انوار الحق کی ‘‘اُردو پشتو لغت’’کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ
( لغت نگاری کے فنی اُصولوں کے تناظر میں)
علی شیر،پی ایچ ڈی اسکالر شعبہ اردو جامعہ پشاور
ڈاکٹر ولی محمد لیکچرر ، شعبہ اردو جامعہ پشاور

Abstract :
The bilingual dictionaries have keen importance in promoting the two different languages. For new language learners these dictionaries play the role of stairs with the  help of which the goal of language learning becomes possible. There is a rich tradition of Urdu Pashto dictionaries compilation. One of these bilingual dictionaries is Urdu Pashto Lughat translated and compiled by Syed Anwar Ul Haq.In this research paper the researchers have analyzed the technical status of Urdu Pashto Lughat in the tradition of bilingual dictionaries.
Key words: dictionary compilation. bilingual dictionaries,importance, technical stages, Urdu Pashto Lughat, syed Anwar ul Haq, analysis  
کلیدی الفاظ:لغت نگاری ۔ذولسانی لغات۔اہمیت ۔تکنیکی مراحل ۔اردو پشتو لغت ۔سید انوار الحق ۔تجزیہ
لغت نگاری  لغت کی تدوین و تشکیل کا عمل ہے ۔ یہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے جسے سر کرنے کے لیے لغت نگار کو کافی دُشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے۔اگرچہ بر صغیر  پاک وہند میں اردو سمیت دیگر زبانوں میں اس کام کے لیے ابتدا میں کوئی واضح اُصول متعین نہیں کیے گیے اور محض اُستاد کی شاگردی اختیار کرنے کو کافی سمجھا گیا جس کے نتیجے میں فنی تقاضے نظرانداز ہوتے چلے گئے اور لغت نویسی کا کام شخصی اصول و قواعد کی بنیاد پر کیا جانے لگا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منظم طریق کار کی بجائے ذاتی طریق کار کے تحت لغت نویسی کا سلسلہ جاری رہا اور یوں لغت نویسی کے فن میں پختگی کے امکانات مخدوش ہوتے چلے گئے۔
ہر ایک فن کی طرح لغت نویسی میں بھی کمال حاصل کرنے کے لیے ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے ۔لغت کی تدوین کا  کام  کافی محنت طلب ہے اس لیے لغت نگارکو ایک اچھے اور معیاری لغت کی تدوین وتشکیل  میں اُن تمام باتوں کا خیال رکھنا بھی ہوتا ہےجس کی وجہ سے ایک معیاری اور جامع لغت کا وجود ممکن ہو۔ کائناتی نظام کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس میں موجود ہر چیزکچھ  خاص اصول و قواعد کا پابند ہے  اور اس کی  پاسداری کرکے اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہے ۔قوا نین کی پاسداری سے تنظیم کا تعین ممکن ہے ۔اصولوں کی پیروی  ہی میں ایک معیاری لغت کی تدوین ممکن ہے ۔جس سے آگاہی کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے ۔اس بنیاد پر لغت کی تدوین ایک صبرآزما اور نازک مرحلہ ہے جس میں کامیابی لغت نگاری کے اصولوں سے واقفیت اور اس کی پیروی میں مضمر ہے۔ یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ چاہےیک لسانی لغات ہوں یا ذو لسانی،اصولوں کی پیروی کیےبغیر ایک اچھے،معیاری ،مستند اور جامع لغت  کی تدوین و تشکیل کا تصور ناممکن ہے ۔
