منتخب اردو ناولوں )راجہ گدھ، آگے سمندر ہے ،ڈاکیا اور جولاہا، جندر)
میں کرداروں کی علامتی معنویت
زاہدہ فاضل ، پی ایچ  ڈی   اسکالر، وفاقی اردو یونیورسٹی  اسلام  آبا د
ڈاکٹر  گو ہر  نو شاہی ، وفاقی اردو یونیورسٹی  اسلام  آبا د

Abstract :
Novel is a modern form of literature which explore the truth through its characters. Urdu Novel introduced many characters i.eKhoji, Ibn-ul-waqat, Umrao Jan Adaa, Champa, Naeem etc. who represent certain positions & atmosphere. In this article efforts have been made to discuss some characters of the Novels (Raja Gidh, AageySamanddar hay, Dakiaaorjulaha, and Jandar) which are symbolic. These characters represent more than one aspect and without understanding these characters one can’t not unfold the meaning of the stories while analysis of characterization the writers view point also kept in mind alongwith plots format.
The Characters not only represent the external happenings in the literature but also project the inner world of human being. Of the character one is the mouthpiece of novelist, who conveys the real world Outlook at perceived the novelist.
ناول جدیدیت کی نمائندہ صنف کے طور پر سامنے آیا جس نے حقیقت اور تخیل کی آمیخت سے انسانی حیات کو فن میں پیش کیا۔ سماج اور معاشرت کی ہمہ گیر جہات کو پلاٹ ، مناظر اور کردارنگاری کے توسل سے فن پارہ تخلیق کرنا ناول نگار کا اہم کردار ہے۔ فکشن میں تہہ داری اور ایمائیت فنی پختگی اور مہارت کی دلیل سمجھی جاتی ہیں۔ بیانیہ کی بنت ، محاکات میں کمال اور کرداروں کی تشکیل کہانی کے تین اہم عناصر ہیں۔ کردار نگاری میں عرق ریزی ، باریک بینی اور بصیرت ازحدلازم ہے۔ ناول میں موجود کرداروں کی نفسیات وہ پیمانہ ہے۔ جس سے مصنف کا مدعا اظہار سے ابلاغ کی منزلیں طے کرتا ہے۔ زندہ محرک اور جاندار کردار تخلیق اور تخلیق کار دونوں کی ادبی قامت کا تعین کرتے ہیں جب کہ بے جان جا مداور بے حس کردار وقتی اور عارضی ٹھہرتے ہیں۔بوقلمونی ، رنگارنگی اور انفرادیت کرداروں کی تعمیر میں ملحوظ رکھنا بنیادی اصول ہیں۔ لکھاری کا سماج کی نبض پر ہاتھ ہو تب یہ ممکن ہے۔ گہرا مشاہدہ ، عمیق مطالعہ اور تجربہ ایسے ہتھیار ہیں جو کردارواں کی بناوٹ میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ عابد علی عابد نے اس حوالے سے لکھا ہے:
"جیتے جاگتے کرداروں کی تخلیق منجملہ اسرار ورموز فن ہے۔ صرف فن کار ہی جانتا ہے کہ کاغذی پتلے جو وہ لفظوں میں تراش کے کتابوں میں چپکاتا ہے کس طرح یک بارگی نورحیات سے منور ہونے کے بعد بولنے لگتے ہیں، چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ جینے مرنے لگتے ہیں" (۱)
کردار کی شخصیت کی پہلوداری اسے اہم بناتی ہے۔ اردو ناول کی تاریخ میں کئی کردار ابدی حیثیت کے حامل ہیں۔ جو اپنی تشبیہاتی اور استعاراتی خوبیوں کی بدولت زندہ وجاوید ہیں۔
فن کرداروں کی علامتی جہت فن پارے میں تحریک کی ضامن ہوتی ہےعلامتوں کے مشہور ومعروف مغربی نقادوں اورشارحین میں ایک نام کسیرر کا بھی ہے ۔ اس کا قول ہے:
" انسان  ایک علامتی حیوان ہے جس کی زبانیں ، اساطیر، مذاہب علوم اور فنون وہ علامتی ہیئتں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی حقیقت متشکل کرتا رہتا ہے اس کا عرفان حاصل کرتا ہے"۔(۲)
پاکستان میں بانو قدسیہ کو یہ نقدم حاصل ہے کہ انہوں نے راجہ گدھ کے ذریعے علامتی پیرائے کو پوری کہانی میں برتا۔اس میں پیش کئے گئے کردار قیوم سیمی پروفیسر سہیل ، آفتاب علامتی حوالے سے قاری کے ذہن پر دستک دیتے ہیں۔ جبر وقدر اور حلال وحرام کے روایتی مفاہیم سے قدرے انحراف کی صورت نظر آتی ہے۔ نفسیاتی وجنسیاتی تحلیل راجہ گدھ کے کرداروں کے رویوں میں جھانکنے میں مدد دیتی ہے۔ ناول میں خود کلامی اور مصنف کا ہمہ بیں بیان بھی کرداروں کے افعال واعمال کے سوا شخصیات کی معنویت پڑھنے والے پروا کرتی ہےمثلا:۔
"بلیک بورڈ پر تصویر بنانے والا پروفیسر ہم سے بمشکل پانچ چھ سال بڑا تھا۔ لیکن کہیں اس کے پاس ایسا ہنٹر موجود تھا جو شیروں کو سدھارنے والے استعمال کرتے ہیں۔ اسےکبھی کورس پڑھانا نہ آیا۔ لیکن وہ ذہنوں کا جوڈ وکھیلنا جانتا تھا"۔ (۳)
پروفیسرسہیل اپنے طلبا کے ہر دل عزیز ہیں سب کے آئیڈیل ہیں۔ بہت عرصہ گزرنے کے بعد کوثر اپنے سابقہ فیلو سے نہ صرف پروفیسر کی پیشہ وارانہ لیاقت کے بارے میں شکوک کا اظہار کرتی ہے بلکہ اسے کچھ اور خفیہ راز بھی بتاتی ہے جس سے سہیل کے کردار کی مخفی جہات کا پتہ چلتا ہے رومانویت اور حقیقت پسندی کا یہ امتزاج کردار کو دلچسپ بنانے میں مدد گار ہے۔
کوثر نے قیوم سے کہا:
تعلیمی ادارےمیں متعین شخص علم وآگہی کا نشان ہوتا ہے۔ مگر ایک طالبہ کے ساتھ عشق اس کی ایک اور جہت ہمارے سامنے لاتا ہے۔ جیسے انسانی جبلت، ہوس پرستی یا کچھ بھی نام دیا جا سکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ کردار خود ناول نگار کی تھیوری برائے حرام وحلال کا مبلغ بھی بن جاتا ہے۔ تو یہاں وہ دانش اور صوفی یا کوئی سائنس دان کے روپ میں ہے:
"مغرب کے پاس حلال وحرام کا تصورنہیں ہے اور میری تھیوری ہے کہ جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے وہ انسانی gensesکو متاثر کرتا ہے۔ رزق حرام سے ایک خاص قسم کی Mutationہوتی ہے جو خطرناک ادویات شراب اور Rediation سے بھی زیادہ مہلک ہے"۔ (۵)
گویاتربیت نفس کے مختلف مراحل سے گزر کر یہ کردار حقیقت کا ادراک کرنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔ سیمی کا کردار معصومیت ، سادگی ، خوب صورتی ، وفا اور مشرقیت کا سمبل ہے۔ وہ ایلیٹ کلاس سے ہونے کے باوجود آفتاب جیسے مڈل کلاس لڑکے سے پیار کرتی ہے اوراس کی بے وفائی پر ساری زندگی گھل گھل کر گزار دیتی ہے۔ سیمی عورت کی نفسیات کا عمدہ نمونہ ہے جو اپنی سچی محبت کو بھلانے کیلئے حیدر اور قیوم سے جسمانی تعلق بناتی ہے۔ وہ اپنے محبوب سے بچھڑی تو گویا بے سمت ہو گئی۔
آفتاب کا کردار روایتی مرد کا کردار ہے جو اپنی انا، سماجی قیود اور بے حسی کا قیدی ہے۔ سیمی کی بے لوث اور سچی محبت کی بے قدری کرنا اس کے لئے معمولی چیز ہے۔ یہ اپنے نام میں اسم بامسمی ہے۔ آفتاب کا کام ہے سفری جاری رکھنا ۔ سورج مکھی کے دل پر کیا بیتے گی اس سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
قیوم ناول کا ولن بھی ہے اور سائیڈ ہیرو بھی ۔ یہ جنگل میں جاری پرندوں کی کانفرنس کے ایک کردار راجہ گدھ سے مشابہہ ہے۔ جو مردار کھانے کی وجہ سے ضمیر کا قیدی بن جاتا ہے۔ مردے کھانے والا گدھ چاندنی راتوں میں چھتنارے درختوں سے خود ہی گر پڑتا ہے اور دیوانگی میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ نجد میں رہنے والی بلبل اس کیفیت کو انسان کے ساتھ مشابہہ تصور کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے:
"انسان کی ساری قوت اس کی جنسی طاقت میں پوشیدہ ہے۔ وہ جانوروں اور پرندوں کی طرح محض نسل بڑھانے کو اپنی جنس استعمال نہیں کرتا بلکہ طاقت کے اس مشکی گھوڑے کو اپنی رانوں میں دبا کر رکھتا ہے۔ اس گھوڑے پر انسان کے زانو سختی سے کسے ہوئے ہوں تو وہ عرفان تک پہنچتا ہے۔ ڈھیلا ہو تو دیوانہ وار گرتا ہے اور پاگل کہلاتا ہے"۔ (۶)
قیوم کے گناہوں کی سزا ایسی بیوی ہے جو کسی اور سے عشق کرتی ہے اور اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے ۔ یہاں ناول میں انسان کی بشری کمزوریوں کے توسل سے کئی رازوں سے پردے اٹھائے گئے ہیں مگر یہ یہ سب رمزیت میں گندھے ہیں۔ قیوم اپنی  زندگی کے سفر میں فلسفہ اور تصوف کی روشنی میں قضاء وقدر اور حلال وحرام جیسے مسائل پر مغز ماری کرتا ہے۔ سیمی کے بعد وہ امتل نامی طوائف اور اپنی بھابی کی رشتہ دار عابدہ سے بھی جسمانی تعلقات استوار کرتا ہے۔ کہانی میں روانی اتنی سبک سر ہے کہ قاری اس کے بہاو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ خود کردار کو اس تمام صورتحال سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ اسے اپنے والدین بھی یاد آتے ہیں جن کی زندگی کے افعال کو قیوم اپنے اعمال میں شامل ہونے کو تقدیر کا لکھا قرار دیتا ہے ۔سیمی کی موت ، امتل کے بیٹے کے ہاتھوں قتل اور عابدہ کا بچے کی خواہش کا اظہار اسے بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ قیوم کی خواہش ہے کہ اسے بے داغ باکرہ لڑکی میسر آئے جو اس کی دلہن بنے۔ ناول نگار نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت اور ناول میں المیہ کے فروغ کے لئے یہاں بھی اس کردار کی قسمت کو کھوٹا ہوتے دکھایا ہے۔ اس کردار کی معنویت کی پہلوداری اسے بیک وقت خوبی وخامی کا مرکب بنا دیتی ہے۔ یعنی پڑھنے والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے ۔ مگر ساتھ ہی اسے ہمدردی کا مستحق بھی گردانتا ہے۔
قیوم کی  نکاح میں آنے والی لڑکی پہلے سے کسی کی محبت میں گرفتار ہےاور اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس موقع پر قیوم کے کردار کا مثبت پہلو سامنے آتا ہے کہ یہ بغیر چھوئے اس کو اپنے عاشق کے حوالے کر دیتا ہے۔ بشریت اور سماج کی تمام نفسیاتی الجھنوں کا حامل یہ کردار علامتی انداز میں سماجی حقیقت نگاری بیان کردیتا ہے۔ راجہ گدھ اور قیوم کے مابین مماثلت ازخود اس کے علامتی اور استعاراتی ہونے کا اعلان ہے۔ آفتاب کو ناول میں انا پرست ، خود پسند اور بے وفا کے طور پر دکھایا گیا ہے  جو سیمی سے منہ موڑ کر اس کے خوابوں کو تعبیر نہ دے سکا۔ معاشرتی بندھنوں اور خاندانی رسوم سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔ وہ بھی آخر تک سیمی سے بے وفائی کے جرم کو بھلا نہ سکا۔ اس کے ہاں بچے کی پیدائش کسی بھی سزا سے کم نہیں۔ بانو قدسیہ پر اشفاق احمد کے علاوہ ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کے اثرات بھی بہت نمایاں ہیں چناں چہ صوفی ازم اور روحانیت کا پر توَبھی کہانی میں اپنا ثبات کرتا ہے۔ روحوں کو حاضر کرنے والا اور روحانی مسائل کے حل بتانے والا بابا بھی ایسا کردار ہے جو صوفی ہے۔ پروفیسر کے توسل سے قیوم اس سے ملاقات کرتا ہے۔ یہ بابا عامل ہے اور علامت کے طور پر دنیا کی بے ثباتی اورعشق حقیقی کی منازل سے آشنا ہے۔
