خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں نثری ادب کا ارتقاء
محمد  رشید ، پی ایچ   ڈی  اسکالر  ،  شعبہ اردو  جامعہ پشاور 
ڈاکٹر روبینہ شاہین ، شعبہ اردو جامعہ پشاور

Abstract:
In every era, Urdu literature has found such talented   writers who have made a significant contribution to the capital of Urdu literature .
Whether in poetry or prose, writers of Urdu literature have presented great works in both genres. Khyber Pakhtunkhwa has also been very fertile in this regard. The region has produced many poets and writers whose literary services are milestones in the history of Urdu literature. If we mention the southern Districts of Khyber pakhtunkhwa in particular, this area has also contributed a lot in producing great literary work in Urdu literature. There is a noteworthy number of many known and unknown poets and writers of Southern Districts, who created great master pieces in poetry as well as in prose. From Bayazid Ansari (Pir Roshaan) to Munir Ahmad Firdous, there are Numerous prose writers who have contributed in different genres.In this Article is about such prose writers of the Southern districts, who have presented their literary work in prose .
         
وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بایزید انصاری "روشنیہ تحریک" کے بانی  نے وادی تیراہ اور بنگش قوم کے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ایک مذہبی کتاب "خیرالبیان" ۱۵۲۱ءمیں تصنیف کی۔اس تصنیف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خیبر پختون خوا میں اردو کی اولین کتاب ہے۔کتاب کے ابتدائی حصے میں چار زبانوں اردو،عربی،فارسی اور پشتو میں مطالب و مسائل بیان کیے گئےہیں۔بقول رضا ہمدانی؛
                              "پختون خوا کے مشہورومعروف روحانی قائد اور صوفی بزرگ حضرت بایزید انصاریالمعروف"پیر روشن" کی ایک اہم تصنیف "خیرالبیان" تحریری مواد میں سر فہرست ہے۔"  (۱)  
پیر روشن کی یہ اردو تحریر جنوبی اضلاع میں اردو کی ابتدائی شکل کا مثالی نمونہ ہے۔پروفیسر سہیل احمد کے مطابق؛
"صوبہ سرحد میں اردو نثر کا جو پہلا نمونہ ملتا ہےوہ پٹھانوں کے روحانی پیشوا پیر روشان بایزید انصاری کی خیرالبیان ہے جو چار زبانوں عربی،فارسی،پشتو اور اردو [ہندی] میں لکھی گئی"۔(۲)       
   جس زمانے میں یہ کتاب لکھی گئی اس وقت اس خطے  میں پشتو زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی تو پھر پیر  روشان کو دیگر زبانوں میں کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس علاقے پر بیرونی حملہ آوروں کے حملوں اور ان پر قابض ہونے کے بعد  دیگر اقوام بھی ان علاقوں میں آباد ہو گئے۔شاید ان اقوام کی بولیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیر روشان نے دیگر زبانوں میں بھی اپنی کتاب تصنیف کیں۔
  خیرالبیان کا قلمی نسخہ جرمنی کی ایک یونیورسٹی ٹوبنجن کی  لائبریری میں موجود ہے  جبکہ ۱۹۶۷ء میں پشتو اکیڈمی پشاور کے بانی مولانا عبدالقادر نے اس کتاب کا اصل نسخہ دریافت کیا اور اس کا پشتو حصہ طبع کیا۔یہ تحریر جنوبی اضلاع میں اردو نثر کی موجودگی اور اس کی قدامت کا ثبوت دیتی ہے۔
    اس خطے نے بہت عروج و زوال دیکھے۔اس خطے میں پنپنے والی ادب بھی اس نشیب و فراز کی زد میں آئی۔یہی وجہ ہے کہ    "خیرالبیان"کی اشاعت کے کافی عرصے بعد بھی یہاں کوئی قابل ذکر ادبی کام نہیں ہوا اور اگر کہیں پر ادب تخلیق بھی ہوا تو وہ دست برد زمانہ ہوا۔جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح اس خطے میں بھی انگریزوں نے کئی اُردو سکول قائم کیے۔ان سکولوں کی بدولت یہاں پر اُردو پڑھنے اور پڑھانے کا رواج ہوا۔ان سکولوں میں پڑھانے کے لیے مقامی اور  کچھ غیر مقامی اساتذہ کا تقرر عمل میں لایا گیا۔        علاوہ ازیں سرکار نے اپنی سہولت کے پیش نظر گزیٹئیر کے نام سے کوہاٹ،بنوں اور ڈیرہ اسما عیل خان میں تاریخی کتب لکھیں۔ان کتابوں کو پھر لاہور سے شاِئع کیا گیا۔ان کتب میں اس خطے کی سماجی،ثقافتی اور مذہبی حالات کے متعلق لکھا گیا۔ساتھ ساتھ یہاں کے مشہور و معروف مقامات کا ذکر اور معروف خاندانوں کے متعلق معلومات شامل ہیں۔
   دریں اثنا اردو شاعری مشاعروں اور مجالس کے ذریعے ارتقائی منازل طے کرتی رہی اور نثر کی ترقی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔کیونکہ نثر کو نہ تو مجالس میں بیان کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی مشاعروں میں پڑھا جا سکتا تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ طباعت کے ذرائع بھی ناپید تھے یہی وجہ تھی  کہ اردو نثر نے اس خطے میں ارتقائی مرا حل انتہائی سست روی کے ساتھ طے کیے۔
          بیسویں صدی عیسویں میں اس خطے میں اردو نثر نے کافی رواج پایا۔اس عرصے میں اردو ناول،افسانہ،ڈراما،تنقید الغرض جملہ اصناف نثر میں کافی کچھ لکھا گیا اور اردو نثر نے کافی عروج پایا۔احمد پراچہ لکھتے ہیں کہ ؛
              "قیام پاکستان کے بعد یہاں کے ادیبوں نے اردو میں مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی اور طبع کرائیں اور                       ان مطبوعات سے اردو ادب کے ذخیرہ میں خاصا اضافہ ہواہے۔" (۳)
