مختار مسعود اور ابوالکلام آزاد کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ
رضوانہ ارم۔ پی ایچ ڈی اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔
ڈاکٹرفرحانہ قاضی۔ اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جامعہ پشاور۔

Abstract:
This article is a comparative study of the two famous authors Mukhtar Masood (15 December, 1926 – 15 April, 2017) and Abul Kalam Azad’s (11 November, 1888 – 22 Fabruary, 1958) lived. These authors’ work their arts and opinions were compared and analysed. The study found that Masood inspired from Azad’s book “Ghubari Khatir” in their early life as a graduate student in Ali-Garh. Mukhtar committed with himself that he will write a book, if he able to writing. Their style is different from each other but some approaches are similar. The rhetoric expertise were found similar in both authors while Azad is more expert in Arabic language and professionally politiacian, religious scholar and author of many books. Mukhtar is a legend bureaucrat and author of four books. Both are British Indian while Mukhtar migrated in to Pakistan during partition and remained an ideological Pakistani Muslim citizen and official.
Key words: Mukhtar Masood, Abul Kalam Azad, style and similarity.
مختار مسعود کا شمار  اردو ادب کےصاحب طرز ادیبوں  میں ہوتا ہے ۔وہ ایک ایسے ادیب ہیں جنہوں نے اپنی کثیر الاشغال مصروفیات  کے باوجود  اردو کے ذخیرے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ۔اردو نثر کے فروغ میں ان کا اہم کردار ہے۔ ان کی تصانیف اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے ۔انہوں نے کم لکھا ہے لیکن جتنا لکھا وہ معیار کے اعتبار سے  کئی کتب پر بھاری ہیں۔ان کی پہلی کتاب "آواز دوست" ۱۹۷۳ء کو منظر عام پر آئی اس کتاب کا موضوع تحریک پاکستان اور قیام پاکستان ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات  سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب تک  اس  کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ان کی دوسری کتاب "سفر نصیب" ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی جو دو سفر ناموں اور دوخاکوں پر مشتمل  ہے ۔ اس کتاب میں ان کے تخئیل کی بلند پروازیاں عروج پر ہیں۔تیسری کتاب "لوح ایام" ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔ جب کہ ان کی آخری کتاب "حرف شوق" ان کی وفات کے بعد ۲۰۱۷ء  میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ،ان کتابوں میں ان کے فکر وفن کے  مختلف پہلوؤں سے واقفیت ملتی ہے۔
مختار مسعود کے اسلوب میں ان کا گہرا مشاہدہ ،تہذیبی وثقافتی مطالعہ اور تاریخی شعور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔  قدرت نے ہر انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں جس کی بدولت وہ ایک ہی خیال کو مختلف انداز میں پیش کرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر ادیب کے لکھنے کا انداز اس کی شخصیت  کی غمازی کرتا ہے  اور لکھنے کا یہی مخصوص انداز جس سے کسی ادیب کی انفرادیت نمایاں ہوتی ہے صاحب اسلوب کی پہچان  ہے۔