پطرس بخاری بحیثیت مدیر مجلہ  "راوی"ایک جائزہ
واصف لطیف، لیکچرار شعبہ پنجابی، جی سی یونیورسٹی، لاہور
ڈاکٹر عبدالواجد تبسّم، اسسٹنٹ پروفیسر اُردو، شعبہ پاکستانی زبانیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد

Abstract:
The Ravi is an important and historical magazine of Government College Lahore. It was first issued in July 1906, forty two years after the establishment of Government College. Many men of repute got the honour to be the editor of the Ravi and Patras Bokhari is the most important of them. Patras Bokhari was the student, professor and later principal of the Government College Lahore. In his student life he remained its editor since October 1919 to January 1921. He played very active and pivital role in developing the Ravi, particularly Urdu portion regarding the introducing poetry, prose, humour and editorial writing. His writings were being published in the mahazine even after the student life. In this research article an introductory and analytical review of the writings of Patras Bokhari as editor and as old Ravian is given.
اردو کےصاحب طرز مزاح نگار،شاعر،نقاد،افسانہ نگاراور مترجم پطرس بخاری نے ۱۸۹۸ میں پشاور کے ایک علمی وادبی خانوادے میں آنکھ کھولی پطرس کےوالداور بڑے بھائی سیدمحمدشاہ رفعت دونوں شاعر تھے ۔پطرس نے ۱۹۱۳ءمیں میٹرک کاامتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا اوراسلامیہ کالج، پشاور میں داخل ہوئےجہاں سےانھوں نے ۱۹۱۵ میں ا یف اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۱۷ میں گورنمنٹ کالج، لاہور سے بی اے اور بعد ازاں ایم اے انگریزی ادبیات کیا۔ ادب سےطبعی مناسبت کی وجہ سے انھیں کالج کے میگزین‘‘راوی’’کامدیر بھی مقرر کیا گیا۔
گورنمنٹ کالج، لاہور یکم جنوری ۱۸۶۴ء کو قائم ہوا۔ ۱۹۰۰ء تک کالج کا کوئی علمی ادبی رسالہ یا ریکارڈ گزٹ نہیں تھا۔ کالج کے ریکارڈ سے متعلق رپورٹیں اور خبریں شائع اور محفوظ کرنے کے لیے جہاں کسی خبرنامے یا گزٹ کی ضرورت تھی وہاں طلبہ کی ہم نصابی سرگرمیوں اور ادبی و تخلیقی ذوق کی تسکین کے لیے کسی رسالے یا میگزین کی بھی اشد ضرورت محسوس ہورہی تھی،چنانچہ اس ضرورت کے پیش نظرجون ۱۹۰۰ میں ایک میگزین کا اجرا کیا گیا۔ یہ سالانہ میگزین صرف کالج کے ریکارڈ پر مشتمل تھا۔ اُس میں طلبہ کے ادبی ذوق اور تخلیقی کاوشوں کےلیے کوئی جگہ نہ تھی۔ یہ ادبی مجلہ نہ تھا بلکہ اس کا مقصد کالج کے جملہ شعبہ جات کی کارکردگی اور سالانہ رپورٹیں شائع کرنا تھا۔بقول ایچ ایل او گیرٹ :
"A college Magazine, confined to records and published annually, was started in June 1900, with Mr. P. S. Allen as editor." ( ۱ )
چند برس بعد ہی یہ محسوس کر لیا گیا کہ یہ میگزین ادارے کی ادبی سرگرمیوں کے لیے ناکافی ہے۔ اسی ضرورت کے تحت ۱۹۰۵ءمیں‘‘راوی’’ کے نام سے ایک باقاعدہ ماہوار ادبی رسالہ جاری کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ جولائی ۱۹۰۶میں اس کا پہلا شمارہ منصہ شہود پر آیا۔ یہ شمارہ ۱بتدا میں انگریزی کے۱۲صفحات پر مشتمل تھا :
"… In July 1906 was published the first number of "The Ravi" a monthly Magazine which, under a succession of able and zealous editors, has continued to grow and flourish." ( ۲ )
مجلہ راوی کے ابتدائی شمارے انگریزی زبان میں تھے اور ایڈیٹر اساتذہ میں سے مقرر ہوتا تھا جبکہ اسسٹنٹ ایڈیٹرکا انتخاب طلبہ میں سے کیا جاتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۰۸ءمیں پہلی بار ایک طالب علم مسٹر ایل منموہن راوی کے ایڈیٹر مقرر ہوئے جواس سے پہلے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ اس شمارے میں اسسٹنٹ ایڈیٹر مسٹر ایل کندن لال لُومبا تھے۔ طالب علم ایڈیٹر مقرر ہونے کے بعد دیگر طلبہ کی تخلیقی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے، اُن کی خداداد صلاحیتوں کوجلا دینےاورانھیں تصنیف و تالیف کی طرف راغب کرنے کے لیے راوی کا پرچہ مفت دینے کے علاوہ اچھی تخلیقات پر طلبہ کے لیے انعامات کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا۔ ان اقدامات نے طلبہ میں لکھنے کا ذوق وشوق پیدا کیا،چنانچہ طلبہ نے راوی کے لیے تاریخ، غیر مطبوعہ لوک گیتوں اور کہانیاں جمع کرنے کے علاوہ طبع زاد مقابلہ جاتی مضامین لکھ کر انعامات حاصل کیے۔ اس سے نوآموز طلبہ کی تربیت ہوئی اور بعض نامور ادبا پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں :
 ’’ راوی کے پہلے دور کے بعض لکھنے والے بعد میں نہ صرف گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں شمار ہوئے بلکہ ان لوگوں نے لاہور کی علمی اور ادبی فضا پر بھی اپنے مستقل اثرات ثبت کیے اور انہیں اُردو ادب میں بھی مقام امتیاز حاصل ہوا۔ چنانچہ علی گڑھ میگزین کی طرح ‘‘راوی’’کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے اُردو ادب کو لاہور سے کثیر تعداد میں ادبا فراہم کیے۔۔ ) ۳ (
درج بالا رائے مجلہ راوی کے صرف اُردو حصہ کے حوالے سے ہے جبکہ راوی دیگر تین زبانوں انگریزی، ہندی اور پنجابی (گورمکھی اور فارسی رسم الخط) میں بھی شائع ہوتا رہا ہے۔ ہر زبان کے لکھنے والوں میں بعد ازاں نامور اور معتبر ادیب پیدا ہوئے۔ خاص طور پر حصہ اُردو، انگریزی اور پنجابی کے جن مدیران نے علمی ادبی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئیے:اُن میں انگریزی کے جی ڈی سوندھی، احمد شاہ بخاری پطرس اور آغا عبدالحمید۔ اُردو کے احمد شاہ بخاری پطرس، سیّد امتیاز علی تاج، ن۔ م۔ راشد، بذل حق محمود، مظفر علی سیّد، شہزاد احمد، حنیف رامے، انیس ناگی، سرمد صہبائی اور محمد اجمل نیازی جبکہ پنجابی کے حوالے سے گیانی شیر سنگھ، کپور سنگھ، مشتاق صوفی، عبدالحمید شیخ اور زاہد کامران کا نام قابل ذکر ہے۔
مجلہ راوی کے اجرا کے ساڑھے تین برس بعداس کی جلد V ، شمارہ ۳۶ مطبوعہ جنوری ۱۹۱۰ءمیں پنجابی فارسی رسم الخط میں چار صفحات شائع ہوئے جو پنجابی لوک گیت تھے اور انھیں لالہ رام پرشاد نے خاص طور پر اس رسالےکے لیے اکٹھا کیا تھا۔ جلد V ، شمارہ ۳۹ مطبوعہ جون ۱۹۱۱ء میں چار لوک گیت شامل ہوئے جو تین صفحات پر مشتمل تھے، یوں مجلہ راوی میں پنجابی لوک گیتوں کی اشاعت سے پنجابی زبان نے اُردو اور ہندی کی طرح مجلہ راوی میں شمولیت حاصل کی۔
مجلہ راوی جلد ۵، شمارہ ۳۳، جولائی ۱۹۱۰ء کو شائع ہوا۔ اس شمارے کے مدیر جی ڈی سوندھی تھے جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم، اُستاد اور پرنسپل بھی رہے۔ مدیر کی حیثیت سے اُنھوں نے جو ایڈیٹوریل لکھا وہ محض پانچ الفاظ : "No, thanks; not this weather! ) ۴پر مشتمل ہے اور راوی کا اب تک مختصر ترین اداریہ شمار ہوتا ہے۔
مجلہ راوی میں انگریزی کے بعد پنجابی اور پھر اُردو کا آغاز اکتوبر ۱۹۱۱ء کے شمارے میں شامل اُردو کے دو صفحات سے ہوا۔ یہ صفحات راوی کے دستیاب ریکارڈ میں موجود نہیں ہیں ،البتہ ان کا ذکر جناب بدر منیرالدین نے ’’رسالہ راوی کا اشاریہ‘‘ (قیام پاکستان تک) میں کیا ہے (۵)اور ساتھ ہی تحریر کا عکس بھی دیا ہے۔ یہ صفحات نظم پر مشتمل ہیں جس کا عنوان ’’ایک فیل شدہ کی نصیحت بھری فریاد‘‘ ہے ۔ ۲۴ اشعار پر مشتمل یہ نظم دو زبانوں اُردو اور فارسی میں ہے۔ مذکورہ نظم کےہر شعر کا پہلا مصرعہ فارسی اور دوسرا اُردو میں ہےاور ہر دو مصرعے ہم قافیہ ہیں :

کریما ببخشائے بر حالِ ما
کہ ہوں فیل مَیں امتحان میں ہوا
نداریم غیر از تُو فریاد رس
کہ دل میں نہیں ممتحن کے ترس
نگہدار ما را از راہِ خطا
نہ ہونے دے اب فیل میرے خدا
زباں تا بود در دہاں جائے گیر
رٹونگا کتابیں جو ہیں دِلپذیر
چہل سال عمر عزیزت گذشت
یہ ہے شوق فٹ بال ٹینس کا سخت
ہمہ با ہوا و ہوس ساختی
نہ کی کچھ ریاضت نہ کی کچھ سٹڈی
مکن تکیہ بر عمر ناپایدار
بس اب کر لے محنت تُو اے ہوشیار ) ۶ (
نومبر ۱۹۱۱ء کے شمارے میں سراج الدین کی نظم’’روح مبشر‘‘ شائع ہوئی۔ پھر دسمبر ۱۹۱۱ءمیں انگریزی کے ساتھ فارسی رسم الخط میں کُل آٹھ صفحات شائع ہوئےجو ایک فارسی غزل، پنجابی لوک گیت اور اردو کی ایک نظم ’’نور جہاں بیگم‘‘ پر مشتمل تھے ۔ ۱۹۱۲ءمیں آٹھ شمارے شائع ہوئے۔ جنوری تا اپریل کے شماروں میں انگریزی کے ساتھ بالترتیب چار، دو اور چار صفحات اُردو شامل تھے جبکہ جون تا دسمبر کے شمارے مکمل انگریزی میں تھے۔ مئی ۱۹۱۲ء کا شمارہ نمبر ۴۶ ’’مئی دی راوی‘‘ کے نام سے الگ شائع ہوا جو چالیس صفحات پر مشتمل شمارہ صرف پنجابی لوک گیتوں کا انتخاب ہے۔ ۱۹۱۳ء میں بھی آٹھ شمارے شائع ہوئے جو صرف انگریزی میں تھے۔ ۱۹۱۴ء کے جنوری تا جون کے پانچ شماروں میں سے صرف فروری کے شمارے میں ایک صفحہ اردو شاعری کے لیے تھا۔ ۱۹۱۵ء کے تمام شمارے بھی انگریزی میں ہیں۔ ۱۹۱۶ءمیں چھے شمارے شائع ہوئے جو سب انگریزی میں تھے ماسوائے اپریل اور جون کے،کہ جن میں بالترتیب چار اور دو صفحات اُردو ہیں۔ ۱۹۱۷ء اور ۱۹۱۸ء کا کوئی شمارہ ریکارڈ میں موجود نہیں۔