 جہاں تک جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے نثر نگاروں کی بات ہےتو اس خطے کے نثر نگاروں کو بھی اردو کے بہترین نثر نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔اسلامیہ کالج پشاور کے اولین فارغ التحصیل طلباء میں  لکی مروت سے تعلق رکھنے والے مظفر خان کا شمار اردو کے اچھے نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔وہ اپنے وقت کے کئی مشہور اخبارات اور رسائل میں لکھا کرتے تھے۔ان کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔موصوف  پشتو،فارسی اور اردو  نظم و نثر لکھتے تھے۔
  لکی مروت ہی سے تعلق رکھنے والے خان حبیب اللہ کو اردو اور پشتو میں لکھنے پر مکمل عبور حاصل تھا۔وہ نہ صرف اچھے لکھاری تھے بلکہ ایک اچھے سیاستدان،معروف جج اور ایوان بالا کے پہلے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ان کی تخلیقات سے ان کی ذہانت اور ذکاوَت کا اندازہ ہوتا ہے۔
   کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے جسٹس محمد رستم کیانی نے اپنی علمی و ادبی تقاریر کے ذریعے اردو نثر میں خوبصورت اضافہ کیا ۔صاحب طرز ادیب کے ساتھ ساتھ وہ ایک  اچھے مقرر بھی تھے۔انہوں نے اشاروں اور کنایوں کے ذریعے سماج کے ان تاروں کو چھیڑا جن کو ان سے پہلے کسی کو چھیڑنے کی جرات نہ ہوئی۔انہوں نے اردو ادب میں ایک صحت مندانہ تنقید کی روایت کی بنیاد ڈالی۔احمد پراچہ لکھتے ہیں؛
                      " (ان کی) تحریر میں بلا کی سادگی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس میں غضب کی نشتر  یت ملتی ہے۔"(۴)
    "افکار پریشاں" اور "اوراق پریشاں" ان کی مزاحیہ تقاریر پر مبنی دو کتابیں ،اردو مزاحیہ ادب میں ایک اچھا اضافہ ہیں۔ان کی بیشتر  تقاریر اور خطبات پر شاعرانہ رنگ غالب ہے۔ان کی زیادہ تر تقاریر اور خطبات میں طنز و مزاح کی فراوانی ہے۔
     ۱۹۱۱ ءمیں پیدا ہونے والے سرفراز خان عقاب خٹک جنوبی اضلاع  سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے بہترین محقق،شاعر،نقاد،افسانہ نگار اور ڈراما نگار تھے۔انہوں نے اردو زبان میں سینکڑوں علمی و تحقیقی مضامین اور مقالات تحریر کیے۔ان کی تحاریر اپنے وقت کے مشہور اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہیں۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ اپنے قبیلے کے تاریخی احوال پر مبنی کتاب "تاریخ خٹک"کی تصنیف  ہے۔یہ کتاب  ۱۹۶۴ء  میں شائع ہوئی۔اس کتاب کے متعلق حنیف خلیل لکھتے ہیں؛
                     "عقاب خٹک نے تاریخ خٹک لکھ کر اپنی تاریخ فہمی کا ثبوت دیا ہے،"  (۵)
    جنوبی اضلاع کے محسن غلام حیدر پراچہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ اعلی پایہ کے نثر نگار بھی تھے۔اپنے وقت کے مشہور اخبارات میں ان کے مضامین   شائع ہوتے تھے۔وہ علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ان کے مضامین نہ صرف ادبی ہوا کرتے تھے بلکہ زندگی کے مسائل کا احاطہ بھی کرتے تھے۔چھوٹے چھوٹے فقروں اور سادگی کے ساتھ وہ  اپنی منشا بیان کرتے۔۱۹۳۹ء میں انہوں نے اپنا ذاتی اخبار "ہفت روزہ ہمدم" کا اجرا کیا جس نے خطہ کوہاٹ میں نہ صرف تحریک آزادی کو قوت بخشی بلکہ ادبی شعور کو بھی اجاگر کیا۔
صحافی،خطیب اور ادیب خیر محمد جلالی کا تعلق بھی پراچہ خاندان سے تھا۔ان کے علمی و ادبی مضامین اس دور کے معروف مجلوں میں تواتر کے ساتھ شائع ہو تے  رہے۔ان کی اثر انگیز تقاریر اپنے زمانے میں کافی مشہور ہوئیں۔
   جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک اور ادیب سرور سودائی ہیں۔ان کا اصل نام غلام سرور تھا مگر ادبی حلقوں میں "سرور سودائی" کے نام سے معروف ہیں۔موصوف آج کل کوئٹہ میں مقیم ہیں اور وہاں ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔اعلی پاِئے کے ادیب اور نقاد ہیں۔ان کی تحریریں ظاہری عیوب سے پاک ہوتی ہیں۔منطقی استدلال کے ساتھ اپنی بات کو قاری تک پہنچانے کا ملکہ سودائی صاحب کو حاصل ہے۔ان کا پشتو اور اُردو کلام ملک کے مشہور اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے۔روزنامہ "زمانہ" اور  ہفت روزہ  "ہیواد" کوئٹہ میں قلمکار کے نام سے ادبی کالم لکھتے ہیں۔
اگرچہ عزیز اختروارثی بنیادی طور پر شاعر تھے مگر جنوبی خطے میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ان کی مرہون منت ہے۔
  ادبی دنیا کے قد آور شخصیات میں عزیز صاحب کا شمار ہوتا ہے۔اپنے قلم سے سالوں تک وہ دنیائے ادب کو بہرہ یاب کرتے رہے۔ اردو زبان سے جنون کی حد تک محبت تھی۔جنوبی خطے میں اردو ادب کی جو خدمت وارثی صاحب نے کی ہے ان کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ زبان میں مٹھاس اور تحریر میں بلا کی گھلاوٹ رکھتے تھے۔تراکیب کا برمحل استعمال کرتے تھے اور روزمرہ و محاورہ کا بہترین استعمال کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری بلکہ نثر میں بھی جاذبیت پیدا ہو گئی تھی۔
بنوں سے تعلق ر کھنے والے سید میر سرحدی  بنیادی طور پر پشتو زبان کے لکھاری ہیں لیکن پاکستان بننےکے بعد انہوں نے اردو ادب کو روشنی جیسا بہترین ناول دیا۔یہ ناول اگرچہ اتنا ضحیم نہیں مگر بقول وسیم گیلانی؛
                    "سرحدی صاحب کی اس تخلیق کے بارے میں میں دعوٰی کے ساتھ کہوں گا کہ ایسی تخلیق کم کم ہی منصہ شہود پر نمودار ہوتی ہے۔میرے خیال میں "روشنی" ایک ایسی تخلیق ہے کہ یہ ملک کے گھر گھر میں                        پڑھی جائے گی۔" (۶)