اس انفرادیت کی تشکیل میں فن کار کا مشاہدہ، طرز حیات ،فکر واحساس اور کردار وعمل بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔تخلیق کار جس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے  ۔وہی  عناصر ان کے اسلوب کا حصہ بنتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تحریر پر اس کے مصنف کی شخصیت کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہےگویا اسلوب ایک ایسا آئینہ ہے جس سے کسی ادیب کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔ کشاف تنقیدی اصطلاحات میں اسلوب کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے۔
" اسلوب کسی ادیب یا شاعر کے خیالات وجذبات  کے اظہار کا  وہ انداز ہے جو کسی خاص صنف کی ادبی روایت میں مصنف کی انفرادی خصوصیات کی بدولت وجود میں آتا ہے۔(۱)"
یعنی اسلوب  لکھنے کا وہ طریقہ ہے جس سے ادیب یاشاعر کسی خاص صنف اور اس کی ادبی روایت میں اپنی علیحدہ شناخت کا حامل ہوتا ہےاور وہ اپنے خاص انداز سے متعارف ہوتا ہے ۔مصنف جب خارجی واقعات سے متاثر ہوتا ہے اور انہی خارجی اشیا یا مظاہر کو الفاظ کی صورت میں پیش کرتا ہےتو اس کی خاص ترتیب اور انتخاب مصنف کے اسلوب  کا حصہ بنتے ہیں۔یہ  انتخاب وترتیب اسے دوسرےصاحب اسلوب تخلیق کاروں  سے منفرد اور ممتاز بناتی ہے۔اسلوب میں مصنف کی ذات کھل کر دوسروں کے سامنے آتی ہےاور اس سے تخلیق کار کے مشاہدے کی  وسعت اور گہرائی کا اندازہ بھی  ہوتا ہے۔اس حوالے سے گرینی کا  قول بہت اہم ہےوہ لکھتے ہیں کہ" اسلوب میں  مصنف کی شخصیت کا پرتو نظر آتا ہے اور یہ اس کی شخصیت کا  اٹوٹ اور بے حد مربوط جز  ہوتا ہے۔"(۲)
خواجہ محمد اکرام الدین  اپنی کتاب میں صاحب طرز ادیب کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں:
"ہر بڑا فن کار جہاں اپنے عہد اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔وہیں متقدمین کے اثرات بھی اس پر مرتب ہوتے ہیں لیکن جہاں تک انفرادی اسلوب کا سوال ہےوہ اسی وقت نمایاں ہوتا ہےجب مصنف تمام اثرات کے بعد اظہار بیان میں کوئی ایسی امتیازی صفت پیدا کرتا ہے،جو اظہار کے متبادل ہیئتوں سے منفرد ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ہم کسی کو صاحب طرز ادیب کہہ سکتے ہیں۔"(۳)
ہر بڑا تخلیق کار اپنے متقدمین سے اثر ضرور قبول کرتا ہےیہی وجہ ہے کہ     مولانا  ابوالکلام آزادسرسید کی تحریروں سے متاثر تھے۔ابوالکلام آزاد نے ایک جگہ خود سرسید   سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔"آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی "میں لکھتے ہیں :    
"پھر براہ راست ڈیوٹی شاپ علی گڑھ سے سرسید کی کتابیں منگوانے لگا اور رفتہ رفتہ میں نے تمام تصنیفات منگوالیں ۔سرسید کی تصنیفات کا شوق بتدریج اس طرح دل ودماغ پر چھا گیا کہ اب کوئی تصنیف ان کی تصنیف کے سامنے آنکھوں میں نہیں جچتی تھی۔"(۴)
مختار مسعود اور ابوالکلام آزاد کے اسلوب میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں انہوں نے اپنے عہد اور ماحول کے اثر سے ادب تخلیق کیا ہے اور اس میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا ہے۔ ان  ادیبوں کے ہاں  مختلف النوع موضوعات پر طبع آزمائی ملتی ہے۔ لیکن ان کے اسلوب میں کہیں کہیں مماثلت پائی جاتی ہے جن کو ہم روایت کی دین کہہ سکتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی ادیب روایت سے صرف ِ  نظر نہیں کر سکتا وہ ضرور اپنے متقدمین کے اثرات قبول کرتا ہے لیکن جو چیز ان کو ممتاز کرتی ہے وہ اس کا انفرادی رنگ ہوتا ہے جس کی بدولت وہ ادب میں  اپنی الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