سید انوار الحق کی ‘‘ اُردو پشتو لغت’’ ذو لسانی لغت ہے جو ۱۹۷۰ء میں منظر عام پر آئی۔یہ لغت دو جلدو ں پر مشتمل ہے ۔ اس لغت میں شامل الفاظ کی تعداد۸۰۰۰۰سے زیادہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ لغت سید انوار الحق  کی اپنی  مدون کردہ لغت نہیں ہےبلکہ  ‘‘جدیدنسیم اللغات اردو ’’ کا ترجمہ ہے ۔‘‘جدید نسیم اللغات اردو ’’ ۸۰۰۰۰ہزار الفاظ پر مشتمل اردو لغت  ہے جس کی ترتیب و تدوین کا کام سیدمرتضی ٰ حسین فاضل لکھنوی ، سید قائم رضا نسیم امروہوی اور آغا محمد باقر آزاد نےکیا۔ یہ لغت پہلی مرتبہ ۱۹۵۵؁ میں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی۔ جس میں لغت نگاری کے فنی تقاضوں کا خیال کافی حد تک رکھا گیا ہے۔ اگرچہ  انوار الحق کا کہنا ہے کہ میں اس لغت کوچند اضافوں کے ساتھ شائع  کررہا ہوں تاہم جب اس کا بغور جائزہ لیاگیا تو چند اضافوں کے ساتھ  چند متروکات بھی نظر آئیں۔ جس کا تفصیلی جائزہ اگلی سطروں میں لیا جائے گا۔ ترجمہ ہوتے ہوئے بھی اس کی اہمیت سے اس لئے انکار نہیں کہ اردو پشتو لغت نگاری کی خشک سالی کے باب میں یہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔
ذو لسانی لغت کی تدوین وتشکیل میں پہلا فنی تقاضا شامل ِ لغت الفاظ کی مخففاتی اور صفحاتی فہرستو ں کا  ہے۔جن کی موجودگی کی بدولت لغت سے استفادہ کرنے والا بہت سی دشواریوں سے نجات پا سکتا ہے ۔ پہلی فہرست شامل لغت الفاظ کی علاماتی و اشاراتی ہوتی ہے جن میں تمام الفاظ  کی لسانی ، قواعدی   ، محاوراتی، ضرب الامثالی، متروکی،مروجی، مترادفاتی الفاظ کے علامات کا اندراج کیا جاتا ہے اور دوسری قسم صفحاتی  فہرست ہوتی ہے جن میں شامل لغت الفاظ کے مندرجہ صفحوں کی نشاندہی کی جاتی ہیں۔مخففاتی فہرستوں میں صفحاتی فہرست لازمی  فہرست ہوتی ہے جن کی بدولت لغت سے استفادہ کرنے والے کے لیے زیادہ الجھنوں سے نجات ممکن ہوتا ہے ۔
‘‘اُردو پشتو لغت’’ کا جائزہ اگر اسی اصول کے تناظر میں لیا جائے تولغت نگار نے  لغت کے ابتدائی صفحات میں شامل ِ لغت الفاظ کی   مکمل مخففاتی اور علامتی  فہرست  درج کی ہےجس میں سید انوار الحق نے لفظ کے بارے میں تمام تفصیل درج کی ہے ۔ اس  کے علاوہ  صفحاتی فہرست کاا ندراج مفقود ہے ۔لغت کے ابتدائی صفحات سے شاملِ لغت الفاظ و تراکیب کی لسانی و قواعدی  علامتی مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
اِس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ =اِسم         (۱)
اص۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ =اِصطلاح     (۲)
ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ = ہندی       (۳)
س۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ =سنسکرت     (۴)
جج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ =جمع الجمع     (۵)
مؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ = مؤنث      (۶)
ب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ = بازاری      (۷)
مخففاتی فہرست کے بعد اگر آغازو ترتیب کے بارے میں بات کی جائے  تو ‘‘اردو پشتو لغت ’’  کو   حروف تہجی کی ترتیب سے مدون کیا گیاہے ۔پہلی جلد باب ‘‘آ’’ سے  باب ‘‘د’’ تک کے الفاظ و مرکبات پر مشتمل ہے اگرچہ لغت کے اوپر ‘‘آ’’ تا ‘‘ڈ’’ درج کیا گیا ہے لیکن یہ درست نہیں کیونکہ پہلی جلد میں ‘‘ آ’’ تا ‘‘د’’ کے الفاظ و مرکبات شامل ہیں۔ اسی طرح دوسری جلد باب‘‘ڈ’’ تا ‘‘ی’’ تک کے الفاظ و مرکبات پر مشتمل ہے۔