  تاریخی ناول پڑھنے والے محمد سعید کو بخوبی جانتے ہونگے۔ان کا تعلق خیبر پختون خوا کے جنوبی خطے سے تھا۔انہوں نے اردو ادب کو  بائیس ناول دے کر اردو کے تخلیقی سرمائے کو وسیع کر دیا۔فاتح فرانس،تیمور،القاہرہ،ہمایون،بحری عقاب،اکبر اعظم،اشبیلیہ جیسےناول اپنی مثال آپ ہیں۔ ان ناولوں میں انہوں نے اپنے اسلاف کے عروج و زوال کی داستان بیان کی ہے۔سعید صاحب وہ واحد ناول نگار ہیں جنہوں نے پلاٹ کے ساتھ ساتھ کردار نگاری اور منظر نگاری پر بھر پور توجہ دی ہے۔انہوں نے اپنے ناولوں میں مسلمانوں کی قدیم ثقافت اور تہذیب و تمدن کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے ناولوں کے کردار نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ اُن میں ایک فطری ارتقاء بھی ملتا ہے۔وہ تاریخ کو دہرا کر مسلمانوں کے دلوں میں احساس برتری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
     موّرخ،محقق اور نقاد قادرداد خان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔تاریخ گنڈاپور اور تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان ان کی تخلیقات ہیں۔غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے جس موضوع پر قلم اٹھایا ان کے ساتھ انصاف کیا۔ان کی تحاریر میں چاشنی اور رعنائی پائی جاتی ہے۔خوب صورت الفاظ کے انتخاب کی وجہ سے ان کی تحریر ہر جگہ نمایاں ہوتی ہے۔
گل ایوب سیفی نے تاریخ بنوں و وزیرستان لکھ کر وزیر،محسود اور داوڑ قوم کا احوال اور ان کے زیر قبضہ علاقوں کی جغرافیائی فرہنگ قلم بند کی ہے۔آمین اللہ گنڈاپور نے تاریخ سرزمین گومل لکھ کر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے والوں کےنسلی احوال کے علاوہ ان کی تہذیب و ثقافت،عادات واطوار اور سماجی و معاشرتی شعور کے بارے میں گراں قدر معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ اس کتاب کا شمار تاریخ کے حوالے سے اردو کے بہترین کتابوں میں ہوتا ہے جو ایک اعزاز کی بات ہے۔
         کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے میر عبدالصمد خان نے کم عمری ہی میں کئی عمدہ اور معیاری مضامین لکھے۔جن کی وجہ سے ان کا شہرہ بچپن سے چار سو پھیل گیا۔وہ بہت بڑے مفکر،ادیب اور معروف صحافی تھے۔ایک بہترین لکھاری کے ساتھ ساتھ وہ ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔تحقیق و تنقید  کے میدان میں انہوں نے کئی کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے۔وہ علم وفن اور تحقیق و ادب کی دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ان کی تصنیفات و تالیفات میں خوشحال و اقبال،شاعر انسانیت۔رحمان بابا،تعلیمات خوشحال،اقبال و افغان،تعلیمات رحمان بابا اور فلسفہ آب و گل شامل ہیں۔انہوں نے اپنی مشہور کتاب خوشحال و اقبال میں ان دونوں ممتاز شعراء کا انوکھے انداز میں موازنہ کیا ہے۔اپنی کتاب شاعر انسانیت میں رحمان بابا کی روحانی شخصیت کو آشکارا کرنے کی کوشش کی ہے۔
      پروفیسر شمشیر علی جنوبی اضلاع کے معروف ماہر تعلیم،موّرخ،مترجم،شاعر ،محقق اور نقاد ہیں۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ بنوں کی تاریخ "بن باس" کے عنوان سے لکھنا ہے۔جنوبی اضلاع میں اردو ادب کی ترویج و ترقی کا موجب بننے والے بیشتر قلمکار ان کے شاگردان عزیز ہیں۔انہوں نے بیسیوں مضامین،مقالاجات اور تخلیقی مواد ملک کے معروف اخبارات،رسائل اور جرائد میں چھپوایا ہے۔
اردو نثر کا ایک لاثانی کردار رحیم گل خٹک ۱۹۲۷ء میں شکر درہ میں پیدا ہوئے۔ملک گیر شہرت کے حامل رحیم گل ایک اعلی پائے کے ناول نگا،افسانہ نگار،ڈرامہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔مشہور زمانہ لاہور کے کافی ہاوْس(پاک ٹی ہاوْس) میں وہ نثری شاعر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔میٹرک پاس ہونے کے باوجود اپنی تحاریر میں انگریزی الفاظ کا استعمال ان کی ذہانت کی دلیل تھی۔آپ کی تحریر سادہ اور سلیس ہے۔موزوں اور برمحل الفاظ کے استعمال میں آپ کو ملکہ حاصل تھا۔آپ کی تحریر میں ابوالکلام آزاد کا رنگ جھلکتا ہے۔آپ پختہ اور شگفتہ اسلوب نگارش کے مالک ہیں۔آپ کا شمار دور جدید کے عظیم قلمکاروں میں ہوتا ہے۔جنت کی تلاش، تن تارارا،پیاس کا دریا،وہ اجنبی اپنا،زہر کا دریا اور وادی گمان میں ،ان کے مشہور تصانیف ہیں۔آپ کا ناول جنت کی تلاش اپنی اثر آفرینی،منظر نگاری اور فنی تکمیل کے باعث اردو کا منفرد ناول مانا جاتا ہے۔اس ناول میں آپ کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔
آپ ایک اچھے ڈراما نگار اور افسانہ نویس بھی تھے۔۱۹۶۲ء میں آپ کو ڈراما خونی چٹان پر بیورو آف دی نیشن کنسٹرکشن ڈھاکہ نے انعام سے نوازا۔آپ نے نہ صرف فلموں کے لیے کہانیاں اور مکالمے لکھے بلکہ کچھ فلموں کی ڈائریکشن بھی خود کی۔آپ کے مشہور ڈرامے،آن پشاور ٹیلی ویژن اور طوفان لاہور ٹیلی ویژن سنٹرسے ٹیلی کاسٹ ہو چکےہیں۔"پورٹریٹ" اور" خدوخال" آپ کی خاکوں پر مبنی کتابیں ہیں۔ان کتابوں میں آپ نے کل اڑتیس معروف شخصیات کے خاکے کھینچے ہیں۔ان کی خاکہ نگاری کے بارے میں بادشاہ منیر بخاری لکھتے ہیں؛
                    "رحیم گل کے خاکوں میں گہرے مشاہدے اور انسانی فطرت و سیرت کے عمیق مطالعے کا ثبوت                      ملتا ہے۔آپ کے پیش کردہ خاکے مختصر لیکن جامع ہیں۔ہر بات کا موقع محل کی مناسبت سے بیان آپ کے اسلوب کی انفرادی خوبی ہے۔ آپ کی تحریروں میں زبان کی دلکشی،شوخی،بے ساختگی،برجستگی،بےتکلفی اور لطافت کا ایک خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔"(۷)   
  کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے شعیب قریشی ۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے۔ان کا شمار اپنے وقت کے منفرد ادیبوں میں ہوتا ہے۔زبردست علمی و ادبی توانائی کے مالک تھے۔ناول اندھی گلیاں سے انہوں نےبہت شہرت حاصل کی۔
   یہ ناول ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہے۔یہ ایک حقیقی کہانی ہے۔اس ناول میں انہوں نے روزمرہ کے حقیقی واقعات اور مناظر کو بڑے خوبصورت اور سلجھے انداز میں پیش کیا ہے۔
