مجید امجد کی شاعری میں شاماتی پیکر تراشی
سدھیر احمد   پی۔ ایچ ڈی سکالر،ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
ڈاکٹر نذر عابد    صدر شعبۂ اردو، ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ

Abstract:
Different types of imagery are used by poets to reflect feelings and emotions and to narrate events and incidents. These types of imagery are classified on the basis of different human senses as visual, auditory, tactile and olfactory. Majeed  Amjad is one of those poets who used this artistic tool to present his delicate thoughts which are created as a result of his poetic experiences and observations. Besides visual, auditory and tactile, there are so many examples of olfactory imagery in his poems. This aspect of his poetry has been discussed and analyzed in this article .    
اردو شعری منظر نامے میں امیجری کے حوالے سے جو شعرا ءوقار و اعتبار کے حامل ٹھہرے ہیں ان میں بطورِ پیکر تراش شاعر مجید امجد کا نام بھی نمایاں تر ہے۔ مجید امجد کی شعری کائنات کا مطالعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ انھوں نے تیز حس ِ مشاہدہ اور باریک بین تخیل کی بدولت زندگی کے حقائق کو تمثالی صورت میں اپنے نظمیہ سانچے میں ڈھالا ہے۔ ان کے ہاں حسیاتی سطح پر پیکروں کی تشکیل میں سامعہ و باصرہ کی جلوہ گری کے ساتھ ساتھ شامہ، لامسہ اور ذائقہ جیسی حسیات کی کارفرمائی بھی اپنی بھر پور ہمہ گیریت اور شمولیت کا احساس دلاتی ہے۔
 مجید امجد کی متحرک حس شامہ کے توسط سے تجربات و مشاہدات کی خاص شکلیں جب حسیاتی سطح پر جلوہ گر ہوتی ہیں تو لفظوں کی ایک مہکتی کائنات وجود میں آتی ہے اور پھر فکر کی گہری رمزیت کے ساتھ ساتھ ان کے شاماتی پیکروں میں جمالیاتی چاشنی بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ان کے ہاں خوشبو کا یہ احساس ایک جگہ شاماتی تمثالوں میں یوں ڈھلا ہوا ہے:
وہ پھولوں کے گجرے جو تم کل شام پرو کر لائی تھیں
وہ کلیاں جن سے تم نے یہ رنگیں سیجیں مہکائی تھیں(۱)
یہ شعر شاماتی سطح پر متخیلہ کی انوکھی کارگزاری کا پر تاثیر نمونہ ہے۔ پھولوں کے گجرے خوشبو کی لطافت کے احساس کو اجاگر کر کے مشامِ جاں کو معطر کرتے ہیں اور کلیوں کی مہک سے ایک خوشگوار احساس شامہ کو بہجت آمیز لذت سے دوچار کرتا ہے۔ قاری کو لفظ لفظ سے خوشبو چھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور شامہ کی سطح پر متحرک تمثالیں خوشبو سے بھر پور فضا کی تصویر بندی کرتی ہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ نکہت و رنگ کا احساس شاماتی امیج میں یوں ابھرا ہے۔
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول!
