ناول" ایک اور دریا" سماجی مسائل کے تناظر میں
ڈاکٹر مشتاق عادل اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو یونیورسٹی آف سیالکوٹ، سیالکوٹ
ڈاکٹر محمد افضال بٹ  صدر شعبہ اُردو ،جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ
ڈاکٹر حمیرا ارشاد  صدر شعبہ اُردو  لاہور کالج ویمن یونیورسٹی ،لاہور

Abstract:
Mostly novel is prevailing social problems like as poverty, conditions in factories, violence against women and specific in Villages culture of Pakistan. Novel has a major impact on the development of society. It gives us a detailed preview of human experiences. The novel "Aik aur Drya" by Muhammad Saeed Sh. is a social novel which show the reality of our society. In this article the main issues or problems are discussed.
  یوں تو ناول سماج کے ہمہ پہلوؤں کو زیر بحث لاتا ہے تاہم ناول نگار کا ایک اپنا نقطہ نظر بھی ہوتا ہے جس کے دائرے میں رہ کر وہ اپنے ناول کی تکمیل کرتا ہے۔وہ معاشرے کو جس آنکھ سے دیکھتا ہے اس کی جھلک ناول میں نمایاں نظر آتی ہے۔ محمد سعید شیخ کاناول "ایک اور دریا" موضوع کے لحاظ سے پاکستانی اردو ادب کے ان گنے چنے ناولوں میں سے ایک ہے جس میں غریب کسانوں اور مزارعوں کے مسائل و مشکلات کو موضوع بنایا گیا ہے ۔معاشرے کے یہ کردارجاندار کردار ہیں۔ معاشرہ اور خاص طور پر ہمارا معاشرہ ا نہی  کے دم قدم سے آباد ہے۔ معمولی اختلاف کا ہو جانا فطری عمل ہے لیکن دوسرے انسان کو انسان ہی نہ سمجھنا بالکل غیر فطری عمل ہے۔سماج کے ان رویوں سے متعلق ڈاکٹر محمد افضال بٹ لکھتے ہیں :
"انسانی زندگی میں باہمی اختلاف پیدا ہونا بالکل فطری امر ہے۔ ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے عدل و انصاف کا نظام وضع کیاگیا ہے جو سماج کے تمام عناصر کو اپنے اپنے مقام پررکھتا ہے۔ اس نظام میں تقاضا ہے کہ ہر سطح پر عدل انصاف کا اہتمام کیا جائے۔ یہاں تک کہ گفتگو کرنے میں بھی انصاف کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کا حکم ملتا ہے۔"(۱)
  ناول نگا رنے ناول میں بڑے عمدہ طریقے سے واضح کیا ہے کہ بے زمین کاشت کاروں یعنی مزارعوں کی اپنے مالک کے سامنے کیا اہمیت ہو تی ہے اور اگر کوئی عمر رسیدہ جاگیردار کسی مزارع کی جوان بیٹی کو اپنی بیوی بنانے کی خواہش کا اظہار کرے تو وہ انکار کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب اس پہلو کو اجاگر کیاگیا ہے کہ یہ جاگیردار اگر اپنی ہوس، حرص اور خود غرضی کی وجہ سے کسی غریب کاشتکار سے رشتہ داری قائم کربھی لیں تو انہیں دل سے قبول نہیں کرتے۔