امتل کے کردار میں قاری پورے طوائف قبیلے سے روشناس ہو جاتا ہے ان کے ہاں طبقات ، معاشرت ، نفسیات اور زندگی کے بارے میں ان کے تصورات سے آگاہی ملتی ہے۔ امتل گویا ایک عورت تو ہے جو گناہ کی زندگی گزار رہی ہے مگر دراصل وہ پوری برادری کی نمائندہ ہے۔ شوہر کے گھر چھوڑنے ، ذہنی معذور بچے کے ہاتھوں قتل ہونے کے درمیان اور اس سے قبل کی زندگی کے اوراق انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔بظاہر نفرت کے لائق ان کو خیال کرنے والے ضرور ان پر بھی رحم کرتے نظر آتے ہیں جب انہیں ان کے دکھ درد اور ان کے مسائل سے آگاہی ملتی ہے۔ یہ کردار ایک کچی قبر میں بیٹھ کے مراقبہ کرتا ہے اور وہیں پروفیسر اور قیوم بھی اس سے ملاقات کرتے ہیں۔ قبر بھی بطور علامت موجود ہے۔ قبر میں دوران ذکر اذکار اس بابا کی موت بغیر تجہیر وتکفین کے دفن ہونا بھی اس کردار کو غیر مرئی بنا دیتا ہے۔ یہ  واقعہ عین اس رات  پیش آتا ہے جس رات قیوم نے سیمی کی روح سے ملاقات کرنی ہوتی ہے۔
عابدہ ایسی  دیہاتی اور ان پڑھ کردار ہے جو کتابی باتیں تو نہیں جانتی مگر اس کے پاس محبت نفرت اور انسانی رویوّں کو جانچنے کے پیمانے ضرور ہیں۔وہ ایک ایسے شوہر کے ساتھ بیا ہی گئی جو اسے پسند نہ تھا مگر پھر بھی مشرقیت کی علامت کے طور پر وہ اس کے ساتھ زندگی  گزارنے کےلئے تیار ہے بچے کی شدید خواہش ہے مگر اس کا خاوند شاید اسے ماں نہیں بنا سکتا۔ مذہب اور روایت کی کھونٹی سے بندھی یہ عورت بھی بوجوہ قیوم کے ساتھ جنسی تعلقات بنا لیتی ہے مگر پھر بھی اسے اپنا گھر بسانے کی فکر سب سے زیادہ ہے اور موقع ملتے ہی وہ شوہر کے پاس چلی جاتی ہے۔ عابدہ قیوم سے بچھڑی تو اس کے بارے معلوم ہوا۔
"پتہ نہیں کیوں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس لیے نہیں کہ مجھے عابدہ سے محبت تھی میں اس سے بچھڑنا نہ چاہتا تھا بلکہ صرف اتنی بات تھی کہ وہ میری زندگی کے منفی پیٹرن پر ایک مثبت سمبل تھی"۔(۷)
مستنصر حسین تارڑار دو ناول کی تاریخ میں اہم اضافہ ہے۔یوں تو ان کے تمام ناولوں میں علامتوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ مگر "ڈاکیا اور جولاہا" مکمل علامتی کہانی ہے۔اس میں پیش کردہ کردار، ڈاکیہ محمد علی ، جولاہا پوسٹ ماسٹر، رودین ، نتالیہ چاروں علامتی ہیں۔بدخشانی گھوڑا جوہر کارے [محمد علی ] کی سواری ہے، سیف کبوتر جو آستانہ رومی کے باسی ہیں نتالیہ کے گلے میں لٹکا صلیب نما لاکٹ یہ بھی علامت کے طور پر مذکور ہیں۔
جولاہا وہ تخلیق کار ہے جو کھڈی پر ایک ایسے کھیس کی بُنت میں مصروف ہے جو خوب صورت ڈیزائنون سے مزّین ہو گا۔ یہ فن کاری اور تخلیق کاری کا شاہ کار اس بات کی طرف اشارہ ہے  کہ کرہ ارض پر ہنر مند، کاریگر  اور دانش مندانسانیت کی معراج ہیں۔ تارڑنے جولاہے کا سماج میں الگ تھلگ رہ کر اپنے کام میں مگن رہنے کو تخلیق کار کے وصف کے طور پر جانا ہے۔ جولاہا کے نام خط نے یہ کھیس بننے پر اسے مجبور کیا اسی طرح ناول نگار کے نام بھیجا گیا خط بھی اس سے یہ ناول لکھوا رہا ہے۔ جہاں سے خط آتے ہیں وہ پوسٹ آفس ہے۔ ڈاک خانہ گویا فن وبقا کا گھر ہے۔ جہاں پوسٹ ماسٹر (خدا) اپنی مخلوق کے نام خطوط بھیجتا ہے، مصنف لکھتا ہے :
"ہر شخص کی زندگی میں ایک خط ہوتا ہے کسی کو وہ مل جاتا ہے اور کسی کو نہیں ملتا۔ جس کو وہ مل جاتا ہے وہ اپنے آپے میں نہیں رہتا تھیا تھیاناچنے لگتا ہے۔ اناء الحق کے نعرے لگاتا دار کی جانب چلنے لگتا ہے ۔کوچہ کوچہ کو بہ کو بھٹکتا ایک اندھے کنویں میں دفن ہو جاتا ہے ۔ عشق کے ہاتھی تلے بخوشی روندا جاتا ہے اور فنا ہو جاتا ہے اور جس کو یہ خط نہیں ملتا وہ شکوک اور تذبذب کی دلدل میں حیات گزار دیتا ہے"۔ [۸]
نتالیہ جو سید زادی ہے ۔ شادی شدہ ہونے اور بچوں کے ہوتے ہوئے بھی  وہ ایک اپنی سے بڑی عمر کے شخص کے عشق میں مبتلا ہے ۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر ان دیکھی قوت کے زیر اثر کچھی کچھی امریکہ سے پاکستان واپس آجاتی ہے ۔ یہ مرکزی کردار عشق کے منہ زور ہاتھی تلے روندی جاتی ہے ۔ رودین کے پردے میں یہ عاشق اپنے حقیقی محبوب کے عکس دیکھ لیتی ہے چناں چہ وہ اپنی پوری زندگی کے حاصل کو داوپر لگا دیتی ہے۔ ممتاز احمد خان نے اس کردار کے بارے میں لکھا ہے :
"گرنے سے قبل وہ خدا کے متعلق جاننا چاہتی ہے ۔ آشانہ رومی کے بابا کی یہ نادیدہ عشق میں مبتلا عورت جو گلے میں صلیب لٹکائے رہتی ہے نہ معلوم کس بھید کو جاننا چاہتی ہے"۔ (۹)
نتالیہ عشق اور جستجو کا سمبل ہے۔اس کے گلے میں صلیب ، منصور کا نعرہ اناء الحق اور کربلا اس کی خواہشات اور ارادوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ محبوب کی خاطر اس کے وصل کی قیمت کے طور پر سردھڑکی بازی سے گریز نہیں کرتی یہاں علامت کو ہٹا کر محض اکہری نظر سے خواندگی ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ  نتالیہ کا اپنے شوہراور بچوں کو چھوڑ کر بوڑھے آدمی کے پاس آجانا بے وفائی ، ہوس پرستی اور خود غرضی ہے مگر جب اس  عورت  کو علامت کے طور پر سامنے رکھیں تو نتائج مختلف نکلتے ہیں۔