پطرس بخاری بطور ایک طالب علم، استاد اور پرنسپل کے گورنمنٹ کالج، لاہور سے منسلک رہے۔ وہ مجلہ راوی کے کُل نو شماروں کے مدیر رہے۔ اُن کی ادارت میں مجلہ راوی کی اہمیت ہوئی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو حصے کی ضخامت میں بھی اضافہ ہوا۔ ۱۹۱۹ءمیں اکتوبرتا دسمبر تین شمارے طبع ہوئے جن میں اُردو صفحات کی تعداد بالترتیب چار، دو اور چار ہے۔ پطرس بخاری نےانگریزی ادارتی اور اُردو صفحات پر تعارفی اور وضاحتی نوٹ لکھے بقول پروفیسر صابر لودھی :
’’ ۱۹۱۹ء میں جب پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس بخاری) راوی کے مدیر مقرر ہوئے تو اُنھوں نے اُردو کے صفحات میں اضافہ اور اپنے ادارتی اور تعارفی نوٹ کے ذریعے تنقید کا آغاز کیا۔ لالہ امر ناتھ پوری نے ’’پریم ساگر‘‘ کے عنوان سے گرونانک کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا تو پطرس بخاری نے نظم سے پہلے ایک نوٹ لکھا’’۔۔ (۷)
پطرس بخاری اکتوبر ۱۹۱۹ءمیں ’’راوی‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے۔ اُنھوں نے پہلا شمارہ Stephenson نمبر شائع کیا اور بطور مدیر اپنا پہلا اداریہ "Editorial" کے عنوان سے لکھا۔ اسی شمارے میں مولوی محمد شاہ ولی کا Stephenson کی شان میں منظوم قصیدہ بھی شائع ہوا۔ نومبر ۱۹۱۹ء کے شمارے میں پطرس بخاری نے اُردو نثر کو بھی جگہ دی اور عبدالمجید بہاولپوری کی نظم ’’یادِ رفتگاں‘‘ اُن کے خط کے ساتھ شائع کی اور آخر میں نظم کے ایک شعر پر ایک سطری فٹ نوٹ دیا جس سے اُن کا اندازِ نقد جھلکتا ہے۔ لالہ امر ناتھ پوری کی نظم ’’پریم ساگر‘‘ راوی میں طبع ہونے سے قبل گورنمنٹ کالج،لاہور کی سکھ ایسوسی ایشن کے ایک جلسے میں پڑھی گئی تھی۔ یہ نظم کُل چار بندوں پر مشتمل ایک طالب علم کی تخلیق ہے:

کچھ یاد بھی ہے کس نے تم کو، وحدت کا گیت سُنایا تھا
جب سیدھا رستہ بھُولے تھے، پھر رستہ کس نے بنایا تھا
جب نام خدا تک یاد نہ تھا، تب جلوۂ حق دِکھلایا تھا
جب بھائی سے بھائی ہوا تھا جُدا، پھر کس نے پریم سکھایا تھا
اے بھارت تیری مٹی پر، ہر روح نہ کیونکر شیدا ہو
جب اس کےگرونانک جیسا،اک پاک فرشتہ پیدا ہو
تُو ظاہر پر کیوں مرتا ہے، ظاہر تو خالی ساغر ہے
آ سیکھ لے راز حقیقت کا، جو مے ہے تیرے اندر ہے
خمخانہ وحدت اندر ہے، اندر ہی مسجد مندر ہے
وحدت اور پریم ہی مذہب ہے، کیوں ٹھوکر کھاتا در در ہے
اے زاہد چھوڑ فسانے سب، ہم کو دو باتیں کافی ہیں
ست نام کا رنگ دِلوں پہ چڑھے اور دُور ہو سب تُو تُو مَیں مَیں(۸)

پطرس بخاری نے بحیثیت مدیر اس نظم کے آغاز میں جو نوٹ دیا ہے، اس سے اُن کے تنقیدی شعور کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ پطرس بخاری کی زیر ادارت مجلہ ’’راوی‘‘ کا نہ صرف انگریزی بلکہ اُردو حصہ بھی نو آموز تخلیق کاروں کی تربیت کا باعث بنا۔ ان کی درج ذیل رائے سے بھی اس کا اندازہ ہوتا ہے :
’’ گوش قبولیت سے سننے والے سامعین نے کماحقہ اس کی داد نہ دی۔ اس لیے ہم اسے ’’راوی‘‘ میں درج کرتے ہیں۔ اس یقین کی بنا پر کہ نظر قبولیت سے دیکھنے والے ناظرین اس کی داد دیں گے۔ لالہ امر ناتھ صاحب کی اس نظم سے ہونہاری ٹپکتی ہے۔ صاحب موصوف کی شاعرانہ زندگی کے آغاز کو یوں تو برسوں گزر چکے ہیں لیکن اب تک آپ کے اشعار میں اجزائے سفلی کی کثرت اور عناصر لطیفہ کی قلت ہی رہی ہے۔ یہ نظم کچھ تو پہلے ہی صاف بنائی گئی ہے اور پھر کچھ چھنی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے اس میں ایک روانی آ گئی ہے جو کچھ حد تک بحر کی ممنون ہے۔ چند حروف ادھر اُدھر گرتے ہیں لیکن شاید اس بحر میں اساتذہ کی نظمیں بھی اُفتاد و ریخت سے مامون نہیں۔ اس کا تلاطم ہی ایسا ہے۔ ‘‘ ( (۹)
پطرس بخاری اکتوبر ۱۹۱۹ء سے جنوری ۱۹۲۱ء تک مجلہ ’’راوی‘‘کے اُردو انگریزی حصے کے مدیر رہے ۔ اس ادارت کے دوران میں وہ خود بھی لکھتے رہے۔ اُنھوں نے اس مجلے کو صحیح معنوں میں ایک ادبی مجلے کا رنگ روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ پطرس بخاری نے جہاں ’’راوی‘‘ کے لیے مثبت تنقیدی اداریے لکھےوہاں اعلی پائے کے مزاح کو بھی اس مجلے میں متعارف کروایا اور یوں اُن کی زیر ادارت ’’راوی‘‘ کے نئے دور کا آغاز ہوا :
"As regards the subject matter, the Ravi has been more or less a literary magazine. It was Mr A. S. Bokhari (1919-1921) who made a definite attempt to make her brighter and more cheerful. Infact, he started a new era in our college literature, an era which was the bane of his immediate successors, 'for humour and a' that , they are born and not learnt." ( ۱۰ )