   وہ ڈراما نویس بھی تھے۔ریڈیو پاکستان پشاور اور ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے ان کے کئی ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوئے۔ان کا ایک ڈراما اپاہج پاکستان ٹیلی ویژن پشاور سے آن ائیر ہوا ہے۔یہ ایک بہترین تاثراتی ڈراما تھا۔انہوں نے اپنی تحریر کے ذریعے وہ مقام حاصل کیا جو لوگ سال ہا سال کی محنت شاقہ کے بعد حاصل نہیں کر پاتے۔
        اردو ادب کے کاروان کے سالار ایوب صابر کا تعلق بھی جنوبی اضلاع سے ہے۔اس علاقے کی پوری ادبی تاریخ ایوب صاحب کے ساتھ وابستہ ہے۔وہ نہ صرف ایک اچھے شاعر تھے بلکہ ایک سلجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ایک شعلہ بیان مقرر،تنقید نگار،تحقیق نگار،ڈراما نویس، خاکہ نگار غرض جملہ اصناف نثرونظم پر کامل عبور رکھتا تھا۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔اردو ادب کے لیے انہوں نے بےپناہ خدمات سر انجام دیئے ہیں۔
          انہوں نے مزاحیہ تحریروں کے پردے میں طنز کی نشتر زنی کی ہے۔بانگ حرم اور دیگر اخبارات میں ان کے شائع شدہ مضامین لوگ بڑے شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ "اس حمام میں" ۱۹۶۲ء میں ادبیات نو  لاہور نے شائع کیا۔۱۹۷۴ء میں ان کی دوسری کتاب جدیدپشتو ادب اردو زبان میں شائع ہوئی۔انہوں نے جملہ اصناف نثر و نظم میں اپنا لوہا منوایا۔ان کی تحریر سادہ اور  ادبی رنگ لیے ہوئے ہے۔
         صابر صاحب کی مثال ادب کے جنگل میں ایک تناور،سایہ دار اورپھلدار درخت کی مانند ہے۔ان کی مسلسل محنت اور کوششوں نے اس خطے کے علمی،ادبی،ثقافتی اور تاریخی اثاثوں اور روایات پر گہرے اثرات مرتب کیے۔وہ ادب میں مصلحت کے قائل نہیں تھے۔اس لیے وہ متنازعہ امور پر بھی بےخوف لکھتے چلے جاتے۔وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔وہ معاشرے میں مساوات کے علمبرداروں میں سے تھے۔
ان کی تحریروں میں انفرادیت پائی جاتی ہے۔انہوں نے ادب اور صحافت کے امتزاج کو اپنایا۔مشہور  اخبارات میں باقاعدگی سے کالم لکھا کرتےتھے۔طنزومزاح میں ان کے آٹوگراف نئے اطوار کی بھرپور نمائندگی کرتے ہیں۔وہ ترقی پسند رجحانات کی طرف مائل تھے۔
   حضرت حاجی بہادرؒ کے سلسلہ نسب سے تعلق رکھنے والے حضرت پیر حقانی کا شمار تحریک آزادی کے سر گرم کارکنان میں سے ہوتا ہے۔وہ ۱۹۱۴ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اپنے وقت کے مشہور تحریک ،خدائی خدمتگار تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا۔اس وجہ سے ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی اٹھانی پڑی۔اپنے اسیری کی مشکلات،مشاہدات اور اس دور کےحکمرانوں کے ظلم و ستم کو انہوں نے اپنی کتابوں اسیرِفرنگ اور سرگذشت زنداں میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اس کے علاوہ حضرت حاجی بہادر کے نام سے ایک کتاب لکھی جن میں انہوں نے اپنے جدِامجد کی شخصیت اور سیرت کے متعلق لکھا۔ معروف معالج چراغ حسین شاہ کو ادبی حلقوں میں ان کی ادب فہمی کی وجہ سے بڑا احترام دیا جاتا تھا۔انہوں نے اپنے مورث اعلٰی سید محمود المعروف پیر سباق کی سوانح عمری لکھی۔ان کی تحریر  رواں،سلیس اور عام فہم ہے۔
 ضلع لکی مروت میں سب سے زیادہ  اردو ادب تخلیق کرنے کا اعزاز پروفیسر انور بابر کو حاصل ہے۔شاعری میں انہوں نے کئی کتب تحریر کی ہیں۔نثر میں ان کی کئی کتب غیر مرتب حالت میں پڑی ہیں۔
   سید محمود شوکت کا شمار جنوبی اضلاع کے نامور ادبی شخصیات میں ہوتا ہے۔انہوں نے اس سرزمین پر اردو ادب کے فروغ میں فعال کردار ادا کیا ہے۔وہ فلم ساز بھی تھے اور اعلی پائے کے افسانہ نگار اور ڈراما نگار  بھی تھے۔وہ شاعر بھی تھے۔طبیعت غزل کی طرف زیادہ مائل تھی۔ان کی شاعری رومانی ہے۔ان کے ہاں حزن و یاس،درد و غم اور اضطراری کیفیات زیادہ ملتی ہیں۔بقول گوہر رحمان نوید؛
                        "انہوں نے غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کی جس میں  اپنی جواں مرگ وفاوَں کی مرثیہ خوانی اور                       نا مرادیاں ان کا مستقل روگ اور موضوع بنا رہا۔"(۸)
    پروفیسر شمیم حسن خان بنیادی طور پر سفر نگار ہیں۔اپنے ایران،ترکی اور شام کی سیر وسیاحت کا احوال جہاں گرد کے عنوان سے احاطہ تحریر میں لا چکے ہیں۔اس کے علاوہ ان کے مشہور سفر ناموں میں سوات کاجھومر،پربتوں کی وادیاں،شیخ بدین اور  شندور کی کالی جھیل شامل ہیں۔شندور کی کالی جھیل ڈائرکٹریٹ آف کلچر خیبر پختون خوا کے تعاون سے شائع ہو چکا ہے۔پروفیسر صاحب کا وطن مالوف ریاست یو پی ہے اس ناطے ان کی مادری زبان اُردو ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ جزئیات نگاری،منظر نگاری اور مکالماتی انداز بیان پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔وہ قدرتی مناظر کی تصویر کشی کچھ اس طرح سے کرتے کہ وہ حرکت و رقص کرتی نظر آتی ہیں۔ان کی تحریر جامد نہیں بلکہ ان کا قلم رواں دواں ہے۔ان کے قلم میں جدّت اور خوش آہنگی ہے۔
    سید تقی ہاشمی پاڑا چنار میں پیدا ہوئے۔اگرچہ زیادہ  نہیں لکھا مگر جو کچھ لکھا پطرس بخاری کا رنگ ثابت ہوا۔وہ ایک سلجھے ہوئے ادیب و شاعر تھے۔تنقید کے میدان کے شہسوار تھے۔ان کے تنقیدی مضامین اور مقالات ملک کے معیاری جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔بیک وقت اردو،پشتو اور انگریزی میں لکھا کرتے تھے۔ان کا شمار ترقی پسند ادباء میں ہوتا ہے۔ان کی تحاریر مزدور طبقہ کی نمائندگی کرتی ہیں۔وہ انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ہر موضوع پر لکھنے کی مہارت حاصل تھی۔وہ ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔وہ بنیادی طور پر صوبائی وزارتِ اطلاعات و نشریات سے تعلق رکھتے تھے۔انہوں نے بعض گورنروں اور وزارئے اعلی کے لیے ایسی بہترین تقریریں لکھیں کہ سننے والے دنگ رہ گئے۔
