اشفاق احمد کے مجموعے ’’اور ڈرامے‘‘ میں تصادم کی صورتیں
نازیہ سحر،پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو ، اسلامیہ کالج یونیورسٹی  پشاور
ڈاکٹر محمد عباس ،پروفیسر ،شعبہ اردو، اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور

ABSTRACT :


Ashfaq Ahmad is a legendary and multidimensional personality of Urdu literature. He is one among those who have flourished many fields of literature. Drama is his prominent and outstanding contribution to Urdu literature as he has portrayed real life issues in those dramas. This article is an attempt to identify different forms of dramatic conflicts in his book “Aur Dramey”.

اشفاق احمد کی ہمہ جہت تخلیقی زندگی کا اہم حوالہ ڈراما ہے۔ انہوں نے اس فن کو فکری وتہذیبی شعور سے آشنا کر کے اسے حقیقی زندگی کا ترجمان بنا دیا ۔ ان کا زیر بحث ڈرامائی مجموعہ ’’اور ڈرامے‘‘ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ پچیس ڈراموں پر مشتمل یہ سیریز کتابی صورت میں شائع ہونے سے قبل پاکستان ٹیلی وژن پر نشر ہوئی۔ اس تصنیف کو اشفاق احمد  کی فکری پختگی کی یادگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ یہ فکری وموضوعاتی لحاظ سے ان کے گذشتہ ڈراموں سے منفرد ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:


’’(اور) سے میری مراد مزید نہ تھی بلکہ (طرزِ نو)تھی۔ ان ڈراموں میں کچھ اور ہی بات کا ڈول ڈالا گیا ہے اور طے شدہ جانی پہچانی روش سے ہٹ کر بات کی گئی ہے۔ (اور ڈرامے) ہر ہفتے ایک نیا موضوع لے کر ٹی۔ وی سکرین پر جلوہ گر ہوتے رہے اور ناظرین کو شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ شدت سے اس لیے کہ نت نئے موضوعات ناظرین کی توجہ اپنی جانب کھینچتے بھی تھے اور انہیں غصہ بھی دلاتے تھے کہ ایک ہیشخص اتنے سارے رنگارنگ موضوعات لے کرہم پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔(۱)

چونکہ یہ سیریز روایتی اور پامال موضوعات سے فکری بغاوت کی طرف پیش قدمی کی مثال ہے۔ اس لیے اس میں کشمکش اور تصادم کی متنوع صورتیں دکھائی گئی ہیں۔ اس مجموعے کا پہلا ڈراما ’’بندرجاتی‘‘  جذبات اور حقائق کی کشاکش کو بیان کرتا ہے۔ (ہریالی بوا) کا کردار مہر ومحبت اور خلوص کی علامت ہے جس نے برسوں رحیم کے خاندان کی خدمت کی ہے۔ لیکن گھر میں چوری کی واردات کے بعد انہیں موردالزام ٹھہرا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ یوں شک اور یقین کا تصادم برسوں کے مضبوط رشتوں میں دراڈ پیدا کر دیتاہے۔
اس مجموعے کا دوسرا ڈراما ’’سردی اور سارو‘‘ ہے۔ اس کا مرکزی کردار (زبیر)  دقیانوسی سوچ  اور روایات سے بغاوت کرنے والا کردار ہے جس کے باطن کی پاکیزگی سازشوں کے گند ے تالاب میں بھی اسے پاک رکھتی ہے۔ مجبوریوں میں گھری ہوئی (مس نینا ڈیوڈ) سے اس کی ہمدردی سماجیات اور اخلاقیات سے متصادم ہو کر کہانی میں معنویت پیدا کرتی ہے۔ دونوں کو بدنام کرنے کے لیے دفتر کے ملازمین شہر کی دیواروں پر ایسے پوسٹرز آویزاں کرتے ہیں:


’’مس نینا ڈیوڈ کے گھر کا دروازہ ہر رات کیوں کھلا رہتا ہے؟ زبیر صاحب کی کوٹھی کا چوکیدار اچانک کیوں برطرف کر دیا گیا؟۔۔۔۔۔۔۔ زبیر صاحب کا وی نک سویئٹر کس نے بُن کے دیا؟ عید کے روز ٹریفک سارجنٹ نے کس کا چالان کیا تھا؟ کیا فرم کا (ڈکٹا فون) ذاتی معاشقے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے؟‘‘۔(۲)