رودین کا کردار ایک دیومالائی حیثیت کا حامل ہے۔ نتالیہ اور اس کے درمیان خط وکتابت سے اس کے جوہر سامنے آتے ہیں۔ یہ کردارروسی ناول رودین کے مرکزی کردار جس کا نام بھی رودین ہے سے مشابہہ ہے (بقول نتالیہ) جو اپنی باتوں ، اپنی علمی دھاک ، اپنی قابلیت اور دل نشین گفت گو کے باعث ایک لڑکی کو گھائل کرتا ہے ۔ نتالیہ رودین کی شخصیت کے سحر میں ایسے گرفتار ہوئی کہ وہ اپنے آپ میں نہ رہی، یہاں رودین مردانہ وجاہت نہیں بلکہ علمی وادبی حیثیت کا حامل کردار ہے۔ یہ تخلیقی ذہن ہے جو بہر حال خالق کی خاص عطا کی بدولت تمام انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔ پوسٹ ماسٹر وہ تقدیر کنندہ ہے جو مخلوق کی قسمتوں کے فیصلے لکھتا ہے۔یہ وہ ہستی ہے جو سب جہانوں پر قادر ہے ۔ ہر کارے کو بھیجنے والا یہ کون ہے ناول کے اندر موصول کنندہ نے یہی سوال ڈاکیہ سے کیا تو جواب ملا:
"وہی جس کے ہاتھ میں مہر ہے، جو بڑے پوسٹ آفس میں بیٹھے ہیں ان کاکام ہی یہ ہے ایسے خطوں پر مہر لگانا، میں تو ہر کارہ ہوں ،میں نہیں مگر پوسٹ ماسٹر صاحب جانتے ہیں، وہ سب جانتے ہیں"۔ (۱۰)
ڈاکیا کا کردار بھی علامتی ہے۔خط کوئی کاغذی وجود نہیں رکھتے وہ صرف الہام ، خواب اور خیال کی صورت آتے ہیں اور مکتوب الیہ میں سے چند اس کو پڑھنے اور سمجھنے  کے قابل ہوتے ہیں ۔ تو پھر پیغام برکیوںکر مرئی ہوسکتا ہے تو گویا یہ کوئی فرشتہ ہے ، کوئی روح ہے کیا ہے ؟اس ڈاکیے کے بس میں فقط بھیجنے والے کے پیغام کو من وعن اپنے مقررہ وقت ومقام پر پہنچا دینا ہے۔ناول میں موجود خود کلامی اور مکالمے قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی مہیا کر دیتے ہیں۔محمد علی  ڈاکیا کے حوالے   سے مصنف  لکھتا ہے :
"(محمد علی ڈاکیا)۔ کبھی تو وہ ایک جلتی ہوئی جھاڑی کی قربت میں نظر آتا ہے اور اس کا گھوڑا کوہ طور کے پتھروں پر بے آواز چلتا آتا ہے ۔ کبھی وہ ایک صلیب کے سامنے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ ڈاکیا کسی اندھے کنویں میں جھانک کر یوسف کو بھی تلاش کرتا ہے ۔۔۔ اس نے عین وقت پر پہنچ کر اسماعیل کی گردن پر رکھی چھری کو ہٹایا تھا۔ کبھی وہ غار حرا کے آس پاس منڈلاتاہے"۔ (۱۱)
نتالیہ کا دادا آستانہ رومی کا سجادہ نشین بھی ایک علامتی کردار ہےجو اپنی وضع میں مکمل صوفی اور بھگتی ہے روایتی گدی چلاتے ہوئے بھی وہ اپنی پوتی کو کانونٹ سکول میں بھجواتا ہے ۔ ارتداد شک ، بد عقیدگی اور مذہب سے برگشتگی ، صلیب کو لیے پھرنا کسی بھی چیز پر بابا معترض نہ تھے۔ نتالیہ کہتی بابا میری تلاش حق کی جستجو ختم نہیں ہوئی تو ان کا جواب تھا:
"تلاش اگر ختم ہو جائے اور وہ مل بھی جائے جو نظر نہیں آتا پھر بھی شک باقی رہتا ہے۔ شرک زور پکڑتا ہے اس لیے یہ تیری خوشی بختی ہے کہ تیری تلاش اختتام کو نہیں پہنچی تو میری داڑھی میں وہ پرندے تلاش کر جو وہاں نہیں ہیں"۔ (۱۲)
یہ روایتی درگاہ کی بجائے حقیقی روحانی آستانہ کے فقیر ہیں جو تعصب ، تنگ نظری اور فرقہ پرستی سے کوسوں دور ہیں۔ جو انسان کو آزاد چھوڑ کر اسے تلاش کا لپکا لگانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ جو فقط مجت کے ذریعے تمام عالم کو فتح کرنے کا درس دیتے ہیں۔
امریکہ میں بسنے والا نتالیہ کا شوہر ناصر ان لوگوں کا نمائندہ ہے جو اپنی مادی آسائش کےسلئے وطن ، مذہب ،روایات ، خاندان سب کچھ تیاگنے پر تیار ہو جاتےہیں۔ یہ مادیت کا نمائندہ اور علامت ہے۔ نتالیہ جب کینسر وارڈ میں پڑی تھی تب وہ نئے گھر کو خریدنے کی پلاننگ کر رہا تھا۔
مستنصر حسین تارڑنے اس ناول میں علامتوں کے ذریعے ایک پوری فضا تیار کی ہے ۔ اس تیاری میں ان کی قوت متخلیہ اور مشاہدہ اہم ہتھیار ہیں ۔ ادراک اور اظہار میں انہوں نے علامتی اسلوب کو برتا ہے۔ کیوں کہ الفاظ کا صرف لغوی استعمال محدود اور معلوم معانی تک قاری کی رہنمائی کرتا ہے جبکہ علامتی پیرائیہ اس تفہیم میں اضافہ کرتا ہے ۔ اس حوالے سے انیس ناگی لکھتے ہیں:۔
"الفاظ کا علامتی استعمال زبان کا وسیع استعمال ہے ،علامتیں دوگنی اہمیت کی مالک ہوتی ہیں ۔ ایک طرف تو یہ انسانی ذہن کی فعلیت کی ترجمانی کرتی ہیں اور دوسری طرف  لسانی عمل کے ذریعے انسان الفاظ کی صورت میں تجربات منتقل کرتا ہے "۔ (۱۳)
ناول نگار نے صوفیانہ استغراق اور ذوق کے ساتھ ان علامتی کرداروں کو تراشا ہے ۔ یہ ہماری مشرقی روایت اور تہذیبی روح سے کشید کئے گئے مرقعّے ہیں جن سے ازلی سچ کو جاننے کی سعی کی گئی ہے۔
جولا ہے جو الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے طعن وتشیع کا نشانہ بنتے ہیں حقیقت میں وہ کسی صوفی کی مانند دنیا سے بے خبر کسی سچائی کی کھوج میں جتے رہتے ہیں ۔"جولاہوں کی تنہائی اور دیگر انسانوں سے کٹ کر ایک مخصوص چال میں چلنے کی خصلت انہیں وہ سادگی اور بھولپن عطا کرتی تھی ، جسے بے وقوفی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لیکن زندگی کا یہی چلن انہیں بعض اوقات دیگر ذاتوں سے ممتاز کردیتا ہے ۔ وہ کھڈی پر الگ اکیلے بیٹھے کوئی کھدر یا کھیس بنتے اس لیے سر ہلانے لگتے تھےجو سچل سرمست کے سر میں دھومیں مچاتی تھی وہ انسانی معاشرے کی آلودگی سے بچ کر سوچ کی ایسی صوفیانہ راہوں پر چل نکلتے تھے جہاں شاہ حسین اقرار کر رہے ہوتے تھےکہ۔ انی حسین جولاہا نہ  اوں مومن اوہ کافر جو آہا سو آہ" (۱۴)
