مغربی ناولوں کے اُردو تراجم اور عالمگیریت کے تقاضے
ڈاکٹر صدف نقوی، اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی ،  فیصل آباد
ڈاکٹر فرحت  جبیں ورک، صدر شعبہء اردو ، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ،  راولپنڈی
ڈاکٹر علی  کمیل قزلباش

Abstract:
Every literature reflects the cultural, economic, political and social life of its age. The art of novel involves all these factors to the maximum. In that period when urdu reader was becoming more and more inquisitive about the western literature in India, a new society was shaping itself. Feudal system was degenerating and the capitalist society was taking place of the former. In this period western novels were translated, which resulted not only in the form of new values but also provided material to researchers for comparative study of societies. This research work is an effort to reach those means which will also provide a basic source for 'Urdu Literature: Pakistani Cultures and Globalization.

جہاں تمام اصنافِ ادب اپنے اپنے عصر کی تہذیبی و ثقافتی، معاشی و اقتصادی، سیاسی و سماجی زندگی کی آئینہ دار ہوتی ہیں،وہیں فنِ ناول نگاری میں بھی انھی مقتضائے ادب کا اہتمام کرنا فطری ضرورت  رہا ہے ۔ جس عہد میں انگریزی زبان و  ادب سے واقفیت  و استفادے  کا ذوق و شوق ماہرین اردو  زبان و ادب میں پیدا ہو رہا تھا، اُسی عہد میں ہندوستان میں ایک جدیدسماج اور ایک نیابیانیہ بھی جنم لے رہا تھا۔ جاگیردارانہ تہذیب آمادہ بہ زوال ہو چکی تھی اور اس کی جگہ سرمایہ دارانہ تہذیب و معاشرہ جنم لے رہا تھا۔  حقیقی معنوں میں یہ ایک ایسی تہذیبی بازیافت تھی کہ جس سے مشرقی و مغربی  بیانیوں سے جدید اسلوب تراشا گیا۔ داستانوی عہد، معاشرہ اور تہذیب اپنی ساری چمک دمک، مخصوص حُسن  ورعنائی اور مخصوص عرصے کے بعد رخصت ہو چکی تھی اور ایک ایسی تہذیب اور سماج اُبھر رہا تھا جس میں جدت و نیا پن تھا، جس کی ترجمانی کے لیے افسانوی اصناف ادب میں قصہ گوئی اور داستان طرازی ازکار رفتہ ہو چکی تھی۔ چنانچہ سماج کو نئی جہاتِ ادب سے متعارف کروانے کے لئےایک نئی افسانوی صنف ادب کو سامنے آنا تھا۔ یہ خوش نصیبی کی بات تھی کہ اردوزبان و ادب  کے سامنے انگریزی میں ناول کی صنف موجود تھی، جس کو نمونہ بنا کر اردو میں کہانی کے لیے ناول کی صنف کو ذریعہ اظہار بنایا گیا۔ ادب ثقافتی رویوں کی پرداخت کے لئے  ایک فعال ذریعہ ہے اور ثقافت کو ملک کی اقتصادی بنیادوں میں اہم ستون  کہنا بے جا نہ ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ ادب کا ثقافتی بیانیہ عالمگیر منڈی میں بھی کارگر معلوم ہوا۔چنانچہ اس دور میں  اقدارِ نو کی کرنوں کے اُجالے سے ہندوستان بھی متاثر ہوا۔ نوآبادیاتی اثرات مختلف شکلوں میں صورت پذیر ہوئے۔ کہیں فاتح قوم کا تفاخر، اپنی تہذیب کا تعارف بنا تو کہیں مفتوح قوم کی پسپائی’’برکاتِ حکومتِ انگلشیہ‘‘ کی صورت میں دعاگو ہوئی۔ اس عرصے میں مغربی بیانیے کے اُردو ناولوں پر اثرات کی وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر اس جاننے کی خواہش  میں کئی انگریزی ناولوں کے اردو تراجم بھی کیے گئے اور ادب میں یہ نیا پن ادب کے قاری کو ایسا بھایا کہ صرف انیسویں صدی ہی نہیں بلکہ تا حال کسبِ فیض کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرچہ ایک مکتبہ فکر اس کا مخالف بھی تھا، لیکن اس سیلِ بےبہا کے سامنے بند نہ باندھا جا سکا۔