ڈاکٹر امداد حسین پطرس بخاری کے مزاح اور گورنمنٹ کالج، لاہور کے لیے اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"…From self criticism and debunking, the next step is towards vit and humour. The father of this tradition in the Ravi was the late professor A. S. Bokhari. It can be said without exaggeration that the tradition of the Ravi, indeed of the Government college itself, would have been different without Bokhari. He was not only humorous but, like falstaff, the cause of houmour in others.… " ( ۱۱ )
۱۹۲۰ءمیں مجلہ ’’راوی‘‘ کے پانچ شمارے جنوری تا دسمبر شائع ہوئے۔ صرف دو شماروں یعنی جنوری اور مارچ میں دو، دو اُردو صفحات شامل ہیں۔ ۱۹۲۱ءمیں ’’راوی‘‘ کے پانچ شمارے شائع ہوئے۔ پہلا شمارہ جنوری ۱۹۲۱ء کا تھا جس کے اُردو انگریزی حصے کے ایڈیٹر پطرس بخاری تھے جبکہ اسسٹنٹ ایڈیٹر گوپال داس کھنّا تھے۔ اس شمارے میں انگریزی کے تیس جبکہ اُردو کے پہلی باربارہ صفحات شامل ہوئے۔ قبل ازیں آغاز (اکتوبر ۱۹۱۱ء) تااپریل ۱۹۲۰ء تک مجلہ ’’راوی‘‘ کے شماروں میں اُردو صفحات کی تعداد کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ چار صفحات تک ہی محدود تھی۔ بحیثیت مدیر پطرس بخاری نے اپنے زیر ادارت شائع ہونے والے آخری شمارے میں جہاں صفحات کا اضافہ کیا وہاں اُردو اداریہ نگاری کابھی آغاز کیا۔ اسی شمارے کے اُردو اداریے ’’جلے دِل کے پھپھولے‘‘ میں طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں ’’راوی‘‘ میں مضامین طبع نہ ہونے کی وضاحت بھی کر دی۔ اقتباس ملاحظہ کریں :
’’ آپ راوی کے ایڈیٹر ہیں؟
تو مَیں آپ سے دو ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
’’آپ کے راوی میں مَیں نے کبھی اُردو مضامین نہیں دیکھے۔ مَیں آپ سے اس کی وجہ دریافت کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’کیوں نہیں۔ بے شک۔ تو صاحب وجہ یہ ہے کہ آپ کی قوت باصرہ نہایت راست باز ہے۔ اگر اُردو وہاں چھپا نہ ہو تو آپ دیکھیں کیسے؟ ‘‘
’’آپ مجھے سمجھے نہیں۔ مجھے اپنے سوال کو مختلف الفاظ میں دہرانا پڑے گا۔ دیکھئیے نا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ آپ اُردو کے مضامین کیوں نہیں چھاپتے۔ سمجھے آپ؟
مَیں نے آہ بھر کر کہا۔ ’’جناب یہ ایک داستانِ درد ہے اور حسبِ معمول بہت طویل ہے۔ ‘‘
’’نہیں۔ نہیں۔ آپ بے تکلف کہئیے۔ مجھے راوی سے بہت ہمدردی ہے۔ ‘‘
’’یہ آپ کی ذرہ پروری ہے۔ صاحب کیا عرض کروں۔ مَیں خوشی سے اُردو مضامین چھاپ دیا کروں اگر کوئی خدا کا بندہ لکھنے کی تکلیف فرمائے … ‘‘ ( ۱۲
جنوری ۱۹۲۱ء تک حصہ انگریزی اور اُردو کی فہرست بیک ٹائٹل پر Contents کے عنوان سے تھی اور اُردو مضامین بھی انگریزی حروف (رومن) میں درج ہوتے تھے۔ مثلاً ’’راوی‘‘ جنوری ۱۹۲۱ء میں شامل بارہ صفحات پر مشتمل حصے اُردو کا بیک ٹائٹل پر فہرست (Contents) میں اندراج اور صفحات نمبرز (سیریل نمبر ۱۱ سے) یوں درج ہیں :
"11. Jale Dil k Phaphole(Urdu)byBukhari     Page. 118
12. Khuraafaat(Urdu)byImtiaz Ali Taj Page. 123
13. Ek Raat  (Urdu)byPatras               Page. 127
14. Ghazaal (Urdu)byImtiaz Ali Taj   Page. 129." ( ۱۳ )
پطرس بخاری نے صفحات کے اضافے کی جو داغ بیل ڈالی وہ راوی فروری اورمارچ ۱۹۲۱ء کے شمارے میں دیکھنےمیں آئی جس کے ۳۶ انگریزی صفحات کے ساتھ ۱۶ اُردو صفحات شامل ہیں۔ اس شمارے کے ایڈیٹر ہریش چندر کٹھپالیہ (Harish chandra Kathpalia) اور اسسٹنٹ ایڈیٹر گوپال داس کھنّا (Gopal Das Khanna) جبکہ حصہ اُردو کے الگ مدیر سیّد امتیاز علی تاج (S. Imtiaz Ali Taj) ہیں۔ اس شمارے میں بیک ٹائٹل پر دی گئی فہرست میں حصہ اُردو کے مشمولات کی فہرست اُردو صفحات نمبرز کے ساتھ اُردو الفاظ میں درج ہوئی ہے۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ راوی کا پہلا شمارہ ہے جو حصہ اُردو؛ اُردو صفحات نمبرز اور اُردو فہرست کے ساتھ سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس شمارے کا اداریہ سیّد امتیاز علی تاج کی جانب سے ’’گنگا جمنی راوی‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا۔ علاوہ ازیں اس شمارے میں دو مضامین ’’ہماری مادری زبان‘‘ اور ’’آزاد کی شاعری‘‘، ایک کہانی بعنوان ’’امتحان‘‘ اور علامہ اقبال کی نظم ’’ایک پرندہ اور جگنو‘‘ بھی شامل ہیں۔ پطرس بخاری کی رائے ’’مَیں خوشی سے اُردو مضامین چھاپ دیا کروں اگر کوئی خدا کا بندہ لکھنے کی تکلیف فرمائے۔‘‘ اس شمارے پر صادق آتی ہے کیوں کہ یہ شمارہ دیکھتے ہوئے حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ مذکورہ شمارے کے سولہ میں سے پندرہ صفحات کے مصنف سیّد امتیاز علی تاج (ایڈیٹر) بذاتِ خود ہیں۔ یعنی مکمل شمارے میں اداریے سمیت ہر تخلیق جناب سیّد امتیاز علی تاج کی ہے سوائے علامہ اقبال کی نظم کے۔ جبکہ فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنھوں نے مختلف ناموں سے اپنی تخلیقات شامل اشاعت کی ہیں۔ یوں امتیاز علی تاج اشاعتی مواد کی عدم دستیابی کے باوجود بھی بھرپور اُردو حصہ طبع کروانے میں کامیاب ہوئے۔ اسی شمارے کے "Contents" میں سیریل نمبر دس تک انگریزی مشمولات کی تفصیل ہے جبکہ گیارہ سے سترہ تک اُردو مشمولات کی تفصیل ہے۔ ملاحظہ کریں :