مخففاتی فہرست کے علاوہ فن لغت نگار ی میں دوسرا اہم فنی تقاضا اندراجات ِ الفاظ کی درست ترتیب کا ہے اسی ذیل میں اگر دیگر یک لسانی یا دو لسانی لغات کا جائزہ لیا جائے تو وہ عام طور پر پہلے اور دوسرے حرف کی ترتیب کو ملحوظ  خاطر رکھ کر درج کیے گئے ہیں ۔اردو پشتو لغت میں بھی یہ خامی موجود ہےکہ لغت نگار نے بعض جگہوں پر پہلے اور دوسرے حرف  کی ترتیب کا لحاظ رکھ  کر تیسرے حرف کو نظر انداز کیا ہے   ۔لغت میں بعض الفاظ میں لغت نگار نے پہلے دوسرے ،تیسرے اور چوتھے حرف  کا بھی لحاظ رکھا ہے لیکن ایسے الفاظ تعداد میں بہت کم ہیں ۔ یعنی اندراجات ِ الفاظ کی  ترتیب میں انہوں نے کوئی خاص اصول کی پابندی نہیں کی اور نہ ہی کسی خاص ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے ،مثال کے طور پر  ‘الف مقصورہ’ کے باب سے چند الفاظ درج کیے جاتے ہیں۔ اس باب میں لغت نگار نے‘‘اب’’ کے بعد ’’اِبا،ابابیل،  اباحت،اُبال،ابا، ابتدا، ابتذال، ابتر‘‘ (۸) کا ذکر کیا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لغت نگار نے اسی معاملے میں کسی خاص اصول کی پاسداری نہیں کی حال آنکہ چاہییے تو یہ تھا کہ لغت نگار ‘‘اب’’ کے بعد ‘‘اَبا، اِبا، ابابیل، ابتر، ابحت ،ابتدا،ابتذال،ابال’’ کے حساب سے اندراج کرتے تو اس میں کم از کم پہلے دوسرے اور تیسرے لفظ کا لحاظ رکھا جاتا لیکن لغت نگار نے الفاظ کے اندراج میں وہی طریقہ اپنایا ہے جو‘‘ نسیم اللغات ’’ میں پہلے سے موجود تھا۔
مخففاتی فہرست، اندراجاتِ الفاظ کی درست ترتیب کے بعد تیسرا اہم فنی تقاضا لفظ کو درست تلفظ اور املا سمیت درج کرنے کا ہے۔اسی ذیل میں  اکثر لغت نگاروں نے اغماض برتاہےجس کی وجہ سے عوام میں  الفاظ کا غلط تلفظ اورادائیگی عام ہوتی جا رہی ہے۔لفظ کے تلفظ کے لیے عموماََ  دو طریقے یعنی توضیحی  اور اعرابی طریقہ اپنایا جاتا ہے ۔ اول الذکر میں لفظ کے ساکنی ،مضمومی، مکسوری اور مفتوحی صورت کو واضح کرنا لازمی ہوتا ہے جب کہ مؤخر الذکر میں نشانات کے ذریعے سے لفظ کی اعرابی صورت واضح کی جاتی ہے توضیحی طریقہ کافی مشکل اور طویل طریقہ  ہے کیونکہ شامل لغت تما م الفاظ کے ساکنی ،مضمومی، مکسوری اور مفتوحی صورت کو واضح کرناآسان کام نہیں البتہ اعرابی طریقہ کارنسبتاً آسان اور قابل عمل ہے ۔لفظ کے درست تلفظ کے حوالے سے ڈاکٹر گیان چند جین کا خیال ہے کہ پہلے موجودہ تلفظ کو درج کیا جائے ۔بعد میں صراحت کردی جائے کہ اصل کے اعتبار سے اس لفظ کا تلفظ یہ تھا۔ مزید کہتے ہیں کہ اردو حروف بہت ملے جلے رہتے ہیں تو صرف اعرابی طریقہ درست نہیں توضیحی طریقہ اپنانا چاہیئے ان الفاظ کی صورت میں جن میں اختلافِ قرات کی گنجائش ہو ۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ توضیحی طریقے میں الفاظ کی صراحت بہت جگہ لے لیتی ہے۔ نشانات کے ذریعے سے تلفظ کی وضاحت کرنی چاہیے(۹)ذو لسانی لغات میں میزبان زبان کے الفاظ میں درست تلفظ کا خیال رکھنا اور ان  کو درست تلفظ کے ساتھ درج کرنا ہوتا ہے ۔ مہمان زبان میں تلفظ کی وضاحت کی چنداںضرورت نہیں ۔
اسی اُصول کے تحت  اگر‘‘ اُردو پشتو  لغت’’ کا جائزہ لیا جائے تو یہاں لغت نگار نے لفظ کے درست تلفظ کے لیے اعرابی طریقہ اختیار کیا ہے لیکن یہ وضاحت قوسین میں نہیں بلکہ مندرجہ لفظ کو اعراب سمیت درج کیا ہے۔لغت سے اس قسم کی مثالیں درج کی جاتی ہیں ۔
بَسَنَا:               (۱۰)    
بَستَر:               (۱۱)
بَسَانَا:               (۱۲)    
اندراجات اور الفاظ کی درست تلفظ کے بعد چوتھامرحلہ لفظ کے لسانی ماخذ کا ہوتا ہے لغت نگار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شامل لغت تمام الفاظ ، مرکبات ، روزمرہ اور محاورات اور ضرب الامثال کے سامنے قوسین میں اس کے لسانی ماخذ کا اندارج کرلے۔ لفظ کے لسانی ماخذ کے ضمن میں شمس الر حمان فاروقی کا کہناہے۔
