پریم چند کے ناولوں میں سیاسی عناصر
محمد خرم پی ایچ۔ڈی اسکالر(اردو)یونی ورسٹی آف سرگودھا
ڈاکٹر سید عامر سہیل:پروفیسر شعبئہ اردو ،اسلامیہ یونی ورسٹی بہاولپور

Abstract:
Prem Chand is a well known name of urdu fiction.Prem Chand played a vital role in stabilizing  urdu novel s history in political perspective .Prem Chand explained social and political aspects of life in early 20th century through his novels. The cruel system of ‘sood biyaj and lagaan’ paralyzed the life of poor people in India. Prem Chand raised his voice against this cruel system through his novels.
اُردو ناول نےاپنی ابتدا سے ہی گردوپیش کی عکاسی کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا تھا۔اولین ناول نگار نذیر احمد دہلوی نے اپنے ناولوں کے ذریعے اپنے عہد کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی بھرپور عکاسی کی۔اس روایت کو بعد کے ناول نگاروں نےبھی خوبی سےاپنایا۔بطورِخاص اُردو ناول کی روایت کو سیاسی حوالے سےمستحکم کرنے میں پریم چندکا کردار نہایت اہم ہے۔ پریم چند نے افسانوی ادب کے ذریعے بیسویں صدی کے ربع اول کی معاشرتی، سیاسی اور سامراجی زندگی کو بڑی صراحت سے بیان کیا ہے۔ ان کاپہلا افسانوی مجموعہ ‘‘سوزِوطن’’ اِسی جُرم کی پاداش میں ضبط ہوا۔ افسانوں کے علاوہ ناول کے ذریعے بھی پریم چند نے سماج دشمن عناصر کی نشان دہی کا اہم فریضہ انجام دیا۔ پریم چند کے زمانے میں سود بیاج اور لگان کے نظام نے بے چارے کسانوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ اِسی مہاجنی نظام کے خلاف پریم چند اپنے ناولوں ‘‘چوگانِ ہستی’’،‘‘میدانِ عمل’’ اور‘‘گؤدان’’ میں سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ مذکورہ بالا ناولوں میں بالخصوص ‘‘میدان عمل’’ میں اُس دور کے سیاسی جبر کا بیان شدت کے ساتھ ہوا ہے۔ تاہم دیگر دونوں ناولوں میں بھی ایسے سیاسی،معاشرتی اور معاشی اشارے موجود ہیں جو وقت کی جبریت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔
میدان ِ عمل (۱۹۳۲)میں شائع ہوا۔ اسے پریم چند کے ناولوں میں سماجی اور بالخصوص سیاسی حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس کی تصنیف کا وقت ہندوستانی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتاہے۔ آزادی کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ ایسے میں گاندھی جی کی نرم پالیسی سے نوجوان انقلابی ذہنوں میں اختلافات جنم لے رہے تھے۔ ایسے فیصلہ کن اور ہنگامہ خیز حالات میں کانگرس کا تحریکِ آزادی میں کسانوں اور مزدوروں کو شامل کرکے جدوجہد کو تیز کرنے کا فیصلہ ہوا اور اِس ضمن میں کوششیں بھی ہوئیں۔کم و بیش یہی سب کچھ اِس ناول میں سمٹ آیا۔  ۱؎