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں(۲)
زلفوں سے گرنے والے باسی پھول نہ صرف محبوب کی مہکاری تصویر متشکل کرتے ہیں بلکہ خوشبو کا یہ لطیف احساس قاری کی حس شامہ کو بھی مرتعش کرتا ہے اور اس جذباتی و کیفیاتی منظر میں احساسِ جمال اجاگر کرتا ہے۔ محسوساتی سطح پر محبوب کے کان کا بُندا ہونے کی یہ خواہش شاعرانہ نقش گری کا کمال معلوم ہوتی ہے جہاں ہر منظر جمالیاتی چاشنی اور رومانوی احساسات سے معمور نظر آتا ہے۔ اس منظر کا کامل نقش محبوب کے مہکے ہوئے بستر کی سلوٹوں میں شوق اور گھبراہٹ کے عالم میں بُندے کی تلاش سے نقش ہوتا ہے جہاں قاری کو نہ صرف نکہتِ گل سے اپنی شامہ متحرک محسوس ہوتی ہے بلکہ پورا منظر شاماتی سحر میں گرفتار نظر آنے لگتا ہے۔اور بلاشبہ یہ شاماتی پیکر زندگی کے احساس سے عبارت ہیں۔
 اسی طرح ایک اور شعر میں بوئے گل شاماتی حس کو یوں مرتعش کرتی ہے:
سینکڑوں ناشگفتہ پھولوں کی بو
تم نے اس گلستاں میں بھر دی ہے(۳)
بیان کی سطح پر یہ شعر مجید امجد کی جودت طبع اور اختراعی ذہن پر دلالت کرتا ہے جس میں مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے لیے ’’ناشگفتہ پھولوں ‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔ حس شامہ کو متحرک کرنے والا یہ امیج قاری کو محسوساتی سطح پر شگفتگی کا احساس دلاتا ہے اور ’’گلستاں ‘‘ کی مناسبت اس رنگ و بو سے معمور چمن کی تصویر کو مزید اجاگر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ شہیدانِ وفا کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ انداز نہ صرف انوکھا اور منفرد ہے بلکہ اپنے معنوی ارتفاع کے باعث تاثیر سے بھی دو چند دکھائی دیتا ہے۔ ایک اور شعر میں خوشبو کو تجریدی بیان میں یوں ڈھالا گیا ہے۔
تم اچھے ہو ان زلفوں سے، جن کی ظالم خوشبو
پھولوں کی وادی میں ناگن بن کر ڈسنے آئے(۴)
زلفوں کی خوشبو سے شاماتی سطح پر حسن والوں کو زلفِ معنبر کا مرئی پیکر ابھارا گیا ہے اور پھولوں کی وادی خوشبو کے احساس کو مزید اجاگر کرتے ہوئے معطر فضا کی تصویر نقش کرتی ہے مگر شاعر کے سوزدروں کے باعث قاری حسن والوں کی بے اعتنائی سے چونک اٹھتا ہے اور خوشبو کا احساس کریہہ صورت اختیار کرتے ہوئے مشمومی پیکروں میں ڈھلتا ہے۔
 اسی طرح کی شاماتی تمثالیں ایک نظم کی سطور میں تجریدی و تجسیمی کیفیات کی آئینہ دار ہیں۔
کنارِ دل سے حدِ افق تک، تمام بادل گھنیرے بادل،
شراب کی مستیوں کے جھونکے، گلاب کی پنکھڑیوں کے آنچل،
خیال، رم جھم! نگاہ، جھل تھل
پھر ایک اجڑے ہوئے تبسم کے ساتھ ہر سو
تلاش میں ہے گلوں کی خوشبو
کبھی پسِ در، کبھی پس کو (۵)
منقولہ نظم کی ان سطور میں تجرید کی تجسم کا ایک منفرد انداز موجود ہے۔ ’’شراب کی مستیوں کے جھونکے‘‘  خمار اور کیف و سرمستی کی کیفیات لیے ہوئے اپنی بو سے شامہ کو تحریک دیتے ہیں جب کہ پنکھڑیوں کے ہوا میں لہراتے آنچل پوری فضا کو مسحور کیے ہوئے شاماتی پیکروں کی صورت میں مشامِ جاں کو معطر کرتے ہیں۔ اگلی سطور میں گلوں کی خوشبو کا تبسم بھی تجریدی نوعیت کا شاماتی پیکر ابھارتا ہے اور ایک رومان پرور فضا تخلیق کرتے ہوئے شاعرانہ افکار کی ترسیل کا ذریعہ ٹھہرتا ہے۔