"لغت نگار کا کام صرف یہ ہے کہ ممکن حد تک ہر لفظ کی اصل ، یعنی وہ جس زبان سے آیا ہے ،اس کی نشاندہی کردے،اور اگر اس کی جڑ سلسلہ بہ سلسلہ کئی زبانوں سے ہوتی آئی ہے تو اس کی بھی نشاندہی کردے۔ممکن ہو تو یہ بھی بتا دے کہ زبان میں اس کی قدیم ترین اور جدید ترین مثالیں اور کہاں ہیں۔" (۱۳)
جہاں تک لفظ کے لسانی ماخذ اور اصل تک رسائی کا معاملہ ہے تو اسی باب میں ڈاکٹر گیان چند نے ابتدائی اور جدید زمانے کی بابت کچھ یوں وضاحت  کی ہے کہ ابتدا میں یہ مسئلہ کافی پیچیدہ تھا کیونکہ بہ یک وقت لفظ کے اصل کے لیے تمام موافق اور مخالف ، صرفی و نحوی، معنوی اور لسانی و غیر لسانی ماخذات سے استفادہ کرنا ہوتا تھا اس کے علاوہ لغات  ودیگر اصل مخطوطات کا مطالعہ کیا جاتا لیکن اب یہ مسئلہ اتنا الجھا ہوا نہیں کیونکہ اب بہ کثرت لفظ کے اصلیاتی لغات ملتی ہیں جس سے بآسانی لفظ کے لسانی ماخذ اور اصل کا علم ہوتا ہے۔ (۱۴)
جہاں تک  ‘‘اردو پشتو لغت’’ میں لفظ کے لسانی ماخذ کی بات ہے تو  اس میں ہمیں شامل لغت  تمام الفاظ کے سامنے لسانی ماخذ  کا اندراج نہیں ملتا اور بالخصوص پہلی جلد میں اکثر الفاظ کے سامنے لسانی ماخذ کی نشاندہی نہیں کرائی گئی ۔جن الفاظ کے لیے سید انوار الحق نے ضروری سمجھا ہے صرف ان الفاظ کے سامنے لسانی ماخذات درج ہیں۔ اس کے علاوہ ‘‘نسیم اللغات ’’ میں درج بعض لسانی ماخذات کو  سید انوار الحق نے نظر انداز کیا ہے  اور بعض ایسے الفاظ بھی درج ہیں جس کے لسانی ماخذ کا ذکر ‘‘نسیم اللغات ’’ میں نہیں ملتا لیکن ‘‘اردو پشتو لغت ’’ میں اس کے لسانی ماخذ کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اردو پشتو لغت کی پہلی جلد میں جن الفاظ کے سامنے لسانی ماخذ کا ذکر نہیں کیا گیا لغت سے اس قسم کے چند الفاظ  و مرکبات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
آب:۔ ( مذ)                   (۱۵)
آبَ احمر: ( پہ اضافت ) (۱۶)
آب آب: (بے اضافت)       (۱۷)
اس کے علاوہ جن الفاظ کے سامنے لسانی ماخذ کا ذکر نہیں ان میں ، آب انگور، آبِ بقا، آبِ چشم، آبِ حیات، آبِ رواں، آبگینہ، آبکاری، آبِ نیساں، آبرو، آبادی، آلوچہ، آلو، آلن ، آلی، آلت، اب، ابابیل، ابد، ابخل، ابدالی، ابر، ابخرہ،ابری، ابرہ، ابو، ابو لبشر، ابولفضل، ابولکلام، ابو بکر، ابو تراب،اُپاڑ، اپاھج، اُپچ، اُپلا،اپنا،اپنی، اتاپتا، اتحاد، اتحاف، اترائی، اُترکے، اُترن، اتقا، اتلاف، اتنا، اُتُو، اتوار، اجابت، اُجاڑ، اجازت، اُجاگر، اُجالا، اجانب، اجتماع، اجتناب، اجتہاد، اجداد، اجر، اجرام، اُجرت، اُجڑا، احادیث، احبا، احتجاج، اخبار، اُخت، اختر، اختراع، اختصار، ادات، ادارت،  اُداسا، آدب، ادبیات،ارادت، ارادہ، اراضی، ارج، ارجاع، ارجل، بادام، بادلہ، بادِ نجان، بادہ، باروت، بارھا، باسمتی، باشندہ، باصرہ،پات، پاتر، پاتُر، پارچہ، پارسا، پاستان،پال، پالا،پالنا،پالی ’’وغیرہ   شامل ہیں۔
لغت کی پہلی جلد میں ایسے  الفاظ کثیر تعداد میں ہیں جن کے سامنے لسانی ماخذ کا ذکر نہیں ملتا۔اردو پشتو لغت میں ہندی، فارسی، عربی اور ترکی الفاظ کے سامنے اکثر لسانی ماخذ کا ذکر نہیں کیا گیا چاہے وہ پہلی جلد میں ہو یا دوسری جلد میں مگر  انگریزی زبان کے تمام الفاظ خواہ وہ پہلی جلد میں ہو یا دوسری جلد میں ،ہر لفظ کے لسانی ماخذ کی نشاندہی کی گئی ہے۔علاوہ ازیں مرکبات کے ذیل میں بھی لسانی ماخذ درج نہیں ہیں صرف  قوسین میں  اضافت اور بغیر اضافت کا ذکر ملتا ہے اس کے علاوہ لسانی ماخذ کا ذکر نہیں ملتا ۔اگرچہ مرکب چاہے  یک لسانی ہو یا ذو لسانی  دونوںصورتوں میں لسانی ماخذکی وضاحت لغت نگار پر لازم ہوتا ہے۔لیکن اردو پشتو لغت میں یہ خیال نہیں رکھا گیا۔لغت میں لفظ ‘‘سگ’’ کے ذیل میں اگرچہ زیادہ تر  مرکبات مثلاَََ سگِ اصحابِ کہف، سگِ بازاری ، سگ بان، سگ بانی، سگ بچہ، سگِ تازی، سگِ حضوری، سگِ دیوانہ، سگِ دنیا، سگ زادہ وغیرہ درج ہیں لیکن کسی ایک مرکب کے سامنے بھی لسانی ماخذ کا ذکر درج نہیں ۔ یہی صورت حال شامل ِ لغت سارے مرکبات کا بھی ہے۔