میدانِ عمل’’ میں ہندوستان کے نچلے طبقے کے افراد کو مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ کسان، کاشت کار، مزدور، نوجوان اور دیگر اِسی طرح کے لوگ سیاسی اتھل پتھل کے نتیجے میں آزادی کے خواب دیکھتے ہیں۔ یہ خواب ایسی آزادی سے وابستہ تھے جو صرف سرحدی یا حکومتی تبدیلی کے پروردہ نہ ہوں بل کہ نظام کی تبدیلی اور آزادی کا راستہ دکھاتے ہوں۔ ناول کا زمانہ ایک مکمل سیاسی جدوجہد سے معمور ہے۔ سائمن کمیشن، ہڑتالیں، جلسے جلوس، کانفرنسیں، وفود کے مذاکرات یہ سب سیاسی عناصر ناول اور تخلیق کار کے پسِ منظر میں موجود تھے۔ پریم چند، گاندھی جی، بال گنگا دھر تلک اور وویکا نند کے نظریات سے خاصے متاثر تھے اور ان کے ناولوں میں ان حضرات کے خیالات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔  ۲ ؎  ان سب کے ہاں عام عوام کے جذبات کی ترجمانی، تحفظ اور رائج غیر مساوی نظام کے خلاف پُرامن اور عدم تشدد احتجاج کے عناصر مشترک تھے اور یہی مشترک پیغام پریم چند کے ناولوں میں بھی بیان ہوا ہے۔
‘میدان عمل’’میں مصنف اک ایسے گھر سے کہانی کا آغاز کرتاہے۔ جو عام عوام کا نمائندہ ہے مگر اس میں آنے والے داخلی اور خارجی تغیرات کے نتیجے میں کہانی میں ایک زور پیدا ہوتاچلا جاتاہے۔ یہ زور سیاسی ہل چل کی بنا پر ہے۔ امرکانت اور سلیم کی سکول کی زندگی، امرکانت کا گاندھی جی سے متاثر ہوکر چرخہ کاتنا، پروفیسر شانتی کمار کا امرکانت اور دیگر طلبہ کو دیہات سے متعارف کرانا۔کسان کے لگان کا واقعہ، منی کی عصمت دری، انگریزوں کے خلاف نفرت، امر کانت کے نظریات میں اس کی بیوی سکھداکا ساتھ، منی کا تین افراد کو قتل کرکے انتقام لینا، سلیم کا افسر بن کر آنا مگر کسانوں کے حقوق کی آواز بننے کے لیے استعفیٰ دے دینا، ناول کے اہم واقعات ہیں۔ یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ سماج دو واضح طبقوں میں بٹاہوا تھا اور بالائی طبقہ اس تقسیم کو دائم رکھنے کا آرزو مند تھا۔ ناول کے بیشتر واقعات پریم چند کی زندگی، نظریات اور حالات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ پریم چند گاندھی جی سے متاثر تھے چنانچہ امر کانت سکول سے آتے ہی دو گھنٹے چرخہ چلاتاہے۔ سلیم کا استعفیٰ دینا، پریم چند کے گوروں کی رعونت کے باعث مشنری سکول سے استعفیٰ دینے سے مطابقت رکھتاہے۔
پریم چند نے اس ناول میں کسانوں، مزدروں، ہریجنون، کی بے بسی اور بے کسی کی بے شمار تصویریں کھینچی ہیں۔ بیسویں صدی کے ربع اوّل میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے پریم چند متاثر تھے۔ انقلابِ روس، جنگِ عظیم اوّل، پھر ہندوستان کے سیاسی اور نظریاتی رہنماؤں کے افکار سے اثر پذیری، ان سب نے مل کر اُن کی تحریروں میں معاشرتی جبر کی بڑی واضح تصویر کشی ہے۔ اِسی لیے یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ اُن کے ناولوں میں ہندوستان کی تاریخ کے دھارے میں پیدا ہونے والی سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیاں منعکس ہوتی چلی گئی ہیں۔ ۳؎  پریم چند نے ”میدان عمل“ میں معمولی کسانوں، مزدرطبقے اور اچھوتوں کی زندگی کی بے رحمی اور ہولناکی کو بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کیا ہے۔ اچھوتوں، شودروں اور بھنگی چماروں کی معاشرتی رذالت اس قدر ہے کہ وہ مندر کے قریب نہیں پھٹک سکتے۔ لہٰذا جب وہ جوتوں کی جگہ پر بیٹھ کر بھجن سنتے ہیں تو اُن پر یہ انعام برستاہے۔
"بھگوان کے مندر میں، بھگوان کے بھگتوں کے ہاتھوں، بھگوان کے بھگتوں پر جوتوں کی بارش ہونے لگی۔"۴؎
