عبداللہ حسین کی ناولٹ نگاری:دیہی اور شہری زندگی کے تناظر میں
عبدالغفورپی۔ایچ،ڈی (اُردو) اسکالر،یونی ورسٹی آف ایجوکیشن،لاہور
ڈاکٹروحیدالرحمٰن خان     صدرِشعبہ اُردو، یونی ورسٹی آف ایجوکیشن،              لوئر مال کیمپس، لاہور

 ABSTRACT:


 Abdullah Hussain is one of the brightest stars of Urdu fiction. His creations are a milestone in the history of urdu fiction. His novels and novelettes have gained special attention. He has presented ups and down of life in his stories with a masterly skill . He has portrayed the real pictures of traditions, beliefs and norms of the social life in his writtings. It is interesting that all the rhetoric of modern and ancient values is presented in his novels, novelletes and short stories. He has presented the main element of rural and urban life very well in his stories. Abdullah Hussain's novellets have been viewed here in the subject matter under discussion on urban and rural perspectives.

ناولٹ اختصار پسند طویل داستان کا نام ہے۔اسے طوالت پسند مختصر داستان بھی کہا جا سکتا ہے۔یہ داستان جدید فنی اصولوں کے مطابق بیان کی جاتی ہے۔ناولٹ میں ایک یا ایک سے زائد کرداروں کی مدد سے زندگی کی ایک یا ایک سے زیادہ اداؤں کو کہانی کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔
عبداللہ حسین کےناولٹ بھی زندگی کے چند خاص زاویوں اور رویوں کو پیش کرتے ہیں۔ ان میں ایک حوالہ دیہی اور شہری زندگی کی پیش کش کا بھی ہے۔ان کےناولٹوں کے مطالعے سے ہمیں ماحول اور سماج کے بدلے ہوئے رویوں اور زاویوں کی اطلاع ملتی ہے۔ وہ ہمیں صرف دیہاتی ماحول کی سیر ہی نہیں کراتے بلکہ شہری تمدن سے روشناس بھی کراتے ہیں۔شہر کی آبادی کا تیزی سے بڑھنا ایک اہم مسئلہ ہےاور یہ آبادی زرعی زمین کو ہڑپ کر رہی ہے۔جس کے ساتھ اس زمین کی مالی حیثیت بدل جاتی ہے۔قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتاہے۔جس کی وجہ سے غریب طبقے کی رسائی سے دور ہو تی چلی جاتی ہے۔ دولت مند ان زمینوں کو خرید کر رہائشی سکیمیں شروع کر لیتے ہیں۔راتوں رات ان کی دولت مندی کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے۔عبداللہ حسین نے ”نشیب “میں شہر کے پھیلاؤ اور زمین کی حیثیت میں تبدیلی کے عنصر کو یوں پیش کیا ہے:


 ”ہمارے گھر کی اچھی خاصی زمین داری تھی۔کسی زمانے میں ہمارے دادا پر دادا نے شہر کے آس پاس کافی زمین خرید لی تھی۔یہ زمین اب آباد ہو چکی تھی۔اس کے علاوہ شہر کی آبادی بڑھتے بڑھتے ہماری  زمین کے  بیچ پہنچ گئی تھی۔ ہماری  زمین  کی حیثیت زرعی سے شہری اور رہائشی میں بدل گئی تھی، جس سے اس کی قیمت میں چند سال کے اندر دس گنا اضافہ ہو گیا تھا۔میرے والدنے آبادی کے ساتھ لگتی ہوئی کچھ زمین بیچ دی اور باقی میں کاشت کرتے رہے۔“(۱)

یہاں عبداللہ حسین نے زرعی زمین کو شہر ی اور رہائشی زمین میں تبدیلی کے عمل کو بیان کیا ہے۔ اور شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کا اشارہ بھی دیا ہے۔ زمینوں کی قیمتوں میں اضافے کا پہلو بھی واضح کیا ہے۔
پاکستان کے دیہاتوں کی زندگی بہ نسبت شہری زندگی کے بعض حوالوں سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر چند کہ یہاں سہولیات شہر کی طرح میسر نہیں ہوتی ہیں مگر دیہات کی خالص آب و ہوا اور خوراک دونوں دیہات کے ماحول اور طرز حیات کو منفرد اور صحت مند بناتے ہیں ۔شہروں میں سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارتیں ،گاڑیوں کا شور اور دھواں یہ سب چیزیں شہری زندگی سے بیزار کرتی ہیں۔شہربھیڑ اور ہجوم سے عبارت ہے اور ہجوم کا ہر شخص بے شناخت دکھائی دیتاہے۔یہاں ہر شخص ہجوم کا ایک حصہ ہوتے ہوئے بھی اجنبی ہے۔             
شہر کی زندگی عام طور پر نفسانفسی کی زندگی ہے۔قریب سے قریب رہتے ہوئے بھی انسان ایک دوسرے سے دور ہیں۔کسی کو ایک دوسرے کی خوشی غمی سے زیادہ سروکار نہیں۔ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہے۔کلام کا وقت نہیں۔اس کے برعکس دیہی سماج اخوت کا نمونہ ہوتا ہے۔دکھ سکھ ساجھے ہوتے ہیں۔رشتوں ناتوں کی قدر و قیمت ہوتی ہے۔لوگ مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔دیہی معاشرت، احترام آدمیت پر استوار ہے۔دیہات کے افراد آپس میں ”بنی آدم اعضائے یک دیگر اند“کے مصداق ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں جبکہ شہروں میں عام طور پر رابطے کی استواری مفقود ہوتی ہے۔ شہر کی برق رفتار زندگی کا تقاضا بھی یہی ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ شہر انسان کی تعمیر نو کرتا ہے۔ اور اسے تہذیب و تمدن سے آشنا کرتا ہے۔اپنے متعددمسائل کے باوجود شہر امکانات کی سر زمین ہے۔البتہ شہر کے لوگوں کے رویے مغائرت کے حامل ہوتے ہیں اور باہمی ربطِ خاطر کم ہوتا ہے۔
عبداللہ حسین نے شہری زندگی کے اس پہلو پر اس انداز میں تبصرہ کیا ہے:


 ”کبھی ایسا ہوتا کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے سالوں سال اپنے عزیزوں سے ملاقات نہیں ہو پاتی اور کبھی کسی نا واقف مقام پر کوئی بھولا بسرا ہوا آدمی اچانک مل جاتاہے۔“(۲)