اُردو ناول اپنی ابتدا ہی سے مغربی اثرات کے زیر اثر رہا۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی اِس ضمن میں یوں رقمطراز ہوتےہیں کہ
مسیحی مسافر کا احوال‘‘ (مطبوعہ ۱۸۶۹ء) اُردو ناول نگاری کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ناول جان بنین (John Bunyan ) کے شہرہ آفاق تمثیلی قصے "The Pilgrims Progress " کا ترجمہ ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کا ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کرداروں کے ناموں کی طرز پر اسی ترجمے کو پیشِ نظر رکھ کر تصنیف کیا گیا ہے۔ یقینی طور پر ڈپٹی نذیر احمد نے اس ترجمے کا مطالعہ کیا ۔(۱)
جان بنین کے اس ناول کا ترجمہ ’’مسیحی مسافر کا احوال‘‘ کے نام سے ہوا۔ انگریزی زبان میں اس درجہ مقبولیت انجیل کے بعد شاید ہی کسی کتاب کو نصیب ہوئی ہو۔ جان بنین کے اس قصے کے کردار اسم بامسمی ہیں اور یہی صورتِ حال ہمیں ’’مراۃ العروس‘‘ میں بھی نظر آتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے بعد اُردو ناول نگاری میں رتن ناتھ سرشار ہیں۔ اُن کے بارے میں یوسف سرمست کی رائے قابلِ ذکر ہے
جس طرح رچرڈسن اور فیلڈنگ مخصوص حالات میں اتفاقاً ناول نگار بن گئے تھے۔ یہی حال نذیر احمد اور سرشار کا ہے۔ نذیر احمد نے اپنے ناولوں کو قصے اور سرشار نے اپنے ناول کو فسانہ قرار دیا، لیکن شرر اور رسوا نے سب سے پہلے شعوری طور پر ناول نگاری کی۔(۲)
جہاں نذیر احمد نے مغربی ناولوں سے متاثرہو کر ناول نگاری کی وہیں سرشار بھی مغربی ناول نگاری سے متاثر ہیں۔ فسانہء آزاد کی جلد چہارم میں وہ فسانہ ءآزاد کو انگریزی ناولوں کے رنگ ڈھنگ میں لکھا ناول قرار دیتے ہیں۔
’’فسانہء آزاد‘‘کا رنگِ بیانیہ سپین کے مشہور مصنف سروینٹیز(Cervantes ) کی شہرہ آفاق تصنیف ڈان کوئزوٹ (Donquizote ) سے متاثر نظر آتا ہے۔ مرزا حامد بیگ کی رائے اس سلسلے میں سند کا درجہ رکھتی ہے’’رتن ناتھ سرشار لکھنؤی کا ’’فسانہ آزاد‘‘ نہ صرف یہ کہ ’’ڈان کیخوتے (Donquizote ) کے واضح اثر کے تحت لکھا گیا بلکہ اسی تسلسل میں سرشار نے اپنے دیگر ناولوں کو بھی آگے بڑھایا۔‘‘(۳)
ابتدائی ناول نگاروں میں ایک اہم نام عبدالحلیم شرر کا ہے۔ شرر نے اپنے ناولوں میں تاریخ نگاری کو اپنایا۔ مرزا حامد بیگ ،عبدالحلیم شرر کے اسلوب ِ بیان پر اس انداز میں روشنی ڈالتے ہیں کہ
عبدالحلیم شرر کا انداز اسکاٹ کی تاریخ نگاری سے مشابہ ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات اُن کے کردار اسکاٹ ہی کے کردار نظر آتے ہیں۔ اسکاٹ کے انداز میں شرر نے نصرانیوں کی بجائے مسلمانوں سے لمبی لمبی تقریریں کروائی ہیں اور یہ انداز اِ س حد تک ملتا جلتا ہے کہ شرر نے بھی اسکاٹ کی طرح نظم کا سہارا لیا ہے۔ (۴)
عبدالحلیم شرر کا اسلوبِ بیاں اُن کے تاریخی ناولوں  میں بہ نسبت سماجی ناول نگاری  زیادہ توانا نظر ٓاتا  ہے۔ یوسف سرمست  اس بابت یوں لکھتے ہیں کہ:’’اُنھوں نے ناولوں کو ایک مقصد کے لیے استعمال کر کے اُس کی وسعت کو ظاہر کیا بلکہ ایک طرح اُنھوں نے والٹر سکاٹ کی مانند، ناول نگاری کی ایک نئی سمت کو دریافت کیا۔‘‘(۵)
