شعبہ اردو جامعہ پشاور کی کہانی شعبہ کی زبانی
اجمالی تاریخ

یہ ستمبر ۱۹۵۶ء کی ایک روشن صبح تھی جب پشاور یونیورسٹی میں میرے نام کی تختی لگی۔ اس روشن ضمیر خطے میں اپنے نام کی تختی دیکھ کر مجھے یہ پورا خطہ مکمل طور پر اس دستار کی مانند دکھائی دینے لگا۔ جس کی عظمت اور حرمت کا تذکرہ تاریخ کے ہر پنے پر نقش ہوچکا ہے۔

            فارسی اور میرا ساتھ تویوں بھی جنموں کا تھا ۔ یہاں آکر بھی ہم نے یہ رشتہ قائم رکھا اور زندگی کی شعریت اور دلربائی کو ایک ہی سبزہ زار میں وقت کے سرمدی رباب کے آہنگ میں سینچتی رہے۔ اس سبزہ زار سے رشتہ جوڑنے والوں میں پہلا تعارف ڈاکٹر مظہر علی خان سے ہوا جنہوں نے بدیسی زبان کے ساتھ ساتھ دونوں دیسی زبانوں کے شعبوں میں بھی صدر شعبہ کے فرائض انجام دئے۔ جہاں آجکل یونیورسٹی کا شعبہ انگریزی ہے کبھی یہاں ہمارے نام کے دو چھوٹے چھوٹے کمرے بھی تھے۔ ۲۶ نومبر ۱۹۶۴ء کو یہ شعبہ اورئنٹل بلاک کی علیحدہ عمارت میں منتقل ہوا۔
۱۹۵۶ء میں یعنی جن دنوں شعبہ اردو قائم ہوا انہی دنوں زبان و ادب سے محبت کرنے والی ایک ایسی شخصیت سے ملاقات ہوئی جنہیں ڈاکٹر طاہر فاروقی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب یہاں صرف ایک ہی معلم فاروقی صاحب تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے لیکن مجروح سلطان پوری کے شعر

                                    میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

            کے مصداق وقت کےساتھ ساتھ یہ قافلہ حسین سے حسین ترہوتا چلاگیا ۱۹۵۷ء میں جب سیدافضل حسین اظہر صاحب کی تقرری اسلامیہ کالج میں ہوگئی تو طاہر صاحب مکمل طور پر شعبہ اردو سے وابستہ ہوگئے۔ ڈاکٹر مظہر علی خان نے تنقید کی کلاس پڑھانے میں ان کی معاونت کی، شعبہ کے پہلے صدر کی حیثیت سے مظہر صاحب نے اس کی بنیادوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردارادا کیا نہ صرف شعبے کے رسالے "خیابان" کا نام تجویز کیا بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لیے فاروقی صاحب کے قدم سے قدم ملا کر چلے لیکن بعد میں ذاتی مصروفیات کی بناء پر ۱۹۵۷ء میں شعبے کی صدارت سے الگ ہوگئے۔

            ان کے بعد پشتو اکیڈیمی  کے ڈائریکٹر مولاناعبدالقادر کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری آپڑی ۱۹۶۱ء میں پشتو اکیڈیمی میں ایم اے پشتو کی کلاسوں کا اجراء ہوا تو دونوں جگہوں پر ذمہ داریاں نبھانا ان کے لیے ممکن نہ رہا یہی وجہ تھی کہ جنوری ۱۹۶۲ء میں شعبے کی صدارت طاہر فاروقی صاحب کے حوالے کردی شعبہ اردو کے ادبی مجلہ "خیابان" کا پہلا شمارہ آپ کے دور صدارت میں منظر عام پر آیا لیکن اس کی کامیابی میں طاہر فاروقی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ذرا اس پہلی کلاس کا تصور کیجیے اردو کے دو چاہنے والے دو طالبعلم خاطر غزنوی اور مرتضیٰ اختر جعفری کلاس میں بیٹھے ہیں، فاروقی صاحب لیکچر دے رہے ہیں اور وہ دونوں حال کے آئینے میں فردا کی تصویر دیکھتے ہوئے ایک ایک لفظ کو امرت کی طرح پی رہے ہیں۔ ان دونوں اصحاب نے ۱۹۵۸ء میں ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ خاطر غزنوی کو پہلی پوزیشن لینے پر سونے کا تمغہ ملا۔ یونیورسٹی نے دونوں کو لیکچررشپ کی دعوت دی لیکن خاطر غزنوی ریڈیو میں ملازمت کی وجہ سے ۱۹۶۲ء  سے پہلے شعبہ میں نہ آسکے۔ البتہ جعفری صاحب نے یکم نومبر ۱۹۵۸ء کو جونئیر لیکچرار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔

            ۱۹۶۰ء میں سید امجد الطاف کی بحیثیت استاد یہاں تقرری ہوئی۔ لیکن پونے دو سال بعد ۱۹۶۲ء میں ترقی پاکر بحیثیت ڈپٹی سیکرٹری واپس سیکنڈری بورڈ لاہور چلے گئے۔ اس سے پہلے آپ سیکنڈری بورڈ لاہور میں اسسٹنٹ سیکرٹری اور انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدوں پر رہ چکے تھے۔ ۱۹۶۲ء کے اوائل میں شعبہ اردو کی ایک سابقہ طالبہ درشہوار کا بحیثیت جونئیر لیکچرار تقرر ہوا لیکن وہ دو ماہ بعد ہی شعبہ چھوڑ کر ہوم اکنامکس کالج چلی گئیں۔

            جنوری ۱۹۶۲ء میں شعبہ اردو کی صدارت طاہر فاروقی کے سپرد ہوئی اور اسی سال خاطر غزنوی، میاں اعجاز الرحمٰن اور شمس الدین صدیقی شعبہ اردو کے تدریسی عملے میں شامل ہوگئے۔ میاں اعجاز الرحمٰن اسلامیہ کالج سیالکوٹ میں اردو کے لیکچرار تھے۔ جبکہ شمس الدین صدیقی اسلامیہ کالج پشاور میں انگریزی کے استاد تھے اور اس سے پہلے جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں بھی پڑھاچکے تھے۔ آپ شعبہ اردو کے پہلے صدر ڈاکٹر مظہر علی خان کے شاگرد تھے۔

            شمس الدین صدیقی کو اکتوبر ۱۹۶۴ء میں طاہر فاروقی کی سفارش پر وائس چانسلر چودھری محمد علی نے پشاور یونیورسٹی کے وظیفہ پر پی ایچ ڈی کے لیے لندن بھیج دیا۔ آپ کے لندن جانے کے بعد شعبہ اردو نے ۹ نومبر ۱۹۶۴ء کو عبدالستار جوہر پراچہ کی خدمات حاصل کیں۔ شمس الدین صدیقی اپریل ۱۹۶۷ء میں لندن یونیورسٹی سے ڈگری لے کر واپس لوٹے۔ آپ نے سودا کے مختلف قلمی نسخوں کا مطالعہ کرکے اس کا معتبر و مستند متن تیار کیا اور مفصل دیباچہ لکھا۔ آپ کے نگران کار ڈاکٹر عبادت بریلوی اور پروفیسر رالف رسل تھے۔ ۱۹۶۵ء میں مرتضیٰ اختر جعفری پشاور یونیورسٹی کے وظیفہ پر ایران چلے گئے اور ۱۹۶۷ء میں پی ایچ ڈی کرکے واپس لوٹے۔

            ۱۹۶۵ء ہی میں خاطر غزنوی تعلیمی وظیفہ لے کر چین چلے گئے اور ۱۹۶۶ء میں چینی زبان میں ڈپلومہ لے کر واپس آئے۔ جب ۱۹۶۸ء میں پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان کا شعبہ قائم ہوا تواسی شعبے سے منسلگ ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد عبدالستار جوہر پراچہ مستقل بنیادوں پر کام کرنے لگے۔ جبکہ مئی ۱۹۶۸ء میں فاروقی صاحب ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔

            طاہر فاروقی صاحب کی صورت میں شعبہ کو ایک مثالی سرپرست میسر آیا وہ صاحب علم وادب، ایک اچھے استاد، ماہر تعلیم، اقبال شناس، شاعر اور محقق تھے۔ ۱۹۶۲ء میں صدر شعبہ اردو بنے اور اسی سال فارسی اور اردو کے شعبے علیحدہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ دونوں شعبوں کا مشترکہ مجلہ "خیابان" بھی شعبہ اردو کے حصے میں آیا۔ طاہر فاروقی اس کے نگران بنے۔ اب شعبہ کی ایک الگ حیثیت متعین ہوگئی تھی۔ مجلہ "خیابان" کے ابتدائی پانچ شمارے طاہر فاروقی کی زیر نگرانی نکلے۔ خاص طور پر "اردو زبان و ادب کا پاکسانی دور" اور "اقبال نمبر" کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ آپ کے دور صدارت میں شعبہ اردو کی ادبی تنظیم "انجمن اردو" نے کئی جلسے کئے۔ یوم اقبال کے موقع پر ہر سال اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ یہاں منعقد کیے گئے مشاعروں میں بڑے بڑے شعراء شریک ہوئے ایک علمی اور ادبی فضا کو برقرار رکھنے کے حوالے سے فاروقی صاحب کا چھ سالہ دور شعبہ کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

            فروری ۱۹۶۸ء میں طاہر فاروقی کے سبکدوش ہونے کے بعد علمی اور ادبی شخصیت کے مالک ڈاکٹر شمس الدین صدیقی صدر شعبہ مقرر ہوئے اور مارچ ۱۹۷۴ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ وہ بیک وقت ایک اچھے معلم، محقق، نقاد اور اقبال شناس تھے۔ اس حوالے سے ان کے بڑے فکر انگیز مضامین شائع ہوئے۔ اپنے زمانے میں شعبہ کی علمی و ادبی ترقی کے حوالے سے کوششوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور مختلف ادبی محافل، مشاعروں اور توسیعی لیکچروں کا انتظام کیا۔ اپریل ۱۹۷۴ء میں ڈاکٹر مرتضیٰ اختر جعفری صدر شعبہ بنے۔ اور دو سال تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ آپ بھی ایک اچھے استاد، شاعر، نقاد اور کئی ادبی حیثیتوں کے مالک تھے۔ اس دور میں بھی ادبی تقریبات کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے ۱۹۷۵ء میں شعبہ کے زیر اہتمام کل پاکستان دو روزہ "قومی اردو کانفرنس" منعقد کی گئی۔

            ڈاکٹر مرتضیٰ اختر جعفری کےبعد ڈاکٹر شمس الدین صدیقی اپریل ۱۹۷۶ء میں دوبارہ صدر شعبہ بنے اور ۱۹۸۲ء تک رہے۔ جنوری ۱۹۷۶ء میں شعبہ کے ایک استاد میاں اعجاز الرحمٰن اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے عارضی طور پر ہوم اکنامکس کالج میں اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر منور رؤف کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نومبر ۱۹۷۷ء میں اسلامیہ کالج کے پروفیسر ضیاء الرحمٰن کی خدمات شعبہ اردو کے لیے حاصل کی گئیں جون ۱۹۸۰ء تک شعبہ اردو میں خدمات سرانجام دینے کے بعد وہ واپس اسلامیہ کالج چلے گئے۔ یکم جون ۱۹۷۸ء میں نذیر تبسم نے شعبہ میں لیکچرارکی حیثیت سے کام شروع کیا۔ جبکہ جنوری ۱۹۸۰ء میں خاطر غزنوی بھی شعبہ اردو میں واپس آگئے۔ جون ۱۹۸۰ء میں سحر یوسف زئی اسلامیہ کالج سے شعبہ اردو میں منتقل ہوئے لیکن جب اگست ۱۹۸۰ء میں انہیں کچھ عرصے کے لیے محکمہ تعلیم صوبہ سرحد میں بھیج دیا گیا تو ان کی جگہ شعبہ کی ایک سابقہ طالبہ نسیم اختر کو تعینات کیا گیا۔ انہوں نے اگست ۱۹۸۰ء سے دسمبر ۱۹۸۰ء تک تدریس کے فرائض انجام دئیے۔

            ۴ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو شمس الدین صدیقی کے دور صدارت میں شعبہ کا جشن سیمیں منایا گیا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف ادبی تقریبات ہوتی رہیں علازہ ازیں آپ کے دور صدارت میں شعبہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسوں کا بھی آغاز ہوا۔

