فکشن کی مابعد جدید تکنیک: مطالعہ و تجزیہ
نعیمہ بی بی : ٹیچنگ اینڈ ریسرچ ایسوسی ایٹ ,پی  ایچ۔ ڈی ۔سکالربین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی : اسلام آباد
ڈاکٹر نجیبہ عارف : پروفیسر ,   صدر شعبہ  اردو ,بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی : اسلام آباد

Abstract:
This article presents a critical study of the techniques of postmodern fiction. It deals with the techniques such as;Irony, Playfullness, Black humour, Faction, Participation, Metafiction, Pastiche,Paranoia,Intertextuality,Temporal Distortion, Maximalism, Magical Realism.

تکنیک انگریزی زبان کے لفظ Technique کا اُردو ترجمہ ہے۔مختلف لغات میں  تکنیک کے معنی یوں بیان کیے گئے ہیں ۔
(1)فن ، اصول فن، طریق کار ۔۱؎  
(2)فنی قابلیت ،صنعت گری، مہارت، کاری گری، طریقِ کار اور لائحہ عمل۔۲؎   
(3)۔فنی پہلو، ڈھنگ ، اسلوب ، صنعت گری، آداب فن ، تکنیکی مہارت۔۳؎ 
انگریزی زبان و ادب میں بھی Technique کا لفظ انھی معانی میں استعمال کیا جاتا ہے ، درج ذیل  تعریفیں دیکھیے:
Method of performance; Manipulation; every thing concerned with mechanical part of an artistic performance."         
A method of doing or performing some thing; especially in the arts or science.                                
انگریزی میں یہ لفظ یونانی سے آیا ہے۔ یونانی میں یہ لفظ Technikoتھا جو انگریزی میں تکنیک بن گیا۔۶؎ ارسطو کے نزدیک تکنیک سے مراد ہے وہ طریقہ جس سے فنکار اپنے موضوع کو پیش کرتا ہے۔۷؎   ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز  میں تکنیک کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ " یہ ایک یونانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ”فن یا طریقہ کار“۸؎ ۔ ادب میں لفظ تکنیک کو عموماً”طرزِ تحریر“ یا ”قدرت ِ بیان “ کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔
روایتی طور پر فکشن کی تکنیک کی مختلف اقسام ہیں  مثلاًبیانیہ تکنیک، ڈرامائی تکنیک، مکالمے کی تکنیک، روزنامچہ کی تکنیک ،خودکلامی کی تکنیک ، خط کی تکنیک وغیرہ۔ مابعد جدیددور نے پرانے اور مروجہ سانچوں کے تحت لکھے جانے والے ادب کو نہ صرف رد کیا بلکہ ان کی ہیئت پر بھی کاری ضرب لگائی چناں چہ مابعد جدیدیت کے تحت ایسا ادب تخلیق ہو رہا ہے جس  نے تکنیک ، ہیئت اور اسلوب  کے روایتی تصورات کو ختم کیا  ہے اور فکشن کے روایتی عناصر کو رد کر کے  اس کی بنیاد  بالکل نئے اور مختلف عناصر پر قائم کر دی ہے۔اس مقالے میں فکشن کی مابعد جدید تکنیکوں کا تعارف و تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔ان تکنیکوں  کی تفصیلات کے لیے مختلف ادبی و علمی ویب گاہوں سے استفادہ  کیا گیا ہے ۔جن کے حوالے  درج ہیں۔ 9؎
۱۔       طنزِخفی (Irony ):
مابعد جدید تکنیک میں طنزِ خفی  کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔  اوکسفرڈ انگلش اردو لغت میں Irony کے معنی  یوں بیان کیے گئے ہیں  ،"چھپا ہوا طعنہ،کنایہ جس میں اعتراض یا ہجو کا پہلو ہو ۔ دوشالے میں لپیٹ کے کچھ مارنا ، ناگہانی صورت حال ، جب خوش گوار بات ناگوار ہو، حالات کی ستم ظریفی میں  دو مختلف طبقوں میں زبان کا ذو معنی استعمال کرنا ، ایک خصوصی حاضرین اور دوسرا عام حاضرین کے لیے۔" 10؎   اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں طنز کی تعریف یوں کی گئی ہے:
A subtly humorous perception of incongruity in which an apparently straightforward statement or event is given another significance by its context. 11؎    
احمد سہیل نے Ironyکا ترجمہ خفطنز کیا ہے ۔      12؎  وزیر آغا نے Ironyکا ترجمہ رمز کیا ہے۔۱3؎  خواجہ عبد الغفور نے Ironyکا ترجمہ رمز و کنایہ کیا ہے۔ ۱4؎  مابعد جدید شارحین نے  Irony کو طنز و کنایہ اور تمسخر و استہزا  کے معنوں میں ہی استعمال کیا ہے ۔ ۱5؎        اس لیے  ہم نے اس اصطلاح کا ترجمہ طنز ِ خفی کیا ہے۔
طنزِخفی  ایک ادبی تکنیک ہے ۔ جس میں کہنے والے کا مطلب کچھ اور ہو تا ہے۔ لیکن اپنے مطلب کو بیان کرنے کے لیے وہ بالکل مختلف الفاظ استعمال کرتا ہے۔ مابعد جدیدی تکنیک میں طنزِخفی  کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔طنز ِخفی کی مختلف اقسام میں سے زبانی اور تحریری طنز کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ طنز کسی جلی کٹی بات کو کہتے ہیں ۔ طنز لطیف بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات کسی سنجیدہ بات کو  بھی مزاحیہ انداز میں بیان کر کے طنز  یہ لہجہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ طنز کو وسیع معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ادب میں طنزِخفی  ایک ایسا انداز ہے جو ہجو نگاری میں استعمال کیا جاتا ہے  یا ایسا طریقہ اظہار ہے جس میں مصنف اپنے حقیقی مفہوم کو کہانی اور کردار کے ارتقا کے پس  پردہ چھپا دیتا ہے اور اسے مراد متضاد معنی ہوتے ہیں ۔ طنز و مزاح کو اکثر ساتھ ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور عام طور پر دونوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے طنز اور مزاح بالکل الگ الگ چیزیں ہیں ۔طنزِخفی  ایک مشکل لیکن پرکار ادبی صنف ہے۔ یہ محض کسی کا مذاق اڑا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں طعن و تشنیع، خلاف توقع نتائج نکالنے اور مضحکہ خیز خاکہ بنا کر عام زندگی کے کسی معاملے کو اجاگر کیا جاتا ہے جب کہ ساتھ ساتھ اس معاملے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی بھی ڈالی جاتی ہے۔ طنز طاقت ور عوامی انداز فکر یا افراد کو چیلنج کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں ایک متبادل سوچ پیدا کرتا ہے۔
طنز  کی تین مشہور اقسام ہیں۔ رومی طنز نگار ہوریس  (Horace)مزاح کا سہارا لے کر مذاق کے سے انداز میں بات کرتا ہے۔ اس انداز کو ہوریشن طنز کا نام دیا گیا ہے۔ وہ مسکراہٹوں سے زخم مندمل کرنے کا قائل ہے۔طنز کی دوسری اہم قسم رومی طنز نگار جووینل (Juvenal) کے نام سے منسوب ہے۔ اس طرز میں شخصیات یا نظریات پر حملہ کیا جاتا ہے۔ جووینل مختلف پوائنٹس کو بڑھا چڑھا بیان کرنے سے یا ان کی پیروڈی کر کے طنز پیدا کرتا ہے اور تمسخر انگیز انداز اختیار کرتا ہے۔تیسری اہم قسم یونانی طنز نگار مینیپن( (Menippeanکے نام پر ہے جو کہ مکالمے میں سنجیدگی اور تمسخر کے امتزاج سے طنز تخلیق کرتا ہے۔16؎