مجید امجد کا کلام زندگی اور کائنات کی سحر آفریں جھلکیوں پر مبنی ہے۔ وہ خارجی مشاہدات اور داخلی کیفیات کے باہمی ارتباط سے کیف آور تمثالیں تشکیل دیتے ہیں۔ ان کی سحر انگیز تمثالوں میں لفظی دروبست ایک وحدت کی صورت میں متشکل ہو کر حقائق کی باز آفرینی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور زندگی کے عوامل ذوق بخش تمثالوں کی صورت میں ابھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ماحول اور مناظر سے خوشبوئیں کشید کرتے ہیں اور حسن کشیدگی کا یہ اظہار قاری کو مسرت و بہجت سے دوچار کرتا ہے۔ مجید امجد کے اس وصف کے حوالے سے شاہد شیدائی یوں رقمطراز ہیں:  
’’مجید امجد کے شعری اطلس دھرتی کے تار پود سے تیار ہوا ہے جس کی ملائمت اور سوندھے پن نے ہر طرف اپنا جادو جگا رکھا ہے۔ ان کی لفظیات اور امیجری میں ہمارے ارد گرد پھیلے ہوئے شہروں، کھیتوں، کھلیانوں، جنگلوں، پہاڑوں، میدانوں، دریاؤں اور سبزہ زاروں کی خوشبو کچھ اس طرح منفرد انداز سے رچی بسی ہے کہ تخلیقات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو اپنا پورا وجود مہکتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔‘‘(۶)
مجید امجد کی شاعری میں دھرتی کی بو باس رچی بسی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا تمثالی اسلوب مناظر فطرت، تجرباتِ انسانی اور زندگی کے محسوسات سے رنگ و بو کے حامل تمثالی مرقعے تراشتا ہے اور شامہ کے لیے شگفتگی اور طراوت کا سامان مہیا کرتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ سے تعمیر شدہ نگار خانے صورت، صوت، ذائقہ، لمس اور خوشبوؤں کی حسیاتی تصویروں سے مزین ہیں۔ یہ تصویریں اتنی واضح ہیں کہ ان میں شاعرانہ تجربات و مشاہدات اور کیفیات حیات کے نقوش واضح طور پر دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔اسی طرح کے شاماتی پیکر ایک نظم میں یوں سامنے آتے ہیں۔
تم سے تو یہ ڈسنے والے کانٹے اچھے، ہنستے پھولو!
ظالم پھولو! کتنے پیاسے خوابوں کے بے تاب ہیولے
کتنی زندگیوں کے بگولے، تمھاری خوشبوؤں کے جھولے
میں گھومتے لمحوں کے لب چوم کے اپنا رستہ بھولے
تم سے تو یہ کانٹے اچھے ۔۔۔(۷)
ہنستے پھولوں سے جہاں شاعر نے تجریدی تجربے کو مجسم کیا ہے وہیں رنگ و بو کا احساس شامہ کے تحرک کا بھی سبب بنتا ہے۔ یہ پیکر شخصیتوں کے تضاد اور منافقانہ طرز عمل کی مکمل تصویر  نقش کرتا ہے جس میں ظاہری حسن سے فریب کھا کر رستہ بھٹکنے کی کیفیت نمایاں ہے۔خوشبو کا جھولا بھی تجریدی نوعیت کی شاماتی تمثال ہے جس میں شاعر کا سوزِ دروں شامل ہو کر معنوی تہہ داری پیدا کرتا ہے اور شخصیاتی تضادات کی تصویریں ابھار کر حقائق کی بازیافت کرتا ہے۔
 اسی طرح ایک منظر کے بیان میں مجید امجد نے خوشبو کے احساس کو یوں اجاگر کیا ہے۔
چیل کے اُف یہ بے شمار درخت
اور یہ ان کی عنبریں بو باس
سنبلیں کونپلوں سے چھنتے ہوئے
یہ نسیمِ شمال کے انفاس (۸)
ان مصرعوں میں منظری بیان سے شاعر نے خوشبو کا امیج قاری کے ذہن پر نقش کیا ہے۔ رنگ و بُو سے انسیت اور حسِ شامہ کی تیزی کے باعث شاعر کو ہر منظر، ہر لمحہ خوشبوؤں سے اٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چیل کے درختوں کی عنبر بو باس شامہ کو اس قدر تحریک دیتی ہے کہ رگ و پے میں خوشبو اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور نسیمِ شمال کے انفاس تجریدی سطح پر کونپلوں کے شاماتی تجربہ کو ابھار کر امیج تشکیل دیتے ہیں۔ ابلاغ کے نت نئے وسیلوں کی دریافت کے ساتھ ساتھ یہ تمثالیں متخیلہ کی انوکھی کارگزاری کا بین ثبوت بھی ہیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر گاؤں کا منظر شاماتی تمثالوں میں یوں ڈھالا گیا ہے۔