            ۱۹۸۲ء میں ایک دفعہ پھر ڈاکٹر مرتضیٰ اختر جعفری صدر شعبہ کے عہدے پر فائز ہوئے اور ۱۹۸۴ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ ۱۹۸۳ء میں جاوید بادشاہ اور زبیدہ ذوالفقار شعبہ اردو کے تدریسی عملے میں شامل ہوئے اور تین سال بعد ۱۹۸۴ء میں دونوں بالترتیب اسلامیہ کالج اور ہوم اکنامکس کالج چلے گئے۔ ۱۹۸۴ء میں مترتضیٰ جعفری کے بعد چند مہینوں کے لیے خاطر غزنوی صدر شعبہ بنے۔

            خاطر صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار، محقق، نقاد، دانشور اور بہت سی حیثیتوں کے مالک ہیں۔ ان کے دور میں ادبی تقریبات کو فروغ حاصل ہوا۔ اب ادبی تقریبات، مشاعرے، سیمینار، یوم اقبال، توسیعی لیکچر شعبہ اردو کی ادبی روایات کا حصہ بن چکے تھے لہٰذا بعد میں آنے والوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا۔

            خاطر غزنوی کے بعد ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۵ء تک ڈاکٹر عبدالستار جوہر پراچہ نے اس عہدہ پر کام کیا ڈاکٹر صاحب نہایت ملنسار، خوش طبع اور گہری علمی و ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ ۱۹۸۵ء میں مرتضیٰ اختر جعفری تیسری دفعہ صدر شعبہ کی حیثیت سے سامنے آئے اور جون ۱۹۸۹ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

            آپ کے دور صدارت میں جون ۱۹۸۵ء میں شمس الدین صدیقی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ جبکہ ۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء کو فقیرا خان فقری شعبہ کے تدریسی عملے میں شامل ہوگئے۔ ۱۹۸۶ء میں خاطر غزنوی ملائیشیا اور عبدالستار جوہر پراچہ نیپال چلے گئے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ۱۹۸۶ء میں ہوم اکنامکس کالج سے منور رؤف اور جناح کالج سے وحیدہ غفور شعبہ اردو میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی پاکر آئیں۔ ۱۹۸۹ء میں مرتضیٰ جعفری کی ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ اردو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی خاتون صدر شعبہ بنی۔ اور یہ خاتون وحیدہ غفور تھیں۔

            وحیدہ غفور ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۲ء تک صدر شعبہ اردو رہیں۔ آپ ایک شاعرہ اور علمی و ادبی ذوق رکھنے والی خاتون تھیں۔ اپنے دور میں تقریبات کا سلسلہ جاری رکھنے کے علاوہ آپ کا بڑا کارنامہ شعبہ اردو کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتا تھا۔ اس نصاب کو بعد ازاں منور رؤف نے مناسب ترامیم واضافے کے ساتھ نافذ کیا۔

            وحیدہ غفور کی شعبہ سے سبکدوشی کے بعد منور رؤف نے جون ۱۹۹۲ء میں صدر شعبہ کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی اور ۱۹۹۵ء تک اس عہدے پر رہیں۔ اس دوران ۲۳ ستمبر ۱۹۹۲ء کو روبینہ شاہین شعبہ اردو کے تدریسی عملے میں شامل ہوئیں۔ منور رؤف نے نہ صرف نئے نصاب کی ترتیب کا کام کیا بلکہ نصاب کے حوالے سے مختلف کتب کی ترتیب کا کام بھی سر انجام دیا۔ یہ نصاب ۱۹۹۳ء میں لاگو ہوا۔ نئے نصاب کے مطابق پہلی بار شعبہ اردو ایم اے کی سطح پر بھی تحقیقی مقالے دئیے گئے۔ آپ نے باقاعدہ ایم فل کی کلاسیں  بھی شروع کیں اور اس مقصد کے لیے پرانے اور تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ ڈاکٹر صابر حسین کلوروی سمتمبر ۱۹۹۴ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے شعبہ کے تدریسی عملے میں شامل ہوئے۔ منوررؤف نے ۱۹۹۳ء سے ۱۹۹۵ء تک اپنے دور صدارت میں مسلسل تین سال یونیورسٹی سمر کیمپ باڑہ گلی میں سیمیناروں کا انعقاد کیا جس میں معبتر علمی و ادبی شخصیات شریک ہوئیں۔ ہر سال یوم اقبال منانے کے علاوہ غالب کی برسی پر بھی اہم علمی و ادبی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ خیابان کا اصناف نثر نمبر بھی انہیں کے دور میں شائع ہوا۔