طنزِخفی  سے مراد ہے ادب میں واقعات کو استہزائی اور تمسخرانہ انداز میں یوں بیان کرنا کہ بات بھی بیان ہو جائے اور کسی کو ناگوار بھی نہ گزرے۔  کسی سماج یا معاشرے کی خامیوں اور کمیوں کا مطالعہ اس کے طنزیہ ادب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لیے مابعد جدید مصنفین نے طنز و کنایہ کو نہ صرف اپنے ادب میں شامل کیا بلکہ بہت سے مابعد جدید لکھاریوں نے اپنے اسلوب اور بیانیے میں اس کو اپنے اسلوب یا انداز کی  امتیازی خصوصیت  کے طور پر شامل کیا ہے ۔ مابعد جدیدی مصنفین نے طنز کو بہت مرتبہ سنجیدہ مضامین میں استعمال  کیا ہے ۔ خاص کر تاریخی واقعات جیسے دوسری جنگ عظیم کے موضوعات میں طنز کو بطور آلہ کار استعمال کرتے ہوئے اپنے ادب کو پیش کیا ہے۔
باقاعدہ طور پر اس اصطلاح کاآغازیونان سے ہوتا ہے ۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق  طنز کی اصطلاح سب سے پہلے ایک یونانی مزاحیہ کردارایرن(Erion )کے ہاں ملتی ہے ۔17؎  جوزف ہیلر( Joseph Heller )کی کہانیوں میں طنزِ خفی  کا استعمال سب سے زیادہ ملتا ہے۔  اس کے علاوہ شیکسپئر کے ڈراموں "اوتھیلو" اور " رومیو اور جولیٹ"  میں بھی اس تکنیک کا استعمال ملتا ہے۔لنڈاہیچین(Linda Hutcheon )نے تو مابعد جدیدی افسانے کو  طنزِ خفی  کا نشان (سمبل) کہا ہے اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مابعد جدید افسانے کا بیشتر حصہ طنزِ خفی  پر مشتمل ہے ۔18؎
۲۔       کھیل تماشا                                                                                                          (Playfullness ):
قومی انگریزی  اردولغت میں کھیل تماشہ کو ان الفاظ میں  بن کیا گیا ہے ،" کھیل تماشوں والا، چنچل ، شوخ  یا رنگیلے مذاق سے بھرپور ، خوشگوار طور پر ظریف یا ہنس مکھ، زندہ دل"۔19؎  اوکسفرڈ ڈکشنری میں کھیل تماشا کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
The quality of being light-hearted or full of fun 20؎
دیگر انگریزی لغات میں اس کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
Full of fun and high spirits; frolicsome or sportive. 21؎
The propensity to see the light or bright side of life, to joke with other people, and not to take things too seriously in life, keeping a positive state of mind. Playfulness is thought to be the groundwork of humour. 22؎                                                                                                       
عموماًکھیل تماشا  طنزِخفی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ۔طنز و مزاح اور کھیل تماشا  کا بنیادی تصور مابعد جدیدیت کے سب سے زیادہ پہچانے جانے والے پہلو میں شمار ہوتے ہیں ۔ اگرچہ ان کو ادب میں شامل کرنے کا خیال مابعد جدیدیت سے  شروع نہیں ہوا مگر یہ مابعد جدیدیت کے بہت سے کاموں میں مرکزی خدو خال بن گئے۔
مابعد جدیدیت عام طور پر حقیقت کے گہرے ماڈلز ، مہابیانیوں اور سنجیدہ اشکال کو رد کرتی ہے ۔ اس لیے مابعد جدیدیت بہت سی جگہوں پر کھیل  تماشا کو ظاہر کرتی ہے ۔ کھیل تماشا  کا مطلب ہے کھیل کی اشکال، کھیل کی زبان ، کھیل کی ساخت وغیرہ۔ مابعد جدیدیت دنیا کی دوبارہ تعمیر ، یا دنیا کے لیے دی جانے والی خوف  ناک انسانی قربانیوں کو پروان چڑھانے کی مخالفت کرتی ہے ۔ ما بعد جدیدیت کھیل تماشا کی حمایت کرتی ہے۔ مابعد جدید مفکرین کا خیال ہے کہ آئندہ آنے والے زمانے میں علمی ٹیکنالوجی کے ذریعے جنگیں ہوا کریں گی ۔ کھیل تماشا ایسی ٹیکنالوجی اور علم کے خلاف مدافعت کر سکتا ہے ۔ کھیل تماشا  کے ذریعے ایسی مشکوک باتوں سے فائدہ اٹھایا جا  سکتا ہے جو اس ٹیکنالوجی کے سسٹم میں موجود ہیں ۔ کھیل تماشا کے ذریعے ان کو ختم کر کے مطلوب چیزوں کو نظام میں شامل کیا جا سکتا ہے تا کہ دنیا تباہی کی جانب نہ بڑھے۔  مابعد جدیدیت میں سنجیدہ موضوعات کو کھیل تماشا  اور مزاح میں پیش کرنا عام بات ہے۔ playکی اصطلاح سب سے پہلے جرمن فلاسفر اور ماہر نفسیات کے ۔گروس (K. Groos )   نے۱۸۹۹ءمیں وضع کی  جس کا مطلب تھا کھیل مستقبل کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔23؎ لہذا مابعد جدیدی مفکرین کے ہاں بھی کھیل  تماشا مستقبل کی تباہیوں سے بچاؤ میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ 
۳۔سیاہ مزاح (Black Humour ):
قومی انگریزی اردو لغت میں سیاہ مزاح   کی تعریف یوں بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ  افسانوی ادب کی ایک قسم  ہے جس میں مسخ شدہ یا بگڑا ہوا مزاحیہ پلاٹ یا بیان ہوتا ہے ۔ 24؎ خواجہ عبدالغفور  نے اپنی کتاب"طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ " میں Black Humour    کا ترجمہ ستم ظریفی کیا ہے۔ 25؎  سیاہ مزاح کی تین اقسام ہیں (1)مزاحیہ، طنزیہ وغیرہ، جو مضحکہ خیزمصیبت یا مضحکہ خیز حالات پیش کرتا ہے۔(2)مزاحیہ جو طنزیہ اور  خشک ہے۔(3)بہت زیادہ مزاحیہ  جس سے طنز کی کیفیت بھی نمایاں ہو تی ہے  ۔26؎اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں بلیک کامیڈی کو بلیک ہیومر بھی کہا گیا ہے۔ اس اصطلا ح کوجوزف ہیلر ( Joseph Heller )Catch 22 اورکرٹ وونیگنٹ( kurt vonnegnt )نے              Slaughter House five                                                                    میں استعمال کیا۔27؎

