ماقبل تقسیم سیاسی عصری سانحات اور اردو افسانہ
(جنگ طرابلس،سانحہ جلیانوالہ باغ:خصوصی مطالعہ)
  خالد محمود، اسکالر پی ایچ ڈی اُردو، شعبہ اُردواور مشرقی زبانیں، یونیورسٹی آف سرگودھا
  ڈاکٹر سمیرا اعجاز، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اُردواور مشرقی زبانیں، یونیورسٹی آف سرگودھا

Abstract:
In any era of history its political events cast lasting effects over the society in variegated aspects, when some undesired or unfortunate political incidents take place; they do affect the writers of that era. The writers are consciously or unconsciously influenced by such incidents in their writings. Urdu Afsana (Urdu short story) is also of no exception. This article is an endeavor to highlight, depict and analyse the effects of such political tragedies which took place before partition of sub continent and their effects on Urdu Afsana (Urdu short story) Especially the Tripolitania war and Jalianwale Orchard (Bhag) Tragedy .
Key Words: Era, Lasting Effect, Consciously, Political Tragedies, Partition
کلیدی الفاظ:عہد، دوررس اثرات، شعوری،سیاسی سانحات، تقسیم
ایک ادیب اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے وہ جس عہد اور ماحول میں سانس لیتا ہے اس کی روح اس کی تخلیقات میں ضرور جگہ پاتی ہے۔تخلیقات میں عصر کا تناسب مختلف تخلیق کاروں میں کم و بیش تو ہوسکتا ہے لیکن موجود ضرور ہوتا ہے۔ ادب دنیا کے کسی خطے کا ہی ہو وہ اپنے عہد کی واقعات سے اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔دنیائے ادب کے کسی بھی نوع کے ادب میں عصر یعنی اس کا عہد بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ عصر ایک ایسے شجر  کی مانند ہے جس کے سائے میں متفرق واقعات پروان چڑھتے ہیں۔ اس طرح وہ واقعات اس عہد کا لوازمہ ثابت ہوتے ہیں۔ کیمرج ڈکشنری میں ”عصر“کی تعریف کچھ اس طرح ملتی ہے:
’’(۱) کسی چیز کا ایک خاص وقت میں ہونا یا وقوع پذیر ہونا ۔
(ب) کسی ایک خاص وقت میں یا ماضی میں کسی چیز کا رونما ہونا۔‘‘(۱)
کسی واقعہ کا موجود ہ عہد میں وقوع پذیر ہونا  عصر میں وہ واقعات شامل ہیں جو کسی خاص عہد میں وقوع پذیر ہو چکے ہوں۔ آکسفورڈ اردوڈکشنری میں ”عصر“سے مراد یہ ہے:
’’وقت،زمانہ،دور،عہد‘‘(۲)
اس طرح کسی خاص وقت کو جو چند سالوں کے مجموعے پر محیط ہوسکتا ہے”عصر“ کہلاتا ہے۔
”عصر“ کئی سالوں کے دورا نیے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس عرصہ میں مختلف نوعیت کے حالات و واقعات ’’عصر‘‘کا ہی حصہ ٹھہرتے ہیں اس طرح ”عصر“ کا دائرہ کار اوردائرہ عمل وسعت کا حامل ہے۔ ”عصر“ کے بارے میں ضروری وضاحت کر چکنے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ ”سانحہ“ سے کیا مراد ہے۔کیمرج ڈکشنری میں سانحہ (Tragedy )کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
’’ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ یا حالت جس میں اموات یا تکالیف ہوئی ہوں۔‘‘(۳)
افسوسناک سانحہ ایک ایسا افسوس ناک واقعہ ہوتا ہے جس میں موت یا تکلیف شامل ہوتی ہے۔
میک ملن ڈکشنری میں سانحہ (Tragedy )کی تعریف اس طرح درج ہے:
’’(۱) ایک بہت ہی افسوسناک واقعہ جو لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرے یا موت کا باعث ہو۔
(ب)  ایک بہت بری صورت حال جو لوگوں کو پریشان کرے یا غصہ دلائے ۔‘‘(۴)
سانحہ ایک ایسا واقعہ ہے جو لوگوں کی اموات یا تکالیف کا سبب بنتا ہے وہ ایسی بری حالت ہوتا ہے جو لوگوں کو پریشان اور غصیلا کر دیتی ہے سانحے میں ہونے والے نقصانات کے باعث لوگ شدید پریشانی کا شکار ہو جاتے ہیں اس طرح لوگوں کی شدید پریشانی اور حالت غم سانحہ کی ہی وجہ سے ہوتی  ہے۔ سانحہ کے لیے انگریزی میں Calamityکا لفظ بھی استعمال ہوتاہے۔
