محسنؔ نقوی،خواہشِ مرگ وانکشافِ  مرگ کا شاعر
امجد خان، پی ایچ ڈی سکالر،شعبۂ اردو،جامعہ پشاور
ڈاکٹر سہیل احمد،اسٹنٹ  پروفیسر،شعبۂ اردو،جامعہ پشاور

Abstract:
In the traditional Urdu poetry, apart from a few poets, every poet has expressed inclination towards the tribulations of life, getting rid of it, suicide and love for death in some way or the other. However, the Mohsin Naqvi has given vent to these feelings is unsurpassed by any other poet. The purpose of the article is to show the individuality and specialty of Mohsin Naqvi in the context of his poetry.
Key words: Mohsin Naqvi, Poetry, Inclination, tribulation of life, suicide, death.
اردو کی شعری روایت میں زندگی کی گرانی، اس سے مایوسی اور چھٹکارا حاصل کرنے کا اظہار سوائے چند  شعرا کے متقدمین، متوسطین اور مؤخرین کے ساتھ ساتھ جدید اور جدید ترین شعرا کے ہاں معمولی سے  ردوبدل کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔چاہے وہ میر ؔ کی طرح جان کا جسمِ خاکی سے تنگ آنا ہو،دردؔ کا زندگی کو طوفان سے تشبیہ دیناہو، غالبؔ کا غمِ ہستی کا علاج،تریاقِ مرگ سے کرنا ہو،اقبالؔ کا زندگی کو’’ جوئے شیر وتیشہ و سنگِ گراں ‘‘سمجھنا ہو،فیضؔ کا اسے شبِ غم کہنا ہو،ندیمؔ کا زمیں پہ سانس لینے کو پہاڑ کاٹنے کے مترادف گرداننا ہو،مجید امجدؔ کا  بہاروں کا سوگ منانے میں عمر بتانا ہو،ساغرؔ کا اسےجبرِ مسلسل کاٹنے کی مانند قرار دینا ہو،خاورؔ احمد  کااسے قیامتِ صغریٰ سے موسوم کرنا ہو  یا احمد فوادؔ کا اسے مشکل ترین کام  قرار دینا ہو۔تاہم ان میں سے کچھ شعرا خصوصاً متقدمین کے ہاں زندگی کے مصائب  کا رونا  ضرور ہے لیکن انہوں نے اس موضوع کو صرف بیان کرنے کی حد تک برتا ہے اور عملی اقدام سے خود کو باز رکھا ہے  یا زندگی کی مشکلات سے گھبرا کر منفی راستوں کو نہیں اپنا یاہے۔شاید ان کے ایمان،ایقان اور راسخ عقائد نے انہیں یاسیت اور منفیت کے گھڑوں میں گرنے سے بچایا ہے۔
اختر ؔشیرانی،جوشؔ،راشد،میراجی ؔ،فانیؔ،یگانہؔ اور جونؔ وغیرہ نے زندگی کے دکھوں اور محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لیے شراب و شباب کا سہارا لیا ہےاور زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں  شہبازِ قضا کے حوالے کیا ہے۔ البتہ شکیبؔ ،ثروتؔ حسین ۔ ابرار سالکؔ وغیرہ نے زندگی کے دکھوں  سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے خود کشی کا راستہ اپنایا ہے۔ان شعرا کے ہاں زندگی کی  سختی ،موت کی خواہش اور خود کشی کرنے کے حوالے تو پائے جاتے ہیں  لیکن وہ باقاعدگی،ربط اور ارتقائی صورت ناپید ہے جو محسنؔ نقوی کی شاعری کا خاصہ ہے۔محسنؔ نقوی کے ہاں یہ موضوعات نہ روایتی اور رسمی نہیں بلکہ ان کے  مشاہدات،تجربات اور تجزیے کی پیدوار ہیں۔زندگی کے بے ستوں کو سانس کے تیشے سے کھودتے کھودتے  وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں  کہ مرنے کے لیے  زندگی کی یہ تہمت کافی ہے کہ  اس کی ہر سانس ہم پہ قرض ہے۔زندگی  کی گتھی کو نہ کوئی سلجھا سکا ہے اور نہ سلجھا سکتا ہے لہٰذا وقت پر آنے والی موت ہی اس سے بھلی ہے۔زندگی کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں جب کہ موت بے آفاق صدیوں کا سفر ہے ۔زندگی رہگزارِ شکست کے سوا کچھ نہیں ہے جب کہ موت فتح و ظفر  کی منزل ہے۔ایسے میں محسنؔ نقوی حبسِ دنیا سے چھٹکارا پانے کے لیے مرنے کی تمنا کرنے لگ جاتے ہیں ۔انہیں سانس کا احساس بارِگراں لگنے لگتاہے اور وہ خود اپنے آپ سے بغاوت کرنے پہ اتر آتے ہیں۔
؎ہر سانس قرض ہے تو پھر اے دل شکستگی
مرنے کو زندگی کی یہ تہمت بھی کم نہیں (۱)
؎زندگی کیا ہے ‘کبھی دل مجھے سمجھائے تو!