  کہانی کا آغاز مراد پور کے جاگیردار چوہدری اللہ داد سے ہوتا ہے جو ایک شام گھوڑی پر سوار مراد پور سے گزر تا ہے تو ایک مزارعے جمال دین کی بیٹی چھیماں کو دیکھتا ہے جو دونوں ہاتھوں میں دودھ کی بالٹیاں پکڑے ہوئے ہوتی ہے۔ اگلے روز ہی منشی کرم دین ، جمال دین کو بتاتا ہے کہ چوہدری اللہ داد نے ایک مربع زمین اس کے نام کروانے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ چوہدری کی اولادنہیں ہے اور وہ جاگیر کا وارث پیدا کرنے کے لئے چھیماں سے شادی کرنا چاہتا ہے۔جمال دین ایک مربع زمین کے لالچ اور چوہدری کے خوف سے رشتے سے انکار نہیں کر سکتا۔ جمال دین کی بیوی شیداں اس لیے پس و پیش کرتی ہے کہ وہ اپنے بھتیجے نواز سے چھیماں کا رشتہ طے کرنا چاہتی ہے اور وہ اپنے بھائی کو زبان دے چکی ہے۔نواز اور چھیماں بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ چھیماں، بیگم شمیم بن کر چوہدری اللہ دادکی حویلی میں آجاتی ہے تو بھی اندر سے چھیماں ہی رہتی ہے ۔ اس کے بطن سے عرفان پیدا ہوتا ہے۔شمیم کو رات کے وقت چلنے کی عادت پڑ گئی تو ایک رات جب مجنون نواز کی آواز سن کر باہر نکلتی ہے تو نواز اور شمیم کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ عرفان اپنے باپ کو قتل کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ باپ بیٹے میں فاصلے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ چوہدری اللہ داد کی خواہش تھی کہ عرفان مقابلے کا امتحان دے کر افسر بنے مگر عرفان نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنے باپ سے نالاں رہا حتیٰ کہ چوہدری اللہ داد پر فالج کے حملہ کی خبر پر بھی وہ نہ جا سکا ۔ عرفان اس وقت پہنچا جب چوہدری فوت ہو چکا تھا۔چوہدری کے ختم پر جب عرفان نے تمام زمین مزارعین کو دینے کا اعلان کیا تو اسے مزارعے کا خونی ہونے کے طعنے بھی سننے پڑے اور ا س پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا مگر اس نے زمین مزارعوں میں تقسیم کر کے ہی دم لیا۔
  ناول نگار نے جاگیردارنہ سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ یہ طبقہ غریب مزارعوں کو انسان نہیں بلکہ جانور سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر مسلط کرتا ہے ۔کبھی بے چارے مزارعوں کی ضروریا ت اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو کبھی ان کی دلی خواہشات کی تکمیل کر کے ان کے ضمیر اور سوچ کو مردہ کیا جاتا ہے۔جب چوہدری اللہ داد مراد پور کی گلی سے گزرتے ہوئے چھیماں کو دیکھتا ہے او رمنشی کرم دین سے پوچھتا ہے کہ یہ لڑکی کون ہے تو ساتھ ہی جمال دین کے مزارعے ہونے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ناول نگار نے اس جاگیردار انہ سوچ کے حوالے سے چوہدری اللہ داد کے بیان کو یوں پیش کیا ہے :
"جمال دین کی دھی چھیماں ' سرکار' منشی نے چوہدری کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کی۔ چوہدری کچھ دیر خاموش رہا اور منشی اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا رہا۔ چوہدری اس وقت بیک وقت ملک اکرام کی گھوڑی اور جمال دین کی چھیماں کے متعلق سوچے جا رہا تھا۔ 'تم نے مجھے بتایا کہ ہماری کچھ زمین بے کار پڑی ہے ۔اس میں سے ایک مربع کا قبضہ جمال دین کو دے دو۔'  چوہدری نے منشی کو ہدایت کرتے ہوئے کہا۔ اور دیکھو یہ دیکھ لینا اس مربعے کو پانی ضرور لگتا ہو۔ بالکل ہی بنجر نہ  ،سمجھ گیا سرکار ۔اچھی زمین ہی دوں گا جمال دین کو ۔ منشی نے چوہدری کے دل کی منشا سمجھتے ہوئے کہا۔" (۲)