کیمرج ڈکشنری میں سانحہ(Calamity ) کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے:
’’ایک خوفناک حادثہ یا برا واقعہ جو نقصان یا تکلیف کا باعث ہو۔‘‘(۵)
سانحہ ایک ایسا اندوہناک واقعہ ہوتا ہے جو شدید نوعیت کے نقصانات یا اذیت کا باعث بنتا ہے میریم وبسٹرڈکشنری میں سانحہ (Calamity )کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’ایک بہت ہی تباہ کن واقعہ جو بہت بڑے نقصان اور دور رس تکلیف کا باعث ہو۔
ایک گہرے الم یا تکلیف کی صورت حال جو کسی بڑے نقصان اور بدقسمتی کی وجہ سے ہو۔‘‘(۶)
سانحہ ایک بہت تباہ کن واقعہ ہوتا ہے جو دیر پا نوعیت کی اذیت اور تکلیف چھوڑ جاتا ہے۔ سانحہ سے جڑی اذیت  اور تکلیف جسمانی،معاشی،ذہنی اور نفسیاتی نوعیت کی ہو سکتی ہے۔ سانحہ کے اثرات دوررس اور دیر پا ہوتے ہیں جو بالعموم منفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔سانحہ کے لیے اردو میں المیہ، حادثہ،صدمہ، واقعہ، وقوع، وقوعہ اور انگریزی میں Apocalypse Cataclysm, Catastrophe, Disaster, Debacle, Tragedy, Misfortune . کے مترادفات استعمال ہوتے ہیں۔درجہ بالا تعریفات سے سانحہ کے بارے میں جو معلومات میسر آئی ہیں ان کے مطابق سانحہ ایک ایسا افسوس ناک واقعہ ہوتا ہے جو عوام،لوگوں کے لیے باعث اذیت ہوتا ہے۔ اس نقصان یا اذیت کی نوعیت جانی،مالی، معاشی، سماجی،نفسیاتی اور فکری ہوتی ہے۔ سانحہ کے دوران عوام کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سانحہ قدرتی اور انسانی ہوتاہے۔ قدرتی سانحہ میں قدرت  کی طرف سے آئی کوئی آفت مثلاً زلزلہ،سیلاب، آندھی وباوغیرہ انسانی اموات اور نقصان کا باعث بنتی ہے، اور انسانی سانحہ میں خود انسان کی پیدا کردہ صورت حال جیسے جنگیں،فسادات،دہشت گردی،توہین انسانی حقوق وغیرہ شامل ہیں جو انسانی اذیت کا سبب بنتی ہے۔ سیاسی سانحات سے مراد ایسے سانحات ہیں جو چند سیاسی وجوہات کی بنا پر جنم لیتے ہیں۔
اب ہم ماقبل تقسیم وقوع پذیر ہونے والے دو عصری سیاسی سانحات، جنگ طرابلس اور جلیانوالہ باغ کے اردوافسانے پر اثرات کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ ماقبل تقسیم سیاسی عصری سانحات میں جنگ طرابلس اہمیت کی حامل ہے۔ اس سیاسی سانحہ کے اثرات کے بارے میں مختلف افسانے لکھے گئے ہیں جنگ طرابلس سلطنت عثمانیہ اور سلطنت اٹلی کے درمیان ستمبر ۱۹۱۱ء سے اکتوبر ۱۹۱۲ء تک لڑی گئی۔ اٹلی نے اس جنگ کا آغاز یورپ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کیا۔ اٹلی نے بغیر الٹی میٹم کے طرابلس پر حملہ کر دیا حملے کا مقصد ترکی کو مزید کمزور کرنا تھا۔ ترکی کی کمزور فوج حملہ آوروں اور اطالیوں کا مقابلہ زیادہ دیر تک نہ رہ سکی۔ لیکن وہاں کے عربی اور مقامی بربر قبیلے اٹلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اوریہ  جنگ اکتوبر ۱۹۱۲ء تک چلی اس سانحے میں ہزاروں انسانی جانوں اور وسائل کا نقصان ہوا۔ اردو افسانے میں جنگ طرابلس کے المیے کے بیان میں علامہ راشدالخیری کا افسانوی مجموعہ ”شہید مغرب“ خصوصی توجہ کا طالب ہے۔ ان کے چارافسانوں ”شہید مغرب“،”طرابلس سے ایک صدا“،شہید طرابلس“ اور”دولہن دونوں کی“ میں جنگ طرابلس کے انسانیت پر ضرررساں اثرا ت کے بارے میں کہانیاں ملتی ہیں۔ علامہ راشد الخیری ان افسانوں میں نہ صرف معاشرتی اصلاح بلکہ عالمی مسائل کی منظر کشی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں اس ضمن میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ تحریر کرتے ہیں:
’’ہمارا پہلا افسانہ نگار صرف مسلم سو سائٹی کی اصلاح ہی نہیں چاہتا ہے بلکہ اس کے پیش نظر عالمی منظر نامہ بھی تھا او رہندوستان کی آزادی کا حصول بھی ایک نمایاں اور فوری مقصد تھا۔‘‘(۷)
