دِلّی کالج : تراجم کا ایک اہم مرکز
ڈاکٹر رخسانہ بلوچ،شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج  ومن یونیورسٹی، فیصل آباد
ڈاکٹر شیر علی ، الحمد اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد

Abstract:
In colonial India the colonial powers did several reforms for winning the sympathy of the Indians. The only aim behind these reforms was strengthening their political monopoly and sovereignty. The main and important one among these reforms was establishment of educational institutions. From the platform of these institutions they did a lot in the field of translations of various books to ensure the Indians that how sincere they are to them. In this scenario Dehli College was the prominent institute, which is redefined by colonial powers for achieving their goals. Several books were translated in this institute. These books were having literary, philosophical, historical, medical and of several other themes. It is a fact that these translations gave a lot to the Indians and they stepped forward towards education. This article shed light on the goals and objectives in view of the books translated in Dehli College.
ارد وادب میں تراجم کی روایت  زیادہ  قدیم نہیں  ہے  اس حوالے سے سب سے پہلے  ہماری نگاہ فورٹ ولیم کالج پر جاتی ہے  جسے انگریزوں  نے اسی مقصد کے حصول  کے لیے تعمیر کیا تھاوہ مقاصد  جلد حاصل  کر لیے گئے  اب انگریزی تسلط کی بنیادیں مستحکم ہوتی جارہی تھیں۔ بدلتے ہوئے سیاسی حالات کے تحت نئے تقاضے جنم لے رہے تھے جن کوپورا کرنے کے لیے دلی کالج قائم کیا گیا۔ یہ دراصل مدرسہ غازی الدین کی توسیعی شکل تھا۔ یہ کالج ۱۸۲۵ء میں اجمیری دروازے کے باہر اس عمارت میں قائم ہوا جہاں ۱۷۱۰ء سے ۱۸۲۴ء تک مشرقی انداز کی ایک روایتی درس گاہ ’’مدرسہ غازی الدین‘‘ قدیم طرز کی تعلیم میں مشغول رہی۔ اسے نواب غازی الدین فیروز جنگ اوّل صوبہ دار گجرات کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔ ملک میں ابتری پھیلی تو مدرسہ غازی الدین بھی اس سے متاثر ہوا۔ مالی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی اور طلبا کی تعداد کم ہوتے ہوتے ۱۸۲۳ء میں صرف نو رہ گئی۔
۱۸۲۳ء میں مجلس تعلیم عامہ کی جانب سے ایک سرکلر جاری ہوا جس میں تجویز کیا گیا کہ دہلی میں جدید انداز میں تعلیم کے لیے ایک کالج قائم کیا جائے۔ چناں چہ ۱۸۲۵ء میں مدرسہ غازی الدین کی عمارت میں کالج قائم ہوا اور جے ایچ ٹیلر کو اس کالج کا قائم مقام پرنسپل مقرر کیا گیا۔