            ۱۹۹۴ء میں درشہوار ایسوسی ایٹ پروفیسر کے عہدے پر ترقی پاکر جناح کالج سے شعبہ اردو میں آئیں اور ۱۹۹۵ء میں صدر شعبہ بنیں۔ آپ نے ۱۹۹۶ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔ اس سے پہلے بھی آپ نے ایک مختصر وقت کےلیے ۱۹۶۲ء میں تدریسی خدمات انجام دی تھیں۔ درشہوار بیگ نے لائبریری کو ازسرنو ترتیب  دیا۔ اس کے علاوہ شعبہ اردو میں ہفتہ وار سیمیناروں کا بھی اہتمام کیا ان سیمیناروں سے طلباء اور اساتذہ کی ذہنی تربیت ہوتی رہی۔ پی ایچ ڈی کی باقاعدہ کلاسوں کا اجراء ہوا۔ ۱۹۹۶ء میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ڈیپوٹیشن پر گورنمنٹ کالج سے شعبہ آئے۔ آپ بحیثیت سفرنامہ نگار، محقق، کالم نگار اور مترجم کے پہلے ہی سے قلم و کتاب کی دنیا میں اپنا مقام بناچکے تھے آپ کے آنے سے شعبہ میں تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کونئی راہیں ملیں اور طلبہ و طالبات کی تخلیقی سرگرمیوں کو بڑھاوا ملا۔ اسی دوران میں ۱۹۹۶ء میں سہیل احمد لیکچرار کی حیثیت سے شعبہ کے تدریسی عملے میں شامل ہوئے۔ بعد میں فارغ کیے گئے اور وہ گورنمنٹ کالج میں پڑھانے لگے ۲۰۰۰ء میں پھر شعبہ سے وابستے ہوئے۔

            ۱۹۹۶ء میں درشہوار اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ آپ کے بعد شعبہ السنہ الشرقیہ کے ڈین ڈاکٹر محمد اعظم اعظم ایک عبوری دور کے لیے صدر شعبہ بنے۔ ۱۹۹۶ء میں پروفیسر ضیاء الرحمٰن ایک دفعہ پھر اسلامیہ کالج سے شعبہ اردو میں آئے اور دسمبر ۱۹۹۷ء میں صدر شعبہ کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ حسب دستور سیمینار، مشاعرے، یوم اقبال کی تقریبات اور دیگر ادبی محافل منعقد ہوتی رہیں۔

            دسمبر ۲۰۰۰ء میں ڈاکٹر صابر کلوروی صدر شعبہ بنے۔ آپ نے بھی مسلسل تین سال باڑہ گلی سمرکیمپ میں سیمیناروں کا انعقاد کیا۔ یوم اقبال کا خصوصی اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خیابان کے دوشمارے "اصناف سخن نمبر" اور "نوادرِ اقبال نمبر" شائع کیے۔ شعبہ کے لیے کمپیوٹر اور پرنٹرکا انتظام کیا اور شعبہ میں کمپیوٹر لیبارٹری قائم کی۔ جس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالرز نے ان کی مالی معاونت کی۔ بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نصاب میں ضروری ترامیم کروائیں۔ لائبریری کو ایک دفعہ پھر ترتیب دیا اور نئے مرتب کردہ نصاب کے مطابق ضروری کتب فراہم کیں۔ اس دوران ۲۰۰۱ء میں بادشاہ منیر بخاری بھی شعبہ اردو کے تدریسی عملے میں شامل ہوئے۔ وہ شعبہ کے پہلے استاد ہیں جن کی کتاب مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد نے چھاپی۔ شعبہ کے طلباء کے لیے پہلی مرتبہ رسالہ "ارمغان" چھاپا گیا جس کے مدیر بادشاہ منیر بخاری تھے۔ اسی دور میں شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی اور شعبہ اردو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جڑواں شعبے قرار دئیے گئے۔