مختار مسعود کی تحریروں میں  کہیں کہیں  خطابت کا انداز  جھلکتا ہے لیکن اس کا استعمال وہ مختلف طریقوں سے کرتے ہیں مثال کے طور پر عالمگیری مسجد کے میناروں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے خطابت کا ایک منفرد انداز اختیار کیا  ہے جس میں وہ بے عمل مسلمانوں سے مخاطب ہیں جو اپنے اصل مقاصد بھلا بیٹھے ہیں اور صرف ذاتی زندگی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔اس کا اظہار وہ کچھ اس طرح  کرتے ہیں:
"جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں ،جہاد کی جگہ جمود اور حق کی جگہ حکایت کو مل جائے،ملک کے بجائے مفاد اور ملت کے بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو موت سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے۔ تو صدیاں یوں ہی گم ہو جاتی ہیں۔"(۵)
اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال میں مسلمانوں کو  مخاطب کیا ہے کہ حق بات کہنے  میں کسی بھی طاقت ور کو خاطر میں لائے بغیر صرف اور صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیئے اور ظالم کے ظلم کےڈر سے سچائی اور حق گوئی کو ترک نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ یہ  صاحب ایمان  کا شیوہ نہیں ۔اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"اللہ اکبر! آج مسلمان خدا کے اتنے بڑے فرض کو بھولے ہوئے ہیں! وہ مسلمان جن کو صرف ایک سے ڈرنا تھا،اب ہر ایک سے ڈرنے لگے ہیں ۔۔"(۶)
خطابت کا انداز  مختار مسعود کے ہم عصروں میں ابوالکلام آزاد کے ہاں پورے آب وتاب کے ساتھ موجود ہے اور مختار مسعود ان سے بہت حد تک متاثر بھی نظر آتے ہیں لیکن ان دونوں کے حالات اور مقام ومرتبے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے خطابیہ انداز میں کافی فرق  بھی ملتا ہے کیوں کہ ابوالکلام آزاد ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم نام تھے اور مختار مسعود تحریک پاکستان کے چشم دید گواہ، ابولکلام آزاد سیاسی کارکن ہونے کے ساتھ صحافت سے بھی وابستہ تھے اور مذہب سے بھی گہری واقفیت رکھتے تھے۔ ان کی تحریروں میں عالمانہ رنگ اور خطابیہ انداز  موجود ہے ۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے آرزومند تھے اس لیے وہ اس انداز کو بروئے کار لاتے ہیں جس کی بدولت انہیں ایک حد تک کامیابی  بھی  ملی۔ اس کے برعکس مختار مسعود تحریک پاکستان اور اس کے حصول کے بعدیہاں کےعوام کی بے رخی ، مفاد پرستی اور حکمرانوں کی  ناقدری پر انہیں تنبیہ کرتے ہیں    اور انہیں عبرت کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔کیوں کہ اس ملک کا دولخت ہونا اسی ناقدری کے ثمرات ہیں ،جس کا انہیں عمر بھر  بہت دکھ رہا ۔
ابوالکلام آزاد نے الہلال کے ذریعے وہ کام شروع کیا جو سرسید تہذیب الاخلاق کے ذریعے کرنا چاہتے تھے دونوں اصلاح کے خواہاں تھے لیکن دونوں کا انداز الگ الگ تھا۔سیاسی کا رکن ہونے کی وجہ سے ان کے انداز اور مختار مسعود کے خطابت کے انداز میں نمایاں فرق ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد  کے مخاطب وہ عوام ہیں جن کی آزادی کی قوتیں چھینی جا چکی تھیں اور جن میں آزادی کا جوش وجذبہ بیدار کرنے کی ضرورت تھی۔