مجموعی طور پر اگر ‘‘اردو پشتو لغت ’’ میں شامل الفاظ کے لسانی ماخذات کی بات کی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ لغت نگار نے پہلی جلد میں  اکثر الفاظ   چاہے مفرد ہو ں یا مرکب ان کے سامنے لسانی ماخذات درج نہیں کیے ۔البتہ دوسری جلد میں  لسانی ماخذات کا خاص لحا ظ رکھا گیا ہے۔دوسری جلد سے لسانی ماخذ کے حوالے سے مثالیں ملاحظہ ہوں۔
روند: ۔ ( ہ۔اَمر: د روندنا)       (۱۸)
زلازِل :۔ ( ع۔ مذ۔ ج)           (۱۹)
شریفہ :۔ ( اردو۔ مذ)           (۲۰)
کلاہ :۔ ( ف۔ مذ)                (۲۱)
ذو لسانی لغت نگاری (Bilingual Lexicography)کے فنی تقاضو ںمیں پانچواں اہم  تقاضالفظ کی قواعدی حیثیت کا تعین کرنا ہے  اس سلسلے میں زیادہ ترتوجہ لفظ کی تذکیر و تانیث پر دی جاتی ہے ۔ ڈاکٹر گیان چند جین کے خیال میں قواعدی تعین میں تذکیر و تانیث کا اندراج بہت ضروری ہے کیونکہ اردو میں جنس کی مطابقت بہت اہم ہوتی ہے ۔  (۲۲)
سید خواجہ حسینی اپنے ایک مضمون بعنوان‘‘اردو لغت نویسی کے مسائل’’ میں لفظ کی قواعدی حیثیت کے تعین کے باب میں لفظ کی قواعدی تعین پر زور دے کر یہاں تک کہتے ہے کہ لغت میں پوری گرائمر شامل ہونی چاہیے۔  (۲۳)
لفظ کی  قواعدی  حیثیت کے تعین کے باب میں  ‘‘اردو پشتو لغت’’کی بات کی جائے تو لغت نگار   نے اکثر الفاظ کے سامنے تذکیر و تانیث کے علاوہ لفظ کی اضافی ، اسمی،  فعلی ،  فاعلی ،ظرفی ، مصدری ، ضمیری ،مفعولی ،عطفی، صفتی، واحد جمع ، جمع الجمع ،تابع فعل،  فعل متعدی  ،حاصل مصدر،مصدر متعدی،فعل امراور سابقے و لاحقے کا تعین کیا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے لغت سے مثالیں درج کی جاتی ہیں:
ڈاکنا:۔ ( ہ۔ مص۔لا)  (۲۴)
کوز کتل۔ قے کول۔ قے یا باقئی لګیدل۔ کوز کانه ور وستل
ڈانگر :۔( ہ۔ ص)  (۲۵)
ډنګر۔ خوار۔ماندہ ۔ نرے پیرے۔کمزورے۔
ڈسپیچ:۔( انگ۔ فع۔م)  (۲۶)
است۔استونه۔ کول ۔هونا۔روانګی۔ ارسال۔ مراسله۔ رپوټ چه د خاص سړی پہ لاس استولے شی۔ول
ڈھپنا:۔(ہ۔ مص۔ م)  (۲۷)
سر پوخ کیخول۔ پټول۔ بر غولے کیخول۔ډوبیدل۔ غرقیدل۔
زائیدگی:۔( ف۔ حمص۔ مؤ)  (۲۸)
زیګیدنه۔ پیداوخت۔
ڈھانک:۔( ہ۔ آمر: د ڈھانکنا) پټ کړہ (۲۹)
ڈھب سے:۔( تابع فعل )  (۳۰)
پہ مناسبه طریقه۔ پهښه شان ۔ په قاعدہ۔ټیک۔ معقول ۔ واجب
اناـ۔ (ع۔ضمیر) زہ۔خودی (۳۱)
اوپر:۔ ( حرف ظرف)  (۳۲)
د پر پهحٔائے وئیلے شی۔باندِ۔ پاس۔ اُوچت۔ بالا۔ دَ نیچے لاندی ضد۔پاس چت۔ بالا خانه۔ کو ٹه۔ پس ۔ رُستو۔ پسے
اور :۔ ( حرف عطف) (۳۳)
نور۔ نو۔ بیا۔ اؤ۔ ( لکه۔پانی اور هوا) په څهٔ خبرہ او حیرانتیا  دپارہ۔ (لکہ: تم اور شاعری)  تہ اؤ شاعری۔ یعنی ستا د شاعری سرہ سه دی۔