پریم چند معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کے خلاف تھے اور ہر سطح پر اس تقسیم کو ختم کرنے کے داعی تھے۔ وہ مذہب کے ایوانوں پر پنڈتوں اور برہمنوں کی اجارہ داری کے خلاف ایک مؤثر آواز بن کر اُبھرے۔‘‘میدانِ عمل’’ میں سکھداجب ننگے بدن، کثافت زدہ چہروں اور پھٹے پرانے لباسوں میں نیم ملبوس بے چاروں کو مندر کے اندر جانے کی اجازت دلواتی ہے تو پریم چند وہاں وضاحت کرتے ہیں کہ ان مفلوک الحال لوگوں کے دلوں میں صفائی، سادگی اور خلوص شامل تھااور پریم چند کے دل میں ان لوگوں کے لیے خلوص پیدا ہو چکا تھاکیونکہ:
"اُنھوں نے اپنے گردو پیش کے حالت کو جس طرح دیکھا اور جن حالات میں زندگی گزاری ان کے دل میں غریبوں خصوصاً دیہاتیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پید اکیے تھے۔ وہ ساری زندگی غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے اور صحیح انسانی شکل دینے اور ان پر کیے جارہے ظلم و ناانصافی کو دور کرنا چاہتے تھے۔"۵؎
یہ انسان دوستی صرف ‘‘میدانِ عمل’’ تک ہی محدود نہیں بلکہ اِ س جذبے کا اظہار کسی حد تک گؤدان میں بھی ہوا ہے۔تاہم ‘‘میدانِ عمل’’میں اس جذبے کی گونج صاف سنائی دی ہے۔ ‘‘چوگانِ ہستی’’ میں پریم چند کے ترقی پسندانہ نظریے کی عملی صورت نظرآتی ہے۔ ترقی پسندی کے تحت عام عوام، کسان اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر تو اُن کے اکثر ناولوں میں آتاہے مگر اپنے حق کے لیے ڈٹ جانا اور اِس کا دفاع کرنا واضح طورپر ‘‘چوگانِ ہستی’’ میں نظرآتاہے۔ اسی لیے جان سیوک جب سورداس کی زمین پر زبردستی تمباکو کی فیکٹری لگانے کا خیال دل میں لاتاہے تواُسے وہیں اسی زمین کے دفاع کے لیے کی جانے والی ایک عوامی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ تاہے جسے وہ حق بجانب قرار دیتے ہوئے یوں گویا ہوتاہے:
"ان سب نے کوئی نئی بات نہیں کی ہے۔ کوئی ان کی جائداد پر جبراً قبضہ کرے گا تو لڑنے پر آمادہ ہوہی جائیں گے۔ اپنے حقوق کے تحفظ کا ان کے پاس اور کون سا ذریعہ ہے۔ آج مرے گھر پر کوئی قبضہ کرنا چاہے تو میں کبھی چپ چاپ نہ بیٹھوں گا۔"۶؎
انسان دوستی اور حق کے لیے ڈٹ جانے کے علاوہ‘‘چوگان ہستی’’ میں پریم چند نے وطن کی محبت کا اظہار بھی کیا ہے۔‘‘سوزِوطن’’ سے کروٹ لینے والی وطن سے محبت اور آزادی کی لہر اُن کے ناولوں میں جابجا نظر آتی ہے۔ پریم چند جب کسان، مزدور اور دیہات کا حال بیان کرتے ہیں تو دراصل وہ اپنے وطن اور اہلِ وطن سے محبت کا بے لوث اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اِسی لیے جب وہ وطن اور اہل وطن کو سامراج کے ستم گروں کا ہدف بنتے دیکھتے ہیں تو بے قرار ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ اہل وطن سے محبت کرنے والے اُن کے نزدیک قابلِ ستائش اور غداری کرنے والے قابلِ تعزیر ہیں۔وہ وطن دوستی کا عالم گیر پیغام دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
"ہماری نجات اہل ملک کے ساتھ برادرانہ تعلقات رکھنے میں ہے ……آخر ہم بھی اِسی بھارت ماتا کی اولاد ہیں …… امریکہ کے حبشی عیسائی ہیں …… گورے ان کے ساتھ کتنا وحشیانہ اور ظالمانہ سلوک کرتے ہیں۔ ہماری نجات ہندوستانیوں ہی کے ساتھ ہے۔"۷؎