موت اچھی ہے اگر وقت پہ آجائے تو!(۲)
؎موت بے آفاق صدیوں کا سفر
زندگی زنجیرِ پا ہے اور بس(۳)
؎موت فتح و ظفر کی منزل ہے
زندگانی ہے رہگزارِ شکست(۴)
؎حبسِ دنیا سے گزر جاتے ہیں
ایسا کرتے ہیں کہ مر جاتے ہیں (۵)
؎اب سانس کا احساس بھی اک بارِ گراں ہے
خود اپنے خلاف ایسی بغاوت نہ ہوئی تھی (۶)
ممات کو حیات پر ترجیح دینے کے بعد محسنؔ نقوی حدودِ ذات سے نکل کر قریۂ جاں کے پرے روشنیوں کی بھیڑ میں جانے کی تمنا کرنے لگ جاتے ہیں۔اسلامی تعلیمات،عقائد کی پختگی اور دین سے وابستگی محسنؔ نقوی کو خودکشی کرنے سے  باز رکھتی  ہے  لیکن ان کا ہمزاددن بھر انہیں اس اقدام پر اکساتا رہتا ہے ۔محسنؔ کی امنگِ مرگ ان کے اندروں میں خلفشار کی کیفیت کو جنم دیتی ہے اور آخر کار جاں سے گزرجانے کی خواہش غلبہ پالیتی ہے۔محسنؔ کی جاں ،جسم کے زندان کو پھڑک کر توڑنے کی کوشش کرنے میں لگ جاتی ہے،لیکن اس کی راہ میں سانس، ٹوٹے ہوئے پروں  کی طرح حائل ہوجاتی ہے۔ یاس کا ہجوم  ،خواہشِ مرگ کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔محسنؔ نقوی موت کوآنے اور انہیں ساتھ لے جانے کی  درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں  کہ جس دل کی خاطر میں جی رہا تھا ،اب وہی  دل مجھے مر جانے کا مشورہ دے رہاہے۔بالآخرمرگ کی شدید خواہش محسنؔ جیسے خود نگہدار شخص میں خودکشی کے رجحان کو پروان چڑھا دیتی ہےاور طرفہ یہ کہ وہ آتما ہتھیا کرنے  کو ضروری گراداننے لگ جاتے ہیں۔ڈاکٹر محمد امین محسنؔ کی خواہشِ مرگ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مصطفٰی زیدی اور محسن ؔ نقوی میں کئی باتیں مشترک نظر آتی ہیں ،مصطفٰی زیدی کی شاعری میں موت کی خواہش جھلکتی ہے اور بعض اشعار میں قتل یا خود کشی کے بلیغ اشارے بھی موجود  ہیں ۔۔۔محسن ؔ نقوی کی شاعری میں بھی موت کی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔‘‘(۷)
زیدیؔ اور محسنؔ کے ہاں اس موضوع کا مشترک  ہونا اپنی جگہ ،لیکن جس تواتر،شدت اور منطقی ربط کے ساتھ محسنؔ نے اس کو بیان  کیا ہےاور جس وارفتگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا ہے۔

؎قریۂ جاں کے اس طرف روشنیوں کی بھیڑ ہے
آج حدودِ ذات سے ‘ چار قدم نکل کے چل (۸)
؎تمام دن مرے سینے میں جنگ کرتا ہے
وہ شخص جس کے مقدر میں خودکشی بھی نہیں (۹)
؎میری پروازِ جاں میں حائل ہے
سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی (۱۰)
؎محسنؔ ہجومِ یاس میں مرنے کا شوق بھی
جینے کا اک حسین بہانہ لگا مجھے(۱۱)
؎آ مجھے اپنے شہر میں لے چل
اے مری موت سوچتی کیا ہے (۱۲)