        خورشید ربانی کا شمار جنوبی اضلاع کےمعروف اردو نثر نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کی تحریر سادہ اور سلیس ہوتی ہے لیکن معنوی نقطہ نظر سے ان کے اکثر تحقیقی و تنقیدی مضامین خشک اور جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔مضامین میں مقصدیت کی وجہ سے چاشنی اور شگفتگی کا فقدان پایا جاتا ہے۔دوسری طرف ان کی تحریروں میں وسیع النظری،غور و فکر کے نمایاں پہلو،ادراک و مشاہدے کی قوت وغیرہ کی کوئی کمی نہیں پائی جاتی ہے،جزئیات نگاری اور فلسفیانہ انداز ان کا حاصہ ہے۔
       موسی خان کلیم ایک اچھے ڈراما نگار،تحقیق کار اور نقاد تھے۔انہوں نے ناموس اور مقام غالب  جیسی کتب تصنیف کیں۔اس کے علاوہ انہوں نے کئی اور مقالے اور مضامین تحریر کیے۔ان کے ہاں تغیر بِھی ہے اور جذبانیت بھی۔چونکہ وہ خود مساوات کے قائل تھے اس لیے انہوں نے معاشرے کے غیر معتدل عناصر کو اپنی تحریر میں پیش کیا ہے۔ان کی تحاریر بہترین کردار نگاری اور منظر نگاری کے مظہر ہوتے ہیں۔ان کی تحریر پرشکوہ الفاظ اور روزمرہ و محاورات کے بہترین استعمال کے باعث اپنی مثال آپ ہے۔
  پروفیسر پریشان خٹک ۱۹۳۲ء کو کرک میں پیدا ہوئے۔اصل نام غمی جان تھا۔وہ ایک عظیم دانشور،محقق،سوانح نگار اور ایک اعلی پائے کے ماہر تعلیم تھے۔وہ اردو کے ساتھ ساتھ پشتو زبان کے بھی بلند پایہ ادیب اور شاعر تھے۔انہوں نے اپنے قلم سے اردو نثر کا دامن بھر دیا ہے۔خوشحال خٹک کی غزلوں کا اردو ترجمہ ان کی اردو نگاری کی عمدہ مثال ہے۔پشتون قوم کی تاریخ کو پشتون کون لکھ کر محفوظ کیا۔علاوہ ازیں ان کی بیسیوں کتب چھپ چکی ہے۔انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سیمیناروں میں سینکڑوں لیکچر دیئے۔ان کے تحقیقی کام کے متعلق احمد پراچہ لکھتے ہیں؛
"اردو اور پشتو میں اٹھارہ کتابوں کے مصنف ہیں۔اس کے علاوہ ساٹھ طبع شدہ کتابوں اور اٹھارہ قدیم                       مسوّدوں پر کام کیا ہے۔مزید برآں ان کے ایک صد سے زیادہ تحقیقی مضامین اردو اور پشتو کے قومی                     اور بین الاقوامی شہرت یافتہ رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔"  (۹)
   وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک انسان تھے۔ان کو ان کے علمی و ادبی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا۔ان کے لکھی گئی کتب کو مختلف اداروں اور ادبی تنظیموں کی طرف سے انعامات ملے ہیں۔انعام یافتہ اردو کتب میں" اٹوٹ لسانی روابط"،"قبائلی پٹھانوں کے رسم و رواج"،"پشتو شعراء کی ڈائری"،"پشتون کون"،"ٹانگے سے کنکار تک "اور" کلیات خوشحال "کا حاشیہ اور مقدمہ۔تاریخ کی روشنی میں شامل ہیں۔
   احمد پراچہ کوہاٹ کے رہنے والے ہیں۔وہ ایک صاحب طرز ادیب،محقق،نقاد،موَلف،مصنف اور سوانح نگار ہیں۔وہ گذشتہ نصف صدی سےاردو ادب کی باغیچہ کی آب یاری میں مصروف عمل ہیں۔انہوں ۱۹۵۳ء میں بچوں کے لیے لکھی جانی والی کہانی تین دوست سے باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔اس کے بعد ان کے افسانے،تحقیقی مضامین اور کہانیاں ملک کے مشہور اخبارات اور جرائد میں چھپتے رہے  ہیں۔ان کی تحریروں سے ان کے تحقیقی،تنقیدی اور تخلیقی شعور کی آگہی ہوتی ہے۔وہ مختلف اخبارات کے ساتھ بطور ضلعی نامہ نگار منسلک رہے ہیں۔    پراچہ صاحب کے افسانوں پر مشتمل مجموعہ سوتی جاگتی کلیاں ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔اس کتاب میں انہوں نے زندگی کے حقائق کو بڑی شائستگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔انہوں نے نسیم ولی،پروین شاکر،زیتون بانو،ایوب صابر،سائیں احمد علی پشاوری،سید رسول شاہ بخاری اور مولانا احمد گل جیسی مشہور شخصیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ تاریخ کوہاٹ کی تالیف ہے۔
       ڈاکٹر طالب حسین اشرف کا شمار معروف ماہرین اقبالیات میں ہوتا ہے۔وہ ایک اچھے محقق،نقاد اور انشاپرداز بھی ہیں۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔وہ گرائمر کے قواعد و ضوابط کا پابندی کے ساتھ خیال رکھتے ہیں اور ہمیشہ روزمرہ و محاورہ کے اصولوں کے تحت لکھا کرتے ہیں جس کے باعث ان کی تحریر اپنے اندر دلچسپی اور جاذبیت لیے ہوئے ہے۔وہ آسان زبان میں پیچیدہ مطالب کو بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کرنے پر قادر ہیں۔ وہ بات سے بات نکالنے کے ماہر ہیں۔
  محبت خان بنگش کا شمار اردو کے اچھے شعراء میں ہوتا ہے۔اردو نثر میں بھی انہوں نے اپنا سکہ جمایا ہے۔ان کے لکھے ہوئے افسانوں نے کوہاٹ میں تخلیقی نثر کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ان کے افسانوں کا مجموعہ کانچ کی چوڑیاں اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔رضا ہمدانی کے فن اور شخصیت پر مبنی ان کی کتاب واقعی قابل تعریف ہے۔اس کتاب میں انہوں نے دیگر لوگوں کے ارشادات کو من و عن شامل کیا ہے جس کی وجہ سے یہ تصنیف کم تالیف زیادہ معلوم ہوتی ہے۔اس لیے سوانحی نقطہ نظر سے اس کتاب کی اہمیت کم اور مشکوک ہو جاتی ہے۔وہ ایک کل وقتی صحافی تھے۔بانگ حرم کے ضلعی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا اس کے علاوہ روزنامہ جنگ اور روزنامہ مشرق پشاور سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