سرچارلس مٹکاف کے حکم پر ۱۸۲۸ء میں انگریزی کا شعبہ قائم کیا گیا جس سے ہندوستانیوں کی بدگمانی میں اضافہ ہوا اور یہ خیال پختہ ہوگیا کہ انگریز حاکم ہندوستانیوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن انگریزی شعبہ کے اثر سے مشرقی شعبہ مفید علوم کی طرف بھی متوجہ ہوا۔ اس شعبے میں عربی، فارسی، فلسفہ اور منطق کے ساتھ سائنس، ریاضی، تاریخ، قانون اور دیگر جدید علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی اور ذریعہ تعلیم اردوہی تھا۔
جامع اردو انسائیکلو پیڈیا کے مطابق :
اب جو دلی کالج ہے اس کی ابتدا یوں ہوئی ۔کالج ختم ہونے کے بعد بعض امرا نے ۱۸۸۲ء میں اینگلو عربک اسکول قائم کیاجو دو سال بعد ہائی اسکول بنا اور ۱۹۲۴ء میں انٹر کالج ،۱۹۴۳ ء میں پوسٹ گریجوایٹ کالج بنا۔تقسیم ہند کے بعد ۱۹۴۸ء میں اس کو دلی کالج کا نام دے دیا گیا۔اب اس میں ایوننگ کالج بھی کام کررہا ہے ۔اور اس کا موجودہ نام ذاکر حسین کالج ہے۔
لارڈ ولیم بنٹنگ نے ۱۸۳۸ء میں تین نئے احکام جاری کیے۔ سائنس اور مغربی ادب کی تعلیم انگریزی زبان میں دی جائے، وظیفے بند کردیے جائیں، مشرقی زبانوں میں کتابوں کی تیاری اور ترجمے کا کام موقوف کیا جائے۔ لارڈ میکالے ، ولیم بنٹنگ کا دستِ راست تھا۔ان دونوں کا وار اردو زبان پر تھا۔ آخر لارڈ آکلینڈ نے گذشتہ پالیسی کو ردّ کردیا۔ اُس نے مسٹر ٹیلر کی سربراہی میں ’’اسکول بک سوسائٹی‘‘ قائم کی۔
دلی کالج پر ویسے تو بہت سا کام ہوا ہے  ،لیکن اردو دنیا میں دو کام زیادہ مشہور ہیں۔پہلا مولوی عبدالحق کا ’’مرحوم دہلی کالج‘‘ اور دوسرا مالک رام کا’’قدیم دلی کالج ‘‘۔
مولوی عبدالحق نے ’’مرحوم د ہلی کالج ‘‘ میں۱۲۹ عنوانات بنائے ہیں ،ملاحظہ ہوں :
’’*تمہید* قیام کالج کی تاریخ*انگریزی زبان کی تعلیم کی ابتدا*انگریزی تعلیم کی مخالفت*نواب اعتمادالدولہ کا وقف*کالج کی ترقی کا سال*انگریزی جماعت کی علیحدگی*اس زمانے کی دلی*ذریعۂ تعلیم (اردو)*انگریزی اور دیسی زبان*مدارس کا ذریعہ تعلیم*مشرقی شعبہ*انگریزی شعبہ*مشرقی اور مغربی زبانوں کا انضمام*عربی اور فارسی شعبوں کی مجوزہ اصلاح*سنسکرت اور ہندی کے شعبے*انگریزی شعبے کی ترقی*۱۸۴۸ء کا امتحان *ہندی*تمغہ یاب (طلبا)*سنہ ۱۸۴۹ء۔۱۸۵۰ء*ماسٹر رام چندر اور چمن لال کے عیسائی ہونے سے شہر میں ہیجان*۱۸۵۴ء*تعداد طلبا بحیثیت تعلیم زبان *تعداد طلبا بہ لحاظ مذہب*انگریزی اور اردو میں مضمون نویسی کے لئے تمغے*نیچرل فلاسفی پراردو میں لیکچر*۱۸۵۴ء اور ناظمِ تعلیمات کا تقرر*کالجوں کے قیام کا منشا*اصولِ تعلیم کا تعین*ہندی اُڑا دی جائے اور اردو کو ترقی دی جائے*لنٹنٹ گورنر کی منظوری*ہندی اردو ،دہلی کالج میں*۱۸۵۶ء کی حالت*طلبا کی تعداد باعتبار قومیت*اردو*مصارفِ تعلیم*ملازمت*شعبۂ علوم مشرقی*۱۸۵۷ء کے غدر میں کالج کاحشر*کالج کا کتب خانہ*غدر کے بعد کالج ۱۸۶۴ء میں از سر نو جاری ہوتا ہے*ایس۔پی ۔جی مشن اسکول کا الحاق دلی کالج سے *انگریزی کھیل*اخبارات کے مطالعے کی ترغیب*کالج کی جماعتیں*طلبا کی تعلیمی حالت *۱۸۶۵ء کا تعلیمی دربار*۱۸۶۵ء ،۱۸۶۶ء کی تعلیمی حالت*امتحانات*کالج میں طلبا کی چھیج*کالج کااسٹاف*۱۸۶۷ء کی تعلیمی حالت*گنبز اسکالر شپ*۱۸۶۸ء *۱۸۸۶ء ۔