؎دل کی خاطر زندہ رہیے کب تلک؟
دل ہی کہتا ہے  کہ اب مر جائیے(۱۳)
؎چلی تھی جن سے یہاں رسمِ خود نگہداری
انہیں عزیز ہوا ذکرِ خودکشی اب تو (۱۴)
؎خود کشی کو بھی رائیگاں نہ سمجھ
کام یہ بھی ہے کر گزرنے کا (۱۵)
اردو شاعر میں  خواہشِ مرگ، جان سے گزر جانےاور خود کو تباہ و برباد کرنے  کا موضوع نیا نہیں ہے لیکن محسنؔ نقوی کی عطا یہ ہے کہ انہوں  نے  نہ صرف اس پامال موضوع کو عہد اور ذات کے حالات سے ہم آہنگ کر کے مربوط انداز میں پیش کیا ہے بلکہ خواہشِ مرگ کے ساتھ ساتھ انکشافِ مرگ  اور عرفانِ موت کا اظہار کر کے اس روایت  کو وسعت اور انفرادیت سے ہمکنار کر دیا ہے۔ندیم حیدر شیخ کے الفاظ میں:
’’وہ ہم سے بہت اچانک چلے گئے مگر خود ان کے لیے یہ رخصت انہونی نہیں تھی۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے بار بار اپنے جانے کا تذکرہ کیا اور موت کو مسلسل اپنا حوالہ بنایا ۔شیوہ بیاں داستاں طراز کو یہ انداز ہ ہو گیا  کہ رات اور بات ختم ہونے کو ہے ۔ان کی شاعری اور نثر میں،آخری سفر،بجھتا دیا،انجام،موت،گور و کفن،ہجر ،خون  اور الوداع کے لفظ کثرت سے آنےلگے تھے ۔شہادت سے چند ہفتے قبل موصوف نے جتنی مجالس پڑھیں  ان میں موت کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔آخری ایام کی ایک مجلس میں انہوں اپنا یہ شعر سنایا:
؎لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے ‘‘(۱۶)
عرفانِ موت کے درجے پر پہنچنا بعید از قیاس نہیں ہے  کیوں کہ موت ایک کھردری حقیقت ہے اور اس سے کوئی بھی ذی روح آنکھیں نہیں چرا سکتا،لیکن موت کے بارے میں محسنؔ کے یہ انکشافات کرنا کہ  ان کی موت کب؟کہاں؟ اور کیسے؟ واقع ہوگی اور بعدِ مرگ کے احوال و اثرات کیا ہوں گے؟ہر صاحبِ فہم انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔بقول ڈاکٹر محمد امین:
’’محسن ؔ نقوی کی شاعری میں  بھی موت کی خوا ہش کا اظہار ہوا ہے  اور قتل کا تواتر کے ساتھ ذکر ملتا ہے ۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ محسن ؔ نقوی کا انجام بھی قتل ہوا۔۔۔میرے لیے یہ سوال بڑا اہم ہے کہ یہ محض اتفاق ہے یا کسی وارداتِ کشف کا نتیجہ ہے۔‘‘(۱۷)
ڈاکٹر محمد امین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے  شمیم حیدر ترمذی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
