مظہر ؔجان جاناں  اور اصغر ؔ گونڈوی کی شاعری میں تصوف کا  تحقیقی اور تقابلی جائزہ
مسلم شاہ پی ایچ ڈی اردو اسکالر ، شعبہ اردو جامعہ پشاور
ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری ، شعبہ اردو جامعہ پشاور

Abstract:     
litrature and mysticism are deeply inter-connected in the world. There is also inter-dependence between poetry and mysticism. That is why particularly Ghazal-poets have assigned a prominent stature to mysticism in their poetry. The names of Asghar Gondvi and Mazhar jani jana are also among those poets who gave vital importance to mysticism in their works. In this research paper the researchers has done the detailed comparative analysis of tasawwaf regsarding to  Asghar Gondvi and Mazhar jan e jana.
Key words:      Mazhar jan e jana, Asghar Gondvi,poetry, mysticism,comparisons, Ghazal.
کلیدی الفاظ: مظہر جانِ جاناں، اصغر گونڈوی ، شاعری ، تصوف ، تقابل ، غزل
تصوف ایک خدا سے دل لگانے کا دوسرا نام ہے۔ اسلامی تصوف ہمیں دنیاوی محبت کے بر عکس اخروی زندگی سے محبت سکھاتی ہے ۔ اس لیے ایک ایسا  طرز حیات  جس میں جسم کی آسائشیں اوردنیا کی رنگینیا ں روح کے تقاضوں پر قربان کر دی جائیں  ،اسے تصوف کہتے ہیں ۔ اس لیے تصوف کی تعریف اظہر اللغات میں کچھ  اس طرح درج ہے:
" دل کو نفسانی خواہشات سے پاک کرنا ، معرفت نفس ، تزکیہ نفس کا قاعدہ        اور اپنا دھیان خدا کی طرف پھیرنا  تصوف کہلاتاہے۔" (۱)
اس لیے جب انسان اپنی خواہشات کو اللہ کی خوشنودی و رضا کے لیے قربان کر دے اور اپنا جان و مال دین اسلام کے لیے وقف کردے تصوف کہلاتا ہے ۔ ادب اور تصوف کا جہاں چولی دامن کا ساتھ ہے وہاں شاعری نے بھی ہر دور میں تصوف کو اپنے دامن میں  سمویا ہے۔ خاص طور پر غزل گو شعراء نے اپنے افکار اورخیا لات کو جامع انداز میں بیان کرنے کے لیے تصوف کا سہارا لیا ۔  کیونکہ زمانہ ء قدیم سے غزل گو شعراء نے اپنے جذبات اور افکار کو عوام و خواص تک پہنچانے  کے لیے  غزل کو  وسیلہ بنایا ۔ غزل اپنے اندر دنیا جہاں کے مضامین کو جذب  کرنے کی منفرد صلاحیت رکھتی ہے۔ وہاں اس نے  تصوف کو  بھی قبول عام بخشا ۔کیونکہ کلاسیکی دور میں تصوف اور شاعری ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔اس لیے جہاں غزل گو شعراء نے تصوف کو اپنے  اشعار خاص طور پر غزل میں صوفیانہ مضامین کو بیان کیا ۔ ان شعراء میں مظہرؔ جان جاناں اور اصغر ؔ گونڈوی کے نام اہم ہیں۔
مظہر ؔ جان جاناں کا  تعلق کلاسیکی دور کے  شعراء   سے ہے ۔  آپ کا دور بر صغیر پاک و ہند کے زوال پذیر معاشرے کا وہ دور تھا جہاں ہر طرف عیش و عشرت اور رنگ و طرب کا ماحول گرم تھا۔ حکمران اور سلاطین عیش کوشی میں  اس طرح مشغول تھے کہ امور  سلطنت سے  بے خبر تھے۔ نادر شاہ کے حملوں نے  عوام کے دلوں میں خوف خدا پیدا کیا ۔ اور  جنگ و جدل نے لوگوں میں دنیا کی بے ثباتی او ر احساس فنا کا شعور پیدا کیا ۔ اس لیے بہت سے شعراء اس دور میں تصوف میں پنا  ہ ڈھونڈنے لگے ۔ جس میں اس دور کے مشہور شاعر خواجہ میر دردؔ کے علاوہ  مظہر ؔ جان جاناں کا نام سر فہرست ہے۔ ان دونوں شعراء کے علاوہ بھی زیادہ تر شعراء   نے تصوف کو روایتی  انداز میں برتنے کی کوشش کی ہے۔ اس زمانے کے حالات کے بارے میں سید ابو الخیر کشفی لکھتے ہیں:
"سکھوں کی شو رش کے علاوہ مکتوبات مظہری میں احمد شاہ ابدالی کے حملہ کا ذکر بھی ہےاور روہیل  کھنڈ کے سیاسی مسائل پرگہرے تبصرے بھی ہیں"(۲)
مظہر ؔ  کی شاعری میں بھی اس کے دور کے حالات کا عکس واضح نظر آتا ہے۔ جس طرح مظہر ؔ  لکھتے ہیں :
اتنی فرصت دے کہ رخصت ہو لیں اے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سائے میں تھے آباد ہم(۳)
کبھی  اس دل نے آزادی نہ جانی
یہ   بلبل  تھا  قفس  کا  آشیانی(۴)
مظہر ؔ کے دور   میں تصوف نے لوگوں کو فکری احساس اور سہارا دیا ۔ اس لیے سارا معاشرہ تصوف کے ذریعے زندگی میں معنی تلاش کرنے  کی کوشش کرتا رہا۔ مظہر ؔ بھی تصوف  اور روحانیت کے ذریعے معاشرے کو بھر پور انداز میں نکھارنے اور سنوارنے کی مسلسل  کوشش کرتا رہا۔ دہلی کے قرب وجوار  میں بہت  سے مریدین نے آپ ؒ  سے دین کی روشنی حاصل کی  اس لیے  مغلیہ دور کے آخری عہد میں مظہرؔ  دہلی کے نہایت بر گزیدہ صوفیاء میں شمار ہوتے ہیں۔ مظہر ؔ کے مریدین اور شاگردوں کا حال ڈاکٹر نفیس اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے:
"مظہرؔ کے فیوض و برکات کے سبب طالبان حق آپ کی خدمت میں جمع رہتے ۔ ہندو اور مسلمان کافی تعداد میں آپ سے بیعت اور عقیدت رکھتے تھے۔ وہ درویش کامل اور صاحب دل صوفی تھے۔" (۵)
مظہر ؔ کے شاگردوں میں غیر مسلموں کی بھی کافی تعداد  تھی ۔ آپ  کی شاعری اور تصوف  کی شروعات تقریباً ایک ہی زمانے سے ہوئی ۔ ان تخلیقی صلاحیتوں نے اردو شاعری میں ایک نیا معنوی   باطن دریافت کیا ۔ اس لیے ان کے کلام میں عشق پوری کائنات پر حاوی نظر  آتا ہے۔ جیسے وہ لکھتے ہیں :
خدا کو اب تجھے سونپا ارے دل
یہیں تک تھی ہماری زندگانی (۶)
مظہر ؔ جان جاناں کے دور میں زیادہ تر شعراء نے صنف غزل میں طبع آزمائی کی۔ اپنے دلی جذبات و احساسات کو غز ل کے سانچے میں ڈھال کرعوام و خواص تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس میں تصوف کو کلیدی حیثیت حاصل رہا ہے۔ تصوف مظہر ؔ کی شاعری میں بھی  بہتر انداز میں موجود تھا۔ آپ نے اپنے شاگردوں اور مریدوں کی  روحانیت کے ذریعے بہتر کردار سازی کی جس سے ان کی ذہنی نشوو نماہوئی۔
مظہرؔ نے محبت کے جذبے کو محدود د ائروں سے نکال کر لا محدود بنا دیا اور اسی جذبے کو پروان چڑھا کر جسم و منزل اور مجازی محبوب سے نکال کر حقیقی  محبوب کی طلب کا شہکار  نمونہ بنایا  جس کا حاصل کل صرف تصوف کو ہی سمجھا جانے لگا  ۔اس لیے آپ کی شاعری میں تصوف کے بارے میں سید مبارک علی لکھتے ہیں :
"اردو غزل میں اگر کہیں صحیح صوفیانہ شاعری دیکھنا ہو ۔ تو وہ شاعری مظہرؔ جان جاناں اوران کے ہم عصر شاعر خواجہ میر درد ؔ کی ہیں۔"(۷)
مظہرؔ نے غزل گو شعراء کی طرح تصوف کو رسماً استعمال نہیں کیا بلکہ تصوف ان کی شاعری کی اصل ترجمان تھی۔ آپ سر تا پا تصوف میں ڈوبے  ہوئے تھے۔ شاعری میں روحانیت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو نکھارنے اور سنوارنے کی بہتر انداز میں کو شش کی۔