              دیہات میں رہنے والےلوگ عام طور پرقناعت پسند ہوتے ہیں شہروں میں مادہ پرستی زیادہ ہوتی ہے۔عام طور پر دیہاتی فطرتِ سلیم کے مالک ہوتے ہیں۔دیہات میں اخلاقی فضا شہروں کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہے۔ ابن خلدون نے بھی اپنی کتاب ”مقدمہ ابن خلدون “ میں لکھا ہے کہ :

 ”دیہاتی بھی اگرچہ ان کی طرح دنیا دار ہوتے ہیں مگر ان کی دنیا ان کی بنیادی ضرورتوں تک ہی محدود ہوتی ہے نہ وہ عیش پسند ہوتے ہیں اور نہ لذتوں اور شہوتوں کے بھوت ان پر سوار ہوتے ہیں۔ اور نہ ان تک ان کی رسائی ہوتی ہے۔اس لیے معاملات میں ان کی عادتیں اسی نسبت سے اچھی ہوتی ہیں اگر ان میں کچھ برائیاں اور بد اخلاقیاں پائی بھی جاتی ہیں تو وہ بہ نسبت شہریوں کی بہت ہی تھوڑی ہوتی ہیں لہٰذا یہ اول فطرت کے انتہائی قریب ہوتے ہیں اور نفس میں بری عادتوں کی کثرت کی وجہ سے جو برے ملکے پیدا ہو جاتے ہیں ان سے بہت دور رہتے ہیں اس لیے بہ نسبت شہریوں کے ان کا علاج آسان ہےاور یہ بڑی سہولت کے ساتھ اصلاح پسند بن جاتے ہیں۔ “(۳)

              شہر میں دو انتہائیں دکھائی دیتی ہیں۔نیکی کے کام بہت نظر آتے ہیں تو بدکاری کے کام بھی بہت۔شراب خانے ،قحبہ خانے اور جوا خانے شہروں میں پائے جاتے ہیں۔مساجد ہیں تو عالی شان اور عبادت گزاروں سے بھری ہوئی ۔بازار ہیں تو وہ بھی پُر ہجوم ۔ ہر طرف رونقیں اور چہل پہل ہوتی ہے۔ وہاں ہر کھیل کھیلنے کو ملتا ہے۔اور تفریح کے مواقع زیادہ ہوتےہیں۔عبداللہ حسین نے ناولٹ ”نشیب “میں شہر کی شام کا تذکرہ کچھ یوں کیاہے:

 ”شہر میں کمپنی باغ کے اندر چھوٹا سا کلب تھا جس میں شہر کے چھوٹے بڑے افسران اور وکیل شام کے وقت اکٹھے ہو کر ٹینس ،ٹیبل ٹینس اور تاش وغیرہ کھیلا کرتے تھے۔عام خبر تھی کہ وہاں شراب بھی ملتی ہے اور جو ابھی ہوتا ہے۔“(۴)

اس اقتباس میں مصنف نے شہر میں اعلیٰ طبقے کی شام کی مصروفیت کا ذکر کیا ہے اور کلب میں کھیلے جانے والے کھیلوں اور دیگردلچسپیوں کو بھی پیش کیا ہے۔
شہروں میں تمام کا م جدت اور بڑی نفاست سے انجام پاتے ہیں۔خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات اور دیگر تقریبات بھی قابلِ دید ہوتی ہیں۔فضول خرچی حد درجہ کی ہوتی ہے۔اس عمل سے غریب اور متوسط طبقہ کافی متاثر ہے۔ایسی تقریبات پر غیر ضروری اخراجات نے عام آدمی کی زندگی کو دشوار کر دیاہے۔ عبداللہ حسین نے ”رات “میں ایک شادی ہال کی منظر کشی اس طر ح کی ہے:

 ”یہ بینکوئٹ ہال ہے۔“ریاض نے کہا۔یہ ایک بہت بڑا مستطیل کمرہ تھا جس کے فرش کی سیاہ اور سفید ٹائلوں پر پاؤں پھسلا جاتا تھا۔وسط میں سیاہ ،چمکدار لکڑی کی بھاری پایوں والی میزیں،زرد سلک کی چادروں سے ڈھکی ہوئی میزیں بچھی تھیں جن پر چمک دار چاندی کے بڑے بڑے پیالے اوردوسرے آرائشی برتن رکھے تھے۔دیواروں کے ساتھ سرخ اور سیاہ رنگ کے صوفے بچھے تھے جن کے آگے چھوٹی چھوٹی گول میزیں پڑی تھیں۔چاروں طرف اونچی اونچی ،چھت تک پہنچتی ہوئی دو دو،پلیٹ گلاس جڑی کھڑکیاں تھیں جن کے آگے سبز رنگ بھاری سلک کے گھنی سلوٹوں والے پردے لٹک رہے تھے۔کھڑکیوں کے بیچ بیچ دیواروں پر بڑی بڑی سنہری فریم شدہ تصویریں لگی تھیں۔چھت کے عین وسط میں بہت بڑا شیشے کی ہزاروں بتیوں والا فانوس لٹک رہا تھا۔“(۵)

مصنف نے شہری زندگی کی نمائش پسندی کی طرف اشارہ کیا ہے۔اورشہر میں تقریبات کی رنگا رنگی کی عکاسی بھی کی ہے۔دیہاتوں میں ایسی تقریبات سادگی سے منائی جاتی ہیں۔
شہرحیاتِ انسانی کے ارتقاءاور مہذب معاشرت کا مظہر ہیں۔شہروں کے کچھ امتیازات ہوتے ہیں جو انھیں دیہات سے منفردکرتے ہیں۔ان میں علمی ترقی ایک امتیازی پہلو ہے۔اسکولوں ،کالجوں،مذہبی اور ٹیکنیکل درسگاہوں کے علاوہ سائنسی تجربہ گاہیں ،لائبریریاں اور دارالمطالعے بھی ہوتے ہیں۔دور جدید کی آرام و آسائش کی تمام سہولتیں مل جاتی ہیں۔ تہذیب و شائستگی سیکھنے کے مواقع مل جاتے ہیں۔طبی امداد بر وقت مل سکتی ہے ۔رات ہو یا دن اسپتال کھلے رہتے ہیں مگر صحت کو برقرار رکھنے کے لیے تازہ ہوا نہ خالص غذا ملتی ہے۔شہر میں ترقی اور صنعت کاری کے حوالے سے ابن خلدون کا کہنا ہے:

 ”شہر میں ہر قسم کے صنعت کار اور مشاق کاریگر پیدا ہو جاتے ہیں اور جوں جوں تمدن بڑھتا ہے۔ صنعت کاروں کو فروغ ہوتا ہے اور وہ نسل صنعتوں میں طرح طرح کی ایجادات کرتی ہے اور جب تک یہ حالت قائم رہتی ہے اور لگاتار صنعتیں قائم رہتی ہیں تو کاریگر اپنی اپنی صنعتوں میں ہوشیاروماہر ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ جب ایک طویل زمانے تک کوئی کاروبار کیا جاتا ہے تو اس میں استحکام اور خوب صورتی پیدا ہو جاتی ہے اور کاریگر کے ہاتھ میں ایک قسم کی سبکی اور لطافت پیدا ہو جاتی ہے۔“(۶)

شہروں میں ہر نئی ایجاد اور مصنوعات پہلے پہل آتی ہیں۔گاؤں کا رُخ بعد میں ہوتا ہے۔کچھ چیزیں صرف شہروں میں ہی اعتبار پاتی ہیں۔ گاؤں میں ان کا چال چلن معیوب لگتا ہے۔ کچھ چیزیں صرف گاؤں کے ساتھ مخصوص ہوتی ہیں۔شہروں میں ان کی موجودگی عجیب لگتی ہے۔عبداللہ حسین نے ناولٹ ”رات “میں دو منزلہ بس کا ذکر کیا ہے جو صرف شہروں میں ہی چلتی نظر آتی ہیں۔اقتباس ملاحظہ کیجیے:


 ”تھوڑی دیر کے بعد دو منزلہ بس کو آتے دیکھ کر وہ بچوں کی طرح خوش ہو گئے۔وہ اس کے آگے آگے اچھل اچھل کر سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر کی منزل میں جا کر سب سے آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔بس کی دوسری منزل پر سفر کرنا ان دونوں کو بے حد بھاتا تھا۔پہلے پہل جب ان کی شادی ہوئی تھی اور اپنے پیارے پرانے شہر کی ساری جگہیں چپہ چپہ پیدل چل کر گھوم چکے تو بس ٹکٹ خرید کر اس کی دوسری منزل میں آگے والی سیٹ پر بیٹھے شہر بھر کی سیر کیا کرتے تھے بے کار میں۔پھر وہ اپنے شہر کو چھوڑ اس شہر میں آگئے جہاں دو منزلہ بسیں بہت کم تھیں اور صرف چند ایک خاص خاص راستوں پر چلتی تھیں۔“(۷)

مصنف نے شہر میں چلنے والی دو منزلہ بس کا ذکر کیا ہے جو سیر وتفریح کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔خاص طور پر بچوں کے لیے یہ تفریح خاصی دلچسپی کی حامل ہے۔بچے اس پر سفر کر کے بہت خوش اور محظوظ ہوتے ہیں۔
               ناولٹ نگاروں کو دیہی اور شہری زندگی کے ترجمان کی حیثیت سے الگ الگ گروہوں میں تقسیم کرنا مشکل کام ہے بلکہ جس طرح شہر اور دیہات میں فاصلہ بتدریج کم ہو رہا ہے اسی طرح جدید اُردو ناولٹ میں شہر اور دیہات کی پیش کش میں ملا جلا اندازدکھائی دینے لگا ہے ۔ متعدد ناولٹوں میں اگرہمیں کہیں کوئی کردار دیہاتی زندگی کے بنیادی اوصاف یا خصوصیات کو اُجاگر کرتا ہواملتا ہے تو اس کے مقابل کا کردار شہری طرزِ زندگی کی عکاسی کرتا ہوابھی دکھائی دیتا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ ان دو دنیاؤں کا نقطہ اتصال جدید ناولٹ نگاری میں ایک نئے رحجان کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔عبداللہ حسین کے ناولٹوں میں دیہاتی کرداروں کے بھولے پن اور سادگی کے علاوہ ان کے احساس محرومی ،غیرت مندی اور تمدنی اثر پذیری جیسے موضوعات شامل ہیں۔دیہی کلچر کے شہری کلچرسے اثرات قبول کرنے کی کہانی بھی موجود ہے۔
شہروں سے ملحقہ دیہات قدرے بہتر اور تمدن سے متاثر ہوتے ہیں ۔ایسے دیہاتوں کے لوگ خوش حال نظر آتے ہی۔شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں ترقیاتی کام قدرے زیادہ ہوتے ہیں۔سیاسی اثر و رسوخ کی مداخلت بھی نسبتاََ زیادہ ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ یہ دیہات شہری آبادی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ایسے گاؤں کی اہمیت کو عبداللہ حسین نے یوں بیان کیا ہے:

 ”ظفر کا گاؤں اس ”درمیانی علاقے “ کا گاؤں تھا۔یہ ایک چھوٹے شہر کے قریب اور جرنیلی سڑک کے کنارے واقع تھا ۔ایسے دیہات کا ماحول عموماًدور دراز کے گاؤں کی نسبت مختلف ہوتا ہے۔ان لوگوں کے روز مرہ کاروبار میں شہر کا دخل بہت  زیادہ  ہوتا ہے اس لیے یہاں کا عام کسان قدرے خوش حال اور شہری تہذیب سے  قریب ہوتا ہے ۔سیاسی طور پر بھی یہ دیہات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، چنانچہ اکثر یہاں سکول اور ڈسپنسریاں قائم شدہ ملتی ہیں۔“(۸)

              گاؤں کے ہرے بھرے کھیتوں کی بہ نسبت شہروں کی فضا گھٹی گھٹی اور آلودہ ہے۔یہ فضا ذہنی ،نفسیاتی اور جسمانی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔دیہات میں جس طرح کی فطرت کے حسن کی جھلک ملتی ہیں وہ شہر میں نہیں اور جو سہولتیں شہر میں میسر ہیں وہ دیہات میں نہیں۔ایک اعتبار سے شہری زندگی بہتر ہے تودوسرے پہلوسے دیہات کی زندگی پسند کیے جانے کے لائق ہے۔دیہات میں دن کو چہل پہل رہتی ہے۔سارے لوگ اپنے کاموں میں مشغول اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔شام ہوتے ہی دیہاتوں میں خاموشی اورویرانی کی فضا چھا جاتی ہے۔اکثر لوگ اپنے گھروں میں مقیدہوجاتے ہیں ۔چند چوپال میں فصلوں اور دوسرے معاملات پر بات چیت کرتے نظر آتے ہیں۔شہروں میں معاملہ برعکس ہوتا ہے ۔ رات کو بھی شہر بارونق ہوتے ہیں ۔بازاروں میں رنگارنگی کی کیفیت ہوتی ہے۔لوگوں کا رحجان تفریح گاہوں اور فوڈ سٹریٹ کی طرف ہوتا ہے۔ عبداللہ حسین نے ناولٹ ”رات “میں شہر کی شام کی رونق کا تذکر ہ کچھ اس انداز میں کیا ہے:


 ”اس شہر کی شام ہمیشہ اس کے دل کو بڑی اچھی لگی تھی۔یہ ماضی کی ان لمبی لمبی ،ہولے ہولے رنگ بدلنے والی شاموں کی طرح کی شام نہ تھی ۔یہاں جب تک سورج غروب نہ ہوتا تھا دن بڑا کھلا اور روشن کھڑا رہتا تھا،اور جوں ہی سورج ڈوبتا تھا ایک عجیب و غریب ،ناقابل بیان قسم کا رنگ ۔۔۔ گلابی اور سرخ اور آتشی اور نیلی نیلی لہروں والا کاسنی ۔۔۔یک بیک سارے آسمان پر پھیل جاتا تھا اور رات صرف چندمنٹ دور ہوتی تھی۔ان چند منٹوں میں شہر کی ساری ابلتی ہوئی آبادی کی حرکت تھم جاتی تھی(یا کہ صر ف تھمتی ہوئی محسوس ہوتی تھی؟)اور سڑکوں کے کنارے بجلی کے بلبوں کی قطاریں دم بھر میں جل اٹھتی تھیں اور موٹر گاڑیوں کی بتیاں جلنے اور بجھنے لگتی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر بھر کا رنگ وروپ بدل جاتا تھا،یہاں تک کہ لوگوں کی آوازوں میں اور ان کی چال ڈھال میں اور ٹریفک کے شور تک میں غروب سے پہلے اور غروب کے بعدکا فرق محسوس کیا جا سکتا تھا۔“(۹)

اس اقتبا س میں مصنف نے شہر کی متحرک شام کی عکاسی کی ہے۔دن اور رات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سرگرمیاں بھی ہر لحظہ بدلتی رہتی ہیں۔
عبداللہ حسین نے دیہات کو موضوع بناتے ہوئے ماحول اور مسائل کو توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں واقعات ،کرداروں ،مکالموں اور منظر نگاری سے ایسا ماحول تعمیر کرتے ہیں کہ آنکھوں کے سامنے ایک دیہات کی تصویر بن جاتی ہے۔عبد اللہ حسین جزئیات نگاری کا احاطہ کرنا بھی خوب جانتے ہیں۔محمد عاصم بٹ کہتے ہیں:

 ”عبداللہ حسین کے فکشن کی ایک نہایت اہم خصوصیت ان کی جزئیات نگاری ہے وہ حقیقیت کو جزئیات کے واسطے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔چاہے کرداروں کی تشکیل ہو یا منظر کی، یا کوئی واقعہ بیان کیا جا رہا ہو، وہ بہت محنت کے ساتھ جزئیات کی مدد سے اسے صفحے پر یوں زندہ کر دیتے ہیں کہ قاری خود کو اسی صورتِ حال میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے۔“(۱۰)

انھوں نے کہیں شعوری تو کہیں لاشعوری طور پر وطن عزیز کے دیہاتوں کے مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ دیہات میں غربت اور غم روزگار ارزاں ہوتا ہے۔ طبقاتی تقسیم فراواں ہوتی ہے۔ طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں تعلیم برائےنام ہوتی ہے۔ضعیف الاعتقادی عام ہوتی ہے۔
عبداللہ حسین نے ناولٹ ”قید “میں شاہ جی کے روپ میں ایک معترضہ اور ضعیفِ الاعتقاد منظر کی عکاسی یوں کی ہے:

 ”شاہ جی اپنی گدی پہ تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ان کے آگے ایک ننگا بدن قالین پر لمبا چت پڑا تھا۔اس بدن کے پاؤں دروازے کے رُخ اور سر دوسری جانب تھا۔نو عمری کے اعتماد کی گو حد مقرر نہیں ہوتی ،پھر بھی بچے نے از حد حیرت کے ساتھ آنکھیں کھول کھول کر اس منظر کو دیکھا اور اسے پہچاننے کی کوشش کی ۔اسے نظر آیا کہ وہ الف ننگا بدن ،جس کے تلوں پہ جوتا تک نہ تھا،ایک عورت کا جسم تھا جس پہ سر سے لے کر پاؤں تک شاہ جی اپنا ایک ہاتھ نہایت آہستگی سے پھیرے جا رہے تھے۔عورت کی آنکھیں بند تھیں اور وہ بے حرکت وہاں لیٹی تھی،گویا بیہوش پڑی ہو۔مگر شاہ جی کے ہاتھ میں خدا جانے کوئی تیل لگا تھا یا کیا تھا،کہ اس جسم کے اعضا ءچمکدار چکنی مٹی کے ایسے ڈلوں کی مانند دکھائی دے رہے تھے جو ہل کا تیشہ لگ لگ کے کٹ چکے ہوں اور گو ل اور نوک دار اور ہموار شکلوں میں شاہ جی کے ہاتھ سے اُبل اُبل کر نکلے پڑتے تھے۔“(۱۱)

یہاں مصنف نے ہمارے سماجی اور اخلاقی رویے پر سخت تنقیدی انداز بیان اختیار کیا ہے۔گاؤں کے لوگ اپنے مسائل کا حل،بیماریوں کا علاج تعویذ گنڈوں میں سمجھتے ہیں۔جب بھی کوئی مشکل پیش آئے یا بیماری میں مبتلا ہوں تو بجائے ڈاکٹروں کے پاس جانے کے پیروں کا رُخ کرتے ہیں۔ان سے اپنی مرادیں بر لانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔اُن سے دعائیں کراتے ہیں۔منتیں مانتے ہیں۔تعویز دھاگے لیتے ہیں۔شہروں اور دیہاتوں دونوں جگہ پر پیر پرستی اور مزار پرستی پائی جاتی ہے۔غریب اور متمول افراد جعلی پیروں فقیروں اور مزاروں پر خدمت کے طور پر نذرانے پیش کرتے رہتے ہیں۔جس سے متولی دربار اور گدی نشین عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال کو عبداللہ حسین نے یوں بیان کیا ہے:

”چوہدری برکت علی کی پہلی شادی اپنے چچا کے گھر ہوئی تھی۔اُن کی بیوی عمر میں ان سے کئی سال بڑی تھی۔اس شادی سے انہیں اولاد حاصل نہ ہوئی۔آدمی نہایت شریف الطبع تھے،کئی برس تک صبر و شکر سے انتظار کرتے رہے،دور دور تک پہنچ کر دعائیں کروائیں،تعویز گنڈے کئے ،منتیں مانیں ،چڑھاوے چڑھائے ،مگر کامیابی نہیں ہوئی۔“(۱۲)