’’محسن ؔ نقوی کے دل میں ایسی موت کی خواہش ہے ،جو سرِ مقتل ہو، خون میں ڈوبا جسم زمین پر پڑا ہو اور سر، نوکِ سناں پر ہو۔ اس کے دل میں موت کا یہ نقشہ ، ممکن ہے ، معرکہ کربلا کے اثر سے پیدا ہوا ہو۔غور کریں تو اس کی غزلوں میں کربلا کے نشان اور شہدائے کربلا کے مرقعے جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔حلقۂ ماتم ،یومِ عاشور، علم، معصوم لہو کے چھینٹے ،عزادار، مرثیہ، موجِ فرات، مقتل، نوکِ سناں ، شامِ غریباں ایسے الفاظ اس کی غزلوں کو سنجیدہ ،با مقصد اور شفق رنگ بناتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی موت کو قتل، قاتل، قتل گاہ، خونِ رگ ِ جاں  اور سجدۂ سرِ مقتل سے منسلک کر کے زیادہ باوقار اور شاہکار بنادیا ہے۔‘‘(۱۸)
شمیم حیدر ترمذی کی تائید کرتے ہوئے ندیم حیدر شیخ لکھتے ہیں:
’’محسن ؔ کو جن کہانیوں نے اپنا موضوع بنایا وہ دم توڑ چکی ہیں ،وہ بستی گونگی ہو چکی ہے ،جس نے اسے بولنا سکھایا۔کچھ بھی تو باقی نہیں رہا،لیکن یہ سب کچھ انہیں بہت پہلے معلوم تھا کیوں کہ،  روحانیت کی جس منزل  پہ وہ تھے ،وہاں افق کے پار کے منظر زیادہ واضح دکھائی دیتے ہیں۔‘‘(۱۹)
ان اصحاب کی محولہ بالااعتقادات یا قیاسات کے ساتھ اتفاق تو کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے کھرے کھوٹے کو پرکھنے کے لیےکوئی پیمانہ یا معیار نہیں ہے،جس کے ذریعے ہمیں معلوم ہوسکے کہ ان آرا میں کتنی صحت اور صداقت ہے۔قطعیت کے ساتھ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،تاہم یہ بھی  حقیقت ہے کہ محسنؔ کو زندگی ہی میں اپنی موت کا علم ہو چکا تھا ۔ موت سے کچھ عرصہ قبل انہیں ہر وقت موت کا کٹکارہتا اور اسی کے توسط سے انہوں اپنی شاعری میں  موت کے بارے میں پیش بینیاں اور پیش گوئیاں کی ہیں۔ذیل میں شمیم حیدر تر مذی کا قدرےطویل  لیکن اہم اقتباس  ملاحظہ کیجیے،جو اس موضوع کے تقریباً تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہےاور اس راز کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے:
’’جب محسن ؔ نقوی یہ کہتا ہے کہ ’’میں بھی بجھنے کو ہوں ‘‘ تو اس سے موت کا واضح اشارہ ملتا ہے ۔اس کی غزلوں میں موت کے یہ نشانات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔اسے ہمیشہ موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے ۔اسے ہر وقت اپنے ابدی گھر کی طرف سفر کرنے کا مرحلہ درپیش رہتا ہے۔اس کی نگاہوں کے سامنے ہر دم شام سے پہلے چراغ بجھنے کا منظر رہتا ہے ۔اسے ہر لمحے کاروانِ دل کے لٹنے کا خدشہ محسوس ہوتا رہتا ہے ۔اسے ہر گام پر جان لیوا حادثے کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اسے موت کے تعاقب کا احساس ہوتا رہتا ہے ۔۔۔محسن ؔ کے کلام کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اسے ہر دم دار کی جانب بڑھنے کا شوق تھا۔