            بلیک کامیڈی (سیاہ طربیہ)کی اصطلاح کو پہلے پہل فرانسیسی ڈراما نگار اے نوئی (Anouith    )نے استعمال کیا۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۵۰ء کی درمیانی مدت میں اس نے جو ڈرامے لکھے انھیں "سیاہ پارے"کہا جاتا ہے۔  کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ترکیب اس نے فرانسیسی شاعر  اندرے بریتوں (Breton    )کے انتخاب      Anthology of Black Humor     (۱۹۴۰ء)سے اخذ کی۔ جس میں ایسی تحریروں کو یکجا کیا گیا تھاجو مزاحیہ انداز میں صدمہ انگیز ، ڈراؤنے اور گھناؤنے معاملوں کا جائزہ لیتی ہو۔28؎ بریتوں کا یہ کہنا تھا           کہ جونتھن سوفٹ (Jonathan Swift    )جو کہ ایک سرئیلسٹ نظریہ ساز تھا اس نے اپنی کچھ تحریروں میں سیاہ مزاح کو استعمال کیا جس میں اس نے ہنسی اور شکست سے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی اور موت جیسے بھیانک موضوعات کو بیان کیا۔ 29؎ 

   مابعد جدید تکنیک میں طنز ِخفی، کھیل اور سیاہ مزاح  کو ایک ساتھ استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ سیاہ مزاح  بھی طنز ِخفی کی طرح حالات کے مضحکہ خیز پہلو کو بیان کرتا ہے ۔ سیاہ مزاح  کو سب سے پہلے انگریزی دور وسطیٰ کی آخری دہائی میں جان ٹری وسا ( John Trevisa ) (۱۳۴۲ء۔۱۴۰۲ء)نے استعمال کیا ۔ اس نے black + humour کر کے اس اصطلاح کو سیاہ پتلیوں  Black bileکے معنوں میں استعمال کیا۔30؎    بہت سے ادبی ماہرین کے مطابق یہ اصطلاح قدیم یونانیوں کے ہاں بھی مستعمل رہی ہے ۔31؎     
۴۔ حقسانہ (Faction ):
Faction  دو الفاظ Fact اور Faction کا مرکب ہے۔ہم نے اس تکنیک کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو کے دو الفاظ حقیقت اور افسانہ کو ملا کر حقسانہ کی اصطلاح وضع کی ہے۔ ادب میں حقسانہ سے مراد ہے کوئی ایسا ناول یا افسانہ جس میں حقیقی واقعات اور کرداروں کو افسانوی انداز میں پیش کیا جائے۔ اوکسفرڈ انگلش اردو ڈکشنری میں Faction کے یہ معنی درج ہیں ۔"حقیقی واقعات و کردار پر مبنی کتاب ، فلم ، ڈراما، (Fact اور Faction کا مرکب ) "۔32؎سہیل احمد خان کہتے ہیں کہ یہ لفظ کوئی تیس چالیس سال پہلے فکشن Fiction اور Fact کو جوڑ کر بنایا گیا اس سے کوئی ایسا ناول یا ناولٹ مراد ہے جس میں کسی حقیقی واقعے یا واقعات کے سلسلے یا حقیقی کردار سے منسوب افعال کو قلم بند کیا جائے ۔ شرط یہ ہے کہ بیانیہ حقائق سے بہت قریب رہے اور اس پر اعلیٰ پائے کی صحا فت کا گمان ہو ۔ 33؎
اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں کی تعریف یوں کی گئی ہے۔
A short – lived portmanteau word denoting works that present verifiably factual contents in the form of a fictional novel, as in Norman Mailer’s The Armies of the Night (1968). Although still sometimes used by journalists, the term suffers from the disadvantages of already meaning something else. 34؎
مشتاق احمد یوسفی نے "آب گم" میں بھی اس تکنیک کو انھی معنوں میں استعمال کرتے ہوئے اپنی کتاب کو حقسانہ کا مرکب کہا ہے۔35؎
یہ ایک افسانوی ادبی سٹائل ہے جس میں وسیع پیمانے پر حقائق اور  افسانے کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے، حقیقی تاریخی اعداد و شمار اور جعلی بات چیت کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے اصل واقعات کو دکھایا جاتا ہے اور افسانہ کی کہانیوں کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئےاصل حقائق قاری تک پہنچائے جاتے ہیں ۔ مفکرین کا کہنا ہےکہ ارجنٹائن(Argentine  )کا ناول Operacion  Masacre  (۱۹۵۷ء) پہلا ایسا ناول ہے جو حقیقی واقعات کو افسانوی انداز میں بیان کرتا ہے۔36؎
اس اصطلاح پر بہت سوال اٹھائے جاتے ہیں کہ یہ کیسے پتا چلے گا کہ کتنا افسانہ ہے اور کتنی حقیقت ہے ۔ تو اس کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ بعض اوقات مصنف دیباچے یا پیش لفظ میں خود بتا دیتا ہے کہ اس افسانوی تخلیق میں اور کن کن عوامل کا دخل ہے ۔یا پھر وہ متن میں کوئی ایسا واضح حوالہ پیش کرتے ہیں جو حقیقی واقعے کا پیش خیمہ ہو۔ تاریخی میٹا فکشن حقسانہ سے بہت ملتا جلتا ہے ۔حقسانہ  میں اس کا موضوع اصلی واقعہ پر مبنی ہوتا ہے لیکن حقسانہ لکھنے والے مصنفین حقیقت اور فکشن کے درمیان اس قدر الجھن پیدا کردیتے ہیں کہ دونوں کے درمیان فرق جانناتقریبا ًناممکن ہو جاتا  ہے۔ میٹافکشن بھی  اکثر اس حقیقت پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔
۵۔  قاری کی  شرکت  (Participation ):
جدیدیت کے جواب کے طور پرجس نے اکثر اپنے مصنفین کو اپنے قارئین سے الگ کیا ہے ،بہت سے مابعد جدید مصنفین نے  ایک ناول کے دوران زیادہ تر ممکنہ طور پر قاری کو شامل کرنے کی کوشش کی۔ متن میں قاری کو شریک کرنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ کبھی قاری کو کہا جاتا ہے کہ وہ اس کردار کے ساتھ سفر کرےاور اسے محسوس کرے ۔ کہیں متن میں کہا جاتا ہے کہ پڑھنے والاان سوالات کا جواب سوچے اور دیکھے کہ اگر وہ مصنف کی جگہ ہوتا تو وہ کیا کرتا ۔ کہیں قاری سے رائے مانگی جاتی ہےاور کہیں اس کو کہا جاتا ہے کہ وہ متن کے اختتام کا فیصلہ کرے ۔ یوں کئی ممکنہ طریقوں سے ایک مصنف قاری کو متن میں داخل کرتارہتاہے۔ مصنف  قاری کو  اپنے افسانوی ادب کی تحسین کے لیے بھی اپنے متن میں شامل کر لیتا ہے اس لیے کہ  بعض اوقات مصنف نے متن کے ذریعے ایسے خلا پیدا کیے ہوتے ہیں کہ ان کی درست تفہیم کے لیے وہ قاری کو متن میں شریک کر لیتے ہیں ۔
۶۔مہا  فکشن (Metafiction ):