۱۸۶۹ء*اینگلو سنسکرت اسکول*۱۸۶۹ء۔۱۸۷۰ء*اسٹنٹ پروفیسر سنسکرت*۱۸۷۰ء۔۱۸۷۱ء*نصاب تعلیم *انگریزی شعبہ*مشرقی شعبہ*نصاب شعبۂ مشرقی(۱۸۴۵ء)*نصاب ۱۸۴۷ء شعبۂ عربی*شعبۂ فارسی *۱۸۵۳ ء کا نصاب*شعبۂ عربی*شعبۂ فارسی*نصاب سائنس کلاس *نصاب بابت ۱۸۵۰ء*نصاب بابت ۱۸۵۳ء*شعبۂ انگریزی*وظائف ،فیس،تعداد طلبا*مجلسِ انتظامی*تعطیلات*کالج کی عمارت*تالیف و ترجمہ ،دہلی ورنیکلر سوسائٹی*انجمن اشاعتِ علوم بذریعے السنہ ملکی یا دہلی ورنیکلر ٹرانسلیش سوسائٹی*سوسائٹی کے ترجموں اور تالیف کی فہرست*کالج کے اساتذہ*ٹیلر*مسٹر ایف بتروس*ڈاکٹراے اسپرنگر*جے کارگل*ایڈمنڈولمٹ*پروفیسر ایلس*مولوی مموک علی*مولوی امام بخش صہبائی*ماسٹر وزیر علی*ماسٹرامیرغنی*ماسٹر رام چندر*ڈاکٹر ضیاء الدین*ماسٹر پیارے لال *بھیروں پرشاد*مولوی ذکاء اللہ*مولوی احمد علی *میر اشرف علی*پنڈت رام کشن*ماسٹر حسینی *ہردیوسنگھ*ماسٹر نور محمد*مولوی حسن علی خاں*کالج کے بعض قدیم طالب علم*شمس العلما ڈاکٹرنذیر احمد*شمس العلما مولوی محمد حسین آزاد*شمس العلما ڈاکٹر ضیاء الدین*ماسٹر رام چندر*پتمبر*موتی لال دہلوی*بھیروں پرشاد*پنڈت من پھول*ماسٹر پیارے لال*حکم چند*نند کشور بی ۔اے*ماسٹر کیدار ناتھ*پیرزادہ محمد حسین ایم۔اے*خواجہ محمد شفیع ایم ۔اے*میر ناصر علی *مدن گوپال *ماسٹر جانکی پرشاد*دھرم نراین*شیو نراین *مولوی کریم الدین *کاشی ناتھ *آتما رام *لچھمن داس *خاتمہ
مولوی عبدالحق کی کتاب دراصل دلی کالج کی تاریخ اور ابتدا کے احوال پر مشتمل ہے ۔مالک رام نے نہ صرف ان  نامکمل معلومات کو مکمل کرنے کی کوشش کی بلکہ اس کو عصر حاضر تک ملا دیا۔یوں وہ ایک کہانی جو مولوی عبدالحق نے شروع کی تھی اسے مالک رام نے مکمل کیا۔مالک رام کی کتاب قدیم دلی کالج کے مشمولات یہ ہیں :
*مقدمہ *غازی الدین خان کا مدرسہ*کمپنی کی تعلیمی حکمتِ عملی*چارلس گرانٹ*چارلس گرانٹ کی تجاویز*ولیم ولبر فورس کی تجویز*کمپنی کا قانون:۱۸۱۳ء*دلی کا تعلیمی جائزہ*میرغلام حسین :فیلبان شاہی*معتمدالدولہ آغا میر*اعتمادالدولہ ،میر فضل علی خان*اعتماد الدولہ وقف*سید حامد علی خان*قانون ۱۸۱۳ء کی دفعہ(۴۳) کا مفاد*لارڈ میکالے کی رائے اور’’یاداشت‘‘*میکالے کی سفارشات*میکالے کے کردار کا پس منظر*لارڈ ولیم بنٹنگ کی ’’قرارداد‘‘*’’قرار داد‘‘کے اثرات*گورنر جرنل آک لینڈ کا فیصلہ*نگرانوں کا تقرر*اردو نصاب کی کتابوں کی قلت*جوزف ہنری ٹیلر*فیلکس بوترو پرنسپل*’’دلی ٹرانسلیشن سوسائٹی‘‘*سوسائٹی کے مقاصد*ترجمے کے اصول (عام)*ترجمے کے اصول (خاص)*پرنسپل بوتروکی اصلاحات*پرنسپل بوترو کا استعفیٰ اور وفات*پرنسپل ڈاکٹر الواس اشپرنگر*پرنسپل اشپرنگر کی اصلاحات*پرنسپل جان کارگل ۔بعض اصحاب کا قبول عیسائیت *نصاب کی اصلاح*پرنسپل ٹیلر کا تقرر*۱۸۵۷ء کا ہنگامہ۔ٹیلر صاحب کی وفات*کالج کا از سر نو قیام:۱۸۶۴ء*کالج کا نیا اسٹاف:ہیٹن ،ولموٹ ،کُک*۱۸۵۷ء میں پنجاب کی مدد*دلی کالج کاحشر*دلی کالج ختم:۱۸۷۷ء*سرسری جائزہ*ضمیمہ:(۱)ادب(۲)ریاضی(۳)تاریخ(۴)جغرافیہ(۵)قانون(۶)سائنس اور علوم(۷)طب(۸)زراعت(۹)مذہبیات ،اخلاقیات(۱۰)متفرقات*حواشی*کتابیات*اشاریہ (۱)اعلام (۲)بلاد و اماکن