اسے اپنے وجدان کے وسیلے سے اپنی موت کا عرفان تھا ۔اسے اپنے قتل کی خبر تھی ۔اسے اپنی شہادت کاعلم تھا۔یوں لگتا ہے اس نے اپنے لیے شاخِ دار کو پہلے ہی سے چن لیا تھا۔اس نے دور ہی سے مقتل کانظارہ کر لیا تھا ۔اس نے شام سے پہلے ہی چراغِ زیست کو بجھتے اور اس سے دھواں اٹھتے  دیکھ لیا تھا۔اس کی موت ناگہاں نہیں تھی بلکہ وہ موت کو سینے سے لگانے کے لیے تیار تھا۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ وہ خاموشی سے جان نہیں دینا چاہتا تھا بلکہ اپنی موت پر جشن دیکھنا چاہتا تھا۔وہ غیر محسوس انداز میں پیوندِ زمیں نہیں ہونا چاہتا تھا بلکہ اپنا سر، نوکِ سناں پر سب سے بلند دکھانا چاہتا تھا۔وہ عام شخص کی طرح دنیا سے رخصت نہیں ہونا چاہتا تھا بلکہ مقتل کی زمین پر اپنی شہادت کی داستان اپنے لہو سے لکھنا چاہتا تھا۔میرا خیال ہے کہ اس کی آرزو کی تکمیل ہوئی اور وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب بھی رہا۔۔۔اب آخر میں یہ سوال کہ محسن ؔ نقوی کی موت کے اثرات کیا ہوئے؟محسن ؔ نقوی کی بصیرت نے یہ قضیہ بھی طے کر دیا ۔یوں لگتا ہے کہ اسے معلوم تھاکہ اس کے جانے کے بعد کیا ہوگا ؟شاید وہی حال جو پھول بکھرنے کے بعد گلشن کا ہوتا ہے ۔وہی حال جو چراغ کے قتل کے بعد محفل کا ہوتا  ہے ۔وہی مرقع جو وغا کے بعدگل  رنگ زمین پر نظر آتا ہے ۔وہی نقشہ جو تیز آندھی کے بعد جنگل کی فضاؤں پر دکھائی دیتا ہے ۔اسے علم تھا کہ اس کے ہم سفر ، قافلے سے بچھڑے محسنؔ کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے۔اسے یقین تھا کہ ہم نشیں، محفل سجانے والے محسنؔ کو یاد کر کے روئیں گے ۔اسے معلوم تھا کہ اس شہر کی ہوائیں اس کی میت پر بین کریں گی اور اس کے وسیب کی فضائیں اس کی لاش پر بال کھولیں گی ۔یہ یقین اس لیے  کہ وہ اپنی موت کو شہادت سمجھتا ہے ۔وہ اپنی اجل کو عظمت کا نشان گردانتا ہے۔‘‘(۲۰)
ذیل کی شعری مثالوں میں عرفانِ مرگ،انکشافِ مرگ اور بعدِ مرگ  کی وہ پیش گوئیاں  موجود ہیں ،جو بعد میں حقیقت کا روپ  دھار لیتی ہیں:
؎میں بھی بجھنے کو ہوں اے قتل گہِ شہر مگر
یاد رکھے گی تری شامِ غریباں مجھ کو(۲۱)
؎یہ رونقیں یہ  لوگ یہ گھر چھوڑ جاؤں گا
اک دن میں روشنی کا نگر چھوڑ جاؤں گا(۲۲)
آج کچھ اور ہی عالم ہے پسِ قریہ ٔجاں
آج کچھ اور ہی منظر ہے سرِ سطحِ زماں
آج محرابِ دل و جاں میں کوئی عکس نہیں
حدِ امکاں پہ سرابوں کا سفر ختم ہوا
از کراں تابہ کراں زرد خلاؤں کا گماں
آج خاکسترِ امید کی تہہ یخ بستہ
شہرِ افسوس کی ہر ایک روش ویراں ہے
ٹوٹتے خواب نہ مدفون مہ و سال کی یاد
دل میں روشن کوئی چہرہ نہ خدو خال کی یاد !
