اُردو کی سیاسی آپ بیتیوں میں انکشافات: تحقیق و تنقید
محمدسلیم پی ایچ۔ڈی  ریسرچ سکالر
پروفیسرڈاکٹرسلمان علی صدر شعبہ اُردوپشاوریونیورسٹی

Abstract:
An autobiography is a true and faithful account by an author of all the events and experiences that he or she may have gone through in his or her lifetime. But it is , and should not be, limited to the external events or incidents one has witnessed or been part of. Rather, it should be a candid expression of the writer's internal feelings and emotions, experiences, worldview, and outlook on the various aspects of life.Interestingly, most of the autobiographies in Urdu are of political nature. But whatever the motive behind penning these books may have been, the fact remains that they have proved to be reliable and faithful records changes and developments in our literature, language, history, politics, society, and a score of other walks of life. Political autobiographies and memoirs are also important for the wealth of disclosures and revelations they have. Almost all political writers have revealed truths about themselves, the state, governments, and their contemporaries, access to which would otherwise have been impossible. Seen from this aspect, the importance of political autobiographies increases manifold.
Key Words: autobiography (آپ بیتی) , revelations (انکشافات) , truth (سچائی) , eye-opening revelations (چشم کشا واقعہ) , politician (سیاست دان) , literary rivalries (ادبی معرکے) , access (رسائی) , society (معاشرہ)
آپ بیتی اپنے آپ پر گزرے ہوئے حالات و واقعات کو لکھنے کا نام ہے۔یہ و ہ سچی اور حقیقی کہانی ہوتی ہے جو خود لکھی گئی ہو۔آپ بیتی محض احوال و واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات کہنے اور لکھنے والے کی داخلی کیفیتوں، دلی احساسات، شخصی و عملی تجربوں اور بحیثیت مجموعی زندگی کے بارے میں اس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتی ہے۔آپ بیتی وہ صنف ادب ہےجس میں لوگ ادب کے دیگراصناف یا اقسام سےبڑھ کر دلچسپی لیتے ہیں۔آپ بیتی میں چونکہ پڑھنے والے کوایک کتاب کے اندر ادب،تاریخ ،معاشرت،سیاست،تہذیب،سماج غرض ہر موضوع پرمواد ملتا ہے اس لیےآپ بیتی ہرقسم کے قاری کی پسندیدہ کتاب بن جاتی ہے۔اُردو آپ بیتیوں کی ایک بڑی تعداد سیاسی آپ بیتیوں   پر    مشتمل        ہے                                               
( حیرت کی بات یہ ہے کہ شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ سیاست دانوں نے اپنی آپ بیتیاں زیادہ زور و شور سے لکھی ہیں)۔ ان آپ بیتیوں کی شکل میں ہمارا ادب، زبان، تاریخ، تہذیب، معاشرتی انقلابات اور اس قسم کے بیسیوں چیزیں محفوظ ہو گئی ہیں۔یادرہےکہ سیاسی آپ بیتیاں سیاسی انقلابات ،معاشرت ،سماج ،نفسیات،تاریخ اورسیاست کے ساتھ ساتھ اپنی  انکشافات کی وجہ سے بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ہم اس مضمون میں اُن انکشافات کا مطالعہ کریں گےجوہمارے سیاست دانوں نے اپنی آپ بیتیوں میں اپنی ذات ، ریاست، حکمرانوں، ریاستی اداروں،ہم عصروں اور اپنے عہد کے تاریخی واقعات کے حوالے سے کیے ہیں ۔یہاں دس سیاسی آپ بیتیوں “پردےسےپارلیمنٹ تک”،“ہاںمیں باغی ہوں”،“فرزندپاکستان”،“میری تنہاپراز”،“بڑی جیل سےچھوٹی جیل تک”،“ایون اقتدارکےمشاہدات”،“چاہ یوسف سے صدا”،“سچ تویہ ہے”،“اورلائن کٹ گئی”،“اوربجلی کٹ گئی”کوانکشافات کےحوالےسےتحقیق اور تنقید کا موضوع بنایا گیا ہے۔
پردے سے پارلیمنٹ تک’’ معروف خاتون سیاست دان بیگم شائستہ اکرام اللہ کی آپ بیتی ہے جو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اس آپ بیتی کی ادب ،تاریخ اور سیاست سے ہٹ کر سماجی و معاشرتی لحاظ سے بھی کافی اہمیت  ہے۔ آپ نے اپنے عہد کےا ونچے گھرانوں کے رسوم و رواج، ثقافت اور تقریبات کے بارے میں کھل کر گفتگو کی ہے۔ اْس زمانے میں بھی سول سروسز اور اعلیٰ افسران کے گھرانوں کی عورتوں میں فیشن اور آزاد خیالی معیوب بات نہیں تھی۔ انگریزوں کے ساتھ ساتھ مقامی افسران بھی کلبوں اور سرکٹ ہاؤسز کے رکن ہوتے تھے جن میں برسرِ عام رقص و سرور کی محفلیں سجتی تھیں۔ گارڈن پارٹیاں منانے کا عام رواج تھا جن میں مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ہوتا تھا۔ چنانچہ اس قسم کی محفلوں کے بارے میں بیگم شائستہ اکرام اللہ انکشاف کرتی ہیں۔
دہلی میں سماجی تقریبات منعقد ہوتی رہتی تھیں۔ ان میں گارڈن پارٹیاں زیادہ اہم تھیں۔ ان میں عام طور پر مخصوص رینک کے افسران اور ان کی بیگمات کو مدعو کیا جاتاتھا۔ جب میرے شوہر کا عہدہ بڑھ گیا تو میں نے بھی ایک گارڈن پارٹی میں شرکت کی۔ مردوں اور عورتوں میں رقص کے مقابلے اور دیگر خرافات دیکھ کر مجھے بڑا عجیب لگا اور میں ساری شام پریشان رہی۔ (۱)