            مہافکشن  ادب کی ایک ایسی ہیئت یا تکنیک ہے جو قاری کو ا س بات پر   مسلسل زور دیتی ہے کہ  وہ یہ ذہن میں رکھے کہ وہ افسانوی ادب پڑھ رہا ہے ۔  مہافکشن  کی تکنیک قاری کو فکشن کی ہیئت سے متعارف کرواتی ہے اور مسلسل براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنی حیثیت  ، کہانی کا اظہار ، زبان اور دوسرے آلات کی مدد سے قاری پر یہ زور دیتی ہے کہ وہ جان لے کہ وہ ایک افسانوی تحریر پڑھ رہا ہے۔  مہافکشن  ، فکشن  کے بارے میں فکشن  ہےیا اس سے زیادہ خاص طور پر ایک قسم کا فکشن  جو کہ اپنی خودمختاری حیثیت پر کھل کر اظہار کرتا ہے۔اور یہ اصطلاح عام طور پر ایسے متون کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جو اپنے بارے میں خود آگاہ کرتے ہیں ۔ نیز وہ متون اتنے مربوط ہوتے ہیں کہ وہ قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں ۔ اوکسفرڈ دکشنری آف لٹریری ٹرمز میں اس کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے : 

Fiction about fiction;or more especially a kind of fiction that openly comments on its own fictional status . 37؎                                                                                                             
مہافکشن  بطور اصطلاح ولیم ۔ ایچ۔ گیس (William . H. Gass )نے ۱۹۷۰ء میں اپنی کتاب  Fiction and the Figures of Life میں  استعمال کی ۔ بعد میں اس نے اس اصطلاح کی وضاحت اپنے مضمون " فلاسفی اور فکشن کی شکل" میں بھی کی ۔ اس نے کہا کہ مہافکشن  یہ بتاتا ہے کہ یہ فکشن اپنے فکشن ہونے سے آگاہ ہے ۔38؎
یہ ادب یا فکشن قدرتی اور حقیقی ہے مابعد جدیدیت اسی بات پر زور دیتی ہے کہ ادب کو اپنے آپ کو ظاہر کرنا چاہیے۔ مہافکشن  کے اس طریقہ کار نے ۱۹۶۰ء کے بعد زیادہ فروغ پایا ۔ جب اس تکنیک کا استعمال جان بارتھ ( John Barth )کی تحریر Lost in Funhouse ، تھامس پنچن( Thomas Pynchon )کے ناو ل The crying of Lot    اورکرٹ وونیگنٹkurt vonnegt  کے ناول  The Slaughterhouse-Five میں کیا گیا۔۱۹۶۰ء سے لے کر ۱۹۷۰ء تک کے درمیانی عرصے میں اس تکنیک کو بہت فروغ حاصل ہوا ۔ کچھ مصنفین نے اس تکنیک کو ایسے آلہ کے طور پر استعمال کیا جس سے ان کے لکھے گئے فکشن کو مقبولیت حاصل ہو سکے۔ اب یہ تکنیک بہت معروف ہو چکی ہے اور یورپی کلچر کا باقاعدہ حصہ ہے کہ قاری کو بتایا جائے کہ کہ وہ حقیقی نہیں بلکہ افسانوی ادب پڑھ رہا ہے۔
۷۔ تاریخی بیانیہ (Historiographic Metafiction ):

            تاریخی بیانیہ         کی اصطلاح          لنڈا ہیچن(Linda Hutcheon     )(کینیڈین ادبی نظریہ ساز )نے ۱۹۸۰ء کے آس پاس پیش کی ۔39؎ 
            یہ اصطلاح ان  افسانوی متون کے لیے استعمال کی جاتی  ہے جس میں مہافکشن  کے ساتھ  تاریخی بیانیہ بھی شامل ہو جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں بہت سے متون ایسے ہیں جن میں بین المتونیت بھی پائی جاتی ہے یعنی وہ اپنے اندر بہت سے تاریخی حوالے بھی رکھتے ہیں ۔ بعض تاریخی بیانیہ      کے متون ایسے ہوتے ہیں جن میں مصنفین پوری تاریخ کو رقم کر دیتے ہیں ۔یہاں تک کہ وہ اصل تاریخی کرداروں اور واقعات کو بھی فکشن بنا کر پیش کر دیتے ہیں ۔مثلاً   ای۔ ای۔ ڈاکٹرو( E. L. Doctorow    ) کا Ragtime     (۱۹۷۵ء) اور ولیم کینڈی(  William Kennedy    )          کا Legs    (۱۹۷۵ء)لبنانی سول جنگ  اور بے شمار حقیقی سیاسی کرداروں کے بارے میں ہے ۔جان فوولز( John Fowles    )     کا The French Lieutenant's Woman     ۱۹۶۹ء          وکٹوریہ عہد کا تاریخی بیانیہ ہے ۔ یہ اصطلاح مابعد جدید ادب بالخصوص مابعد جدید ناولوں سے وابستہ ہے ۔ لنڈا ہیچن اس سلسلے میں کہتی ہیں کہ 

A Poetics of Postmodernism", works of historiographic metafiction are "those well-known and popular novels which are both intensely self-reflexive and yet paradoxically also lay claim to historical events and personages. 40؎                                             
تاریخی بیانیوں میں جن لوگوں کے کاموں کو شہرت ملی ان میں سلمان رشدی   (Salman Rushdie ) کا Midnight's Children  ، اے۔ ایس۔ بیات(A. S. Byatt )   کا Possession ،   میچل آنداتجی(Michael Ondaatje ) کا  The English Patient  (۱۹۹۲ء) ،اور کرٹ وونیگنٹ  کا Slaughterhouse-Five (۱۹۶۹ء)  وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل تاریخی بیانیے زیادہ تر دوسری جنگ عظیم کے بعد لکھے گئے متون میں ظاہر ہوتے ہیں ۔