جب کہ  مختار مسعودایک مخصوص طبقے تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے ۔جس کو   آزادی کی نعمت حاصل ہو چکی تھی لیکن ناقدری کے مرتکب ہونے جا رہا تھا۔ وہ تاریخی حقائق کی روشنی میں عوامل کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کی عبرت انگیز صورتیں احاطہ  تحریر میں لاتے ہیں۔ان دونوں  میں بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مولانا عالم دین اور صحافت سے بھی وابستہ تھے ۔جب ہی تو مولانا کا انداز خطیبانہ تھا۔جب کہ مختار مسعود  ضرورت کے تحت اس انداز کا  خوب استعما ل کرتے ہیں اور اپنے مقصد میں بہت حد تک  کامیاب بھی رہتے ہیں۔
مختار مسعود کے ہاں  روایت سے خوب استفادہ نظر آتاہے وہ  اپنے متقدمین کی تحریروں سے متاثر ہوئے ہیں ان کی تصانیف  اس بات کی غماز ہیں کہ وہ جہاں اپنے تعلیمی ادارے سے متاثر ہیں۔ وہاں وہ  کلاسیکی ادبا وشعرا کے اقوال بھی موقع محل کے مطابق نقل کرتے ہیں۔جس سے ان کی تحریریں پر اثر بن گئی ہیں ان کی نثر میں کلاسیک کے اثرات کے حوالے سے رئیس امروہوی کا قول قابل ذکر ہےوہ لکھتے ہیں :
" مختار مسعود کی نثر میں محمد حسین آزاد کی برجستگی،لطیف ظرافت،شگفتہ بیانی اور ابوالکلام آزاد کی بلاغت تحریر،شکوہ بیان اور صداقت فکر پائی جاتی ہے ان کی تحریر میں ایک ایسا نغمہ ہے جو صرف کلاسیکی شاعر ی میں ملتا ہے۔"(۷)
مختار مسعود کی تصانیف میں معاصرین وروایت کے اسلوبیاتی امتزاج کے حوالے سے پروفیسر ناصر عباس نیر  رقم طراز ہیں کہ" ان کی تصانیف پڑھنے کے بعد یوں لگتا ہے کہ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد اور مشتاق احمد یوسفی سے ہم کلام ہیں ۔انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ان دونوں نثر نگاروں کے اسلوبیاتی امتزاج کانام مختار مسعود ہے"۔(۸)
اسی طرح کی ایک اور مثال جس میں مختار مسعودکی ادبی روایت سے استفادہ کا حوالہ نظر آتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کا ہے  لکھتے ہیں:
"مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر کے آپ معترف ہیں ،ادبی لحاظ سے "آواز دوست" کی قریب ترین مماثلت اگر کسی کتاب میں ملتی ہے  تو میرے خیال میں وہ " غبار خاطر" ہے یہ آواز دوست ہے وہ دوست کے نام خطوط ہیں ان کا اپنا اسلوب نگارش بھی بالخصوص لسانی تشکیلات کے شکوہ اور تمکنت میں مولانا آزاد کے اسلوب نگارش کا "دستار بدل بھائی" معلوم ہوتا ہے۔"(۹)
اس بات  کا اعتراف  مختار مسعود  نے خود بھی کیا ہے کہ  نثر لکھنے کی ترغیب انہیں ابوالکلام آزاد کی کتاب "غبار خاطر" سے  ملی۔جس کو پڑھنے کے بعد انہوں نے دل میں عہد کیا تھا  کہ جب بھی انہیں لکھنے کا موقع ملا تو وہ اس نثر کے فیض کا جو انہیں اس کتاب کی بدولت نصیب ہوا اسے قسط وار ادا کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کتاب " آواز دوست "میں ان کی خطابت اور گھن گرج کو محسوس کیا جا سکتا ہے  ۔مینار پاکستان کا تاریخی پس منظر ہو یا   قحط الرجال کا ماتم ہو وہ ان میں ایک ایسا بلیغ اور عالمانہ انداز اپناتے  ہوئےنظر آتے ہیں  کہ ان کے بعض جملے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ذیل میں ان کی تصنیف آواز دوست  سے  دو  مثالیں ملاحظہ ہوں:
"قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اورقحط الرجال میں زندگی ۔مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ،حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔" ______ (۱۰)