  پاکستان میں سیاست دان ہمیشہ قوم کے خیر خواہ ہونے کے دعویٰ کرتے ہیں۔الیکشن جیتنے کے لیے نئے نئے وعدے کر کے اور عوام کو سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں مگر جیتنے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہر آنے والے الیکشن میں سیاسی جماعتیں مزارعین کو مالکا نہ حقوق دینے کے وعدے کرتی آئی ہیں۔کئی مرتبہ زرعی اصلاحات کے نام پر اس حوالے سے برائے نام کوشش بھی کی گئی مگر سوائے اشتہار بازی اور کاغذی کارروائی کے اور کچھ نہ ہوپایا ۔مزارعوں کے حقوق کی بات کرنے والے کو منظر سے ہٹانا جھوٹے مقدموں میں پھنسا کر جیل بھجوانا اور طرح طرح کے لالچ دے کر ساتھ ملاناہمارے حکمرانوں کا طریقہ کار ہے۔اب لوگ ان سب باتوں، جھوٹے وعدوں اور عوام کو بےوقوف بنانے والے حکمرانوں کی بیان بازی کی حقیقت جان چکے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مقدر میں ہمیشہ کی غلامی لکھی جا چکی ہے اس لیے اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا ہے جس میں مزارعین کو مالکانہ حقوق دینے کا ذکر ہوتو لوگ یقین نہیں کرتے ایسے ہی جب غلام رسول نے جمال دین کو چھیماں کا رشتہ چوہدری اللہ داد کی بجائے اپنے بیٹے نواز کو دینے کی بات کی او ر کہا کہ تو زمین کے عوض بیٹی دے رہا ہے یہ اچھی بات نہیں۔تھوڑا سا صبر کرلیتا تو حکومت تمام زمین زمین داروں سے لے کر مزارعوں کو دینے والی ہے تو جمال دین نے کہا :
"کان پک گئے سنتے سنتے ۔ کب ‘ نیا قانون بنے گا؟ اب تو پاکستان بنے بھی کئی سال ہو گئے۔ ہم تو رہے سدا کے راہک ۔ جدی پشتی مزارعے ۔ ہندو چلے گئے۔ انگریز چلے گئے ۔ کوئی نیا قانون نہیں بنااور تم کیا روز اخباروں کی بات کرنے چلے آتے ہو۔" (۳)
  ان پڑھ اور جاہل مزارعے اور کاشت کارنہ پوری طرح دین سے واقف ہوتے ہیں اور نہ اخلاقیات کو سمجھتے ہیں۔ اس ماحول میں بہن یا بیٹی کی شادی کےلئے لڑکی کی خواہش معلوم نہیں کی جاتی بلکہ گائے، بھینس کی طرح جس کے ساتھ چاہا شادی کر دی ۔بعض لڑکیاں تو اندر کے دکھ اندر لیے زندگی گزار دیتی ہیں۔ایک آدھ جو بغاوت پر اتر جائے اور کسی کے ساتھ بھاگ کر من مرضی کی شادی کر لے اسے موقع ملتے ہی غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔بہت ساری عورتوں کو نفسیاتی مریضوں اورنامرد نوجوانوں کے پلے باندھ دیا جاتا ہے ۔ان میں چند ایک تو صبر و شکر سے دل کے ارمان دل میں لیے زندگی گزار لیتی ہیں اور باقی چوری چھپے دوسرے مردوں سے تعلقات استوار کر کے گمراہی کے راستے پر چل نکلتی ہیں۔ریشماں کے ساتھ بھی کچھ اس طرح کی ہی بیتی تھی اس کی شادی بشیرے سے کر دی گئی جو ازدواجی حقوق ادا کرنے کے قابل نہ تھا۔ریشماں جب میکے آئی تو اس نے گھر آکر بشیرے کی بیماری کے متعلق بتایا۔ اس کے بھائی رمضان نے ریشماں کو سسرال بھیجنے سے انکار کر دیا۔جب پنچایت ریشماں کو لینے آئی تو رمضان اور اس کی بیوی حاجراں گھر میں موجود تھے۔ حاجراں نے عورت ہوتے ہوئے عورت کے دکھ کو محسوس کیا اور کہا :