کالج میں مسٹر فلکس بوترو نے مغربی علوم کو رائج کرنے کے لیے دیسی زبانو ں کو وسیلہ بنایا۔ اور ’’دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی‘‘ کے تحت ’’علومِ مفیدہ‘‘ کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا۔
مسٹر بوترو کے بعد ڈاکٹر اسپرنگر نے پرنسپل کا عہدہ سنبھالا تو ترجمہ و تالیف کے کام کو مزید تحرک حاصل ہوگیا۔ ڈاکٹر سپرنگر عربی زبان و ادب کے عالم بھی تھے۔ چناں چہ حماسہ ،صحیح بخاری، بہارِ عجم اور آثار الصنادید کی اشاعت اُنہی کی تحریک پر ہوئی۔انھوں نے ’’قران السعدین‘‘ کے نام سے کالج کا مجلہ جاری کیا۔ ڈاکٹر اسپرنگر مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل بھی رہے۔
ورنیکلر سوسائٹی اس کالج کا سب سے اہم حصہ تھی۔ اس سوسائٹی کی طرف سے کم سے کم ۱۲۸ کتب شائع  ہوئیں۔ اس کی خدمات فورٹ ولیم کالج سے کسی طرح کم نہیں، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ دہلی کالج کے علمی کارنامے فورٹ ولیم کالج کے کامو ں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ فورٹ ولیم کالج میں زیادہ توجہ قصوں اور داستانوں پر رہی جب کہ دہلی کالج کا سارا زور علمی کتابوں پرتھا۔ آگے چل کر سرسید کی ’’سائنٹیفک سوسائٹی‘‘ نے دہلی کالج کے اس علمی کام کو آگے بڑھایا۔
ماسٹر رام چندرکالج کے ایک اہم رکن تھے ۔ انھوں نے ٹیلر اور دیگر عیسائی مبلغین کی تبلیغ کے باعث عیسائیت قبول کرلی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انگریز ی تعلیم کے تبلیغی اثرات ہندوستان کے ذہنی مرکز تک پہنچ گئے تھےاور اب دلّی کالج کے ذریعے طلبہ میں بھی اپنا اثر نفوذ کررہے تھے۔ ثبوت کے طور پر مولوی نذیر احمد کا نام پیش کیا جاسکتا ہے جنھوں نے تشکیک اور الحاد سے عیسائیت تک کے ذہنی سفر میں کافی دور تک اپنے استاد ماسٹر رام چندر کا ساتھ دیا۔ لیکن قرآن کی تعلیم کی وجہ سے عیسائیت قبول نہ کی۔
ماسٹر رام چندر نے اصولِ علم، مثلث بالجبر، علم ہندسہ بالجبر اور تراش ہائے مخروطی مرتب کیں۔ تاریخ کو عالمی تناظر میں پرکھنے کے لیے تاریخ ہند، تاریخ اسلام، تاریخ ایران، تاریخ یونان و روما، تاریخ خاندان مغلیہ، تاریخ کشمیر، سوانح رنجیت سنگھ، تاریخ میسوری وغیرہ لکھی گئیں۔ ادبی کتابوں میں کلیلہ و دمنہ، تذکرہ شعرائے ہند، تذکرہ ہندو شعرا، جامع الحکایات، تاج الملوک و بکاؤلی، بدر منیر، شکنتلا، سودا، درد، میر اور جرأت کے دواوین اور انتخاب الف لیلیٰ وغیرہ شایع ہوئیں۔ اردو لغت اور قواعد کی کتابوں میں محاوراتِ اردو، چشمۂ فیض اور صرف و نحو انگریزی جیسی اہم کتابیں بھی شائع ہوئیں اور شاید اسی لیے ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے دلی کالج کو جدید سائنسی شعور اور ترجمہ کا اہم مرکز قرار دیا ہے۔