افسانہ”شہید مغرب“ کے مرکزی کردار مریم (یہودی لڑکی) او راوہم(ترک جوان) ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں اور شادی کے خواہش مند ہیں اسی دوران جنگ طرابلس کی وجہ سے ان کا رہائشی علاقہ شدید قحط کا شکار ہو جاتا ہے۔ غذائی قلت شدت اختیار کر لیتی ہے۔ مریم کے غریب والدین مچل نامی شخص سے ادھار لیتے ہیں تاکہ کسی طرح زندگی کے دن کاٹے جا سکیں مریم کے والدین کی اس قدر بری معاشی حالت کو بھانپتے ہوئے مچل، مریم سے شادی کا تقاضا کرنے لگ جاتا ہے۔ اس طرح افسانہ نگار جنگ طرابلس کے اس انسانی سانحے کو بیان کرتا ہے جس میں ہر جانب بھوک اور پیاس کے ڈیرے ہیں اور انسان بلبلا رہے ہیں۔جنگ ایک غضب ناک معاشی سانحے کو جنم دیتی ہے۔ مریم کے والدین اپنی تمام تر انا اور عزت کو پس پشت ڈال کر مچل جیسے مفاد پرست اور لالچی انسان کے دست نگر ہو جاتے ہیں۔ افسانے میں ایک نفسیاتی سانحہ بھی اجاگر ہوتا ہے۔ مریم جو دل و جان سے او ہم پر فدا ہے اسے مچل جیسے خود غرض اور نا پسندیدہ انسان سے شادی پر مجبو ر کیا جاتا ہے۔ اس طرح بین السطور علامہ راشد الخیری جنگ طرابلس کے نتیجے میں مختلف سطحوں پر ابھرنے والے سانحات کو بیان کرتے ہیں۔
مریم،اوہم سے شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لیکن جنگ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ انہیں زیادہ وقت ساتھ بسر کرنے کا موقع میسر نہیں آتا۔ اوہم جنگ میں شہید ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک چھوٹا بیٹا بھی۔ اس طرح علامہ راشد الخیری اپنے افسانے، ”شہید مغرب“میں جنگ طرابلس کے سیاسی عصری سانحے کے اثرات بھی بیان کرتے ہیں جوبالعموم کربناک اور تکلیف دہ ہیں اس عصری سانحے کا بطور فن کار بھی علامہ راشد الخیری پر اثر واضح دکھائی دیتا ہے۔”شہید مغرب“میں ان کا اسلوب خطیبانہ اور مصلحانہ ہے۔
افسانے”شہید طرابلس“ میں علامہ راشد الخیری جنگ طرابلس کی تباہ کاریاں بیان کرتے ہیں اور افسانے کا ایک کردار مغلیہ عہد کی شہزادی ارجمند بانو بیگم ہے جو بارگار ہ ایزدی سے چند گھنٹے مستعارلے کر دنیا میں آتی ہے۔ وہ یہاں ایسی خواتین کو دیکھتی ہے جو ننگی اور مفلوک الحال حالت میں ہیں اور اپنے اہل خانہ کو یاد کر کے زارو قطار رو رہی ہوتی ہیں وہ ارجمند بانو سے کہتی ہیں:
’’پردیسی بہن یہ سر زمین طرابلس ہے۔جہاں مجھ جیسی سینکڑوں اور ہزاروں لڑکیاں خانماں برباد ہو گئیں۔ جو وقت ہم پر آکر پڑا خدا دشمن پر بھی نہ ڈالے۔سنگدل اٹلی نے قصائیوں کی طرح ہمارے کلیجے کے ٹکڑے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح کیے بڈھے ماں باپوں کو کتے کی موت مارا، جھونپڑوں میں آگ لگائی گھروں کو مسمار کیا۔ ننھے ننھے معصوموں کے کلیجے سنگینوں سے چھیدے اور جو قریب المرگ تھے ان کو بیڑیاں پہنا کر سڑکوں پر گھسیٹا۔ میں مصیبت ماری اور فلک ستائی ان ہی بد نصیبوں میں سے ایک ہوں۔‘‘(۸)
چند کرداروں کے ذریعے مضمون نما افسانے میں علامہ راشد الخیری جنگ طرابلس کے سانحے کے مضر اثرات کو بیان کرتے ہیں۔خواتین کردار،ارجمند بانو بیگم سے ہم کلام ہوتے ہوئے جنگ طرابلس کی تباہ کاریوں کا منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔ طرابلس کے باسیوں پر یہ اثرات ہمہ پہلو اور شدید نوعیت کے ہوتے ہیں۔خواتین کو دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔ اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ اپنے پرامن  علاقوں اور گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کیے جانے کا المیہ درد ناک صورت حال پیش کر رہا ہے۔ نوجوانوں کو مخصوص مذہب اور نظریے کی بنیاد پر تہ تیغ کیا جانا تکلیف دہ ہے۔ جنگ طرابلس نوجوان اموات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس پر ستم یہ کہ موت ایک آسیب کی صورت میں طرابلس میں دندناتی رہی۔ کبھی جوانوں، کبھی بزرگوں،کبھی خواتین اور ستم بالائے ستم کم سن بچوں کو بھی اپنا لقمہ بناتی رہی۔ املاک کا نقصان بھی ان گنت تھا۔ افسانے،”شہید طرابلس“میں انسانی، سماجی،معاشی اور اخلاقی المیہ کلی طور پر برہنہ ہو جاتاہے۔ انسان کی سفاکی افسانے کی سطر سطر میں بین کرتی او رسسکتی دکھائی دیتی ہے۔ جنگ طرابلس نے نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ جنگ و جدل میں ہر جوانب،خوف، ڈر اور بے یقینی کے خدشات منڈلا رہے تھے۔ جنگ کے المیے نے انسان کو اندر سے کاٹ دیا تھا۔ اس عصری سانحے نے افسانہ نگار کے اسلوب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس افسانے میں راشد الخیری ایک فوٹو گرافک یارواں تبصرے کا اسلوب نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ واقعاتی بنت اپنے دامن میں اس عہد کی کربناکی سمیٹے ہوئے ہے۔ افسانے میں ’خانماں برباد‘، ’سنگدل قصائی‘، ’ذبح‘،’کتے کی موت مارا‘،’مسمار‘، ’سنگینوں سے چھیدے‘،’قریب المرگ‘،’سڑکوں پر گھسیٹا‘،’فلک ستائی‘، ایسے الفاظ کا استعمال جنگ طرابلس کے سانحے کی شدت کو اجاگر کرتے ہیں۔
”طرابلس سے ایک صدا“بھی علامہ راشد الخیری کا طرابلس سانحے کے حوالے سے افسانہ ہے۔ جنگ کی ہولناکی اور اطالوی فوج کی جانب سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے دل دہلا دینے والے مظالم کو بیان کیا گیا ہے۔ اطالوی فوج نے نہتے لوگوں پر ظلم اور بربریت کی انتہا کر دی اور طرابلسی خواتین کی دہائیاں انسانیت کا ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں:
’’ہوا کے جھکڑو مجھ کو نہ کپکپاؤ۔میرا یہ پیغام سمندر پار میرے مسلمان بہن،بھائیوں تک پہنچا دو میری تصویر ان کو دکھا دو۔ میرا پتہ ان کو بتا دو۔ میری بپتا ان کو سنا دوجو کلیجے کے ٹکڑے کل تک اپنے نازک ہاتھ گلے میں ڈالے سینے سے چمٹے ہوئے تھے۔ آج کہیں نظر نہیں آتے۔ بہنوں میرے بچوں کو ڈھونڈ دو۔ بھائیوں میرے لال مجھ سے ملا دو۔‘‘(۹)
افسانے”طرابلس سے ایک صدا“میں جنگ طرابلس کے سانحے کے مختلف نوعیت کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے سانحات میں ہر طرف سراسمیگی یا س و ہراس کا سماں ہوتا ہے اورراشد الخیری نے اس منظر کو بیان کیا ہے  ایسے سانحات میں اپنا گھر بار عزیز واقرباء اور اولادوں کو قربان کر دینے والے افراد چیخ چیخ کر اپنا دکھ بتانا چاہتے ہیں۔ وہ لوگ نفسیاتی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہ عدم تحفظ کی کیفیت انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے گردو نواح کے لوگوں کو مدد کے لیے پکاریں ۔ ایسے سانحات تخلیق کاروں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں ان واقعات کے ساتھ اپنی جذباتی وابستگی کی بنا پر کبھی کبھی ان کا انداز بیان یک رخہ اور کھردار ہو جاتاہے۔ ایسے سانحات فنی سطح پر بھی دردرس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ موضوعات سے برتاؤ کے حوالے سے ان کا داخلی تجربہ اور خارجی مشاہدہ بغل گیر ہوتا ہے۔ اگر خارج تلخ،کڑا اور اذیت ناک ہے تو داخل پر بھی اس کے بعینہ اثرا ت مرتب ہوتے ہیں۔ تخلیق کاروں کا تخلیقی برتاؤ بھی ایک مخصوص قسم کی لفظیات کاپیرو بن جاتا ہے۔ جنگ طرابلس کے عصری سانحے کے متعلق بالعموم علامہ راشد الخیری کے افسانے ہی نمایاں ہیں۔ان  کے افسانے”دولہن دونوں کی“ میں بھی سانحہ جنگ طرابلس کی اذیت ناکی بیان کی گئی ہے۔ افسانے میں والہانہ جذباتیت کے ساتھ جہاں جنگ طرابلس کے نقصانات کو پیش کیا گیا ہے وہاں مسلمانوں میں جذبہ جہاد کو بھی اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ افسانے کا اسلوب ایسا ہے جس میں ہولناکی سے پرجنسی  لفظیات میں کرب کے بصری اور صوتی اشارے ملتے ہیں۔
سانحہ جلیانوالہ باغ کے موضوع پر بھی افسانے تحریر کیے گئے۔سانحہ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں اس عہد کی سیاسی کشیدگی کی صورت حال ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ۱۹۱۷ء میں انگریز حکومت نے جسٹس ایس اے رولٹ کی سر براہی میں ایک کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان میں سیاسی سازشوں اور باغیانہ تحریکوں پر قابو پایا جائے۔ اس کمیٹی کی سفارشات کے مطابق حکومت ہند نے فروری ۱۹۱۹ء میں دو مسودات مرکزی اسمبلی میں پیش کر دئیے جوانڈ ین کریمنیل  لاکی ترمیمی شکل تھی۔ ان بلوں کی منظوری ۱۹۱۹ء میں دے دی گئی۔ یہ ۱۹۱۹ء  والا رولٹ ایکٹ  ہی ہے جس کے ذریعے شخصی اور سیاسی آزادیوں پر قدغنیں لگائی گئیں اور انہیں خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ اس بدنام زمانہ کالے قانون کے خلاف برصغیر کے عوام سراپااحتجاج ہو گئے۔ یاد رہے کہ اسی قانون کے خلاف گاندھی نے ستیہ  گرہ کرنے کی د ھمکی دی اور محمد علی جناح نے اس بل کی شدید مخالفت کی۔ اس قانون کے خلاف ہندوستان میں آئے رو ز جلسے جلوس منعقدہونے لگے۔حالات ابتر ہوتے جارہے تھے۔پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ معمول بنتا جا رہاتھا۔ امر تسر کے حالات بھی خراب ہونا شروع ہو گئے ان حالات میں انگریزفوجی افسر کمانڈر جنرل ڈائرنے امر تسر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ فوج گلیوں میں گشت کررہی تھی اور جلسے جلوسوں کی سختی سی ممانعت تھی۔اس کے باوجود ۱۳ اپریل ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ امر تسر میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا۔ یہ باغ چار دیواری کے اندر تھا باغ میں داخل ہونے اور باہر جانے کے لیے چھوٹے چھوٹے دروازے تھے۔جب یہاں لوگ پر امن طریقے سے جمع تھے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے تھے تو جنرل ڈائر نے فوج کو مشین گنوں کے ساتھ براہ راست فائرنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ ایک تنگ باغ میں سے مظاہرین کا جلدی سے انخلاء نا ممکن تھا۔ گولیوں اور بھگدڑ سے سینکڑوں لوگ مرے اور زخمی ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سانحہ جلیانوالہ باغ میں مرنے والوں کی تعداد ۳۹۷ تھی اور ۱۲۰۰ سے زائد زخمی تھے۔سانحہ جلیانوالہ باغ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اندوہناک واقعہ ہے اس موضوع پر اردو میں کافی افسانے لکھے گئے ہیں۔
علامہ راشد الخیری نے سانحہ جلیانوالہ باغ پر ایک افسانہ”سیاہ داغ“ کے نام سے تحریر کیا۔ افسانے کا ایک نوجوان کردار جس کی دوروز بعد شادی ہے جلیانوالہ باغ کے قتل عام میں جاں بحق ہو جاتا ہے۔ اس نوجوان جیسے جانے کتنے ہی نوجوان اس سانحہ میں جان کی بازی ہار گئے۔ علامہ راشد الخیری اس سانحے اور خونی منظر کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ افسانے کادرج ذیل ٹکڑا اس سانحہ کا نوحہ معلوم ہوتا ہے:
’’عدل و رحم شہر کی چار دیواری سے کوسوں دور بھاگ چکا تھا۔مسلح دستہ نے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کی۔ الیاس آباد کا دولہا بیوہ کا لال جورو روکر کہہ رہا تھا۔ ہم کچھ نہیں کہتے۔ فقط ہمارے بچے حوالے کر دو۔ا پنی درخواست کے جواب میں فیر کی آواز سنتا ہے اور دیکھتا ہے کہ چہرے سے خون بہنے لگا۔‘‘(۱۰)
سانحہ جلیانوالہ باغ نے لوگوں کی زندگی پر نفسیاتی اثرات مرتب کیے لوگ اکثر اوقات ایک خاص قسم کے خوف،گھبراہٹ،اور تذبذب  کا شکار رہنے لگے۔ افسانہ”سیاہ داغ“ میں علامہ راشد الخیری نام نہاد مہذب دنیا یعنی انگریزوں کی سفاکیت کو بھی بے نقاب کرتے ہیں کہ کس قدر سر د مہری کے ساتھ انھوں نے لا تعداد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جیسے وہ سب ان کی نظر میں کیڑے مکوڑے ہوں۔سانحہ جلیانوالہ باغ میں جاں بحق او رزخمی ہوجانے والے افراد کا انگریز سامراج سے غم و غصہ کئی سال تک برابر قائم رہا۔ اس سانحے نے ان کی زندگیوں کو تہس نہس کر دیا افسانہ”سیاہ داغ“ کے بارے میں مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں کہ:
’’سیاہ داغ واضح طور پر جلیانوالہ باغ کے عظیم سانحہ سے متعلق افسانہ ہے۔ جس میں ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔‘‘ (۱۱)