         قیوم مروت کا شمار جنوبی اضلاع کے ان شعراء اور ادباء میں ہوتا ہے جنہوں نےاس خطے میں اردو ادب کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا  کیا ہے،وہ نہ صرف اردو کے بلکہ پشتو نظم و نثر کے بھی اچھے لکھاری تھے۔احمد پراچہ ان کی اس صفت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ؛
"مجھے کبھی کبھی حسد آمیز حیرت ہوتی ہے کہ۔۔۔قیوم مروت نے مقدار کے لحاظ سے اتنا ادب                    کیسے تخلیق کیا اور مزید حیرت اس پر ہوتی ہے کہ دو اصناف (نظم و نثر) اور ہر دو زبانوں (پشتو،اردو) میں                     معیار کو پچیس سال ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔"(۱۰)
    وہ بیک وقت شاعر،افسانہ نگار،سوانح نگار،کالم نگار،مزاح نگار اور ترجمہ نگار  کے روپ میں نظر آتے ہیں۔
    ڈاکٹر فضل مروت ایک اچھے محقق،انشاّپرداز اور ترجمہ نگار ہیں۔وہ سادہ اور سلیس اسلوب کے حامل ادیب ہیں۔ان کو ترجمہ کے فن میں کمال حاصل ہے۔خصوصا انگریزی سے اردو میں تراجم کرنے کا فن ان کو بخوبی آتا تھا۔معروف سفر نگار شوکت عثمان کے انگریزی زبان میں لکھے گئے سفر نامے کا اردو زبان میں پشاور سے ماسکو تک کے عنوان سے ترجمہ کیا۔یہ ترجمہ انہوں نے  اس انداز اور مہارت سے کیا ہے کہ ترجمہ کم طبع زاد زیادہ لگتا ہے۔وہ اپنی تحریر میں چھوٹے چھوٹے فقروں کا استعمال کرتے ہے۔چونکہ وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص ہیں اس لیے ان کی تحریروں میں علمیت اور مقصدیت پائی جاتی ہے۔وہ مشہور پشتو شاعر عبدالرحیم مجذوب کے فرزند ہے۔
      پروین عظیم بطور افسانہ نگار پہچانی جاتی ہیں اگرچہ بنیادی طور پر وہ شعبہ طب سے وابستہ ہیں۔وہ گورکی کی ماں نامی افسانوِں کے مجموعے کی تخلیق کار ہیں۔ان کے افسانوں میں جذباتیت،جدت پسندی،خیال آفرینی،شگفتگی اور لطافت بیان حد درجہ پایا جاتا ہے۔وہ انقلابی سوچ کی مالک ہیں اس لیے ان کی تحریر میں بھی ایک ولولہ اور بے تابی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
    ڈاکٹر اقبال نسیم کا شمار پشتو ادب کے ماہر لکھاریوں میں ہوتا ہیں۔پشتو کے ساتھ ساتھ وہ  اردو ادب خصوصا ترجمہ،انشائیہ اور تحقیق و تنقید وغیرہ میں بھی لکھتے رہتےہیں۔انہوں نے پشتو کے قدیم اور جدید شعراء کے منتخب کلام کا پشتو شاعری کے عنوان سے منظوم ترجمہ کیا۔اس کے علاوہ خدیجہ فیروز الدین کا مقالہ خوشحال خان خٹک۔حیات و فن کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ان کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے۔وہ فصیح و بلیغ زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ان کو مشرقی علوم کا ماہر خیال کیا جاتا ہے ۔
مشہور افسانہ نگار سید معصوم شاہ ثاقب کسی تعارف کا مختاج نہیں۔اس معروف افسانہ نگار کے افسانوں پر مبنی دو کتابیں "بند مٹھی "اور" ٹوٹی کہاں کمند" کے ناموں سے شائع  ہو چکے ہیں۔انہوں نے افسانوں کے علاوہ نثر میں اوربھی  بہت کچھ لکھا ہے لیکن ان کی اصل پہچان کا سبب افسانہ ہی ہے۔ان کے افسانوں کی حاص بات اختصار پسندی ہے۔ ان کے افسانوں پر افسانچوں کا گمان ہوتا ہے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے افسانے مختصر ہوتے ہوئےبھی اپنے اندر افسانے کے فنی و فکری جملہ خصوصیات سموئے ہوتے ہیں۔وہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کا فن بخوبی جانتے ہیں۔انہوں نے متفرق موضوعات پر لکھا۔انہوں نے حقائق سے قریب تر ہو کر لکھا۔ان کے افسانوں میں معاشرتی کشمکش،ملی شعور اور جذبہ حب الوطنی جیسے عناصر ملتے ہیں۔
   غلام ربانی انور کا شمار اردو کے اچھے نثرنگاروں میں ہوتا ہیں۔وہ جملہ نثری اصناف میں لکھنے پر قادر ہیں۔ان کا اصل میدان سفر نامہ نگاری ہے۔انہوں نے نقوش حیات میں اپنے امریکہ کے سفر کا  پورا احوال قلم بند کیا ہے۔وہ ایک الگ اسلوب تحریر کے مالک ہے۔ان کی تحریر میں نئی نئی کیفیات سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ حسن پرست ہیں ہر اچھا منظر ان کی نظروں کے لیے پیام نشاط لاتی ہے۔
  جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے سید حفیظ اللہ گیلانی کا شمار یہاں کے اچھے نثر لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ لکھنا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے دسیوں علمی و ادبی مضامین ملک کے معروف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ان کی زبان بڑی دلنشین ہے۔ان کی تحریر صاف و شستہ ہے۔وہ دلیل کے ذریعے قاری سے اپنی بات منواتا ہے۔
       کاشف الرحمان کاشف کا شمار جنوبی اضلاع کے ابھرتے ہوئے قلم کاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے کم عمری ہی میں اردو ادب کو "لو چائلڈ" جیسے پیارے افسانوں کے مجموعہ سے فیض یاب کیا۔افسانوں کا یہ مجموعہ معاشرتی مسائل کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔انہوں نے یہ افسانے حقائق پر مشتمل ہونے کے باوجود بڑے عمدہ پیرائے میں تحریر کیے ہیں۔وہ اپنے افسانوں میں عموماً پہلے ایک ناپسندیدہ صورت حال تخلیق کرتے ہیں لیکن اگلی سطور میں وہ صورتحال کو قاری کے لئے گوارا بنا دیتے ہیں۔
"   دیدن" کے خالق طاہر آفریدی کا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ان کا شما ر اُن افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے اپنی ثقافت کی زبردست عکاسی کی ہو۔وہ ایک اچھے ناول نگار بھی ہیں۔انہوں نے اپنی ناول تیری آنکھیں خوبصورت ہیں میں پشتون تہذیب و ثقافت کے علاوہ پشتون معاشرے میں موجود کمزوریوں پر کھل کر قلم اُٹھایا ہے۔زاہدہ حِنالکھتی ہیں؛