ڈاکیہ محمد علی ایک ایسا استعارہ ہے جو اپنے کام پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ وہ کسی خط کی کوئی تحریربدل نہیں کر  سکتا کسی کا نامہ کسی اور کے حوالے نہیں کر سکتا۔ حتی کہ وقت اور مقام میں تبدیلی بھی اس کے بس کی بات نہیں ۔یہ تقدیر کے ہاتھوں ایک طرح سے یرغمال ہے۔ نتالیہ جس شخص کی محبت میں گرفتار ہے وہ اسے صرف ایک باردربار پر نظر آیا تھا۔ عمر میں بڑا شادی شدہ غیر سید مگر ایک سید زادی کا محبوب ۔یہ بھی علامتی حیثیت کا حامل ہے۔ ایسے لوگ قدرتی اوصاف کے مالک ہوتے ہیں اور ان میں ان کا وصف بھی مخصوص لوگ پہچان سکتے ہیں۔ بظاہر عام زندگی بسر کرنے والا یہ آدمی کسی ایسی خوبی سے مزین ہوتا ہے کہ معشوق کو اس میں معبود حقیقی کی کوئی نشانی صاف جھلکتی دکھا ئی دیتی ہے۔ جس کے پاس آنے کے لیے جس کی بانہوں میں مرنے کے لیے محب ہر جکڑ بندی کو خیر آباد کہہ دیتا ہے۔
اختر رضا سلیمی " بظاہر روایت اور جدت کی کہانی ہے جو ارتقائی اصولوں کا اکہرا بیان ہے مگر بہ باطن یہ علامتی انداز میں کئی حقائق لیے ہوئے گنجلک پلاٹ ہے جس کا کردار جندر پرکام کرنے والا جندروئی اس کی عمدہ مثال ہے ۔ جندرمیں پیسے کمانے والی چنگوں کو وقت کی اکائی سے مماثلت ہے ۔ جندر کی کوک اور گونج انسان کے جذبات کی بازگشت کہنا مناسب ہے۔ جندر ہزارہ کی تہذیبی علامت ہے اور جندوئی وہ آخری تہذیبی آدمی ہے جس نے روایت کے دامن کو نہ چھوڑا۔ فقط موت ہی نے آکر اس کی مشکل آسان کی ۔ زندگی کے آخری لمحات میں اس کی کردار کی سرگوشی ملاحظہ ہو:
"مجھے یہ یقین ہے کہ اگر کہیں سے کوئی چونگ میسر آجائے اور میں جندر کی وہی سریلی گونج دوبارہ سن سکوں تو میرا ماس جو گزشتہ پینتالیس دنوں میں خالی گھومنے جندر کی کوک نے میری ہڈیوں سے علیحدہ کر دیا ہے۔ دوبارہ ہڈیوں سے جوڑنا شروع ہو جائے گا"۔(۱۵)
علامت میں کسی دوسرے شئے کے واسطے سے کوئی راز کوئی حقیقت گوئی  امر ہوتا ہے۔ یہ چیز مادی ہو کر غیر مادی اور مرئی ہو کہ غیر مرئی کی طرف اشارہ کرتی ہے علامتی کردار اپنی روایتی اور مادی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے علامتی معنویت کو بھی مترشخ کرتا ہے ۔ یہ ایسا کردار ہے جو اپنی موت کے وقت سے آگاہ ہے۔ ہر روز سونے سے پہلے رات کو کنڈی لگا کر سونے والا جندروئی اپنی آخری شب دروازہ کھلا چھوڑ دیتا ہے ۔وہ ان سوچوں میں غلطاں ہے کہ مرنے کے بعد اس کے ہاں آنے والا پہلا شخص کون ہوگا یہ کردار دیہاتی ان پڑھ سادہ لوح ہے جو جدید اور ترقی یافتہ انسانوں کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا ۔ اس کے اپنے گاوں کے باسی بجلی پر چلنے والی آٹا چکیوں کے گرویدہ ہو چکے مگر یہ بھید کوٹ جانے کو وہ تو ایک دانش منداور خود آگاہ شخص ہے۔
دوسرا کردار جو علامت کے زمرے میں آتا ہے وہ بابا جمال ہے جو دیہی دانش ،روایاتی عقیدت اور توہم پرستی کا سمبل ہے۔لوک ادب کی روایت کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھاتا ہوا یہ بابا ناول میں شہرت اور خوف کو برقرار رکھتا ہے۔
جمال دین قبر ستانوں میں رہنے والے ایک جانور بجو کے بارے معلومات دیتے ہوئے انکشاف کرتا ہے:۔
"مردہ کو دفنانے کے بعد قبر پر کانٹے دار پنگیں نہ رکھی جائیں تو آدھی رات کے وقت بجو انسانی لاش کی بو پا کر قبرستان میں داخل ہوتا ہے اور پنجوں سے قبر کھود کر اس میں اتر جاتا ہے اور لا ش کو اس تنگ سوراخ سے گھسیٹ کر باہر نکلتا ہے اور پھر پاوں کی طرف کفن پھاڑ کر ٹخنوں میں موجود اس رگ کو پکڑ کر مردے کو اپنے ساتھ چلا کر بل میں لے جاتا ہے "۔(۱۷)
علاقے کی لوک دانش اور مقامی ثقافت کو یہ کردار بہتر انداز میں اجاگر کرتا ہے جو انسان کو اپنی اصل سے اپنے جڑوں سے جوڑ کر رکھنے کا سامان لیے ہوئے ہے۔ مشینی دور میں جب انسان مادے کا پرستار اور روحانیت سے گلو خلاصی چاہتا ہے ایسے کردار کہانی میں تفکر کا باعث بنتے ہیں۔ سلیمی نے دراصل جدت اور روایت کے درمیان جو کشمکش دکھائی دونوں بوڑھے موخر الذکر کے پرچارک اور نمائندے ہیں۔اول الذکر کے لیے جندروئی کا بیٹا اور اس کی بہو موجودہیں۔ اپنی تہذیبی روایت سے منہ موڑنے والے یہ لوگ سب سے پہلے اپنے باپ سے لاتعلقی کا غیر اعلانیہ فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ کردار نئی نسل کی وہ ذہنیت ہے جو ماضی  اور اس سے وابستہ ہر چیز سے بے زار ہیں۔ شہر میں آکر پڑنے والے اور یہاں روزی روٹی کے لیے سرگردان نوجوان شہری لڑکی کو دیہاتی لڑکی پر ترجیح دیتے ہیں حتی کہ نقل مکانی کرنے والی دیہی مٹیاریں  بھی آبائی علاقوں میں واپسی پر تیار نہیں۔ یہ چکا چوند اور ارتقائی کے چونچلے جدیدیت اور ماڈرنزم کی دین ہیں۔ جس طرح جندروئی اپنی زمین سے چمٹا ہے اوراس کو چھوڑنا اس کے  لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے بعینہ جندوئی کا ۔ فرزند راحیل گاوں میں جانے سے قاصر ہے ۔ حتی کہ اپنے باپ کی تجہیز و تکفین سے شرکت پر بھی وہ سوچوں میں غلطاں ہے اسے اپنی بیوی کے بارے  بار بار خیال آتا ہے  ۔ناول نگار کے مطابق:
"اس کی بیوی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گاؤں کی وہ عورتیں ہوں گی جن سے ملتے ہوئے اسے ہمیشہ گھن  آتی تھی، اب تو ان سے بغل گیر ہو کر باقاعدہ بین کرنے ہوں گے  اور ان کے جسموں سے آنے والی پسینے گو بر اور نسوار کی بساند اسے کئی دنوں تک چین سے سونے نہیں دے گی"(۱۸)
تنقیدی نگاہ سے ناول کے کرداروں پر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی  ہے کہ مصنف نے ان کرداروں کی نفسیاتی تہیں بتائی ہیں۔ جو اپنے باطن میں کئی راز چھپائے ہوئے ہیں۔ پن چکی، دریائے ہرو، پتھر کی سلیں، کچے مکان، فصلیں اور  باغات جیسی علامات کے ساتھ کرداروں کی ساخت میں بھی علامت کارفرما نظر آتی ہے ۔ راحیل باپ کی محبت اور گاوں کی مٹی سے شاید آشنائی رکھنا بھی چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاوں میں ملازمت ،بیوی ،بچے اور ان کا بہتر مستقبل جیسی زنجیریں ہیں جو روایت کی طرف مراجعت میں مزاحم ہیں۔ اس میں نظام تعلیم، معاشرہ، سیاسی و معاشی حالات کو ذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آخر انفرادی طور پر راحیل کیوں اپنی سوچ کے زاویے بدلنے پر مجبور ہے۔ یہ سوالات علامت کو سمجھنے میں معاونت کر سکتے ہیں۔
انتظار حسین کا شمار ان فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ جو علامت کو شعوری طور پر کہانیوں  میں پیش کرتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے آخیر اور ستر کی دہائی کے آغاز میں علامتی یا تجریدی افسانے کی تحریک شروع ہوئی تو انور سجاد، رشید امجد، جو گندرپال ،رام لعل ، بلیراج مین  را، غلام الثقلین  اور سریندر پرکاش وغیرہ نے اس طر ز میں خوب صورت اضافے کیے انتظار حسین نے کئی اہم افسانے علامتی پیرائے میں تخلیق کیے جن میں زرد کتا، آخری آدمی ، ہمسفر  اور ٹانگیں زیادہ معروف ہیں۔ ناولوں  میں بھی کئی جگہ یہ انداز برتا گیا ہے۔ خصوصا کرداروں کی حیثیت علامتی ہے۔ "آگے سمندر ہے "۔ ان کا ایسا ناول ہے جس کا عنوان سمندر بھی علامت ہے۔ کہانی کے کرداروں میں ہیرو جواد  اور اس کے دووست مجو بھائی اپنے اندر کئی مخفی پہلو لیے ہوئے ہیں جو پہلی قرآت میں قاری پر نہیں کھلتے بلکہ کافی تفکر کے بعد ان کی معنویت عیاں ہوتی ہے۔ مجو بھائی گہرے طنز سے بھر پور مزاحیہ انداز میں کئی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں ایک طرح سے پلاٹ میں بطور راوی موجود ہیں۔ جو حالات پر گہر ی نظر رکھنے اور چیزوں کا معروضی جائزہ لے کر تجزیہ کرنے کی اہلیت سے واقف ہیں۔ مثلا ان کا یہ بیان کہ "کراچی ست خصمی شہر ہے۔ سندھی پنجابی ، بلوچ ،پٹھان۔۔۔۔یاروں یہ شہر بسایا ہے کہ کچھڑی پکائی ہے ۔ خود مہاجروں میں کونسا ایکا ہے۔ کوئی لکھنوی ،کوئی دہلوی ، کوئی میرٹھی اس پر سید اور غیر وسید مستزاد ہے۔ یہ ثقافتی اور لسانی اختلاف دراصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ ہر علاقے ،ہر زمین کی ایک خاص طرز ایک مخصوص بوباس ہوتی ہے ان کے لیے یہ رنگا رنگی ، بو قلمونی ایک حسن ہے۔ ہجرت کی مجبوری انہیں ایک جگہ تو لے آئی مگر ان کے متزاج کی مماثلت آسان نہیں۔ یہ بدیہی حقیقت ہے جو کوئی بشریت کا ماہر ہی بتا سکتا ہے ۔ اس کردار میں ایک اور خاصیت اس کی حرکت اور تحرک ہے جو کہانی اور اس کے ہیرو کو ارتقا کی منزلوں سے آشنا کرتا ہے ۔ ہندوستان سے آئے تمام مہاجر خاندانوں سے ملتا جلتا رہتا ہے ۔ گویا مہاجرین کے مابین ایک رابطہ کار ہے۔ افراد کے پس منظر اور گھریلو و عائلی معاملات تک سے واقفیت کی بنا پر یہ آدمی محلہ کی اس خالہ  سے مشابہہ ہے جو گن سن رکھنے والی ہوتی ہے ۔ رشتے کروانا، مشاعرے  کا انعقاد اورپارٹیوں کا بندوبست جیسے کام مجو بھائی کا محبوب مشغلہ ہیں۔ انتظار حسین نے مہاجروں کی جو سائیکی بیان کی ہے اس میں مشترک چیز ماضی کی یاد ہے۔ مگر مجو بھائی ایسا نہیں ہے وہ ہر حال میں خوش ہے حتی کہ مستقبل کے بارے میں اسے کوئی فکر نہیں ۔ اسی لیے اس نے جواد کو ایک موقع پر کہا تھا"سوچنا چھوڑ دو یا شہر چھوڑ دو"  اس کردار کی ایک اور  خوبی یہ ہے کہ مرکزی کردار جواد اپنی سوچوں، اپنے مافی الضمیر اپنے الجھاؤ اور ذہنی پراگندگی کا اس کے سامنے اظہار کرتا ہے۔ سوال در سوال سے مجو بھائی ہیرو سے نئے نئے انکشافات کرواتا ہے ۔ اس میں رجائیت ہے یہ حقیقت پسند اور پر امید ہے۔ "پیارے ایسا مت کہو۔ یہ شہر بے فیض اب ہوا ہے۔ اس وقت بے فیض ہوتا تو تم جھگی میں پڑے گلتے سڑتے رہتے"۔(۱۸)