            دسمبر ۲۰۰۳ء میں ڈاکٹر صابر کلوروی کے بعد ایک دفعہ پروفیسر ڈاکٹرضیاء الرحمٰن صدر شعبہ بنے۔ آپ نے باڑہ گلی میں "عالمگیریت اور جدید ادبی رجحانات" کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا۔ آپ نے اس عہدے پر دسمبر ۲۰۰۶ء تک کام کیا۔ دسمبر ۲۰۰۶ء میں دوسری مرتبہ ڈاکٹر صابر کلوروی کو صدارت کی ذمہ داری سونپی گئی ان کی نگہانی موت نے شعبہ اردو کو ایک اچھے استاد اور صدر شعبہ سے محروم کردیا۔ان کے بعد ڈاکٹر نذیر تبسم صدر شعبہ  بنے ،نذیر تبسم صوبہ سرحد میں اپنی منفرد شاعرانہ لہجے کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں ۔ آج کل شعبہ اردو سے وابستہ معلمین میں ڈاکٹر نذیر تبسم، ڈاکٹر روبینہ شاہین، سہیل احمد، اور بادشاہ منیر بخاری ،ڈاکٹر سلمان علی ،زبیدہ ذوالفقارشامل ہیں۔ اس وقت شعبہ کی لائبریری میں ۱۰،۰۰۰ کتابیں موجود ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ترتیب سے شعبہ کے رجسٹر میں درج ہیں۔

(۱)        تنقید                   ۳۰۱۵                (۲)        افسانوی ادب        ۱۳۸۹
(۳)        شاعری              ۱۵۴۵                (۴)        اقبالیات               ۸۰۳
(۵)        غالب                  ۲۳۱                  (۶)        سوانح و تاریخ      ۱۰۲۶
(۷)        خطوط ومقالات    ۴۲۷                  (۸)        سفرنامہ، صرف و نحو، متفرق ۹۱۸
(۹)        رسائل                ۵۷۰

           
اب تک شعبہ اردو سے ۱۴۷۰ طلباء و طالبات ایم اے کرچکے ہیں۔ جبکہ ۲۰۰ زیر تعلیم ہیں۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلباءو طالبات ملک کے مختلف تعلیمی اور دوسرے اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں بہت سے طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے علم و ادب کے میدان میں بڑی ترقی کی اور ہمارے ہاں کی ادبی سرگرمیوں میں بڑے فعال ثابت ہوئے۔ مثال کے طور پر خاطر غزنوی، مرتضیٰ جعفری، وحیدہ غفور، درشہوار، مقبول بٹ، طٰہٰ خان، احمد فراز، جوہر پراچہ، یونس شاہ، صادق زاہد، مولانا فضل معبود۔ سحر یوسف زئی، عبدالسمیع، حامد سروش، منور رؤوف، شفیع صابر، ایوب صابر، مرتضیٰ سید، فقیر حیسن ساحر، عبدالعزیز نیازی، مشرف مبشر، ظہور احمد اعوان، ناز سیٹھی، ضیا ءالرحمان، جاوید بادشاہ، قدسیہ قدسی، زبیدہ ذوالفقار، شیدا محمد کاکاخیل، فقیرا خان فقری، عزیز اعجاز، ناہید رحمان، روبینہ شاہین، سلمان علی، گوہر سہیل احمد، گوہر زمان، بادشاہ منیر بخاری وغیرہ۔

            شعبہ اردو نے اپنے قیام کے پہلے سال ہی سے ادبی تقریبات کا آغاز کیا تھا۔ یہاں ہر سال یوم اقبال منایا جاتا ہے۔ مشاعرے، مذاکرے اور دیگر ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں اپنی نوعیت کی سینکڑوں تقریبات منعقد ہوچکی ہیں۔ لیکن درج ذیل تقریبات انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

۱

قومی زبان کانفرنس

۱۹۷۴

۲

جشن سیمیں

۱۹۸۱

۳

اصناف نثر سیمینار

۱۹۹۳

۴

اصناف سخن سیمینار

۱۹۹۴

۵

اقبال سیمینار

۱۹۹۵

۶

نصاب اور تدریسی اردو سیمینار

۲۰۰۱

۷

ادبی تحقیقی مسائل اور رفتار سیمینار

۲۰۰۲

۸

صوبہ سرحد کا ادب "رفتاراور مسائل سیمینار

۲۰۰۳

۹

عالمگیریت اور جدید ادبی رجحانات سیمینار

۲۰۰۵

۱۰

تدریس اردو سیمینار

۲۰۰۴

۱۱

عالمی اردو کانفرنس

۲۰۰۸

 