۸۔ فنی مخلوطہ(Pastiche ):
Pasticheکو اردو میں فنی مخلوطہ  کہا جاتا ہے ۔ جس کا مطلب ہےتخلیقی کام کا ایک ٹکڑا، خاص طور پر ادب میں ڈرامہ، آرٹ  یا بہت سی چیزوں کو آپس میں  ملا دینا ۔ یعنی ایک فن پارہ ایسا ہو جس میں کئی اصناف یکجا ہو ں ۔کہیں افسانہ اور کہیں نظم ہویا کہیں  لگے کہ یہ فن پارہ کسی بیانیے کا اظہار ہے ۔  قومی  انگریزی اردو لغت  میں Pastiche کا ترجمہ امتزاجیت کیا گیا ہے نیز اس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ فنی مخلوطہ  فن لطیفہ، موسیقی یا ادب کا فن پارہ ہے جس کا منصوبہ اور اسالیب فن دوسرے فن پاروں سے لیے گئے ہیں ۔41؎ اوکسفرڈ اردو انگلش ڈکشنری میں Pastiche کو فنی مخلوطہ کہا گیا ہے ۔42؎اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں Pastiche کی تعریف یوں کی گئی ہے :
A literary work composed from elements borrowed either from various other writers or from a particular earlier author . The term can be used in a derogatory sense to indicate lack of originality, or more neturally to refer to works that involve a deliberate and playfully imitative tribute to other writers. 43؎            
  فنی مخلوطہ  پیروڈی اور نقل (Mockery ) سے مختلف ہوتا ہے ۔ عام طور پر  پیروڈی مبا لغے سے کام لیتی ہے اور اصلی مواد میں سے تفریح کو نکال لیتی ہے  جبکہ فنی مخلوطہ  اصل کے سٹائل کو اپناتی ہے لیکن اس پر مزید کچھ  نہیں کرتی  اور نہ اصل کے فن کو خراب یا ضائع کرتی ہے۔ فریڈرک جیمسن نے اس کو خالی اور بے مقصد کہا ہے۔44؎
فنی مخلوطہ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تکنیک  بذات خود کچھ نیا تخلیق کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ پرانے ادب کو ہی نئے انداز میں پیش کرنے کا نام ہے۔ یا یوں سمجھیں پرانی اصناف کو نئے متن میں ڈھالنے کا نام ہے ۔ یہ نیا متن بہت سے پرانے متون کے بارے میں حوالہ جات فراہم کرتا ہے لیکن یہ حوالہ جات ہو بہو نقل یا کاپی نہیں ہوتے بلکہ اس کی مثال یو ں لی جا سکتی ہے جیسے کسی پرانی چیز کو نیا لباس پہنا دیا جائے ۔ جیسے جاسوسی ناول میں سائنس کو لے آئیں یا سائنسی فکشن میں جاسوسی فکشن کی آمیزش کر لیں ۔ جیسے کسی ناول میں شاعری کا کوئی ٹکڑا لے آئیں یا کوئی گیت بیان کر دیں ۔ مابعد جدید مصنفین اپنی تصنیفات میں کسی ایک خاص صنف کے بجائے کئی اصناف کی آمیزش کو جائز سمجھتے ہیں  اور وہ بیک وقت کئی اصنا ف کا استعمال بھی کرتے ہیں ۔
۹۔ سنسنی خیزی (Paranoia ):
قومی  انگریزی اردو لغت  میں Paranoiaکی تعریف  کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے گئے ہیں مثلاً مالیخولیا، خلل دماغی ، اختباط،  وسوسہ، توہم ، (طب نفسی)، اختلال ذہنی کا مرض ، جس کی بڑی خصوصیت باقاعدگی سے وسوسوں کا ظہور ہے۔ خاص طور پر وسو سئہ اذیت اور وسوسئہ عظمت ۔45؎ اوکسفرڈ اردو انگلش ڈکشنری میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے ؛"دماغی خلل، خبط، جس میں خود کو بہت اہم اور دوسروں کو اپنے مصائب کا ذمہ دار سمجھا جائے ۔ یا دوسروں کی طرف سے بے اعتباری اور شبہ کا رجحان رکھنا"۔ 46؎
بیسویں صدی  کے آغاز میں بہت سی سیاسی و سماجی تبدیلیاں آئیں  یہ تبدیلیاں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئیں ۔ یہاں تک کہ اس صدی کے آخر میں ما بعد جدیدیت کا زور و غلغلہ ہوا ۔ اس وقت ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ و میڈیا کا دور ہے ۔ اس لیے مصنفین  ٹیکنالوجی  اور میڈیا کے موضوعات کو اپنی تحریروں میں شامل کرنے لگے ہیں ۔ یہاں تک کہ قاری اور عام آدمی بھی اس سے متاثر ہونے لگا ہے ۔ مابعد جدیدیت ٹیکنالوجی کے علاوہ بہت سے دوسرے عوامل سے بھی بحث کرتی ہے  جیسے کہ سرد جنگ  جو گھروں سے لے کر معاشروں تک پھیلی ہوئی ہے ۔ مشرق اور مغرب کے درمیان جو خلیج حائل ہے اس کی بڑی وجہ سرد جنگ  ہے  جس نے عام آدمی کو بھی خوف میں مبتلا کر رکھا ہے ۔  اسی کو مابعد جدید مصنفین سنسنی خیزی کہتے ہیں ۔ یعنی ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانوں کے دماغوں کو اسیر بنا لیا گیا ہے  اور انھیں جیسے چاہتے ہیں اپنے کنٹرول میں کر لیتے ہیں۔ اس بات کا اظہار بہت سے مصنفین نے کیا ہے مثلاً  فلپ رینے (Philip Reene )کا ناول Mortal Engines ایسا ناول ہے جس میں ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی دکھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح یہ ساری ٹیکنالوجی ایک ہی سمت میں چل رہی ہے۔ اسی طرح  ایلن مور (Alan Moore )کا ناول Watchman  ایک جغرافیائی ناول ہے جس میں امریکہ کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ سر د جنگ کی خوف  ناکی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مابعد جدید مصنفین اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے اپنے متون میں خوف ناک مناظر بھی بیان کرتے ہیں جن کو پڑھ کر قاری شدید خوف کا شکار ہو جاتا ہے  اور وہ کئی کئی دن تک اس کے خوف میں مبتلا رہتا ہے ۔ مثلاًانسانوں کے قتل کے لرزہ خیز واقعات کی تصویر کشی یا انسانی اعضا کی چیر پھاڑ وغیرہ۔
۱۰۔ بین المتونیت (Intertextuality ):
Intertextualityکے لیے اردو میں بین المتونیت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔ بین المتونیت کی اصطلاح فرانسیسی نظریہ ساز جولیا کرسٹیوا نے ۱۹۶۶ء میں اپنی کتاب Semicotike میں  وضع کی ۔  Intertextualityکا لفظ اس نے لاطینی لفظ Intertexto سے وضع کیا۔ جس کا مطلب ہے "بنتے ہوئے کو باہم ملانا"(To intermingle while weaving ) اور اس سے جو اصطلاحی مفہوم اس نے نتھی کیا۔ وہ اس نے سوسئیر کے لسانی فلسفے اور میخائل باختن کے مکالمیت (Dialogism ) سے اخذ کیا۔47؎
اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں  بین المتونیت  کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے :
The term intertext has been used variously for a text drawing on other texts, for a text thus drawn upon , and for the relationship between both. 48؎                            
ابوالکلام قاسمی کہتے ہیں کہ بین المتونیت اتنی وسیع اور جامع اصطلاح ہے کہ اس کےدائرہ  کار میں محض کتابی اور تحریری متن نہیں آتا بلکہ لسانی اظہار کے ساتھ ساتھ سماجی یا ثقافتی مظاہر ، بہت سے حقائق جن کا اظہار نہیں کیا جاسکتا اور روایتی تصورات ، کہاوتوں ، مختلف قصوں اور کہانیوں کے اسالیب اس طریق کار کے ذریعے متن کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں ۔49؎
ڈاکٹر ناصر عباس نیر بھی یہی کہتے ہیں کہ مابعد جدید تنقید اور طریق ہاے مطالعہ کی وضاحت جس عمدگی سے بین المتونیت کرتی ہے۔ کوئی دوسری اصطلاح نہیں کرتی ۔ مابعد جدید تنقید اور مطالعاتی طریقے بین العلومی اور بین المتونی ہیں ۔ 50؎ اس سے مراد ہے کوئی بھی ایسا متن ( خواہ وہ ناول ہو یا نظم یا تاریخی دستاویز)  موجود نہیں ہے  جو کسی اور متن کے بغیر مکمل ہو ہر متن دوسرے متن سے وجود میں آتا ہے۔ قاری اسی وقت متن کی درست تفہیم کرے گا جب وہ یہ جان لے کہ اس متن کا دوسرے متون سے کیا تعلق ہے؟اس اصطلاح کے مطابق کوئی متن آزاد نہیں ہوتا ہے اور ہر متن دوسرے متن سے تعلق رکھتا ہے۔
کسی بھی ناول ، افسانے، فلم یا ڈرامے میں متنوع عناصر اور متون کام آتے ہیں  اور یہ متون پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔ پہلے سے موجود متون اپنے متن کی تشکیل کے لیے اپنے سے ماقبل متون کے محتاج ہوتے ہیں ۔ یوں متن در متن ایک سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اس لیے کوئی بھی متن خود کفیل نہیں ہوتا  بلکہ متن اپنی تشکیل کے لیے دوسرے متون کا محتاج ہے ۔1 5؎
اس لیے ایک متن کی تعبیر کے دوران دوسرے کئی متون کی گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور کئی نئے متون سامنے آجاتے ہیں ۔ دراصل بین المتو نیت کو مابعد جدید تکنیک میں اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اس کو کئی دوسری تکنیک کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ جن میں  مہافکشن،  تاریخی  میٹا فکشن ، فنی مخلوطہ ،  خوف و تحیر اور پیروڈی وغیرہ شامل ہیں ۔

