اختر ؔعثمان کا شعری لحن۔۔۔۔ ’’چراغ زار ‘‘کے تناظر میں
حُسین محمود ( پی ایچ ڈی اُردو اسکالر )شُعبۂ اُردو ، علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی ، اسلام آباد
غلام  معین الدین، پروفیسر   شعبہ فارسی  ، پنجاب  یونیورسٹی لاہور

Abstract:
Akhtar Usman's poetic diction with respect to "Chiraagh Zaar " Akhtar Usman is a renowned poet, crictic, columnist and writer. "Chiraagh Zaar" is his latest poetry book published by Rumail House of Publications Rawalpindi. This book mostly contains one of the most populor Genre the Ghazal. He chisels out on many places in this book, his many verses as glowing stars. He is not only well-aware of the Urdu conventional norms, but also has a very keen interest in English & Persian Poetry and Litrature too. Akhtar Usman follows some of the most important poets such as Ghalib and Mirza Abdul Qadir Bedil. In this sense he can be really called the "Neoclassical" poet. He is of the view to present the progressive points and aspects of life and he stands very prominent in contemporary poets of Urdu .

اصل نام اختر محمود اور قلمی نام اختر عثمان ہے۔ : ۴/ اپریل: ۱۹۶۹ء کو اسلام آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم سینٹ پالز کیمبرج اسکول راولپنڈی سے حاصل کی ۔ : ۱۹۸۲ء میں میٹرک کر لیا ۔ پھر : ۱۹۸۶ء میں با قاعدہ اُمیدوار کی حیثیّت سے گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے ایف اے کر لیا ۔ بعد ازاں پرائیویٹ اُمیدوار کی حیثیّت سے پنجاب یونی ورسٹی سے بی اے کر لیا ۔ بی اے کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ مزید جاری نہ رکھ سکے اور اسلام آباد میں واقع شناختی کارڈ دفتر میں جسے اُس وقت ڈائریکٹر یٹ جنرل آف رجسٹریشن کہتے تھے  اُس میں ’’کی پنج آپریٹر ‘‘ (K.P.O ) کے طور پر بھرتی ہو گئے ۔ پھر : ۱۹۹۷ء میں اِس ملازمت کو چھوڑ دیا اورمختلف اخبارات میں ملازمت سے وابستہ ہو گئے ۔ سب سے پہلے انگریزی روزنامہ ’’ ڈان ‘‘ (DAWN ) میں : ۱۹۹۷ء میں کام کرنے لگے اور ’’ ایرو پیجیٹکا ‘‘ کے عنوان سے اُس کے لیے کالم لکھنے لگے ۔ پھر روزنامہ ’’ صحافت ‘‘ کے ایڈیٹوریل انچارج رہے، یہاں پر بھی کالم لکھنے لگے اور تنقیدی کالم بھی ساتھ ساتھ لکھنا شروع کیے۔
اختر عثمان کا شعری سفر طویل ہے۔ : ۱۹۹۱ء میں اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’ اپنی اپنی صلیب ‘‘ یاور پبلی کیشنز نے شائع کیا ۔ پھر : ۱۹۹۳ء میں ’’ اپنی اپنی صلیب ‘‘ سمیت ’’ قلمرو ‘‘ بھی شائع ہو گیا ۔ دونوں شعری مجموعوں کو اکٹھا کر لیا گیا اور بیاض لاہور نے شائع کرا دیے۔