           "11.   گنگا جمنی راوی                                    ایڈیٹر              ۱
           12.     ہماری مادری زبان                                 // //              ۲
           13.     پھول                                           تاج                ۶
           14.     آزاد کی شاعری                          سیّد امتیاز علی تاج              ۷
           15.     اتفاق موضوع پر اختلاف جذبات                    …                 ۱۳
           16.     امتحان                                          ’’ت‘‘             ۱۴
           17.     ایک پرندہ اور جُگنو                        علامہ اقبال ایم۔ اے  ( ۱۴ ) ’’ ۱۶
بحیثیت مدیر پطرس بخاری کے جو اُردو تحاریر مجلہ راوی میں شائع ہوئیں اُن کی تفصیل درج ذیل ہے :
  ۱۔       بخاری    ایڈیٹر نوٹ          راوی جلد: ۱۴       شمارہ: ۱                        نومبر ۱۹۱۹ء         ص: ۲
  ۲۔       بخاری    ایڈیٹر نوٹ          راوی جلد: ۱۴       شمارہ: ۲                       دسمبر ۱۹۱۹ء         ص: ۱   
  ۳۔      بخاری    مولانا ارشد انصاری کا ایک خط    راوی جلد: ۱۴       شمارہ: ۳            جنوری ۱۹۲۰ءص: ۱۰۱، ۱۰۲
  ۴۔      بخاری    بزم سخن (ایڈیٹر نوٹ)         راوی جلد: ۱۴       شمارہ: ۵، ۶           مارچ، اپریل ۱۹۲۰ء  ص: ۱۶۵
  ۵۔       بخاری    جلے دل کے پھپھولے (اداریہ)  راوی جلد: ۱۵       شمارہ: ۴            جنوری ۱۹۲۱ءص: ۱ تا ۵
  ۶۔       بخاری    ایک رات (افسانہ)            راوی جلد: ۱۵       شمارہ: ۴            جنوری ۱۹۲۱ءص: ۱۰ تا ۱۲
بحیثیت مدیر پطرس بخاری کی انگریزی تحریریں اور اداریے جو مجلہ راوی میں شائع ہوئے اُن کی تفصیل درج ذیل ہے :
1.         A. S. B, "Editorial", The Ravi, Vol: XIII, Issue: 9, October 1919, P: 259-262.
2.         A. S. B, "To You" (Editors note), The Ravi, Vol: XIII, Issue: 9, October 1919, P: 269.
3.         i : A. S. B, "Our new principal's first address " (Editors note), The Ravi, Vol: XIII, Issue: 9, October 1919, P: 294.
 ii : A. S. B, "Our new principal's first address " (Editors note), The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 13-15.
4.         (i) A. S. B, "The college hall" (Editorial), The Ravi, Vol: XIV, Issue: 1, November 1919, P: 1-3.
(ii) A. S. B, "The college hall" (Editorial), The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 6-7.
5.         (i) A. S. Bokhari, "Notice", The Ravi, Vol: XIV, Issue: 1, November 1919, P: 9.
(ii) A. S. Bokhari, "Notice", The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 65.
6.         (i) A. S. B, "Our leading article" (Editorial), The Ravi, Vol: XIV, Issue: 2, December 1919, P: 33-35.
(ii) A. S. B, "Our leading article" (Editorial), The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 16-17.
7.         (i) A. S. B, "The Legislative Council" (Editorial), The Ravi, Vol: XIV, Issue: 3, January 1920, P: 74-76.
(ii) A. S. B, "The Legislative Council" (Editorial), The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 18-20.
8.         A. S. B, "The University Student's Union" (Editorial), The Ravi, Vol: XIV, Issue: 4, February 1920, P: 103-105.
9.         (i) A. S. B, "First year popularity" (Editorial), The Ravi, Vol: XIV, Issue: 5, 6, March+April 1920, P: 137-139.
(ii) A. S. B, "First year popularity" (Editorial), The Ravi, Vol: 48, Issue: 4, May 1955, P: 4-5.
(iii) A. S. B, "First year popularity" (Editorial), The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 21-23.