   "اس ناول کو پڑھتے ہوئے طاہر آفریدی کے مشاہدے کو داد دینی پڑتی ہے۔انہوں نے                         پشتون مردان خانے اور زنان خانے کے کتنے ہی مناظر اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ لکھے ہیں۔"  (۱۱)
      طارق ہاشمی کا شمار اردو کے منفرد شعراء اور تنقید نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کے بہت سے ادبی مضامین ملک کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ان کی تحریر میں انکی اپنی زندگی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔وہ اپنی دل کی بات قلم کی نوک پر لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ان کی علمیت  کی جھلک ان کی تحریر سے جھلکتی ہے۔
   فیروزہ بخاری اچھی شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔جنوبی اضلاع کے اردو ادب میں ایک معتبر شخصیت کی مالک ہیں۔انہوں نے اپنے تحاریر میں اختصار کی بجائے طوالت سے کام لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں وحدتِ تاثر انتہائی کمزور ہے۔جبکہ ان کے لکھے گئے افسانوں کے پلاٹ انتہائی شاندار ہوتے ہیں۔کرداروں کے ساتھ بھی وہ پورا انصاف کرتی ہیں۔ان کے یہاں عموما ہیروئن،ہیرو سے زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ان کی ہیروئن غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہے۔
"      آرزوئے حرم" اور "سعادت حج "نامی سفرناموں کے خالق ڈاکٹر جاوید حسین اردو ادب میں ایک سفر نامہ نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ان کا اسلوب سادہ ہے۔وہ سفر نامے کے جملہ لوازمات کا تحریر میں پورا پورا خیال رکھتےہیں۔ان کا لہجہ دھیما اور انداز میں دلآویزی اور شگفتگی ہے۔وہ الفاظ کے استعمال میں بڑے احتیاط سے کام لیتا ہے۔
  جنوبی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ایک اور نثر نگار آصف اقبال سلیم ہیں۔وہ ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں۔ان کے لکھے گئے افسانوں پر مشتمل مجموعہ" موتی مرے ہوئے" ۲۰۰۱ء کو منظر عام پر آیا۔اس مجموعے میں انہوں نے اپنے اردگرد کے کرداروں کو موضوع بنایا ہے ۔
  پردل خٹک کا شمار پشتو کے اچھے شعراء اور ادیبوں میں ہوتا ہےساتھ ساتھ وہ اردو ادب کے بھی بہت اچھے لکھاری ہیں۔ترجمہ نگاری اور تنقید و تدوین میں انہوں نے اپنے فن کا جادو جگایا ہے۔ان کا اسلوب سادہ ہے۔ان کا شمار  ترقی پسند ادیبوں میں ہوتا ہے۔ان کی تحریر میں تہذیب و معاشرت کے اصلاحی پہلوبدرجہ اَتم موجود ہیں۔ان کے بیان میں خطابت کا انداز پایا جاتا ہے۔وہ  اردو اور پشتو ہر دو زبانوں کے مقبول ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
    اقبالیات کے ماہر اور ترجمہ نگار حیران خٹک کو پشتو کے اولین ناول "پیغلہ" کا اردو  ترجمہ کرنےکا اعزاز حاصل ہے۔انہوں نے اردو میں اس ناول کا نام دوشیزہ رکھا۔وہ پشتو میں بھی لکھا کرتے ہیں۔ان کا شمار اردو کے منفرد اور صاحب طرز ادیبوں میں ہوتا ہے۔ایک عمدہ نثر نگار بھی ہیں۔وہ سادہ اور شستہ زبان کے مالک ادیب ہیں۔آج کل اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں ایک اہم عہدے پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
   مضمون نگار،سوانح نگار،محقق،موَلف،اور نقاد عنایت الحق خٹک کا تعلق بھی جنوبی اضلاع سے ہے۔ان کا منفرد اسلوب ان کا کمال ہے۔ان کی نثر سادہ،صاف اور رواں ہے۔خٹک صاحب کی زبان صاف اور سلیس ہے۔ان کی تحریر میں سر سید کی جھلک ملتی ہے۔ان کی تحریر روزمرہ اور محاورے کے عین مطابق ہوتی ہے۔وہ اپنی تحریروں میں گرائمر کا پورا خیال رکھتےہیں۔چھوٹے چھوٹے جملوں سے مزین ان کی تحریر اپنے اندر بلا کی دلکشی اور رعنائی لیے ہوتی ہیں۔
        صفیہ بشیر گنڈاپور کے افسانوں پر مشتمل مجموعہ "زرغونہ" کے نام سے شاِئع ہو چکا ہے۔وہ ایک خوب صورت تخیل اور جداگانہ انداز کی افسانہ نگار ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں عورتوں کے مسائل اجاگر کیے ہیں۔ان کی تحریر میں شگفتگی،رنگینی اور الفاظ کا حسن ہوتا ہے۔عورتوں کے مسائل کے علاوہ انہوں نے معاشی اور معاشرتی مسائل کو بھی اپناموضوع بنایا ہے۔وہ ایک حق پرست ادیب ہیں۔ان کے افسانوں کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ان کے یہاں الفاظ و تراکیب کی درست نشست و برخاست کی کمی کھٹکتی ہے۔ان کے افسانوں میں وحدت تاثر کا فقدان ہے۔
        جنوبی اضلاع کی ایک اور ابھرتی ہوئی ادیبہ ناہید غزل ہیں۔نثر کے ساتھ ساتھ وہ شاعری بھی کرتی ہیں۔بنیادی طور پر وہ ایک افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانے نسائی مسائل اور ان کے حل کے گرد گھومتے ہیں۔جاندار کرداروں کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں بھرپور وحدت تاثر بھی پایا جاتا ہے۔وہ افسانے کے فن سے بھرپور واقفیت رکھتی ہے۔ ان کی کہانیوں کی اساس محض تخیل پر نہیں بلکہ مقصدیت پر ہوتی ہے۔ان کی تحریر میں نرمی،گداز پن اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ان کی تحریر داخلی احساسات و جذبات کی ترجمان  ہے۔انہوں نے افسانہ نگاری میں نہ تو روایت کو گلے لگایا ہے اور نہ ہی جدید انداز کو۔ان کا شمار اچھے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
مسرت لغاری کا شمار اچھے ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔ان کا ناول "چُپ کا موسم" ایک اچھا ناول ہے۔اس ناول کا انداز افسانوی ہے۔اس ناول میں انہوں نے ایک روایتی واقعے کو بڑی عمدگی کے ساتھ بُنا ہے۔ناول کا پلاٹ بڑا منظم ہے۔خوبصورت منظر نگاری کی گئی ہے اور یہ ناول  مکمل وحدت تاثر کاحامل ناول ہے۔