پانی کے سب کردار عجیب سیراسیمگی اور خوف میں مبتلا ہیں جو وطن سے دوری اور نئے وطن کے  آشوب نے پیدا کیا ہے ۔ناول کا مرکزی کردار جو اد ذہنی کرب کا شکار ہے وہ لاکھ کوشش کرتا ہے  مگر اس پر گندگی کو  خیالات سے نکالنا  اس کے بس میں نہیں  ہے۔ اس پلاٹ میں زندگی کی اجتماعی حالت یا معاشرے کے مجموعی مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار صرف ذاتی دکھ لیے ہوئے نہیں ہے ۔بلکہ سماج کے جملہ سروکار جن میں معاشی، معاشرتی ،سیاسی اورتہذیبی پہلو سموئے نظرآتے ہیں۔ جو ادقاری کے شعور پر دستک دیتا ہے وہ تاریخ کے تصور کو بیان کرتا ہے ۔ مسلمانوں کے اجتماعی ماضی کو پس منظر میں رکھ کر وہ حال کے متعلق تحریر کرتا ہے ۔ یہاں مصنف نے شعور کی رواور داخلی خود کلامی جیسی تنکیکوں سے کام لیا ہے جواد کے کردار کو ایک اور مساوی چلنے والے کردار عبداللہ کے ساتھ ملا کر دیکھاجائے تو اس کی معنویت میں ابہام نہیں رہتا۔ عبداللہ تاریخ سپین کے حوالے سے مسلمانوں  کے زاول کا راوی ہے۔ شان و شوکت سلطنت، اقتدار، ادب و تہذیب کے خاتمہ پر ہجرت ، دکھ درداور بے خانماں ہونا اب ان کا مقدر ہے ۔ جواد کی یاد ماضی میں تاریخ ہند کا تذکرہ ہے اور مسلمانوں کی المیاتی حالت کا بیان ہو رہاہے ۔ جواد کراچی میں زمین سے جڑت، اورجڑوں کے سوال کو درخت سے تشبیہ دیتا ہے عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کجھور کا درخت سپین میں ہو یا ہندوستان میں املی اورآم کے اشجار تہذیب کے استعارے ہیں۔ جواد کہانی میں اس وقت اور مکان کے تصور کو خاطر میں لاتا ۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے اسے خاص تکنیک سے تعبیر کیا وہ لکھتے  ہیں :
"ادھر قصے میں وقت کے عمل دخل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کچھ فن کار ٹائم سیکونس کو توڑ دیتے ہیں جیسے قراۃ العین حیدر یا انتظار حسین جس سے حاصل شدہ مسرت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ بشرط ِ کہ قاری ذہین ہو"۔(۱۹)
جواد کی پھوپھی زاد میمونہ اس کی محبوبہ یا محب ؟ اس سوال کو جواد کے ذہن سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ کن حالات میں ہجرت پر مجبور ہوا۔ میمونہ کیوں  پاکستان  نہ آسکی ۔جواد اس سے شادی کیوں نہ کر سکا۔ اس کردار کے ذاتی دکھ اور مصائب حل ہونے والے نہیں۔ وطن اور معشوق کے فراق کا غم کہانی کے ہیرو کا المیہ ہے۔ اپنے مافی الضمیر کا بیان وہ بالواسطہ کرتا ہے:
"میرے سینے پر دو داغ ہیں، اشبیلیہ کا غم میرا جدی غم ہے، مالقہ کا غم میرا اپنا غم ہے۔ اشبیلہ میں میرے اجداد کی قبریں ہیں۔ مالقہ میں میری نال گڑھی ہے"۔(۲۰)
یہ کردار علامتی ہے کہ جو مسلمانوں کی اجتماعی بصیرت اور دانش کا نمائندہ ہے ۔ یہ واقعہ کو فقط ایک واقعے کے طور پر نہیں لیتا بلکہ شعور کو لا شعور سے جوڑتا ہے کہ یوں ماضی سے جڑ ا رہنا آسان ہے ۔بینک کا ملازم ہونے کے ناطے یہ کردار پاکستان بننے کے بعد نئے پیشوں اور  کاروباروں کا بھی نمائندہ ہے انتظار حسین کے ہاں فطرت اور مادیت کا تقابل کئی جگہ آیا ہے وہ روایت کو فطرت سے اور جدت کو مادیت سے تعبیر کرتا ہے ۔ ایک اور اس کردار کی ایک  اور  خوبی یہ ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں کے طعنے اور شکوے خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے ہندیا ترا کے دوران بھابھی ،میمونہ پھوپھی، پھوپھااور خیرل بھائی وغیرہ کے سامنے جواد اپنے آپ کو مجرم محسوس کرتا ہے یعنی زمین آبائی گھر کو خوابوں  کی تعیبر کے حصول کی خواہش میں تیاگنا ایک طرح سے مجرمانہ فعل ہے۔
میمونہ   ناول کا جان دار کردار ہے۔ یہ جواد کی محبوبہ  ہے۔ بچپن اور لڑکپن میں گزرا وقت ان کا حسین سرمایہ ہے۔ جواد جب پاکستان سے کئی سالوں بعد ملنے جاتا ہے تو وہاں میمونہ سے مکالمہ بھی ہوتا ہے اور بھولی بسری یادیں بھی لاشعور کو منسلک کر دیتی ہے ۔ میمونہ رنجیدہ ہے۔ کبیدہ خاطر ہے۔ اسے سب سے بڑا گھاو جواد نے دیا ہے ۔ یہ کردار عام عورت کی مظلومی اور غریب الوطنی کا استعادہ ہے جو دکھ جھیلنے کی خاطر اس دنیا میں آئی ہے جواد کے ساتھ ماضی اور حال کو موضوع بحث بناتے وقت بار ش اور دیوار پر لگی کائی کی بات ہو رہی تھی اچانک جواد کے منہ سے نکل گیا اب گلی برسائیں آنے والے دیکھیں گے اس پر میمونہ کا ردعمل اس کی شخصیت کا آینہ دار ہے۔
"اس فقرے میں میمونہ نے کسی قہر سے جس میں دکھ بھی شامل تھا مجھے دیکھا۔"کون آنے والے؟ ہاں اب کسے رہنا "۔(۲۱)
ایک کردار خیرل بھائی کا ہے جو آزادی کی تحریک میں لیڈنگ رول میں تھے اور لیگ کے پلیٹ فارم سے عوام کی رہنمائی کر رہے تھے  مگر وہ میرٹھ سے ہجرت نہ کر سکے اور یہ اپنی زمین سے جڑت کے حوالے سے اہم کردار ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ خواب اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے آزادی کی تحریک کے ساتھ ایک رومان وابستہ تھا مگر ملک کی تقسیم کے ساتھ ہی وہ ختم ہو گیا اس لیے وہ روایت سے کٹ نہ سکا۔ قوم کے دانش ور اور حقیقت کو قبل از وقت پہچان لینے والے خیرل بھائی کی شکل میں موجود ہیں  علامت کے طور پر خیرل بھائی کی ایک عدد بلی ہےجو اشبیلیہ کے شیخ ابو شبر بولی کی بلی سے مشابہہ ہے ۔ناول نگار نے شعوری کاو ش سے اس کردار کو صوفی سے تشبیہہ دی ہے۔  صوفی اپنے کشف سے حالات کا جو تجزیہ کرتا ہے وہی درست ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے ۔عام آدمی یا بہت پڑھا لکھا سائنسی انداز میں جتنے بھی تخمینے لگائے وہ منطق کے طابع ہوتے ہیں اور ان کی درستگی پرا عتبار نہیں ہو سکتا وہ  غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ اور صحیح بھی ۔ کراچی میں ایک کردار اپنا تعارف غازی عطااللہ کے نام سے کرواتا ہے اس کردار کی حیثیت میں علامتی ہے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ کا نمائندہ ہے جو ملک کے حالات بدلنے کا خواہاں ہے اور اس کے لیے تمام ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ضروری ہے۔ چناچہ غازی تین سو تیرہ مجاہدین کی تلاش کر رہا ہے ۔ جو اس کی جماعت میں شامل ہو کر انقلاب عظیم برپا کر دیں  گے اور یہ ان کا ایمان ہے۔