 

۱۱۔ زمانی انتشار (Temporal Distortion ):
زمانی انتشار جدید اور مابعد جدید عہد میں ایک اہم تکنیک ہے ۔ انتشار اور غیر خطی بیانیے جدیدیت اور مابعد جدیدیت دونوں میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔زمانی انتشار کو مابعد جدیدیت میں مختلف پہلوؤں سے استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر طنز کی تلاش میں۔  زمانی انتشار اس کی اہم مثال ہے ۔        زمانی انتشار وقت کی توڑ پھوڑ اور زمان و مکان سے بحث کرتی ہے ۔ مابعد جدید مصنفین نے اس تکنیک کو مختلف طریقوں  سے استعمال کیا ہے ۔ مثلاًوقت کا حوالہ دے کر کہ وقت رکتا نہیں ۔ مسلسل چلتا رہتا ہے ۔ وقت کبھی پچھلے زمانے میں اور کبھی اگلے زمانے میں گردش کرتا ہے ۔ کبھی ان مصنفین کے کردار ناول کے ساتھ کھیلتے نظر آتے ہیں۔مثال کے طور پر رابرٹ کوور(Robert cover )کا ناول Pricksongs & Descants وقت کی ایسی تقسیم کے بارے میں ہے جس میں مصنف نے بہت ممکن واقعات کو آگے پیچھے کر دیا ہے ۔ جیسے وہ کسی اور زمانے میں واقعہ ہوں ۔ ناول کے ایک حصے میں Babysitter کو قتل کیا جا رہا تھا جب کہ ناول کے دوسرے حصے میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ۔  اسی طرح مابعد جدیدی مفکرین اس تکنیک کو اپنے ناولوں میں استعمال کرتے ہیں ۔
۱۲۔ کثرت   پسندی (Maximalism ):