  انہوں نے اپنے ناول میں خوشیوں کو بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ان کے بیان میں بڑا سوز و گداز پایا جاتا ہے۔ان کو سلیس اور روزمرہ و محاورہ کے مطابق لکھنے پر عبور حاصل ہے۔ان کے یہاں اخلاص،محبت اورچاہت  کے جذبوں کی فراوانی ہے۔
     ڈاکٹر سلیم راز مروت شاعری کے ساتھ ساتھ اردو نثر بھی خوب لکھتے ہے۔بلحاظ پیشہ وہ ایک ڈاکٹر ہیں مگر اردو ادب سے وہ گہرا لگاوَ رکھتے ہیں۔ادب سے لگاوَ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ذاتی لائبریری مخزن کا شمار خیبر پختون خواکی بڑی نجی  لائبریریوں میں ہوتا ہے۔یہاں اردو ادب سے متعلق نادر اور قیمتی کتابیں موجود ہیں۔پیشہ وارانہ مصروفیات کی وجہ ان کے پاس لکھنے کا وقت کم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ان کی تحریر بڑی جان دار ہے۔
   سید ارشاد حسین شاہ معروف کالم نگار،صحافی،شاعر،محقق،نقاد اور افسانہ نگار ہیں۔وہ ترقی پسند سوچ کے حامل نثر نگار ہیں۔وہ اپنی تحریروں میں مساوات اور برابری کی بات کرتا ہے۔ان کی تحریر کا کینوس بڑا وسیع ہے۔وہ کرداروں کو ہمیشہ اپنی نظروں میں رکھتا ہے اور  ان کو علم کی خشک وادیوں سے بار بار واپس آنے کی دعوت دیتا ہے۔ان کے خیال میں معاشرے کے ہر فرد کو زندگی گزارنے کے یکساں حقوق حاصل ہونے چاہیئے ۔وہ اپنا لہجہ جذباتی اور جاندار رکھتا ہے جس کے باعث ان کی تحریر میں ایک طرح کا طلسم بھر جاتا ہے جس سے قاری بےخود ہو جاتا ہے۔
   حمزہ حسن شیخ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ اس نوجوان قلم کار کی تحاریر خصوصا افسانے ملک کے مختلف رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔حمزہ کے افسانوں کا بنیادی موضوع محبت ہے،وہ  معاملات محبت کو زندگی کے دیگر معاملات کے ساتھ مختلف زاویوں سے منسلک کرکے اسے پرکھنے کی کاوش میں مصروف ہیں۔
       حمزہ کے ہاں تجسس اور سسپنس کی بھرپور فضا ملتی ہے اور کہانی زیادہ پیچ و خم سے گزرے بغیر اختتام کی طرف بڑھتی ہے کہیں کہیں اختتام سے پہلے انجام کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں مگر وہ کمال مہارت سے آخری سطر تک سسپنس کی فضا برقرار رکھتا ہے۔ان کا یہ عمل قصہ کے حسن کو قدرے گہنا دیتا ہے۔
    ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان قلم کار منیر احمد فردوس ہیں۔ان کا قلم افلاس زدہ طبقے کی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔وہ اپنے قلم کے زور سے پسے ہوئے طبقے کو قوت گویائی دینا چاہتے ہیں۔ان کی تحریر میں ایک خاص طرح کی روانی کا احساس ہوتا ہے۔وہ مناظر بدلنے میں ماہر ہیں۔ان کے یہاں ٹھہراوٰ کی کیفیت مفقود ہے۔ان کا کہانی پن پوری طرح واضح ہے۔وہ بات سے بات نکالنے کے ماہر ہیں۔ان کو درد انگیز کیفیات بیان کرنے پر عبور حاصل ہیں۔
         منیرسماجی اور اخلاقی اقدار کی اشاعت و ترویج کے لیے استعارات و تشبیہات کو کام میں لاتے ہیں۔ان کا اسلوب رواں اور سادہ ہے۔ ان کے رواں جملے واقعات کو فطری طور پر آگے بڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی استعارات کے استعمال سے قصہ کی رفتار اور بہاوَ میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔
   عمران شاہد کا شمار بھی جنوبی اضلاع کے اچھے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔بنیادی طور پر وہ ایک افسانہ نگار ہے۔ان کے افسانوں میں زندگی کے جیتے جاگتے کردار متحرک نظر آتے ہیں۔ان کے افسانے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وقت کی نبض پر ہمہ وقت ان کا ہاتھ ہے۔ان کے کہانی کی بُنت نہایت عمدہ ہوتی ہے۔
   اس کے علاوہ جنوبی اضلاع میں نثری ادب تخلیق کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔محمد اقبال فارس،فدا محمد،راحل بخاری،احمد نواز سلیم،سلیم قریشی،شہاب صفدر،محمد علی بخاری،سعد اللہ لالا،ڈاکٹر یونس ندیم،سجاد حیدر،اجمل خان بصر،رحمان ساتھی،جاوید آفریدی،لطیف پریشان،آفتاب بیگم شمع،شجاعت علی راہی،غلام حسین دامانی،طلعت نشاط،مسز یاسمین اختر ،حبیب موہانااور دیگر ۔یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے جنوبی اضلاع میں اردو نثر کی ترویج و اشاعت میں مقدور بھر کردار ادا کیا اور اس خطہ کو اردو نثر کے حوالے سے ملک بھر میں ایک پہچان دی۔یہاں کے لکھاریوں نے ایک ایسا ادب تخلیق کیا کہ جن کو اردو ادب کےنامی گرامی لکھاریوں کے تخلیق کردہ ادب کے مقابلے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے

حوالہ جات
۱۔     رضا ہمدانی۔قومی زبان و ادب کی ترقی میں سرحد کا حصہ،مشمولہ پاکستان میں اردو (جلد سوم)، مقتدرہ قومی زبان،        پاکستان ۲۰۰۶ ء،ص ۰۲
۲۔    سہیل احمد۔صوبہ سرحد میں اردو نثر کا ارتقاء۱۹۰۰ء تک،غیر مطبوعہ،ص۰۳
۳۔    احمد پراچہ۔سرحد میں اردو مشمولہ پاکستان میں اردو(جلد سوم) ،مقتدرہ قومی زبان،پاکستان ۲۰۰۶ء،ص۴۸
۴۔    احمد پراچہ۔کوہاٹ کا ذہنی ارتقاء،مکتبہ مستجاب پراچہ،محلہ پراچگان،کوہاٹ ۱۹۸۴ء ص۱۳۷
۵۔     حنیف خلیل۔اردو کی تشکیل میں پشتونو ں کا کردار،مقتدرہ قومی زبان،پاکستان ۲۰۰۵ء،ص ۳۴۶
۶۔    وسیم گیلانی۔مقدمہ روشنی،ماسٹر پرنٹر محلہ جنگی،پشاور ۱۹۹۷ء،ص ۰۴
۷۔    بادشاہ منیر بخاری۔صوبہ سرحد میں خاکہ نگاری مشمولہ پاکستان میں اردو،مقتدرہ قومی زبان ۲۰۰۶ء،ص ۱۹۷
۸۔     گوہر رحمان نوید۔صوبہ سرحد میں اردو،یونیورسٹی پبلشرز،پشاور ۲۰۱۰ء،ص ۰۶
۹۔    احمد پراچہ،تاریخ کوہاٹ،بک سنٹر،حیدر روڈ،راولپنڈی ۱۹۹۷ء،ص ۲۴۲
۱۰۔    احمد پراچہ،تاریخ کوہاٹ،بک سنٹر،حیدر روڈ،راولپنڈی ۱۹۹۷ء،ص ۲۵۲
۱۱۔    زاہدہ حنا۔مقدمہ،غارت گری کی داستان،مشمولہ ناول تیری آنکھیں خوب صورت ہیں،سٹی بک پوائنٹ،کراچی ۲۰۰۷ء،      ص ۰۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com