مظہرؔ   کی زیادہ تر شاعری داخلیت پر مبنی  تھی ۔ انہوں نے بادہ و ساغر ، گل وبلبل کے پردوں میں متصوفانہ حقائق کی ترجمانی کی ۔ دنیا کی بے ثباتی،  اخروی  زندگی کی حقیقت  اور دل کو ایک خدا کے عشق سے بھرنے کی بھرپور کوشش مظہر ؔ کی شاعری میں موجود ہے۔  آپ تصوف میں  اعلی ٰ مقام پر فائزتھے اس لیے   ایک تصوف کا ایک  الگ طریقہ آپ کے نام سے جاری ہوا جسے "طریقہ شمسیہ مظہریہ " نام دیا گیا، جس پر کثیر تعداد  میں مردان حق نے قدم رکھا اور تصوف میں اعلیٰ مدارج تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کے صوفی شعراء کی فہرست آپ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔
اصغر ؔ گونڈوی  کا  شمار جدید شعرائے اردو میں ہوتا ہے لیکن جدید شعراء کے بر عکس آپ ؒ قدما کے نقش قدم پر چلے اور تصوف میں ایک نئی دنیا آباد کی۔ آپ نے غزل میں گل  و بلبل اور لب و رخسار کے بجائے  راہ سلوک کے منازل اور عرفان الہی ٰ کے اسرار و رموز کو موضوع بنایا۔ آپ کی شاعری کے بارے میں محمد اقبال  احمد خان "اصغر ؔ گونڈوی آثار و افکار " میں یوں لکھتے ہیں:
"اصغر ؔ بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ ، مظہر ؔ جان جاناں ، اکبر ؔ ، شبلی ؔ اور اقبال ؔ کے قبیلے کےبزرگ تھے ۔ لیکن  ان کے یہاں  سیاست کے مصلحت بینی سے زیادہ مذہب کی شرافت اور تصوف کی پاکیزگی ہے۔ انہوں نے فکر و عمل کی تطہیر سے معاشرے کو طاہر و طیب بنانے کی کوشش کی اور "بدنام زمانہ غزل "کو فرشتوں کی معصومیت اور حوروں کی پاکیزگی عطا کی۔"(۸)
اصغر ؔ نے شاعری  کے لیے صالح اور پاکیزہ موضوعات کو لازم قرار دیا۔ ان کا سارا  کلام پاکیزگی اور شرافت کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا نظر  آتا ہے۔ ان کی زیادہ تر شاعری میں عشق حقیقی کی سر مستی موجزن ہے۔جیسے اصغر ؔ لکھتے ہیں :
یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے ، ذرے میں بیاباں ہے(۹)
تو برق حسن اور تجلی سے یہ گریز
میں خاک اور ذوق تماشا لیے ہوئے(۱۰)
آپ کی شاعری سلوک و معرفت کے مقام و مراحل اور صوفیانہ کیفیات و اصطلاحات کے اذکار   پر مبنی ہے۔ اس لیے تصوف کے موضوعات نے ان کے جذبات میں خلوص و شدت پیدا کی ہےاور عملی تصوف سے اپنے باطنی وجود  کے لیے روح  کی غذا کا سامان مہیا کیا ہے۔
اصغرؔ گونڈوی غزل گو شعراء میں ایک منفرد نام ہے۔ ان کی غزل میں نفاست ، شگفتگی اور شائستگی کا عنصر ہے۔ تصوف نے ان کی شاعری اور زندگی میں پاکیزگی پیدا کی ۔ اس لیے آپ نے اپنے قول و فعل سے بھی ثابت کیا کی تصوف کی پاکیزگی ہماری زندگی کو بھی پاکیزہ کر سکتی ہے۔ کیونکہ ان کا اصل مقصد اسلامی تصوف کو عام کرنا تھا۔ اور ان  کی یہ سوچ کہ اسلامی تصوف ، اسلام سے علاوہ  کوئی  دوسری چیز نہیں بلکہ اصل مقصد  اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہے۔
اصغر ؔ کی شاعری میں انسان دوستی کے ساتھ ساتھ تصوف کو فروغ ملا ۔ دنیاوی محبت  کے بر عکس حقیقی عشق کے جذبے پر یقین کی بنیاد رکھی  اور دنیا کی رنگینیوں و سر مستیوں کو ایک دھوکہ قرار دیا ۔ اس لیے اصغر  ؔ  کی شاعری حقیقی معنوں میں صوفی منش طبیعت کے مالک تخلیق کارکی شاعری ہے ۔ آپ نے تصوف میں جو مقام بنایا وہ اردو ادب کے بہت کم شعراء کو نصیب ہوا ۔ اس لیے آپ نے اگرچہ مجازی عشق کا سہارا لے کر حقیقی عشق کا سفر طے کیا۔ لیکن اپنے افکار سے خدائے واحد کی بہتر انداز میں ترجمانی کی۔ آپ کی شاعری سلوک و عرفان اور پاکیزہ خیالات کی بہترین عکاس ہے۔ اس لیے آپ کی شاعری پڑھ کر  خیالات میں  وسعت پیدا ہوتی ہے  اور دل  کو سکون  نصیب ہوتا ہے۔