            کثرت پسندی    مابعد جدید ادب میں فن پارے میں تنوع اور رنگا رنگی کی قائل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد جدیدیت  کثرت پسندی  کی قائل ہے جس کے ذریعے متن میں سیاست و ثقافت کو باہم پیش کیا جا سکتا ہے۔  Maximalism     ادب اور آرٹ میں Minimalism کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر ابھری ۔     Minimalism      جہاں چیزوں کو صاف ، شفاف اور کم وقت دینے کی قائل ہے وہیں Maximalism     چیزوں میں زیادتی اور تنوع کی قائل ہے ۔ بہت سے مابعد جدید مفکرین کے نزدیک کثرت پسندی  وہ تکنیک ہے جو چیزوں کو جہاں ہے وہاں دیکھنے کی قائل ہے ۔ اس لیے کہ مابعد جدیدیت سخت قوانین کی قائل نہیں ہے۔ اس کے متون کی کوئی حد نہیں وہ طویل سے طویل تر ہو سکتا ہے  اور مابعد جدید مصنفین کے بعض فن پارے انتہائی طویل ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ مابعد جدید یت چیزوں کو متنوع انداز سے پیش کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ لیکن یہ تفصیلات صرف متن کے ۶۰۰ یا ۸۰۰صفحات پھیلانے پر ہی اکتفا نہیں کرتی  بلکہ اس متن میں اردگرد معاشرت مسائل سیاست ، ثقافت ، کلچر اور مذہب ہر چیز کو بیان کر دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان مصنفین کی کتب میں روایتی خیالات اور کہانیاں ہی شامل   نہیں  بلکہ وہ جدید ٹیکنالوجی جیسے مضامین کو بھی اپنی تحریروں میں پیش کرتے ہیں ۔ مابعد جدید مصنفین نئے نئے موضوعات کی تلاش میں بھی رہتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے اجزا کو بھی اہمیت دیتے ہیں جس سے ان کے کام میں نکھا ر پیدا ہوتا ہے ۔ اس طرح      کثرت پسندی  مصنفین کو یہ موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے متن میں جس طرح کا چاہے نیا تجربہ کر لے ۔ کیونکہ یہ دور حقائق کو دیکھ کر اپنے خیالات کے اظہار کر نے کا دور ہے اس لیے یہ  بہت سی باتیں آپس میں  خلط          ملط بھی کر دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ صحیح اور حقیقی کو غلط اور غیر یقینی سے الگ کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ مابعد جدید تکنیک میں بین المتونیت ، میٹا فکشن کے ساتھ      کثرت پسندی کو بھی اہمیت حاصل ہے ۔ کیونکہ یہ سب تکنیک آپس میں باہم مربوط ہیں ۔   
کثرت پسندی      کی اصطلاح کبھی کبھی ما بعد  جدید ناولوں کے ساتھ منسلک کی  جاتی  ہے۔خاص طور پر ان ناول نگاروں کے ہاں یہ تکنیک زیادہ مستعمل نظر آتی ہےڈیوڈ فوسٹروالز (   Wallace               David Foster    )اور       تھامس     پنچن    )          (Thomas Pynchon    ۔جنھوں نے اپنے ناولوں میں استطراد، بین المتونیت اور اضافی حوالہ جات  کو پورے متن پر حاوی کر رکھا ہے ۔  

۱۳۔ جادوئی حقیقت نگاری (Magical  Realism ):
جادوئی حقیقت نگاری ( Magical  Realism)کی اصطلاح کا آغاز جرمن نقاد فرانز روFranz Roh) (نے ۱۹۲۵ء میں کیا۔ فرانز رو نے اس دور کے جرمن مصوروں کے خصائص اور رحجانات کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے اس اصطلاح کو اس وقت استعمال کرنے کی ضرورت محسوس کی جب اس دور کے مصوروں کی تصویریں حقیقت پسندی اور ماروائے حقیقت عناصر کا مرکب تھیں ۔ میگی این بورز (  (Maggie Ann Bowers نےاپنی کتاب Magical  Realism میں  اس اصطلاح کے آغاز کے بارے میں یوں لکھا ہے :
The First of the term magischer Realismus or magic realism was coined in Germany in the 1920s in relation to the painting of the weimar Republic that tried to  capture the mystery of life behind the surface reality 52
اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز میں جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جادوئی حقیقت نگاری جدید عہد میں فکشن کی ایسی قسم ہے جس میں ناقابل یقین اور دوسرے بہت سے عناصر متن میں یوں شامل ہوتے ہیں کہ وہ واقعات کے حقیقی انداز میں بیان کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے ۔ جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک نے بیسویں صدی کی بدلتی ہوئی صورت حال کا احاطہ کرنے کے لیے فکشن میں کرداروں کو ماوراے حقیقت صفات، مثلاًٹیلی پیتھی، ہوا میں اڑنا  اور ذہنی طاقت کا اطلاق وغیرہ دی ہیں ۔ اس تکنیک نے اد ب  کے کرداروں میں بہت تنوع  پیدا کر دیا ہے۔53؎
بہ طور ادبی اصطلاح اس کا آغاز لاطینی امریکا سے ہوا ۔  ۱۹۲۷ ء میں فرانز رو کی کتاب  Revista de occidenteکے نام سے سپینی زبان میں فرنینڈ و ویلا (Frendo Vela )نے ترجمہ کر کے شائع کی تو اس تکنیک کا چرچا یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگا ۔ اس کے بعد  ۱۹۳۵ ء میں اس کی کتاب   Historia Universal de la infamia چھپ کرسامنے آئی تو لاطینی امریکہ کے لکھاریوں کو جادوئی حقیقت نگاری کا پہلا نمونہ میسر آیا۔ 54؎
یعنی سب سے پہلے جادوئی حقیقت نگاری کی اصطلاح بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جرمنی کے جمہوریہ ویمرکے مصوروں کے لیے بنائی گئی جو عامیانہ حقیقت کے پیچھے چھپی ہوئی زندگی کے اسرار و رموز کو ظاہر کرتی تھی ۔ جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک نے ادب میں عروج اس وقت پایا جب وسطی اور جنوبی امریکہ کے مصنفین نے اسے ادبی تحریروں میں استعمال کیا۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان اپنی کتاب  ادبی اصطلاحات  میں لکھتے ہیں کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس اصطلاح  کو وسطی امریکاکے مصنفین نے خود ایجا د کیا یا ان تک کسی اور ذریعے سے پہنچی ۔لاطینی امریکاکے جدید فکشن کی خصوصیات کا تعین کرنے کے لیے جادوئی حقیقت کی اصطلاح ابتدا میں ایک امریکی نقاد نے استعمال کی ۔55؎                                                                                     
اس تکنیک نے بیسویں صدی کے ادب اور بصری فنون پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔ پہلی عالمی جنگ اور اس کے تباہ کن نتائج نے جہاں زندگی کے دیگر پہلوؤں کو متاثر کیا وہاں ادب بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں بہت سی سیاسی و سماجی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ دو عالمی جنگیں لڑی گئیں ۔ان سب نے ادب کو اتنا متاثر کیا کہ ادب اور فنون کی دیگر شاخوں  میں ایسی تکنیک کا استعمال عمل میں لایا گیا  جو انسانی ذہن کو حقیقت تک رسائی سے دور رکھے۔ اظہار کے ان طریقوں میں سب سے اہم جادوئی حقیقت نگاری کی تکنیک ہے ۔

 