 

 

            دنیائے علم و ادب کی جن نامور شخصیات نے مختلف موقعوں پر شعبہ اردو کو اپنی تشریف آوری کا اعزاز بخشا ان میں:۔ ڈاکٹر شوکت سبزواری، پروفیسر رالف رسل، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر محمد حسن، ڈاکٹر قاضی عبدالستار، ڈاکٹر مسعود حیسن خان، ڈاکٹر عبدالخالق (انڈیا)، ڈاکٹر بدیع الزمان، فروزانفر (ایران)، ڈاکٹر حسن خطیبی (ایران)، ڈاکٹر ناظر زادہ (یران)، میاں بشیر احمد، عندلیب شادانی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر محمد زمان، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسن قریشی، پروفیسر وقار عظیم، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹ سلیم اختر، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض۔ صوفی تبسم، ضیاء جالندھری، ابن انشاء، جمیل الدین عالی، امجد اسلام امجد، قتیل شفائی، عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ناصر کاظمی، شہزاد احمد، حمایت علی شاعر، صہبا لکھنوی، صادقین، جگر کاظمی، ضیاء جعفری ، احمد فراز، فارغ بخاری، رضاہمدانی، مرزامحمود سرحدی، طہ خان، ڈاکٹر اکبر قریشی، ڈاکٹر سعید اختر درانی، ڈاکٹر ایوب صابر، پروفیسر عبدالجبار شاکر، پروفیسر احسان اکبر، ستیہ پال آنند، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ڈاکٹر عطش درانی، ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر مظفر عباس، ڈاکٹر یوسف خشک، پروفیسر فتح محمد ملک، افتخار عارف، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ڈاکٹر انور محمود خالد، ڈاکٹر نذیر شفیق ملک، ڈاکٹر انور احمد، ڈاکٹر شفیق احمد اور ڈاکٹر خلیل طوق آر (ترکی) ڈاکٹر عبدالحق،ڈاکٹر زاہد حسین،ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر شاہد حسین، وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
شعبہ اردو سے پی ایچ ڈی کی سند یافتہ سکالر:

۱۔ عبدالستار جوہر پراچہ                ۲۔ ناہید رحمان                 ۳۔ رختاج امین                  ۴۔ فقیرا خان فقری
۵۔ نزیر تبسم                                ۶۔ یحیٰ احمد                    ۷۔ آلِ اظہر آنس                ۸۔ زیت الرحمان
۹۔ روبینہ شاہین                            ۱۰۔ اظہار اللہ اظہار           ۱۱۔ محمد سلیم                  ۱۲۔ طارق ہاشمی
۱۳۔ ضیاء الرحمان                        ۱۴۔ شبانہ کوثر                ۱۴۔ جاوید بادشاہ 

شعبہ اردو سے ایم فل کرنے والے طلباء طالبات:

۱۔ فقیراخان فقری                          ۲۔  سعید مہتاب                 ۳۔ اظہاراللہ اظہار              ۴۔ روبینہ شاہین
۵۔ مجیب الرحمان                          ۶۔ تاج الدین تاجور                        ۷۔ گل ناز                        ۸۔ تزئین گل
۹۔ نویدہ بیگم                                ۱۰۔ محمد وارث خان         ۱۱۔ سید شیر مہمند            ۱۲۔ نگہت شاہین
۱۳۔ سہیل احم                               ۱۴۔ فوزیہ صدف              ۱۵۔ سمیرا گل                  ۱۶۔ عامر رؤف
۱۷۔ عمران                                  ۱۸۔ عثمان شاہ                 ۱۹۔ انور علی                   ۲۰۔ شبنم امان
۲۱۔ بادشاہ منیر بخاری                  ۲۲۔ اسحاق وردگ             ۲۳۔ مشتاق احمد                ۲۴۔

 

 

 

اوپر جائیں  |   پرنٹ کیجئےِ
انگریزی ورژن ای میل چیک کریں مرکزی صحفہ پرنٹ پسندیدہ سائٹ بنائیں رابطہ کیجئے www.shahzadahmad.com www.shahzadahmad.com