اصغر ؔ کی شاعری میں تصوف کی اصطلاحات  فنا، بقا، بے خبری ، جلوہ ، نور،  پردہ ، وحدت  اور دید وغیرہ   بار بار دہرائے گئے ہیں۔  جس سے تصوف کے مضامیں میں وسعت پیدا  ہوئی ہے جیسے وہ لکھتے ہیں :
سر گرم تجلی  ہو،  اے  جلوہء  جانانہ
اڑ جائے دھواں بن کر ، کعبہ ہو کہ بت خانہ (۱۱)
زاہد کو تعجب ہے ،  صوفی کو تحیر ہے
صد ر شک ِ طریقت ہے اک لغز ش مستانہ"(۱۲)
اصغر ؔ کے ہاں تصوف میں خشکی و بے کیفی  کی بجائے نزہت ، لطافت اور تخیلی رنگینی ہے۔ ان کا لہجہ نشاطیہ ہے۔ انہوں رجائیت کا درس دیا۔ اسلوب رنگین اور شرافت میں ڈوبا ہواہے۔
اصغر ؔ کا کلام پڑھنے والے  کو ذہنی سکون ، خیالات کو بلندی اور جذبات کو وسعت  عطا کرتا ہے۔ کیونکہ ان کا عارفانہ کلام  ذہنو ں کو جلا  بخشتا ہے ۔ یہی رنگینی و سر مستی ان کی شاعری کا خاصا ہے۔
مندرجہ بالا مختصر تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بجا ہے کہ مظہر ؔ جان جاناں اور اصغر ؔ گونڈوی نے حال دل کو شعر کے سانچے میں جذب کر کے اردو غزل کو نئے فکری  جہات اورمعنوی  حلاوت سے آشنا کیا ۔ اگرچہ مظہر ؔ جان جاناں  صوفی منش طبیعت کے مالک تھے دنیا سے الگ تلگ رہنے والے اور دنیا کے کام دھندوں سے بے نیاز  ہو کر صرف تصوف کو حاصل کل سمجھنے  والے تھے ۔لیکن پھر بھی مریدین کی بڑی تعداد آپ کے حلقہ ء درس میں موجود ہوتی ۔جو ہر وقت تصوف و سلوک کے مسائل کو زیر غور لاتے اور مظہر ؔ ان کی ذہنی نشوو نما کی بہتر کو شش میں مگن رہتے۔ جب کہ اصغر ؔ تصوف کے موضوعات کے ساتھ ساتھ جہد مسلسل کے حامی تھے ۔ لوگو ں کے درمیان رہ کر ان کی اصلاح کرنا اور دین کی شمع روشن کرنا آپ کا محبوب مشغلہ تھا ۔  یوں دونوں کے اصطلاحات ِ تصوف، راہ سلوک کے مدارج و مقامات  سے خاص و عام متعارف ہوئے  جس سے  معاشرتی اصلاح کے لیے راہ ہموار ہوئی ۔ تاہم مذکورہ دونوں شعراء نے فنی لوازمات کا شعور رکھتے ہوئے بھی حال و قال جیسے گنجلک مراحل کا احاطہ فن کاری سے کیا ہے۔

 

حوالہ جات
۱۔ محمد امین بھٹی ،  اظہر اللغات ،اظہر پبلیشرز اردو بازار ، لاہور، ۱۹۹۵  ، ص ۳۰۶
۲۔ابوالخیر کشفی  سید،  اردو شاعری کا  سیاسی اور  تاریخی  پس منظر  نیشنل بک فا ونڈیشن اسلام آباد ۲۰۱۷ء، ص ۱۲۹
۳۔  مظہر ؔ جان جاناں (عبد الر زاق قریشی )، مظہر اور ا ن کا اردو کلام  ادبی پبلشرز بمبئی ۱۹۴۱ء، ص ۲۹۹
۴۔ ایضاً   ص ۳۰۵
۵۔    نفیس اقبال ڈاکٹر، تصوف  میر ؔ ،  سوداؔ اور درد ؔ کے عہد میں  سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۲۰۰۷،ص ۱۵۸
۶۔  مظہر ؔ جان جاناں ،مشمولہ میرزا مظہرجانِ جاناں  اور ا ن کا اردو کلام،از عبدالرزاق قریشی ،  ادبی پبلشرز بمبئی ۱۹۴۱ء ،  ص ۳۰۵
۷۔ ایضاً،ص ۱۷۹
۸۔  محمد اقبال احمد خان ،اصغرؔ گونڈوی آثار و افکار مغربی پاکستان اردو اکیڈمی لاہور ۱۹۹۴ء، ص ۲۱
۹۔   اصغر ؔ گونڈوی ،کلیات اصغر ؔ گونڈوی  پنجاب بک ڈپو لاہور ۲۰۱۰ء  ص ۳۵
۱۰۔ ایضاً،ص۷۷
۱۱۔ ایضاً،ص ۱۱۰
۱۲۔ ایضاً ص ۷۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com