جاوید ہاشمی کی آپ بیتی ‘‘ہاں! میں باغی ہوں’’ کو خصوصی شہرت ملی۔ جاوید ہاشمی وہ سیاست دان ہیں جن کی سچائی، وضع داری اور جمہوریت کے لیے دی جانے والی قربانیوں کی اپنے پرائے سب اعتراف کرتے ہیں۔ جاوید ہاشمی پچھلے کئی برس سے ملکی سیاست میں ہیں۔ اس دوران وہ کئی سرد و گرم سے گزرے ۔ اس نے بڑی سچائی سے اپنی کہانی بیان کی ہے۔ مصنف نے اپنی آپ بیتی میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ کئی عجیب اور دلچسپ انکشافات بھی کیے ہیں۔ ۱۹۷۱ء کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ آج تک سانحہ مشرقی پاکستان کی مختلف  وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ تاہم جاوید ہاشمی اس عظیم حادثے کے بارے میں کچھ اور انکشاف کرتا ہے۔ ( جاوید ہاشمی اکتوبر ۱۹۷۱ء کو پنجاب یونیورسٹی کی طرف سےمشرقی پاکستان جانے والے آخری وفد میں شامل تھے۔)۔ جاوید ہاشمی کا یہ چشم کشا واقعہ پڑھنے کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب خود بخود سمجھ میں آجاتے ہیں:
ہم ڈھاکہ کے نواح میں دریائے شتولاک کو کشتی سے عبور کر رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ گدھ اور کتے ایک انسانی لاش کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ میں نے ایک افسر سے پوچھا تو وہ ہنسا اور کہا کہ یہ ایک چالاک بنگالی تھا۔ ہمارے بیٹ مین نے کہا کہ کئی دن ہوئے کوئی بنگالی نہیں مارا۔ یہ کشتی پر جا رہا تھا ہم نے پکارا تو اس نے کشتی تیز کردی اور بھاگنا چاہا۔ میں نے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ خیر آپ اس قصے کو چھوڑیں ہم کافی دیر سے کھانے پر آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ بنگالنیں بہت اچھا کھانا بناتی ہیں اور ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننے کے لیے اب مجھے کسی دانشور، کسی کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔ (۲)
پاکستانی قوم میں یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جب بھی ملک پر سخت حالات آتے ہیں تو ساری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے۔ ۱۹۷۱ء میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی مغربی پاکستان کے عوام اپنی فوج کے ساتھ کھڑی تھی ۔ جاوید ہاشمی اپنے فوجی جوانوں کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے ۔ غریب عوام نے کس طرح اس مشکل گھڑی میں حکومت کی جانی ا ور مالی مدد کی اس کا انکشاف جاوید ہاشمی نے اس واقعے کے ذریعے کیا ہے:
۱۹۷۱ء کی جنگ میں ، میں نے لاہور کی گلی کوچوں میں کشکول گدائی لے کر دفاعی فنڈز اکٹھا کیا۔ میں زندگی میں دو واقعات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ جب ہم شاعر مزدور احسان دانش کے پاس پہنچے تو انہوں نے گھر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر کہا کہ یہاں سے ہر چیز اُٹھا  لو کیونکہ مجھے وطن نے پکارا ہے اور میں حاضر ہوں۔ دوسرا واقعہ اس بازار میں پیش آیا جب ایک نحیف و بیمار بڑھیا نے اپنے تمام زیورات ہمارے سامنے ڈھیر کر دئیے اور آخر میں اپنے ہاتھوں کی انگوٹھیاں کشکول میں پھینکتے ہوئے کہا کہ وطن ہے تو سب کچھ ہے۔ میں اس بڑھیا کو طوائف کا نام نہیں دے سکتا۔ (۳)
فرزند پاکستان ”مشہورسیاست دان شیخ رشید احمد کی سرگزشت ہے جو ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے اور ایک معمولی سیاسی کارکن سے بڑی سطح کے عوامی لیڈر بنے۔ فرزند پاکستان ادب عالیہ کا کوئی بڑا شاہکار نہیں تاہم یہ ہمارےادب میں ایک قابل قدر اضافہ ضرور ہے۔ اس لیے اسے شوق سے پڑھا گیا۔ انیس سو اسی، انیس سو نوے اور دو ہزار کی  تین دہائیاں سیاسی،معاشی، معاشرتی اور کئی لحاظ سے ایک پر آشوب زمانہ تھا۔ شیخ رشید احمد اس دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس نے جو لکھا ذاتی تجربے اور مشاہدے سے لکھا۔ وہ ملکی سیاست،کئی اہم واقعات ،سیاسی پارٹیوں،سیاست دانوں اوراُن کی بدعنوانیوں کے بارے میں کئی انکشافات کرتے ہیں۔
نوے کی دہائی کی سیاست کو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی ذات سے بے حد نقصان پہنچا۔ وہ کسی بھی منتخب وزیر اعظم کو آزادانہ کام کرنے نہیں دیتے تھے۔ غلام اسحاق خان کی شخصیت کیا تھی اورمنتخب وزیر اعظم کو وہ کس طرح پریشان کیے رکھتے تھے اس بارے میں شیخ رشید احمد یہ انکشاف کرتے ہیں:
وہ (غلام اسحاق خان) بہت لمبی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ انہوں نے محدود آدمیوں پر مشتمل اپنا انفارمیشن سیل بنا رکھا تھا۔ بیروکریٹ اس کی طرف دیکھتے تھے۔ پنجابیوں کے بارے میں اتنی اچھی رائے نہ رکھتے تھے۔ کابینہ کے پہلے ہی دن کم و بیش ایک گھنٹہ سے زائد انہوں نے وزراء کا حلف لینے سے اس وقت تک انکار کیے رکھا جب تک نواز شریف اس کے ایک آدمی انور سیف اللہ کو وزیر مملکت بنانےکےلیےراضی نہ ہوئے۔ (۴)
  عام طورپریہ کہاجاتاہےکہ فوجی سربراہ ہمیشہ سے منتخب حکومتوں بلکہ وزرائےاعظم تک کو خاطر میں نہیں لاتے اس بات میں کتنی صداقت ہے ملاحظہ ہو شیخ رشید کا  انکشاف:
ایک دن میں چونک گیا جب سرکاری اعشائیہ میں بریگیڈئیر سعید ملڑی سیکرٹری نے آصف نواز(اس وقت کے آرمی چیف) سے کہا کہ سرکل ملاقات کا آپ کا ٹائم ساڑھے گیارہ بجے کا ہے۔ اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ وزیر اعظم سے کہہ دو کہ میرے پاس ٹائم نہیں۔ میں نے پرسوں ٹائم مانگا تھا تو ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ (۵)