یہ کھیت، یہ درخت، یہ شاداب گردوپیش
سیلابِ رنگ و بو سے یہ سیراب گردو پیش
مست شباب کھیتوں کی گلفشانیاں
دوشیزۂ بہار کی اٹھتی جوانیاں ) ۹)
شاعر نے گاؤں کے منظر کو دلکش انداز میں نقش کرتے ہوئے متاثر کن شاماتی تمثالیں ابھاری ہیں۔       ’’سیلابِ رنگ و بُو‘‘ کی ترکیب سے خوشبو کا ایک پورا منظر نامہ نقش کرتے ہوئے حسِ شامہ کو تحریک دی گئی ہے۔ ’’دوشیزۂ بہار‘‘ کی تجریدی تصویر اس منظر کے نقوش کو مزید اجاگر کرنے کا سبب بنی ہے اور اس پس منظر میں کھیتوں کی گلفشانیاں مشمومی پیکروں کی تشکیل کا عمدہ انداز ہیں جو اس کیفیتی حسن ِ فطرت کو شامہ پر مصور کرنے کا باعث ہے۔ ایک اور شعر میں محبوب کی زلفوں کی بو کو کنایۃً شاعر نے یوں برتا ہے:
سونگھنی ہے تیری زلفوں سے ابھی بوئے جنوں
ابھی دامن کے پھٹے تار سے ناواقف ہوں(۱۰)
منقولہ شعر میں شاعر کی داخلی کیفیات آشفتہ بیانی کے قالب میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ ’’بوئے جنوں‘‘ کی کلیدی ترکیب شاماتی سطح پر کنایہ کے توسط سے عشق و محبت کی کیفیات کو مجسم کرتی ہے اور آشفتہ سری کی کیفیات کو مصور کرتی ہے۔ زلفِ معبنر کو سونگھنے کا یہ انداز مشامی پیکروں کے ابھار کے ساتھ ساتھ قاری کی حسِ شامہ کو بھی مہمیز کرتے ہوئے شاعر کی جذباتی کیفیات کی شدت سے آگاہی کا سبب ہے جہاں ایک کرب آمیز تمنا قدرے نشاطیہ رجحان کے ساتھ تمثالوں میں ڈھلی ہوئی ہے۔  اسی طرح کی معطر تصویریں ان اشعار میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
کلی جب ہے شبنم کے جھومر سے سجتی
مری روح میں کس کی کی بنسی ہے بجتی؟
گلستاں میں جب پھول کھلتے ہیں ہر سُو
مجھے کس کی زلفوں کی آتی ہے خوشبو؟(۱۱)
کلی، پھول اور گلستان بنیادی طور پر شاماتی حس کو تحریک دینے والے ایسے مشمومی پیکر ہیں جو انواع و اقسام کی خوشبویات سے مشامِ جاں کو معطر کرتے ہیں مگر خوشبو کے اس تاثر کو گہرا اور دیرپا بنانے کے لیے شاعر نے پیش منظر میں زلفوں کی خوشبو کا شاماتی پیکر تراشا ہے اور صنعتِ حسنِ تعلیل کی صورت میں اس پورے منظر نامے پر زلفِ یار کی خوشبو کا عکس نمایاں تر دکھایا ہے۔ پہلے مصرعوں میں تجریدی خیال کو مجسم کرتے ہوئے بانسری کے صوتی تاثر سے روحانی بالیدگی کا احساس جنم لیتا ہے جب کہ آخری مصرعوں میں قاری کے جذبات کی تسکین و تطہیر کے لیے زلفِ معنبر کی توجیہہ سے شاماتی تاثر دو چند کیا گیا ہے۔ ایک اور جگہ خوشبو کی شاماتی تمثال جمالیاتی روپ میں یوں ڈھلی ہوئی ہے۔
تیرے خیال کے پہلو سے اُٹھ کے جب دیکھا
مہک رہا تھا زمانے میں سو بہ سو ترا غم(۱۲)
یہ شعر تصورِ محبوب کی فسوں کاری کا ایسا دلکش پیکر ہے کہ ساری کائنات غمِ جاناں کی مہکار میں غرقاب محسوس ہوتی ہے۔ شاعر محبوب کے حسن کے خوشبویاتی جلوؤں سے اس قدر مانوس معلوم ہوتے ہیں کہ ہر سو زمانے میں غمِ جاناں کی خوشبو پھیلی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اس کے جذبات و احساسات حسی سطح پر مشامی پیکروں میں متشکل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کی شاماتی تصویر ایک اور شعر میں یوں تشکیل پاتی ہے۔