10.       A. S. Bokhari, "Last Will & Testaments", The Ravi, Vol: XIV, Issue: 5, 6, March+April 1920, P: 142-143.
11.       A. S. B, "An Apology" (Editorial), The Ravi, Vol: XV, Issue: 2, November 1920, P: 33-34.
12.       A. S. B, "The New year" (Editorial), The Ravi, Vol: XV, Issue: 3, December 1920, P: 63-65.
13.       A. S. B, "The Ravi" (Editorial), The Ravi, Vol: XV, Issue: 4, January 1921, P: 91-92.
` پطرس بخاری اکتوبر ۱۹۱۹ء کو ’’راوی‘‘ کے مدیر مقرر ہوئے تو اُن کے زیر ادارت مجلہ ’’راوی‘‘ کا پہلا شمارہ "Stephenson Number" شائع ہوا۔ یہ خاص نمبر لیفٹیننٹ کرنل جے سٹیفنسن (Lt. Col. J. Stephenson) جو سات سال (۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۹ء تک) کالج کے پرنسپل رہے؛ کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر شائع کیا گیا۔ پطرس بخاری نے اداریے میں اُن کی شخصیت اور کالج کے حوالے سے خدمات کو سراہا ہے اور اُن کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کو ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ مدیر یعنی پطرس بخاری کے ہی ایما پر سیّد امتیاز علی تاج نے اسٹیفنسن کی شان میں ایک قصیدہ نما اُردو نظم بعنوان ’’الوداع‘‘ لکھی جو اسی شمارے میں شامل ہے۔ مثال ملاحظہ کریں :
آج کالج سے جُدا ہوتے ہیں اسٹیفنسن
جن کے انوار سے تھی اپنی شبستاں روشن
بُلبل باغِ ادب حسنِ رُخِ شاہدِ فن
جرعۂ نوشِ میٔ شیراز و قدح خوارِ سخن
ہیں یہی ظلِ کرم سایۂ رحمت ہم کو
اُن کی بخشش سے ملی علم سی نعمت ہم کو(۱۵ (
پطرس بخاری اور نائب مدیر کی جانب سے اس شمارے میں شامل تحریر "To You" ایڈیٹرز نوٹ ہے جس میں سابقہ ایڈیٹوریل سٹاف کا شکریہ ادا کیا گیا ہے کہ اُنھوں نے ’’راوی‘‘ کو اچھی حالت میں اُن کے سپرد کیا نیز مینجر راوی کی سوچ کو واضح کیا گیا ہے کہ ہر تحریر کو بغیر سنسر کیے رسالے میں شامل  نہیں کیا جا سکتا۔ مدیران کی تیسری انگریزی تحریر بھی ایڈیٹرز نوٹ ہے جو "Our new principal's first address" کے آغاز میں وضاحتی نوٹ ہے۔
پطرس بخاری کی چوتھی تحریر (دوسرا اداریہ) "The College Hall" کے عنوان سے ہے۔ کالج ہال میں کلاس رومز سے بالکل مختلف فضا دیکھنے کو ملتی ہے جہاں ہر طرح کے خیالات و حالات جاننے کا موقع میسر آتا ہے۔ اس میں کالج ہال کی تمام سرگرمیوں کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ ایڈیٹر نے کالج ہال، وہاں آویزاں تصاویر کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہال میں آ کر انسان جہاں عوامی آراء سے باخبر ہوتا ہے وہیں گزرے زمانے کی جھلک بھی اُس کے سامنے دوڑ جاتی ہے۔ پانچویں تحریر "Notice" کے عنوان سے پطرس بخاری کے نام سے خط کی صورت میں ہے ۔جس میں کالج کی مختلف سوسائیٹیز اور یونین کے صدور کی راوی کے حوالے سے بے توجہی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اُنھیں ہدایت  کی گئی ہے کہ ہر اجلاس کی کارروائی کی ہفتہ وار رپورٹیں باقاعدگی کے ساتھ راوی میں اشاعت کے لیے بھجوائیں تا کہ ’’راوی‘‘ کی اشاعت میں تاخیر نہ ہو۔
دسمبر ۱۹۱۹ء کے شمارے میں پطرس بخاری کی چھٹی تحریر تیسرا اداریہ "Our leading article کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس اداریے میں بتایا گیا ہے کہ لیڈنگ آرٹیکل وہ ہیں جو حالاتِ حاضرہ کے معروف اور اہم موضوعات پر لکھے گئے ہوں اور ایڈیٹر کو ہر حال میں شاملِ اشاعت کرنے پر مجبور کر دیں نیز وہ پڑھنے والوں کو متاثر کریں اور مسائل سے بھی آگاہ کریں۔ یہ سب اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایڈیٹوریل عصری حوالے سے نہایت اہم تاریخی دستاویز ہوتے ہیں۔جنوری ۱۹۲۰ء کا اداریہ "The Legislative Council" کے عنوان سے لیجسلیٹو کونسل آف انڈیا کے بارے میں ہے۔ اداریہ میں جس اہم بات کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے وہ یہ کہ کونسل کے اجلاس میں غیر متعلق باتوں کی بجائے لوگوں کے حقیقی معاملات زیر بحث لائے جانے چاہییں۔فروری ۱۹۲۰ء کا اداریہ "The University Student's Union" میں طلبہ یونین کی تجاویز کو مفید ہونے اور آکسفورڈ، کیمبرج کی طرز پر فعال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہےنیز یہ کہ یونین کے تمام عہدے طلبہ کے پاس ہی ہوں گے۔
"First year popularity"مارچ، اپریل ۱۹۲۰ء کا اداریہ ہے۔ کالج ہال فرسٹ ائیر کے داخلوں کے وقت عام دنوں کی نسبت خاص نظر آتا ہے۔ بے یقینی، بدحواسی، بار بار سر سے ٹوپی اتارنا، پرنسپل اور سلیکشن کمیٹی کے دیگر ممبران کا اپنی نشستوں پر براجمان ہونا جہاں اُلجھن کا باعث بنتا ہے وہاں ننھے میٹریکولیٹ کو پریشان بھی کرتا ہے۔ اداریے کے فوراً بعد ’’کالج نوٹس‘‘ میں اعلان کیا گیا :
"Mr. A. S. Bokhari has left the college after his examination Mr Jagmohan Ram will run the next number." ( ۱۶ )