سعادت حسن منٹو کے افسانے”سوراج کے لیے“ میں ایک زیریں  لہر میں سانحہ جلیانوالہ باغ کا موضوع ملتاہے۔ اس افسانے میں دکھایا گیا ہے کہ انگریز سامراج مقامی باشندوں پر کس قدر نظر رکھے ہوئے تھا افسانے میں مصنف کا دوست غلام علی حکومت کے خلاف تقاریر کرتا ہے۔ وہ سودیشی تحریک کے رہنما لالہ ہری کا بہت احترام کرتاہے اوراس کے اشاروں پر چلتا ہے۔ کانگریس میں ایک لڑکی نگار سے اسے محبت ہو جاتی ہے۔ غلام علی کو شادی کی صبح اٹھا لیاجاتا ہے اسے اس الزام کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے کہ وہ جلیانوالہ باغ میں حکومت مخالف تقاریر کرتا ہے اور حکومت وقت کو اس کی تقریروں سے بغاوت کی بو آتی ہے۔منٹو کا ایک اور افسانہ”تماشا“سانحہ جلیانوالہ باغ کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے ایک خصوصی حکم  کے تحت حکومت نے جلسے جلوس نکالنے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور خلاف ورزی پر سخت سزا کا حکم سنا رکھا تھا۔ اس افسانے میں منٹو نے ایک معصوم بچے خالد کی زبانی پورے ہندوستان کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ جب گلی محلے میں گہرا سناٹا، ہوائی جہازوں کی کڑک اور پرچیاں گرانے کا عمل جاری ہو تا ہے تو خالد اپنے باپ سے استفسار کرتا ہے ان پر چیوں پر کیا لکھا ہوا ہے۔ باپ جو سب حقائق سے با خوبی آگاہ ہے اسے ٹالتے ہوئے کہتا ہے کہ ان پر لکھا ہے کہ آج شام ایک تماشا منعقد کیا جا رہا ہے حالانکہ پرچیوں پر یہ عبارت تحریر تھی:
’’بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر اس کی مرضی کے خلاف کوئی جلسہ کیا  گیا تو نتائج کی ذمہ دارخود رعایا ہو گی۔‘‘(۱۲)
اس حکم نامے کے الفاظ سے انگریز سامراج کی تحکمانہ سوچ کی آئینہ داری ہوتی ہے۔خالد جب بار بار جہازوں کا شور سنتا ہے تو اپنی ہوائی بندوق اٹھا کر صحن میں آجاتا ہے۔ اور جہاز کو نیچے گرانا چاہتا ہے۔ شام کو جب انگریز فوج جلیانوالہ باغ میں خون کی ہولی کھیلتی ہے تو خالد  فائرنگ سے زخمی ہونے والے ایک لڑکے کو دیکھتا ہے۔ وہ اپنے باپ سے سوال کرتا ہے اس لڑکے کو کس نے زخمی کیا ہے؟ جواباً باپ کہتا ہے کہ اس کو اس کے ماسٹر نے مارا ہے کیونکہ اس نے سبق یاد نہیں کیا تھا۔ خالد اپنے باپ سے مکالمہ کرتا ہے اس کا کہنا ہے کہ اس ظالم استاد نے اس لڑکے کوکیوں اتنی بری طرح پیٹا؟ اور یہ کہ وہ اللہ میاں سے اس استاد کی شکایت لگائے گا اور اسے سزا دلوائے گا۔اس افسانے میں ’ماسٹر‘ اور ’چھڑی‘ علامتی طور پر استعمال ہوئے ہیں۔جو بالترتیب انگریز سامراج اور اس کی طاقت کی علامت ہیں۔ ’سبق یاد نہ کرنا‘ اس بے عملی کی علامت ہے جو ہندوستانیوں نے کبھی یاد نہیں کیا۔ اگر وہ محنت اور عزت نفس کا سبق یاد کر لیتے تو آج وہ انگریزوں کے دست نگر نہ ہوتے۔افسانے کا مجموعی تاثر المیاتی ہے او راس گہرے رنج کا اظہار کرتا ہے جو ہندوستانی سہہ رہے تھے۔ منٹو نے سانحہ جلیانوالہ باغ کے نفسیاتی اثرات کو خوبی سے بیان کیا ہے۔ امرتسر کی فضا میں عجیب طرح کا خوف اور سراسمیگی نمایاں ہے ایک شدید ہیجان کی فضا ہے جس میں بے چینی،اضطراب بے یقینی اور خدشات نمایاں ہیں۔کم سن بچوں پر بھی خو ف طاری ہے وہ حیران اور مضطرب ہیں کہ یہ بھونچال کیا ہے؟ اور کیوں کر ہے؟ منٹو کے افسانے”تماشا“میں لفظیات اور اسلوبیاتی سطح پربھی  ایک خصوصی رنگ ہے جو خوف اور اذیت کی پوری فضا کا بیانیہ ہے۔منٹو نے حسیاتی انداز میں اپنے اور اپنے ہم وطنوں کے تلخ تجربے کو لفظوں میں ڈھالا ہے اس ضمن میں سراج منیر کا خیال ہے کہ منٹو اپنے حسیاتی تجربے کو بھرپور طریقے سے بیان کرتے ہیں۔وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں افسانے کے تاثر کی شدت کو مقید کر دیتے ہیں۔(۱۳)