لغت نگاری ایک مشکل  فن ہے جن میں لغت نگارکو قدم قدم پر مشکل حالات  اور کھٹن مراحل سے گزرنا ہوتا ہے یوں تو تمام مراحل دقت طلب اور توجہ طلب ہیں لیکن اس  فن کا سب سے مشکل مرحلہ لفظ کے معنی کی وضاحت اور شواہد و اسناد کا تعین ہے۔اکثر لغات میں لغت نگاروں نے اس کا لحاظ نہیں رکھا بلکہ بعض  ادبا نے سندی طریقہ کار کو بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا اور روایتی طریقہ کار کو درست جانا ہے۔ جن ماہرین کی نظر میں سندی طریقہ درست نہیں ان میں ایک نام مالک رام کا بھی ہے ۔ وہ اس ضمن میں لکھتے ہیں ۔  ایک روایت یہ چلی آرہی ہے کہ الفاظ کے معنی کی سند میں شعرا کے کلام سے مثالیں درج کی جاتی ہیں ۔ یہ طریقہ ناکافی ہے کیونکہ بے شمار الفاظ ایسے ہیں جس کا استعمال شعرا نے اپنے کلام میں نہیں کیا ۔ تو کیا اس سے ان کی صحت مشکوک ہو جاتی ہے ؟یا معنی و مفہوم میں دشواری پیش آتی ہے ؟ دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ (۳۴)
لفظ کے معنی کی وضاحت کے ذیل میں شواہد و اسناد میں لغت نگار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی ذوق کا خیال رکھتے ہوئے ایک دو مترادفات درج کرے اس کے علاوہ اگر ہوسکے تو نثر سے سادہ جملوں کا اندارج کرے خیال رہے کہ مترادفات سادہ اور آسان ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے   ادق اور مشکل مترادفات کا اندراج کیا گیا ہو جن کے لیے الگ لغت دیکھنے کی ضرورت ہو۔
مذکورہ بالا وضاحت کے ذیل میں ‘‘اردو پشتو لغت ’’ کا اگر جائزہ لیاجائے تواس میں معتدل راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ لغت نگار نے نہ مترادفات کا انبار لگانے کی کوشش کی ہے اور نہ مکمل طور پر معنی و مفہوم کے ذیل میں ان سے گریز کیا ہے بلکہ مناسب حکمت عملی  کے تحت  معنی و مفہوم کے ذیل میں چند مترادفات اور اس کے بعد سادہ اور آسان بھاشا میں لفظ کے معنی و مفہوم کی وضاحت درج کی ہے۔ بعض مقامات پر معنی و مفہوم کی وضاحت کے سلسلے میں معمولاتِ زندگی سے نثری مثالیں بھی درج کی گئی ہیں جن سے مندرجہ لفظ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔لغت سے  معنی و مفہوم کی وضاحت کے طور  پر مترادفاتی ، سادہ اور عام فہم زبان اور نثری وضاحت کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
بِچَار:۔(مؤ)
خیال۔ فِکر۔ سوچ۔ پام(۳۵)
بَچَن: ۔(مذ)
قول۔ لوظ۔ عهد۔ وعدہ۔ پت۔ شګون۔ فال۔(۳۶)
پَیر:۔ ( ہ۔ مذ)
پخه۔ پخے۔ قدم۔ دقدم نخښه۔ د بنیادم آؤ د زناورو د وجود ھغه حصه یا اندام چه د ھغے په ذریعہ تلل کوی۔ درمند، غوبل، ګانړئی یا ھغہ حٔائے چی غویان پکی ګرزی۔ رشه۔ غوبل کړی غله چی لا صفا کړی ئی نه وی ۔ وانړی۔ د حیض یو قسم بیماری  یامرض چی پكښې حیض نہ بندیګی او بے اندازے وینه لاړہ شی۔(۳۷)
اُتر جانا:۔
راکوزیدل۔ کوزیدل۔ د پاس نه کوزہ راتلل۔ ماندہ یا کمزورے کیدل۔ د غم اؤ د نا اُمیدئی پہ وجه په مخ باندئی د پریشانئی علامے سر ګند یدل۔ بوتړئی راوتل۔( یہ خبر سنتے ہی ان کا منہ اتر گیا۔( دِ خبت پہ اوریدو سرہ ئی  دَ مخ بوتړئی راووته) نا پسند ۔ ناخوخه۔
د زړہ نه غورزیدل یا پریوتل۔( یہ چیز دل سے اُتر گئی : دا شے د زړه نه پریوتو یعنی نا خوښه شو)(۳۸)
فنِ لغت نگاری کا چھٹا مرحلہ  شامل ِ لغت  الفاظ ، محاورات ، ضرب الامثال  اور  مرکبات کے لغوی اور اصطلاحی معنوں کی نشاندہی اور وضاحت کا ہے ۔لغت نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ شاملِ لغت الفاظ ،روزمرہ اور محاورات کو لغوی اور اصطلاحی دونوں معنوں سمیت درج کرلے۔ اسی تناظر میں اگر ’’اردو پشتو لغت ‘‘ کو پرکھا جائے تو لغت نگار نے  بعض مفرد و مرکب الفاظ، محاورات اور ضرب الامثال کے سامنے لغوی و اصطلاحی مفہوم کی پابندی کی ہے ۔  لیکن اسی روش پر وہ شاملِ لغت تمام الفاظ کے بارے میں کار بند نظر نہیں آتے ۔لغت سے  لغوی و اصطلاحی مفہوم کےباب میں مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
اَیں خانہ تما م آفتاب است:۔ ( ف)