ریشماں کہتی ہے بشیرا بیمار ہے۔حاجراں ایک دفعہ پھر جرا ت کر کے بول پڑی۔ وہ ریشماں کی حمایت صرف اس لیے نہیں کر رہی تھی کہ وہ اس کی بھر جائی تھی بلکہ اس وقت وہ ریشماں کو ایک عورت سمجھ رہی تھی‘ ایک ایسی عورت جسے اپنی زندگی جینے کا حق تھا۔ اور یہ سوچ آج ہی اور شاید آج ہی کے لیے اس کے دماغ پر زور ڈال رہی تھی۔ ۔۔۔نہیں ۔یہ جھوٹ ہے۔ بشیرا بھلا چنگا ہے۔ ہم نے شاہ جی کو بھی دکھلایا تھا۔ وہ کہتے ہیں اسے کوئی بیماری نہیں اور اگر چھوٹا موٹا نقص تھا بھی تو ریشماں خود اسے سنبھال سکتی تھی۔ ہمارے ہاں عورتیں خاوند کی چھوٹی موٹی کمیاں خود ہی دور کر لیتی ہیں اور پھر بشیر ے کو مالیا خولیا تو ہے نہیں جو وہ اس کے ساتھ نہ رہ سکتی ۔"(۴)
  بےچارے کسان صبح سے لے کر شام تک اور بعض اوقات رات گئے تک محنت مشقت کرتے ہیں تب جا کر بچوں کا پیٹ بھرتا ہے ۔ یہ سیدھے سادے دیہاتی تھانہ کچہری کے چکروں سے بہت گھبراتے ہیں۔پولیس اور پٹوار کلچر سے خوف زدہ دیہاتی نقصان برداشت کر لیتے ہیں۔تھانےدار یا پٹواری کا سامنا نہیں کرتے۔ان مزارعوں ، کسانوں اور ہاریوں کے لئے نمبردار بھی خوف اور دبدبہ کی علامت ہے کیوں کہ کسی مشکل صورت حال میں یہ نمبردار کچھ دے دلا کر ان کا نجات دہندہ ثابت ہوتا ہے۔ مارشل لا کے دنوں فوجیوں کی بڑی چودھراہٹ ہوتی ہے ایک سپاہی ہی نہیں سنبھالا جاتا۔ بشیر کا باپ ریشماں کو لے جانے کے لئے جو پنچایت لایا اس میں دیگر لوگوں کے علاوہ پولیس کا حوال دار، گاؤں کا نمبردار، مسجد کا امام اور ایک فوجی جوان بھی تھا۔جوان مارشل لا کے سخت قانون سے ڈررہا تھا تو نمبردار اور حوال دار بھی اپنے انداز میں ریشماں کے بھائی رمضان کو دھمکا رہے تھے۔ مولوی صاحب نے بھی فتویٰ جڑ دیا تھا کہ جب تک ریشماں طلاق نہیں لیتی وہ بشیرے کی منکوحہ ہے اور اسے گھر بسانا چاہیے۔ ان حالات میں نہ چاہتے ہوئے بھی رمضان ریشماں سے کہنے لگا :
"میرے بس میں کچھ نہیں۔ تمہیں جانا ہی پڑے گا ریشماں ۔ان کے ساتھ پولیس ہے ، فوج ہے، نمبردارہے ،پٹواری ہے۔ یہاں تک کہ مولوی صاحب بھی یہی کہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا معاملہ مارشل لاءمیں جائے ۔ہماری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ “ رمضان نے چند جملوں میں اپنی ساری بے بسی بیان کر دی ریشماں چپ رہی ۔ پتھر بنی رہی۔ یہ دیکھ کر رمضان نے اپنے سر سے پگڑی اتاری اور وہاں رکھ دی جہاں ریشماں کی جوتی پڑی تھی اور ساتھ ہی خود وہی بیٹھ گیا۔" (۵)
  کم خواب میں ٹاٹ کا پیوند لگ جاتا ہے مگر وہ کبھی بھی اس کا حصہ نہیں بن پاتا۔چوہدری اللہ داد نے اپنی جاگیر کا وارث تو شمیم عرف شیماں کے بطن سے پیدا کر لیا مگر اس غریب کسان کو جس کی بیٹی نے اس کی دیرینہ خواہش پوری کی تھی اپنا سسر نہ بنا سکا ۔ ناول نگار نے غریبوں ، کسانوں اور مزارعوں کے اس مسئلے کو بہت خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ جاگیردار طبقہ کبھی بھی کسانوں کو اپنے قریب نہیں لا سکتا۔ ان بے چاروں کو نیچ ذات سمجھا جاتا ہے۔عرفان جب کالج کے ہوسٹل میں رہتا تھا تو ایک رات اپنے باپ کی کوٹھی پر جاتا ہے چوہدری اللہ داد شراب کے نشے میں دھت جب عرفان کو دیکھتا ہے تو اس کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے جاگیرداروں اور زمین داروں کی نظر میں کسانوں اور مزارعوں کی عزت نہیں اور وہ انہیں نیچ  سمجھتے ہے :