"میری تنہا پروا ز"ہمارے صوبے کے مشہور صنعتی اور سیاسی خاندان سیف اللہ خاندان کی ایک جرأت مند خاتون کلثوم سیف اللہ خان کی زندگی کے نشیب و فراز اور کامیابیوں اور ناکامیوں کی داستان ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں ایک تنہا عورت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ ‘‘میری تنہا پرواز’’ اس کی عمدہ مثال ہے۔ جو لوگ زندگی میں ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خصوصاً وہ خواتین جو حالات اور معاشرتی دباؤ کا رونا روتی ہیں وہ مذکورہ آپ بیتی سےبہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ کلثوم سیف اللہ نے اپنی ذات، سیاست دانوں ، حکرانوں،ریاست اوراپنےاردگرد لوگوں کے حوالے سے کئی دلچسپ انکشافات کیےہیں۔ ایک جگہ بڑی جرأت کے ساتھ لکھتی ہیں کہ ہمارے اکثر سیاسی رہنما  بغیر“ پیئے’’ تقریر نہیں کر سکتے۔ جب وہ پی کر ٹْن ہو جاتے ہیں تو پھر روانی سے بول سکتے ہیں ۔ اپنے ایک غیر ملکی دورے کے دوران ہمارے صوبے کے ممتاز سیاست دان خان عبدالقیوم خان کی اس لت کے متعلق یہ انکشاف کرتی ہیں:
چین کے دورے کے دوران ہم جہاں جاتے ہمارے وفد کے لیڈر خان عبدالقیوم خان بڑی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریر کرتے تھے۔ میں ان کو احترام سے لالہ کہا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے انہیں پشتو میں کہا کہ لالہ! آپ ایسی دھواں دار تقریر کیسے کرتے ہیں؟ تو مسکرا کر بولے میں نہیں دوائی بولتی ہے۔ در اصل خان صاحب کو مقامی طور پر بنی ایک خاص شراب بہت پسند تھی جس کو اس نے دوائی کا نام دے رکھا تھا۔ اس کو پی لیتے تو بس جوش میں آجاتے۔ ( ۶)
ذوالفقار علی بھٹو ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ وہ لوگوں کے دل میں گھر کرنا خوب جانتے تھے تاہم وہ ایک جاگیر دارانہ پس منظر اورنوابانہ مزاج بھی رکھتے تھے۔ آکسفورڈ کے گریجویٹ ہونے کے باوجود وہ اپنے کلچر کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔ کلثوم سیف اللہ اس پہلو سے ان کی انتہائی ذاتی زندگی کے بارے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کرتی ہیں:
بھٹو صاحب بلا شبہ نصرت بھٹو کو پسند کرتے تھے اور اسی پسند کے نتیجے میں ان دونوں کی شادی ہوئی۔ لیکن بھٹو صاحب کے اندر جو جاگیر دار چھپا ہوا تھا وہ اس کے اثر سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو نے خود مجھے ایک بار بتایا تھا کہ جب تک وہ ایک بیٹے (مرتضیٰ بھٹو) کی ماں نہیں بنی۔ بھٹو صاحب نے ان کو شادی کی انگوٹھی نہیں پہنائی تھی۔ گویا اس وقت تک انہیں بھٹو خاندان کی بہو کا درجہ نہیں مل سکا تھا۔ (۷)
راجہ انور کا تعلق سیاست دانوں کے اس قبیل سے ہے جو اوائل جوانی  یعنی طالب علمی کے زمانے میں میدانِ سیاست میں آئے۔ ان کے سامنے پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل ہوئی . یوں وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل تھی۔ آپ مارشل لاؤں کے زمانے میں کئی بار جیل گئے۔ جیل میں اپنی آپ بیتی ‘‘ بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک’’ کے نام سے لکھی۔ اس آپ بیتی میں راجہ انور کے معمولات، شب و روز، نجی زندگی، خاندان ، فکری اُٹھان، سیاسی سرگرمیوں اور زندگی کے بارے میں ان کی نکتہ نظر کی بڑی حد تک وضاحت ہوتی ہے۔ راجہ انور ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے لکھاری بھی ہیں۔ اس نے اپنی کہانی خوبصورت  اسلوب میں بیان کی ہے۔ یہ آپ بیتی  سیاسیات کے علاوہ ادبی لحاظ سے بھی اہم ہے۔ اپنی آپ بیتی میں مصنف نے جیل خانوں کے بارے میں کئی حیران کن انکشافات کرکے کہا ہے کہ جیلوں میں باقاعدہ گداگری، جیب تراشی اور ہم جنس پرستی ہوتی ہے۔ صدر ایوب خان نے نئے دارالخلافہ اسلام آباد بنانے کامنصوبہ بنایا تو کہتے ہیں کہ اپنے ہی لوگوں کو بڑے بڑے ٹھیکے دئیے گئے۔ (جنرل ایوب کو تاریخ شاید ہی کبھی معاف کر سکے کہ انہوں نے نہ صرف آئین اور جمہوریت کو برباد کیا بلکہ لوگوں کے منہ کو بد عنوانی کا خون بھی پہلی بار ان ہی کے دور میں لگا)۔ تاہم بعد کی حکومتوں نے ان میں بعض ٹھیکہ داروں کو جیل میں ڈالا۔ ایسے ہی ایک ٹھیکہ دار کے حوالے سے اس دور کی کرپشن کا انکشاف راجہ انور ان الفاظ میں کرتے ہیں:
سی۔ ڈی۔ اے کے کئی ملازمین اور ٹھیکہ دار کروڑوں روپے خورد برد کرنے کے الزامات میں پس دیوارِ زنداں استراحت فرما رہے تھے۔ ان سے گفتگو کرکے پتہ چلا کہ تعمیراتی کاموں کا ٹھیکہ اس خوش نصیب کو ملتا تھا جسے دربار شاہی کی آشیرباد حاصل ہو۔ ایک بہت بڑے ٹھیکیدار میر حسن اسی کیس کی بنیاد پر آج کل جرم رفتہ کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ میر حسن نے ایک دن بڑے فخر سے بتایا کہ ۱۹۶۴ء میں ہم نے صدر ایوب کی صدارتی مہم پر آٹھ لاکھ روپیہ خرچ کیا تھا۔ (۸)