"وہ مقام جہاں خواہش قلبی اور فرض منصبی کی حدیں مل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔"(۱۱)
ان کی تصانیف میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جو اپنی جامعیت کے باوجود بصیرت افروز ہیں۔ ان کا اسلوب دوسرے معاصرین سے منفرد ہے کہ وہ ایسے نپے تلے جملوں کا استعمال کرتے   ہیں جس کی وجہ سے  قاری انتخاب کے معاملے میں خود کو بے بس پاتا ہے کہ کس جملے کو نقل کرے اور کس جملے  کو چھوڑ دے۔ ان کا سارا نثری سرمایہ شروع سے آخر تک  انتخاب  ہے۔
مختار مسعود  کی تحریروں میں فارسی اور اردو ادب کا شعری سرمایہ  جا بجا موجود  ہےان کے ہاں اقبال، غالب،  حسرت اور فارسی میں  عرفی،نظیری،بیدل ،رومی،فیضی اورعمر خیام کے  اشعار کا بر محل استعمال ملتا ہے۔ یہ اشعار ان کے خیال کی توضیح کرتے ہیں۔کہیں کہیں  تو وہ پورے پورے مصرعوں کو اپنی تحریر میں کچھ اس انداز  سے کھپاتے ہیں کہ وہ عبارت کا حصہ  معلوم ہوتے ہیں  ۔ایک جگہ علامہ اقبال کے آخری دنوں  کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لباس کی سادگی کا حوالہ دیتے ہیں  اور بڑے آدمی کی پہچان  اور تعریف کرتے ہوئے  لکھتے  ہیں :
"بڑے آدمی وہی اچھے ہوتے ہیں جو اپنے کام میں مصروف ہوں تو سو پردوں میں پوشیدہ رہیں  اور جب فارغ ہوں تو سارے حجابات دور ہو جائیں اور یاران نکتہ داں کے لئے صلائے عام بن جائیں۔"(۱۲)
اس طرح کی ایک دوسری مثال میں بھی  غالب کے شعر کا برمحل استعمال کیا ہے جس میں انہوں نے گھومنے والے ریسٹوران کو گردش زمانہ کی علامت قرار دیاہے ۔لکھتے ہیں"کسی شاعر نے  گردش مدام سے گھبرانے کا گلہ کیا تھا۔"(۱۳)
ابوالکلام آزاد کے ہاں بھی فارسی اور اردو اشعار کا برمحل  استعمال ملتا  ہے۔انہوں نے بھی غالب،عرفی ،نظیری،بیدل اور دیگر شعرا کے کلام  سے بھر پور استفادہ کیا ہے  ۔ان دونوں ادیبوں نے اپنی بات کو پر اثر اور واضح بنانے کے لیے مصرعوں  کا استعمال کیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک جگہ افسردگی کے حوالے سے لکھتے ہیں   "افسردہ دل افسردہ کند انجمن را"(۱۴)
اس کے علاوہ  ایک  اور جگہ سورج کےطلوع ہونے کا منظرپیش کرنے کے لیے غالب کا مصرعہ  تحریر کیا ہے:"اک نگار آتشیں رخ سر کھلا"(۱۵)۔ ان کی نثر میں شعری رجحان کے حوالے سے ڈاکٹر بشری رحمن اپنی کتاب میں کچھ  یوں رقم طراز ہیں:
"ان کی نثر میں ان کے شعری رجحان نے ایک نیا ترنم پیدا کر دیا تھاجس کی بہترین مثال "الہلال" اور "غبار خاطر" ہے۔ایک باذوق فن کار اور حساس ہونے کی وجہ سے اس دور میں بھی اپنے آپ کو مستحکم اور ثابت قدم رکھا۔"(۱۶)
ابوالکلام آزاد کے خطیبانہ انداز میں عربیت اور فارسیت کا غلبہ نمایاں ہے  مادری زبان ہونے کی وجہ سے انہیں عربی زبان پر مکمل عبور حاصل تھا اس کے علاوہ مذہبی تعلیم  کی وجہ سے ان کا انداز خطیبانہ تھا اور چوں کہ یہ اس دور کا تقاضا بھی تھا اس لیے انہوں نے اس انداز کو  بخوبی  برتا۔مولانا ابوالکلام آزاد نے  "غبار خاطر"  میں  فارسی اشعار جا بجا استعمال کیے ہیں جس سے وہ اپنی علمی وادبی روایت سے   واقفیت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں   ۔"غبار خاطر" میں تو بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے گویا محض  اشعار پڑھ رہے ہیں۔ اگر چہ یہ اشعار موقع محل  کی مناسبت سے استعمال کیے گئے  ہیں لیکن بعض اوقات گراں گزرتے ہیں۔ وہ ان اشعار  کے ذریعے  اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہیں ۔