"یہ ۔ یہ ہمارا بیٹا ہے۔ ہماری جاگیر ہماری زمینوں کا اکلوتا وارث ۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہم ۔ہم نے ایک خوب صورت اور کم ذات کی عورت سے شادی کی اور اس نسل کو حاصل کیا ۔مگر میری یہ واحد اولاد میرے قریب نہیں آتی ۔ مجھ سے دور رہتی ہے اور اس کی ماں ۔اس کی ماں ۔ حرام ۔میرے اندر سے نہیں نکلتی۔ مر کر بھی زندہ ہے ۔اور مجھے ۔'چوہدری کی آواز بھرا گئی۔ اس نے آدھا بھرا جام منہ سے لگا لیا ۔" (۶)
  ناول نگار نے ہمارے سیاسی نظام پر روشنی ڈالتے ہوئے اس تلخ حقیقت کو بھی واضح کیا ہے کہ ان مزارعوں کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والے یہ جاگیردار اپنے ووٹرز کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ہر الیکشن میں کامیاب ہونے والے یہ لغاری، مزاری،وٹو،جتوئی،سید، مہر،ٹوانے اور دولتانے اس لیے کامیاب ہو جاتے ہیں کہ ان کی جاگیر میں رہنے والے مزارعین اور کاشت کار اپنے اپنے سرداروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں اور یہ جاگیردار کسی بھی پارٹی کے ٹکٹ سے میدان میں اتریں ،کامیاب ہو جاتے ہیں۔ چوہدری اللہ دادکی بھی اپنی رعایا کے حوالے سے رائے کچھ اس طرح کی تھی ۔ جب ایک محفل میں کچھ دوستوں نے چوہدری سے بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے حوالے سے گفت گو کی تو جواب میں چوہدری اللہ داد نے نئے نظام کی تعریف کرتے ہوئے ان غریب لوگوں کے حوالے سے کہا :
ایک ترکھان ،لوہار ،کمی کا ووٹ ایک زمین دار ،پڑھے لکھے ووٹر کے برابر تو نہیں ہو سکتا ۔ یہ بس ڈھور ڈنگر ہیں ۔ بھیڑ بکریاں ۔ رعایا ہیں۔ انہیں کیا پتہ آئین کیا ہوتا ہے، صدر کون ہونا چاہیے۔" (۷)
  ناول میں ناول نگار نے مزارعوں اور کسانوں کے اس المیے کی بھی عکاسی کی ہے کہ جاگیر دار اور زمین دار اپنی رعایا سے قتل اور چوریاں کرواتے ہیں ۔ انہیں اپنے مقاصدکے لئے استعمال کرتے ہیں اور مطلب نکل جانے پر ان کی قربانیاں بھول جاتے ہیں ۔ دوسری جانب اس حقیقت کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان جاگیرداروں او رزمینداروں کا ملک کی عدالتوں پر بھی اثر ورسوخ ہے، چاہیں تو مجرموں کو بری کروا دیں اور چاہیں تو بے گناہوں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیں ۔ "ایک اور دریا"میں شمیم بیگم اور نواز کا قتل کرنے والے شیدے کی کہانی بھی کچھ اس طرح کی ہے ۔جس کا گھر اجڑ گیا ۔ بیوی پاگل ہو گئی اور وہ خوف زدہ جیل کی سزا کاٹتا رہا ۔ جب عرفان شیدے کی بیوی کے پاس گیا اور شیدے کے بارے میں دریافت کیا تو ا س نے کہا :
" میں شید ے سے ملنے جیل گئی تھی۔ اس سے پوچھا تھا۔ وہ بولا نہیں۔ مجھ سے بات نہیں کی۔ وہ ڈرا ہو ا تھا۔ سہما ہوا تھا۔ مجھے وہ قاتل نہیں دکھتا تھا۔ دوہی پیشیوں میں اس کے مقدمے کا فیصلہ ہو گیا ۔کچھ پتا نہیں چلا۔ پھر اسے کسی اور شہر کی جیل بھیج دیا گیا۔ منشی کو بھی اس شہر کا پتا نہیں۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو کر اپنا سانس ہموار کرنے لگی یوں جیسے بہت فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچی ہو۔"(۸)