مصطفیٰ زیدی اُردو کے مشہور شاعر اور گوجرانوالہ کے سابق ڈپٹی کمشنر تھے۔ ۱۹۷۰ء میں وہ ہوٹل کے ایک کمرے میں مردہ پائے گئے۔ ان کی موت کا معمہ آج تک حل نہ ہو سکا۔ تاہم راجہ انور نے مصطفیٰ زیدی کی موت کے بارے میں یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ ان کی موت کہ وجہ محبت میں ناکامی تھی۔ وہ گوجرانوالہ کی ایک خوبرو لڑکی شہناز گل( جس کا مصطفیٰ زیدی نے اپنی نظموں میں باقاعدہ نام لے کر ذکر کیا ہے) کی محبت میں گرفتار تھے۔ ان کے قتل کے شبے میں پولیس نے شہناز گل کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں قید کر دیا تھا۔
قیدی اکثر افواہیں اُڑاتے کہ شہناز گل ہماری جیل میں آ رہی ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اگر وہ آ بھی جائے تو وہ اسے دیکھ نہ پائیں گے۔ اکثر قیدی اس افواہ کے سچے ہونے کی آرزو کرتے بار بار سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے کہ کیا واقعی شہناز گل راولپنڈی جیل میں آ رہی ہیں؟(۹)
گوہر ایوب صدر ایوب کے فرزند اور ملک کے ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ وہ پہلے اپنے والد صدر ایوب کے اے۔ ڈی۔ سی اور بعد میں کئی اہم وزارتوں پر فائز رہے۔ اس لیے گوہر ایوب کی آپ بیتی ‘‘ایوانِ اقتدار کے مشاہدات’’ کوایک اہم سیاسی خودنوشت سمجھاجاتا ہے جس میں مصنف نے اپنی کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے کئی اہم واقعات کے بارے میں لب کشائی کی ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جو انقلابات آئے اور جونئی تاریخ رقم ہوئی، کو گوہر ایوب خان نے اپنی آپ بیتی میں بیان کیا ہے۔ گوہر ایوب خان نے کئی اہم انکشافات بھی کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت سے ۱۹۵۸ء کے مارشل لا لگانے تک کا زمانہ سیاسی لحاظ سے ابتر، پریشان کن اور طوائف الملوکی کا زمانہ تھا۔ صدر سکندر مرزا برائے نام صدر تھے۔ اختیارات کا اصل مرکز آرمی چیف ایوب خان کی ذات تھی۔ لیکن ان سے بے اختیار صدر مملکت سکندر مرزا بھی برداشت نہیں ہو رہے تھے۔ گوہر ایوب نے انکشاف کیا کہ  آدھی رات کو نیند سے جگا کر سکندر مرزا سے استعفیٰ لیا گیا۔ وہ اس چشم دید واقعے کو یوں بیان کرتے ہیں:
بیگم ناہید سکندر نے جب یہ بات سنی کہ تین جنرل ڈریسنگ روم میں ان کے شوہر کا انتظار کر رہے ہیں تو وہ ہسٹریائی انداز میں چلانے لگی۔ صدر بیڈ روم سے ڈریسنگ گاؤن پہنے نمودار ہوئے۔ ان کا دایاں ہاتھ گاؤن کی جیب میں تھا اور انہوں نے ہاتھ میں اشاریہ پچیس بور چھوٹا سا بریٹا پستول پکڑ رکھا تھا۔ (۱۰)
۲۵ مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان نے ہندوستان کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے اور جوہری طاقت بنا۔ اس وقت کی حکومت پر باہر دنیا سے دھماکے نہ کرنے کا سخت دباؤ تھا۔ گوہر ایوب نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اسرائیلی طیارے بھارت کے ایک ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ اور وہ چاغی پر حملہ کرکے دھماکوں کی سائیٹ کو اُڑانا چاہتے تھے۔ (گوہر ایوب چونکہ اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ تھے اس لیے وہ تقریباً تمام حالات و واقعات کے چشم دید گواہ ہیں)۔ اگر پاکستان کو بھارتی اور اسرائیلی مشترکہ مہم جوئی کی بروقت اطلاع نہ ملتی تو صورتِ حال مختلف ہوتی۔ ملاحظہ ہو گوہر ایوب کا انکشاف:
۲۸ مئی ۱۹۹۸ء کو رات کو بارہ بج کر ۳۰ منٹ پر مجھے اپنے سیکرٹری کی ٹیلی فون کال ملی کہ بھارت اور اسرائیل چاغی میں جوہری دھماکوں کی سائیٹ پر حملے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور چنائی کے ہوائی اڈے سے یہ طیارے اُڑ کر چاغی پر حملہ کریں گے۔ (۱۱)
‘‘چاہِ یوسف سے صدا’’ پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی آپ بیتی ہے جو اس نے جیل کے زمانے میں لکھی۔ یوسف رضا گیلانی کا تعلق ملتان کے مشہور روحانی پیشواؤں کے خاندان سے ہے جو قیامِ پاکستان سے پہلے سے سیاست میں ہیں۔ علاوہ ازیں گیلانی وزارتِ عظمیٰ سمیت ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اس نے پاکستانی سیاست ، معاشرتی تبدیلیوں، اقتصادیات اور سیاسی حوادث اور ان انقلابات  کا نہ صرف قریب سے مشاہدہ کیا بلکہ اس کا حصہ بھی رہے۔ آپ کی آپ بیتی پڑھ کر ایک اہم انکشاف تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے زیادہ تر صوفی خاندان کیسے تصوف اور پیری مریدی سے سیاست میں آئے۔ وہ خاندان جو لوگوں کی فکری، روحانی، دینی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔ انہیں کب اور کیسے سیاست کا چسکا لگا؟ یوسف رضا گیلانی نے اپنی ذات کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے مشہور روحانی پیشوا اپنی پیشن گویوں کے لیے شہرت رکھنے والے پیر صاحب پگاڑو رشتے میں آپ کے خالو ہیں۔ نیز یہ کہ تمام مشہور سجادہ نشین خاندانوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ حیران کن طور پر یہی خاندان عرصۂ دراز سے سیاست میں بھی ہیں۔ (یہاں اُن لوگوں کے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے  کہ تمام سیاست دان آپس میں بھائی بندے ہیں۔ ان کی لڑائیاں محض دکھلاوہ ہے) ۔ چنانچہ یوسف گیلانی انکشاف کرتے ہیں:
پگاڑو خاندان ، لغاری خاندان، دولتانہ خاندان، گولڑہ شریف، اوچ شریف مکھڈ شریف کے ساتھ ہماری رشتہ داریاں ہیں جو اتفاق سے عرصۂ دراز سے سیاست میں ہیں۔ ( ۱۲)
یوسف رضا گیلانی نے اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ تعلیم، سیاست، کاروبار اور سرکاری عہدوں میں آجانے کے باوجود ان کے خاندانی روایات بے حد سخت ہیں۔ ان پر قدامت پسندی کا غلبہ ہے اور جدیدیت کی ہوائیں ان کی خاندان میں ابھی تک نہیں آ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں خاندان سے باہر شادی کرنے کا رواج نہیں۔ وہ یہ انکشاف بھی کرتا ہے کہ ان کا گھرانہ سنی اور شیعہ اتحاد کی ایک بڑی علامت ہے۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ ان کے والد سنی اور والدہ اہل تشیع تھیں تاہم ان کے عقائد پر شیعیت کا اثر زیادہ ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ کیسے وطنِ عزیز میں خفیہ ادرے حکومتیں بناتی اور بگاڑتی ہیں۔ (اگر چہ مذکورہ ادارے یہ بات تسلیم نہیں کرتے تاہم معاصر سیاسی آپ بیتیاں اپنے چشم کشا واقعات سے ان کا یہ دعویٰ رد کرتی ہیں)۔ یوسف رضاگیلانی خفیہ ایجنسیوں کے اس کردار کو ان الفاظ میں بے نقاب کرتے ہیں:
۱۹۹۰ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی مجھے ایک تقریب میں آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل ایک طرف لے گئے اور کہا کہ آپ کو مسلم لیگ نہیں چھوڑنی چاہیے تھی۔ کیونکہ ہم آپ کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا سوچ رہے تھے۔ مگر آپ نے جلد بازی کی اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ کی حکومت پر بد عنوانی کے کئی الزامات ہیں۔ آپ کے بُرے دن آنے والے ہیں۔ ( ۱۳)
"سچ تو یہ ہے" معروف سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت ہے جو نہ صرف پچھلے تین دہائیوں سے عملی سیاست میں متحرک ہیں بلکہ ایک عرصے سے پاکستانی سیاست کے مرکز و محور بھی ہیں۔"سچ تو یہ ہے " چوہدری شجاعت حسین کی پیدائش (۱۹۴۶ء) سے لے کر ۲۰۰۸ء تک کے عام انتخابات تک تقریباً ساٹھ سالہ زندگی پر محیط سرگزشت ہے۔ اس سرگزشت میں پاکستانی تاریخ کے اہم واقعات، سماجی و ثقافتی تبدیلیوں، اقتدار کے غلام گردشوں، بین الاقوامی سازشوں اور ملک میں ہر لمحہ بدلتی ہوئی سیاسی حالات کو خوبصورت اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ ۱۹۸۰ء سے لے کر ۲۰۱۰ء تک کی تین دہائیوں کی خصوصی تاریخی اہمیت ہے۔ جب دنیا کائناتی گاؤں (Global Village) بن گئی۔ ٹیلی فون، موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی برق رفتار ترقی نے ہمارے بنیادی اقدار کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس زمانے کے تمام باشعور لوگوں نے جن کا تعلق خوا کسی بھی طبقے سے تھا ان تبدیلیوں کو محسوس کیا اور اپنی آپ بیتیوں میں محفوظ بھی کیا جن کو مستقبل میں تاریخی اور ادبی حوالوں کی کتابوں کے طور پر پڑھا جائے گا۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی آپ بیتی میں کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ استاد دامن، (جس کا اصل نام چراغ دین تھا)  پنجابی زبان کے مقبول عوامی شاعر تھے وہ اپنی خودی ، اخلاقی بلندی اور درویشی کے لیے مشہور تھے۔ ان کی درویش صفتی کے بارے میں چوہدری شجاعت حسین یہ انکشاف کرتے ہیں:
استاد دامن بڑے درویش صفت آدمی تھے۔ ایک مرتبہ میرے والد نے ان کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لیا کہ راوی روڈ پر واقع ہماری فیکٹری کے ساتھ جو جگہ موجود ہے اس پر ان کی رہائش کے لیے دو کمرے بنا دئیے جائیں۔ لیکن جب دونوں کمرے تیار ہو گئے بلکہ سفیدی کا کام بھی مکمل ہو گیا تو استاد دامن کہنے لگے کہ مجھے تو جواہر لال نہرو نے عیش کی زندگی گزارنے کی پیش کش کی تھی اور میں نے انکار کر دیا تھا۔ میرا فیصلہ اب بھی یہی ہے کہ میں اس کٹیا میں مروں گا جہاں میں نے اپنی زندگی گزاری ہے۔ ( ۱۴)
چوہدری برادران کسی زمانے میں شریف برادران (نوازشریف اورشہبازشریف)کے قریبی ساتھی تھے۔جنہوں نے طویل عرصہ مشترکہ جدوجہد کی لیکن پھر دونوں کے راستے جدا جدا ہو گئے۔ چوہدری شجاعت نے نواز شریف کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کیا ہے جب وہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الٰہی کے پاس ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے بھاری رقم لے کر آئے تھے:
پرویز الٰہی باہر آئے تو ایک گورا چٹا کشمیری نوجوان برآمدے میں بیٹھا تھا۔ اس نے پرویز الٰہی کو اپنا ویزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ اسے اس کے والد میاں محمد شریف نے بھیجا ہے۔ وہ چوہدری ظہور الٰہی کو الیکشن مہم میں فنڈز دینا چاہتے ہیں۔ (۱۵)
ڈاکٹر عبدالقدیر کی نظر بندی، بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی قتل کیس اور لال مسجد آپریشن وہ اقدامات تھے جو پرویز مشرف کی حکومت کی جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ چوہدری شجاعت کو حکومت نے لال مسجد کے معاملے میں اپنا ترجمان بنایا تھا۔ اس واقعے پر آپ نے اپنی آپ بیتی میں بہت کھل کر لکھا ہے اور کئی انکشافات کیے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ پرویز مشرف کا یہ اقدام میڈیا کی توجہ چوہدری افتخار(پاکستان کے سابق چیف جسٹس) اور عدالتی بحران سے ہٹانے کے لیے تھا۔ وہ یہ  انکشاف بھی کرتا ہے کہ سانحہ لال مسجد میں مرنے والی بچیاں آج بھی انہیں خواب میں پریشان کرتی ہیں:
میں گھر واپس آگیا (لال مسجد کے آپریشن کے فوراً بعد) اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا ۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے کانوں میں بچوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ آج بھی جب میں اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا۔ ( ۱۶)
"اور لائن کٹ گئی "مولانا کوثر نیازی کی سیاسی روداد ہے جو اس نے ۱۹۷۷ء میں ایام اسیری میں لکھی۔ اس جزوی اور سرسری آپ بیتی کو ملک گیر شہرت ملی اور اسے بیسٹ سیلر کتاب کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ آپ بیتی اس لحاظ سے بھی خاصی اہم ہے کہ مولانا کوثر نیازی نے دیگرباتوں کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، ان کے قریبی ساتھیوں ، فوجی جرنیلوں، بیورو کریٹوں اور خود اپنے بارے میں کئی ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔ یہ وہ انکشافات اور قومی حقائق ہیں جو تاریخی کتابوں میں موجود نہیں۔ نہ کسی دیگر ذرائع سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آپ بیتیاں ادبی مرقعوں کے ساتھ ساتھ تاریخی دستاویزات کا درجہ بھی حاصل کر لیتی ہیں۔ کوثر نیازی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلا وزیر اعظم تھا جس نے وزارت اطلاعات و نشریات کو سائنسی خطوط پر استوار کرکے مخالفین کے خلاف ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ مسٹر بھٹو نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا تھابلکہ ٹی وی اداکاروں اور فلمی ستاروں کو بھی اپنے انتخابی مہم کی تشہیر کے لیے استعمال کیا تھا (آج کل مختلف سیاسی پارٹیاں گلو کاروں اور فلمی ستاروں کو اپنے جلسے جلوسوں میں لاتے ہیں اس کا آغاز بھی ذوالفقار علی بھٹو کی جدت پسند طبیعت نے کیا تھا) ۔علاوہ ازیں ہمارے ملک کے سیاست دانوں اور بڑے عہدوں پر براجمان افسروں کے بارے میں اکثر خبریں آتی ہیں کہ وہ بڑی طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں تاہم لوگ ان الزامات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ معاصر آپ بیتیاں تواتر سے یہ حقائق بیان کرتی ہیں کہ وفاقی کابینہ میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے وزراء کیوں اور کیسے ملک دشمن ایجنسیوں کے باقاعدہ تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں۔ ملاحظہ ہو مولانا کوثر نیازی کا یہ انکشاف:
وزیر اعظم (ذوالفقار علی بھٹو) نا معلوم وجوہ کی بنا پر ان (رفیع رضا)سے بد ظن تھے حتیٰ کہ کئی مرتبہ انہوں نے واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ رفیع رضا( ممبر قومی اسمبلی اور بھٹو کابینہ کے وزیرِ قانون) سی۔ آئی۔ اے کے ایجنٹ ہیں اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے متعلق امریکہ کو انہوں نے آگاہ کیا تھا۔ (۱۷)
ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کے حوالے سے مولانا کوثر نیازی نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ وہ جدید تعلیم یافتہ اور آکسفورڈ کے گریجویٹ ہونے کے باوجود پر اسرار علوم، علم نجوم، دست شناسی وغیرہ پر اندھا یقین رکھتے تھے۔ ان کے ملک سے باہر بیرونی ممالک کے بڑے بڑے نجومیوں سے تعلقات تھے۔ وہ ہر اہم موقع  یا مشکل صورتحال میں جوتشیوں کو بلاتے۔ ۷ مارچ ۱۹۷۷ء کو انتخابات کی تاریخ دینے کے بعد وہ سری لنکا گئے جہاں کے بڑے بڑے دست شناسوں اور ستارہ شناسوں سے ان کے گہرے تعلقات تھے:
وزیر اعظم انتخابات کا اعلان کرنے کے بعد سیدھے سری لنکا گئے وہاں مسز بندرانا ئیکے کے درباری نجومیوں کے سامنے ۷ مارچ کی تاریخ رکھی اور ان کے حساب لگانے کو کہا کہ اس تاریخ کو انتخابات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ (۱۸)
پاکستان کا جوہری طاقت بننا ایک معجزہ ہے۔ ساری دنیا کی نظروں سے چھپا کر اتنا بڑا کارنامہ کر دکھانا افسانہ سا لگتا ہے۔ اس افسانے کو حقیقت کا رنگ دینے کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی۔ اس سلسلے میں بھی مولانا کوثر نیازی نے چند دلچسپ انکشافات کیے ہیں۔ ہم طوالت کی خوف سے ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔
"اور بجلی کٹ گئی " مشہور سیاست دان سیدہ عابدہ حسین کی خود نوشت ہے جس میں اس نے اپنے ذاتی حالات، اہم سیاسی اور غیر سیاسی موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ (اصل آپ بیتی Power Failure کے نام سے انگریزی زبان میں پہلی بار آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپی تھی۔ اور بجلی کٹ گئی اس کا اردو ترجمہ ہے جس کو جون ۲۰۱۷ء میں الفیصل پبلشرز لاہور نے شائع کی)۔ عابدہ حسین نے ذاتی نوٹس، ڈائریوں اوراپنے دیگر  تجربات پر انحصار کرکے یہ خودنوشت ترتیب دی ہے۔ (اس آپ بیتی کوبھی دیگر سیاسی آپ بیتیوں کی طرح حوالے کے طور پر پیش کیا جائے گا)۔ مصنفہ نے اپنی کہانی  کوپیدائش (۱۹۴۶ء) سے شروع کرکے بے نظیر بھٹو کی موت (۲۰۰۸ء) تک بیان کیا ہے۔ اپنی آپ بیتی میں سیدہ عابدہ حسین نے اپنی ذات، سیاست،سیاستدانوں،حکمرانوں،قومی اداروں اور دیگرافرادکےمتعلق کئی اہم  انکشافات کیے ہیں جن میں سے چند کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔سیدہ عابدہ حسین  ۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۳ء کے عرصے میں امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہیں چنانچہ آپ نے امریکی امداد، جوہری پروگرام، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور اس قسم کے متنوع موضوعات کے بارے میں انکشافات کیے ہیں۔ عابدہ حسین کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ دیگر سیاست دانوں کی طرح بات کو گھول مول نہیں کرتیں۔ حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس میں اپنی ڈانس پارٹیوں کو بھی بیان کیا ہے۔ اس موقع پر آپ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ یورپی ممالک خصوصاً امریکہ میں سفیر کی تعیناتی کے لیے سیاسی پس منظر رکھنے کے علاوہ کچھ اور بھی چاہیے یہ ‘‘کچھ اور’’ سیدہ عابدہ حسین کی زبانی سنیے:
"انکل امجد (مصنفہ کے حقیقی ماموں) نے کہا لیکن واشنگٹن توجہ حاصل کرنے کے لیے کوئی آسان جگہ نہیں۔ آپ کو توجہ کا مرکز بننا پڑتا ہے۔ آج سے دس سال پہلے تم باآسانی توجہ حاصل کرلیتی جب تم جوان تھی۔ لیکن اب تم عمر کے پانچویں عشرے میں ہو اور موٹی ہو لہٰذا تمہیں اور حربے استعمال کرنا پڑیں گے۔" ( ۱۹)
پاکستانی وفاق کے ساتھ صوبہ بلوچستان کے تعلقات کا مسئلہ ہمیشہ سے سنگین رہا ہے۔ جو کسی بھی وقت خوفناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔ بلوچی قوم پرست رہنماؤں کو وفاق سے اکثر شکوے شکایتیں رہتی ہیں۔ مرکزی حکومتیں ان کے مسائل اور شکایتوں کو رفع کرنے کے بجائے ان پر غداری کے الزامات لگا کر فاش غلطیاں کرتی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی کا قتل اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اکبر بگٹی کے ساتھ آخری  رابطہ سیٹا لائٹ فون کےذریعے سیدہ عابدہ حسین نے کیا تھا۔  اکبربگٹی نے اپنے باغیانہ لہجے میں کیا کہا تھا اس کا انکشاف سیدہ عابدہ حسین یوں کرتی ہیں:
"میں تقریباً ۸۰ بہاریں دیکھ چکا ہوں اور اب میرے جانے کا وقت بھی ہو گیا ہے۔ آپ کی پنجابی فوج مجھے ہلاک کرنے والی ہے جس کے بعد میں آزاد بلوچستان کی روح میں تبدیل ہو جاؤں گا۔ یہ انجام میرے لیے موزوں ہوگا جس پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔" (۲۰)
سیدہ عابدہ حسین بے نظیر بھٹو کے آخری دنوں میں ان کے کافی قریب رہیں۔ آپ نے اپنی آپ بیتی میں بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری دنوں کی خلوت و جلوت کی داستانیں بیان کی ہیں۔ عورت اپنے خاوند سے وفاداری طلب کرتی ہے اور خود بھی زندگی کی آخری سانسوں تک وفادار رہنے کی کوشش کرتی ہے۔ مصنفہ نے بے نظیر بھٹو کی ایک نجی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
"اچانک انہوں (بےنظیربھٹو)نے کہا کہ کیا وہ مجھ سے ایک ذاتی سوال پوچھ سکتی ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے پوچھا کہ کیا میرے شوہر نے کبھی مجھ سے بے وفائی کی ہے؟ میں نے کہا کہ کسی بھی بیوی کی طرح مجھ پر بھی شک کے لمحات آئے لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ فخر کی وفاداری پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ اس پر بے نظیر نے ناقابل بیان اُداسی کے ساتھ کہا کہ شاید وہ مجھ جیسی خوش قسمت نہیں لیکن چونکہ وہ آصف کو تہہ دل سے چاہتی ہیں اس لیے انہیں معاف کر دیا حالانکہ انہوں نے دکھ پہنچایا تھا۔" (۲۱)
"سب سے پہلے پاکستان'' پاکستانی فوج کے سابق سپہ سالار اور صدر پرویز مشرف کی آپ بیتی ہے۔
(In the line of Fire کے نام سے انگریزی زبان میں لکھی گئی جس کا اردو ترجمہ ہدایت خویشگی نے کیا ہے) جس کو حقیقت بیانی، انکشافات اور دیگر خصوصیات کی بدولت عالمگیر شہرت ملی۔ صداقت، بیان کرنے کا انداز، واقعات کے درمیان ربط، جزئیات نگاری اور ہر واقعے کے ساتھ قلبی لگاؤ وہ خوبیاں ہیں جو اس آپ بیتی کو ممتاز بناتی ہیں۔ پرویز مشرف دیگر سیاست دانوں کی طرح غلط تاویلات پیش نہیں کرتا بلکہ ان سےز ندگی میں جو غلطیاں ہوئی ہیں ان کا برملا اعتراف بھی کرتا ہے۔ یوں تو اس آپ بیتی میں مصنف نے قدم قدم پر انکشافات کیے ہیں لیکن ہم چند ایک کو یہاں تحریر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ مشرف نے بڑی ایمانداری سے بتایا ہے کہ اس کی ماں بڑی خوش آواز تھیں اور انہیں ہارمونیم بجانے میں بھی کمال حاصل تھا۔ نیز وہ رقص بھی خوب کرتی تھیں۔ (اس قسم کی باتیں لکھنے پر ملک کے ایک بڑے حصے کی طرف سے آپ پرسخت تنقید بھی ہوئی)۔ اپنے والدین کے شوق ڈانس کو وہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
"میرے والدین کو موسیقی اور بال روم ڈانس کا بھی شوق تھا۔ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کے سلسلے میں ڈانس کا ایک مقابلہ منعقد کیا گیا جس میں ہمارے سفارتخانے کے بہت سے لوگوں نے حصہ لیا۔ اس مقابلے میں میرے والدین نے بال روم ڈانسنگ کا پہلا انعام جیتا۔" (۲۲)