’’ ہم کلام ‘‘ کے نام سے : ۱۹۹۸ء میں اُن کاایک اور شعری مجموعہ استعارہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ۔ پھر رُمیل پبلی کیشنز راولپنڈی نے: ۲۰۰۳ء میں منتخب غزلیں ’’ کچھ بچا لائے ہیں ‘‘ کے عنوان سے شائع کیں ۔ انتخاب خُود شاعر نے کیا تھا اور اِس کتاب کے دو ایڈیشنز آ چُکے ہیں ۔ ایک: ۲۰۰۳ء میں اور دوسرا : ۲۰۰۵ء میں ۔ اِس کے بعد رُمیل پبلی کیشنز راولپنڈی ہی نے:۲۰۱۰ء میں ’’ ابد تاب ‘‘ چھاپا اور : ۲۰۱۳ء میں احباب پبلی کیشنز اسلام آباد نے نظموں کا مجموعہ ’’ ستارہ ساز ‘‘ شائع کیا۔ اِسی سال اُس کا دُوسرا ایڈیشن بھی آگیا۔ : ۲۰۱۷ء میں رُمیل پبلی کیشنز راولپنڈی ہی نے ’’ چراغِ زار ‘‘ کے نام سے غزلوں کا مجموعہ شائع کیا اور اب اِس کا بھی دوسرا ایڈیشن آ رہا ہے ۔ ایک طویل نظم ’’ تراش ‘‘ بھی کتابی صُورت میں شائع ہو گئی ہے، یہ ایک ہی بحر میں آزاد ، مُعریٰ ، مقفّفیٰ مثنوی ہے اور اِس کا موضوع کائنات اور انسان کا ارتقا ہے۔
اخترؔ عثمان اُردو شاعری میں ڈاکٹر احسان اکبرؔ سے اصلاح لیتے رہے اور شاعری میں وہی اُن کے اُستاد رہے۔ وہ کئی زبانوں فارسی، انگریزی ، اُردو ، پنجابی اور پُٹھواری میں شاعری کرتے ہیں۔ فارسی کا مجموعۂ کلام بھی بقول خُود اُن کے بہت جلد آ جائے گا۔ اُس میں ’’ سو ‘‘ غزلیں شامل ہوں گی اور ’’ صد پارہ ‘‘ اُس کا نام ہو گا۔ اِسی طرح پُٹھواری کا مجموعہ آنے کے ساتھ ساتھ انگریزی نظمیں اور مضامین بھی شائع ہو کر منظرِ عام پر آ جائیں گے۔
اخترؔ عثمان نے جو تنقیدی مضامین لکھے ہیں اُن میں انگریزی کے شیکسپیئر ، ایذرا پاونڈ ، ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ ، فارسی کے مولانا روم ؔ ، بیدل ؔ اور خیامؔ وغیرہ اور اُردو کے انیسؔ ، میرؔ اور غالب ؔ وغیرہ کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ خیام ؔ کی رباعیات کا منظوم ترجمہ بھی کر چُکے ہیں جو جلد ہی اشاعت پذیر ہو گا ۔ اخترؔ عثمان کے پسندیدہ شاعر بیدلؔ اور انیسؔ ہیں ۔ اُنھوں نے اُن کے بقول زندگی کی بو قلمونیوں کو زیرِ بحث لایا ہے اور صنّاع بھی بہت بڑے ہیں ۔ جدید شعرا کو زیادہ پسند نہیں کرتے، البتہ اختر حُسین جعفری ، ضیا جالندھری ، احمد فرازؔ اور خورشید رضوی کو پسندیدہ شاعروں میں شمار کرتے ہیں۔اُردو ناقدین میں صرف دو یعنی مظفر علی سیّد اور وارث علوی پسند ہیں ۔
ابھی تک اخترؔ عثمان کے فن کے حوالے سے دو تحقیقی مقالات لکھے جا چُکے ہیں ۔ ایک انگریزی میں انٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد کے لیے اور دُوسرا علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد کے لیے اُردو میں ۔ دونوں مقالے