جس سے ان کی حاضر دماغی اور روایت سے استفادہ  کا پتہ چلتا ہے۔ جب کہ مختار مسعود اپنے  طرز تحریرمیں کسی خیال کو تقویت دینے  کے لیے اشعار کا برمحل استعمال کرتے ہیں۔ وہ اسے اپنے خیال کی ترسیل کے لیے اور بیان کو پراثر بنانے کے لیے تحریر کرتے ہیں ۔مختار مسعود اشعار سے کفایت لفظی کاکام لیتے ہیں جس کی وجہ سے تفصیلی  عبارت آرائی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ مختار مسعود نے اپنی تحریروں میں تشبیہات واستعارات، تلمیحات،تضاد،قول محال،جزئیات نگاری ،منظر نگاری،مقفیٰ نثر،طنز وظرافت اورمرکبات ومحاورات کا استعمال کیا ہے جب کہ یہ تمام محاسن ابوالکلام آزاد کی تحاریر میں بھی موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں  کے اسلوب میں بہت حد تک مماثلت  پائی جاتی ہے۔مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو ادب میں ایک  منفرد انداز تحریر کو رواج دیا تھا ،مختار مسعود نے بھی ایک ایسے انداز تحریر کو اردو ادب میں متعارف کروایا جس پر ان کی شخصیت کی گہری چھاپ نمایاں ہے۔اس  انفرادیت کی بدولت  مختار مسعود نے  اس عہد کو پورا کیا جو انہوں نے بی اے کے امتحان کے دوران "غبار خاطر" پڑھنے کے بعد اپنے آپ سے کیا تھا کہ جب بھی انہیں لکھنے کا موقع ملے گا تو وہ  اس ذہنی بالیدگی اور حکمت کے فیض کا حق  جو انہیں اردو اور فارسی نثر سے ملا  قسط وار ادا کریں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی  تحریروں میں وہ اس حکمت ، ذہنی بالیدگی اور شائستگی کا درس دیتے  نظر آتے ہیں۔

 

حوالہ جات
۱۔        ابوالاعجاز حفیظ صدیقی،کشاف تنقیدی اصطلاحات،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،۱۹۸۵ء، ص۱۳
۲۔       طارق سعید،اسلوب اور اسلوبیات،نگارشات پبلشرز لاہور،۱۹۹۸ء،ص۱۶۸
۳۔      خواجہ محمد اکرام الدین،رشیداحمد صدیقی کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ، تخلیق کار پبلشرز دریا گنج نئی دہلی،۱۹۹۴ء،ص۱۴۰
۴۔      ابوالکلام آزاد،آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی،حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی،۱۸ اپریل ۱۹۵۸،ص ۲۵۲
۵۔      مختار مسعود ،آواز دوست،النور پبلشرز  ۲۲ کوپر روڈ لاہور،س۔ن۔ ص ۲۵
۶۔       ابوالکلام آزاد،الہلال،جلد سوم وچہارم،(احرار اسلام ۱۹۔۱۸ اپریل ۱۹۱۳ء)مرتب،ایس رضوان،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،۲۰۱۰ء،ص ۳۱۴
۷۔      رئیس امروہوی، نگارشات مختار مسعود (آواز دوست ۔میری رائے میں) ،مشمولہ صاحب آواز دوست مختار مسعود، امر شاہد،ص ۲۰۳
۸۔       ناصر عباس بشیر، پروفیسر ، مختار مسعود: تعمیر، تخلیق اور تحریک کا نشان،مشمولہ صاحب آواز دوست مختار مسعود، امر شاہد،ص ۱۹۱
۹۔        ضمیر جعفری، سید ،"آواز دوست کی چند لہریں"، مشمولہ صاحب آواز دوست مختار مسعود، امر شاہد،ص   ۲۱۳    
۱۰۔     مختار مسعود،آواز دوست، ص ۴۹
۱۱۔        مختار مسعود،آواز دوست،ص ۱۱
۱۲۔ٍ      مختار مسعود،آواز دوست،ص ۱۰۳
۱۳۔     مختار مسعود،آواز دوست،۲۰
۱۴۔     ابوالکلام آزاد،غبار خاطر، مکتبہ جمال لاہور،۲۰۰۶ء،ص ۹۹
۱۵۔      ابوالکلام آزاد،غبار خاطر، مکتبہ جمال لاہور،۲۰۰۶ء،ص۱۲۵
۱۶۔       ڈاکٹر بشری رحمٰن ،ابوالکلام آزاد ایک مطالعہ،ایس رحمن متصل نخاس پولیس چوکی گورکھپور،۲۰۰۵ء،ص ۱۰۹

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com