دشتِ امکاں میں بس اک نقشِ فنا لہرائے
بجھتی جاتی ہے رگِ جاں میں لہو کی گردش
آنکھ میں پھیلتے جاتے ہیں قضا کے سائے
شامِ افسردہ سے کہہ دو کہ قریب آجائے
اپنے اشکوں کی مدارات رہے یا نہ رہے
لب پہ پھر حرفِ مناجات رہے یا نہ رہے

آج کے بعد ملاقات رہے یا نہ رہے
ختم ہونے کو ہے تکرارِ لب ِ افسردہ
اس سے پہلے کہ ڈھلے شامِ شبِ افسردہ
شامِ افسردہ سے کہہ دو کہ قریب آجائے (۲۳)

الوداع
الوداع!
شامِ غم کی  دکھن ‘الوداع
موسمِ ہجر کی بے ارادہ چبھن
الوداع!
دل میں کھلتے ہوئے
خواہشوں کےچمن
لب جلاتے ہوئے
ہجرتوں کے سخن
نفرتوں کی گھٹن
الوداع!
دل پہ چھائی ہوئی
دکھ کی سورج گرہن ‘
الوداع!
الوداع۔۔۔
فکرِ گور و کفن
الوداع!
دل نے مجھ سے کہا
ساعتِ فرق ہے
جانِ من الوداع!(۲۴)
؎یہ کہہ کہ روح بدن سے بچھڑ گئی محسنؔ
مجھے سکوں تری ٹوٹی ہوئی لحد میں نہیں (۲۵)
؎روح کے زخمی پرندے ‘ اب نہ سوچ
کھل گیا زنداں کا دروازہ ‘ نکل !(۲۶)
؎موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے (۲۷)
؎محسنؔ کی موت اتنا بڑا سانحہ نہ تھا
اس سانحے پہ بال ترے رائیگاں کھلے (۲۸)
؎یہ جشن جو میری موت پر ہے
اسے بھی میری برات لکھو!(۲۹)
؎اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے (۳۰)
وہ مطمئن تھے بہت قتل کر کے محسنؔ کو
مگر یہ ذکرِ وفا صبح و شام کس کا ہے (۳۱)
قضیہ یہاں آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ   اس وقت  نیارخ اختیار کر جاتا ہے جب محسنؔ اپنے قاتلوں کو بے نقاب  کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے محسنؔ کا کہنا ہے کہ عرفانِ مرگ اور انکشافِ مرگ کے ساتھ ساتھ میں اپنے قاتلوں  تک رسائی  کا بھی اہتمام کروں گااور اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر دریا میں اک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا،جس سے قاتل تک رسائی ممکن ہوسکے گی۔محسنؔ نقوی طنزیہ انداز میں اپنے عزیزوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعدِ مرگ میری لاش پہ انگلیوں کے نشان ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں  ہوگی ،کیوں کہ مجھے ابھی سے معلوم ہے کہ مجھے مارنے والے  کوئی اور نہیں ،بلکہ میرے اپنے ہی ہوں گے۔مجھے علم ہے کہ  دوست ہی مجھے قتل کے گھاٹ اتاریں گے۔غرض محسنؔ نقوی یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ میں دشمنوں سے بے وجہ بدگمان رہتا تھا،حالاں کہ مجھے قتل کرنے والے میرے اپنے ہی حواری نکلے، جنہوں نے بھرے بازار  میں میرا سینہ گولیوں سے چھلنی کر دیا  اورروپوش ہوگئے۔محمد حمید شاہد کے الفاظ میں:
’’محسن ؔ کے سر سے زندگی کا عذاب ٹل چکا ہے مگر جب   اس کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں  تو ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے اس لمحے کی بہت پہلے سے خبر تھی۔انتظار بھی تھا ۔وہ جانتا تھا کہ جس راہ پر وہ چل نکلا ہے اس کا خراج لہو ہے ۔۔۔پھر یوں ہوا کہ واقعی بھرے بازار کے بیچ مقتل سج گیا  اور محسن ؔ کا سینہ گولیوں سے فگار ہوا لیکن وہ قتل ہو کر بھی اپنے فن کی بدولت ایسی حیات پا گیا ہے  جس کی طلب میں کئی لمبی عمر پانے  والے سسک سسک  کر مرتے ہیں۔‘‘(۳۲)
ذیل کے اشعار اس بھیانک حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہیں:
؎میں اپنے ڈوبنے کی علامت کے طور پر !