ایم فل کی سطح کے ہیں ۔ پنجاب یونی ورسٹی سے ایم فل کا ایک مزید مقالہ جو مجموعی طور پر اب تک تیسرا مقالہ ہوگا، ’’ ستارہ ساز ‘‘ کے حوالے سے جاری ہے ۔اخترؔ عثمان کے مجموعۂ کلام ’’ چراغ زار ‘‘ کو ’’ خالد احمد ایوارڈ ‘‘ اور ’’ احمد فرازؔ ایوارڈ ‘‘ بھی مل چُکے ہیں ۔ اُن کا شعری اور تخلیقی سفر ابھی جاری ہے اور اُن کی فعالیّت کو دیکھتے ہوئے اُن سے مزید کامیابیوں کی توقع کی جا سکتی ہے۔
اِس وقت اخترؔ عثمان کا تازہ شعری مجموعہ ’’ چراغ زار ‘‘پیش نظر ہے۔ اُن کا یہ مجموعہ رُمیل ہائوس آف پبلی کیشنز راولپنڈی نے پہلی بار:۲۰۱۷ء میں شائع کیا ہے۔ اُن کا یہ مجموعہ غزلیات پر مشتمل ہے البتہ آخر میں ایک منقبت، نعت اور سلام بھی شامل ہیں۔ مجموعہ کے ابتدائی صفحہ پر فہرست سے پہلے اُن کے کچھ فارسی اشعار دیکھے جا سکتے ہیں جن کی ترجمانی کچھ یوں ہو سکتی ہے کہ دریدہ دل لوگوں کا کام (بخیہ گری) ایک ایسا کام ہے جو تادمِ مرگ ختم نہیں ہوتا۔ یہ صبر آزما اور وقت  طلب ہے، یہاں آہستہ آہستہ سوئی کے قدم چلنا پڑتا ہے۔ گویا خونِ جگر سے تیل نکال کر خس و خاشاک پر ڈالنا ہوتا ہے، تب کہیں جاکر یہ آگ بڑھکتی ہے:
کاریست کار بخیہ کہ تا زیست ماندہ پس
آھستہ رَو ، بہ سوزنی زودن نمی شود
روغن ز خون کشید و بہ انداخت برخسک
کاین آتش از شرار فزودن نمی شود(۱)
اِن اشعار سے اُن کی فکری دُنیا کی طرف ایک دریچہ کھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اُن کے نظریۂ شعر کی کسی حدتک توضیح و تفہیم ہو جاتی ہے۔
اِس مجموعۂ کلام ’’ چراغ زار‘‘ میں زیادہ تر تو اگر چہ روایتی مضامین ہیں لیکن اشعار ایسے بھی ہیں جو قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں۔ وہ خودکوترقی پسندانہ سوچ کے حامل اور میرؔو بیدلؔ کی روایت میں شعر کہنے والے کہتے ہیں اور غزل میں الگ جادہ تراشنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ راقم سے اپنے ایک انٹرویو میں اُنھوں نے کہا:
’’میں شاعری میں  Progressive   ہوں اور میرؔ و بیدلؔ کی روایت میں شعر کہتا ہوں۔۔۔‘‘۔(۲)
وہ انفرادیت کے حصول کی کوشش کرتے ہیں ، گھسے پٹے راستوں پر چلنے سے گُریز کرتے ہیں اور اپنے لیے الگ راستوں کی جستجو میں لگے رہتے ہیں:
میں ہوں پایاب کہ آہستہ رَوی خُو ہے مری
موجِ یک طور میں بہنا نہیں آتا مجھ کو(۳)
اخترؔ کو احساس ہے کہ شاعر کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے ؟ اور اپنے فن سے خلوص برتنے والا شاعر کس طرح اپنی ذمہ داری سے باتمام و کمال عہدہ برآ ہو سکتا ہے:
عجیب شوق ہے اخترؔ یہ اہلِ ساحل کو
وہ ایستادہ رہیں ، ہم گہر  اُگلتے جائیں(۴)
وہ اپنی آئینہ گری اور ہنر پروری پر ناز کرتے ہیں اُن کے لہجے سے اُن کا اعتماد اور اپنے فن پر گرفت نمایاں ہے:
صدیوں سے لہو میں تھے وہ نقش اور بالآخر
قرطاس پہ آئے ، ہنر آئینہ گر سے
تازیست ہنر سیکھتے ہیں لوگ جو اخترؔ
اتنا تو سنبھالے ہوئے نکلا تھا میں گھر سے(۵)