"مسلمانوں کی آبادی یہاں کروڑوں  میں ہے مگر مجھے ابھی تک تین سو تیرہ مسلمان دستیاب نہیں ہوئے ہیں ۔خدا کی شان اتنی خلقت اور سب کلمہ گو، مگر مسلمان ندارد، میری دیوانگی تین سو تیرہ مسلمانوں کو پکار رہی ہے"۔(۲۲)
حقائق سے دور خوابوں کی دنیا میں رہنے والا یہ شخص ایک عجیب معمہ ہے جس کی موجودگی  معنویت میں اضافہ کرتی ہے ۔ مختلف لسانی اور قومیتی مسائل والے شہر میں یہ مذہبی جہت کا اضافہ ہے ۔کہانی میں آگے چل کر اسی غازی کے جلسے میں دھماکہ بھی ہوتا ہے جس میں مجو بھائی جان  کی بازی ہا ر جاتا ہے ۔ بظاہر نیکی کا پرچار  کرتے کردار دوسروں کو خدا پر بھروسہ اور قناعت کی تبلیغ کرنے والا خود کئی مسلح محافظوں کے جلو میں پھرتا ہے ۔یہی سے یہ انداز ہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کردار میں دوئی  نہیں ہے یعنی جیسا یہ ہے ویسا نظر آتا ہے۔
کہانی کے منظر نامے میں رنگ بھرتے یہ کردار مختلف جہات کو پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ المیوں سے دو چار اشخاص مل کر وہ فضا بنانے میں معاون و مدد گار ہیں جو مجموعی صورتحال کوو اضح کرتے ہیں۔
انتظار حسین نے ہجرت کرنے والے کرداروں کے ساتھ ساتھ ہجرت نہ کرنے والوں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے بھی کچھ کردار تراشے یوں تو میمونہ ،خیرل بھائی اورپھوپھا وغیرہ کے نام بھی اسی قبیل میں آتےہیں مگر چھوٹی پھوپھا کا کردار بھی بہت جان دار ہے ۔ پھوپھا وغیرہ کے نام بھی اسی قبیل میں آتے ہیں مگر چھوٹی پھوپھو کا کردار بہت جان دار ہے ۔ پھوپو نے جواد میاں کو خط بھی لکھے اور اپنی محبت اور چاہت کا اظہار کیا ان خطوط کی تحریریں بھی جواد کو کسی تبدیلی کی طرف راغب نہ کرسکیں ۔ اس کردار کی نوعیت بھی علامتی ہے پیچھے رہ جانے والوں کے کرب ،دکھ اور مصائب کو اپنے اندر جذب کئے ،چھوٹی پھوپھو تہذیب اور تاریخ کا مرقع نظر آتی ہے ۔ اس کے طرز تخاطب اور انداز گفتگو میں انسانی جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موج ز ن ہے جو تقسیم کے گھاو خاندانی شجرے بکھرنے کے داغ اور روایات و انسان دوستی وروادی کے عدم وجود پر نوحہ کناں ہے ۔ ان کے طنز میں سماج و سیاست کی کارفرمائی  صاف نظر آتی ہیں۔ جواد جب ان کے خطوں کو جواب نہیں دیتا ۔ سالوں ان کی خبر نہیں لیتا اور آخر جب ان سے ملنے جاتا ہے تو ردعمل ملاحظہ ہو:
" اے بیٹا میں پوچھوں پاکستان کے پانی میں کیا ملا ہوا ہے وہاں جا کے خون سفید ہو جاویں ہیں مگر ہم اپنے دلوں کا کیا کریں پاکستان میں چودھویں صدی آگئی ہم بخت مارے وہیں کے و ہیں ہیں"۔(۲۳)
چودھویں صدی اسلامی روایات اور اساطیر میں ایک ایسا دور لیا جاتا رہا ہے جو تبدیلی لے کر آئے گی انسانی رشتے ناطے، رواداری اورمساوات حتی کہ انسانیت میں روحانیت ختم ہو جائے  گی  ہجرت کرنے والوں کے دکھ درد اپنی جگہ مگر پیچھے رہ جانے والوں کے لیے بھی مسائل کم نہیں وہ اپنوں کے بچھڑنے کا غم لیے غیر وں کے ستم سہمے جا رہے ہیں اکثریت کا ملک سے چلے جانا ان کی ضعف کا باعث بھی بنا ہے۔

حوالہ جات
۱۔   عابد علی عابد، سید ،اصول انتقادیات ،سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور۲۰۰۵ ،ص ۵۱۱
۲۔ انیس اشقاق ،ڈاکٹر ، مضمون :علامت کیا ہے۔کیونکر بنتی ہے،(مشمولہ) علامت کے مباحث ،مرتب ،اشتیاق احمد، بیت الحکمت ،لاہور،۲۰۰۵،ص ۱۶۲
۳۔ بانو قد"راجہ گدھ'' ، سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور ،۲۰۱۵،ص ۹
۴۔ ایضا، ص ۲۷۲
۵۔ایضا، ص ۲۷۶
۶۔ایضا،ص ۳۲
۷۔ ایضا،۲۶۸
۸۔ تارڑ، مستنصر حسین :، ڈاکیا اور جولاہا ، لاہور ۲۰۱۲، ص ۶۵، ۶۶
۹۔ خان ممتاز احمدخان، ڈاکٹر ، اردو ناول کے چنداہم زاویے ، انجمن ترقی اردو پاکستان ، ۲۱۰۶، ۲۸۷
۱۰۔  تارڑ۔ مستنصر حسین :،ڈاکیا اورجولاہا، سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور ۲۰۱۲، ص ۲۹۶
۱۱۔   ایضا،ص ۷۶
۱۲۔ ایضا ،۱۱۷
۱۳۔ محمد اجمل ،ڈاکٹر، مضمون :علامت اور فردیت ،(مشمولہ) علامت کے مباحث،(مرتب) اشتیاق احمد،لاہور ،   ص ۸۷۔
۱۴۔  تارڑ، مستنصر حسین ،ڈاکیا اور جولاہا ،  ص ۶۹
۱۵۔  سلیمی ،اختر رضا: جندر، رومیل ہاوس آف پبلشنگ ،راول پنڈی ، ۲۰۱۷، ص ۱۱۹
۱۶۔   ایضا ، ص ۷
۱۷۔   ایضا ، ص ۱۷
۱۸۔  انتظار حسین ،آگے سمندر ہے ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور ، ۱۹۹۵، ص ۲۰۶
۱۹۔  ممتاز احمد خان ، ڈاکٹر ،اردو ناول کے چند اہم زاویے، ص ۱۶
۲۰۔  انتظار حسین ،آگے سمندر ہے ،سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور ۲۰۱۶  ء ص ۲۰۲
۲۱۔ ایضا ، ص ۲۰۶
۲۲۔  ایضا، ص ۱۷۰
۲۳۔ ایضا،۱۵۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com