حوالہ جات
۱۔         عمر فاروق، اصطلاحات نقد و ادب ( دہلی: اردو اکادمی، ۲۰۰۶ء)، ص۸۴ ۔          
۲۔        اردو لغت (تاریخی اصول پر) (کراچی : اردو ڈکشنری بورڈ ،۱۹۸۳ء)، ص۴۳۳ ۔
۳۔        جمیل جالبی، قومی انگریزی اردو لغت (اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان،۱۹۹۲ء)، ص۶۵۵۔
۴۔        ولیم گیڈی(W.Geddie Chamber's 20th Century Dictionary (لندن :چیمبرز ،۱۹۶۸ء)،ص۱۱۳۲۔
۵۔        اوکسفرڈ ایڈوانسڈ لرنرز ڈکشنری(اوکسفرڈ: اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس)، ص۱۲۲۶۔
۶۔        روبینہ تبسم ، اردو فکشن تنقیدی تناظرات  (دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، ۲۰۱۷ء)،
ص ۳۶۔
۷   ۔       ارسطو،        بوطیقا،مترجمہ عزیز احمد ( لاہور:درد اکیڈیمی ، ۱۹۶۵ء)، ص۶۵۔
۸۔        مارٹن گرے(Martin Grey A Dictionary of Literary Terms
(یوکے: لانگ مین لمیٹڈ،۱۹۹۴ء)، ص۱۱۲۴۔
9.https://www.shmoop.com/postmodern- literature/characteristics.html                                                                                                      
https://www.quora.com/How-are-postmodern-literary- techniques-used
https://thefinaltwist.wordpress.com//postmodern- techniques-by-mark-h-phili.
https://inkblotchpoison.wordpress.com/tag/postmodern-techniques
https://gunn-final.weebly.com/themes-and-techniques.html
10۔      اوکسفرڈ انگلش اردو لغت (اوکسفرڈ : اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس،س ن )،ص۱۸۳۔
11۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز( اوکسفرڈ:ا وکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 2008ء) ، ص ۱۸۷                 
12۔      احمد سہیل،منتخب ادبی اصطلاحات (لاہور: شعبہ اردو ، جی۔ سی ۔ یونی ورسٹی، ۲۰۰۵ء)،
ص ۱۲۲۔
۱3۔       وزیر آغا ،اردو ادب میں طنز و مزاح  (نئی دہلی :اعتقاد پبلشنگ ہاؤس  سوئیوالان ، ۱۹۷۸ء)،   
ص۳۱۔
۱4۔       خواجہ عبدالغفور، طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ (دہلی:نعمانی پریس،۱۹۸۳ء)،ص۴۹۔
۱5۔       اقبال آفاقی، مابعد جدیدیت (اسلا م آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، ۲۰۱۷ء)، ص ۷۲۔ 
16۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز، ص ۱۸۷۔
17۔      انسائیکلو  پیڈیا برٹینیکا (Encyclopedia Britannica)  ،  https://www.britannica.com ،
تاریخ ِ ملاحظہ : 22 جولائی 2017ء۔
18۔      لنڈا ہیچن Linda Hutcheon) The Theory and Politics of Irony
https://www.amazon.com/Ironys-Edge-Theory-
Politics-Irony/dpتاریخ ِ ملاحظہ: ۵ مارچ ۲۰۱۸ء۔
19۔      قومی انگریزی اردو لغت،ص ۱۲۳۰۔
20۔      کھیل تماشا(playfulness ) ، www.dictionary.com/browse/playfulnes
تاریخِ ملاحظہ :۳ جنوری۲۰۱۷ ء
۲۱۔       کھیل تماشا(playfulness https://psychologydictionary.org/playfulness
تاریخِ ملاحظہ :۳ جنوری۲۰۱۷ء۔
22۔      کھیل تماشا(playfulness ) ، http://encyclopedia2.thefreedictionary.com
تاریخِ ملاحظہ :۳ جنوری۲۰۱۷ء۔
23۔      ایضاً۔
24۔      قومی انگریزی اردو لغت، ص ۱۶۳۔
25۔    خواجہ عبدالغفور، طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ، ص۴۹۔
26۔ سیاہ  مزاح(Black Humour
https://en.oxforddictionaries.com/definition/black__humourتاریخِ ملاحظہ
:۳ جنوری۲۰۱۷ ء۔   
27۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز، ص ۳۹۔
28۔      احمد سہیل، منتخب ادبی اصطلاحات ،ص۷۔
29۔    آندرے بریتون (Andre Breton) ۔Anthology of Black Humor ،(پیرس:سٹی لائیٹ پبلشرز، 1940ء) ، ص34۔

30۔      سیاہ مزاح(Black Humour. )    https://www.britannica.com         ،تاریخِ ملاحظہ :۳ جنوری۲۰۱۷ء۔ 
31۔      سیاہ مزاح(Black Humour. )    https://en.oxforddictionaries.com 
definition/black_humour ،تاریخ ِ ملاحظہ:۲۱ جنوری۲۰۱۷ء۔  
32۔      اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت ،ص۵۵۷۔
33۔      سہیل احمد خان، ادبی اصطلاحات، ص۸۳۔
34۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز، ص ۱۳۴۔
35۔      مشتاق احمد یوسفی، آب گم (کراچی:      مکتبہ دانیال، ۱۹۹۰ء)، ص ۱۴۔
36۔      حقسانہ(Faction https://www.revolvy.com/main/(literature) تاریخِ ملاحظہ : ۲۲دسمبر ۲۰۱۷ء۔
37۔      اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت ،ص۱۱۹۲۔
38۔      ولیم ۔ایچ۔ گیس (William. H. Gass ) ، Fiction and the Figures of
            Life (نیو یارک:الفریڈ ، ۱۹۷۰ء)، ص۲۵۔
39۔      لنڈا ہیچن (Hutcheon Linda A Poetics of Postmodernism
          History, Theory, Fiction ، (نیویارک:۱۹۸۸ء)، ص۱۹۔
40۔      ایضاً۔
41۔      قومی  انگریزی اردو لغت،ص ۱۱۷۲۔
42۔      اوکسفرڈ اردو انگلش ڈکشنری، ص ۱۱۹۷۔
43۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز،ص۲۶۹۔
44۔      مابعد جدیدیت (Postmodenism https://www.cla.purdue.edu     
           تاریخِ ملاحظہ: ۲۸دسمبر ۲۰۱۷ء۔
45۔      قومی  انگریزی اردو لغت  ،ص ۱۱۶۔
46 ۔      اوکسفرڈ اردو انگلش ڈکشنری، ص۱۱۸۶۔
47۔      ابوالکلام قاسمی، "مابعد جدید تنقید: اصول اور طریقہ کار کی جستجو"مشمولہ مابعد جدیدیت: نظری مباحث مرتبہ ناصر عباس نیر ،ص۱۱۰۔
48۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز، ص۲۶۶۔
49۔      ابوالکلام قاسمی، مابعد جدید تنقید: اصول اور طریقہ کار کی جستجو، ص110۔
50۔      ایضاً، ص۱۶۶۔
51۔        ناصر عباس نیر ،جدید اور ما بعد جدید تنقید، ص۳۰۸۔
52۔      میگی  این بورز(Maggie Ann Bowers Magical Realism ، (روٹلیج: ایبنڈن ، ۲۰۰۴ء)، ص ۲۔
53۔      اوکسفرڈ ڈکشنری آف لٹریری ٹرمز،ص ۲۱۰۔
54۔      اینجل فلورس(Angel  Flores Magic Realism in  Spanish
American Fiction (ہسپانیہ:بک پبلشرز،۱۹۹۵ء)، ص۱۸۷
55۔      سہیل احمد خان، ادبی اصطلاحات، ص۱۲۸۔

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com