فریب رنگ و بو ہے اور تم ہو
بہارِ صد خزاں ہے اور میں ہوں(۱۳)
بہار و خزاں کی متضاد کیفیتوں سے شاماتی سطح پر تراشی گئی یہ تمثالیں شاعرانہ کرب و اضطراب کی اظہاری صورتیں ہیں۔ رنگ و بو کا احساس جہاں باصرہ نوازی کا سبب ہے وہیں بُو کا تصور حس شامہ کو بھی پھڑکاتا ہے اور شاعرانہ جذبات کی صورت میں بہار و خزاں کی تمام تر کیفیتیں شاماتی پیکروں میں ڈھل جاتی ہیں۔ پہلے مصرع میں ’’فریب رنگ و بو ‘‘ کی ترکیب سے جو امیج تشکیل پاتا ہے اسے دوسرے مصرع میں ’’بہار صد خزاں ‘‘ کے دیرپا شاماتی تاثر سے مزید اجاگر کیا گیا ہے۔
مجید امجد کے ہاں متعلقات زندگی کا تمثالی بیان اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ وہ شاعری کو نئے ذائقوں اور امیجری کو نئے سلیقوں سے آشنا کرنے والے منفرد تخلیق کار ہیں۔ ان کے ہاں نوع بہ نوع تمثالوں کا ایک نگار خانہ آباد ہے جس میں زندگی، ماحول اور مناظر کی مختلف حسیاتی صورتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں رنگا رنگ پیکروں کی تخلیق کے حوالے سے ڈاکٹر سید عامر سہیل لکھتے ہیں:
" مجید امجد کے یہاں بصری، سمعی، شامی اور ذوقی پیکر (ذائقہ سے متعلق)کہیں انفرادی اور کہیں اجتماعی شکل میں جلوہ گر ملیں گے اور اپنی وسعت پذیری میں یہ پیکر اپنے سے منسوب خصوصیات کے تضادات اور ان کےتلازمات کے ساتھ فکری بنیادوں کو مضبوط دکھائی دیں گے"۔ (۱۴)
مجید امجد کی مصورانہ شاعری مناظر فطرت اور مظاہر حیات کی ایسی تصویر کشی ہے جس میں شاعر کے ساتھ ساتھ قاری کے تجربات و مشاہدات بھی زندہ اور متحرک صورتوں میں جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ وہ الفاظ کے موزوں انتخاب اور فنکارانہ دروبست کے باعث گرد و پیش میں پھیلی ہوئی مجرد اشیاء ، مظاہر اور کیفیات کو بھی اس مہارت سے تجسیمی صورتیں عطا کرتے ہیں کہ ان پر حقیقت کا گماں ہوتا ہے اور لفظ آوازیں ، رنگ، ذائقے اور خوشبوئیں دینے لگتے ہیں۔مجی امجد کے ہاں امیجری کی سماعی اور باصراتی صورتوں کے علاوہ شاماتی پیکروں کا بھی ایک وافر ذخیرہ موجود ہے جو حسِ شامہ کو مہمیز کرتے ہوئے ان کے اسلوب کی ندرت و تنوع کا احساس دلاتا ہے اور ان کی تصویری البم کو معطر کرتا ہے۔
ایک شعر میں شاماتی سطح کی تصویریں استحصالی رویوں کے بیان میں ان کے جذبات و احساسات کی یوں عکاسی کرتی ہیں۔
کتنے کرگس ، جن کو مرداروں کی بو
کھینچ لائی ہے سر دیوارِ باغ!(۱۵)
مجید امجد کا یہ تمثالی پیکر حسیات، تخیل اور جذبے کی مجسم تصویر ہے۔ شاعر نے کمال مہارت سے اس شاماتی تمثال میں بو کی کیفیت کو مرداروں کی بو سے واضح کیا ہے۔ اس تعفن زدہ ماحول کی تصویر کشی میں حسِ شامہ کی تحریک اس قدر نمایاں ہے کہ کر گس کے تذکرے کے بغیر بھی پس منظر میں استحصالی رویوں اور حرام خور لوگوں کی تصویر واضح جھلکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ باغ کا تذکرہ مادرِ وطن کے استعارہ کی صورت میں نمایاں ہو کر شامہ پر نکہت ریز ہوتا ہے اور حسِ شامہ کی آمیزش ان پیکروں کو ایک نیا روپ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ معنوی تہہ داری کا بھی باعث بنتی ہے۔