اُردو کے ابتدائی ناول نگاروں میں مرزا ہادی رسوا  ایک اہم  نام ہے۔ انھوں نے ’’کوریلی میری‘‘ کے کئی ناولوں کے اُردو ترجمے کیے جن میں خونی عاشق، خونی مصور، خونی بھید، خونی جورو وغیرہ شامل ہیں۔ ان تراجم کے ذریعے رسوا نے اُردو میں جاسوسی ناول کی صنف کو متعارف کروایا۔ اگرچہ اُن کی اپنی طبع زاد تحریروں میں جاسوسی عنصر شامل نہیں ہے۔
مغربی ناولوں کے تراجم کے حوالے سے تیرتھ رام فیروز پوری کا نام بہت اہم ہے۔ انھوں نے کئی اہم مغربی ناولوں کے تراجم کیے۔ اُن کے تراجم میں حور ظلمات، کرنی کا پھل، سرائے والی، آندھی، اسیر ہوس، ڈاکٹرنکولا، سنہری ناگن، لعل شب چراغ، مصری جادوگر، تلاش اکسیر، پیلا ہیرا، تاج شاہی حسن کے قدموں پر، حسن کا جادو، خونی انتقام، دورنگی چال، وطن پرست، جنگل میں لاش اور نولکھا ہار سمیت سو سے زائد ناول شامل ہیں۔
عالمی بیانیہ تک رسائی کے ضمن میں گو کہ تراجم نے بے حد فعال کردار ادا کیا مگر وہیں تعمیر کے بہانے عام ناول نگاروں اور مترجمین کی کثرت نے اُردو ناول نگاری کے اصل مطمحء نظر کو بھی نقصان پہنچایا۔ کئی تراجم طرزِ بیاں کے حوالے سے ناقص  ثابت ہو کر گزرتے وقت کی دھول ثابت ہوئے۔ اُردو میں کیے گئے تراجم کی مد میں جانے انجانے  اصل مصنف یا ناول کا نام نہ بتانا بھی رواج پا گیا،جس کی نشاندہی گزرتے وقت کے ساتھ بعد ازاں ہوتی رہی اور کہیں مترجم نے بھی مآخذ میں فقط انگریزی ناول  کامتن یا استفادہ بتا دینا کافی سمجھا۔
بعض ناولوں کے تراجم ایک سے زائد مترجمین نے یکے بعد دیگرے کیے ہیں۔ برونٹی ایملی کے ناول "Wuthering Heights " (ودرنگ ہائیٹس) کا ترجمہ خاطر غزنوی، رئیس احمد جعفری، قاسم محمود اور سیف الدین حسام نے مختلف اوقات میں  کیا ہے۔
شارلٹ برونٹی کا اہم ناول ’’جین آئر‘‘(Jane Eyer ) مقبولیت اور عالمگیریت کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کا ترجمہ حسام سیف الدین نے کیا ہے۔ مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:’’اس ناول کا شمار ہمیشہ زندہ رہنے والے ناولوں میں ہوتا ہے۔۔۔ شارلٹ برونٹی کی نجی زندگی کا تجربہ اس ناول کی ایک ایک سطر سے بولتا ہے۔‘‘(۶)یہ وہی  ناول  ہے کہ جس کی کہانی پر بھارت میں فلم ’’سنگ دل‘‘ بنائی گئی جس میں مرکزی کردار دلیپ کمار اور مدھو بالا نے ادا کیے۔ اسی ناول کی کہانی پر ہالی وڈ کی چھ یادگار فلمیں بھی بنیں۔
مغربی ناولوں کے تراجم اور عالمگیریت کے حوالے سےمیکسم گورکی کا ناول "The Mother " بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گورکی کے اس ناول کے تراجم دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ناول نگاری کی تاریخ میں اس ناول کو سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ناول پر کئی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ جرمنی میں۱۹۳۲ء میں ایک ناٹک ’’ماں‘‘ کے نام سے ہوا تھا وہ بھی اسی ناول پر مبنی ہے۔ ناول ’’ماں‘‘ میں انقلابِ روس سے پہلے کے حالات، انقلاب اور عوام کی جدوجہد کو پیش کیا گیا ہے۔ انقلاب سے پہلے روس جن معاشی حالات سے دوچار تھا۔ عوام کی زندگی بہت دشوار تھی۔ دارالحکومت میں اندھے قانون اور سوشل ناانصافیوں نے عوام کی زندگی کو دوزخ بنا دیا تھا اور پھر وہ سب انقلاب اور تبدیلی کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔
گورکی کا ناول ’’ماں‘‘ میں خود اُس کی زندگی کے ذاتی تجربات شامل ہیں۔ ناولوں کی عالمی درجہ بندیوں  میں یہ ناول سرفہرست ہے۔ اُردو زبان میں بھی اس شہرہءآفاق ناول  کے کئی تراجم ہو چکے ہیں۔ کچھ مترجمین کے نام تاریخ کے صفحات محفوظ کرنے سے قاصر رہےمگر ان میں ایک ترجمہ مخمور جالندھری کا بھی  کیا ہوا ہے۔بادی النظر میں دیکھا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی صنفِ ادب کا وہی ترجمہ فعالیت کا منبع  رہا ہے کہ جس کے موضوع اور متن میں عالمگیر موافقت و ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔  مرزا حامد بیگ اس ناول میں عالمگیر موافقت کے حوالے سے یوں رقمطراز ہوتےہیں کہ
گورکی نے اس ناول میں طبقاتی تقسیم کے خلاف اُٹھنے والی عوامی تحریکوں کے ظاہر و باطن کو پوری تفصیل اور دیانت داری کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ ناول میں متضاد اور باہم مقارب نظریات کی کش مکش کو اس فنکاری سے پیش کیا گیا ہے کہ زندگی کی ھماھمی اس ناول کا وصفِ خاص بن گئی ہے۔(۷)
تراجم کی فعالیت و کارگری میں کوئی دو رائے نہیں ،مگر اس کو فعال و موافق بنانے والے عوامل کا ذکر نہ کرنا قرینِ انصاف نہ ہو گا۔وہی عالمگیر ادبی پیرائیے  و روئیے مستندتراجم ثابت ہوئے ہیں کہ جن کےپسِ پردہ کوئی تحریک یا نظریہ کارفرما رہا ہی ہو ۔ ابتدائی رویوں،نظریوں اور تحاریک نے جہاں زبان و ادب میں کئ طرح کی جہات متعارف کروایئں وہیں مارکسی تحریک نے اُردو ادب پر گہرے اثرات مرتسم کیے جس کا نتیجہ ترقی پسند تحریک و ادب کی صورت میں آج بھی ادبی جہات کی آبیاری کر رہا ہے۔ یہی موافق عالمگیر رویے ہیں کہ جن کی بنا پر میکسم گورکی کے ناول ’’ماں‘‘ نے بھی اُردو ادب پر اہم اثرات مرتب کیے۔ اُردو ادبا نے انھی تراجم کی بنا پر بعد ازاں اسی طرزِبیان کواپنی تخلیقات میں اپنے پیش آمدہ حالات  وکلچر کی جدید بنت  و اصلاح کے لئے برتا۔
اگر میکسم گورکی کے جدید بیانیے کا تجزیہ کیا جائے تو اُس کے فن پاروں میں  مرکزی کردار جدید زندگی کی ضروریات  و للکاروں سے نبرد آزما کسمپرسی کی زندگی گزارتا عام انسان ہے۔جس کےپچکے گالوں اور بے چہرگی سے سماج کا چہرہ پُر نور بنتا ہے۔مارکسی تحریک کے نمائندہ ادیب میکسم گورکی نے جس طور بے چہرہ لوگوں کو ہیرو کا درجہ دیا وہیں مشرق و مغرب کے بیانیے کو نقطہء اتصال ملا۔ مارکسی تحریک نے مشرقی بیانیے پر ترقی پسندوں کی صورت انمٹ نقوش مرتسم  کیے۔ ڈاکٹر انور سدید اس تحریک کے کثیر الجہاتی اثرات کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں کہ
مارکسی تحریک نے زندگی کو جامعیت اور صداقت کے ساتھ اور خارجیت کو حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کرنے کی تلقین کی۔ اس تحریک نے ادب کی تنقید کو بھی متاثر کیا۔ چنانچہ ادبی تخلیق کو سماجی پس منظر میں دیکھنے اور اُس کی افادیت کے مطابق حکم لگانے کا انداز پیدا ہوا۔(۸)
اُردو ادب میں تراجم کی ذیل میں  ترقی پسند تحریک کی تمام تر فکری اساس لا محالہ طور  مارکسی تحریک کی دین ہے مگر ہندوستانی خطے پر جبر و یاسیت کی فضا اس کا مواد ثابت ہوئی۔ اِس مد میں شوکت صدیقی کا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ عالمگیریت کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔ اس  ناول کا اسلوب اس بات کا عکاس ہے کہ خطوں کے مماثل حالات و عوامی رویوں  نے مقامی موضوع و بیانیے کی آمیخت سے ادبِ عالیہ کی پرداخت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یقینا تراجم ادبی تخلیق  کو مزید جلا بخشنے کا اہم وسیلہ ثابت ہوئے ہیں۔