اس اعلان کے ساتھ ہی پطرس بخاری نے "Last Will & Testaments" کے عنوان سے مضمون لکھا جس میں آئندہ آنے والوں کے لیے کچھ وصیتیں اور وضاحتیں بیان کی ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ اگلے شمارے میں پطرس بخاری ہی ایڈیٹر تھے۔نومبر ۱۹۲۰ء کا اداریہ "An Apology" کے عنوان سے ہے۔ اس میں ایڈیٹر کی جانب سے معذرت ہے کہ عجیب طرح کے مسائل مثلاً ہاسٹل وارڈن کی طرف سے جرمانہ، دھوبی کے ہاں بار بار چکر، درزی کی جانب سے ادائیگی کے محبت نامے اور میس مینجر سے چھپنا وغیرہ سے جان چھوٹے تو اداریہ لکھنے کا موقع میسر آئے۔
` دسمبر ۱۹۲۰ء کا اداریہ "The New year" ہے۔ مدیر کے مطابق نیا سال جیسا کہ لوگ تصور کرتے ہیں نئی چیز ہرگز نہیں ہے۔ ہر سال ہمیں نئے سال کا سامنا ہوتا ہے۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں ۳۱ دسمبر سے یکم جنوری کی طرف بڑھیں گی، پرانی رسمیں اور عادات یکسر بدل جائیں گی مگر حقیقتاً کچھ نہیں بدلتا۔ آپ ۱۹۲۱ء میں بھی ویسے ہی ہوں گے جیسے ۱۹۲۰ء میں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف کیلنڈر بیچنے والے آپ کی دیوار پر ایک نیا کیلنڈر لٹکا دیتے ہیں۔ نئے سال کا طلسم صرف محسوس کرنے کی کیفیت ہے عملاً کچھ بھی نہیں۔
پطرس بخاری نے بطور مدیر جنوری ۱۹۲۱ء کو آخری اداریہ "The Ravi" کے عنوان سے لکھا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ مینجر کو کئی مراسلے موصول ہوتے ہیں کہ ایڈیٹر کو سبکدوش کر دیا جائے کیونکہ وہ اپنے اندر نہ تو کوئی تبدیلی لایا ہے اور نہ ہی راوی میں۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم نہ تو کوئی زائد ناک چہرے پر سجا سکے اور نہ ہی دو مزید ٹانگیں مہیا کر سکے۔ اگر ہم اپنے قارئین کی توقعات پر پورا نہیں اُترتے تو ہمیں اظہار تاسف ہوتا۔ یہ سینیئرز کی نصیحتیں ہوتی ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں اور عزت افزائی جیسی نعمت سے محرومیٔ احساس دلاتی ہیں کہ غیر فطری اور ناممکن کارہائے نمایاں کی صرف خواہش کی جا سکتی ہے۔ فاؤنٹین پین، اُس کی نِب اور سیاہی کی رنگا رنگی طباعت کے بعد صرف ایک ہی رنگ یعنی سیاہ کتابت کے روپ میں نظر آتی ہے۔ مینجر کے اپنے تقاضے جبکہ قلمی معاونین کی ذہنیت اور اہلیت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن نزلہ گرتا ہے تو صرف ایڈیٹر پر کیونکہ ہر مرض کی دوا تو اُسے ہی بننا ہے۔
پطرس بخاری کی انگریزی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے ماہر تھے۔ ان کے لب ولہجے پر انگریز بھی رشک کرتے تھے۔ وہ اپنے اداریوں اور تحریروں میں جابجا انگریزی روزمرہ، محاورے، کہاوتوں اور ٹھیٹھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ پطرس بخاری نے ادبی سفر کا آغاز سول اینڈ ملٹری گزٹ سے کیا۔ وہ Peter Watkins کے قلمی نام سے تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ عبدالحمید اعظمی کے بقول :
’’اُس وقت سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر M. E. Hardy تھے جو بخاری کو ایک کالم کا سولہ روپیہ معاوضہ ادا کرتے تھے جو اُس زمانے میں تین تولہ سے زائد سونے کی قیمت بنتی تھی’’۔ ) ۱۷)
جنوری ۱۹۲۱ء کے بعد پطرس بخاری کالج کے طالب علم نہ رہے لیکن پروفیسر اور پرنسپل کی حیثیت سے کالج سے وابستہ رہے۔ اُن کی کچھ اُردو اور انگریزی تحریریں مجلہ راوی میں شائع ہوتی رہیں جبکہ بطور مدیر لکھی گئی تحریریں بھی مختلف خاص شماروں میں بار بار چھپتی رہیں۔ پطرس بخاری کی ۱۹۲۱ء کے بعد کی اُردو اور انگریزی تحریروں کی فہرست درج ذیل ہے :
اُردو تحریریں :
’’ ۱۔پطرس (i) ۔ کوائف کواڈینگل راوی جلد: ۱۶، شمارہ: ۱ نومبر ۱۹۲۱ءص: ۸ تا ۱۰
           (ii) ۔ کوائف کواڈینگل راوی جلد: ۲۰، شمارہ: ۳دسمبر ۱۹۲۴ءص: ۲۰
           (iii) ۔کوائف کواڈینگل راوی جلد: ۵۴، شمارہ: ۱دسمبر ۱۹۶۰ءص: ۲۰ تا ۲۳
           (iv) ۔ کوائف کواڈینگل راوی جلد: ۵۸ سالہ انتخاب۱۹۶۴ءص: ۳۱ تا ۳۴
۲۔پطرس  (i)سویرے جو کل آنکھ میری کھلی راوی جلد: ۱۶، شمارہ: ۲ دسمبر ۱۹۲۱ءص: ۹ تا ۱۴
           (ii)سویرے جو کل آنکھ میری کھلی راوی جلد: ۲۰، شمارہ: ۳دسمبر ۱۹۲۴ءص: ۲۲
۳۔پطرس  (i) ۔ تب اور اب (مزاح)راوی جلد: ۲۳، شمارہ: ۲نومبر ۱۹۲۸ءص: ۲ تا ۴
           (ii) ۔ تب اور اب (مزاح)راوی جلد: ۳۶، شمارہـ: ۵مارچ ۱۹۴۲ءص: ۱۱ تا ۱۲
           (iii) ۔تب اور اب (مزاح)راوی جلد: ۵۸ سالہ انتخاب ۱۹۶۴ءص: ۳۵ تا ۳۷
۴۔پطرس غزل (فارسی)راوی جلد: ۲۶، شمارہ: ۵،۶،۷مارچ، اپریل ۱۹۳۲ءص: ۱۸
۵۔پطرس  قطعہ راوی جلد: ۳۵، شمارہ: ۲دسمبر ۱۹۴۱ءص: ۵۷ ‘‘
۶۔پطرس بخاری کیا راوی ایک ادبی رسالہ ہے؟راوی جلد: ۴۲، شمارہ: ۱جنوری ۱۹۴۸ءص: ۲۸، ۲۹
۷۔پطرس  (i) ۔ دوراہا (نظم)راوی جلد: ۴۳، شمارہ: ۵جون ۱۹۵۰ءص: ۱۰
           (ii) ۔ دوراہا (نظم)راوی جلد: ۵۸ سالہ انتخاب۱۹۶۴ءص: ۳۹۴
۸۔پطرس بخاری ایک خط         راوی جلد: ۵۸، شمارہ: ۲دسمبر ۱۹۶۴ءص: ۳۳ تا ۳۸
۹۔پطرس بخاری پطرسے راوی جلد: ۷۳، شمارہ: ۱نومبر ۱۹۸۴ءص: ۴۴       
۱۰۔پطرس بخاری اس کتاب میں (مضمون)راوی جلد: ۷۸، شمارہ واحدمئی ۱۹۹۱ءص: ۸۵ تا ۹۱
انگریزی تحریریں :
1:       A. S. Bokhari, "The Matrimonial Penal Code", The Ravi, Vol: X, Issue: 74, January 1916, P: 1066-1072.