مجید امجد کے ہاں دیگر حسی تاثر پاروں کے باوصف شاماتی پیکر بھی توجہ کی مرکزیت کا باعث ہیں۔ ان کے مشمومی پیکر زندگی کے احساس سے عبارت ہونے کی وجہ سے حس شامہ کو بیدار کرتے ہیں اور زندہ تصویروں کی صورت میں اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ اسی طرح ایک نظم میں تجریدی امیجز کی تجسیم شاماتی سطح پر یوں کی گئی ہے۔
آج کہاں ہیں سب لوگ
اب تو ان کی بو تک بھی،
شہر ابد کے تہہ خانوں سے نہیں آتی،
باقی کیا ہے، ۔۔۔۔ صرف
سورج کی اک چنگاری ۔۔۔۔
اور اس چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی،
جس کی ہر پتی کا ماس
فرد۔۔۔! عصر۔۔۔! حیات ۔۔۔!(۱۶)
نظم کی ابتدائی سطور کا آغاز ہی ’’بُو‘‘ کے شاماتی امیج سے ہوا ہے جو مجاز مرسل کی سطح پر زندگی کی بے نامی اور فنا کے تصور کی مکمل تصویر ہے۔سورج کی چنگاری کے دل میں دھڑکنے والی کلی سے زندگی کی رمق کا احساس نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ شامہ پر بھی عنبر فشانی کا تاثر پڑتا ہے۔ ’’پتی کا ماس‘‘ بظاہر تجریدی کیفیت کا نقش ہے جس میں فرد، عصر اور حیات کی بے ثبات گردش نمایاں نقوش میں ڈھلتی ہے مگر ’’پتی‘‘ بذاتِ خود شاماتی سطح پر خوشبو کے احساس کو جنم دیتے ہوئے مشمومی پیکر میں ڈھلی ہوئی ہے۔
مجید امجد کے بصری اور سماعی پیکروں کی مانند ان کی شاعری میں موجود شاماتی مرقعے بھی قاری کی احساسِ مسرت و بہجت سے ہمکنار کرتے ہیں۔ ان کے یہاں پھولوں کی عنبر فشانیوں اور محبوب کی زلفِ معنبر کی نکہت ریزیوں کے ساتھ ساتھ خوشبو اور بدبو کی دیگر صورتیں بھی خوشگوار و ناخوشگوار احساسات میں ڈھلی ہوئی ہیں۔
بحیثیت مجموعی  مجید امجد کی شاعری میں شاماتی پیکروں کا وجود محسوساتی حسن اور دلفریب نکہتوں سے مزین ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک فطرت شناس اور بیدار حس شاعر ہیں اور زندگی کا کوئی بھی گوشہ اور کوئی بھی زاویہ ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو پایا۔ درحقیقت ان کے ہاں لفظوں کی ایک ایسی مہکتی کائنات حسن اور خوشبوؤں کے روپ میں جلوہ گر ہے جس کے سبب اس کے شاماتی پیکر زندگی کے احساس کے ساتھ ساتھ جمالیاتی چاشنی سے بھی بھر پور نظر آتے ہیں۔
حوالہ جات
۱۔         خواجہ محمد زکریا، مرتبہ ’’کلیاتِ مجید امجد ‘‘ الحمد پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۴ء، ص۴۵
۲۔        ایضاً، ص  ۴۹
۳۔        ایضاً، ص ۶۵
۴۔        ایضاً، ص ۷۹
۵۔        ایضاً، ص۸۱۳۱
۶۔        شاہد شیدائی، ’’مجید امجد کی نظم نگاری ‘‘ مشمولہ ’’کاغذی پیرہن ‘‘ لاہور، جلد نمر ۸، ۷ ، مئی جون ۲۰۱۲ء، ص۴۳
۷۔        خواجہ محمد زکریا، مرتبہ ’’کلیات  مجیدامجد‘‘ ص ۱۲۴
۸۔        ایضاً، ص ۱۸۳
۹۔         ایضاً، ص ۱۸۸
۱۰۔       ایضاً، ص ۱۹۸
۱۱۔        ایضاً، ص۲۱۶
۱۲۔       ایضاً، ص ۳۲۲
۱۳۔       ایضاً، ص ۲۷۰
۱۴۔       سید عامر سہیل، ڈاکٹر، ’’مجید امجد : نقش گر ناتمام ‘‘ پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سو سائٹی، لاہور،                       ۲۰۰۸ء، ص۳۴۸
۱۵۔       خواجہ محمد زکریا، مرتبہ ’’کلیات  مجیدامجد‘‘ ص ۲۶۴
۱۶۔       ایضاً، ص ۴۶۴

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com