نفسیاتی ناولوں میں سے ایک اہم ناول امریکی ناول نگار ہرمن میلول کا ’’موبی ڈک‘‘ ہے۔ جس کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ اس مشہور ِزمانہ ناول کے اُردو میں بھی کئی تراجم ہو ئے۔ اس ناول کا ابتدائی ترجمہ ’’چندرموھن لانیہ‘‘ نے ۱۹۵۹ء میں کیا۔ محمد حسن عسکری نے بھی اس کا ترجمہ کیا جو شیخ غلام علی، بہ اشتراک فرینکلن سے ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا۔ مشہور نفسیات دان ژونگ نے اپنے ایک مضمون ’’ادب اور نفسیات‘‘ میں اس کو امریکی دنیا کا سب سے بڑا ناول قرار دیا ہے۔ نفسیاتی جزئیات نگاری کے حوالے سے یہ ایک  شاہکار ہے اور محمد حسن عسکری نے اس کا ترجمہ بھی کمال خوبی سے کیا ہے۔اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا
’’اس نوع کے ترجمے کو دیکھ کر یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُردو کے تخلیقی اور نثری اسالیب بیان کو بڑھاوا دینے میں محمد حسن عسکری کا نام کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا یہ عسکری صاحب کی شعوری کوششیں تھیں۔‘‘(۹)
ہرمن میلول کا یہ ناول عالمگیریت کے حوالے سے اہم ہے۔ ادب کی  دنیا میں اس ناول کے مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ساتھ اس ناول کو ہالی وڈ کی فلمی کمپنیوں نے تین بار مختلف انداز سے فلمایا۔ یہ ناول پہلی دفعہ "Moby Duck " کے نام سے ۱۹۳۰ء میں اور دوسری بار "The Sea Beast "کے نام سے ۱۹۴۲ء میں اور تیسری بار "Moby Duck "کے نام سے ۱۹۵۹ء میں فلمایا گیا۔
مرورِ ایام نے ثابت کیا ہے کہ تراجم ہی کے طفیل دنیا ایک عالمگیر ثقافتی میلان کی راہ پر گامزن ہے۔جس کی وجہ سے قاری اساس ادب میں بھی آئے روز خوش آئیند تبدیلی واقعہ ہو رہی ہے۔ اِسی ضمن میں ایک مثال ’’لارڈوالٹر‘‘ کے ناول "A night to Remember " کی ہے۔ جس کا ترجمہ عابد علی عابد نے کیاہے۔ لارڈ والٹر اسے سچا واقعہ قرار دیتا ہے۔ یہ ایک جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ کی تباہی کی داستان ہے۔ لارڈ والٹر نے یہ ناول مارگن رابرنس کے ایک ناول سے متاثر ہو کر لکھا۔ مصنف دیباچے میں لکھتے ہیں کہ
۱۸۹۸ء میں ایک نو عمر ناول نگار مارگن رابرٹس نے ایک عظیم الشان بحری جہاز کا تصور پیش کیا تھا، جسے دنیا کی کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی۔ لیکن آخرکار وہ جہاز ایک برف کے بڑے تودے سے ٹکڑا کر پاش پاش ہو جاتا ہے۔ لارڈ والٹر کے کہنے کے مطابق برطانوی جہاز ساز کمپنی وائٹ سٹار لائین نے اس ناول کے طبع ہونے کے ٹھیک چودہ برس بعد اُس نوع کا ایک جہاز تیار کیا جس کا وزن طول وعرض حتیٰ کہ رفتار تک مارگن رابرٹس کے خیالی جہاز سے مماثلت رکھتی تھی لیکن اتفاق سے اس برطانوی جہاز کا بھی وہی انجام ہوا۔ جس کی طرف اشارہ ناول میں کیا گیا تھا۔(۱۰)
اُردو ادب میں بہت سے روسی ناولوں کے تراجم بھی انگریزی زبان کی معرفت ہوئے۔ کاونٹ لیوٹالسٹائی کے ناول ’’حاجی مراد‘‘ کا ترجمہ انگریزی سے قیسی رام پوری نے کیا۔ اس ناول کا ایک اور ترجمہ مظفر کاظمی نے کیا۔ یہ ترجمہ روسی زبان سے انگریزی کی معرفت کیا گیا۔ اس طرح ٹالسٹائی کے مشہور زمانہ ناول "War and Peace " کے بھی کئی تراجم ہو چکے ہیں۔ ٹالسٹائی کے ناول ’’اینا کرنینا‘‘ کا ترجمہ انعام الحق نے ۱۹۶۶ء میں کیا۔ اس ناول پر متعدد فلمیں بھی بن چکی ہیں اور بہت سے ڈراموں میں بھی اس کہانی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