اخترؔ کلاسیکی روایات کے امین بھی ہیں اور طرزِنو کے پاس دار اور علم بردار بھی۔ کلاسیکی روایاتِ شعر سے مکمل آگہی کے طفیل و طرزِجدید کی خامیوں اور کوتاہیوں سے خود کو بچانے کے فن سے بھی آگاہ ہیں۔ اساتذہ کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں اُن کا فکری نظام توانا اور مربوط و مستحکم ہے ۔ وہ جدّت کے نام پر تخریبِ شعر کے عمل سے خود کو بچانے میں اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ پامال اور پیش پا اُفتادہ موضوعات کو بھی اگر کبھی نظم کرتے ہیں تو اُن میں جدّت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنھیں اِس انداز سے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کی پیش پا اُفتادگی اور روایتی پن طبع ِ سلیم پر گراں نہیں گزرتا اور بوریت کا احساس نہیں دلاتا۔ اُن کی یہ غزل ملاحظہ ہو:
نمائشِ حرم و جشنِ دَیر دیکھتے ہیں
عجب معاملے دورانِ سیر دیکھتے ہیں
نجانے کوئی سمے ہے وصال کا اے دوست!
ہم اِن دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں
دِکھا رہا ہے ہمیں دل نئے نئے صحرا
سرابِ دید کی منزل ہے ، خیر دیکھتے ہیں
گلِہ بجا ہے مگر ایسی اجنبیّت کیا
سو یوں نہ دیکھ ہمیں جیسے غیر دیکھتے ہیں
فضائے دشت ہے اور عکسِ ناقۂ لیلیٰ
دلِ فقیر ! کوئی دیر ٹھیر ، دیکھتے ہیں(۶)
اخترؔ کی غزل روایت کے سائے میں آگے بڑھتی ہے۔ اُن کے ہاں متقدمین، متوسطین اور اساتذۂ فن کی پختگی کے آثار نمایاں ہیں ۔ وہ میرؔ کو پسند کرتے ہیں ، وہی اُداسی، غم انگیزی اور قدرے یاس آمیز لہجہ اُن کی غزل میں جلوہ آرا ہے:
اب کوچۂ بے دلی ہے اور ہم
کچھ شوق نہ کوئی آس اے دل !
اس قریۂ بے ہنر میں مت رہ
یہ لوگ ہیں نا سپاس ، اے دل !
وہ نے ہے نہ ہو حَسیں تانیں
بیلے ہیں بہت اُداس ، اے دل !
قحبہ ہے بقولِ میرؔ دُنیا
آتی ہے کہاں یہ راس اے دل!(۷)
کلامِ اساتذہ کے مطالعہ نے اُنھیں فنِ غزل گوئی پر گرفت کے ہنر سے آشنا کر دیا۔ کوئی چھت اور دیوار اُن کی اپنی نہ سہی لیکن اُنھیں اپنے سائے میں جینے کا قرینہ آ گیا۔ جس طرز اور جہت سے حسنِ محبوب کی تعریف و توصیف کی ،اپنے لحن میں کی ۔ خیالات کی حد تک اگر دُوسروں سے استفادہ کیا بھی ہے تو اُنھیں رنگِ نو میں پیش کرنے کی اُن کی کوشش کارگر اور نمایاں رہی:
کوئی دیوار ہماری تھی نہ چھت اپنی تھی
اپنے سائے میں جیئے ہم یہ سکت اپنی تھی
تہ بہ تہ ہم نے قرینوں سے کیے تیرے سخن
مستعاری نہ تھے ، ایک ایک جہت اپنی تھی
ہم نے جی بھر کے چُرایا ہے خیالات کا متن
صِرف اتنا ہے کہ ہر بار بنُت اپنی تھی(۸)
اُن کے زیرِ نظر مجموعۂ کلام کے بالا ستیعاب مطالعہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ِاس میں زیادہ تر مضامینِ غزل وہی ہیں جو اُن سے پہلے دیگر شعرا نے مختلف اوقات میں اپنے اپنے انداز سے باندھے ہیں ۔ غزل کا غالب اور بنیادی موضوعِ حُسن و عشق بھی نمایاں تر صورت میں جھلکتا ہے۔ اِسی سلسلے میں ایک ترکیب ’’ماہِ دو ہفتہ ‘‘بطورِ خاص یوں قابلِ ذکر ہے کہ یہ اِس مجموعے میں اکثر دیکھی جا سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ترکیب بھی وہی ہے جس کو میرؔ و سوداؔ سے لے کر غالب ؔو داغؔ سے ہوتے ہوئے فیضؔ و فرازؔ تک سبھی شعرا نے برتا ہے۔ اختر ؔکے ہاں اِس ترکیب کا استعمال ملاحظہ ہو:
پھر کہیں ڈوب گیا ماہِ ہفتہ لیکن
میں چمکتا ہوں کہ گہنا نہیں آتا مجھ کو(۹)

