ادب اور صحافت ہم قدم
محمد اصیل شائق سکالر - پی ایچ ڈی اسکالر ،وفاقی اردو یونیورسٹی ،اسلام آباد
ڈاکٹر محمد وسیم انجم  - صدر شعبہ اردو، وفاقی اردو یونیورسٹی ،اسلام آباد

Abstract:
The word literature is translated as Adhab in Urdu and Arabic language. In Arabic civilizations the Adhab is used for giving feast and good meals to the respected guests. But later in modern times the literature is meant for historical life records of nations and societies. The literature is represented and described both in prose and poetry. The use of best words is called prose or prosy literature while the best use of best words is called poetry. The journalism is defined as the communication of written news incidents and happenings of any kind of life events person to person and place to place.  The literature is explored through the print media like news papers, magazines and journalism serves the literacy materials. So literature and journalism travel together.

          ’ادب‘  عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصطلاحی معانی عربی تہذیب و تمدّن میں کسی کی خدمت میں احتراماً دعوت طعام کرنا ہے۔ عرب معاشرے میں مہمان نوازی کو حسنِ اخلاق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں جب عرب میں اسلامی معاشرہ کی بنیا دیں رکھی گئیں اور مذہبی درس و تدریس کا آغاز ہوا تو ’ ادب‘  کو تعلیم و تعلم کا بھی اک جُز بنا دیا گیا اور قرآن و حدیث کے تاریخی حوالے علم و ادب کا حصہ بن گئے۔ اس تناظر میں نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو:-          ترجمہ:  ’خدا نے مجھے ادب سکھایا اور بطریقِ احسن سکھایا‘(۱)

انگریزی زبان میں عربی اور اُردو میں استعمال ہونے والے اس لفظ ’ ادب‘  کا متبادل  ‘Literature’ لکھا اور پڑھا جاتا ہے جو خود لاطینی لفظ لٹرا ‘Littra’ سے بنا ہوا ہے۔(۲)
اُردو زبان و ادب کے معروف پروفیسر ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی کتاب ’ اشاراتِ تنقید‘  میں ’ ادب‘   کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ادب وہ فن لطیف ہے، جس کے ذریعے ادیبجذبات و افکار کا اظہار کر کے  اپنے خاص نفسیاتی و شخصی خصائص کی ترجمانی کرتا ہے‘  (۳)

جب کوئی قاری کسی شاعر کے اشعار پڑھتا ہے تو ان کی تعبیر و تشریح وہ اپنے ماحول و حالات کے تناظر میں کرتا ہے اور اُسے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ اشعار تو شاید اُسی کی زندگی کے فلاں فلاں معاملات سے متعلق معلوم ہوتے ہیں۔ گویا اس شعری ادب پارے میں اجتماعی زندگی کی نمائندگی دیکھی گئی ہے اور غالباً اسی رمز کو  ’ادب برائے زندگی‘  کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید اپنی تصنیف ’ اُردو ادب کی تحریکیں‘  میں ادب کے حوالے سے رقمطراز ہیں کہ:-
’ادب ایک سماجی عمل ہے اور یہ لفظ زبان اور تخلیقات کے حوالے سے بالواسطہ طور پر زندگی کو متاثر  کرتا ہے‘(۴)