دہلی کالج میں ایک طرف تو جدید علوم کا تعارف کرایا جارہا تھا۔دوسری طرف انگریزی زبان میں سائنس، ادب ،فلسفہ ،اخلاقیات کے مضامین پر مبنی  کتابوں کے تراجم کرائے جا رہے تھے۔دہلی کالج اس لحاظ سے ہمیشہ کم نصیبی کا شکار رہا کہ کوئی نہ کوئی مُشکل،مصیبت،مسئلہ یا سانحہ اسے درپیش رہا۔اخراجات کے لیے مالیات کے تقرر ،عطیات ،انگریز انتظامیہ کے آپس میں اختلافات،انگریزوں کے مقامی ہندی لوگوں سے اختلافات وغیرہ ایسے اُمور تھے جن کی وجہ سے اس کالج میں دارالترجمہ عثمانیہ کی طرح کا ارتقاء مشاہدہ یا ثابت نہیں کیا جا سکتا۔یہاں تک کہ دہلی کالج کے دو استادوں نے ہندو مت چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی اور پورے ہندوستان میں انگریزوں اور دہلی کالج کے خلاف بحرانی حالات پیدا ہوگئے۔ماسٹر رام چندر اُردو میں سائنس پڑھاتے تھے اور لالہ چمن لال فرسٹ سب اسسٹنٹ سرجن دہلی تھے۔انہوں نے عیسائی ہونے کا اعلان کیا اور انگریزوں کے ساتھ دہلی کالج کی بھی شامت آگئی۔ایسی ایسی بربادیوں کے مناظر تاریخ کے صفحات پر مصور نظر آتے ہیں جن کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ان سب حالات کے باوجود دہلی کالج میں۱۸۳۵ء میں ایجوکیشنل کمیٹی قائم کی گئی۔لیکن اس کے بعد ہی ایک اورتحریک اسی غرض سے علم کے بعض سچے شائقین اور دیسی زبانوں کے ہمدردوں کی سعی اور توجہ سے عمل میں آئی اور انجمن اشاعت علوم بذریعہ السنہ ملکSociety for the Promotion of knowledge in India Through the Medium of Vernacular Languagesقائم کی گئی۔ دہلی کالج میں ایجوکیشنل سوسائٹی اوردہلی ورنیکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی نے انگریزی علوم کے اُردو تراجم کرائے ۔تراجم کے علاوہ تحقیق،تصنیف اور تالیف پر مبنی کتب مرتب کی گئیں۔ان تراجم کی تفصیل درج ذیل فہرست میں موجود ہے :-
-Wand's Analytical Geometry
-Young's Dynamicstand statics
-Webster's Hydrostslics
-Phelp's optics
-L.U.K's Heat
-L.U.K's Hydraulics
-L.U. K's Double Refractian and Polarization
-Trail's Physical Geography
-Rogett's Electricity
-Rogett's Calvanism


-
اصولِ قانون
-
تاریخ ہند (زمانہ قدیم سے تازمانہ حال)
-
اصولِ حکومت
-
اصولِ قوانین مال گزاری
-
اصولِ قوانین اقوام
-
تاریخِ انگلستان (خلاصہ تاریخ گولڈ سمتھ کا ترجمہ)
-
الجبرا(ترجمہ برجز)
-
علمِ مثلث و تراش ہائے مخروطی
-
عملی علمِ ہندسہ(پریکٹیکل جیومیٹری)
-
اصولِ علمِ ہیئت(ترجمہ علم ہیئت ہر شل ابتدائی آٹھ باب۔علمِ ہیئت بونی کیسل بارھواں باب۔تتمہ از انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا)
-
تاریخ اسلام
-
تاریخ یونان
-
تاریخ روما
-
رسالہ کیمسٹری(ترجمہ پارکر)
-
استعمال آلاتِ ریاضی
-
اٹلس (جغرافیہ)
-
قواعدِ اردو
-
انتخاب شعرائے اردو
-
انتخاب الف لیلہ
-
شمسیہ(منطق میں)
-
سراجیہ(اسلامی قانونِ وراثت پر)
-
ترجمہ گلستاں
-
قانون محمدی فوج داری(ترجمہ کتاب میکناٹن)