”قید“ میں پیری مریدی کا ایک مزید منظر نامہ ملاحظہ ہو :


”اپنے ذاتی ڈیرے کے قیام کے ساتھ ہی اس کے عوامل میں وسعت آنے لگی۔اب محض دم پھونک کی بجائے تعویز دھاگے کا استعمال بھی جاری ہو گیا۔جوڑوں کے دردوں کے لیے کلائی اور ٹخنے پر باندھنے کو دھاگا،سِل اور دق کے مرض کے لیے چاندی کا کڑا ،نظر بد اورجن کے سائے سے نکلنے کے واسطے تعویز،بد روح سے بچاؤ کی خاطر عمل ۔پھر فال کا نکا لنا ،مقدمے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے دُعا مع تعویز ،محبوب کو زیر کرنے کے لیے ورد ۔اس کے بعد مثبت کی بجائے منفی حصول ِخاطر ،یعنی دشمن کو تباہ کرنے کے لیے گنڈے وغیرہ کی تجویز ۔ان چیزوں کے ساتھ نذر نیاز کی قیمت میں اضافہ ناگزیر تھا۔چنانچہ جیسے لنگر کے بعد جنس کی بوریاں وارد ہوئی تھیں،اب ان کے پیچھے کپڑے لتے ،ریشم کی چادریں ،برتن ،گھریلو سامان یعنی میزیں کرسیاں ،رنگین پلنگ ،نِواڑ ،گاؤ تکیے ،دریاں ،قالین اور آخر میں پیسوں کی رقمیں آنے لگیں ۔کسی نے بڑے کمرے کی چھت کے اوپر ایک بانس گاڑ کر اس کے سرے پر سبز رنگ کا جھنڈا باندھ دیا ،جو اس مقام کے تقدس کا اشارہ بن گیا اس طرح کرامت علی شاہ کے ڈیرے کا قیام عمل میں آیا ۔“(۱۳)

              جعلی پیروں اور عاملوں کا اثر صر ف دیہاتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ شہر بھی اس کی زد میں ہیں۔جب کسی عامل با با کی شہرت شہروں تک جا پہنچتی ہے تو یہ بھی دیہات چھوڑ کر شہروں میں جا بستے ہیں۔وہاں ان کا کاروبار زیادہ چمکنے لگتا ہے۔حلقہ ارادت بڑھ جاتا ہے۔پیر کی خوب کمائی ہوتی ہے۔تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ مردو زن پیر صاحب کی ولایت میں آجاتے ہیں۔”قید “کا درج ذیل اقتباس اس ضمن میں کافی اہمیت کا حامل ہے:


 ”پیر کرامت علی کی شہرت دیہاتوں سے نکل کر شہروں ، اور شہروں سے بڑے شہروں،حتٰی کہ صوبے کے ایک بڑے حصے تک پھیل گئی۔دور دور کے  شہروں  سے  لوگ ، خاص طور پر عورتیں  ،پڑھی لکھی اور فیشن ایبل عورتیں اولاد کی خواہش لے کر آنے لگیں۔عورتیں رات بھر ڈیرے پہ قیام کرتیں ،استخارے کا عمل کرواتیں،پیسے اور زیورات کا چڑھاوا کرتیں اور اگلے روز دل کی تمنا پوری ہونے پر واپس لوٹ جاتیں۔“(۱۴)

یہاں شہریوں کی ضعیف الاعتقادی بھی واضح طور پر سامنے آتی ہےاور ثابت یہ ہوتا ہے کہ گمراہی صرف دیہاتوں تک محدود نہیں ،شہروں میں بھی تاریک راہوں پر چلنے والے موجود ہیں۔شاید فریب پسندی، فطرتِ انسانی کا بنیادی تقاضا ہے۔محمد عاصم بٹ ”قید “ کی کہانی میں پیری مریدی کے حوالے سے یوں رقم طراز ہیں:


 ”عبداللہ حسین کے دوسرے سبھی ناولوں کی نسبت قید کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں انھوں نے بہت کھلے انداز میں ہمارے سماج میں موجود پیری فقیری کے انسٹی ٹیوشن کو ہدف تنقید بنایا ہے اور اسے بیورو کریسی ، فوج اور سیاست جیسے اداروں سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ کیسے یہ سبھی اقتدار کی خواہش میں کام کرنے والے ادارے  ایک دوسرے سے ملی بھگت کرتے ہیں اور عوام سے دھوکہ دہی کی بنیاد پر قائم ہیں اور لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔“(۱۵)

ناولٹ ”قید“ کے بارے میں ڈاکٹر ممتاز احمد خان رقم طراز ہیں:

”اس مختصر ناول کا تھیم یا مرکزی خیال پیری مریدی اور اس کا پس منظر ہے۔ انھو ں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں پیری کا سلسلہ بڑے پر اسرار انداز سے شروع ہوتا ہے۔ عام لوگ چوں کہ ضعف الاعتقاد ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان میں موجود روحانی شخصیت ان کے مسائل حل کر دے، مثلاََ اولاد کا ہونا، مخالفین کا خاتمہ ، مقدمہ میں جیت وغیرہ وغیرہ۔یہ لوگ اس ضیعف الاعتقادی کی بنا پر مال مال ہو جاتے ہیں اورگدی نشینی کا سلسلہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ اسمبلیوں کے ممبران، فوجی لوگوں اور بااثر جاگیر داروں اور جرام پیشہ لوگوں  کو  اپنے  دائرہ  اثر میں  لے  آتے  ہیں اور خود بھی جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ روحانی شخصیت کے بجائے مادیت پرست اور اسلامی شعائر کی مخالف سمت میں چلنے والے لوگ ہوتے ہیں۔“(۱۶)

              گاؤں میں حصولِ تعلیم کے حوالے سے دو مختلف رویے نظر آتے ہیں۔کہیں والدین کو بچے کو تعلیم دلوانے کا شوق ہوتاہے تو کہیں خود بچے کو تعلیم حاصل کرنے کی تمنا ہوتی ہے۔
ایک اقتباس ملاحظہ ہو:


 ”کرامت علی کا جی کالج کی پڑھائی کی جانب راغب ہوا۔ چوہدری برکت علی مُصرِ تھے کہ کرامت علی گاؤں میں رہے اور کاشت کاری میں ان کے ساتھ شریک ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بیٹے کے دو بازو ان کے ساتھ آ شامل ہوں تو وہ مزید ایک مربع ٹھیکے کی زمین اپنی کھیتی میں رکھ سکتے ہیں۔ مگر کرامت علی کو اعلیٰ تعلیم کا شوق چرایا ہوا تھا۔ اس کے سامنے باپ کی ایک نہ چلی ۔ چناں چہ کرامت علی نے اسلامیہ انٹر کالج میں جو ان کے گاؤں سے نو میل کے فاصلے پر واقع تھا ، داخلہ لے لیا اور روزانہ سائیکل پر آنا جانا شروع کر دیا۔“(۱۷)

یہاں عبداللہ حسین نے کاشت کار کے بیٹے کے تعلیمی شوق کو نمایاں کیا ہے۔ گاؤں کےکسان آخر تک اس خواہش میں رہتے ہیں کہ اُس کی اولاد کاشت کاری میں اُن کا ہاتھ بٹائیں ۔سرکاری ملازمت ہونے کے باوجود وہ کاشت کاری کو ترجیح دیتے ہیں۔لیکن ملازمت اور کاشت کاری دونوں ساتھ ساتھ بھی چلتے رہتے ہیں۔زمین دار کی خواہش کو عبداللہ حسین نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

”چوہدری برکت علی کو،گاؤں کے دیگر لوگوں کی مانند کچھ مایوسی ہوئی کہ بیٹے نے سرکاری وردی اُتار پھینکی ہے ۔مگر انہیں اس بات سے سہارا ملا کہ شاید کرامت علی اب کاشت کاری کی جانب راغب ہو جائے ۔وہ اب عمر رسید ہ ہو  چکے  تھے اور کھیتی باڑی ان کے بس  کا کام نہیں  رہا  تھا۔آخری داموں پہ بھی انھوں نے اس امید کو ہاتھ سے نہ چھوڑا کہ ان کا بیٹا اس کام کو جاری رکھے گا اور گھرانے کی روزی کا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھائے گا۔“(۱۸)

یہاں مصنف نے کسان کی مایوسی کے ساتھ ساتھ امید کی جھلک بھی دکھائی ہے کہ بیٹے نے اگر سرکاری ملازمت چھوڑ دی ہے تو اپنی کھیتی باڑی سنبھال کر روزی کمائے گا۔کسان کے مثبت اور امید افزا طرزِ فکرکی یہاں عکاسی کی گئی ہے۔
گاؤں اور شہروں میں معاملاتِ دل مختلف انداز میں طے پاتے ہیں۔شہروں میں اہلِ دل کو پارکوں اور ریستورانوں کی سہولت میسر ہے جب کہ گاؤں میں مقامِ ملاقات کھیت یا ویرانے ہوتے ہیں۔گاؤں میں پردہ داری کا اہتمام زیادہ ہوتا ہے جب کہ شہروں میں بے باکی پائی جاتی ہے۔ دیہی جوڑے کی ملاقات کا ایک منظر ”قید “میں کچھ یوں ہے:


 ”نسرین نقاب نہ پہنتی تھی،بلکہ گاؤں کے رواج کے مطابق ایک بڑی سی چادر اوڑھے رہتی تھی۔چادر کی اوٹ سے نسرین نے جو اپنی گرم گرم آنکھوں کی نظر پھینکی تو سلامت علی کے دل میں محبت کا جادو جاگ اٹھا تھا۔معاملہ یہاں تک پہنچا کہ چند ہفتوں کے اندر اکیلے میں ان کی پہلی ملاقات ہو گئی۔ملاقاتوں کا سلسلہ چند مہینوں تک چلتا رہا۔وہ اکثر رات کے وقت رکھوال کے باہر ایک ویرا ن کنوئیں پہ ایک دوسرے سے ملتے۔رات کے کھانے کے بعد جب پیر صاحب حجرے میں تشریف لے جا چکے ہوتے،سلامت علی سائیکل پر سوار ہو کر رکھوال کی شوٹ لگاتا اور ویران کنوئیں پہ پہنچ جاتا۔نسرین یا تو وہاں پہلے سے موجود ہوتی ،یا کچھ دیر بعد آجاتی ۔وہاں پہ وہ دو دو گھنٹے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے بیٹھے رہتے۔“(۱۹)

              گاؤں میں کھیت فطری اورغیر فطری کاموں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔قد آور فصلیں ان کاموں کے لیے زیادہ ممد ثابت ہوتی ہیں۔ڈاکو اور چور یہاں چھپتے ہیں۔ اہلِ ہوس کو یہیں پناہ ملتی ہے۔قتل کی وارداتیں بھی سرانجام پاتی ہیں۔مجبور اور مظلوم عورتوں کو یہاں دردِ زِہ سے چھٹکارہ بھی ملتا ہے۔ جس کا ذکر ”قید “میں عبداللہ حسین نے یوں کیا ہے:


”جس روز میرے درد شروع ہوئے میں تانگے پہ بیٹھ کے رکھوال کو آئی۔شام کا وقت تھا۔گاؤں کے باہر تانگے کو چھوڑا اور کماد کے کھیت میں گھس گئی۔کھیت میں داخل ہوتے ہی میرا پانی چھوٹ گیا۔رات کے کسی وقت وہیں پہ میں نے مویشیوں کی طرح کانپ کانپ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے بچے کو جنم دیا۔“(۲۰)

مصنف نے رضیہ سلطانہ کے کردار کے ذریعے ایک غلط کاری کے انجام کا واقعہ پیش کر کے سماج پر گہری تنقید کی ہے۔”قید“ میں عبداللہ حسین ہمیں عورت کو ایک طاقت ور روپ میں بھی متعارف کرواتے ہیں۔ جو عورت سماج کی اقدار کے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت رکھتی ہے ۔ قدامت پرستی کو بدلنے کی خواہش کرتی ہے۔ دیہات میں مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی تنگ نظری اور جہالت بھی اس ناولٹ کے موضوعات ہیں۔ عبداللہ حسین نے خیر و شر قدامت پرستی اور روشن خیالی کی جنگ کو رضیہ سلطانہ اور اس کے مقابلے میں کرداروں کی مدد سے دکھایا ہے۔یہ عورت بلندآواز میں مردانہ سماج کو للکارتی بھی ہے اور بے حرمتی پر ماتم کناں بھی ہوتی ہے۔
گاؤں کے منظر نامے ، زمین داری، کسانوں کی پسماندہ زندگی ، دیہی زندگی کی دل کشی، سخت کوشی اورمخصوص رسم ورواج،یہ سب کچھ عبداللہ حسین کی تحریروں کا حصہ ہے۔اس کے علاوہ شہر میں آکر پڑھنے والے امیر لڑکے جن مشاغل سے لطف اندوز ہوتے ہیں، عبداللہ حسین نے ان کو بھی بیان کیا ہے۔”نشیب “میں دیہاتوں سے شہر میں آئے ہوئے زمین داروں کے لڑکوں کی مصروفیات کی عکاسی یوں کی گئی ہے:


 ”کالج میں پہنچ کر میں قدرتی طور پر ایک ایسے گروپ میں شامل ہو گیا جو زیادہ تر آس پاس کے دیہات سے آئے ہوئے زمین داروں کے لڑکوں کا گروپ تھا۔ان لڑکوں کو تعلیم سے کچھ سروکار نہ تھا۔انہیں پتا تھا کہ آخر کار زندگی میں زمین دار کی جانب لوٹنا ہے اور جسے زمین داری کی فارغ اور پرکشش زندگی میسر ہو وہ تعلیم اور نوکریوں کے چکر میں کیوں پڑے۔چنانچہ یہ لوگ یہاں پر چند سال کے لیے شہری طالب علمی کی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی غرض سے آتے تھے اور کالج میں انھیں کھیل،اتھلیٹس ،الیکشن اور جتھے بندیوں کی حد تک دلچسپی ہوتی تھی۔“(۲۱)

یہاں مصنف نے زمین داروں کی اولاد کی ”غیر نصابی“سرگرمیوں کو بیان کیا ہے۔ان کی سرگرمیوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کے ہاں تعلیم ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔
دیہی سماج میں پولیس اور محکمہ مال کو بہت وقعت حاصل ہوتی ہے۔دیہاتی ان کے سامنے دم نہیں مارتے۔ایک پولیس والا پورے دیہات کو ہانک لیتا ہے۔عبداللہ حسین نے اپنے ناولٹوں میں استحصالی قوتوں کی کبھی جاگیرداری کے روپ میں جلوہ گری دکھائی ہے تو کبھی سیاست دانوں اور کبھی سفاک پولیس کی صورت میں۔دیہاتیوں کا پیشہ چو ں کہ کاشت کاری ہوتا ہے۔اس لیے محکمہ مال سے ان کا بہت واسطہ رہتا ہے۔اِن دو محکموں میں اگر کسی دیہاتی کی ملازمت ہو تو اس کا برادری میں رتبہ بڑھ جاتا ہے۔سب لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔علاقے میں اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔کئی محکموں میں اس کی رسائی ہوتی ہے۔اس حوالے سے ”نشیب“  میں یوں بات کی گئی ہے:

”دیہات کے علاقوں میں صرف دو سرکاری شعبوں کی وقعت ہوتی ہے: محکمہ مال یا پھر نظم و ضبط سے تعلق رکھنے والے محکمے ، اس گاؤں سے دو اور آدمی ایسے نکلے تھے جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے تھے مگر وہ ریلوے  اور کسٹم کے محکموں میں تھے۔چنانچہ ان کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی۔سوائے اس کے کہ گاؤں میں ان کے پکے مکان تھے۔“(۲۲)

یہاں مصنف نے دیہات میں دو سرکاری شعبوں کی اہمیت کا تذکرہ کیا ہےجو حقیقت پر مبنی ہے۔عبداللہ حسین دیہات نگار کی حیثیت سےمحمد علی صدیقی کے مطابق یوں جلوہ گر ہیں:


”عبداللہ حسین کے دیہی کردار ڈھلے ڈھلائے اور مفروضہ کے حامل ہیں۔وہ بالکل آزاد ہیں، خود روحیاتیات کی طرح۔عبداللہ حسین کی شکل میں پنجاب کے دیہات کو ایسا فن کار ملا ہے جو حقیقت کی وہ تہیں بھی دیکھ لیتا ہے جو اوسط درجہ کے فن کاروں کے لیے پردہ اخفا میں رہتی ہیں۔“(۲۳)

              یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اعلیٰ سرکاری افسران کا تعلق اکثر دیہاتوں یا چھوٹے شہروں سے ہوتا ہے۔ دیہی اور چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ذہن زرخیز اور پوشیدہ صلاحیتوں سے مالا مال ہوتا ہے۔اگر ان کو خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع میسر آجائیں تو یہ لوگ ترقی کرتے کرتے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں۔بڑے شہر بھی ذہین اور فطین لوگوں سے خالی نہیں ہیں۔یہاں بھی اعلیٰ صلاحیتوں کے لوگ موجود ہیں۔شہریوںکا رحجان تجارت کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔جب کہ دیہاتی سرکاری نوکریوں کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں۔عبداللہ حسین نے ”نشیب“میں اس رحجان کی نشان دہی یوں کی ہے:


”میرے دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے ملک میں جو لوگ سرکاری نوکری ،تجارت ،تعلیم یا فنون کے میدان میں نام پیدا کرتے ہیں ان کی اکثریت چھوٹے شہروں اور ان کے قرب و جوار کے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے اور اقلیت بڑے بڑے شہروں یا اندرون ملک کے دیہات سے آتی ہے۔( سوائے سیاست اور فوج کے شعبے کے،جن لیڈر اور اعلیٰ افسر عموماََ اندرون  ملک کے دیہات  سے یا پھر  بڑے شہروں  سے نکلتے  ہیں)۔ گو ماحول کے اعتبار سے یہ دونوں علاقے ایک دوسرے کے متضاد ہیں ، مگر غالباََ ان میں کچھ ایسے اجزا مشترکہ پائے جاتے ہیں جو قدرتی طور پر ایک بے قلب طرزِ زندگی کو موافق آتے ہیں۔“(۲۴)

یہاں مصنف نے دیہاتوں اور شہروں کی مشترکہ خاصیتوں کا ذکر کیا ہےکہ متضاد تہذیبی عوامل رکھنے کے باوجود کہیں کہیں یہ ایک دوسرے سے مطابقت قائم کر لیتے ہیں۔اور یہی مطابقت تہذیبی اشترک کا باعث بنتی ہے۔شہریوں کی ذہانت اور مہارت پر ابنِ خلدون نے یوں تبصرہ کیا ہے:

”آپ شہری کو ذکاوت و ذہانت سے زیادہ آراستہ اور ہوشیاری و چالاکی سے بھرپور پائیں گے۔۔۔اس کی وجہ یہی ہے کہ شہری علوم و فنون اور آداب کی مہارتوں میں کامل ہے اور شہری احوال وعادی باتوں میں مہذب ہے۔ جن سے دیہاتی قطعی نا آشنا ہے۔ پھر جب شہری صنعتوں سے اور ان میں مہارتوں سے  بھر پور ہے اور بہترین طریقے سے ان کی تعلیم بھی دے سکتا ہے تو ہر وہ شخص جو ن مہارتوں سے محروم ہے یہی گمان کرت ہے کہ س میں یہ کمالت کمال عقل کی وجہ سے پیدا ہوئے اور دیہاتیو  کے نفوس پیدائشی طور پر اس شہری کے نفس تک پہننے سے قاصر ہیں۔ شہریوں کو یہی تو برتری حاصل ہے کہ ان پر صنعتوں اور تعلیم کی رونق جھلکتی ہے۔“(۲۵)

              عبداللہ حسین نے اپنے مخصوص بیانیے اور فن کے ساتھ شہری ودیہی زندگی کی خوب صورت پیش کش کی ہے۔ انھوں نے چھوٹے کینوس پر فنی و فکری بلندی کا احساس دلایا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں بدلتی ہوئی اقدار، تہذیب کی شکست و ریخت اور تصادم کی صورت ِ حال کو حقیقی رنگ میں بیان کیا ہے۔عبداللہ حسین کی ناولٹ نگاری دیہی اور شہری زندگی کی عکاسی کے حوالے سے قابلِ ذکر حیثیت رکھتی ہے۔ ان کے ناولٹ میں دیہی تہذیب کا حسن اور شہری تمدن کی نزاکتوں کی مؤثر تصویریں ملتی ہیں۔انھوں نےاخلاقی زوال اور ضعیف الاعتقادی کے پہلو بھی نمایاں کیے ہیں۔عبداللہ حسین  نے دیہی و شہری زندگی کے تہذیبی نشیب و فراز کو فن کاری سے پیش کیا ہے۔ دیہی و شہری زندگی کے گوناگوں مسائل حقیقت نگاری سے پیش کیے ہیں۔ لوگوں کے مشاغل، معمولات اور عقائد و رحجانات کی تصویر کشی کی ہے۔ گویا دیہی و شہری معاشرت کی مکمل آئینہ داری ان کے ہاں موجود ہے۔ عبداللہ حسین نے دیہی زندگی کے رسموں، رواجوں اور رویوں کی عمدہ عکاسی کی ہے۔ انہوں نے شہری حیات کی راحتوں اور رنگینیوں کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ان کے ناولٹوں میں کرداروں کی تشکیل سے محسوس ہوتا ہےکہ انھوں نے مختلف  طبقوں کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔اور شہر کی گہما گہمی میں کھوئی ہوئی زندگی اور دوسری طرف سہولیات سے محروم دیہی زندگی کی پیش کش اپنے مخصوص انداز میں کی ہے۔ معاشرے کی کج رویوں اور سماجی و معاشی ناہمواریوں پر گہرے نشتر بھی پیوست نظر آتے ہیں۔ان کے ناولٹ پڑھنے سے تہذیبی و تمدنی رنگا رنگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ حسین کے ہاں دونوں معاشروں کی حقیقت پسندانہ تصویروں کی جھلک موجود ہے۔

حوالہ جات
۱۔           عبداللہ حسین،نشیب ،مشمولہ،  نشیب، لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص:۱۶۴۔
۲۔          عبداللہ حسین،واپسی کا سفر ،مشمولہ، نشیب، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص:۳۰۳۔
۳۔          عبدالرحمٰن ابنِ خلدون،علامہ،مقدمہ ابن خلدون،حصہ اول،مترجم، راغب رحمانی،مولانا، کراچی: نفیس اکیڈمی،۲۰۰۱ء،ص:۲۳۳۔
۴۔          عبداللہ حسین، نشیب،مشمولہ، نشیب، لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص:۱۷۰۔
۵۔          عبداللہ حسین،رات ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز ،۱۹۹۷ء،ص:۷۳۔
۶۔          عبدالرحمٰن ابنِ خلدون،علامہ،مقدمہ ابن خلدون، حصہ دوم،مترجم، راغب رحمانی،مولانا، کراچی: نفیس اکیڈمی،۲۰۰۱ء،ص:۱۹۸۔
۷۔         عبداللہ حسین،رات ،لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز ،۱۹۹۷ء،ص:۱۰۔
۸۔          عبداللہ حسین، نشیب،مشمولہ، نشیب، لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص:۱۹۵۔
۹۔          عبداللہ حسین ،رات ،لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ،۱۹۹۷ء،ص:۵۷۔
۱۰۔         محمد عاصم بٹ، عبداللہ حسین:شخصیت اور فن، اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان: ۲۰۰۸ء، ص:۱۷۔
۱۱۔         عبداللہ حسین ،قید ،لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز ،۲۰۱۵ء،ص:۲۱۔
۱۲۔         عبداللہ حسین ،قید ،لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز ،۲۰۱۵ء،ص:۲۵۔
۱۳۔        ایضاََ،ص:۴۸۔
۱۴۔        ایضاََ،ص:۵۳۔
۱۵۔        محمد عاصم بٹ،عبداللہ حسین: شخصیت اور فن،اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان ، ۲۰۰۸ء،ص:۹۷۔
۱۶۔          ممتاز احمد خان، ڈاکٹر، آزادی کے بعد اُردو ناول،کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۲۰۰۸ء،ص:۱۶۲۔
۱۷۔        عبداللہ حسین ،قید ،لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز ،۲۰۱۵ء،ص:۲۸۔
۱۸۔        ایضاََ،ص:۴۲۔
۱۹۔         ایضاََ،ص:۶۲۔
۲۰۔        ایضاََ،ص:۹۴۔
۲۱۔         عبداللہ حسین، نشیب،مشمولہ، نشیب، لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص: ۱۶۴۔
۲۲۔        ایضاََ، ص:۱۹۶۔
۲۳۔       محمد علی صدیقی ، مشمولہ ،عبداللہ حسین: شخصیت اور فن،محمد عاصم بٹ، اسلام آباد: اکادمی ادبیاتِ پاکستان، ۲۰۰۸ء،ص: ۱۲۲۔
۲۴۔       عبداللہ حسین، نشیب،مشمولہ ،نشیب، لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۶ء،ص :۱۹۴۔
۲۵۔        عبدالرحمٰن ابنِ خلدون، علامہ،مقدمہ ابن خلدون، حصہ دوم، مترجم، راغب رحمانی،مولانا، کراچی: نفیس اکیڈمی،۲۰۰۱ء،ص:۲۷۰۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com