کسی انسانی تہذیب کے معاشرے میں روزمّرہ زندگی کے عوامل ، خوشی، غمی، دھوپ، چھاؤں اور تاریخی واقعات کا طویل تسلسل جب کسی قلمی و تحریری ریکارڈ میں منضبط ہو کر کسی آئندہ کے قاری کے سامنے ایک شعری مجموعہ یا ناول یا افسانہ کی صورت میں آتا ہے تو وہ اُسے مخصوص  انسانی معاشرے کی گزشتہ زندگی کا ادب گردانتا ہے۔ اس لحاظ سے زندگی اور اُس کا ادب لازم و ملزوم حالت میں منزلِ نا معلوم کی طرف رواں دواں ہیں۔ادب کی عمومی دو اقسام ہیں 1۔ منثور ادب، 2۔ منظوم ادب۔ (۵)منثور ادب خیالات و جذبات کا سیدھا سادہ اظہار ہے۔ نثر ادب کی مفید ترین صنف ہے۔ نثری ادب دو طرح کے ادب پر مشتمل ہے۔ 1۔ افسانوی ادب اور 2۔ غیر افسانوی ادب۔(۶)افسانوی ادب میں داستان، ناول، ناولٹ، افسانہ اور ڈرامہ وغیرہ شامل ہیں جبکہ غیر افسانوی ادب میں مضمون انشائیہ، خاکہ، رپورتاژ  اور سفرنامے وغیرہ شامل ہیںمنظوم ادب کی نمائندگی نظم کرتی ہے۔ اظہار کا دوسر انداز نظم ہے۔ جس کا بنیادی جزو  شعر ہے۔نظم ایک صنفِ سخن ہے۔ جس میں شاعر ایک سے زیادہ خیالات کو اس ترتیب سے بیان کرتا ہے کہ وہ ادھورے نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں۔
’نظم ایک کہانی بیان کرتی ہے۔ کبھی کہانی آپ بیتی کا روپ دھارتی ہے تو  کبھی جگ بیتی کا جدید نظم آپ بیتی کے اظہار کی طرف مائل ہے‘۔(۷)منظوم ادب میں مثنوی، رباعی، قطعہ، مخمس، مسدس، مثلث، ترکیب بند اور ترجیح بند شامل ہیں۔ ان سب کا تعلق شعر سے ہے۔ شعر سے مراد کسی باریک چیز کی واقفیت، سخنِ موزوں یا قافیہ ہے جو بالقصد کیا جائے۔(۸)جس میں’ ادب برائے ادب ‘ اور ’ادب برائے زندگی‘  دونوں نظریات روبہ عمل ہیں۔ اگر تحریری ادب میں حسن ِ اظہار کی چاشنی بھی پائی جائے تو قاری کو اس سے علمی تشنگی میں اطمینان کے علاوہ ذہنی و قلبی تفریح بھی مہیا ہوتی ہے۔ کوئی ادیب جب اپنے مخصوص اسلوب کے ساتھ بہترین الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو اُس ادب پارے میں اُس کی ذات اور شخصیت بھی مضمر ہوتی ہے۔ کیونکہ کسی ادیب، ( نثر نگار یا شاعر) کی انفرادیت سامنے آنا ایک فطری امر بھی ہے۔ گویا ’آدمی ہے بے نظیر‘  ادبی تحریریں اپنی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں بلکہ اکثر قاریوں کو اشعار یا نثری فقرے زبانی بھی یاد ہو جاتے ہیں اور جب وہ کسی دوسرے کو زبانی سناتے ہیں تو وہ بھی قلم اُٹھا کر اپنے ریکارڈ میں لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
ادب خواہ منثور ہو یا منظوم جب زندگی کے مراحل و مسائل کا اظہار  بہترین الفاظ میں کرتا ہے تو بات دل سے نکلتی محسوس ہوتی ہے ۔ جس کے لئے قول مشہور ہے کہ  ’بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ نثری ادب کی عبارت قدرے سیدھی اور سادہ ہوتی ہے  اگرچہ اُس  میں بہترین الفاظ کا استعمال اُسے دلچسپی و چاشنی سے بھر دیتا ہے۔ جبکہ نظم یا شاعری والے ادب کی عبارت  قواعد و ضوابط کی پابندی کی وجہ سے قدرے مشکل اور اسرار و رموز سے  متنن ہوتی ہے۔ اس لئے کہ بہترین الفاظ کا بہترین استعمال شاعری کا روپ دھار لیتا ہے۔ شاعرانہ ادب تحریری ہیت میں مختصر مگر اصطلاحی وسعت کے اعتبار سے تخیّل و تصور کی بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اس شعر میں نہ صرف اجرامِ فلکی کے گوناگوں نظاموں کا ذکر ہے بلکہ معراج نبویؐ کا تصور بھی پیش کیا گیا ہے۔

 ادب اور زندگی کے قریبی تعلق کے بیان  کے بعد صحافت اور ادب یا صحافتی ادب پر قلمی کاوش کرتے ہیں۔ صحافت کا لفظ بھی لفظ صحیفہ یا صحیفے سے مشتق ہے جس کے لفظی معنی تو آسمانی و الہامی تحریری تختیوں کے ہیں جو پیغمبروں کو بغرض انسانی ہدایات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی رہیں۔ اصطلاح میں کسی تحریری اطلاع یا ابلاغ کو صحافت کہا گیا ہے۔ صحافت قلم سے لکھنے اور اُس کو دوسروں تک اخباری شکل میں پہنچانے کا کام تھا۔ کسی واقعہ یا اطلاع کو زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے تحریری ذرائع کو صحافت یا انگریزی میں اسے جرنلزم (Journalism)  کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن اب تو صحافت تحریری کے  علاوہ برقیائی (Electronic) ذریعے سے بھی ہوتی ہے بلکہ اب تو ابلاغ عامہ کا کام زیادہ تر برقیائی (Electronic) طریقوں سے ہی لیا جاتا ہے ۔ پہلے ٹیلی ویژن نے تحریری ذرائع Print Media کی اہمیت کم کر دی تھی اب تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایسا مستعمل ہوا کہ دُنیا واقعی ہتھیلی پر آگئی یا عالمی گاؤں  (Global Village) کا نمونہ بن گئی ہے۔ صحافت کی بنیاد خبر(News )ہے اور صحافت کی اپنی ایک مخصوص زبان بھی ہے جسے صحافتی زبان Media Language کہا جاتا ہے۔

صحافت اور ادب ایک دوسرے کے معاون رہے ہیں۔ ادب نے صحافت کو ایک دلکش اسلوب بخشا جبکہ صحافت نے ادب کی اشاعت و ترویج کے لئے قابل تحسین کردار ادا کیا۔