وطن سے محبت کا ایک اور ثبوت سور داس کی زرعی زمین کی صورت میں سامنے آتاہے۔ اس زمین کی ناول میں علامتی حیثیت ہے۔ جان سیوک جو اس زمین کو ہتھیا کر اُس پر کاروبار کرنا چاہتاہے۔ انگریزوں کا تجارت کی غرض سے برصغیر میں آنا اور پھر اِس سرزمین پر قابض ہونے کا معاملہ سورداس کی زمین پر جان سیوک کے قابض ہونے سے علامتی حیثیت سے ظاہر ہوا ہے۔ "یوں لگتاہے کہ یہ سرزمین ہند ہے۔ سات سمندر پار کے غاصب جس پر قابض ہورہے ہیں۔ جاگیردار، راجے مہاراجے اور گماشتہ سرمایہ دار لٹیروں کے ساتھ ہیں جب کہ عوامی قوتیں ان کے خلاف محاذ آراء ہیں۔"۸؎
یہ عوامی قوتیں انقلاب اور آزادی کی راہ میں گاندھی جی کے عدم تشدد کے رویے کو مشعل راہ بناتی ہیں۔ اِسی لیے سورداس کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کے دفاع میں عام عوام مارنے کی بجائے مرنے کا عزم رکھتی ہے۔
"ہم جو …… پشتوں سے یہاں آباد ہیں وہ تو نکال دئیے جائیں اور دوسرے یہاں آکر بس جائیں یہ ہمارا گھر ہے۔ سرکار کے ہاتھوں میں مارنے کا بل ہے۔ ہمارے ہاتھ میں اور کوئی بل نہیں ہے تو مرنے کا بل ہے۔"۹؎
‘‘چوگانِ ہستی’’ اور‘‘میدانِ عمل’’ کی طرح‘‘گؤدان’’میں بھی معاشرتی بے انصافی اور دیہاتی سامراج کو بے نقاب کیاگیاہے۔ ہوری ایک سادہ اور غریب کسان ہے۔ جو دیہات میں ساہوکار اور پنچایت کے ہاتھوں مسلسل جبر کا شکار ہوتاہے۔ اپنی ایک معصوم سی خواہش کہ دروازے پر ایک گائے بندھی ہو،کا درد ناک عذاب سہتاہے۔ دراصل‘‘گؤ دان’’ کا زمانہ بھی برصغیر میں آزادی کی لہر کے پھیلنے کا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس ناول میں مصنف کا تصورِ آزادی نہایت واضح ہے جس کے تحت یہ بات مسلمہ ہے کہ محض انگریز سرکار سے سیاسی آزادی سے عوام آزاد نہیں ہوں گے بل کہ عوام کو آزادی تو اُس وقت نصیب ہوگی جب ظلم، جبر، ریت رواج، رسم اور اونچ نیچ کے نظام سے نجات ممکن ہوگی کیوں کہ ریاست اور روایت دونوں کے جبر سے رہائی ہی اصل آزادی ہے۔’’ ۱۰؎
مگر ایک سادہ لوح کسان (ہوری) ریاست اور روایت دونوں کے جبر سے نکلنے کے لیے جتنے بھی ہاتھ پاؤں مارتاہے اُتنا ہی اس میں دھنستا چلا جاتاہے۔ چناں چہ ہوری کی بیوی دھنیا اس پر سراپا احتجاج ہوکر چیخ اُٹھتی ہے کہ:
"یہ ہتھیارے گاؤں کے مکھیا ہیں۔ گریبوں کا خون چوسنے والے سود، بیاج،ڈیڑھی، سوائی، نجر، بھینٹ، گھوس، جیسے ہو، گریبوں کولوٹو۔ اس پر سوراج چاہیے۔ جیل جانے سے سوراج نہ ملے گا۔ سوراج ملے گا دھرم سے نیاؤ سے۔"۱۱؎
دھنیا کا احتجاج معاشرے کے نظام اور اِس نظام کے دلالوں، تھانیداروں، پٹواریوں، پجاریوں، جاگیرداروں کے گماشتوں اور ساہوکاروں کے خلاف ہے،جو بے چارے کسانوں اور عام عوام کوگدھ کی طرح مسلسل نوچنے میں مصروف ہیں۔ دھنیا ایک نیک اور سمجھ دار دیہاتی عورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اوپر ہونے والی زیادیتوں پر جرأت اور بے باکی سے گاؤں کے نام نہاد مکھ منتریوں کا مقابلہ بھی کرتی ہے۔ پریم چند نے اس کردار کے ذریعے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے پر اُکسایا ہے۔ دھنیا سال کا غلہ بیگار میں مکھیا کو نہیں دینا چاہتی۔ علاوہ ازیں پنچایت کے جُرمانے اور رشوت دینے سے بھی انکاری ہے۔ چنانچہ داروغہ، گاؤں کے سرپنچوں، مکھیا، حتیٰ کہ ہوری کو بھی اس حوالے سے خوب کھری کھری سناتی ہے کیوں کہ:
"دھنیا کے خون میں ہندوستان کی تڑپتی ہوئی انسانیت ہے۔ جو اس نظام کی سختیوں سے ہار کر بے ہوش ہوکر گر پڑتی ہے۔مگر کسی میں ہمت نہیں کہ اس آہنی حلقے کو توڑ سکے۔"۲ ۱؎
دھنیا کے برعکس اُس کا خاوند ہوری ہندوستان کے عام عوام کا نمائندہ کردار ہے۔ جو ایک سادہ اور بے چارے دیہاتی کا حال بیان کرتاہے۔ ایک ایسا دیہاتی جو معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی غیر منصفانہ نظام کا شکار ہے اور احتجاج کی بجائے مصالحت اور مفاہمت پر مجبور ہے کیوں کہ وہ سماج کے ظالم ہتھکنڈوں کو جانتا ہے، جو احتجاج پر زیادہ تلخ اور کرخت ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا وہ ظلم سہتے ہوئے موت کو گلے لگا کر یہ ثابت کرتاہے کہ عام کسان ظلم کے کتنے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ:
"اُس کا کردار اُردو ادب کے عظیم کرداروں میں سے ایک ہے۔ وہ نہ صرف اپنے طبقے کے سماجی مسائل کا نمائندہ ہے بل کہ ہم اس کے کردار میں جاگیردارانہ نظامِ زندگی میں پرورش پائے ہوئے کسان کی نفسیات کے سارے پیچ و خم کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔"۳ ۱؎
گؤدان’’ہو،‘‘میدانِ عمل’’ہو، یا ‘‘چوگانِ ہستی’’، ان سب میں پریم چند نے اُس دور کے سیاسی اور معاشرتی نظامِ زندگی کی تلخیوں کو سمیٹاہے۔ پریم چند دیہات سے رغبت اور تعلق رکھنے کی بنا پر اپنے بیشتر ناولوں اور افسانوں میں دیہات کی فضا کو لینڈ اسکیپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اُن کے ہاں سیاسی اور معاشرتی ناہمواریوں کا دائرہ کار بھی زیادہ تردیہاتی زندگی میں پھیلا ہواہے۔ پریم چند ترقی پسند تحریک کے اوّلین عَلَم برداروں میں سے ہیں اور اُن کے ترقی پسندانہ نظریات ہمیں اُن کی ناول نگاری میں واضح طور پر نظر آتے ہیں کیوں کہ اُنھوں نے قلم کے ذریعے سماج دشمن عناصر کو بے نقاب کرنے کی بھر پور سعی کی ہے۔

حوالہ جات
۱۔       صالحہ زریں،اُردو ناول کا سماجی اور سیاسی مطالعہ (الہٰ آباد: سرسوتی پریس،۲۰۰۰ء)، ص۱۴۶
۲۔       ڈاکٹر محمد عارف،اُردو ناول اور آزادی کے تصورات(لاہور: کوپرا، ۲۰۱۱ ء)، ص۳۹۲
۳۔      ڈاکٹر یوسف سرمست، بیسویں صدی میں اُردو ناول(حیدرآباد: نیشنل بُک ڈپو، ۱۹۷۳ء)، ص۱۶۹
۴۔      پریم چند، میدانِ عمل(لاہور: میری لائبریری،۱۹۶۵ء)، ص۲۶۴
۵۔       ڈاکٹر قمر رئیس، پریم چند شخصیت اور کارنامے(رام پور:مکتبہ ئ عالیہ، س ن)، ص۲۳۹
۶۔       پریم چند، چوگانِ ہستی، حصہ اوّل (لاہور: دارالاشاعت، س ن)، ص۲۳۵۔۲۳۶
ایضاً، ص۲۶۷
۷۔      ڈاکٹر محمد عارف، اُردو ناول اور آزادی کے تصورات، ص۴۲۲
۸۔      پریم چند، چوگانِ ہستی، حصہ دوم (لاہور: دارالاشاعت، س ن)، ص۳۶۵
۹۔       ڈاکٹر محمد عارف، اُردو ناول اور آزادی کے تصورات، ص۴۳۰
۱۱۔      پریم چند، گؤدان (لاہور: پروگریسیو بُکس، ۱۹۹۲ء)، ص۱۲۳
۱۲۔      ڈاکٹر عقیل رضوی، ”پریم چند ایک سماجی حقیقت نگار“،مشمولہ میگزین، الہٰ آباد یونی ورسٹی (۱۹۸۰ء)، ص۱۰۹
۱۳۔     ڈاکٹر قمررئیس، پریم چند کا تنقیدی مطالعہ۔ بحیثیت ناول نگار(علی گڑھ: سرسید بُک ڈپو،       ۱۹۶۳ء، ص۴۵۴

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com