-
اردو لغت(یہ کتاب تیار ہوئی مگر چھپنے نہ پائی)
-
قانون مال(ترجمہ مارشمین)
-
لیلا وتی(حساب)
-
راماین
-
مہات بھارت(انتخاب)
-
نل دمن
-
دیوان سودا
-
دیوان دردؔ 
-
دیوان میر تقی میرؔ 
-
دیوان جراتؔ 
-
نیچرل فلاسفی
-
پولیٹیکل اکانومی(معاشیات ۔ترجمہ ویلنڈ)
-
تحلیلی علم ہندسہ (Analytical Geometry)
-
خلاصہ شاہ نامہ(اردو میں)
-
مبادیات تفرقی احصا و تکمیلی احصا (Elements of the Differential and Integral Colculus)
-
تاریخ ایران
-
میکانیات(لارڈنر)
-
نیچرل تھیالوجی(پیلے)
-
تاریخ اکتشافِ بری و بحری
-
محاوراتِ اُردو
-
ترجمہ تزکِ تیموری
-
ترجمہ (Smith's Moral Sentiments) 
-
یوسف خان کی سیاحت یورپ
-
جغرافیہ قدیم کے نقشے
-
اصول جبرو مقابلہ
-
مختصر خاکہ تاریخ عالم(بریف سروے آف ہسٹری از مارشمین)دو جلد
-
انتخاب پلوٹارکس لاؤز(مشاہیر یونان و روما)
-
دھرم شاستر
-
شرعِ اسلامی
-
سکپ وتھ کا خلاصہ قانون فوج داری
-
پرنسپپ کا خلاصہ قانون و دیوانی
-
مارشمین کا سول گائیڈ مع خلاصہ شرع اسلامی و دھرم شاستر
-
ضابطہ مال گزاری(مارشمین)
-
زلیخا
-
بدرِ منیر
-
لیلیٰ مجنوں
-
حدائقہ البلاغہ
-
شکنتلا
-
سنسکرت اور انگریزی ڈرامے
-
رگھو ونش(کالی داس کا ڈرامہ)
-
تعلیم نامہ
-
جامع الحکایات
-
تاج الملوک و بکاؤلی
-
اسسٹنٹ مجسٹریٹ گائیڈ
-
تاریخ خاندان مغلیہ(تیمور کے زمانے سے شاہ عالم تک)
-
فلسفہ( زیرترجمہ) (Abererombie's Mental Philosophy) 
-
نگارستان(زیر ترجمہ)
-
تاریخ چارلس دو از دہم(زیر ترجمہ)
-
جغرافیہ طبعی(ترجمہ ٹریل)
-
علم و عمل طب(عربی سے زیر ترجمہ)
-
طبعی نباتیات(زیر ترجمہ)
-
حفظان صحت(زیر ترجمہ)
-
عضویات(علم افعال عضویات)(زیرترجمہ)
-
علم معدنیات
-
تذکرہ حُکماء
-
مساحت(ترجمہ تہیوڈولک)
-
چشمہ فیض(مختصر قواعد اردو)
-
طبیعیات(ترجمہ ارناٹ)
-
صرف و نحو انگریزی(اردو میں)
-
عملی ساحت زمین
Sextant-
کا ترجمہ۔
-
ہندوستان کے پیداواری ذرائع(ترجمہ رایل)
-
سوانح عمری رنجیت سنگھ
-
رسالہ طب
-
ترجمہ ابو الفدا(تین جلدوں میں )
-
تاریخ کشمیر
-
جغرافیہ ہند
-
فرائد الدہر(تاریخ شعرائے عرب)
-
تاریخ بنگال
-
رسالہ مقناطیس(لائبریری آف یوسفل نالج کے رسالے کا ترجمہ)
-
تذکرہ ہندو شعراء
-
رسالہ جراحی(سرجری)
-
حرکیات و سکونیات (Young's Dynamics & Statics)
Webster's Hydrastalics-
کا ترجمہ
-
علم المناظر(ترجمہ فلپ، Phelp )
-
حرارت(لائبریری آف یوسفل نالج کے رسالے کا ترجمہ)
-
ترجمہ Hydraulics
-
ترجمہ Double refraction & Polarization of lights 
-
رسالہ علم برق(ترجمہ زاجسٹ)
-
گالون ازم
-
حکمائے یونان
-
حالات ہندوستان ماخوذ انسائیکلو پیڈیا آف جوگریفی مرتبہ مرے
-
ہدایت المبتدی
-
مزید الاموال یا سلاح الاحوال(علم زراعت)
-
رسالہ اصول حساب(ترجمہ ڈی مورگن)
-
ترجمہ تاریخ الحکماء ترجمہ تذکرۃ المفسرین(جلال الدین سیوطی) تذکرۃ الفقہا خلاصہ وفیات اعیان ترجمہ تاریخ ابن خلکان
-
تذکرہ شعرائے ہند
-