منٹو کا ایک اور افسانہ”۱۹۱۹ء کی ایک بات“میں سانحہ جلیانوالہ باغ کو تازہ کیا گیا ہے۔ الماس شمشاد اور محمد طفیل اس افسانے کے اہم کردار ہیں۔ یہ تینوں کردار ایک طوائف کی اولاد ہیں الماس اور شمشاد امرت سر کی مشہور طوائفیں بن  جاتی ہیں۔ جب کہ محمد طفیل ایک اوباش اور آوارہ گرد نوجوان کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ طوائف کا بیٹا ہونے،اور آوارہ گردی اور بری عادات کی بنا پر محلے کو لوگ اسے ’تھیلا کنجر‘ کہہ کر پکارتے ہیں اس کی بہنیں بھی اس سے نفرت کرتی ہیں۔ او راس سے اظہار لا تعلقی کرتی ہے۔ ۱۹۱۹ء میں جنرل ڈائر کے ہاتھوں  اتنی کثیر تعداد میں لوگوں کے جاں بحق ہونے اور زخمی ہونے کا سن کر محمد طفیل(تھیلا کنجر) بھی اس سانحے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب اسے اس ظلم کا پتہ چلتا ہے تو وہ جنرل ڈائر سے اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ انگریز سپاہی اسے گولیوں سے بھون کر رکھ دیتے ہیں،اور اس کے قتل کے دو دن بعد ہی اس کی دونوں بہنوں الماس اور شمشاد سے مجرا کرواتے ہیں۔ یہ امر فی الحقیقت انگریز سامراج کی سفاکیت اور انسان دشمنی کو بے نقاب کرتا ہے۔ افسانہ سانحہ جلیانوالہ باغ کے نفسیاتی اثرات کی جانب بھی  رہنمائی کرتا ہے۔محمد طفیل(تھیلا کنجر)جیسا سست کاہل اور آوارہ گرد نوجوان بھی اس سانحے سے متاثر ہو تاہے۔ وہ اپنی روح میں اس کرب کو شدت سے محسوس کرتا ہے، اور اپنے اس شدید جذبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنرل ڈائر کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
منٹو نے ایک اور افسانہ”دیوانہ شاعر“ میں ایک شاعر کردار کے ذریعے اسی دکھ، اور کرب کا اظہار کیا ہے جوسانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد ہرہندوستانی شہری اور تخلیق کار پر مرتب ہوا۔ مصنف شاعرکا ایک نغمہ سنتا ہے اور اس کو تلاش کرتا ہے کیونکہ اس نغمے نے اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑا ہے اور نغمہ کچھ اس طرح کا ہے:
میں ان لاشوں کا گیت گاتا ہوں


جن کی سردی دسمبر مستعار لیتا ہے


میرے سینے سے نکلی ہوئی آہ


وہ لو ہے جو جون کے مہینے میں چلتی ہے


میں آہوں کا بیوپاری ہوں


لہو کی شاعری میرا کام ہے(۱۴)


          اس نغمے میں سانحہ جلیانوالہ باغ کی ہولناکی بیا ن کی گئی ہے۔ کیسے لاشوں کے انبار لگائے گئے اور لاشوں کو گرانے کے نتیجے میں بلند ہونے والی آہوں اور سسکیوں کا کس طرح بیوپار کیا گیا۔سانحہ جلیانوالہ باغ اپنے پیچھے دسمبرایسی سرد مہری اور ٹھنڈک اور جون کی سخت لو جیسا جھلسادینے والا ظلم چھوڑ گیا۔ مصنف کو شاعر کا یہ نغمہ اس کنویں کے عقب میں سنائی دیتا ہے جہاں سانحہ جلیانوالہ باغ پیش آیا۔ منٹو نے شاعر کے نغمے اور ماضی کے اندوہناک سانحے میں مطابقت پیدا کردی ہے۔ افسانہ ”دیوانہ شاعر“ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے سانحہ جلیانوالہ باغ نے عوام اور تخلیق کاروں کو فکری سطح پر متاثر کیااس سانحے سے فکری لحاظ سے یاس و نا امید ی کی سوچ پروان چڑھی تخلیق کاروں میں بھی جذباتی انداز میں سانحہ کا ذکر کیا۔منٹو براہ راست انداز میں سانحہ جلیانوالہ باغ کی سفاکیت کا پردہ چاک کرتے ہیں:
’’آواز اس کنویں کے قریب سے بلند ہو رہی ہے جس میں آج سے کچھ سال پہلے لاشوں کا ایک انبار لگا ہواتھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرے دماغ میں جلیانوالہ باغ کے خونی حادثے کی ایک تصویر کھینچ گئی تھوڑی دیر کے لیے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ باغ کی فضا میں گولیوں کی سنناہٹ اور بھاگتے ہوئے لوگوں کی چیخ و پکار گونج رہی ہے۔‘‘(۱۵)
سانحہ جلیانوالہ باغ کا عوام کی نفسیات پر گہرا اثر ہوا اس سانحہ کے رونما ہو جانے کے کافی عرصہ بعد تک بھی لوگوں کے ذہن سے’لاشوں کے انبار‘،’خونی حادثے‘،’فضا میں گولیوں کی سنناہٹ‘ اور’لوگوں کی چیخ و پکار‘ کے نشانات نہیں گئے یہ سانحہ ۱۹۱۹ء میں رونما ہو گیا لیکن کافی عرصہ بعد تک بھی لوگوں کوذہنی اذیت سے دوچار کرتا رہا۔ اس سانحہ کے تخلیق کاروں کے اسلوب پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔ گولیاں،چیخ و پکار، چوٹیں،زخم، لاشیں اور دل دوز پرسوز لفظیات سامنے آئیں۔ منٹو نے اس افسانے میں اس قدر مہارت سے جزئیات نگاری کی ہے کہ اس سانحے کی تمام تر شدت قارئین تک منتقل ہو جاتی ہے۔ منٹو نے اپنے فنی کمال کو برؤے کار لاتے ہوئے کرب کی کیفیت کو آفاقی کسک کی صورت میں ڈھال دیا۔