یوں خیر وشر کے تصادم میں نینا حالات سے دلبرداشتہ ہو کر گوشہ نشین ہو جاتی ہے۔
’’قصائی اور مہنگائی‘‘ معاشی قونین سے متصادم قصائی کی کہانی ہے۔ یہ ڈراما اس معاشرتی تلخ رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ جس کے تحت اقدار وروایات کو مادیت پر قربان کیاجاتا ہے۔ امیر سمدھی سے برابر کی سطح پر مقابلے کے لیے ایمان دار اور اصول پسند قصائی پر اس قدر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ بے ایمانی اور ناجائز منافع خوری پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ یوں اخلاقی تنزلی کا شکار ہو کر وہ اپنی ذات سے برسرِ پیکار ہوجاتا ہے۔
’’سگنل اور سنگل بینڈ‘‘ اس کہانی کے مرکزی کردار ڈاکٹر محبوب کی زندگی میں جذبات اور حقائق کا تصادم اس وقت شروع ہوتا ہے جب کلینک میں زاہدہ رفیق نامی خاتون آتی ہے۔ ڈاکٹر محبوب اپنی ڈھلتی عمر، جوان بچوں اور وفا شعار بیوی کو نظر انداز کر کے زاہدہ سے دوسری شادی کا ارادہ کرتا ہے۔ اس موقع پر محبوب کا خانساماں (شمس) روحانی مرشد کے روپ میں آکر دینی، اخلاقی اور سماجی حوالے سے اس کی جذباتی تطہیر کرتا ہے ۔ یوں اس کے ہیجان خیز جذبات کا رخ روحانیت کی طرف مڑ جاتا ہے:


’’شمس: بدقسمت مرد ہے کہ وہ خدا کی ذات سے وابستہ ہونے کی بجائے، ہر قسم کے خوف اور حزن سے آزادہونے کی بجائے ہمیشہ عورت کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اپنے خالق کی بجائے تخلیق کی طرف لپکتا ہے۔ لیکن یقین کیجئے ڈاکٹر صاحب ہر تخلیق بے رحم ہوتی ہے‘‘۔(۳)

’’آوارہ اور آواری‘‘ ایسے کرداروں کی الجھنوں پر مبنی ڈراما ہے جو اپنے مقدر سے نبرد آزما ہیں۔ خاندانی دشمنیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل متعلقہ خاندانوں کی نسلوں کو برباد کر دیتے ہیں۔ نوری کے والدین کا انتقامی رویہ اور گھر کے ماحول کا تناؤ اسے گھر سے باہر آوارگی میں دل بہلانے پر مجبور کرتا ہے۔ جس کا بھیانک نتیجہ اپنے دشمنوں کے خاندان میں پوشیدہ نکاح اور اولاد کی پیدائش کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس کہانی میں گردشِ ایام سے نبرد آزما کردار زندگی کی گھتیوں کو سلجھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
’’فرمان اور بردار‘‘ اس مجموعے کا سبب سے پرتاثیر اور فکر انگیز ڈراما ہے۔ اس کا مرکزی کردار (سرفراز) سی ایس ایس میں کامیابی کے بعد والدین، خاندان ور برادری کی خواہشات اور توقعات کے برعکس اپنی نئی منزل کا تعین کرتا ہے۔ وہ سول سروس کی بجائے خود کو جامعہ نوریہ فضیلیہ میں دینی علم کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یوں نظریاتی اور مذہبی تصادم کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن سرفراز کی استقامت حق کی فتح کے طور پر سامنے آتی ہے۔
’’درد اور درماں‘‘ کے بارے میں اشفاق احمد کہتے ہیں:


’’اس سلسلے کا پہلا ڈراما (درد اور درمان) اردو پریس کی گرفت میں تو نہ آیا ۔ البتہ انگریزی اخباروں نے اس کے موضوع پر خصوصی توجہ دی۔ خاص طور پر (پاکستان ٹائمز) کے نقاد نے اس کی تعریف کی کہ اپنے قومی، ملی اور ملکی عارضوں کا علاج ہمیں باہر سے نہیں ملے گا اور اپنی بیماریوں، بے چاگیوں اور کوتاہیوں کی طرف ہمیں خود ہی توجہ دینا پڑے گی اور ان کا درمان آپ ہی کو کرنا ہو گا‘‘۔(۴)