رسالہ طب(انگریزی سے)
-
تذکرۃ الکاملین
-
سنن ترمذی(اردو ترجمہ)
-
رسالہ ربون شادر اثبات وجود باری
-
قصہ چہار درویش معروف باغ و بہار
-
قصہ یوسف سلیمانی
-
تذکرہ سکندر اعظم
-
رسالہ احکام الایمان
-
تاریخ مسعودی
-
رسالہ مرایا مناظر(برشل صاحب)
-
تذکرہ سسرو
-
مختصر قدوری
-
تاریخ یمینی
-
کلیلہدمنہ
-
احوالالمفسرین(عبدالرحمنسیوطی)
-
تذکرہڈلموستینیز
-
فوائد الافکار فی اعمال الفرجاء

مالک رام نے مولوی صاحب کی فہرست کو موضوعات کے لحاظ سے درجہ بندی کرکے نہ صرف اس کی افادیت کو بڑھا دیا ہے بلکہ اس میں اہم اضافے بھی کیے ہیں۔تین کتابوں کے ناموں کا بھی اضافہ کیااور اس کی تعداد ایک سو اکتیس تک بڑھا دی۔
مالک رام کے کام کو آگے ڈاکٹر عبدالوہاب نے بڑھایا۔ان کی کتاب کا نام دلی کالج تاریخ اور کارنامے ہے۔یہ کتاب سندی مقالہ ہے۔اس کے پانچ ابواب ہیں ۔پہلا باب تعلیمی نظام کا تاریخی پس منظر کا احاطہ کرتا ہے جس میں ہندو تعلیم ،مسلم تعلیم ،مشنری تعلیم ،ڈین مشنری ،ڈچ مشنری ،فرانسیسی مشنری ،پرتگالی مشنری ،برٹش مشنری ،مشنری اور کمپنی جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ انیسویں صدی میں انگریزی تعلیم پر بحث کی گئی ہے۔دوسرے باب میں  مدرسے سے دلی کالج تک کی تاریخ کو بیان کیا گیا ہے ۔تیسرے باب میں دلی کالج سے ذاکر حسین کالج تک کے سفر کو بیان کیا گیا ہے۔چوتھے باب میں انٹرویوز اور پانچواں باب اختتامیہ پر مشتمل ہے۔
دیکھا جائے تو یہ تراجم تقریبا انھی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جن کے تراجم فورٹ ولیم کالج میں ہوئے تھے اور بعد ازاں یہ جامعہ عثمانیہ کے تراجم میں بھی اسی سے ملتے جلتے ہیں ۔بعد کے تراجم میں ادبی سے زیادہ علمی تراجم اور خاص طور پر سائنس کی طرف زیادہ توجہ دی گئی۔علوم جدیدہ کی ابتدا میں یہی تراجم ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اردو زبان کی تشکیل و ترقی میں اس کا ایک اہم کردار ہے۔یہ الگ بات ہے کہ انگریزوں کے نزدیک اس کا سیاسی پہلو زیادہ تھا۔نوآبادیاتی تناظر میں یہ تراجم اس نصاب کا آغاز ہیں جو لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی پر متنج ہوا۔

 

 

 

حوالہ جات
۱۔جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ادبیات،نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،۲۰۰۳ء،ص ۲۴۵
۲۔عبدالحق ،ڈاکٹر مولوی ،مرحوم دہلی کالج ،دہلی: انجمن ترقی اردو ہند ،دوسرا ایڈیشن ،۱۹۴۵ء ،ص الف تا د۔
۳۔مالک رام ،قدیم دلی کالج ،دہلی :مکتبہ جامعہ بہ اشتراک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ،۲۰۱۱ء۔فہرست،ص ۱۳تا ۱۶
۴۔عبدالحق ،ڈاکٹر مولوی ،مرحوم دہلی کالج ،دہلی: انجمن ترقی اردو ہند ،دوسرا ایڈیشن ،۱۹۴۵ء ،ص ۱۳۹تا ۱۴۵
۵۔عبدالوہاب ،ڈاکٹردلی کالج :تاریخ اور کارنامے ،دہلی :ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،۲۰۱۲ء

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com