پریم چند کے افسانہ ’’آشیاں برباد‘‘ میں بھی سانحہ جلیانوالہ باغ کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ خواتین کردار مردلا اورچھما“ جن کے گھرانے کے کئی افراد جلیانوالہ باغ میں قتل کر دئیے جاتے ہیں  وہ انتقام کی آگ میں جل رہی ہیں چھما دیوی کا کردار ان نفسیاتی اثرات کو اجاگر کرتا ہے جوسانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد لوگوں پر مرتب ہوئے مردلا اور چھمادیوی ہر وقت شدید ذہنی کرب کا شکار رہتی ہیں۔ ان کے لیے تمام دنیا اپنی وقعت کھو چکی ہے۔ جب کسی انسان پر اتناظلم ہو جائے تواس کا رویہ متشدد اور سخت ردعمل کا ہوجاتا ہے۔ مردلا چھما دیوی کچھ ایسے ہی جذبات رکھتی ہیں۔وہ اس واقعہ کے ذمہ داریوں سے بدلہ لینا چاہتی ہیں۔پریم چند اس کرب کو یوں بیان کرتے ہیں:
’’جلیانوالہ باغ میں اس کا آشیانہ برباد ہو گیا شوہر مارا گیا لڑکے مارے گئے۔ اب کوئی ایسا نہ تھا جسے وہ اپنا کہہ سکتی او ران دس برسوں سے اس کا خرماں نصیب دل قوم کی خدمت میں تشفی اور سکون تلاش کر رہا تھا جن اسباب نے اس کے بسے ہوئے گھر کو ویران کر دیا۔ اس کے سہاگ کو لوٹا۔ اس کی گود سونی کر دی۔ ان اسباب کو مٹانے میں وہ مجنونانہ جوش کے ساتھ مصروف تھی بڑی بڑی قربانیاں تو وہ پہلے ہی کر چکی تھی اب اس کے پاس اپنے دل و دماغ کو قربان کرنے کے سوا اوررہ ہی کیا گیاتھا۔‘‘(۱۶)
سلطان حیدر جوش کے دو افسانوں ”خواب و خیال“ اور ”لیڈر‘‘ میں بھی سانحہ جلیانوالہ باغ کو موضوع بنایا ہے۔ جوش جرات اظہار سے کام  لیتے ہیں۔ ان افسانوں میں ان کا لہجہ طنز یہ ہے اور وہ کھل کراپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان دونوں افسانوں میں انگریز سامراج کی جانب سے مقامی باشندوں پر ظلم و جبر روارکھنے کے رویے بیان کیے گئے ہیں بالخصوص سانحہ جلیانوالہ باغ میں لوگوں کو جس انداز میں تہس نہس کیا گیا اس صورت حال کا بیان دل دوز ہے۔
جنگ طرابلس اور جلیانوالہ باغ جیسے عصری سانحات نے اردو افسانے پر گہرے اثرات مرتسم کیے۔ علامہ راشد الخیری، سعادت حسن منٹو، پریم چند، سلطان حیدرجوش ایسے افسانہ نگاروں نے ان سانحات کو موضوع بنایا اور ان کے عوام پر اثرات کو فکری، سماجی،معاشی،مذہبی اور نفسیاتی  زاویوں سے دیکھا۔بحیثیت تخلیق کار ان افسانہ نگاروں کے اسلوب پر بھی ان عصری سانحات کا اثر ہوا۔ان کا اسلوب کہیں تند و تیز،جوشیلا،مضطرب،نا امید، طنزیہ او ربراہ راست نظر آتا ہے۔ لفظیات، جملوں کی بنت  کاری، کرداروں کی پیش کش میں بھی ان عصری سانحات کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
حوالہ جات

“A very sad event or situation especially one involving death or suffering.”

“A serious accident or bad event causing damage or suffering.”

“A disastrous event marked by great loss and lasting distress and suffering .
A state of deep distress or misery caused by major misfortune or loss.”
۷۔      ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، اردو افسانے کی روایت(اسلام آباد:اکادمی ادبیات پاکستان ۱۹۹۱ء)،ص ۳۵
۸۔      علامہ راشد الخیری، شہید مغرب (دہلی:عصمت بک ڈپو، ۱۹۴۵ء)،ص ۳۰
۹۔       ایضاً، ص ۳۶۔۳۷
۱۰۔      ایضاً، ص ۴۶
۱۱۔      ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، اردو افسانے کی روایت، ص ۳۵
۱۲۔      سعادت حسن منٹو، کلیات منٹو، جلد اول (نئی دہلی:ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس،۲۰۰۷ء)،ص ۸۵
۱۳۔     ڈاکٹر غفور شاہ قاسم،”تماشا تنقیدی وتوضیحی مطالعہ“، انگارے، سعادت حسن منٹو نمبر،کتابی سلسلہ ۲۵، جنوری ۲۰۰۷ء،      ملتان،ص ۱۰۱۔۱۰۲
۱۴۔     سعادت حسن منٹو، آتش پارے،(لاہور:مکتبہ شعر و ادب، س ن) ص ۹۱
۱۵۔      ایضاً،ص ۹۱
۱۶۔      پریم چند، آشیاں برباد،(دہلی:زادراہ حالی پبلشنگ ہاؤس،اشاعت اول،۱۹۴۶ء)،ص ۴۲

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com