’’سپین اور اباسین‘‘ میں حبِ وطن اور حبِ زر کے تصادم کو معنی خیز انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ سربلند خان تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اور ہجرت کے فسادات کا عینی گواہ ہے۔ملک سے والہانہ محبت کے جذبے سے سرشار اس شخص کی حقیقت کہانی میں یوں آشکار ہوتی ہے کہ  بظاہر فرشتہ صفت شخص بلیک مارکیٹنگ سے مال بناتا ہے۔باپ کا مکروہ چہرہ دیکھ لینے کے بعد ستارہ ان سے متنفر ہوجاتی ہے ۔ یوں فرض اور محبت کا تصادم   نئی نسل کو ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے پر عزم بنا دیتا ہے۔
تصوف، روحانیت اور عرفانِ ذات اشفاق احمد کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ’’سائیں اور سکائی ٹرسٹ‘‘ میں انہوں نے روحانیت کی طاقت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ڈرامے میں دو متوازی کہانیاں چلتی ہیں۔ دونوں میں تصادم کی داخلی صورتیں اجاگر کی گئی ہیں۔ مسنر وحید اپنی ذہنی تندرست بیٹی کو صرف اس لیے نفسیاتی بیمار قرار دیتی ہے کہ وہ بگڑے ہوئے امیر زادیوں جیسی نہیں۔ جبکہ دوسری طرف ذہنی تناؤ کا شکار زیبا تمام علاج معالجوں کے بعد بھی بیمار رہتی ہے۔ وہ اپنے نفس کی کئی الجھنوں اور بچپن کی محرومیوں سے متصادم ہے۔ اپنی زندگے سے مایوس زیبا سائیں کی نصیحت سن کر زندگی کی نئی سطح پر آجاتی ہے۔


’’سائیں: ہر وقت اپنی غلطیاں پکڑتی رہا کرو۔ ایک ایک کر کے اپنے وجود کے کرتے سے جوئیں نکالتی رہا کرو۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھنے والا آدمی دنیا میں سب سے زیادہ مصروف رہتا ہے‘‘۔(۵)

’’احساس اور کمتری‘‘ نظریاتی تصادم کا حامل ڈراما ہے جس میں مغربی تہذیب کی چکا چوند سے مرعوب خاندان کی کہانی سنائی گئی ہے۔ یہ لوگ اپنے ہونے والے امریکہ پلٹ داماد سے اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ مشرق ہر لحاظ سے  کمتر ہے۔ یہ کبھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہیں ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف داماد مغرب کا کھوکھلا روپ دیکھ چکنے کے بعد اس سے متنفر ہو چکا ہے۔ اس مرحلے پر فکری تصادم معاشرت، معیشت، سماجیات اور روحانیات سے ہوتے ہوئے مایوس کن صورت اختیار کرتا ہے۔ جب داماد اس خاندان کی بیٹی سے شادی سے انکار کر کے مغربی شریکِ حیات کے انتخاب کا ارادہ کرتا ہے۔
مجموعی  طور پر دیکھا جائے تو اشفاق احمد کی یہ ڈرامائی سیریز ناظرین اور قارئین کو عصری شعور اور تفریح دینے میں کامیاب رہی ۔ ہر کہانی میں پیش کردہ الجھنیں اور تضادات ڈرامے کے عمل کو کامیابی سے آگے بڑھاتے ہیں۔ کسی بھی تخلیق کار کے لیے عوامی ذوق اور پسند کو نظر انداز کر کے نئے رجحان کی طرف بڑھنا حوصلہ طلب عمل ہے ۔ کیونکہ یہاں تماشائیوں کی سطح پر آنے کی بجائے انہیں اپنی سطح پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان ڈراموں کا مجموعی تاثر روایتی ڈراموں کے ناظرین اور قارئین کو نئے ذوق سے آشنا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ’’اور ڈرامے‘‘ کو بعض حلقوں نے ’’بور ڈرامے‘‘ کا نام بھی دیا اور تنقید وتنقیص کا طویل سلسلہ بھی چلتا رہا لیکن یہ بھی اشفاق احمد کی کامیابی تھی کہ ان کے ڈراموں نے لوگوں کو غور وفکر اور تجزیاتی تنقید کے مواقع فراہم کئے۔

حوالہ جات
۱۔           اشفاق  احمد  ، اورڈرامے ، ۲۰۰۵ء،  ص ، ۱۱۴۸، ۱۴۹،
۲۔          اشفاق احمد ،  اور ڈرامے ، ص ۱۰۳،
۳۔          ایضاً ،۲۰۴،
۴۔          ایضا، ۱۱۴۸،
۵۔          ایضاً، ۱۰۵۸،

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com