے کی حرمت سے جیت نہیں سکی‘‘۔(۱)
زندہ دکھ میں ایک بیوہ اپنے بیٹے کو اپنے شوہر کے انتقام کے طور پر پالتی ہے اور یہ  آس لگائے بیٹھی رہتی ہے کہ جب وہ جوان ہو گا تو اپنے باپ کا بدلہ لے گا لیکن وہ اس بچے کو ڈاکٹری کی تعلیم دے کے وہ ڈاکٹر بن جاتا ہے اور اتفاق سے قاتل اس کے سامنے مریض کے طور پر سامنے آجاتا ہے وہ ماں کے کہنے پر ضرور کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن انتقام کی بجائے پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کرتا ہے اور اس کا علاج کر کے اسے حفاظت کے ساتھ گھر روانہ کرتا ہے یہ افسانہ ایک طرف تعلیم کی عظمت کو اُجاگر کرتا ہے تو دوسری جانب اس حقیقت کی جانب غمازی کرتا ہے کہ پشتون سے اگر دشمن بھی پناہ طلب کرے تو وہ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے امان دے دیتا ہے۔ یہاں تعلیم اور ثقافتی روایات مل کر ایک طرف معافی کا سندسیہ بن جایا کرتی ہیں تو دوسری طرف انسان میں تحمل کا مادہ پیدا کر کے زندگی کو خوبصورت بنانے کا امکان پیدا کرتی ہے۔
زیتون بانو کے ہاں حقیقت نگاری میں رومانیت اور رومانیت میں حقیقت نگاری ہے وہ ایسے تمام رجحانات سے گریزاں ہیں جو حقیقت سے دور ہوں بقول فتح محمد ملک۔


"بانو معاشرے کے باطن تک اتر کر اس کے وجود کا ایک حصہ بن کر حقیقت نگاری کا جادو جگاتی ہیں"۔(۲)

’’نا تمام آرزو‘‘ میں مشرقی میں پنپنی والی ممتا کو ایک روایت بن کر اجاگر کیا گیا ہے۔ جس کا بیٹا اپنے بدن پر ایک خفیف دانہ تک برداشت نہیں کر سکتا تھا اب کیسے ملازمت میں کٹنے والی ٹانگ کو برداشت کر پائے گا اسے کشمکش میں یہ افسانہ مکمل ہوتا ہے اور ذہین پرانمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے۔


"اور اب تمہارے زخمی ہو جانے کی اطلاع ملی تو سارا گھر پریشان ہو گیا ہے ۔ ماں رو رہی ہے کہ میرا لاڈلا کبھی ایک پھنسی کا درد بھی نہیں سہہ سکتا تھا اب وہ کس حال میں ہو گا اور میں بھی اس سوچ میں ہوں"۔(۳)

 
بین السطور یہ بھی پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ جن مشرقی ماؤں کے بیٹے قتل کر دیئے جاتے ہیں تو ان کی زندگی کسی طور موت سے کم نہیں ہوتی ان کا وجود ایک روبوٹ کی صورت میں ڈھل جاتا ہے یقینا معاشرے کو بحال رکھنے کے لئے بعض جذبوں کی صحت لازمی ہوتی ہے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے زیتون بانو ثقافتی تناظر میں افسانے کا تخلیقی اہتمام کرتی ہیں۔ جنسی جذبات کی تسکین مرد و زن کا مشترکہ حق ہے لیکن ہر معاشرے کی رسمیں اور مذہبی حوالے ان کے لئے مناسب راستے کا تعین کرتا ہے ۔ جب شمو شادی سے رہ جاتی ہے اس کے وجود کی جنسی حرارت اسے بے چین کرتی ہیں تو وہ مغرب کی خواتین کی طرح بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتی اور مردوں سے آزادانہ نسبتیں قائم نہیں کرتی بلکہ جب حجرے کے سارے لوگ گھروں کو چلے جاتے ہیں تو وہاں کے تکیوں کو اپنے لمس کا نشانہ بناتی ہیں اور وجود کی پیاس تنہائی میں بجھانے کی کوشش کرتی ہے اس طرح کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔


  ’’میں نے غور سے دیکھا حجرے سے جو بستر واپس آئے تھے اس نے اس میں سے ایک تکیہ سینے سے لپٹا رکھا تھا اور والہانہ انداز میں اس سے اپنا رخسار رگڑ رہی تھے وہ بے حد سر شار تھی اور اس کے انداز میں بلا کی دیوانگی اور خستگی تھی۔ پھر یہ تکیہ آہستہ نیچے سرک گیا تو اس نے اسے دبا لیا کچھ لمحے بے خود پڑی رہی پھر دھیرے دھیرے تکیہ کھینچ کر دوبارہ اس سے لپٹ گئی اور زور زور سے گال رگڑنے لگی’’۔ (۴)

 

موم کے آنسو
اس افسانے میں زیتون بانو نے یہ تصویر نمایاں کی ہے کہ ہر چند ماحول اور روایات انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن جبلیتں ماحول پر حاوی ہو جایا کرنی ہیں۔ وہ وعدے کرتی ہیں کہ بھائی کی موت بہن کی زندگی کو ابتداء میں بے اب وگیاہ صحرا میں تبدیل کرتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندہ لاش بن گئی ہے لیکن جب موسم تبدیل ہوتا ہے تو وہ بہن جو بھائی کو اپنی جان سمجھتی ہے ان کی آنکھوں میں آرزوں کی دنیا پہلے جنم لیتی ہیں اور پھر جب وہ بھائی کے قبر پر گزرتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے پرانے جذبات کسی دیوانے کا خواب بن گئے ہو قبر کی طرف اُس کی توجہ ہی مبذول نہیں ہوتی۔  نئے حیثیت اور نئے امنگوں کے قافلے میں وہ بے پروا بھائی کے قبر سے گزر جاتی ہے۔


  ’’میرا خیال تھا کہ وطن واپس آتے ہی ماں فوراً ماموں کی قبر پر جائے گی میں انتظار میں تھی ہفتہ گزر گیا دو ہفتے گذر گئے مہینہ ہو گیا دو مہینے ہو گئے مگر کسی کو خیال نہ آیا میں نے ڈرتے ڈرتے ماں سے کہا ماں قبرستان نہیں جاوگی! ماں نے مجھے اس طرح دیکھا جیسے ذہن پر زور ڈال کر کچھ کہہ رہی ہو۔ ہاں چلے جائیں گے نا ‘‘ (۵)

زیتون بانو نے شیشم کا پتا افسانوی مجموعہ میں پشتون ثقافت کے وہ تمام رنگ جو اس معاشرے میں موجود ہیں وہ بیان کئے گئے ہیں ۔ بانو کا یہ افسانوی مجموعہ محض ذہنی تخیل پر مبنی نہیں بلکہ ان میں تجربات اور مشاہدات بھی شامل ہیں۔
یہاں افسانہ نگار یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ ایسا کرنا مشرقی روایات کے منافی ہیں اگر آدمی احساسات سے عاری بھی ہو تو رسم دنیا نبھانے کی خاطر رشتوں کے تقدس اور روایات کی ریت کے بھرم کو قائم رکھنا ضروری ہے۔
شیشم کا پتا معاشرے کے موضوعات کو لے کر پورے دنیا تک پھیلانے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ تفصٰلی مطالعے اور طویل تجزیاتی عمل کا متقاضی ہے لیکن جگہ کی نایابی اور طوالت کے خوف کے پیش نظر ان تفصیلات کو قلم انداز کیا جا رہا ہے اس یقین کے ساتھ کہ آنے والے محققین اس فرویضے کو بہتر انداز میں برت سکیں گے۔

حوالہ جات
۱۔           زیتون بانو، زندہ دکھ از شیشم کا پتا شاہین پریس پشاور سن اشاعت ۱۹۷۶ء ص ۴۸۔۴۹
۲۔          ایوب صابر۔ جدید پشتو ادب شاہین برقی پریس پشاور ۱۹۷۴ءص ۱۰۴
۳۔          زیتون بانو، نا تمام آرزو از شیشم کا پتا مکتبہ ارژنگ پشاور  ۱۹۷۶ءص ۶۴
۴۔          زیتون بانو ، شیشم کا پتا از شیشم کا پتا مکتبہ ارژنگ پشاور ۱۹۷۶ء ص۱۰۳

۵۔            زیتون بانو ۔ موم کے آنسو از شیشم کا پتا مکتبہ ارژنگ پشاور ۱۹۷۶ء ص۱۹
اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com