ہماری اُردو صحافت کا پہلا نمائندہ اخبار ’ اُردو اخبار‘ (۹)کے نام سے مولوی اکرم علی نے ۱۸۱۰ء میں کلکتہ سے جاری کیا ۔برصغیر (ہندوستان و پاکستان) میں اُردو صحافت اور اُردو ادب ساتھ ساتھ پروان چڑھے اور ابتدائی مسلم اخبارات نے اس حوالے سے اہم خدمات سر انجام دیں۔ مولا نا ظفر علی خان کے اخبار ’زمیندار‘(۱۰)۔ مولانا  محمد علی جوہر کے اخبار ’ہمدرد‘ اور مولانا ابو الکلام آزاد کے رسالہ ’الہلال‘ (۱۱)صحافت اور ادب کے لئے بیک وقت  علم بردار رہے  جن کے قلمی کام     میں صحافت اور ادب کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
پروفیسر سید بشیر حسین جعفری [مرحوم] نشان سپاس پاکستان جن کی علمی و ادبی خدمات پر ایک پی ایچ ڈی سطح کا تحقیقی مقالہ راقم نے پروفیسر ڈاکٹر محمد وسیم انجم صدر شعبہ اردو وفاقی جامعہ اردو اسلام آباد کی معتبر نگرانی میں مکمل کیا ہے  نے اردو نثری ادب کی کئی جہتوں پر تخلیقی کام کیا ہے۔ جن میں سوانح عمری، آپ بیتی ،صحافتی انشائیہ نگاری، خطوط نگاری، تاریخ نگاری،مقالہ نگاری، مضمون نویسی اور ڈائری نویسی شامل ہیں۔ سید بشیر حسین جعفری نے بیک وقت ادبی اصناف اور عملی صحافت کے کھلے میدانوں میں علمی و ادبی اور صحافتی خصوصیات میں اپنی انفرادیت قائم کر دی۔ سید بشیر حسین جعفری نے ۲۲ ہزار صحافتی تحریریں تخلیق کیں۔جن میں علم و ادب اور صحافت کے شاہکار نمونے موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی عمر کے۵۸برسوں کی مسلسل روزنامچہ لکھاجس میں ذاتی معاملات کے علاوہ ملکی تاریخ کے سیاسی، معاشی و معاشرتی حقائق کی ایک محترک تصویر نظر آتی ہے ۔سید بشیر حسین جعفری نے عالمی سیاحت کرتے ہوئے دنیا کے گرد ۶ چکر لگائے جو کم و بیش ۱۵برسوں پر محیط ہیں۔ان تمام سیاحتوں کے آنکھوں دیکھے حالات کو انہوں نے ایک ضخیم سفر نامے "سورج میرے پیچھے "میں قلمبند کر کے آئندہ کے قاری اور مسافر کے لیے بیش بہا اسباق کا بندوبست کر لیا۔ موصوف نے   خطوط نویسی میں بھی یکتائی دکھاتے ہوئے ۸ ہزار خطوط کا تبادلہ کیا۔ جس میں وہ کاتب اور مکتوب الیہ دونوں کردار ادا کرتے رہے۔

  انہوں نے کشمیر پر تین جنگہوں[۱۹۴۷ء ،۱۹۶۵ء۱۹۷۱ء] کی رزمیہ تحریریں تصاویر کے ساتھ آرکائیوریکارڈ میں محفوظ کر ڈالیں ۔معلوم ہوا کہ پروفیسر بشیر حسین جعفری نے صحافت اور ادب کو ہم سفر بنا دیا۔

حوالہ جات
۱۔     صدف نقوی،گوہر ادب ،مثال پبلشرز ،فیصل آباد، ص ۔ ۱۲
۲۔ ایضا
۳۔ عبداللہ ،سید، اشارات تنقید لاہور: مکتبہ خیابان ادب ، ۴۴۹۱ ء ص ۳۲۴
۴۔  انور سدید ، ڈاکٹر اردو ادب کی تحریکیں،کراچی ،انجمن ترقی اردو ۲۰۱۰ء ص ۴۲
۵۔  صدف نقوی، گوہر ادب ،مثال پبلشرز ،فیصل آباد، ص ۔ ۲۴
۶۔  ایضا ۔ ص۔۲۵
۷۔  صدف نقوی ، گوہر ادب ،مثال پبلشرز ،فیصل آباد، ص ۔ ۲۵۔ ۲۶
۸۔ نور الحسن ،نیئر، مولوی ،نواراللغات، لاہور ،سنگ میل پبلکیشنز ۱۹۸۹ء ص ۴۴۲
۹۔  زابر سعید بدر۔ ابلاغیات،مکتبہ دانیال ،غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور۔ ص ۶۱۰
۱۰۔ ایضا
۱۱۔ ایضا ، ص ۶۵۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com