"ارنسٹ ھیمنگ وے "  کے ناولوں کے تراجم بھی کئی مترجمین نے کیے۔ اس کے ناول ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ کا ترجمہ بشیر ساجد نے کیا۔ ھیمنگ وے کا یہ ناول ادبی انعام یافتہ بھی ہے۔ ۱۹۵۸ء میں اس ناول پر ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی۔ اس ناول کا ایک ترجمہ ابن سلیم نے بھی کیا تھا۔
اُردو ادب پر ’’وجودیت‘‘ کے اثرات کے حوالے سے ایک نام انیس ناگی کا ہے۔ اُنھوں نے انگریزی ناولوں کے اُردو تراجم کیے جن میں ایک ناول البرٹ کامیو"Le Mythe de sisphe " ’’سیفس کی کہانی‘‘ ہے۔ البرٹ کامیو کا یہ ناول لایعنیت کےتناظر و  اثرات کے لئے مخصوص ہے۔انیس ناگی کا ناول ’’دیوار کے پیچھے‘‘ بھی وجودی اثرات کے تحت لکھا گیا۔ ’’دیوار کے پیچھے‘‘ میں ایک ایسے انسان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تنہائی کی وجہ سے واہموں کا شکار ہے۔ اسی حالت کی وجہ سے ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور خود کشی کرنا چاہتا ہے۔ پورے ناول کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انیس ناگی نے مغربی ناول نگاروں کے اثرات ضرور قبول کیےمگر اس میں زمینی حقائق سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔مغربی تحاریک کے اثرات  کے تحت لکھنے والوں کے اپنے حالات و پیش آمدہ واقعات ناول کی کہانی کا اہم محرک بنتے ہیں،تکنیک کے ضمن میں  مغربی تھئیریز  ناول نگاری کے ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:’’اس میں خود کلامی کا سہارا لیا گیا ہے جسے پڑھ کر ذہن فوراً فلپ روتھ کے مشہور ناول (Portonoys Complaint ) کی طرف جاتا ہے۔‘‘(۱۱)
’’دیوار کے پیچھے‘‘ کے کردار ’’سیفس کی کہانی‘‘ کے کرداروں سے ملتے جلتے ہیں۔ اس کے بارے میں مرزا حامد بیگ کہتے ہیں کہ
انیس ناگی یہ ناول لکھنے سے پہلے "Ly Mythe de Sisphe " یعنی ’’سیفس کی کہانی‘‘ ازالبرٹ کامیو کا ترجمہ کر چکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول پر البرٹ کامیو کے فلسفہ لایعنیت کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ’’ دیوار کے پیچھے‘‘ کے مرکزی کردار کا جنم کامیو کی لایعنی موت سے ہوا۔(۱۲)
انیس ناگی کے نہ صرف ناولوں بلکہ اُن کی شاعری پر بھی ان تراجم میں مستعمل نظریات کے  اثرات نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ انیس ناگی نے البرٹ کامیو کے ناول ’’طاعون‘‘ اور دوستوفسکی کے ناول ’’تہہ خانے سے‘‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ البرٹ کامیو کا ناول ’’طاعون‘‘ میں بھی وجودی عناصر نظر آتے ہیں اور اسی کے اثرات انیس ناگی کے ناول ’’زوال‘‘ میں نظر آتے ہیں جس کا ہیرو زندگی کی لایعنیت کاترجمان بنا ملتا ہے۔
مغرب سے وجودیت کے اثرات ہمارے ہاں ناولوں کے تراجم کی بنا پر در آئے جس سے ہمارے ادیبوں کو نئے موضوعات میسر آئےبلکہ عالمی موضوعات نے عالمگیرزمینی حقائق کی نقاب کشائی میں بھی اہم کردار دا کیا۔