لغ: دا کور ټول دَ نمر سترګه دہ۔
اص:دا کورټول د لائقانودے(کله د ډیر زیات صفت بیانولو پہ وخت او کله چی ډیر بد ئی وائی نو په دواړو موقعوں کئی ویلے شی)(۳۹)
بلی سے چھیچھڑوں کی رکھوالی: متل:
لغ: په پیشو باندئی د وازدو سوکئی کول۔ پہ پیشو وازدے سپارل
اص: بد دیانت سړے خزانچی  مقررول۔(۴۰)
بُو آنا:۔
لغ: بؤ راتلل
اص: سخا کیدل۔ بد بوئی خوریدل یا پیدا کیدل۔ وګم راتلل۔ وګمه خوریدل یا پیدا کیدل۔ د څهٔ خبرے اثر زالیدل یا علامہ ښکارہ کیدل۔د سه خبرې نہ د زړہ حال ښکارہ کیدل۔(۴۱)
فنِ لغت نگاری تدوین لغت کے وقت لغت نویس سے اُن علامات (رُموزِ اوقاف )کے درست استعمال کا تقاضا کرتی ہے جن کی بنا پر ہم عبارت کو بہ آسانی پڑھ سکتے ہیں اور جن کی بدولت ہم الفاظ اور جملوں کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتے ہیں ۔ کیونکہ رُموز اوقاف ہی وہ بنیادی چیز ہوتی ہے جن کی بنا پر ہم مختلف الفاظ ، جملوں یا جملوں کے حصوں میں فرق کر سکتے ہیں۔ لغت نگاری کے فن میں ایک اصول رموز اوقاف کا بر محل استعمال بھی ہے اسی لیے کسی بھی لغت نگار کو تدوین لغت میں چاہے یک لسانی ہو یا ذو لسانی اس کی اہمیت سے انکار نہیں۔
مولوی عبدالحق کے قول کے مطابق رموزِ اوقاف سے مراد وہ علامتیں ہوتی ہیں ۔ جو ایک جملے کو دوسرے سے یا کسی ایک جملے کے حصے کو دوسرے حصوں سے علاحدہ کریں اور جس کے استعمال سے تحریر کے پڑھنے ،اصل اہمیت اور مطلب سمجھنے میں آسانی ہو۔ (۴۲)
رموزِ اوقاف کے باب میں اگر ‘‘اُردو پشتو لغت ’’  کا جائزہ لیا جائے تو اردو پشتو لغت نگاری کے میدان میں یہ واحد لغت ہے جس میں حسب ضرورت رموزِ اوقاف اور اس کی علامتوں کا بخوبی استعمال کیا گیا ہے ۔سید انوار الحق نے اپنی مدون کردہ لغت میں جو رموزِ اوقاف اور علامات استعمال کی ہیں اُن میں تفصیلیہ، قوسین، سکتہ، ختمہ،رابطہ ، علامتِ تجزیہ، ماخوذیہ، زنجیرہ، سوالیہ، وقفہ، علامتِ تسویہ،  علامتِ جل جلا لہ ،  علامتِ ﷺ  ،علامتِ  رضی اللہ عنہ ،علامت علیہ السلام    ،  علامت رحمۃ اللہ علیہؒ الگ الگ درج کی ہیں۔
مجموعی طور پر اگر‘‘ اُردو پشتو لغت ’’ کی بات کی جائے تو اُردو لغت نویسی  کی تاریخ میں بھی اس کی اہمیت بنتی ہے لیکن اُردو پشتو لغت نویسی میں اس کا مرتبہ بھی اس لحاظ سے بلند ہو جاتا ہے کہ ایک تو اس لغت میں الفاظ کا ذخیرہ  کافی زیادہ ہے اور دوسری بات یہ کہ اس میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں جن میں اُردو ، فارسی، سنسکرت ، ہندی اور عربی  شامل ہیں ۔ اُردو پشتو لغت نویسی کے ارتقائی سفر میں اس لغت  کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک طرف اگر یہ ان دونوں زبانوں کے لغات کےارتقائی سفر کو جلابخشتی ہے تو دوسری طرف یہ اردو پشتو دونوں زبانوں کے ترجمے کی ابتدائی کڑی  بھی ہے۔ اُردو پشتو لغت نویسی میں اس لغت سے پہلے بھی ‘‘خیر اللغات’’اور ‘‘ظفر اللغات’’ کی تدوین کا فریضہ سر انجام دیا گیا تھا لیکن ایک تو اُن دونوں لغات میں ذخیرۂ الفاظ کی کمی تھی جو زبان سیکھنے والوں کی ضروریات کو پورا کرنے ، مشکلات اور اُلجھنوں کو دور کرنے  اور اسی طرح علم کے پروانوں کی پیاس بجھانے سے یک سر قاصر تھی تو دوسری طرف وہ اُن اُصولوں پر پورا نہیں اُترتی جس کی بدولت ایک اچھے اور معیاری لغت کا وجود ممکن ہوتا ہے ۔