  "ایک اور دریا"میں ناول نگار نے نسل در نسل چلنے والے جاگیر دار انہ نظام کے حوالے سے عمدہ عکاسی کی ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ لوگ ذہنی طور پر ان جاگیرداروں کے غلام بن چکے ہیں ۔ انھوں نے سمجھ لیا ہے کہ ان کے مقدر میں ہمیشہ کی غلامی لکھی جا چکی ہے۔ کوئی پارٹی، کوئی سیاست دان، کوئی اعلان یا کوئی خبر ان کی تقدیر نہیں بدل سکتی اور یہ ہر شخص کی سوچ ہے جوان جاگیرداروں کی رعایا میں شامل ہے ۔عرفان جب ایک دفعہ عام لوگوں کی طرح تانگے میں سوار ہو کر شہر سے گاؤں آیا تو اس نے راستے میں لوگوں کے خیالات جاننے کے لیے تانگہ بان سے کہا کہ اب ان حویلی والوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں قانون بن رہے ہیں جن کے تحت ہر غریب آدمی کا روٹی، کپڑے اور مکان کا مسئلہ حکومت حل کر دے گی۔ عرفان کی بات سن کر تانگے والا پھٹ پڑا :
"چھوڑیں باؤ جی۔ کیا نئی حکومت ،کون سا نیا قانون ۔ ہم تو حویلی والوں کی رعایا ہیں۔ یہ بادشاہ ہیں، یہی حاکم۔ یہاں کچھ نہیں بدلے گا۔ آدھا ملک چلا گیا پھر بھی کچھ نہیں بدلا ۔اب آگے کیارہ گیا ہے۔" (۹)
  محمد سعید شیخ نے سرکاری ملازمت کے دوران اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت کئی اہم انتظامی عہدوں پر کام کیا اور بے چارے کسانوں پر ہونے والے مظالم کا قریب سے جائزہ لیا۔اس لیے ناول "ایک اور دریا"میں بھی ایسے مناظر نظر آتے ہیں جہاں ان پڑھ اور سیدھے سادے دیہاتیوں کو سرکاری اہل کاروں کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دوسری جانب ہمارے قوانین اور نظام کے حوالے سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انگریزوں کے بنائے اس نظام کی وجہ سے کسانوں کو پریشانی کا سامنا  ہے ۔درخواست کا فیصلہ مہینوں اور بعض اوقات سالوں بعد ہوتا ہے ۔ ایک میزسے دوسری تک فائل پہنچانے کے لئے لوگوں کے گھر تک بک جاتے ہیں۔ بےچارے بوٹے کو بھی اپنی زمین کا پانی منظور کروانے کے لئے ان تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا :
"مرحوم بوٹے کے نام ساڑھے بارہ ایکڑ زمین تھی جو اس نے اس وقت عارضی کاشت پر حاصل کی تھی۔ اس وقت یہ زمین ٹوئے ٹبے تھے جنہیں بوٹے نے خون پسینہ ایک کر کے ہموار کیا۔ پھر محکمہ انہار کے اتنے چکر لگائے اور نہری پٹواری اور ضلع دار کو اتنے پیسے کھلانے پڑے کہ اس کی وسوں والامکان بک گیا اور اسے اپنی زمین پر کچے کوٹھے بنا کر وہیں وسوں اختیار کرنا پڑی۔"(۱۰)
  ناول کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں کے افسران اور سیاست دان تواپنے علاج کے لیے اکثر بیرون ملک جاتے ہیں اور جو اندرون ملک علاج کرواتے ہیں انھیں بھی بڑے ہسپتال میّسر ہیں،جہاں کافی سہولتیں ہیں مگر اس کے برعکس دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں  ہیں ۔ حکومت نے دیہی علاقوں میں رورل ہیلتھ سنٹر تو قائم کر دیے ہیں مگر یہاں نہ نرسیں ہیں اور نہ ڈاکٹر اور نہ ہی ادویات بلکہ ان ہسپتالوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کا بھی باقاعدہ انتظام  موجود نہیں  ، یہی وجہ ہے کہ عملہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں لیتا ہے اور لوگوں کو صحت کے حوالے سے مشکلات در پیش ہیں ۔ اگر کبھی کوئی افسر اپنے دفتر سے نکل کر جہاں گرمی میں اے سی اور سردی میں ہیٹر میسر ہوتے ہیں ان مراکز صحت میں چھاپہ مار کر غیر معیاری سہولیات اور غیر حاضر عملے کی جواب طلبی کی کوشش کرتا ہے تو ہمارے سیاستدان سفارش کے لیے دوڑ پڑتے ہیں جب بوٹا بےچارہ ٹریکٹر کے نیچے آکر کچلا گیا تو ڈرائیور ماجے نے ٹریکٹر دوڑانے کی بجائے وہیں پر بریک لگا لی اور ا س کی جان بچانے کی کوشش کی :
"ماجا ڈرائیور جو اسے اچھی طرح جانتا تھا۔ وہاں سے بھاگا نہیں ۔اسے اٹھا کر ہسپتال لے کر گیا مگر رورل ہیلتھ سنٹر کا ڈاکٹر شہر گیا ہوا تھا۔ بوٹے کی حالت خراب تھی ۔ ماجا اسے شہر لے جانا چاہتا مگر بوٹا رورل ہیلتھ سنٹر میں ہی فوت ہو گیا۔ پولیس آئی۔ لاش کو قبضے میں لیا اور ماجے کو گرفتار کر لیا جو تیسرے دن اپنے زمین دار کی سفارش پر ضمانت پر رہا ہو کے واپس آگیا ۔ مگر بوڑھی ماں کابیٹا‘ جوا ن مریاں کا خاوند شیر خوار بچے کا باپ بوٹا واپس نہ آیا۔"(۱۱)
  غریب مزارعے ، کاشتکارا ور کسان معاشرتی جبر کاشکار ہیں۔ یہاں جاگیر دارنہ تو کسی غریب کے پاس اچھی بھینس، گائے یا گھوڑی برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کسان کی خوب صورت بہو،بیٹی کو اور جب تک مطلوبہ ہدف حاصل نہ ہو انہیں چین نصیب نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کسی غریب کاشت  کار کے رقبے سے بجلی کی لائن یا پکی سڑک گزر جائے اور اس رقبے کی مالیت میں اضافہ کی توقع ہو تو بھی ان جاگیرداروں اور زمین داروں کی نیت بدل جاتی ہے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ اس پر قابض ہو جائیں۔ پٹواریوں سے میل ملاپ کر کے گرداوری اور قبضہ کے کاغذات میں تبدیلی ان کے لئے معمولی بات ہے۔ بوٹے مرحوم کی زمین بھی پختہ سڑک بن جانے کی وجہ سے قیمتی بن گئی تھی ۔ارد گرد کے کئی لوگوں کی نظریں اس پر تھیں اور آخر کار مریاں بےچاری بھی دیکھتی رہ گئی اور خود غرض اور لالچی اپنی چال چل گئے۔
  ناول میں اس حقیقت کی ترجمانی بھی کی گئی ہے کہ ان جاگیرداروں اور زمین داروں کے دل پتھر ہوتے ہیں۔غریبوں ، کسانوں اور بیواؤں کی زمین پر قبضہ ان کے لئے معمولی بات ہے ۔ جب چاہیں اپنے غنڈے بھیج  کر کسی غریب اور بے آسرا کے مکان یا زمین پر قبضہ کر لیں نہ انھیں قانون کچھ کہتا ہے اور نہ انتظامیہ ۔بوٹے کی وفات کے بعد ماجے کو معلوم ہوا کہ وٹو بیوہ مریاں کی زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔اس نے مریاں کی ساس کو حالات سے آگاہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ مریاں عقد ثانی کرلے اور ساتھ ہی اس نے اپنے آپ کو اس سے نکاح کے لئے پیش بھی کردیا مگر جب ساس نے مریاں سے بات کی تو اس نے صاف انکار کر دیا :