2:         A. S. Bokhari, "The Matrimonial Penal Code", The Ravi, Vol: 58, Issue: 1, 1916-1964 (An Anthology of 58 Years), P: 60-64.
3:         A. S. Bokhari, "The Jubilee Old-Boy", The Ravi, Vol: XIX, Issue: 4, January, Feburary 1925, P: 121-126.
پطرس بخاری مجلہ راوی کے حصہ انگریزی اور اُردو کے وہ فعال مدیر تھےکہ جنھوں نے راوی کو معیارآشناکرنے کے ساتھ ساتھ آیندگاں کے لیے نئی راہیں متعین کیں۔ اُنھوں نے انگریزی کالج کے انگریزی مجلے میں اُردو زبان و ادب کو شامل کیا اور اسے ایک نئے مقام سے آشنا کیا ۔ ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی اس حوالے سے رقمطراز ہیں :
’’پطرس کا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے گورنمنٹ کالج کے انگریزی زدہ ماحول میں اُردو کا بیج بویا۔ نثری اصناف میں تنقید، مکتوب، تجزیے، روداد، افسانے اور انشائیے وغیرہ کے امکانات کی راہیں ہموار کیں۔ کہاں سال بھر میں ’راوی‘ صرف ایک آدھ نظم سے منظر عام پر آتا تھا اور کہاں پطرس نے اُسے مختلف اسالیب اور اصناف کی آماجگاہ بنا دیا۔ پطرس روایت پرست نہیں تھے، روایت ساز تھے۔ ’راوی‘ کے مدیر کی حیثیت سے بھی اُنہوں نے روایت سازی کی۔ اُن کے بعد آنے والے مدیران نے اُنہی خطوط پر کام کیا جو پطرس ’راوی‘ کے لیے متعین کر گئے تھے’’۔(۱۸)

 

حوالہ جات

1.       H. L. O. Garrett, Abdul Hamid, A History of Government College Lahore )1864-196, Lahore: Ripon Printing Press Ltd, 1964, P: 124
2.       Ibd, P: 125
۳۔      انور سدید، ڈاکٹر، پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ (ابتدا تا ۱۹۸۸ء)، اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، ۱۹۹۲ء، ص: ۳۳۱۔
4.       G. D. S. "Editorial", Included: The Ravi, Lahore: Vol: V, No: 33, July 1910, P. 01.
۵۔       بدر منیر الدین، رسالہ راوی کا اشاریہ (قیام پاکستان تک)، لاہور: یونیورسل بُکس، مارچ ۱۹۸۹ء، ص: ۱۰۷
۶۔       ایضاً، ص: ۱۰۷
۷۔      صابر لودھی، ’’مجلہ راوی کے پچاس سال‘‘ (مضمون)، مشمولہ: راوی، لاہور، جلد: ۸۴،شمارہ واحد، ۱۹۹۷ء، ص: ۴۹
۸۔      امر ناتھ صاحب، پوری، لالہ، پریم ساگر (نظم)، مشمولہ: مجلہ ’’راوی‘‘ لاہور، جلد: ۱۴، شمارہ: ۲، دسمبر ۱۹۱۹ء، ص: ۱،۲
۹۔       اے، ایس، بخاری، پطرس، ’’پریم ساگر‘‘ (نظم پر مدیر کا نوٹ)، مشمولہ: راوی، جلد: ۱۴، شمارہ: ۲، دسمبر ۱۹۱۹ء، ص: ۱
10.     K. M. S. "The course of The Ravi" )Essay(, Included: The Ravi )Special Jubilee Number(, Lahore: Vol: XIX, No: 03, December 1924, P. 76.
11.     Imdad Husain, Dr, "Introduction", The RAVI (An anthology of 58 years, 1906-1916), Vol: LVIII, No: 01, P. V
۱۲۔      بخاری (ایڈیٹر)، جلے دل کے پھپھولے (اداریہ)، مشمولہ: مجلہ ’’راوی‘‘ لاہور، جلد: ۱۵، شمارہ: ۴، جنوری ۱۹۲۱ء، ص: ۲،۳
۱۳۔     فہرست (Contents) راوی، مشمولہ: مجلہ ’’راوی‘‘ لاہور، جلد: ۱۵، شمارہ: ۴، جنوری ۱۹۲۱ء، بیک ٹائٹل صفحہ
۱۴۔     فہرست (Contents) راوی، مشمولہ: مجلہ ’’راوی‘‘ لاہور، جلد: ۱۵، شمارہ: ۵،۶، فروری+مارچ ۱۹۲۱ء، بیک ٹائٹل صفحہ
۱۵۔      امتیاز علی تاج، سیّد، الوداع (نظم)، مشمولہ: مجلہ ’’راوی‘‘ لاہور، جلد : XIII ، شمارہ: ۹، اکتوبر ۱۹۱۹ء، ص: ۱،۲
16.     Editors, "College notes", Included: The Ravi, Lahore: Vol: XIV, No: 5, 6, March, April 1920, P. 189.
۱۷۔     عبدالحمید اعظمی، پطرس بخاری: شخصیت اور فن، اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، ۲۰۰۶ء، ص: ۸۰
۱۸۔     خالد سنجرانی، پطرس بطور مدیر ’’راوی‘‘ حصہ اُردو (مضمون)، مشمولہ: ’’پطرس‘‘، پطرس بخاری نمبر، لاہور: نیو ہاسٹل گورنمنٹ کالج، ۱۹۹۹ء، ص: ۴۲

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com