پرویز مشرف نے اپنی آپ بیتی میں اپنے ہلکے پھلکے معاشقوں اور مہم جوئی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اپنی دوسری عشق کے بارے میں مشرف لکھتے ہیں:
"گارڈن روڈ پر پہنچتے ہی میں دوسرے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ وہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی ایک خوبصورت بنگالی لڑکی تھی۔ میں نے بعد میں سنا وہ بنگلہ دیش میں خوش و خرم ازدواجی زندگی گزار رہی ہے۔" (۲۳)
مشرف نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک لا ابالی نوجوان تھے۔ فوج ہی نے اسے چست  اور ذمہ دار بنایا۔ جب وہ کپتان تھے تو اپنے کمانڈنگ آفیسر کی اجازت کے بغیر چھٹی پر چلے گئے۔ جس پر وہ کورٹ مارشل سے بال بال بچے۔ فوج کے ساتھ بے پناہ اْلفت اور محبت کے باوجود وہ اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ فوج میں اونچے عہدوں پر تقرری کے لیے سفارشیں چلتی ہیں۔ نیز فوج میں بھی من پسند افراد کو نوازنے کا کلچر موجود ہے۔( ۲۴)
"نائن الیون"وہ تاریخ ہے جس نے نہ صرف پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ تاریخ کا دھارا بھی موڑ دیا۔ یہ حملہ کس نے کیا تھا اور اس کے پیچھے کس کس کی منصوبہ بندی شامل تھی؟ مشرف نے اس بارے میں حیران کن انکشافات کیے ہیں۔ مشرف کے بقول ان حملوں کی منصوبہ بندی القاعدہ کے نمبر ۳ خالد شیخ نے کی تھی جو ایک ایرانی شہری تھا اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے پڑھا تھا۔ا س نے اپنے بھتیجے رمزی یوسف کے ساتھ ۱۹۹۳ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کوبم سے اُڑانے کی کوشش بھی کی تھی۔ علاوہ ازیں نائن الیون کے بعد بھی وہ خاموش نہیں بیٹھا بلکہ یورپ کے کئی اہم عمارتوں اور انڈر گراؤنڈ ریل کے نظام میں دھماکے کرنے کے منصوبے بھی تشکیل دیتا رہا تھا۔ لیکن وہ اس سے پہلے راولپنڈی سے گرفتار ہو گیا۔ ۹ / ۱۱ کا منصوبہ کب، کس نے، کہاں اور کیسے بنایا؟ پرویز مشرف اس  بارے میں یہ انکشاف کرتے ہیں:
"نائن الیون کا منصوبہ صرف اُسامہ بن لادن، محمد عاطف اور خالد شیخ محمد کے درمیان خفیہ رکھا گیا تھا۔ ملا عمر کو تھوڑا سا اندازہ ہو گیا تھا کہ امریکہ کی سرزمین پر کوئی بڑا آپریشن ہونے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے لیکن اس کی تفصیلات اسے معلوم نہیں تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ اس بات پر خوش نہیں تھا لیکن غالباً وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔" (۲۵)
مختصر یہ کہ سیاسی آپ بیتیاں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان  کے ذریعے ہم کسی بھی اہم قومی حادثے یا واقعے کی تہہ تک پہنچ کر ٹھیک ٹھیک نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ آپ بیتیوں کو پڑھنے کا ایک بڑافائدا یہ بھی ہے کہ ہم لکھنے والےسے محنت ،ترقی، کامیابی  اور لگن کا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ بیتیوں میں جو انکشافات کیے جاتے ہیں یا جن بڑے بڑے رازوں سے پردہ اُٹھایا جاتا ہے ان تک عام قاری کی رسائی کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں ہو تی۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو آپ بیتیوں خصوصاً سیاسی آپ بیتیوں کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔

حوالہ جات
۱۔       بیگم شائستہ اکرام اللہ، پردے سے پارلیمنٹ تک، العباس بکس پبلشرز لاہور، ص ۲۴۵
۲۔       جاوید ہاشمی، ہاں میں باغی ہوں، ساگر پبلشرز، لاہور، ۲۰۰۵، ص ۵۱
۳۔      ایضاً، ص ۲۳۹۔ ۲۴۰
۴۔      شیخ رشید احمد، فرزندِ پاکستان، رُمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز، راولپنڈی، ۲۰۱۲ء، ص ۱۶۳۔۱۶۴
۵۔       ایضاً، ص ۱۴۸
۶۔       کلثوم سیف اللہ خان، میری تنہا پرواز، علی پبلشنگ بیورو اسلام آباد، ۲۰۱۱ء، ص ۲۱۵۔۲۱۶
۷۔      ایضاً، ص ۱۹۳
۸۔      راجہ انور، بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱ء، ص ۹۹
۹۔       ایضاً، ص ۴۴  
۱۰۔      گوہر ایوب خان، ایوانِ اقتدار کے مشاہدات، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۳ء، ص ۴۶
۱۱۔      ایضاً، ص ۳۲۸
۱۲۔      یوسف رضا گیلانی، چاہِ یوسف سے صدا، نگارشات، لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۲۸۔۲۹
۱۳۔     ایضاً، ص ۱۳۴۔۱۳۵۔ چوہدری شجاعت حسین، سچ تو یہ ہے، فیروز سنز لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۶۸
۱۴۔     ایضاً، ص ۷۸
۱۵۔      ایضاً، ص ۲۹۹
۱۶۔      کوثر نیازی، اور لائن کٹ گئی، علم و عرفان پبلشرز، لاہور، ۲۰۱۵ء، ص ۱۴۰
۱۷۔     ایضاً، ص ۴۰
۱۸۔     سیدہ عابدہ حسین، اور بجلی کٹ گئی، الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب لاہور، ۲۰۱۷ء، ص ۲۹۱۔۲۹۲
۱۹۔      ایضاً، ص ۴۴۶
۲۰۔     ایضاً، ص ۴۴۲
۲۱۔      پرویز مشرف ، سب سے پہلے پاکستان، مترجم: ہدایت خویشگی، فیروز سنز لاہور، ۲۰۰۶ء، ص ۳۲
۲۲۔     ایضاً، ص ۴۴۔۴۵
۲۳۔     ایضاً، ص ۹۴۔۱۰۶
۲۴۔     ایضاً، ص ۳۰۰

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com