"نہیں بے بے۔ مجھ سے یہ نہیں ہو گا۔ مریاں نے انکار کر دیا ۔ اس انکار سے اگلے روز رات کے وقت جب اندھیرا بہت گہرا تھا اور چورستے میں ساری دکانیں بند ہوچکی تھیں اور اردگرد کوئی ٹریفک نہیں تھی ‘سات آٹھ لوگ لاٹھیاں اٹھائے آئے اور انہوں نے چیختی چلاتی دونوں عورتوں کو مع ان کے سازو سامان کے جو زیادہ نہیں تھا ‘ اٹھا کر پکی سڑک پر پھینک دیا‘ ان کے کوٹھے زمین بوس کر دیے اور مسلح آدمی اس زمین پر بٹھا دیے"(۱۲)
  ناول"ایک اور دریا"میں محمد سعید شیخ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ہمارے سماج میں جہاں جھوٹی انا اور تکبر عام ہے اورشرافت کا معیار دولت سمجھا جاتا ہے۔وہاں غریب آدمی خواہ وہ کتنا شریف نیک نیت اور وفادار ہو اس کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔ کسی غریب کسان کو کوئی چوہدری اپنا سسر ماننے کو تیار نہیں بے شک اسی غریب کی بیٹی چوہدری کی جاگیر کا وارث پیدا کرنے کا سبب بنی ہو۔اس ناول کے حوالے سے معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید کی رائے  یوں ہے :
"ایک اور دریا، انسانی فطرت کا ناول ہے فطرت کے اس نقش کو دیہات کی فضانے استوار کیا ہے اس فضا میں خیرو شر کے کردار بیک وقت زندگی بسر کرتے اور آپس میں تصادم آرائی کرتے ہیں۔"(۱۳)
  محمد سعید شیخ کا ناول "ایک اور دریا"موضوع کے لحاظ سے انفرادیت کا حامل ہے اور دیہی زندگی کے پس منظر میں غریب کسانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کی عمدہ کاوش ہے۔ناول میں جاگیردارانہ نظام اور اس نظام کی وجہ سے کسانوں کے استحصال کا بھی ذکر ملتا ہے۔جاگیردارانہ سوچ جس کے ذریعے اپنی جاگیر کو کنٹرول کرنے اور دوسرے زمین داروں پر برتری قائم رکھنے کے لئے چوہدری اللہ داد اپنے بیٹے عرفان کو ڈپٹی کمشنر کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔ناول نگار کا مطالعہ گہرا ہے اور دیہی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے بعد وہاں کے مسائل کی عمدہ عکاسی کی ہے نیز  یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی غریب کی زمین پر راتوں رات کیسے جاگیردارقبضہ کر کے اپنے گماشتے وہاں بٹھا دیتے ہیں اور پٹوار کلچر کی بھیانک تصویر بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ کس طرح ساز باز کر کے غریب بیوہ کے رقبے کی گرداوری راتوں رات ایک زمین دار کے نام کر دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ناول ان چند ناولوں کی فہرست میں اہم مقام کا حامل ہے جس میں کسان کے مسائل اجاگر کیے گئے ہیں۔

 

حوالہ جات
۱۔         محمد افضال بٹ، ڈاکٹر، اُردو ناول میں سماجی شعور(طبع دوم)، پورب اکادمی، اسلام آباد، ۲۰۱۵ء،                   ص: ۲۱
۲ ۔        محمد سعید شیخ ، ایک اور دریا ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، ۲۰۰۲ء،ص:۶ ۵
۳۔        ایضاً،ص: ۷۳
۴۔        ایضاً،ص:۸۸ ۱
۵ ۔        ایضاً،ص: ۹ ۸ ۱
۶ ۔        ایضاً،ص: ۲۰۸
۷۔        ایضاً،ص:۱۱ ۲
۸۔        ایضاً،ص:۹ ۲۱
۹ ۔        ایضاً،ص:۰ ۸ ۲
۱۰۔       ایضاً،ص: ۴۰۱
۱۱۔        ایضاً،ص:۲ ۰ ۴
۱۲۔       ایضاً،ص: ۴۰۵
۱۳۔       انور سدید، اردو ناول کے رنگ، مقبول اکیڈمی، لاہور،  ۲۰۱۴ء، ص: ۲۱۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com