فلک پہ ماہِ دو ہفتہ عجب درخشاں تھا
سوجی میں آئی کہ چپ چاپ ہم بھی ڈھلتے جائیں(۱۰)

ابھی یہ گھائو ہے اور پھر بھی اس قدر ضو ریز
مہِ دو ہفتہ نہ ہوتا اگر کہیں سِلتا(۱۱)

ہے شبِ ماہِ دو ہفتہ ، اے دل
ہمیں وہ گال کہاں بُھولتے ہیں(۱۲)

اُدھر وہ ماہِ دو ہفتہ ہے اور اخترؔ ہے
اِدھر یہ گال ہے ، یہ تِل ہے ، کیا کیا جائے(۱۳)

اپنی کہاں مجال تھی اُس کی گلی میں جائیں
ماہِ دو ہفتہ تھا دلِ بے تاب لے گیا(۱۴)
یہاں صرف یہ بتا نا مقصود ہے کہ یہ ترکیب بھی ایک روایتی اور کلاسیکی غزل کی دین ہے اور اِس کے عقب میں حُسن و عشق کی داستانیں چُھپی ہیں۔ گویا کاروبارِ حُسن و عشق کے بازار میں یہ ایک سکۂ رائج الوقت ہے جو دورِ قدیم سے استعمال ہوتا رہا ہے اور مختلف اساتذۂ فن نے بڑی خُوبی سے اِسے کام میں لایا ہے۔ اخترؔ بھی اِن شعرا کی صف میں شامل ہیں۔
بحیثیتِ مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ اخترؔ کے  ’’چراغ زار ‘‘ میں اکثر و بیشتر وہ چراغ ہیں جنھیں اساتذۂ فن نے اپنا خونِ جگر دے کر اور اپنے فن کی ماچس رگڑ کر روشن کیا ہے۔ تاہم اخترؔ نے بھی اپنی تخلیقی ہنرمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اِس ’’ چراغ زار ‘‘ کے حُسن کو فروغ دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے ۔ روایتی مضامین باندھتے ہوئے بھی اور کلاسیکی موضوعات پر طبع آزمائی کرتے ہوئے بھی وہ جدّت اور لطف تراشتے اور تلاشنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور غزل کو غزل ہی کے رُوپ میں پیش کرنے کی راہ نکالی ہے۔ غزل میں جدّت کے نام پر فی زمانہ  بہت سے  شاعر جن  لغو، بے معنی اور بے کار سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں، اخترؔ نے خُود کو اِس ہجوم میں شامل ہونے سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ غزل کو اُس کی  اصل شکل اور کلاسیکی رنگ رُوپ میں پیش کرتے ہوئے روایت کے ساتھ آگے بڑھانے کی سعی کی ہے اور جدّت تراشنے کی اُن کی کوشش بھی نمایاں ہے:
یہی کہ ہم سے نہیں نبھ سکی محبت میں
زوالِ عمر ہے اب اور جھوٹ کیا بولیں(۱۵)
ہوا نہ ضبط بھی اور وہ بھی ہو گیا ناراض
غزل بھی ہو نہ سکی اور غزال سے بھی گئے(۱۶)
بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست ! ہمیں
عجب نہیں کہ تِرے کھیلنے میں کھو جائیں(۱۷)
عجب خسارہ ہے اخترؔ قلمروِ دل کا
وہ جانتا ہی نہیں جس کے نام کر چکے ہیں(۱۸)
کُنج لب میں جو شرارت سے چُھپا بیٹھا ہے
آپ دانتوں میں اِس اک تِل کو دباتے رہیے(۱۹)
دھیان سے اے رفوگرو ! ہجر کا زخم بھر نہ جائے
جی کا جو حال ہو سو ہو ، بات اِدھر اُدھر نہ جائے(۲۰)
یوں وہ غزل گو شعرا کی اُس  بڑی تعداد سے مستثنیٰ ٹھہرتے ہیں جو ایک ہجوم کی صورت میں نامعلوم جزیروں کی طرف بے جہتی کا شکار ہوکر ایک مخصوص دائرے میں محوِ سفر ہیں۔اخترؔ کے ہاں روایت کی پاس داری کے ساتھ ساتھ جدّت طرازی کا شعور بھی ہے اور وہ معیار و مقدار کو بھی خاطرمیں رکھ کر تخلیقِ شعر کی اپنی ذمہ داری انجام دیتے رہے ہیں:
اپنے لیے اک درجہ بنا رکھا ہے ہم نے
معیار ہے ، معیار سے کم کچھ نہیں کہتے(۲۱)

 

حوالہ جات

۱۔         اخترؔ عثمان ،چراغ زار ، رُمیل ہائوس آف پبلی کیشنز راولپنڈی ،اشاعتِ اول :۲۰۱۷ء ، ص:۴
۲۔        اخترؔ عثمان، مواجہہ:،راقم الحروف، مقام: اسلام آباد، اپریل :۲۰۱۹ء
۳۔        اخترؔ عثمان ، چراغ زار ،رُمیل ہائوس آف پبلی کیشنز راولپنڈی، اشاعتِ اول: ۲۰۱۷ء، ص:۹
۴۔        ایضاًبحوالہ بالا، ص:۱۲
۵۔        ایضاًبحوالہ،ص:۱۸
۶۔        ایضاًبحوالہ بالا، ص:۲۹۔۳۰
۷۔        ایضاً بحوالہ بالا، ص:۳۶۔۳۷
۸۔        ایضاً بحوالہ بالا، ص:۴۳۔۴۴
۹۔         ایضاً بحوالہ بالا، ص:۱۰
۱۰۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۱۱
۱۱۔        ایضاً بحوالہ بالا، ص:۴۸
۱۲۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۸۳
۱۳۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۸۵
۱۴۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۹۶
۱۵۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۱۶
۱۶۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۲۶
۱۷۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۵۵
۱۸۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۶۹
۱۹۔        ایضاً بحوالہ بالا، ص:۷۱
۲۰۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۹۹
۲۱۔       ایضاً بحوالہ بالا، ص:۸۷

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com