دورِ حاضر میں کیفیتی و کمیتی ہر دو  حوالے سے بہتر تراجم ہو رہے ہیں۔ چونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی سریع ترقی نے انسان اور سماج سے متعلقہ  ہر ہر جہت میں تبدیلی کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔ نتیجتاً سماجی ، سیاسی شعور میں بھی خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ انسانی حیات کے متعلقات یعنی  لباس ،طرزِحیات، احساسات و جذبات اور عمومی و خصوصی ضروریات ہر لمحہ تبدیلی کی زدمیں  ہیں۔ عالمگیریت کے اس دور میں ترسیل و ابلاغ کے حوالے سے نئے نئے مسائل و مباحث بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سرپٹ بھاگتی ہوئی دنیا میں اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے حواس کی  بیداری اہم ہے تا کہ  اس بیداری سے ترقی یافتہ قوموں کی شب و روز  ترقی کے رازوں تک رسائی ممکن ہو سکے۔ اس حوالے سے تراجم کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ ہر ذی شعور انسان نئی تبدیلیوں کا نہ صرف خواہش مند ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں اپنی تہذیب سے میل کھاتے اسالیب میں اس کے ارتباط کا بھی خواہاں ہے۔ بقول ڈاکٹر طاہرہ اقبال:’’اپنے عہد کی آواز سن کر جواب دینے کا عمل فطری ہے۔‘‘(۱۳)ایسے ہی فطری عمل کو اپنی ثقافت کے جلو میں لئے مغربی معاشرہ سانس لے رہا ہے اور وہ اس میں آئے روز  خاطر خواہ مزید جدت طرازیوں کا خواہاں بھی ہے۔یہی بات ہمارےسماجی اسالیب  پر صادق آتی ہے۔ بقول پروفیسر محمد حسن:’’عالمگیر آگہی کا نور اور سرور ایک زبان کے علم و آگہی، جذبے اور شعور، فکر و احساس، تکنیک اور سائنس تک پہنچنا چاہیں گے تو تراجم کا سہارا لیں گے۔‘‘(۱۴)
روزِازل سے ہی انسان  خوب سے خوب تر کا داعی ہے اورتلاش،جستجو،فکر،تحقیق  انسانی فکر و شعور کا خاصا رہی ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ سے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل رہا ہے۔ انسانی مسائل اور بقائے حیات کے تصورات اُردو ناولوں کے طرزِ بیان و متن میں بدرجہ اتم موجود رہے ہیں۔اُردو  ناول نگاروں نے اپنی نگارشات کے لیےمطابق حال فکری مواد مغرب سے حاصل کیا اورپہلے سے موجود مشرقی اقدار و روایات کی مقامیت کی حامل  اعلیٰ  ومضبوط، پائیدار اسالیب کو جدید نظریات کی  مدد سےدنیائے ادب کے لئے مزید قابلِ فہم بنایا۔ اُردو زبان و ادب میں یہ اثرات مغربی ناولوں کے تراجم کی بدولت آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی مصنّفین نے بھی برصغیر پاک و ہند کے مسائل کو موضوع بنا کر قلمایا۔ اس طرح مغربی ناول نگاروں کے اثرات مشرقی ادب پر بھی مرتسم ہونے لگے۔بقول پروفیسرسحر انصاری
ان تصانیف میںFoster کی "A passage to India " اور Thompsomکی "An Indian Day " اور "A Farewell to India " بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ ایم ایم فارسٹر کے ناول "A Passage to India "نے پاک و ہند کے ناول نگاروں کو اس لحاظ سے بہت متاثر کیا کہ وہ ایک نئے سیاسی اور تہذیبی تناظرمیں اپنے مسائل کی طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھیں۔(۱۵)
عصر ِحاضر عالمگیریت سے ہمکنار ہے۔ ایسے میں تمام خطہ ء ارضی کا  ہمہ وقت تبدیلی کی زد میں رہنا ناگزیر ہے۔ خاور جمیل اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ہم بدل رہے ہیں اور اس بدلنے کے ساتھ ایسے نئے سانچوں کی تلاش میں ہیں جو ہماری زندگی میں نئے معنی پیدا کر سکیں۔‘‘(۱۶)
مقتضائے کلام یہ ہے کہ دوسروں کے نظریات قبول کرنا لیکن اپنی اقدار کو ہاتھ سے نہ جانے دینا ہی اصل کامیابی ہے۔ تراجم کے ذریعے سے ہی ہم دوسروں کے نظریات کو جان سکتے ہیں اور اس کا مثبت امتزاج ہی کامیابی کی دلیل ہے۔ ہر شعبہ ہائے علمی میں تراجم بھی ہر سطح کے ہو رہے ہیں۔ صحیح اور حقیقی ترجمے کی نوعیت اُس کے بنیادی مقاصد پر مشتمل ہے۔ آج جب کہ علم عالم گیر سطح پر ایک اکائی بنتا جا رہا ہے۔ کوئی بھی زبان ترجمے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔
ترجمہ ایک زبان کے نہ صرف خیالات کو دوسری زبان میں منتقل کرتا ہے بلکہ یہ علم ایک متن کے موضوعات کو بھی دوسری زبان میں پیش کرتا ہے۔ بقول خالد محمود خان
یہ فن لفظی ثقافت اور سماجی ثقافت کا اتصال کرتا ہے۔ اس سے ترجمے کی زبان اور خیال مزید زرخیز ہو جاتے ہیں۔ زبان او رخیال میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔۔۔ دنیا بھر کا ادب متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ تحرک ایک زبان سے دوسری زبان، ایک ثقافت سے دوسری ثقافت، ایک علاقے سے دوسرے علاقے، ایک ملک سے دوسرے ملک سے لے کر دنیا کے ہر کونے میں فن، خیال اور زبان کو دستیاب کر دیتا ہے۔ اس وسیع پیمانے پر مطالعہ کرنے والے طالب علموں، تحقیق کاروں، ناقدین، تجزیہ کاروں اور تخلیق کاروں کی وسعت نظری عالمی آفاقی یا کائناتی نوعیت کی ہو جاتی ہے۔(۱۷)
دراصل اسی عالمی و آفاقی وسعت نظری کا نام عالمگیریت ہے۔اُردو زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اُس نے ترجموں کی روایت کو مروج کرنے میں فراخ دلی کا ثبوت دیا ۔یہ تراجم ہی ہیں کہ جو عہدِ رفتہ کے ساتھ ساتھ عالمی ثقافت کے لئے مزید راہ ہموار کرنے میں مددگار ثابت ہو ں گے۔
عہد حاضر میں بہت سی زبانوں کے ناول کے تراجم نے اُردو زبان و ادب کے کینوس کو مزید  وسیع  کر دیا ہے۔یقینی طور پر تراجم کا  یہ سلسلہ معلوماتی، تہذیبی اور جمالیاتی سطح پر اپنے دوررس اثرات مرتب کر تا آیا ہے اور مزید دور رس نتائج متوقع ہیں۔

 

 

حوالہ جات
۱۔       محمد علی صدیقی، ڈاکٹر، اُردو کا پہلا ناول نگار، مشمولہ: اُردو ناول تفہیم و تنقید، مرتبہ: ڈاکٹر نعیم مظہر، ڈاکٹر فوزیہ مظہر، اسلام آباد: ادارہ فروغ قومی زبان، ۲۰۱۲ء، ص۱۔۲
۲۔       یوسف سرمست ڈاکٹر ، بیسویں صدی میں اُردو ناول، نئی دہلی: ترقی اُردو بیورو،۱۹۹۵ء، ص۵۷
۳۔      مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۸ء، ص۳۰۲
۴۔      ایضاً، ص۳۰۲
۵۔       یوسف سرمست ڈاکٹر ، بیسویں صدی میں اُردو ناول، ص۵۸
۶۔       مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، ص۵۶۰
۷۔      ایضاً، ص۶۹۴
۸۔      انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، کراچی: انجمن ترقی اُردو پاکستان، ۱۹۸۵ء، ص۱۴۲
۹۔       مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، ص۷۲۷
۱۰۔      ایضاً، ص۷۳۱
۱۱۔      سلیم اختر، ڈاکٹر، پاکستان میں اُردو ادب سال بہ سال، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز،۱۹۸۸ء، ص۴۶
۱۲۔      مرزا حامد بیگ، ڈاکٹر، مغرب سے نثری تراجم، ص۳۱۷۔۳۱۸
۱۳۔     طاہرہ اقبال، ڈاکٹر، پاکستانی اُردو افسانہ سیاسی و تاریخی تناظر، نئی دہلی: براؤن بک پبلی کیشنز،۲۰۱۵ء، ص۱۷۱
۱۴۔     محمد حسن، پروفیسر، ترجمہ: نوعیت اور مقصد، مشمولہ: فن ترجمہ کاری، مرتبہ: صفدر رشید، اسلام آباد: پورب اکادمی،۲۰۱۵ء، ص۱۶۳
۱۵۔      سحر انصاری، تخلیقی ادب، ماہنامہ اسلوب، کراچی: ن م، ص۱۱۸
۱۶۔      خاور جمیل، نئی تنقید، جمیل جالبی، ڈاکٹر ، کراچی: رائل بک کمپنی،۱۹۸۵ء، ص۳۴۷
۱۷۔     خالد محمود خان، فن ترجمہ نگاری، لاہور: بیکن بکس، ۲۰۱۴ء، ص۱۷۹۔۱۷۸

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com