جہاں تک ‘‘اُردو پشتولغت’’  کی بات ہےتو یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ایک ترجمہ شدہ ذولسانی لغت ہے لیکن پھر بھی کافی حد تک اس میں لغت نویسی کے اُصولوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی گئی ہے اس کے علاوہ اس میں ان خامیوں کا ازالہ بھی کیا گیا ہے جو اس لغت سے پہلے کی لغات میں موجود تھیں اسی لئے اُردو پشتو لغت نویسی میں سید انوارالحق جیلانی کی اس ترجمہ شدہ لغت کو ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے اس لغت نے نہ صرف اُردو پشتو لغت نویسی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیا بلکہ اس میں لغت نویسی کے عمل کو بہتر بنانے اور اہل علم کو اس فن کی طرف متوجہ کرنےکی بھی صلاحیت موجود ہے اگر اس لغت کے باب میں اس بات کا اظہار کیا جائے کہ اس جدید دور میں اُردو پشتو لغت نویسی کے کام کا تصور ‘‘ اُردو پشتولغت’’  کے بنا ممکن نہیں تو کچھ مبالغہ نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اُردو پشتو لغات میں یہ پہلی اور واحد لغت ہے جس میں تاریخی ، ریاضیاتی ، نباتاتی ، کھیل کود، جغرافیائی معلومات ، اصطلاحات اور الفاظ درج کیے گئے ہیں۔یہ لغت تاریخی اور فنی ہر دو اعتبار سے وقیع اور  اہمیت کی حامل ذولسانی لغت ہے۔

 

حوالہ جات
۱۔ انوار الحق ،سید، ڈاکٹر ، اردو پشتو لغت ، جلد اول ، مرکزی اردو بورڈ لاہور، ۱۹۷۰، ص ، مخففاتی فہرست
۲۔ ایضاً
۳۔ایضاً
۴۔ایضاً
۵۔ ایضاً
۶۔ایضاً
۷۔ایضاً
۸۔ایضاً               
۹۔ گیان چند جین، ڈاکٹر، علم اللغات اور لفظ اصلیات،مشمولہ  اُردو لغات اُصول اور تنقید ،مرتبہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، فضلی سنز کراچی، ۲۰۱۴، ص، ۳۳
۱۰۔ انوار الحق ، سید ، ڈاکٹر ، اردو پشتو لغت ، مرکزی اردو بورڈ لاہور، ۱۹۷۰،ص، ۳۰۷
۱۱۔ایضاً
۱۲۔ایضاً
۱۳۔ شمس الرحمان فاروقی، ڈاکٹر، اردو لغات اور لغت نگاری،  مشمولہ اردو لغت نویسی تاریخ، مسائل اور مباحث ،مرتبہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ ، مقتدرہ قومی زبان اردو اسلام آباد، ۲۰۱۰، ص، ۵۷۹
۱۴۔ گیان چند جین، ڈاکٹر، علم اللغات اور لفظ اصلیات،مشمولہ  اُردو لغات اُصول اور تنقید ،مرتبہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، فضلی سنز کراچی، ۲۰۱۴، ص، ۳۳
۱۵۔ انوار الحق ،سید، ڈاکٹر ، اردو پشتو لغت ، جلد اول ، مرکزی اردو بورڈ لاہور، ۱۹۷۰، ص۳      
۱۶۔ ایضاً               
۱۷۔ ایضاً
۱۸۔ایضاً ، جلد دوم، ۱۹۷۳، ص، ۱۲۵۵
۱۹۔ ایضاً، ص، ۱۲۸۵
۲۰۔ایضاً، ص، ۱۵۱۵
۲۱۔ ایضاً ،ص، ۱۹۳۷
۲۲۔ گیان چند جین،ڈاکٹر، علم اللغات اور لفظ اصلیات،مشمولہ  اُردو لغات اُصول اور تنقید ،مرتبہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ، فضلی سنز کراچی، ۲۰۱۴، ص، ۲۱
۲۳۔ایضاً ، مضمون ، خواجہ حسینی، ص، ۴۶
۲۴۔انوار الحق ،سید، ڈاکٹر ، اردو پشتو لغت،جلد دوم،مرکزی اردو بورڈ لاہور، ۱۹۷۳،ص ۱۱۴۷
۲۵۔ایضاً،ص، ۱۱۴۹
۲۶۔ ایضاً ، ص، ۱۱۵۴
۲۷۔ ایضاً، ص، ۱۱۶۹
۲۸۔ایضاً، جلد دوم ، ۱۹۷۳، ص، ۱۲۷۰
۲۹۔ایضاً، ص، ۱۱۶۸
۳۰۔ایضاً، ص، ۱۱۶۹
۳۱۔ایضاً، ص، جلد اول، ۱۹۷۰ ، ص،۱
۳۲۔ایضاً، ص، ۲۰۸
۳۳۔ایضاً، ص، ۲۰۸
۳۴۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، لغت نویسی کے مسائل ، ماہنامہ کتاب نما  جامعہ نگر نئی دہلی، ۱۹۵۸، ص، ۴۱
۳۵۔انوار الحق ، سید، ڈاکٹر، ‘‘اردو پشتو لغت’’  مرکزی اردو بورڈ لاہور ۱۹۷۰، ص ۲۷۵
۳۶۔ایضاً
۳۷۔ایضاً، ص، ۵۳۱
۳۸۔ایضاً، ص، ۷۹
۳۹۔ایضاً، ص، ۲۳۶
۴۰۔ایضاً، ص، ۳۲۵
۴۱۔ایضاً،ص، ۳۳۶
۴۲۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، اردو املا اور رسم الخط، اُصول و مسائل، سنگِ میل پبلی کیشنز اردو بازار لاہور ، ۱۹۷۷، ص، ۲۶

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com