دریا میں ایک آدھ بھنور چھوڑ جاؤں گا(۳۳)
؎ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ انگلیوں کے نشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو! یہ کام کس کا ہے؟(۳۴)
؎تری ہتھیلی پہ کس نے لکھا ہے قتل میرا
مجھے تو لگتا ہے میں ترا دوست بھی رہا ہوں (۳۵)
؎اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن ؔ
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے (۳۶)
محسنؔ نقوی   کی شاعری   خواہشِ مرگ ؛ انکشاف  مرگ کے حوالے  سے ایک  نیا باب  کھولتی ہے  اور حیات و موت کی داستان  سناتی ہےاور اس  کے توسط   سے نئی  حقیقتوں  کی دریافت کرتی ہے  یہ محسن  نقوی  کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے جو  نئی  حقیقتوں  کا  ترجمان  بھی ہے  اور انکشاف   کا در  وا کرنے والا بھی ہے ۔

حوالہ جات
۱۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۲۷۰
۲۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۱۳۲۶
۳۔محسن نقوی، کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۱۳۷۳
۴۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۴۶۵
۵۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۷۷۲
۶۔محسن نقوی ۔کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۳۵۴
۷۔محمد امین،ڈاکٹر، ’’محبت اور خواہشِ مرگ کا اسلوب ‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷؁ء،ص۷۵
۸۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۹۴۲
۹۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۴۱۷
۱۰۔محسن نقوی، کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۸۸۱
۱۱۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۶۸
۱۲۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۱۵۰
۱۳۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۲۶۵
۱۴۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۲۴۹
۱۵۔محسن نقوی ،کلیاتِ محسن  نقوی ،ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ،ص۱۰۲۲
۱۶۔ندیم حیدر شیخ، ’’ہمارے بعد چلی رسمِ دوستی کہ نہیں  ‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷؁ء،ص۸۴
۱۷۔محمد امین،ڈاکٹر، ’’محبت اور خواہشِ مرگ کا اسلوب ‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷ءص۷۵،۷۶
۱۸۔شمیم حیدر ترمذی،ڈاکٹر، ’’کتنے سورج بجھے،کتنے تارے گرے‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷ءص۴۷،۴۸
۱۹۔ندیم حیدر شیخ،    ’’ہمارے بعد چلی رسمِ دوستی کہ نہیں  ‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷ءص۸۶
۲۰۔شمیم حیدر ترمذی،ڈاکٹر، ’’کتنے سورج بجھے،کتنے تارے گرے‘‘،مشمولہ ، کرب ِتمام(مرتبہ شاہد ملک)، محسن نقوی اکادمی،ملتان،پاکستان،۱۹۹۷ءص۴۵،۴۶،۴۹،۵۰
۲۱۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۳۳۷
۲۲۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ء ص۱۲۶۹
۲۳۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ء ص۹۴۷،۴۸
۲۴۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ص۱۲۸۹،۹۰
۲۵۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵؁ء   ص۲۸۱
۲۶۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۹۷۹
۲۷۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۴۳۹
۲۸۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۲۱۹
۲۹۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۳۶۴
۳۰۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۷۸۷
۳۱۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ص۵۷۹
۳۲۔محمد حمید شاہد،’’محسن ،میرا محسن‘‘،مشمولہ،فرصت ،ملے نہ ملے(مرتبہ شعیب ہمیش)استعارہ پبلشرز،گلی نمبر ۶۷،جی ایٹ ون،اسلامآباد،۱۹۹۸ءص۹۴
۳۳۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۱۲۷۰
۳۴۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۵۷۹
۳۵۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۵۹۱
۳۶۔محسن نقوی کلیاتِ محسن  نقوی ماورا پبلشرز ،لاہور،۲۰۱۵ءص۷۸۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com